26/12/23

عرفان عباسی کی یاد میں: محمد اویس سنبھلی

 

نامورمحقق،مشہور مصنف ومؤلف،ممتاز تذکرہ نگار اورمبصر عرفان عباسی 13اگست 1924 کو گڑھی بھلول، ضلع با رہ بنکی کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے پردادا مولانا عبدالرزاق صاحب، دادا مولانا عبدالرحمن مرحوم اور والد مولانا نعمان صاحب کا شمار علوم دینیہ پر عبور رکھنے والی شخصیات میں ہوتا تھا۔ مولانا نعمان صاحب شعر و ادب کا بھی پاکیزہ ذوق رکھتے اورسوز تخلص کرتے تھے۔عرفان عباسی کی ابتدائی تعلیم مکتب میں ہوئی  اور تکمیل پنجاب یونیورسٹی سے۔ اس کے بعد انھوں نے ’ہومیوپیتھک طریقہ علاج ‘ میں ڈپلوما کیا۔ 1947 کے آس پاس یوپی سول سکریٹریٹ میں ملازمت اختیار کی۔ 1984 میں ملازمت سے سبک دوش ہوئے۔4جنوری 2012 کو آخری سانس لی۔ 5جنوری کی صبح 10 بجے کے قریب عیش باغ قبرستان میں تدفین ہوئی۔ان کا قلم اور کاغذ سے جو رشتہ تھا،وہ تار نفس ٹوٹنے تک قائم رہا اور اپنے نامۂ اعمال میں مطبوعہ و غیر مطبوعہ کم و بیش 75 کتابیں درج کرائیں، جن میں آپ،آپ تھے، آپ ہیں، انتخاب کلام سلام مچھلی شہری، انتخاب کلام ناطق لکھنوی، تذکرہ شعرائے اتر پردیش،تذکرہ شعرائے ریختی، جنگ آزادی اورقومی یک جہتی،دبستان امیر مینائی، نثر نگاران اردو، ہمارے بزرگ اور قومی یک جہتی، اتر پردیش کے شاگردان آرزو لکھنوی، اردو ادب میں کون کیا؟، اردو شاعری میں بھارتیتا،اردو شاعری میں ہندوستانیت، اردو کے ان پڑھ شاعر،اشاریہ شعرائے لکھنؤ،انتخاب کلام شوق بہرائچی،تذکرہ سخن وران اتر پردیش،تذکرہ شاعرات لکھنؤ،دبستان لکھنؤ کے ہندو شاعر،سخن وران اتر پردیش، طنز و مزاح کے منتخب شعرا، لکھنؤ کی ادبی و ثقافتی انجمنیں شامل ہیں۔ان میں بعض کتابیں دو جلد وں پر مشتمل ہیں تو بعض33 جلدوں پر، یہ تعداد محمد اطہر مسعود خاں نے گنوائی ہے،کچھ اور کی خبر عرفان عباسی کے مسودوں کو کمپوز کرنے والے منیر صاحب دے سکتے ہیں۔

 اپریل2008 کی کوئی تاریخ تھی کہ میرا ایک مضمون حق سنبھلی صاحب کے تعلق سے لکھنؤ کے کئی اخبارات میں ایک دور روز کے وقفے سے شائع ہوا۔یہ حق سنبھلی کے انتقال پر لکھا گیا محض ایک تاثراتی مضمون تھا۔ روزنامہ آگ،لکھنؤ کے علاوہ سبھی اخبارات نے مکمل مضمون شائع کیا تھا۔آگ کے ایڈیٹر محترم احمد ابراہیم علوی نے مضمون کو ایڈٹ کرکے مراسلہ بنا دیا تھا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ دیگر اخبارات کے مقابلے یہ مراسلہ زیادہ پڑھا گیا اور اسی کے حوالے سے کئی فون بھی آئے۔ جناب عرفان عباسی نے بھی اس مراسلے کے حوالے سے فون کیا تھا یہ ان سے میری پہلی علیک سلیک تھی۔اس سے قبل میں ان کے نام اور کام، دونوں سے بالکل ناواقف تھا۔فون پر ہوئی گفتگو میں چند رسمی باتوں کے علاوہ، سب سے زیادہ زور اس بات پر تھا کہ کسی وقت گھر تشریف لائیں، تفصیل سے گفتگو تبھی ہوسکے گی۔اس واقعے کے تقریباً ایک ہفتہ بعد منوباغ، نیا گائوں، لکھنؤ میں واقع ان کے درِ دولت پر پہنچا۔ دروازے پراردو میں’عرفان عباسی‘ نام کی تختی لگی ہوئی تھی۔ گھنٹی بجائی، ایک خاتون [ بعد میں معلوم ہوا کہ عرفان صاحب کی صاحب زادی محترمہ اسما رفعت حسین تھیں] نے دروازہ کھولا،میں نے عرفان عباسی صاحب سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ انھوں نے نام پوچھا اور دروازہ بندکر کے اندر چلی گئیں۔ دو منٹ بعد ایک دوسرا دروازہ کھلا اورانتہائی کمزور سی ایک آواز آئی۔ ’’اِدھر آجائیں‘‘!میںنے دیکھا کہ ایک بزرگ دروازے پر کھڑے ہیں،ضعیف و لاغر، چہرے پر نقاہت کے آثار، سر کے بال، داڑھی بالکل سفید، چھوٹی چھوٹی آنکھیں، الغرض بڑھاپا تھا کہ بہر طور نمایاں تھا۔یہ عرفان عباسی سے میری پہلی ملاقات تھی۔وہ باہری کمرے سے دوسرے کمرے کی طرف جانے لگے تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا چاروں طرف کتابوں کا انبار ہے۔ اس انبار کے بیچ میں ایک تخت اوراس کے قریب دو صوفے آمنے سامنے پڑے ہیں۔عرفان صاحب اپنے تخت پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور میںان کے تخت کے قریب صوفے پربیٹھ گیا۔ انھوں نے اپنے سرہانے رکھی چند کتابوں کے درمیان سے مذکورہ بالا مراسلے کی کٹنگ نکالی۔ حق صاحب سے متعلق کچھ اور باتیں مجھ سے دریافت کرکے اخبار کی اسی کٹنگ پر لکھ لیں۔اس کے بعد انھوں نے اپنے بہت سے مکمل اور نامکمل کام گنوانا شروع کیے۔اس ملاقات میں ڈاکٹر سعادت علی صدیقی مرحوم کے تعلق سے بھی بہت سی باتیں ہوئیں۔ ایک گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت ان کے پاس گزارنے کے بعد میں نے وہاں سے رخصت لی۔

 کل ملا کر اس ملاقات کا مجھ پر اچھا تاثر پڑا،لہٰذا اس کے بعد ہر اتوار کو ان سے ملاقات کی ایک پابندی سی ہوگئی۔بہت سے دوسرے لوگوں سے ان کے یہاں ملاقاتیں ہوئیں۔اسرار قریشی اور ان کے والد بزرگوار محترم معراج ساحل سے بھی پہلی مرتبہ وہیں ملاقات ہوئی۔اسرار قریشی اس زمانے میں ’اردوشعر و ادب کے ارتقا میں لکھنؤ کے ہندو شعرا کا حصہ‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کررہے تھے۔ عرفان عباسی کے پاس کتابوں کے علاوہ اہم رسائل و جرائد کا بڑا ذخیرہ تھا۔ 1955سے 2000 تک کی ماہنامہ نیادورکی فائلیں ان کے پاس محفوظ تھیں۔ وہ کتابوں کو بہت سلیقے سے رکھتے تھے۔کون سی کتاب کہاں رکھی ہے، یہ ان کو معلوم رہتا تھا۔اسی کمرے میں بیٹھ کر 1960 میں انھوں نے تذکرہ نگاری کا آغاز کیا۔جب کہ اس سے قبل ان کی ایک کتاب’جنگ آزادی اور قومی یکجہتی‘ کے نام سے 1959 میں شائع ہوچکی تھی۔ اس سلسلے کی دوسری کتاب ’ہمارے بزرگ اور قومی یکجہتی‘ کے نام سے 1963 میں شائع ہوئی۔ لکھنؤ اسکول سے متعلق 50مرحوم شعرا کے خاکے و تذکرے 1978میں ’آپ‘ عنوان سے کتابی شکل میںشائع ہوئے۔ 1981 میں ’آپ ہیں‘ اور ’آپ تھے‘ کے عنوان سے دو کتابیں منظرعام پر آئیں۔ 1982 میں تذکرہ شعرائے اترپریش کا سلسلہ اشاعت شروع ہوا۔ یہ1930 کے بعد وفات پانے والے شعرا کا ایک طویل تذکرہ ہے،جس کی ہرجلد میں 50شعرا کا تذکرہ بڑے اہتمام سے کیا گیا ہے۔ تذکرہ شعرائے اترپردیش عرفان عباسی کا بڑا کارنامہ ہے۔ بقول ڈاکٹر اطہرمسعود خاں:

’’اترپردیش میں شروع سے اب تک ہزاروں شاعر گزرچکے ہیں اور ہزاروں اب بھی موجود ہیں لیکن ان سب شاعروں کے حالاتِ زندگی جمع کرکے عرفان عباسی صاحب نے ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔یہ وہ عظیم کام تھا،جو کئی اداروں اور ادبی انجمنوں کے کرنے کا تھا لیکن عباسی صاحب نے تن تنہا اس بارِ عظیم کو اٹھایا اور فن تذکرہ نگاری کو نہایت خوش اسلوبی سے ایک بلند اور باعزت مقام تک پہنچا دیا۔‘‘

(بحوالہ: مضمون’تذکرہ نگاری اور عرفان عباسی‘ از ڈاکٹر اطہرمسعود خاں، روزنامہ آگ، لکھنؤ ص4،4جنوری2018)

تذکرہ شرائے اترپردیش کی چھٹی جلدمیں عرفان عباسی کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے علی جواد زیدی نے لکھا کہ’’عرفان عباسی کا یہ تحقیقی کارنامہ دور حاضر کی ادبی تاریخ کا باوقار مواد ہے‘‘۔

 تذکرہ نگاری کے حوالے سے عرفان عباسی کا نام لائق تحسین ہے لیکن افسوس عرفان عباسی کی تذکرہ نگاری اور’ تذکرہ شعرائے اترپردیش‘ کی ادبی حلقوں میں جس طرح پذیرائی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی۔ یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیق میں ابھی تک شاید کسی نے اس کو موضوع تحقیق نہیں بنایا ہے۔

عرفان عباسی سکریٹریٹ میں تھے، تیز دم تھے۔ ’تذکرہ شعرائے اترپردیش ‘انہیں حکومت کی جانب سے ملا ہوا ایک پروجیکٹ تھا۔ جس کو بعد میں انہوں نے ذاتی طور پر چھپوانا شروع کردیا۔ اترپردیش اردو اکادمی، فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان جیسے اداروں نے اس کی اشاعت میں مالی تعاون دیا۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی نے عرفان عباسی کی صحت کا خیال کرتے ہوئے دو-دو مسودات ایک سال میں منظور کیے۔

جسمانی طور پر عرفان عباسی صرف ہڈیوں کا ایک ڈھانچا نظر آتے تھے،لیکن اپنی تمام بیماریوں کے باوجود انھوں نے ’تذکرہ شعرائے اترپردیش‘ کی 27جلدیں شائع کی اور 28 تا 32 جلدیں مکمل ہونے کے باوجود غیر مطبوعہ ہیں کہ ان کی وفات ہوگئی۔حالانکہ تذکرے کو ایک صوبے تک محدود رکھنے کے باوجود یہ کام تنہا کسی ایک شخص کے بس کا نہیں تھا۔بقول پروفیسر شارب ردولوی :

’’ایسے کاموں کو تنہا انجام دینے کا بیڑا اٹھانے کے لیے جس دیوانگی کی ضرورت ہے وہ بلا شبہ عرفان عباسی صاحب میں موجود ہے۔ انھوں نے اب تک جس لگن، محنت اور تندہی سے اس کام کو انجام دیا ہے وہ یقینا انھیں کا حصہ ہے۔‘‘

’تذکرہ شعرائے اترپردیش‘ کااشاریہ ڈاکٹر اطہر مسعود خاں نے تیار کیاہے۔ اس اشاریے میں عرفان عباسی کی کل 70 تصنیفات کے نام مع سنہ اشاعت درج ہیں۔ عرفان صاحب کی کتابوں کی کمپوزنگ منیر صاحب کیا کرتے تھے۔ منیر صاحب نے خود بتایا کہ ان کے کئی مسودات کمپوز شدہ آج بھی ان کے کمپیوٹر میں موجود ہیں۔ میں نے بارہا ان سے اِس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ کمپوزنگ کے پیسے لے لیں اور مسودات ہمیں دے دیں، تاکہ ان کی یہ کتابیں بھی،جو قوم کی امانت ہیں، چھپ سکیں، انہوں نے وعدہ تو بارہا کیا لیکن اب تک وعدہ وفا نہ کیا،کہ شاید اس میں ان کے اپنے اصول آڑے آتے ہوں۔  خدا کرے یہ مسودات ان کے پاس اب بھی محفوظ ہوں اور مستقبل میں کسی وقت عرفان عباسی کے نام سے ہی شائع ہوکر منظر عام پر آئیں۔

 کسی بھی شخصیت کو سمجھنے، جانچنے یا محسوس کرنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں۔ اس شخص سے قربت، میل ملاقات، گزرتے وقت کے ساتھ اس کا عمل اور رویہ ایسی چیزیں ہیں، جن کی بنیاد پر شخصیت کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

میرے ساتھ طویل عرصے تک عرفان عباسی کا رویہ مشفقانہ ہی رہا۔میں جب بھی سنبھل جانے کا ذکر ان سے کرتا تو موصوف شعرا کے ناموں کی ایک فہرست تھما دیا کرتے کہ ان شاعروں کے بارے میں کچھ معلومات اگر حاصل ہوسکے تو اچھا ہے۔یہ معاملہ صرف میرے ساتھ نہیں تھا،بلکہ ہر آنے والے کو وہ اس طرح کی ایک ’پرچی‘پکڑا دیا کرتے تھے نیزاس سلسلے میں وہ پوسٹ کارڈ کے ذریعے بھی لوگوں سے معلومات حاصل کرتے رہتے تھے۔لوگ بھی ان سے خوب تعاون کرتے تھے۔

 میرا اپنا پرنٹنگ پریس ہونے کی وجہ سے ان سے ایک رشتہ کاروباری بھی ہوگیا تھا۔حالانکہ اس کاروباری رشتے کی عمر بہت کم رہی۔ ’تذکرہ شعرائے اترپردیش‘ کی کئی جلدیں میرے پریس میں چھپیں۔ لیکن عرفان عباسی کا مزاج تھا کہ بہت دنوں تک کسی سے خوش یا مطمئن نہیں رہ سکتے تھے۔مخمور کاکوروی سے وہ تعلق خاطر کا اظہار کیا کرتے تھے۔ مخمور صاحب بھی اردو اکادمی کے ان کے کام بہت دلچسپی سے کرایا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد مخمور کاکوروی نے کتابوں کی طباعت کا کام اس طرح شروع کردیا کہ وہ اردواکادمی یا فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی،لکھنؤ سے منظور ہونے والی کتابوں کی طباعت کی ذمے داری لے لیا کرتے تھے اور کتاب کمپوز کراکے کسی پریس میں چھپوا کر تیار کرالیتے۔ اردواکادمی کے شعبہ نشر و اشاعت کی ذمے داری چونکہ ان کے سپرد تھی، اس لیے پریس والوں سے ان کے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے۔ عرفان عباسی کی کئی کتابیں انھوں نے الگ الگ پریس میں چھپوائیں۔ کچھ دن تک تو عرفان عباسی ان کی محنت، لگن اور کتابوں کی طباعت میں ان کی دلچسپی کے گن گاتے رہے، لیکن بہت جلد ان کی یہ رائے تبدیل ہوگئی اور پھر تو وہ ان کے تعلق سے ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے تھے کہ بات ذاتیات تک پہنچ جاتی تھی۔اس سلسلے کے کئی تجربات سے مجھے بھی گزرنا پڑا۔ ڈاکٹر اسرار قریشی جس زمانے میںپی ایچ ڈی کررہے تھے، عرفان عباسی صاحب نے اپنے ذخیرۂ کتب سے ان کا بہت تعاون کیا، اسرار قریشی نے شکریہ کے طور پر ان کے خاکوں کا ایک انتخاب مرتب کرکے شائع کردیا۔کچھ عرصہ گزرا کہ اسرار قریشی اردو ٹیچنگ اینڈ ریسرچ سینٹر میں کسی پروجیکٹ کے تحت کام کرنے لگے اور اس مصروفیت کے سبب عرفان صاحب سے ملاقات کا سلسلہ تھم سا گیا۔ بس عرفان صاحب نے ہر آنے والے سے انھیں’احسان فراموش‘ کہنا شروع کردیا۔

 ڈاکٹر محمدحیات الدین نے عرفان عباسی کی تحریروں کا ایک انتخاب ’لکھنؤ کی ادبی انجمنیں‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس کتاب کی کافی پذیرائی ہوئی۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے تعاون سے ڈاکٹر حیات الدین نے یہ کتاب 2008 میںشائع کی۔ اس کتاب پر بحیثیت مرتب انھیں کا نام درج ہے۔ ان سب معاملات میں ہمارے دوست رضوان احمد فاروقی پیش پیش تھے۔ کتاب چھپی، پسند بھی کی گئی لیکن ڈاکٹر حیات الدین کو اس کاانعام جن’جملوں‘ کا استعمال کرکے دیا گیا، وہ ہرگزمناسب نہیں تھے۔یہ عرفان عباسی کا عمل تھا،جس پر میں نے اپنا اختلاف بھی درج کرادیا تھااور ایک عمل ڈاکٹر حیات الدین کا تھا کہ ان سب باتوں کے باوجود وہ جب بھی لکھنؤ آتے تو عرفان عباسی صاحب سے ضرور ملاقات کرتے تھے۔ حیات الدین بھائی انتہائی شریف النفس انسان ہیں اورایک شریف النفس انسان کو اپنی حدود و قیود کا علم ہوتا ہے کہ کون سی بات کب، کہاں اور کیسے کہنی ہے۔

اس واقعے کے بعد میں اپنے بارے میں بھی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہا۔ جو انسان میرے سامنے اپنے ایک محسن کو اچھے الفاظ میں یاد نہ کرتا ہو، وہ میرے بارے میں کیوں کر کوئی اچھی رائے پیش کرے گا۔ مجھے ان کی یہ اور اس طرح چند دوسری باتیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔ یہی سبب رہا کہ میں نے بھی اس کے بعد وہاں جاناآنا کم کردیا،نتیجتاً انھوں نے میرے بارے میں بھی حسب عادت رضوان فاروقی سے بہت کچھ کہا۔ لیکن مجھے برا اس لیے نہیں لگا کہ یہ ان کا خاص مزاج تھا،جسے میں نے ان کی بشری کمزوری سمجھ کر قبول کرلیا تھا۔

 مجھے ان کی صحبت میں وقت گزارنے کی وجہ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے اپنی ذاتی لائبریری کے دروازے میرے لیے کھول دیے تھے۔ کبھی کسی کتاب کے لیے انکار نہیں کیا۔ ’تذکرہ شعرائے اترپردیش‘ کی ابتدائی چندجلدیں انھوں نے مجھے عنایت کی تھیں، دو میرے پریس میں چھپی تھیں اوردو مخمور کاکوروی صاحب نے مجھے دیں۔

 عرفان عباسی صاحب دل کے پرانے مریض تھے۔ اس بیمار دل پر غم کے پہاڑ بھی ٹوٹ چکے تھے۔ چھوٹے بھائی سلمان عباسی اور اکلوتے بیٹے شعیب عباسی کی جدائی کا غم ہمیشہ تازہ ہی رہا۔سلمان عباسی کو وہ بہت یاد کرتے تھے۔ بیمار دل کی کہانی ہر ایک کو سناکر شاید اپنا غم ہلکا کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔اس سلسلے کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ دل کا ایک دورہ ایسا پڑا کہ اس کے اثر کو کم کرنے کے لیے ڈاکٹر نے بہت ہارڈ انجکشن دیا۔ اس انجکشن کے بعد سے رات کی نیند ہمیشہ کے لیے اڑ گئی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ میں نے کبھی انھیں آرام کرتے نہیں دیکھا۔ ’تذکرہ شعرائے اترپریش‘ ان کا جنون تھا۔ پوری توانائی سے وہ اس کام میں لگے رہتے تھے۔ابتدائی 5-6جلدوں میں انھوں نے بڑی محنت سے خاکے لکھے ہیں، لیکن اس کے بعد کی جلدوں میں وہ محنت نظر نہیں آتی اور تحقیق میں کئی آنچ کی کمی کو ان کا قاری بھی محسوس کرتا ہے۔بایں ہمہ ان کی دیوانگی نے ہزاروں کی تعداد میں شعرا کے احوال اورمنتخب شعری نگارشات کوہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے،جو ایک بڑا کارنامہ ہے۔

 عرفان عباسی کی شخصیت میں بہت سی خوبیاں اور ہنر مندیاں تھیں۔ ہر کسی سے شفقت و شائستگی سے پیش آنا ان کا خاص وصف تھا۔ کم گو تھے اورانتہائی شائستہ انداز سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ ہاں! خوبیوں کے ساتھ ان میں خامیاں اور کوتاہیاں بھی تھیں۔ انسان مجسم اچھا ہی اچھا نہیں ہوسکتا،کچھ بشری الجھنیں بھی رہتی ہیں۔ وہ اپنے بیمار دل کے ساتھ اترپردیش کے شاعروں کے احوال و آثارصفحۂ قرطاس پر پوری توانائی کے ساتھ رقم کرتے رہے۔ دماغ تو آخری وقت تک توانا رہا لیکن دل نے ساتھ چھوڑ دیا۔ آج وہ بھی تذکرے کا حصہ بن گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور ان کی علمی وادبی خدمات کو شرف قبولیت بخشے۔ آمین۔


Mohd Ovais Sambhli

178/157 Barood Khana,

Opp. Noorul Islam School, Golaganj,

Lucknow - 226 018 (UP)

Mob.: 9794593055 / 7905636448

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...