18/11/21

نواب شاہ جہاں بیگم: بھوپال کی نامور خاتون حکمراں - مضمون نگار: ڈاکٹر نکہت فاطمہ




          ہندوستان کی ریاست بھوپال میں نواب شاہ جہاں بیگم ریاست بھوپال کی تیسری حکمران تھیں۔ ان کی پیدائش 6 جمادی الاول 1254ھ /30 جولائی 1838 کو قلعہ اسلام نگر، بھوپال میں ہوئی۔ ان کی والدہ نواب سکندر بیگم نے ان کی ہر قسم کی تربیت کا اہتمام کیا۔ خانہ داری کی تعلیم اپنے ذمہ لی اور کتابی و دینی تعلیم کے لیے اس زمانے کے ممتاز علما کو مقرر کیا۔ امور مملکت کی تعلیم کے لیے ریاست کے خاص اراکین مامور کیے گئے۔ اس کے علاوہ گھڑ سواری اور نشانہ بازی کی مشق کرائی گئی۔

           دسمبر 1844 میں اپنے والد نواب جہانگیر محمد خان کے انتقال کے بعد شاہ جہاں بیگم کم عمری میں ریاست بھوپال کی حکمراں بنیں۔ مگر انتظام سلطنت ان کی والدہ نواب سکندر بیگم کے ہاتھ میں رہا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے نواب سکندر بیگم کو بحیثیت نائب السلطنت مقرر کیا۔ شاہجہاں بیگم رسمی طور پر حکمراں رہیں۔ جب سن شعور کو پہنچیں تو کافی جستجو اور غور و خوض کے بعد بخشی باقی محمد خاں نصرت جنگ سپہ سالار ریاست بھوپال سے  ذیقعدہ 1271ھ /26 جولائی 1855 میں ان کی شادی ہوئی۔ دو صاحبزادیاں نواب سلطان جہاں بیگم اور نواب سلیمان جہاں بیگم کی ولادت ہوئی۔ نواب سلیمان جہاں بیگم کا انتقال کم سنی میں ہی ہوگیا۔ شادی کے 12 سال بعد ان کے شوہر کا انتقال ہوا۔ پھروالدہ نواب سکندر بیگم کے انتقال کے بعدشاہ جہاں بیگم باقاعدہ شعبان 1285ھ/ 16 نومبر 1868 کو ایوان موتی محل میں نواب شاہ جہاں بیگم کے نام سے تخت نشین ہوئیں۔

جیسا کہ ذکر کیا گیا نواب شاہ جہاں بیگم کے شوہر باقی محمد خان کا انتقال ہو چکا تھا، شوہر کے انتقال کے بعد بیوگی کی حالت میں ریاست کے تمام امور انجام دیتی رہیں۔ پھر اس وقت کے پولیٹیکل ایجینٹ اور کرنل رچرڈہیڈ کے مشورے پر دوسری شادی کرنے کے لیے آمادہ ہوئیں اور سید صدیق حسن خان کے ساتھ ۱۷ صفر 1288ھ/ 8 مئی 1871 میں ان کی شادی ہوئی۔ نواب شاہ جہاں بیگم کی سفارش اور کوشش سے انگریزی سرکار نے صدیق حسن خان کو ’نواب والا جاہ امیر ملک‘ کا خطاب اور خلعت سے نوازا۔ نواب صدیق حسن خان بہت بڑے عالم اور کثیر التصانیف تھے۔  علما و فضلا کی بہت قدر کرتے تھے۔ ان کی کوششوں سے بہت سی نایاب کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوئیں۔

رفاحی اور اصلاحی کام:

نواب شاہ جہاں بیگم کو اپنی ولی عہدی کے زمانے سے ہی ریاستی انتظام کے ہر کام کا تجربہ تھا اور ریاست کے تمام جزوی و کلی امور کا علم رکھتی تھیں۔ محنتی، ذہین اور علمی قابلیت کی حامل تھیں۔ انھوں نے کئی جدید اصلاحات کیں، جن کا ذکر انھوں نے ’تاج الااقبال‘ تاریخ بھوپال میں کیا ہے۔ وضع قوانین کا ایک محکمہ بنام ’تنظیمات شاہجہانی‘ قائم کیا ۔ عدالتی اختیارات کی تقسیم کی گئی۔ امن و حفاظت عامہ سے متعلق وسیع انتظامات کیے۔ حفظان صحت سے متعلق امور پر خاص توجہ کی۔ ہر تحصیل میں طبیب مقرر کیا اور ان کے پاس ہر وقت دوائیاں موجود رکھے جانے کا انتظام کیا تاکہ فوری طور لوگوں کو طبی امداد مل سکے۔ ملازمت کے لیے مدارس کی تعلیمی سند لازمی کر دی گئی۔ شہر بھوپال میںHis Royal Highness Prince of Wales  کے نام سے ایک بڑا شفا خانہ بنوایا۔ ان ہی کے نام سے پرنس آف ویلز اسکول قائم کیا جس میں لڑکوں کو صنعتی کاموں مثلاً قالین بافی، چکن کاری، خیمہ دوزی، خیاطی، سونے چاندی کے کام وغیرہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ساتھ ہی ایک مدرسۂ نسواں بھی قائم کیا جس میں ہر قسم کا سونے چاندی کا گوٹہ، پٹھا، لیس، کلابتو، کامدانی، گوکھرو، زردوزی جیسے کام سکھائے جاتے تھے۔ غریب و نادار طلبا کے لیے لباس و خوراک کے علاوہ وظائف بھی دل کھول کر دیے جاتے تھے۔ عورتوں کے لیے مخصوص شفاخانہ ’لیڈی لنسڈن‘ کے نام سے قائم کیا جس میں دایہ گری کی تعلیم کا بھی انتظام کیا گیا اور چیچک کے ٹیکے لگانے کی باقاعدہ شروعات کی۔ عوام کو ترغیب دی کہ بچوں کے یہ ٹیکے لگوائیں اور عوام کے اطمینان کی خاطر اپنی نواسی بلقیس جہاں بیگم کے ٹیکہ لگوایا۔ اس کے علاوہ جن بچوں کو ٹیکہ لگایا جاتا انہیں انعام بھی دیا جاتا۔ اپنی بیٹی نواب سلیمان جہان بیگم کی یاد میں ایک مدرسۂ سلیمانیہ بنوایا۔ اس مدرسہ کو بہت ترقی دی۔ عربی، فارسی، اردو، ہندی کے الگ الگ سیکشن قائم کیے گئے۔انگریزی تعلیم کے کلاس قائم کیے اسی کے ساتھ مدرسہ کے لیے ایک وسیع کتاب خانہ بھی بنوایا اور مدرسہ کو ترقی دے کر اسے کلکتہ یونورسٹی سے 1892 میں الحاق کرایا۔ اپنے والد کے نام پر مدرسۂ جھانگیری قائم کرایا جہاں صرف قرآن مجید کی تعلیم دی جاتی تھی۔ نواب بلقیس جہاں بیگم کی یاد میں لاوارث اور یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے ’مدرسۂ بلقیسی‘ بنوایا۔ اپنی والدہ کے نام سے اسٹیشن کے قریب ایک سرائے تعمیر کرائی۔ ڈاک بنگلوں کا قیام عمل میں آیا۔ غریب اور معذور لوگوں کی امداد کے لیے وظائف مقرر کیے گئے۔

عمارات:

          مغل بادشاہ شاہ جہاں کی طرح نواب شاہ جہاں بیگم کو بھی عمارات بنوانے کا بے حد شوق تھا جس کا ثبوت بھوپال میں ان کی تعمیر کرائی گئی عمارات سے ملتا ہے۔ ان تعمیرات کا ذکر انھوں نے ’تاج الاقبال‘ تاریخ بھوپال میں تفصیل سے کیا ہے۔ محلات میں شاہ جہاںآباد میں اپنی رہائش کے لیے اور ضروریات کے تحت ’تاج محل‘، ’عالی منزل‘ اور ’بے نظیر‘ نام سے محلات تعمیر کرائے۔ ان کی تکمیل کے لیے بے دریغ روپیہ صرف ہوا۔ تاج محل نواب شاہجہاں بیگم کا خاص محل تھا جس میں متعدد کمرے تھے۔ ہر کمرے کا رنگ مختلف تھا اور اسی رنگ کی مناسبت سے فرنیچر آراستہ کیا گیا تھا۔ اس محل میں ایک عمارت ’ساون بھادوں‘ کے نام سے تیار کرائی گئی تھی جو تفریح گاہ تھی۔ ’عالی منزل‘ سے باہر اپنی دلچسپی کے لیے ایک زنانہ بازار بنوایا تھا جس کا نام ’پروین بازار‘ رکھا۔ ان عمارات کے اطراف میں نواب منزل، بارہ محل، میر گنج، قیصرگنج، مغل پورہ، خواص پورہ و فیروز پورہ چند محلے آباد کیے۔ عام رعایا کو بھی مکانات بنانے کی ترغیب دی۔

شاہ جہاں بیگم نے مساجد کی تعمیر میں بھی بے حد دلچسپی لی۔ عظیم الشان مسجد ’تاج المساجد‘ کے نام سے تعمیر کرائی۔ یہ مسجد دہلی کی جامع مسجد کے طرز پر بنائی گئی۔ مذہبی امور کا ایک جدید محکمہ قائم کیا، جس کے تحت شہر کی مساجد کو پختہ کرایا گیا۔ ہر مسجد میں امام، مؤذن، جاروب کش مقرر کیا گیا۔ مسجد میں گرم پانی، روشنی کا مناسب انتظام کیا گیا۔ ماہ رمضان میں نماز تراویح کااہتمام،حفاظ کو انعام اور ختم تراویح پر شیرینی اور کھانا تقسیم ہوتا اور تمام خرچ ریاست کی طرف سے کیا جاتا۔

حصول ثواب اور رد بلا کے لیے ایک ختم خانہ قائم کیا گیا۔ جس میں متعدد اشخاص صرف اس لیے ملازم رکھے کہ کچھ خاص اوقات پر قرآن پاک کی تلاوت کریں اور احادیث نبوی کا ورد ریں۔

          نواب شاہ جہاں بیگم نے مختلف ریاستوں، شہروں کے سفر کیے اور نئے نئے تجربات حاصل کیے۔ 1876 میں دہلی تشریف لے گئیں جہاں لارڈ لنٹن نے ’تاج ہند‘ کا تمغہ اور ایک نشان عطا کیا۔ 1900 میں کینسر کا مرض لاحق ہوا اور تقریباً ۱۱ ماہ اس مہلک بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد 28 صفر 1319ھ /16 جولائی 1901 کو63 سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کیا۔

عادات و اطوار:

شاہ جہاں بیگم کی طرز زندگی ہندوستان کی قدیم بیگمات کی طرح تھی مگر طبیعت میں سادگی تھی۔ خانہ داری، دستکاری اور ہنر سے خاص دلچسپی تھی۔ ان کا حافظہ قوی، ذہن تیز اور سیکھنے کی لگن تھی۔ شعر و شاعری کی طرف بچپن  سے ہی طبیعت مائل تھی۔ یہ شوق ان کو اپنے والد کی طرف سے ملا تھا۔ مذہبی امور اور فرائض کی سخت پابند تھیں۔

تصنیف و تالیف:

          نواب شاہ جہاں بیگم نہ صرف ایک اچھی حکمراں بلکہ بیدار مغز قلم پرور، ہمہ صفت ادیبہ و شاعر ہ کی حیثیت سے منفرد مقام کی حامل بھی تھیں۔ انھوں نے نثر و نظم، تاریخ و لغت جیسے متنوع موضوعات پر اپنے قلم کے جوہر دکھائے اور علم و ادب کی سرپرستی میں بھی غیر معمولی حصہ لیا۔ نواب امیر الملک والاجاہ سے شادی کرنے کے بعد تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ ہوئیں۔

منثور تصانیف:

1۔ تاج الاقبال: تاج الاقبال یا تاریخ بھوپال مشہور کتاب ہے جو انھوں نے نواب صدیق حسن خان کی فرمائش پر لکھی۔ اس کتاب میں سردار دوست محمد خان، بانی ریاست بھوپال کے حالات سے لے کر شاہ جہاں بیگم کی حکومت کے ابتدائی 4 سال تک کے حالات درج ہیں۔ یہ کتاب 11 فرمانروایان بھوپال کی جن کا زمانہ حکومت 1160ھ سے شروع ہوتاہے، ایک مکمل تاریخ ہے۔ اس میں 169 سال کے تمام حالات نہایت تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ آخر میں چند ضمیمہ جات ہیں جن میں اپنے زمانے کے دفاتر و محکمہ جات کی تفصیل، جاگیروں کے حالات، گوشوارہ مردم شماری، مساحت، شرح پرگنہ جات و قصبات کے حال، غلہ ومیوہ جات کی پیداوار، ریاست کے خیر خواہوں کا تذکرہ وغیرہ نہایت وضاحت کے ساتھ درج ہیں۔ خاتمہ کلام میں لکھتی ہیں کہ ہم نے 1281ھ تک کے حالات لکھ کر کتاب کو مکمل کیا ہے اور آئندہ کے لیے اس تاریخ کا چوتھا دفتر یا حصہ لکھنا ہمارے ذہن میں ہے۔

جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ یہ کتاب نواب صدیق حسن خان کی فرمائش پر نواب شاہ جہاں بیگم نے لکھی۔ کتاب کے آخر میں نواب صاحب نے خاتمہ لکھا ہے جس میں وہ تاج الاقبال کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مصنفہ نے واقعات جوں کے توں لکھے ہیں۔ وہ رقمطراز ہیں کہ یہ تاریخ اس لائق ہے کہ موجودہ اور دوسری ریاست کے حکمران اس کو اپنے لیے مشعل راہ اور دستور العمل سمجھیں اور رئیسہ بھوپال کی انتظامیہ، صفات و بندوبست سے عبرت حاصل کریں اور اپنے بگڑے کام کی تدابیر اس کتاب سے سیکھیں اور دیکھیں کہ اس چھوٹی سی کتاب میں کیسے کیسے نگرانی کے بڑے بڑے مطالب بیان کیے گئے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ اگر چہ یہ کتاب مختصر ہے لیکن اگر اسے نوجوان پڑھیں تو ان کو ملکداری کی عقل آئے گی اور بزرگ اس کو سمجھیں تو ان کی ہوشیاری میں مزید اضافہ ہوگا۔

تاج الاقبال کا اردو و انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

2۔ تہذیب النسواں و ترتیب الانسان: یہ کتاب امور خانہ داری کی تعلیم کے لیے نہایت مفید اور کار آمد ہے۔ اس میں عورتوں کے امراض، ادویہ، ولادت، گھٹی، عقیقہ، تقریبات، غذا و لباس، بیماری و علاج، منت، نذر، توہمات، ادعیہ، گھر کی آرائش، زیورات، تعلیم، فنون، سپہ گیری، کھانا پکانا، کپڑا رنگنا، کپڑا سینا، ازدواج، حقوق الزوجین، طلاق و خلع، عدت، تیماردای، تعزیت، موت، تجہیز و تکفین، سوگ، خیرات وغیرہ کا بہ حوالہ احادیث نہایت عمدگی کے ساتھ سلیس عبارت میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ نواب سلطان جہاz بیگم ’حیات شاہجہانی‘ میں لکھتی ہیں کہ تمام پڑھی لکھی عورتیں اس کتاب کا مطالعہ کریں اور اسے اپنا دستور العمل بنائیں۔ اس کتاب کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ کئی بار شائع کرا کر تقسیم کی گئی۔

3۔ خزینۃ اللغات: اس کتاب میں ۶ زبانوں یعنی اردو، فارسی، عربی، سنسکرت، انگریزی، ترکی کے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار الفاظ درج ہیں۔ پہلے اردو کے الفاظ حروف تہجی کے مطابق ایک خانہ میں اور پھر فارسی، عربی، سنسکرت، انگریزی، ترکی  الفاظ علی الترتیب بالمقابل پانچ جدا جدا خانوں میں لکھے گئے ہیں۔ سنسکرت، انگریزی الفاظ فارسی خط میں تحریر ہونے کے علاوہ انھیں زبانوں کے رسم الخط میں بھی لکھے گئے ہیں تا کہ تلفط میں آسانی ہو اور صحت بھی رہے۔

مطبع شاہجہانی:

          نواب شاہ جہاں بیگم علم کی قدردان تھیں اور علمی کاموں میں فراخ دلی کے ساتھ حصہ لیتی تھیں۔ اشاعت و تعلیم کی ترقی کے لیے انھوں نے پریس کو ترقی دی اور مخصوص مطبع بنام مطبع شاہجہانی تعلیمی کتابوں کے لیے مخصوص کرایا۔ اس مطبع میں ’عمدۃ الاخبار‘ بھی شائع ہوتا تھا جس میں سرکاری گزٹ اور انگریزی اخبارات سے خبروں کے علاوہ بھوپال کے حالات، علمی مضامین وغیرہ درج ہوتے تھے۔

اس مطبع میں کلام مجید نہایت اہتمام اور صحت کے ساتھ طبع کرایا جاتا تھا۔ ادب، عربی زبان، فقہ وغیرہ سے متعلق بھی کتابیں شائع ہوتی تھیں۔ انھوں نے مذہبی علوم کی اشاعت کی طرف خاصی توجہ دی۔ اولوالعزمی کے ساتھ نہایت نایاب کتابیں جو تقریباً مفقود ہو چکی تھیں مثلاً فتح البیان، تفسیر ابن کثیر، فتح الباری، نیل الاوطار، شرح صحیح بخاری، نزل الابرار وغیرہ شائع کرائیں۔ شمع انجمن، صبح گلشن، روز روشن، اختر تاباں، تذکرۃ الخواتین جیسے فارسی کے اہم تذکرے شائع ہوئے۔

شاعری:

چوں کہ ان کے والد نواب جہانگیر محمد خان صاحب بہادر کا شعری ذوق اچھا تھا، وہ شعر و شاعری سے دلچسپی رکھتے تھے، اس لیے شاہ جہاں بیگم کی طبیعت میں بھی شاعری کا عنصر نمایاں تھا۔ اردو میں پہلے ’شیرین‘ پھر ’تاجور‘ تخلص اختیار کیا۔دو مطبوعہ دیوان ’تاج الکلام‘ اور ’دیوان شیرین‘ شائع ہو چکے ہیں۔’ حیات شاہجہانی‘ میں نواب سلطان بیگم رقمطراز ہیں :

’’ مجھے بہت شک ہے کہ ان دیوانوں میں کل غزلیں وغیرہ ان کی ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ وہ شاعرہ تھیں لیکن نہ ایسی فرصت تھی اور طبیعت کا یہ رنگ تھا کہ ایسے عامیانہ مذاق میں، جو ان دیوانوں میں جا بجا پایا جاتا ہے، وہ شعر و سخن کہیں۔ ان کی تہذیب کا معیار نہایت اعلی تھا۔ ان کے ہر فعل و قول میں کامل متانت بھری ہوئی تھی۔ وہ کوئی سوقیانہ بات کبھی منہ سے نہیں نکالتی تھیں۔ یہ صحیح اور بالکل صحیح معلو م ہوتا ہے کہ بعض درباری لوگوں نے ، جو رسوخ یافتہ تھے، ان کے نام سے ایسی غزلوں او راشعار کو مستزاد کرکے طبع کرایا اور سرکار عالیہ (شاہجہاں بیگم ) اپنی خلقی مروت و چشم پوشی سے خاموشی اختیار کرلی یا ان کے ملاحظہ میں دیوان پیش نہ ہوئے۔‘‘

(ص150)

          منظوم تصانیف میں ایک مثنوی ’صدق البیان‘ ہے۔ اس مثنوی میں پہلے قدیم افلاک کی حالت، بروج کی اشکال، موسم کی تبدیلی کے اسباب جو اثرات بروج سے پیدا ہوتے ہیں، زمین کی ماہیت اور فصلوں کی پیداوار کا ذکر، ہندوستان کی زمین کی کیفیت، کھیل تماشے، میلے،مختلف تہوارجیسے دسہرہ، بسنت، دیوالی وغیرہ کا ذکر،بادشاہ تیمور اور راجہ پتھورا کی جنگ میں تیمور کی فتح یابی، اس کا جشن فتح، بابر، شاہجہاں کا ذکر، دہلی کی عمارات، جشن کے علاوہ اس مثنوی میں ہندوستان کی جغرافیائی اور طبعی حالات او رقدیم معاشرے کا بہت عمدہ ذکر کیا گیا ہے۔  

نواب شاہ جہاں بیگم نے فارسی میں بھی شعر کہے۔ ان کے احوال اور اشعار تاج الاقبال اور مختلف تذکروں مثلاً اخترتاباں، تذکرۃ الخواتین، روز روشن، شمع انجمن، نگارستان سخن، صبح گلشن، زنان سخنور، ماہ درخشان، طور کلیم وغیرہ میں ملتے ہیں۔ اردوو کے چند اشعار درج ذیل ہیں:

مہربان ہوگا جو وہ رشک قمر آپ سے آپ

دیکھنا آئے گا بیشک مرے گھر آپ سے آپ

 

گرمجوشی نے جو اس مہر کی کی ہے تاثیر

خشک ہونے لگے ان دیدۂ تر آپ سے آپ

آتش عشق کو سینے میں چھپائیں کب تک

دل میں ہے سوز تو نکہیں گے شرر آپ سے آپ

 

اس سبب سے میں ان میں شمس و قمر دیکھتا ہوں

میرے گھر آتے ہیں وہ شام و سحر آپ سے آپ

 

اشک باقی نہ رہا ہجر میں روتے روتے

اب نکلتے ہیں مے لخت جگر آپ سے آپ

 

اختلاط آپ کا بڑھتا ہے رقیبوں سے مدام

دیکھو مر جائے نہ یاں کوئی بشر آپ سے آپ

 

شعر شیریںکی و ہ بندش ہے کہ کٹتے ہیں عدو

کس کو ملتی ہے بھلا ایسی ظفر آپ سے آپ

منابع و مآخذ:

1۔تاج الاقبال، تاریخ بھوپال، شاہجہاں بیگم، مطبع نظامی، کانپور، 1889

2۔ تاریخ ادب اردو، رام بابو سکسینہ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 2012

3۔ تذکرہ اختر تاباں، ابوالقاسم محتشم، مطبع شاہجہانی، بھوپال، 1299ھ

4۔ تذکرہ روز روشن، محمد مظفر گوپاموی، مطبع شاہجہانی، بھوپال، 1297ھ

5۔ تذکرہ شمع انجمن، سید محمد صدیق حسن خان، مطبع شاہجہانی، بھوپال، 1292ھ

6۔ تذکر ہ صبح گلشن، سید محمد علی حسن، مطبع شاہجہانی، بھوپال، 1295ھ

7۔ تذکرہ طور کلیم، سید نور الحسن خان، ، مطبع مفید عام ، آگرہ،1298ھ

8۔ حیات شاہجہانی، نواب سلطان بیگم، مطبع مفید عام ، آگرہ،1916




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں