15/12/23

پروفیسر صاحب علی کی یاد میں:ڈاکٹر محمد زبیر

عروس البلادممبئی روزِ اول سے ہی اردو زبان وادب کا مرکز رہاہے۔یہاں ادیبوں اور قلم کاروں کا ایک بڑا حلقہ ہردور میں اردو زبان وادب کی ترویج وترقی میں کوشاں رہاہے۔یہ ادیب اور اہلِ قلم کسی ادبی تحریک یا ادارے سے منسلک ہوتے اور اپنی ادبی وشعری کاوشوں سے اردو زبان وادب کو ثروت مند بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ممبئی میں اردو زبان کی ترویج وترقی میں ادبی تحریکوں کے علاوہ جن تعلیمی اداروںنے اہم رول ادا کیا ہے، ان میں انجمنِ اسلام، اسماعیل یوسف کالج، سینٹ زیویرس کالج، مہاراشٹرا کالج، رضوی کالج، برہانی کالج اور شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی اس لحاظ سے ممتازہے کہ یہاں پرا ردو میں ایم  اے اورپی ایچ ڈی کی اعلیٰ تعلیم کے علاوہ دیگر پیشہ ورانہ کورسیز کا معقول انتظام ہے۔ اس شعبے کو ابتدائی دنوںسے ہی ایسے اساتذہ ملے ہیں جن کی علمی وادبی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف رہاہے۔ ان اساتذہ میں پروفیسر عبدالستار دلوی کانام سرِ فہرست ہے۔ 1982میں جب شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو پروفیسر عبدالستاردلوی صدرِشعبہ مقررہوئے۔ علاوہ ازیں پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی، پروفیسر یونس آگاسکر، ڈاکٹر خورشید نعمانی، پروفیسر جینا بڑے اورپروفیسر صاحب علی جیسی علمی وادبی شخصیات کا تعلق اسی شعبے سے رہاہے۔ان میں پروفیسر صاحب علی بحیثیت ادیب اورناظم طلبا خاص وعام میں بڑے مقبول ومعروف ہوئے۔
پروفیسر صاحب علی ضلع بستی اترپردیش کے ایک زمین دار خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ان کے والدکانام فتح محمدتھا جن کی کل چھ اولادیں تھیں جن میں صرف صاحب علی ہی اولاد نرینہ تھے۔ صاحب علی کے والد فتح محمد ادبی ذوق رکھتے تھے اوربطورِخاص شاعری کے دلدادہ تھے۔ ’بے چین بستوی‘ تخلص فرماتے تھے۔ ان کا ایک شعری مجموعہ( نعتیہ کلام) بھی شائع ہوچکا ہے۔صاحب علی کی پیدائش یکم فروری 1963ضلع بستی (موجودہ ضلع سدھارتھ نگر) کے ایک قصبہ یوسف جوت میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم یوسف جوت سے متصل ٹنڈواں نامی قصبے کے ایک مدرسے میں پائی۔ اس کے بعد پی آئی سی انٹر کالج ڈومریا گنج سے انٹرمیڈیٹ اور اے پی  این ڈگری کالج بستی سے بی اے آنرز میںڈگری حاصل کی۔ مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے سرسید کے خوابوں کی دانش گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے۔ یہاں ایم۔اے کے دوران صاحب علی نے قرۃالعین حیدر، شہریار، ثریا حسین، قاضی عبدالستار،  نورالحسن نقوی،انصاراللہ نظر،منظر عباس، اصغر عباس، قاضی افضال حسین اور قاضی جمال حسین جیسے اساتذۂ فن سے نہ صرف کسب فیض کیابلکہ علی گڑھ کی علمی وادبی فضا اور خوشگوار ماحول نے ان کی مثبت کردار سازی میں اہم رول بھی ادا کیا۔

ایم اے اردو میںامتیازی نمبروںسے کامیاب ہونے کے بعد صاحب علی نے اردو صحافت کے نامور محقق اور ممتاز مبلغ پروفیسر نادر علی خاں کی نگرانی میں ’گلدستۂ پیام یار‘ پر ایم فل اور ’ریاض خیرآبادی کی صحافت‘ پر ڈاکٹریٹ کانہایت وقیع مقالہ لکھا، یہ دونوں مقالے شائع ہوکر علمی وادبی حلقوں میں مقبول ہوچکے ہیں۔ صاحب علی کی یہ کتابیں حوالہ جاتی حیثیت رکھتی ہیں۔

تعلیم سے فراغت کے بعد پروفیسر صاحب علی، درس وتدریس جیسے مقدس پیشے سے وابستہ ہوگئے اور ممبئی کو اپنا مسکن بنالیا۔ممبئی جیسے شہر میں مختصر اور محددو آمدنی کے باوجودڈاکٹر صاحب علی کااس عظمت وتقدس کے پیشے کو برقرار رکھناان کی تعمیری اور صالح فکر کا غماز ہے۔طلبا اور خاص وعام کے لیے وہ ایک شفیق استاد اور سلیم الطبع انسان تھے۔درس وتدریس کے ساتھ طلبا کی رہنمائی اور ہمہ جہت ترقی کے لیے بھی کوشاں رہتے تھے۔ وہ اپنے طلبا کو تعلیم کے ساتھ زندگی جینے کا سلیقہ بھی سکھاتے تھے۔ علی گڑھ کے علمی وادبی ماحول نے ڈاکٹرصاحب علی کی کردار سازی میں اگرچہ بنیادی رول ادا کیا ہے لیکن ان کی تدریسی صلاحیتوں کو جلا ممبئی نے بخشا ہے۔اس شہر نے انھیں نہ صرف عزت اورشہرت سے نوازا بلکہ ان کی فنکارانہ،پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی کو بنانے اورسنوارنے میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔گویا شہر ممبئی پروفیسر صاحب کے لیے فالِ نیک کی حیثیت رکھتاہے۔

پروفیسر صاحب علی ابتدا میں برہانی کالج سے وابستہ ہوئے۔بعدازاں 1996 میں ممبئی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لیکچررکی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے پہلے ریڈر،پھر پروفیسر بنے۔ کرشن چندر کے نام سے منسوب پروفیسر چیئر پر بحیثیت پروفیسر تاحیات برقرار رہے۔ یہاں انھوںنے اپنی زندگی کے اہم ترین چوبیس برس گزارے۔ جن میں تقریباً نو سال صدرِ شعبہ بھی رہے۔ پروفیسر صاحب علی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے انھوں میں اپنے تحقیقی و تنقیدی جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ اپنی عملی زندگی میں بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ چونکہ ان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل اسی نہج پر ہوئی تھی جس میں تعمیری رجحانات کو فوقیت حاصل تھی اس لیے اس کا اظہار ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔ انھوں نے شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا۔سمپوزیم، مذاکرے، مباحثے اور چھوٹی موٹی نشستوں کے علاوہ ہر سال کم ازکم دو قومی سمینار برپا کرتے تھے۔ مخطوطہ شناسی پر دواہم ورکشاپ کا انعقاد بھی اہم کارنامہ ہے۔ سال 2013 میں ’منٹو‘ اور 2018 میں ’اکیسویں صدی میں اردو فکشن ‘پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد بھی کیا، جس میںہندوستان کی نامور یونیورسٹیوں کے علاوہ ڈھاکہ، جرمنی، موریشس اور نیپال کے مندوبین شامل تھے۔ پروفیسر صاحب علی نے اردو اور غیر اردو کی اہم اوربڑی شخصیات کو شعبے میں مدعو کیا۔ ان کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی، لہٰذا انھوں نے جب بھی کسی اہم شخصیت کو شعبۂ اردو میں مدعو کیا، اس نے ان کی دعوت کو قبول کیا۔

شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی سے وابستگی کے دورانیے میں صاحب علی نے جس اہم کارنامے کو انجام دیے ہیں۔ ان میںشعبے کی ترقی اور مختلف النوع سرگرمیوں کے علاوہ ان کی قلمی خدمات بھی اہمیت کی حامل ہیں۔اس دور میں ان کی تقریباً درجن بھر کتابیں معرضِ وجود میں آئیں، جوان کاعلمی وادبی شناخت نامہ بھی ہیں۔’مبادیات عروض‘ (1996)ان کی اولین کتاب ہے،جس میں علم عروض کو آسان اور عام فہم زبان میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’گلدستہ پیام یار‘ایم فل کے لیے لکھا گیا تحقیقی مقالہ ہے، ’ اردو فکشن ایک مطالعہ‘ (2004)، ’پھول اور بچے‘ (2005) (مراٹھی سے اردو ترجمہ)، ’کوؤں کا اسکول‘ (2006) (مراٹھی سے اردو ترجمہ)،’قرۃ العین حیدر شخصیت اور فن‘ (2008)، ’اردو افسانو ں کا تجزیاتی مطالعہ‘،’ترقی پسند تحریک اور بمبئی‘ (2010)، ’رانی کیتکی کی کہانی‘ (2011)، ’بمبئی کے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتگان‘ (2013)، ’عربی اور اردو کے لسانی و ادبی روابط‘ (2013)، اردو تنقید مقصود ومنہاج(2018)،’ریاض خیرآبادی کی صحافت ‘(2020)وغیرہ۔

پروفیسر صاحب علی نے شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی کے تمام کاموں کو بخوبی انجام دیتے ہوئے اپنی دیگر ادبی سرگرمیوں کو تاحیات جاری رکھا۔ سلیکشن کمیٹی،بورڈ آف اسٹڈیز کی میٹنگ اور دوسرے ادبی پروگرام میں جذبۂ بے نیازی کے ساتھ شامل ہوتے رہے اور اپنے منصفانہ و معتدل رویے کے سبب باشعور اورتعلیم یافتہ لوگوں میں ہمیشہ قدرکی نگاہ سے دیکھے گئے۔پروفیسرصاحب علی کایہ معتدل رویہ ان کی زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی سے شائع ہونے والااکیڈمک ریسرچ اینڈ ریفریڈجرنل ’اردو نامہ‘پروفیسر صاحب علی کی سعی بلیغ کا نادر کارنامہ ہے۔یہ اپنی علمی وفکری ترجیحات کے سبب ایک معیاری اور معتبر جریدے کی حیثیت رکھتاہے۔اس کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر صاحب علی رقم طرازہیں:

اردو نامہ‘ کسی فردِ واحد کی ترجیحات کا ترجمان نہیں بلکہ یہ اردو زبان وادب میں جاری وساری فکری وعلمی ترجیحات ورویوں کا نمائندہ ہے۔ہمیں کسی تحریک، ادبی رویے یا مباحث سے پرہیز نہیں۔البتہ ہم یہ ضرور خیال کرتے ہیں بحث کی سطح بلند، پیرایۂ اظہار معیاری اور گفتگو عالمانہ ہو۔ اسی طرح ’اردو نامہ‘ میں ہم ہر اس تحریر کے استقبال کو تیارہیں جو علم کی وسعت اور سلیقۂ اظہار سے عبارت ہو۔‘‘

) اداریہ’ اردو نامہ‘از پروفیسر صاحب علی،اپریل 2013،ص 7, 8(

پروفیسر صاحب علی ہندوستان کی کئی اہم یونیورسٹیوںکے علاوہ این  سی ای آر ٹی، این سی  پی یو ایل اور یوجی سی کی کئی اہم کمیٹوں کے ممبر بھی تھے۔علاوہ ازیں وہ ہندوستان کے بڑے ادبی ایوارڈ ’سرسوتی سمان‘ اور مدھیہ پردیش کے سب سے بڑے ایوارڈ ’اقبال سمان ‘ کے جیوری ممبران میںبھی شامل تھے۔سرسوتی سمان ابھی تک اردو میں صرف شمس الرحمن فاروقی اور نیر مسعود کے حصے میں آیا ہے۔ صاحب علی ہندوستان کی چوبیس زبانو ں کے سب سے بڑے ادارے ساہتیہ اکیڈمی منسٹری آف کلچر دہلی، اردو بورڈ کے ممبر بھی تھے۔

پروفیسر صاحب علی کا حلقۂ احباب انتہائی وسیع تھا۔ جب تک وہ ممبئی میں تھے ہر کس و ناکس سے، چاہے وہ طالب علم ہو،یا ان کا ہم عصر یا کوئی عام انسان ہو، خوش اخلاقی کے ساتھ ملتے تھے۔جہاں تک میرے مشاہدے کا تعلق ہے میں نے انھیں علم دوست، غریب پرور اور نادار طلبا پر زیادہ مہربان پایا۔ ان کے اندر صلہ رحمی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

پروفیسر صاحب علی کو ہم سے جدا ہوئے تقریباً ساڑھے تین سال کا عرصہ گزرچکاہے لیکن ابھی بھی ان کی باتیں ذہن ودل پراس طرح اثر انداز ہیں،گویا وہ ہم سے ہم کلام ہیں۔ دراصل ان کی شخصیت اس قدر دل نشیں تھی کہ ان سے بچھڑنے کا تصور بھی تکلیف دہ تھا۔باپ جیسے مشفق اور مہربان استادکم ہی شاگردوں کو نصیب ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب علی سے میری اولین ملاقات ایم فل میں داخلے کی نسبت سے اکتوبر 2010 میں ہوئی تھی۔ ایم فل میں داخلے کے بعد میں شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی سے وابستہ ہوگیا اور میری یہ وابستگی ایک عرصے تک قائم رہی۔ پروفیسر صاحب علی کی نگرانی میںایک پوسٹ ڈاکٹریٹ، بیس پی ایچ ڈی کی تھیسس اور تقریباً پینتالیس ایم فل کے مقالے لکھے گئے۔ جن میں مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے ان کی نگرانی میں تین مقالے تحریرکیے۔اول ’اثر انصاری شخصیت اور شاعری‘ (ایم فل ڈگری کے لیے لکھاگیا Dissertation ہے)۔ دوم ’ممبئی میں اردو تحقیق ابتدا تا 1960 تحقیقی وتنقیدی جائزہ ‘ اس پر ممبئی یونیورسٹی نے ناچیز کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی ہے۔بعد ازاں ایک یوجی سی میجر ریسرچ پروجیکٹ (Development of Urdu Language  Historical and Critical Study)  A Literature in Maharashtra:  and  پر کام کیا۔یہ مقالہ ان کی وفات کے چند مہینے قبل ہی مکمل کرکے جمع کیا تھا۔

پروفیسر صاحب علی کی زندگی جہد و عمل کا نمونہ تھی۔ وہ اپنے کلیگ اور ساتھیوں سے شعبے کی ترقی اور اپنے منصوبوں پر تبادلۂ خیال کیا کرتے اور مشورے کے بعد ہی اسے عملی جامہ پہناتے۔یوں تو شعبۂ اردو ابتدا سے ہی ایک فعال اور متحرک شعبہ رہا ہے لیکن پروفیسر صاحب علی کے زمانے میں شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی نے جس قدر ترقی کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔شعبۂ اردو میں جدید ترین وسائل سے آراستہ کمپیوٹر لیب انہی کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے شعبے کو کئی اہم کورسیز فراہم کرائے۔ ان میں پی جی ڈپلوما اِن ماس کمیونی کیشن اینڈاردو جرنلزم اور ڈپلوما ان اردو کمپیوٹر اپلی کیشن ملٹی لینگول ڈی ٹی پی وغیرہ کے نام خصوصیت کے ساتھ لیے جاسکتے ہیں۔یہ روزگار اساس کورسیز طلبا کے لیے بڑے کارآمد اور سود مند ثابت ہوئے۔ شاہد لطیف(ایڈیٹر انقلاب ممبئی)،شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) اور سرفراز آرزو (روزنامہ ہندوستان، ممبئی ) جیسے ماہر صحافی کی رہنمائی کے سبب شعبے نے جزنلزم کے میدان میں خاصی ترقی کی۔ شعبۂ اردو کی لائبریری کو مستحکم اور منفرد بنانے میں استادِ محترم کا بڑاہاتھ ہے۔ یہاں اردوادب کی ہزاروں کتابیں دستیاب ہیں جن سے طلبا فیض یاب ہورہے ہیں۔ شعبۂ اردو کو ممتاز اورمعیاری بنانے کے لیے انھوں نے ہر ممکن کوششیں کیں۔ایک علاحدہ اور پرشکوہ شعبہ جو اساتذہ اور طلبا کی تمام ضروریات کا احاطہ کرتا ہو، ان کی اس تجویزکو ’اردو بھون‘ کے نام سے یونیورسٹی انتظامیہ نے منظوری بھی دے دی اور حکومت مہاراشٹر نے اردو بھون کے لیے پانچ کروڑ روپے دینے کا اعلان بھی کردیا لیکن بہ وجوہ پروفیسر صاحب علی کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔

شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی کے فروغ میں پروفیسر صاحب علی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ مستقبل قریب میںجب بھی شعبۂ اردوممبئی یونیورسٹی کی تاریخ مرتب ہوگی،اُس میں پروفیسر صاحب علی کانام نمایاں ہوگا۔ مجموعی طورپر اگر ہم دیکھیں تو صاحب علی کی پوری حیات اردو کے لیے وقف تھی۔انھوں نے اردو کے فروغ کے لیے جوکارنامے انجام دیے ہیں اورطلبا کی رہنمائی میں جس طرح دلچسپی لی ہے وہ صرف انہی کاحصہ ہے۔ لہٰذا ان کی شخصیت کو مینارۂ نور سے تعبیر کیا جاسکتاہے۔

 

Dr. Mohammad Zubair

Coordinator MANUU

LSC. MS College of Arts,Comm,

Science & BMS, Kausa Mumbra

Thane-400612 (Maharashtra)

Mob: 9022951081

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...