اگر یہ کہا جائے کہ کتب بینی دانشوروں کا ایک امتیاز ہے تو پہلے یہ سوال ضروری ہے کہ دانشوری کے لیے وسیلہ کیا ہے؟ ضروری نہیں کہ دانائی کے لیے کتابوں کی ضرورت ہو مگر ایک دانشور کو کتابوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ اسی سے انھیں توانائی ملتی ہے اور اسی سے ان کی دانائی پروان چڑھتی ہے۔ماقبل تاریخ سے انسانوں نے عقل وخرد کے جو منازل طے کیے اس کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ تب کتابیں موجود نہیں تھیں پھر بھی انسانی ذہنوں نے ترقی کی۔یقینا ان کی لغزشیں اور ان کی کوتاہیاں ان کے لیے وسیلۂ ترغیب ثابت ہوئیں اور وہ ہر دن اپنی ہی لغزشوں سے محتاط رہ کر اپنے ذہنوں کو روشنی بخشتے رہے۔ یقینا وہ اپنے عمل کو بہتر طور پر انجام دینے کے لیے گزشتہ کمیوں سے اجتناب کرکے عصری تقاضوں کو پورا کرنے میں دن رات لگے رہے۔ اس سے انکار نہیں کہ اس وقت کسی عمل کو تکمیل دینے میں مرحلہ وار تجربوں اور مشاہدوں کو محفوظ رکھنے کی خاطر ان کے پاس کوئی آلہ نہ تھا۔ آخرکار ان کے افکار اور ان کے فطری تجسسات نے انھیں اشاراتی نشانات کی طرف مائل کیا، پھر اس کے بعد انھوںنے حرفوں کی ایجاد پر فتح حاصل کی۔ حروف وجود میں آئے تو کتبوں کی روایت شروع ہوئی اور اسی طرح جیسے جیسے ان کے اذہان روشن ہوئے انھوںنے ’پے پیرس‘ (ایک درخت کی چھال) دریافت کرلی اور پھر ’پیپر‘ یعنی کاغذ بنانے میں وہ کامیاب ہوئے۔ظاہر ہے ان تمام کوششوں کے پس پردہ آنے والی نسلوں کے لیے تجربات و مشاہدات کو محفوظ کرنے کی حکمت عملی کارفرما تھی اور یہی عمل آج بھی جاری ہے۔
انسانی تہذیب کے ارتقا
کے ساتھ ساتھ انسانوں میں اپنے تجربات ومشاہدات کو محفوظ کرنے کی روایت شروع ہوئی جو
کتبوں سے کتاب تک پہنچی۔ کتابوں کا چلن شروع ہوا تو ہر آنے والی نسل یہ دیکھ کر حیران
ہوئی کہ آخر ان کے ورثا نے ان کے لیے کیا چھوڑا ہے اور اس طرح استفادے کا عمل بھی
شروع ہوگیا۔تہذیب نے سماج کی شکل لے لی اور سماج سے مذہب پھر مذہب سے سیاست اور سیاست
سے اقتدارنے جنم لیا۔ بالاخر اقتدار سے اصول وضوابط کی بنیاد پڑی اور زندگی کا مکمل
ڈھانچہ معرض وجود میں آیا۔گویا انسانوں نے سماجی نظام کا ڈھانچہ تیار کرلیا اور اس
عمل میں انھیں گزشتہ تا حال تمام تر تجربات و مشاہدات نیز مکاشفات کو بروئے کار لانا
پڑا۔ انسانوں کی بڑھتی آبادی اور حصول معاش سے پیدا ہونے والے مسائل نے بلاشبہ انسان
کو تقابل کی جانب مائل کردیا۔ اس طرح چین نے سب سے پہلے کنفیوشش کی ہدایات اور ان کے
اقوال کو ذہانت کا معیار تصور کیا اور ملازمت میں آنے والے آسامیوں سے ان ہدایات
کی بابت سوالات پوچھے جانے لگے۔ گویا وہ لوگ ملک و ریاست کی نمائندگی کے لیے اہل تسلیم
ہوئے جنھوں نے کنفیوشش کے اقوال سے منسلک سوالات کے صحیح جوابات دینے میں زیادہ کامیابی
دکھائی۔ میرا مطمح نظر اس حکایت کی جانب نہیں کہ حضرت انسان کے اشرف ہونے کا عمل کب
اور کیسے شروع ہوا، تاہم آہستہ آہستہ باقی
دنیا نے کتابوں کی اہمیت کو تسلیم کیا اور کتب بینی کو عقل وفہم کا پیمانہ تصور کرلیا۔
اسلامی تاریخ کے حوالے سے دیکھیں تو نبی کریمؐ جب بشکل وحی اللہ کا پیغام سنایا کرتے
تو پڑھے لکھے صحابیوں کو ہدایت دیتے کہ وہ انھیں نقل کرلیں تاکہ محفوظ رہ سکے۔ عربی
تہذیب جس طرح فن عمارت سازی میں ماہر تھی اسی طرح کتابت کے فن میں یکتا ویگانہ تھی۔
صحابہ کرام علیہم اجمعین میں ایسے ماہرین کی کمی نہیں تھی جو فرمودات نبویؐ کو زیادہ
مرصع ومسجع انداز میں کھالوں یا درختوں کی چھالوں پر نقل کرلیتے تھے۔
کاغذ کی ایجاد انسانی
تہذیب کا وہ انقلاب ہے جسے ’ام الایجاد‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگاکہ اسی کے دم سے
کتابیں وجود میں آئیں اور انسانی تہذیب وتاریخ کو نسل درنسل منتقل کرنے میں آسانی
ہوئی۔سماج کی رنگارنگی اور پھر ان کے الگ الگ تجربات ومشاہدات کے سبب لاتعداد افکار
ونظریات وجود میں آئے جس کی وجہ سے زندگی کے متعد د شعبہ جات ظہور پذیر ہوئے۔ فلسفے،
حکمت، ادبیات، تاریخ، لسانیات اور دیگر شعبہ جات۔ گویا کتاب آج ایک ایسی حقیقت کے
بطور ہمارے سامنے ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنے دامن کو وسیع تر کرتی گئی اور جسے یہاں
تک آنے میں سیکڑوں صدیاں لگیں۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو زیست سے وابستہ تمام شعبہ
جات میں نئے نئے موضوعات شامل ہونے لگے اور اس طرح کتابیں انسانی تہذیبوں کا امین اور
ہر نئی نسل و قوم کی بہتر رہنمائی اور ترقی کا سب سے معتبر وسیلہ ثابت ہوئیں۔
اسلامی تہذیب کے ورود
نے تاریخ و جغرافیہ کے علاوہ فلسفے کو ایسا دوام بخشا کہ کتابیں ان کی زیست و بقا کا
سامان بن گئیں۔ لہٰذا ہر دور میں اسے بلند مقام حاصل رہا۔ اس سے انکار نہیں کہ دنیا
کی تمام تہذیبوں میں کتابوں کو بہتر دوست تصور کیا جاتا رہا ہے۔دوست اس معنی میں کہ
کتابوں کی وجہ سے اسلاف کے تجربوں سے نہ صرف آگہی ملتی ہے بلکہ اسلاف کے کارناموں
اور ان کے مشاہدوں کی روشنی میں پیش آنے والی الجھنوں سے پار پانے کا سراغ بھی ملتا
ہے۔دراصل یہی وہ سراغ ہے جو نئے فلسفے اور نئے امکانات کو روشن کرتا ہے اور اسی سے
ایجادات کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ورود اسلام نے کتابوں کی اہمیت کو
بام عروج عطا کیا جہاںکتابیں ہر صاحب علم، بچوں، عورتوں، بوڑھوں کے سرہانے ہوا کرتی
تھیں۔ لوگ کتابوں کو سینے سے لگایا کرتے تھے،کیونکہ انھیں اس بات کا علم تھا کہ کتابیں
زیست کی سچی رہنما ہیں۔اسلامی تاریخ میں سلاطین اور وزرا کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو
آج بھی حیرت انگیز انکشافات سامنے آتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے اس کی بیشمار مثالیں
دی جاسکتی ہیں، مگر صد حیف کہ تازہ کار نسلوں نے کتابوں کی اہمیت کو پس پشت رکھ دیااور
وہ تاریکیوں کے خوگر بن گئے۔ افسوس کا مقام ہے کہ کتابوں کی جگہ موبائل، لیپ ٹاپ اور
سوشل نیٹ ورکنگ نے لے لی۔ ایسے میں لمحۂ فکریہ ہے کہ نوجوانوں میں کتب بینی کا ذوق
عنقا ہوگیا۔ موجودہ نسل میں کتابوں سے دوری کا تناسب جس رفتار سے بڑھ رہا ہے اسی قدر
ان کے اندر جہل پسندی، انسانی رواداری ، اخلاقی اور سماجی قدروں کی عظمت مٹتی جارہی
ہے۔ کیونکہ طلبااپنے طے شدہ نصاب کے علاوہ دوسری کتابیں پڑھنا گوارہ نہیں کرتے۔وہ کتابیں
جو انھیں زندگی اور شعور سے متعارف کراتی ہیں، ان سے وہ کٹتے جارہے ہیں۔اس کا نتیجہ
یہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے کارناموں کو فراموش کرکے خود اپنی شناخت بھی کھورہے ہیں۔
موجودہ نسل اخلاقی
قدروں سے بیگانی ہوتی جارہی ہے اور وہ کم وقت اور کم محنت میں زیادہ پیسے کمانے کے
فراق میں ہیں۔ایک جانب فتوحات کا یہ عالم ہے کہ مطالعات کی بنا پر دنیا چاند سے آگے
مریخ اور اس سے آگے پہنچ رہی ہے، لیکن دوسری جانب اسی تیزی سے سماج کے شیرازے بھی
منتشر ہورہے ہیں۔ گوکہ اس سے ہر کوئی واقف ہے کہ کتاب ایک ایسا دوست ہے جو کسی کی خوشامد
و تعریف نہیں کرتا اور نہ کسی کو برائی کے راستے پر ڈالتا ہے۔ یہ تو ایسا دوست ہے جو
تنہائی کا مداوا ہے، الجھنوں کا حل ہے اور اکتاہٹوں سے نجات کا باعث ہے۔ یہ ایک ایسا
آلۂ حرب ہے جو کسی کو کبھی نقصان نہیں پہنچاتا۔ نئی تحقیق کے مطابق کتابیں انسانی
ذہنوں کی خوراک ہیں جبکہ موبائل اور انٹرنیٹ وقت کے زیاں کرنے کا شیطانی آلہ ہے۔ نئی
تحقیق تو یہ بھی بتاتی ہے کہ موبائل اور انٹرنیٹ قوت یادداشت کو کم کرتے ہیں جبکہ اس
کے برعکس کتب بینی جھوٹ اور منافقت کے زہر سے انسانی ذہنوں کو پاک کرکے سماجی مساوات
اور اخوت و عدم تشدد کی ماحول سازی میں ہر ممکن مدد پہنچاتی ہے۔ بلاشبہ کتب بینی انسانی
ذہنوں کے لیے وہی اہمیت رکھتی ہے جس طرح ورزش بدن کی نشو ونما میں معاون ہے۔ کتب بینی
کی اہمیت و ضرورت اور افادیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیںہے۔
علم وحکمت کے سمندر
میں سفر کرنے کے لیے مطالعے کی ناؤ میں سوار ہونا لازمی ہے۔ اس سے دل ودماغ کے بند
دریچے وا ہوتے ہیں۔ شعور پختہ ہوتا ہے، فکر کو وسعت ملتی ہے۔ اعلی نظریات، تصورات وتخیلات
مطالعے کی ہی دین ہیں۔ کتب بینی سے انسان میں وسعت قلبی، رواداری اور روشن خیالی پروان
چڑھتی ہے، یہ روح کو تقویت دیتی ہے۔ اس کے ذریعے ہم گھر بیٹھے دور دراز کے ممالک کی
سیر کرتے ہیں۔ ہم ان ملکوں کے مذہبی، معاشی، اخلاقی اور سیاسی حالات سے آگہی حاصل
کرنے کے ساتھ ساتھ دلچسپ واقعات سے محظوظ ہوتے ہیں۔ مطالعے کا ذوق رکھنے والا فضول
مجالس سے دور رہتا ہے۔ اس کی قدر وقیمت وہی لوگ جانتے ہیں جو اس چمن رنگ وبو کے گل
گشت ہیں اور جو اس جام شراب کے رسیا ہیں، کیونکہ اندھا کیا جانے بسنت کی بہار اور بندر
کیا جانے ادرک کا سواد۔ مطالعے میں جو لطف وسرور اور مٹھاس ہے اس کے سامنے دنیا کی
بڑی بڑی نعمتیں ہیچ ہیں۔
چینی کہاوت ہے کہ
’’جب تم پہلی بار کتاب پڑھتے ہو تو کسی سے پہلی بار ملاقات کرتے ہو لیکن جب اسی کتاب
کو دوسری بار پڑھتے ہو تو جیسے پرانے دوست سے ملاقات کرتے ہو۔‘‘ مہاتما گاندھی کا قول
ہے کہ ’’دنیا میں جتنی بھی تبدیلی رونما ہورہی ہے سب کتابوں کی بدولت ہے۔‘‘ مغربی مفکر
تھامس جیفرسن نے کہا کہ ’’میں کتابوں کے بغیر نہیں رہ سکتا ہوں۔‘‘اسٹیو جابز کا قول
ہے کہ ’’ہمیشہ علم کے پیاسے رہو‘‘ایک نامعلوم مفکر کا قول تو یہاں تک ہے کہ ’’اگر دو
دن تک کسی کتاب کا مطالعہ نہ کیا جائے تو تیسرے دن گفتگو میں وہ شیرینی باقی نہیں رہتی،
یعنی انداز تکلم تبدیل ہوجاتا ہے۔‘‘ یقینا ایسی تمام باتیں محض ذوق طبع کے لیے نہیں
بلکہ کتب بینی کی افادیت کو مشاہدوں کی روشنی میں کہی گئی ہیں۔ اگر ہم دنیا کے عظیم
انسانوں کی سوانح حیات کو اٹھاکر دیکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے
کہ ان کی کامیابی کا ایک بڑا راز کتب بینی ہی تھا۔ ہمارے سلفا وصالحین کی زندگیاں علم
وعمل سے عبارت تھیں۔ ان کی کتاب زیست کے اوراق اٹھاکر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ
ہمہ تن پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے میں مصروف رہتے تھے اور یہی ان کا وطیرۂ حیات
تھا۔ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ درس وتدریس، تصنیف وتالیف اور مطالعہ کتب میں صرف
ہوتا تھا۔ وہ اپنے قیمتی اوقات کو فضول گوئیوں اور دوسری فضولیات میں ضائع نہیں کرتے
تھے۔ ان میں چند کی مثالیں درج ذیل ہیں:
1 کوفے کے مشہور مصنف جاحظ کتب فروشوں
کی دکانیں کرائے پر لے کر ساری ساری رات کتابیں پڑھا کرتے تھے۔
2 اسماعیل بن الحاق القاضی کے گھر جب کوئی
جاتا تو انہیں پڑھنے میں مصروف پاتا۔
3 خلیفہ عباسی المتوکل کے وزیر فتح بن
خاقان اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے تھے جب انھیں سرکاری کاموں سے ذرا بھی
فرصت ملتی تو کتاب نکال کر پڑھنے لگتے۔
4 امام فخرالدین رازی کو اس بات کا افسوس
ہوتا تھا کہ کھانے کا وقت مطالعے کے بغیر گزر جاتا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں، ’’اللہ کی
قسم مجھے کھانے کے وقت علمی مشاغل کے چھوٹ جانے پر افسوس ہوتا ہے، کیوںکہ وقت بہت عزیز
چیز ہے۔
5 امام شافعی کے جلیل القدر شاگرد امام
مزکی فرماتے ہیں، ’’میں نے اپنے استاد کی ایک کتاب کا پچاس برس تک مطالعہ کیا اور ہر
مرتبہ مطالعے میں مجھے فوائد حاصل ہوئے۔
6 شیخ الحدیث مولانا زکریا بھی مطالعے
سے عشق رکھتے تھے۔ آپ کو رات کے وقت دوبجے بھی مطالعہ کرتے پایا گیا۔
7 دیوبند کے ممتاز عالم دین مولانا اعزاز
علی کو کتب بینی کا اس قدر شوق تھا کہ جب بیمار ہوتے تب بھی سرہانے کتابوں کا انبار
لگا رہتا اور فرمایا کرتے کہ میری بیماری کا علاج کتب بینی ہے۔
ماہر نفسیات ولیم جیمزکے
الفاظ ہر کسی کے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکتے ہیں۔اس نے کہا تھا، ’’کوئی نوجوان خواہ کسی
قسم کی تعلیم حاصل کرے اگر وہ ہر روز ایمانداری سے کچھ وقت مطالعے میں صرف کرے تو اسے
بالکل متفکر نہیں ہونا چاہیے۔ ایک سہانی صبح جب وہ بیدار ہوگا تو پتہ چلے گا کہ اسے
پرخلوص کوششوں کا صلہ مل چکا ہے اور وہ خود کو ایک ممتاز حیثیت کا مالک پائے گا۔‘‘
یونانی ڈرامہ نگار پوال ہیڈس ایک جگہ لکھتا ہے، ’’جو نوجوان مطالعے سے گریز کرے وہ
ماضی سے بے خبر اور مستقبل کے لیے مردہ ہوتا ہے۔‘‘
پڑھنے کے کئی فائدے
ہیں:
1 پڑھنے سے غم اور بے چینی دور ہوتی ہے۔
2 پڑھنے والا دوسروں کے تجربات سے مستفید
ہوتا ہے اور بلند پایہ مصنّفین کا ذہنی طور پر ہمسر بن جاتا ہے۔
3 پڑھنے والا اوقات کی ضیاع سے محفوظ رہتا
ہے۔
4 پڑھنے سے علم میں اضافہ، یادداشت میں
وسعت اور معاملہ فہمی میں تیزی آتی ہے۔
5 پڑھنے سے ذہن کھلتا ہے اور خیالات میں
پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ
جس قوم نے علم وتحقیق کا دامن چھوڑ دیا وہ پستی میں گرگئی۔ مسلمانوں کا زوال اس کی
واضح مثال ہے۔ ساتویں صدی تک بغداد علم و ادب کا گہوارہ رہا۔ سقوط بغداد نے قوم کے
عظیم کتب خانے فرات میں بہا دیے۔ یہ اس قدر ضخیم ذخیرہ تھا کہ دریا کا پانی سیاہ ہوگیا۔
آج دنیا کے 28 ممالک ایسے ہیں جہاں کتابوں کی خریداری اور وہاں کے عوام میں مطالعے
کے ذوق کی شرح سب سے زیادہ ہے کہ ان ممالک میں ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے۔ بقول علامہ
اقبال ؎
گنوادی ہم نے جو اسلاف
سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں
نے ہم کو دے مارا
مگر وہ علم کے موتی،
کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ
میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
Aquil Ziyad
B-37, Rekhta Foundation
Sector-1
Noida 201301 UP
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں