16/11/21

سلطان حیدر جوش علیگ کا افسانہ ’اتفاقات زمانہ‘ - مضمون نگار: شہزاد بخت

 




سلطان حیدر جوش علیگ صاحب  (ولادت: 1886، وفات: 1946) کا شمار افسانوی تاریخ میں ہراول دستے کے سپاہیوں میں ہوتا ہے۔ آپ نے اردو ادب میں اپنی معتددتصنیفات مختلف اصنا ف سخن کے حوالے سے گرانقدر اضافے کیے ہیں جن میں  ہوائی، صبر کی دیوی، نواب فرید اور ابن مسلم، نقش و نقاش( ناول )،فسانہ جوش (مضامین و افسانے )، اصلاح سخن،  ہیری  وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ افسانوں میں  مسٹر ابلیس، ہاں! نہیں، خواب و خیال، نقیب، جذب دل کی دو تصویریںاور اتفاقات زمانہ  وغیرہ ہیں۔  آپ کے دورکو رومانوی افسانوں کے دور سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور آپ منشی پریم چند کے معاصرین میں شمار کیے جاتے ہیں۔

موصوف کے قلم سے نکلا ہوا ایک افسانہ ’ اتفاقات زمانہ ‘ ( مطبوعہ ’الناظر‘ ماہ جون 1914، (’فسانۂ جوش ‘ مطبوعہ دارلناظر پریس لکھنؤ 1926،ص 89 تا 103) کا تجزیہ پیش ہے جو تقریباً ایک صدی قبل شائع ہوا بعد ازاں اسے فسانۂ جوش میں شامل کیا گیا ہے۔ اس رومانوی دور کے افسانے میں محبت واختیارات ان کے بدلتے محور ، خواتین کی نفسیات، نسوانیت کی باہم حرص و حسد، نسائی جذبات، احساسات اور توقعات کی بہترین عکاسی قابل دید اور مصنف کے گہرے مشاہدے اور حافظے کی آئینہ دار ہیں۔ یہ افسانہ تکنیک کے اعتبار سے مکمل بیانیہ اور واحد متکلم کی زبانی انداز تحریر پر مبنی ہے۔ اس دور کے افسانوں کا یہی طریق خاص تھا۔ بعدازاں اہل مغرب کی تقلید میں مکالمے اور ان کے بین السطور کے حوالے سے نظریے کی ترسیل کے ذرائع کے طورطریقے اپنائے گئے۔ مگر یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ مذکورہ افسانے کی اولین اشاعت 1914  ہے جب تک رومانوی تحریک کا ہی زور قائم تھا اور ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کی تخم ریزی اور کونپل آوری سب بعد کے قصے ہیں۔

افسانے کا محور/ نقطۂ نظر

مذکورہ افسانے میں عام روایت سے انحراف اور مزاج میں بغاوت کے اثرات ہیں جو مصنف سلطان حیدر جوش کی شخصیت و افکار کا خاصہ تھے۔ وہ بنیادی طور پر انقلابی سوچ اورآزادانہ طرز فکر کے دلدادہ تھے۔ ان کے خیالات کا عکس صاف طور پر ان کی تخلیقات میں بھی جابجانظر آتا ہے۔ ان کے افسانے ’اتفاقات زمانہ ‘ میں ایک ایسی مشہور و معروف دکان ’عزیز اینڈ اسماعیل جنرل اسٹورس‘ کا ذکر ہے جس سے بمبئی کا بچہ بچہ واقف ہے اس کا مالک اپنی دکان میں عموماً بجائے مرد ملاز مین رکھنے کے اہل مغرب کی تقلید میں خواتین ملاز مین کو مامور کرتا تھا۔ اس دکان پر عموماً زنانہ ساز و سامان آرائش و زیبائش فروخت ہوتے تھے۔ اس دکان کے داخلی امور میںجہاں رضیہ جو مرکزی کردار کی مد مخالف ہے وہ تو نقدکی وصولی پر مامور تھی۔ ادھر افسانے کامرکزی کردار حمیدہ لیس ، بیل اور فیتے وغیرہ فروختگی کی نگراںتھی۔ دکان میں غالب سرمائے کے مالک عبدالعزیز کی سفارش کردہ حمیدہ ہے اور کمزرور شریک  اسمعیل سیٹھ کی عزیزہ اور سفارش کار رضیہ ہے۔ ان دونوں میں حمیدہ کو رضیہ سے وہ ازلی نسائی رشک و حسد پیدا ہوگئی تھی جو عمومی طور خواتین میں باہمی طور پرپائی جاتی ہے۔ جسے سلطان حیدر جوش کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔

’’ عبدالعزیز کی زندگی میں کئی بار ایسا ہوا کہ حمیدہ نے رضیہ کے لباس پر اس کی طرز رفتار و گفتار پر نکتہ چینی کی۔ ایک مرتبہ اگر حافظہ غلطی نہیں کرتا تو یہاں تک ہوا کہ حمیدہ نے رضیہ کی ریشمی ساڑھی کے باندھنے کے طریقے  پر اس کے سامنے دوبدو نقص نکالا۔ لیکن اب جبکہ عبدالعزیز کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئی تھیں تو وہ اپنے آپ کو کمزور اور بے یار و مددگار پا تی تھی۔ سچ یہ ہے کہ رقابت اور رشک و حسد کا جذبہ مجھے اس سے بحث نہیں کہ اچھا ہے یا برا ، صنف نازک میں بہت جلد مشتعل ہوجاتا ہے۔ میں پورے طور پر نہیں کہہ سکتا کہ ایک نوجوان عورت میں دوسری نوجوان عورت سے کن کن باتوں میں رشک یا حسد پیدا ہوتا ہے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ اس طبقے میں رشک و رقابت کے شعلہ زن ہونے کے ہزاروں بلکہ لاتعداد طریقے ہیں۔حسن و محبت کے چولہے میں ڈالیے، زیور،  لباس، تمول،  طرز گفتار اور خدا جانے کیا کیا چیزیں ہیں جن پر فوراً شعلے کی طرح جذبۂ رقابت و حسد بھڑک اٹھتا ہے۔ ‘‘

 ( مطبوعہ ’الناظر ماہ جون 1914، /(’فسانۂ جوش ‘ مطبوعہ دارلناظر پریس لکھنؤ 1926، ص 90)

پلاٹ

افسانے کا پلاٹ سادہ اور منظر نامے کا بیشتر حصہ ایک مشہور و معروف دکان کے داخلی معاملات پر منحصر ہے۔  افسانے کی ابتدا عبدالعزیز کی موت کے بعد حمیدہ کی ذہنی کیفیت،  عدم تحفظ اور نسوانی حسد و رقابت، بغض و عناد اور رشک اور حرص جیسے جذبات کے اظہار سے ہوتی ہے۔ ان دونوں میں حسد و رقابت کا سبب سوئے اتفاق روایتی طورپر کسی مرد ذات کے سبب نہیں بلکہ ان شرکائے تجارت افراد کی مالی شمولیت کی شراکت کے تناسب پر ہوتی ہے۔ حمیدہ کی ملازمت عبدالعزیز کی مرہون منت تھی اس کے برعکس رضیہ کی ملازمت اور خون کی رشتے کی نسبت اسمعیل سے تھی جس میں غالب حصہ عبدالعزیز کا تھا اور اسمعیل کا حصہ نسبتاً کم تھا۔ مگر جہاں تک ان کے کام کی نسبت ہے حمیدہ کو خواتین کی  اشیائے زیبائش اور آرائش کی فروختگی کی نگراں  کے طور پر مقرر کیا گیا تھا اور رضیہ نقدی کی وصولی پر مامور تھی  اور حمیدہ کے سارے حسد و رقابت کی جڑ یہیں پیوست تھی۔ ایک گاہک کے آنے پر دونوں میں معمولی بات پرتنازعہ ہوجاتا ہے جس پر اسمٰعیل حمیدہ کی سرزنش کرتا ہے مگر اچانک مقیط کے منظر نامے میں بطورعبدالعزیز کے بھتیجے اور اکلوتے وارث کے داخلے سے افسانے کی فضا تبدیل ہوجاتی ہے۔ مقیط نہ صرف کاروبار کی ترقی میں دلچسپی لیتا ہے بلکہ  خواتین پر مشتمل عملے میں بھی یکساں دلچسپی رکھتا ہے، بارش کے دنوں میں اپنے ہی عملے کی خاتون سارہ سے اتفاقی تصادم سے رومان پرور ماحول تیار ہو جاتا ہے۔ مقیط کے تیار کردہ منصوبے کے مطابق حمیدہ سارہ کو نہ صرف ہوٹل میں طعام کی دعوت دیتی ہے جہاں مقیط سے ملاقات پھر گاڑی میں سوار ہو کر سنیما بینی اور گھر تک پہنچانے میں جو اتفاقات کا سلسلہ سامنے آتا ہے اور یہی ا تفاقات کا سلسلہ ا فسانے کے عنوان اتفاقات زمانہ کا موجب بنا۔

رومان پرور منظر نگاری

’’ ایک روز آفتاب ابر غیظ کا اسیر ہوگیا تھاہوا ٹھنڈی چل رہی تھی اور بارش ہلکی ہلکی پھوار کی صورت میں برابر جاری تھی اور ایسا سماں تھا جس سے نوخیز طبیعت میں خوامخواہ رہ رہ کر گدگدی خود بخود محسوس ہونے لگے۔ ایسی بوندا باندی میں خریداروں کا ہر روز کے موافق آنا تو بس معدوم، اس لیے دکان کے متعلقین تقریباً بیکاری میں وقت گزارہے تھے۔ مقیط آفس سے نکل کر ہال میں آیا۔ وہاں سے ٹہلتا ہوادروازے تک پہنچا وہ بھی اس وقت ایک سگار سلگائے ایک ہاتھ پتلون کی جیب میں ڈالے ہال سے دروازے تک اور دروازے سے ہال تک برابر ٹہل رہا تھا۔ کبھی کبھی حمیدہ کی میز کے پاس ٹھہر کر دو ایک باتیں کر لیتا تھا۔ ورنہ زیادہ تر سگار کے راکھ بنانے میں دھواں دھار کوشش کررہا تھا۔ اس وقت اس کی طبیعت پر بھی بھیگی ہوئی ہوا کا پورا پورا اثر تھا۔ وہ کچھ کہتا بھی تو مذاق آمیز لہجے اور تبسم نما دہانے کے ساتھ کہتا نہ صرف حمیدہ سے بلکہ کئی ایک سے اس نے خطاب کیااور جن الفاظ میں بلکہ جن تیوروں کے ساتھ اس کو جواب ملا وہ افسوس ہے کہ میری کم علمی کی وجہ ہے تحریر کے محدود دائرے میں نہیں آسکتا۔ ‘‘

 ( مطبوعہ ’الناظر ماہ جون 1941، (’فسانۂ جوش ‘ مطبوعہ دارلناظر پریس لکھنؤ،1926،ص102)

کردار نگاری

افسانہ ’اتفاقا ت زمانہ ‘میں حمیدہ اوررضیہ کے کردار کے حوالے سے نسوانی جذبات کی عکاسی اس قدر فنکاری سے کی گئی ہے کہ فی زمانہ بھی اس کی تازہ مثال ہمارے اپنے گردو نواح میں کہیں بھی عام مشاہدے کی بات ہے۔ دکان کی دیگر خادمائیں جوں جوں طاقت یا اختیار کا محور تبدیل ہوتے دیکھتی ہیں وہ بھی اسی روش پر چل پڑتی ہیں۔ جس سے انسانی نفسیات میں موجود عدم تحفظ، خود غرضی اور مطلب پرستی جیسے جذبات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ مرحوم عبدالعزیز کے بھتیجے مقیط کا تعلیم کو درمیان میں خیر باد کہہ کر اپنے کاروبار میں شامل ہونا انسان کے حریص اور علم کی بجائے دولت یا اختیار کا طلبگار ہونے کا ترجمان ہے۔  اسمعیل کا حمیدہ پرمعمولی تنازعے کے ضمن میں یوں سب کے سامنے سرزنش کرنا اور ر ضیہ کی بلا واسطہ حمایت گویا اقربا پروری اور انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ سارہ کی معصومیت، کم عمری اور فطری انصاف پسندی اسے سارے عملے میں بھی ممتاز اور الگ رکھتی ہے جو حمیدہ کی حمایتی اور طرفدار ہوتی ہے۔ مگر قسمت جس پر مہربان ہو تو وہ شخص سکۂ رائج الوقت بن کر چمکتا ہے اور دیگر افراد اسے فرط رشک و حیرت و استعجاب سے دیکھتے ہیں۔ حمیدہ کی خود غرضی  یہ ہے کہ وہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت نہ صرف مقیط کے منصوبے کو عملی جامہ پہناتی ہے بلکہ ان کے ساتھ سیر سپاٹے ، فلم بینی اور طعام کا بھی لطف اٹھاتی ہے اور ان دونوں کی ملاقات میں ثالث کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔تاہم مقیط سے شادی کے بعد وہ سارہ کی ثالثی سے ہی رضیہ سے اپنے اختلافات، منافقت، حسد و رقابت، رشک کو نہ صرف ختم کردیتی ہے بلکہ ان تینوں میں اتحاد و اتفاق بھی قائم ہوتا ہے۔ مصنف کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔

’’ اس کے پورے دو مہینے بعد رضیہ اورحمیدہ کے نفاق کا خاتمہ ہوااور وہ بھی محض اتفاق سے ایسے نہ مسز مقیط جن کو دو مہینے پیشتر صرف سارہ کہا جاتا تھا بیچ میں پڑتیں اور نہ اس جنگِ رقابت کا خاتمہ ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت سے حمیدہ ، رضیہ ، سارہ میں ایسا اتحا د قائم ہوگیا ہے جو یورپ کے اتحاد ثلاثہ سے کہیں زیادہ مستحکم اور سچائی پر مبنی ہے۔ ‘‘

 ( مطبوعہ ’الناظر ماہ جون 1914، (’فسانۂ جوش ‘ مطبوعہ دارلناظر پریس لکھنؤ 1026، ص 103)

افسانے میںرومانیت کا عنصر

افسانے میں رومانوی تحریک کے حوالے سے رومانی عناصر جابجا فراوانی سے نظر آتے ہیں۔ ان میں خوبصورت تشبیہات و استعارات اور بلیغ تلمیحات سے افسانے کو مزین کیا گیا ہے۔ خوبصورت منظر نگاری کے طفیل گو افسانہ اپنی ابتدائی کیفیات میںبھی دلکش اور دلچسپ معلوم ہوتا ہے اور کردار نگاری کے حوالے سے انسانی فطرت کی مرقع کشی کا مظہر ہے۔

’’یہ وقت اور یہ کیفیت تھی جبکہ دروازے کے قریب کسی کے بے تحاشہ بھاگتے ہوئے سیڑھیوں پر چڑھنے کی آواز آئی۔ مقیط ٹہل تو رہا ہی تھا۔قدم بڑھاتا ہوادروازہ میں تھاکہ رکتے رکتے بھی بھاگ کر آنے والے سے ٹکرا گیا۔ اب ایک عجیب قوت مدافعانہ کے ساتھ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے مگر نظریں مل گئیں۔ آنکھیں لڑ گئیں مقیط ایک ناقابل بیان حیرت کے ساتھ جس میں حیرت کے ساتھ ہی ایک جذبہ بھی جھلک ماررہا تھا۔ سامنے والی تصویر ِ انسانی کو دیکھ رہا تھااور سارہ کیونکہ یہ آنے والی وہی تھی۔ خدا جانے کس خیال سے اپنی لڑجانے والی نگاہوں کو پلکوں کی زنجیروں میں باندھ کر زمین پر گرا دینا چاہتی تھی۔ اس کے بال کھلے ہوئے تھے ریشمی ساڑھی کا آنچل ڈھلک کر… شانوں کی روک تھام سے گرنے سے بال بال بچ گیا تھا۔ بے تحاشہ دوڑنے کی وجہ سے غیر معمولی سرخی چہرے پر دوڑ گئی تھی۔ چھتری جو ایک ہاتھ میں تھی سیدھے کاندھے پر گرگئی تھی اور وہ کیفیت جو اس وقت یکایک مقیط سے ٹکرا جانے سے پیدا ہوئی تھی وہ سونے پر سہاگہ کاکام کررہی تھی۔ میں یہ نہیں کہ سکتا کہ کیوپڈ کا تیر کون سی ادا کی صورت میں ترازو ہوا۔لیکن ضرور ہوا۔ ‘‘

 ( مطبوعہ ’الناظر ماہ جون 1914/  (’فسانۂ جوش ‘‘ مطبوعہ دارلناظر پریس لکھنؤ1926،  ص 100)

رومانیت کا مظاہرہ ایک اور مقام پر قابل دید ہے جب تینوں کردار طعام اور بائیسکوپ سے فارغ ہوتے ہیں تو مقیط پہلے حمیدہ کو اس کے گھر  چھوڑ کر وہاں سے پیادہ پا سارہ کے ہمراہ اس کے گھر کی طرف چل پڑتا ہے جو ایک پارک اور چند مکان کے فاصلے پر واقع تھا۔ اس دوران ان میں کیا قول و قرار ہوا مصنف کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔

’’تماشہ ختم ہوتے ہی اسی گاڑی میں مقیط نے پہلے حمیدہ کو اس کے گھر تک پہنچایا اور وہاں سے گاڑی چھوڑ کر پیادہ پا سارہ کو پہنچانے اس کے گھر چلاکیونکہ سارہ اور حمیدہ کے مکان میں صرف دو تین مکان اور ایک چھوٹا سا پارک حائل تھا سارہ نے مقیط کو اس تکلف سے باز رکھنے کے لیے بہت کچھ کہا مگر مقیط کو خدا جانے اس تکلف میں کیا لطف تھا وہ نہ مانا۔ راستے میں جو معمولی باتیں خاص جذبہ لیے ہوئے لہجے بن ہوتی رہیں ان کا بیان کرنا قریب قریب فضول ہے۔ پارک میں نارنگی کے درخت کے نیچے ٹھہر کر جو باتیں ہوئیں ان کا پتہ نہ یہاں ہے نہ وہاں ہے تمام راوی اور کل مؤرخ اس گفتگو کی نسبت اپنی معلومات کی شعاع ڈالنے سے قاصر ہیں البتہ ایک سودائی شخص کی زبانی اس قدر معلوم ہوسکا ہے کہ گفتگو کسی لحاظ سے بھی عجوبہ یا نرالی نہیں تھی۔ آج سے ہزار پیشتر ایک جوان گڈریہ بانسی بجانے والے گڈریے نے ایک نو عمر لڑکی کے درمیان جو اپنے گھوڑوں کو پانی پلانے آئی تھی دریائے فرات کے کنارے پر قریب قریب یہ ہی واقعہ پیش آیا تھاالفاظ اور زبان میں چاہے فرق ہو لیکن جذبات فرات کے کنارے بانسی بجانے والے گڈریے کے تھے۔‘‘

 ( مطبوعہ ’الناظر‘ ماہ جون 1914/ (’فسانۂ جوش ‘ مطبوعہ دارلناظر پریس لکھنؤ 1926، ص103)

 افسانے میں طنز کا عنصر

سلطان حیدر جوش کے ہاں افسانوں میں گہری طنز نگاری کا زبردست اسلوب پایا جاتا ہے بلکہ یہی موصوف کی شناخت ہے۔ ہر چند کہ درج ذیل اقتباس افسانے میں فلسفیانہ ثقالت اوربوجھل پن کا سبب تسلیم کیے گئے ہیں جو کہانی کے فطری بہاؤ اور وحدت تاثر میں رخنہ اندازی کی وجہ بنتے ہیں۔ تاہم یہ مصنف کے اس دورکے حالات کی منظر کشی وقیع مشاہدات، محسوسات اور تجربات پر مبنی ہیں جوسرمایہ دارانہ نظام کی اساس، طبقہ واری فرق اور استحصال کی ذہنیت پر گہرے طنز کے حوالے سے مصنف نے اس دور کی سرمایہ دارانہ طرز فکر پر کاری چوٹ کی ہے۔ جہاں انھوں نے انسانی مزاج کی خود غرضی، چڑھتے سورج کو سلام کرنے کے رجحانات ، طاقت کے بدلتے محور اور سائنس کی اندھی تقلید تمام اہداف کو اختصار کے ساتھ ایک ہی تیر سے ترازو کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ موصوف کے الفاظ میں اقتباس پیش ہے۔

’’ دنیا فانی اور ناکارہ ہو یا نہ ہو۔ لیکن ظاہر پرست اور مطلب پرست ضرور ہے۔ جس قدر دقیانوسی استقلال اور جہالت آمیز جوش گھٹتا جاتا ہے اسی قدر مطلب پرستی اور طاقت پرستی بڑھتی جاتی ہے۔ موجودہ مہذب تعلیم یافتہ دنیا سائنس کو اپنا مذہب سمجھتی ہے اور سائنس یہ صاف طور پر بتاتی ہے کہ دو طاقتیں جب ایک دوسرے سے ٹکرائیں گی تو زبردست یقیناً کمزور کو پسپا کردے گی۔ اب کوئی وجہ نہیںکہ مہذب دنیا ہمیشہ طاقتور کا ساتھ نہ دے۔ کیونکہ کمزور کی حمایت لینا نہایت غیر فطری اور اصولِ سائنس کے خلاف ہے۔ کمزور ہستی کو جس قدر جلد دنیا سے خارج کردیا جائے اسی قدر اچھا ہے۔ کیونکہ یہ مانا جاتا ہے کہ کمزور کا وجود مستقبل کے لیے ضرر رساں ہے۔وہ جب تک زندہ ہے کمزوری کی وبا پھیلاتا رہے گا اور کمزوری کا بیج بوتا رہے گا۔ اس کی نسل اس سے بھی زیادہ کمزور ہوگی۔ اس لیے نہایت محفوظ اور موجودہ طریقہ یہ ہے کہ کمزور ناچار کا بیج ہی دنیا سے اڑا دیا جائے۔ ‘‘

 ( مطبوعہ ’الناظر‘ ماہ جون 1914/ (’فسانۂ جوش ‘ مطبوعہ دارلناظر پریس لکھنؤ 1926، ص94)

مکالمہ

ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کی ہر دو تحریکات کے زمانے میں افسانوں کے اجزائے ترکیبی میں مکالمہ بھی ایک اہم اور لازمی جزو ہے مگر ایک صدی قبل جب افسانہ نگاری کی ابتدا ہوئی تب  افسانہ تکنیک کے اعتبار سے واحد متکلم کے انداز بیاں پر مبنی ہوتا ہے۔ لہٰذا افسانے کی ابتدائی ہیئتوں میں بیانیہ اور خصوصاً واحد متکلم کی تکنیک ہی رائج تھی جس میں منظرنگاری ، انشا پردازی اور مصنف کے عندیے و نظریے نیز مافی الضمیر کی ترسیل خود ہی کرنی پڑتی تھی۔ جبکہ بعد کے ادوار میں مصنف کے عندیے اور مافی الضمیر کی ترسیل کا بوجھ کرداروں کے شانوں پر آن پڑا جو بڑے طویل عرصے پر محیط بہت تجربات ، مغربی انداز بیاں کی تقلید اور بہت مشقوں اور تنقیدوں کے بعد نکھر کر سامنے آیا ہے۔

زبان و بیان

سلطان حیدر کی زبان و بیان میں پرانی ٹکسالی ، با محاورہ ، تشبیہات ، استعارات ، تلمیحا ت سے آراستہ اور ماضی کے دلچسپ حوالوں سے مزین ہے اور افسانے کے بہاؤ کو قاری کی ذہنی رو سے ہم آہنگی رکھتی ہے۔ ان اوصاف کے بجز ان کی زبان میں متروک، گنجلک اور پیچیدہ الفاظ مفقود ہیں۔ حسن بیان کے ساتھ تاثر کا پہلو ہاتھ سے جانے نہیں پاتا اور قاری کو ساتھ لیے ہوئے افسانہ اختتام کو پہنچتا ہے۔

نقطۂ عروج

فی زمانہ رائج نقطۂ عروج اس افسانے میں دھیما ہے دور حاضر کی طرح اس قدر چونکانے والاتو نہیںہے مگر مجموعی تاثر اور اس زمانے کی اقدار، سوچ و فکر اور حالات کی تصویر کشی موصوف نے بڑی عمدگی و مہارت سے کی ہے۔

 

Shahzad Bakht Ansari

Pen Name:Shab Ansari

238, New  Ward, Mamletdar Lane

Malegaon- 423203

Dist. Nashik (Maharashtra)

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں