22/11/21

منٹو کے افسانوں میں تانیثی عناصر - مضمون نگار: ڈاکٹرہردے بھانو پرتاپ


 


اس میں کوئی شک نہیں کہ منٹو اردو ادب کا ایک بڑا افسانہ نگار ہے۔اس نے اپنی چھوٹی سی زندگی میں اردو ادب کو جن مسائل سے روشناس کرایا اس کی عکاسی شاید صدیوں تک ممکن نہیں ہوپاتی اگر منٹو اس میدان میں اپنا قدم نہ رکھتا۔حالانکہ وہ اردو ادب کا سب سے بدنام افسانہ نگار بھی تصور کیا جاتا ہے۔لیکن وہیں دوسری طرف وہ اپنے مخصوص اندازِ بیان کی وجہ سے بے مثال بھی ثابت ہوا ۔منٹو کی نظروں کے سامنے جو حالات تھے ،جن میں اس کی زندگی کی نشو و نما ہوئی، کہیں نہ کہیں وہ ایک انقلابی دور تھا، ہندوستان کی تحریک آزادی زوروں پر تھی اور اردو ادب کے نامور مصنفین اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لے رہے تھے۔منٹو کا ذہن بھی اس فضا میں الجھ کر رہ گیا۔لہٰذا جب منٹو نے تخلیق کی دنیا میں قدم رکھا تو وہ سارے واقعات اس کے ذہن میں ایک کولاج کی صورت میں موجود تھے۔اس لیے منٹو نے سماجی و سیاسی ، معاشی و معاشرتی مسائل کے درمیان سے ایک ایسے پہلو کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی جو ہمارے سماج میں آئے دن آتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمارا سماج اور ہمارے نظامی اقدار اسے اپنی ذمہ داری کے حصے سے پرے سمجھتے ہیں۔منٹو نے سماجی و سیاسی مسائل کے ساتھ ساتھ عورتوں کے مسائل کو بھی اپنے افسانوں کا محور بنایا۔عورتوں کی زندگی اس کے افسانوں میں اس قدر رچ بس گئی کہ پھر اسے عورتوں کا افسانہ نگار سمجھا جانے لگا۔  ڈاکٹر اطہر پرویز اپنی کتاب ’منٹوکے نمائندہ افسانے‘ کے پیش لفظ میں لکھتے  ہیں کہ:

 ’’ منٹو کی ایک خصوصیت ہے کہ وہ حقیقتاََ’ عورت‘ کا افسانہ نگار ہے۔عورتوں کے لیے منٹو کے دل میں محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے ۔ جیسا کہ عام خیال ہے منٹو عورت کے صرف جنسی پہلو کو دیکھتا ہے۔یہ منٹو کو نہ سمجھنے کی بنا پر ہے۔ منٹو کی عورتیں ہی منٹو کی ہمدردیاں حاصل کرتی ہیں۔وہ چاہے زینت ہو یا جانکی، موذیل ہویابرمی عورت، ممی ہو یا نیلم۔۔اس کے نزدیک عورت کا سب سے مقدس لمحہ وہ ہوتا ہے جب اس کے اندر ما ں کی مامتا جاگتی ہے اور یہیں ہمیں منٹو کا اصل روپ نظر آتا ہے۔ شاردا نذیر سے بے تعلق رہتی ہے، اس سے چڑھتی ہے لیکن جس وقت نذیر اس کے اندر کی ماں کو چھوتا ہے تو عورت نذیر کو بھی پیار بھری نظر سے دیکھتی ہے۔جب اس بچے کو دیکھ کر نذیر کہتا ہے کہ اس بچے کی ماں تو میں ہوں تو وہ اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیتی ہے اور ہم بھول جاتے ہیں کہ ابھی اس عورت نے نذیر کو پیار کرنے کی وجہ سے زمین پر تین بار حقارت سے تھوکا تھا۔غصے میں غالباََ گالیاں دینے والی تھی کہ اس کے بچے کی رونے کی آواز آئی اور شاردا ماں بن گئی اور جب نذیر پوچھتا ہے کہ آپ کہاں جا رہی ہیں تو وہ ماں بن کر کہتی ہے ’منی رو رہی ہے، دودھ کے لیے‘ ……یہ نذیر نہیں بلکہ منٹو کہہ رہا ہے کہ ’یہ دودھ … ماں بننا اچھا ہے۔مردوں کی کتنی بڑی کمی ہے کہ وہ کھا پی کر سب ہضم کر جاتے ہیں۔ عورت کھاتی بھی ہے اور کھلاتی بھی ہے۔اپنے بچے کو پالنا کتنی شاندار چیز ہے۔ یہ دودھ ،یہ سفید آبِ حیات ہے۔‘‘

(صفحہ نمبر23-24منٹو کے نمائندہ افسانے)

گرچہ منٹو کے افسانوں میں طوائفوں یا پھر سماجی وتہذیبی زندگی گزارنے والی گھریلوں عورتوں کی زندگی کی حقیقت کو پیش کیا گیا ہے اس کے باوجود منٹو کاثابقہ کبھی Feminismسے نہیں ہوا اور یہ بات وارث علوی نے اپنی کتاب ’منٹو: ایک مطالعہ‘ میں بڑی وضاحت کے ساتھ لکھی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ:

 ’’منٹوکے یہاں مظلوم عورتوں کی بپتا کی کہانیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پھر وہ Feministادیب کبھی نہیں رہا۔بے شک اس کے یہاں زندگی کا المیہ احساس ہے اور مرد کے ہاتھوں عورت کی زبونی کا بھی لیکن وہ عورت اور مرد کو زندگی کے پیکار میں خیر و شر کی آمازگاہ کے طور پر دیکھتا ہے۔‘‘

(صفحہ نمبر-81، منٹو ایک مطالعہ)

لیکن آج جب ہم تانیثی ادب کی بات کرتے ہیں تو ان کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔منٹو کو تانیثیت کے حوالے سے سمجھنے سے پہلے ہمیں تانیثی ادب پر تھوڑی سی روشنی دالنے کی ضرورت ہے۔در اصل تانیثی ادب بھی دلت ادب کی طرح روایت سے بغاوت کی ایک تحریک ہے۔ کیونکہ چند ایسے فرسودہ رسم و رواج ہمارے سماج میں موجود ہیں جن کی وجہ سے غیر برابری اور استحصال جیسے مسائل مسلسل ہمارے جمہوری نظام فکر کو متاثر کرتے رہتے ہیں۔آج جب عورتیں تعلیم حاصل کر کے اونچے اونچے پائدان پر تخت نشین ہو رہی ہیں تو انھیں اپنی آزادی کا بھی احساس ہو رہا ہے اور اپنے وجود کا بھی۔آج وہ عورتوں کے وجود کو ایک ایسے چشمہ سے دیکھ رہی ہیںجہاں Patriarchyنظام فکر کے کسی سہارے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔آج ان کی اپنی پہچان ہے۔لوگ اپنے افکار بدلنے پرمجبور ہو رہے ہیں۔لوگ ایک عورت کو اس کے والد یا بھائی یا شوہر یا بیٹے کے سبب نہیں بلکہ اس کے خود کے وجود اورذاتی پہچان کے سبب بھی جانتے اور پہچانتے ہیں۔تانیثی ادب کا مرکز و محور ایک عورت ہی ہے۔یہاں مرکزی کردار میں عورتیں نظر آتی ہیں۔منٹو تانیثی ادب کے اس اصول یا پیمانے سے واقف تھے یا نہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں،لیکن اس کے باوجود وہ عورتوں کا افسانہ نگار ہے۔منٹو صرف ایک افسانہ نگار ہے کسی تحریک کا بنیاد گزار نہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ Feminismسے کوسوں دور ہے۔لیکن منٹوں کی کہانیاں قاری کے ذہن پر ایک سوالیہ نشان ضرور قائم کرتی ہیں۔افسانہ ’سرمہ‘ کی کردارفہمیدہ اگر Patriarchyنظام کی قید سے باہر ہوتی تو شاید وہ موت کو گلے نہ لگاتی۔دوسری طرف افسانہ’اولاد‘ کی زبیدہ اگر نسوانی حسّیت کی قید سے باہر ہوتی تو شاید وہ بھی اپنی زندگی کو اس طرح نہ مٹاتی۔

منٹو کے دونوں افسانوں’ سرمہ‘ اور’ اولاد‘ دونوں میں عورت کو مرکزی کردار کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ان دونوں افسانوں میں عورت اور ان کی عمر اور ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اہمیت کے حامل ہیں۔’فہمیدہ کی جب شادی ہوئی تو اس کی عمر انیس برس سے زیادہ نہ تھی۔‘انہی الفاظ کے ساتھ افسانہ ’سرمہ‘ کا آغاز ہوتا ہے۔در اصل یہ وہ عمر ہے جو قانوناََ لڑکیوں کو بالغ قرار دیتی ہے اور ہمارا سماج بھی اسے شادی کے لیے بہتر موقع سمجھتا ہے۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر کوئی لڑکی زیادہ عمر کی ہوگی تو اس کے خیالات بھی زیادہ پختہ ہوں گے۔ پھر اس پہ حکم چلانا آسان کام نہ ہوگا ۔اس لیے منٹو نے بھی اپنے اس افسانے میں محض انیس برس کی فہمیدہ کو ہی اپنے افسانے کا کردار بنایا ہے۔فہمیدہ جو بچپن سے ہی سرمہ کی بہت شوقین ہے اور جب اس کی شادی ہوتی ہے تو اپنی ماں سے باقاعدہ کہہ کر خاندانی چاندی کا سرمہ دان لے جاتی ہے۔شوہر سے پہلی ملاقات کی خوشی میں جب وہ تیار ہوتی ہے تو بڑے ہی شوق کے ساتھ سرمہ بھی آنکھوں میں لگاتی ہے۔ لیکن پہلی ہی ملاقات میں شوہر کو فہمیدہ کی سرمہ دار آنکھیں پسند نہیں آتی ہیں اور بے ساختہ فہمیدہ سے پوچھتا ہے

’’تم اتنا سرمہ کیوں لگاتی ہو؟

فہمیدہ جھینپ گئی اور جواب میں کچھ نہ کہہ سکی۔

اس کے خاوند کو یہ ادا پسند آئی اور وہ اس سے لپٹ گیا لیکن فہمیدہ کی سرمہ بھری آنکھوں سے ٹپ ٹپ کالے کالے آنسو بہنے لگے۔‘‘

شوہر کے بارہا کوشش کے باوجود فہمیدہ نے کچھ نہیں کہا بلکہ ایک گلاس پانی مانگ کر اچھی طرح سے آنکھوں کو دھویا اور یہ بھی کہا کہ آج کے بعد کبھی سرمہ نہیں لگاؤں گی۔جبکہ اس کے شوہر نے بارہا اسے سمجھایا کہ اسے فہمیدہ کا سرمہ لگانا برا نہیں لگتا وہ تو بس اتنا کہنا چاہ رہا تھا کہ کوئی بھی چیز ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے سے اس کی اصل خوبصورتی جاتی رہتی ہے۔میاں کا ایک سوال فہمیدہ کے سامنے لاتعداد سوالات کھڑاکر دیتا ہے۔کیوں کہ اسے اپنے سماج کے نظام کے مطابق پتا تھا کہ اسے تو شوہر کا ہر حکم بجا لانا ہے۔ فہمیدہ کو اچھی طرح پتا ہے کہ وہ صرف فہمیدہ نہیں ہے وہ کسی کی بیوی بھی ہے۔فہمیدہ نے سرمہ نہ لگانے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن وہ سرمے دانی اور سرمچو کو دیکھتی اور افسوس جتاتی کہ کیوں یہ دونوں اس کی زندگی سے جدا ہو گئے۔پھر اس کے ذہن میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہونے لگے

’’صرف اس لیے کہ اس کی شادی ہو گئی؟

صرف اس لیے کہ وہ کسی کی ملکیت ہو گئی ہے؟

یا ہو سکتا ہے کہ اس کی قوت ارادی سلب ہو گئی ہو۔‘‘

طرح طرح کے سوالات ذہن میں آتے لیکن فہمیدہ اس کا ذکر کسی اور سے نہ کرتی لیکن سرمہ سے اس کا رشتہ کسی قدر کمزور نہیں پڑا۔ وقت گزرا، فہمیدہ کے گھر میں چاند جیسا بچّہ آیا اور چالیس دن پورے ہوتے ہی فہمیدہ نے اس کی آنکھوں میں سرمہ لگایا اور راحت کی سانس لی۔ مانو اس کی صدیوں سے نامکمل خواہش پوری ہو گئی ہو۔ اس کا شوہر یہ سب دیکھ رہا تھا لیکن اس نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔فہمیدہ خوش رہنے لگی مانو اس کی سرمہ لگانے کی تمنّا اس کے بچے کی آنکھوں کے سہارے پوری ہو رہی تھی۔آخر بچے کی برسی کا دن آیا اور فہمیدہ  بڑے شوق کے ساتھ بچّے کا جنم دن منانے کی تیاریوں میں لگ گئی ۔ دو دن پہلے ہی بچے کو ڈبل نمونیا ہو گیا جس کے سبب بچّہ اس دنیا سے کوچ کر گیا۔فہمیدہ کی خواہش اب مٹتی ہوئی معلوم ہونے لگی اور وہ پاگل سی ہو گئی ۔یہ پاگل پن اس کے بچّے کے مرنے سے کہیں زیادہ اس کی خواہش کے ادھورے پن کی وجہ سے تھا۔فہمیدہ نے اپنے شوہر سے سرمہ کی خواہش ظاہر کی۔ سرمہ بازار سے لایا گیا،لیکن فہمیدہ کو شوہر کا لایا ہوا سرمہ پسند نہیں آیا نتیجاََ وہ خود بازار جاکر سرمہ لے آئی۔ رات میں اس نے سرمے کو اپنی آنکھوں میں لگایا اور سو گئی ۔صبح میں اس کا شوہرجب اسے جگانے گیا تودیکھا کہ فہمیدہ مر چکی تھی اور وہ بالکل ایسے سوئی تھی جیسے وہ اپنے بیٹے عاصم کے ساتھ سوتی تھی۔اس کے پاس میں ایک گڑیا تھی جس کی آنکھوں میں سرمہ لگا ہوا تھا۔

فہمیدہ کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوال صرف فہمیدہ کے نہیں ہیں وہ ہر اس عورت کے سوال ہیں جو اپنے شوہر کی پسند نا پسند کا خیال رکھنے کے سبب اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ وہ نہ توخود کی زندگی جی پاتی ہے اور نہ ہی شوہر کے مطابق…۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب Feminism اردو ادب سے دور تھاتب بھی منٹوںنے اپنے کرداروں کے ذریعہ سماج کی برائیوں کی طرف اشارہ کیا۔ منٹوں نے جن افسانوں میں جنسی پہلو کو مرکز بنایا ہے ان میں بھی عورت کسی قدر گنہگار نظر نہیں آتی بلکہ قاری کو منٹو کے کرداروں سے ہمدردی ہو جاتی ہے۔ ’سرمہ ‘ منٹو کے آخری دور کا افسانہ ہے۔یہاں منٹو کا فن اور بھی پختہ نظر آتا ہے۔اس دور میں منٹو عورت کے اندر چھپے ذاتی احساسات کو محسوس کرتا ہے، اس کی تمناؤں اور آرزوؤں کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے جو یہاں ہم ’سرمہ‘ میں فہمیدہ کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔

اولاد ‘ بھی منٹو کے آخری دور کا بہت کامیاب افسانہ ہے۔اس افسانے میں ’زبیدہ ‘سماج کی ایک ایسی متوقع نتیجہ کا شکار ہو جاتی ہے جس پر اس کا کوئی زور نہیں تھا۔ہمارےPatriarchy سماج میں ایک عورت کی پہچان اس کے باپ ، بھائی، شوہر یا اولاد سے ہوتی ہے۔اس کے اپنے وجود کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔زبیدہ کی شادی پچیس برس کی عمر میں ہوئی۔دو سال گزرنے کے بعد بھی جب اس کے گھر میں بچوں کی کلکاریاں نہیں گونجی تو اس کی اپنی ماں سے لے کر دنیا والے تک سوال کرنے لگے۔ زبیدہ کی ماں کو اس بات کی فکر تھی کہ کاش کوئی بچہ ہوتا تو اپنی ساری رقم اور زیورات اس کو سونپ دیتی۔ظاہری طور پر زبیدہ کے چہرے پر اپنی ماں کے ارادے کا کوئی اثر نہیں ہوا لیکن ذہنی طور پر اسے الجھن محسوس ہوئی اور اس کے دماغ میں بچہ نہ ہونے کا خیال زور پکڑنے لگا۔وہ اپنے طور پر پوری کوشش کرنے لگی۔لاکھ دعا اور دوا، پیر وں فقیروں کے نسخے آزمائے گئے، لیکن خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ آخر کار تنگ آکر زبیدہ نے اپنی ماں سے کہا کہ

’’چھوڑو اس قصے کو…بچہ نہیں ہوتا تو نہ ہو

اس کی بوڑھی ماں نے منہ بسور کر کہا،’بیٹا …یہ بہت بڑا قصہ ہے…تمہاری عقل کو معلوم نہیں کیا ہو گیا ہے…تم اتنا بھی نہیں سمجھتی کہ اولاد کا ہونا کتنا ضروری ہے…اسی سے تو انسان کی زندگی کا باغ ہرا بھرا رہتا ہے۔‘‘

زبیدہ کو حقیقت پتا ہے کہ اس نے تو کسی قدر کوشش میں کمی نہیں کی، سب کچھ تو کر کے دیکھ لیا۔ اس لیے وہ اپنی ماںکو بہت ہی آہستہ سے جواب دیتی ہے اور کہتی ہے’’میں کیا کرو…بچہ نہیں پیدا ہوتا تو اس میں میرا کیا قصور ہے‘‘۔

سماج میں اوالاد کی اہمیت کو سمجھ کر زبیدہ ہر پل اولاد کے بارے میں خواب دیکھنے لگی ۔آخرکار اس کا ذہنی توازن خراب ہو گیا۔ اسے چاروں طرف بچے دکھائی دینے لگے۔ شوہر سے اپنے خیالی بچوں کے لیے کپڑے اور جوتے منگاتی اور وقت بے وقت بچوں کے رونے کی آواز سن کر بے چین ہو اٹھتی۔اپنی بوڑھی ماں سے ، شوہر سے بچوں کی شرارت کے بارے میں بات کرتی ۔اس کا شوہر بیوی کی یہ حالت دیکھ کر دوکان پر جانا بند کر دیتا ہے اسے بہت پیار ومحبت سے رکھنے کی کشش کرتا ہے، اس کا علاج کرواتا ہے، لیکن زبیدہ پر کسی بھی دوا ،دعا کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔اسی بیچ اس کے شوہر کی ملاقات ایک دوست سے ہوتی ہے جو اپنے معشوقہ کے حمل ٹھہر جانے سے پریشان تھا  کیوں کہ وہ ابھی کو ئی بچہ نہیں چاہتا تھا۔ زبیدہ کے شوہر نے اس موقع کو مناسب سمجھ کر دوست کے بچے کو اپنا بنانے کی ترکیب نکال ہی لی اور اپنی بیوی کے حاملہ ہونے کی جھوٹی خبر سنا دی۔دوست کے یہاں جب بچہ پیدا ہوا تو زبیدہ کے شوہر نے اسے چپکے سے زبیدہ کے پاس سلا دیا اور زبیدہ کو جگاتے ہوئے کہا کہ دیکھو تم نے ایک بچے کو جنم دیا ہے ۔جبکہ زبیدہ کو یقین تھا کہ اس کے چار بچے پہلے سے ہی ہیں ۔زبیدہ اسے اپنا بچہ سمجھ کر بہت پیار سے پالتی ہے۔لیکن ایک صبح کو اس کا شوہر دیکھتا ہے کہ زبیدہ کاجسم لہولہان ہے ،خون بستر پر پھیلا ہوا ہے اور زبیدہ استرے سے اپنی چھاتیاں کاٹ رہی ہے۔اس نے دوڑ کر اس کے ہاتھ سے استرا چھین لیا اور پوچھا یہ کیا کر رہی ہو؟

’’زبیدہ نے اپنے پہلو میں لیٹے ہوئے بچے کی طرف دیکھا اور کہا’ساری رات بلکتا رہا ہے… لیکن میری چھاتیوں میں دودھ نہ اترا…لعنت ہے ایسی……‘۔

زبیدہ نے اپنی خون سے لتھڑی ہوئی انگلی بچے کے منہ میں لگادی، اور خود ہمیشہ کی نیند سو گئی۔‘‘

ہمارے سماج میں نہ جانے کتنی زبیدہ ایسے ہی اپنی زندگیاں قربان کر دیتی ہوں گی، کیوں کہ ان کی اپنی زندگی کا اس دنیا میں کوئی مول نہیں ، کوئی مطلب نہیں۔زبیدہ کی خاموشی کے سبب اس کے اندر پیدا ہونے والی ہیجانی کیفیت اسے ذہنی طور پر غیر متوازن بنا دیتی ہے۔شاید اسے پتا تھا اس حالت میں ،جب اس کی اپنی کوئی اولاد نہیں ہے تو اس کا جینا کس کام کا۔ اولاد کی فکر نے زبیدہ سے اس کی زندگی چھین لی۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ زبیدہ کے ذہن میں اس طرح کی فکر پیدا ہی کیوں ہوئی ۔ اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کے      ذمہ داراور وہ لوگ ہیں جنھوں نے خدا کی اعلیٰ مخلوقات کو بھی اپنا ایک خاص تمغہ دے دیا ہے۔

فہمیدہ نے تو واضح طور پر خود سے سوال کیا آخر کیوں اس کی اپنی تمنائیں اپنی نہیں رہ گئیں ، صرف اس لیے کہ اس کی شادی ہو گئی ہے۔ زبیدہ کو اولاد کس لیے ضروری تھی اپنے لیے یا پھر اس سماج کے لیے، جہاں ایک عورت کو تبھی ایک عورت سمجھا جا سکتا ہے جب اس کے بطن سے کم از کم ایک اولاد ہو۔کیا اس سماج میں فہمیدہ جیسی عورتیں تبھی زندہ رہ سکتی ہیں یا تبھی اچھی اور سلیقے مند بیوی کہی جا سکتی ہیں جب وہ اپنی ذاتی خواہشات کو مسمار کر کے اپنے شوہر کے حکم کو بجا لائیں گی۔یہاں منٹو نے محض ایک کہانی لکھی ہے ۔اس نے کسی سے کسی طرح کا کوئی سوال نہیں کیا ہے ۔لیکن منٹوں کی یہ کہانیاں تانیثی ادب کی طرح اپنے قارئین کے ذہن پر ایک سوال قائم کرتی ہیں۔ عورتوں کا پیکر ، ان کی زندگی، ان کی خواہشات ، ان کی پہچان، ان کا مرتبہ اس Patriarchyنظام کے جبراََ تھوپے ہوئے اصولوں کا محتاج کب تک بنا رہے گا ۔ کب تک فہمیدہ اور زبیدہ جیسی عورتیں دوسروں کی خواہشات پورا کرنے کے لیے اپنی زندگیاں فنا کرتی رہیں گی۔گرچہ منٹو Feminist یا Feminismکے پروردہ نہیں تھے لیکن ان کے آخری دور کے افسانوں میں ان کے خیال کی پختگی اردو ادب میں تانیثی ادب کی آمد کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

 

Dr. Hriday Bhanu Pratap

Assistant Professor

Department of Urdu

Zakir Husain Delhi College

University of Delhi

Mob. No. 7701845217

Email- bhanujnu@zh.du.ac.in




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں