3/3/25

جلال لکھنوی کی غیر مطبوعہ داستان بالا باختر: ایک تعارف، مضمون نگار: محمد سعید اختر

 اردو دنیا، جنوری 2025

جلال لکھنوی (1834-1909) کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ شاعری کے علاوہ  لغت نویسی، تاریخ گوئی اورزبان دانی کے حوالے سے بھی ان کی اہم خدمات ہیں۔ جلال لکھنوی کو بچپن ہی سے شعرو شاعری کا شوق تھا ، جب مصرع موزوں کرنے لگے تو انھوں نے امیر علی خاں ہلال کواپنا استاد بنایا۔ اس کے بعد میر علی اوسط رشک اور آخر میں فتح الدولہ برق کے شاگرد ہوئے۔ مشاقی اور مہارت نے بہت جلد انھیں استاد شاعر کا رتبہ دے دیا۔یہاں تک کہ لوگ جلال لکھنوی سے مشورہ سخن کرنے لگے، اس زمانے کے کئی نامور شعرا جن میں آرزو لکھنوی کا نام سب سے نمایاں ہے جلال کے شاگرد ہوئے۔ اس کے علاوہ یاس لکھنوی، احسان علی خاں احسان شاہجہانپوری، وغیرہ ان کے شاگردوں میں شامل ہیں۔

جلال لکھنوی کی ایک داستان جو ’داستان بالا باختر‘ کے نام سے موسوم ہے ہنوز غیر مطبوعہ ہے۔ یہ داستان رضا لائبریری رامپور میں موجود ہے۔ جلال ایک بلند پایہ شاعر ہونے کے ساتھ داستان نویسی میں بھی ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ ’داستان بالا باختر‘ تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ لائبریری کا کیٹلاگ نمبر399۔400،401ہے۔

 جلال لکھنوی بطور شاعر مشہور ہیں۔ لکھنؤ کے ممتاز شاعروں میں انھیں شمار کیا جاتا ہے۔ دربار رامپور سے وابستگی نے انھیں مزید شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ امیر مینائی اور داغ کی صحبتوں نے فکرو فن کو مزید جلا بخشی، لیکن اس کے علاوہ بھی جلال کی ایک دنیا تھی جن پر کم توجہ دی گئی۔ جلال کی ایک حیثیت داستان گو کی ہے، رامپور انھیں اسی لیے بلایا گیا تھا، ان کے والد حکیم میر اصغر علی خاں کی دربار رامپور سے وابستگی داستان گو کے طور پر تھی، جلال بھی اسی حیثیت سے وہاں وابستہ ہوئے۔ رازیزدانی کے بقول:

’’واقعہ یہ ہے کہ جلال کے والد حکیم میر اصغر علی خان داستان گو دربار رامپور میں داستان گو کی حیثیت سے ملازم تھے۔چنانچہ رضا لائبریری رامپور کے قلمی داستانوں کے ذخیرے میں ترجمہ ایرج نامہ اس تفصیل سے یہ پہلی جلد 365 صفحوں میں دوسری جلد 351 میں تیسری 340 صفحہ قلمی 336 صفحہ قلمی اور پانچویں جلد 302 صفحہ قلمی ان کے نام سے موجود ہیں۔ اور پانچویں جلد کے آخر میں یہ عبارت درج ہے:

’’تمام شد ایرج نامہ درزبان اردو بحسن سعی احقرالعباد ہیچ مداں کج مج بیان حکیم سید اصغر علی داستان گو بحکم نواب معلی القاب محمد کلب علی خاں بہادر دام اقبالہ بروز جمعہ داد از دہم ذی الحجہ 1285ھ‘‘۔

اور بالا باختر کا ترجمہ تین جلدوں میں اس تفصیل سے ہے کہ پہلی جلد صفحہ 375 قلمی دوسری جلد قلمی صفحات 288 اور تیسری جلد قلمی صفحہ 215 حکیم سید ضامن علی جلال کے نام سے موجود ہے۔‘‘1

داستان بالا باختر چونکہ قلمی ہے اس لیے اس کے مطالعے اور تعارف کی باقاعدہ کوئی شکل نہیں ہے، چند سطروں میں تعارف یا داستان کے سلسلے میں کوئی بات ملتی ہے۔ پروفیسر محمد حسن نے داستان بالا باختر پر صرف اتنا لکھنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ کریں :

’داستان بالاباختر‘ پر بحث کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے فن داستان گوئی پر بحث کی جائے اور اس کی روشنی میں جلال کے کمالات کا جائزہ لیا جائے۔ لیکن یہ ہمارے دائرۂ بحث سے خارج ہے۔ اس لیے ان کی داستان کا تذکرہ صرف اس حیثیت سے کیا گیا ہے کہ یہ بھی جلال کی ہمہ گیرشخصیت میں ایک اور پہلو کا اضافہ کرتی ہے۔‘‘2

ڈاکٹر سہیل بخاری جلال لکھنوی کی داستان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

’’انھوں (جلال لکھنوی)نینواب کلب علی خاں کے عہد میں بالا باختر کی تین جلدیں بھی تحریر کی تھیں، پہلی جلد میں 376،دوسری جلد میں 288،تیسری جلد میں 215 اوراق ہیں۔اور تقطیع تمام جلدوں کی ساڑھے گیارہ او ر ساڑھے سات ہے۔ ان جلدوں کا ایک ایک قلمی نسخہ کتب خانہ عالیہ رامپور میں محفوظ ہے۔ 3

جلال لکھنوی نے نواب عالی جاہ یوسف علی خاں کی فرمائش پر اس داستان کو اردو قالب میں ڈھالا تھا۔ پہلی جلد میں 375ورق اور 750صفحات ہیں۔ دوسری جلد 288ورق اور 576صفحات پر مشتمل ہے۔تیسری جلد 215ورق اور 430صفحات پر مشتمل ہے۔ ان تینوں جلدوں کے کاتب خود جلال لکھنوی ہیں۔ گیان چند جین نے لکھا ہے کہ دو جلدوں کا ترجمہ جلال لکھنوی نے کیا تھا اور تیسری جلد ان کے والد حکیم میر اصغر علی نے مکمل کی تھی۔4 لیکن رضا لائبریری رامپورمیں موجود کسی بھی نسخے سے یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ اس داستان کے مولف حکیم میر اصغر علی ہیں۔ ممکن ہے کہ گیان چند جین کی نظر سے ساری جلدیں نہ گزری ہوں۔

جلال لکھنوی کی داستان نویسی پر کسی کی کوئی تحریر یا رائے اب تک سامنے نہیں آسکی ہے۔ ابھی تک داستانوں کے بہت سے مطالعے کیے جاچکے ہیں مگر قلمی داستانوں کا ایسا کوئی مطالعہ سامنے نہیں آیا ہے جس میں جلال لکھنوی کی داستان کو موضوع بحث بنایا گیا ہو۔ رازیزدانی، گیان چند جین اور ڈاکٹر سہیل بخاری نے جلال لکھنوی کی داستا ن گوئی پر ضمناً بحث کی ہے۔ رامپور رضا لائبریری کے کتب خانے میںجلال لکھنوی کہ یہ داستان غیر مطبوعہ کیٹلاگ میں موجود ہے۔ان کا ایک اور نثری رسالہ جو عروض و قوافی کے نام سے جانا جاتا ہے وہ بھی کتب خانے میں موجود ہے۔

جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ جلال لکھنوی کے والد حکیم میر اصغر علی (وفات1296ھ) داستان گو کی حیثیت سے پہلے سے ہی اپنی شناخت قائم کر چکے تھے۔  نواب آصف الدولہ کے دربارسے بحیثیت داستان گو وابستہ ہوئے۔نواب محمد سعید خاں  (1840-1855)  کے دور حکومت میں رامپور آئے اور رامپوردربار سے ان کا انسلاک بھی داستان گو کے طور پر ہی رہا۔گیان چند جین جو داستان شناس کے طور پر جانے جاتے ہیں انھوں نے اپنی کتاب (اردو کی نثری داستانیں)میں جلال کے والد میر اصغر علی کی داستانوں کی ایک فہرست درج کی ہے، اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ میر اصغر علی نے فارسی میں بھی داستانیں لکھی ہیں۔ ان داستانوں کی فہرست حسب ذیل ہیں۔

1        داستان امیر حمزہ ثانی نامکمل،

2        صندلی نامہ دو جلد مع تورج نامہ مکتوبہ 1265ھ م1848

3        داستان صاحب قران سکندر ثانی دفتر ہفتم مسمی بہ رعدالغیب مکتوبہ 1268ھ

میر اصغر علی کی فارسی تصانیف سے کہیں زیادہ اہم اردو تصانیف ہیں جو مندر جہ ذیل ہیں:

1        قصہ روشن جمال تصنیف 1273ھ158ورق واجد علی شاہ کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا۔

2        قصہ سیم تن وپری پیکر 62ورق غالباً واجد علی شاہ کی مثنوی افسانۂ عشق کی داستان ہے۔ افسانۂ عشق کے ہیرو اور اس کی محبوبہ کانام سیم تن و پری پیکر تھا۔

3        داستان غزالہ 50ورق واجد علی شاہ کی مثنوی دریائے تعشق کا قصہ۔

4        قصۂ ماہ پروین۔55ورق۔ واجد علی شا ہ کی مثنوی بحر الفت سے مرتب۔

مندرجہ بالا چاروں قصوں کا داستان امیر حمزہ یا رامپور سے کوئی تعلق نہیں۔ حمزہ کے سلسلے میں انھوں نے ذیل کی اردو داستانیں لکھیں :

5        ایرج نامہ5جلد تصنیف1868م1285ھ

6        داستان دریائے نیل و نیلم جادو و لوح گرفتن از متعلقہ ہوشربا ضخیم۔

7        داستان شمالیہ باختر

فہرست کے بعد پروفیسر گیان چند جین نے یہ بھی وضاحت کر دی ہے کہ:

’’ان کے علاوہ بوستان خیال کے سلسلے میں انھوں نے طلسم ہفت کواکب لکھی۔ ایرج نامے کے دیباچے سے معلوم ہوتا ہے کہ نواب کلب علی خاں نے داستان امیر حمزہ کے دفتر اردو میں لکھانا چاہے تو نو شیرواں نامہ منشی انبا پرشاد کے سپرد کیا اور ایرج نامہ اصغر علی کودیا۔‘‘5

جلال کے والد نے داستانوی ادب میں جو کارنامے انجام دیے ہیں ان پر ابھی کوئی باقاعدہ کام نہیں ہو سکا ہے۔ امید ہے کہ آئندہ اس پر توجہ دی جائے گی۔

’داستان بالاباختر‘داستان امیر حمزہ صاحب قران کا دفتر سوم ہے۔جس کا اردو ترجمہ جلال لکھنوی نے رامپور میں کیا تھا۔اس کے مطالعے سے ایک اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ جلال لکھنوی کی داستان ’بالاباختر‘ (غیر مطبوعہ)اور شیخ تصدق حسین کی داستان ’بالاباختر‘ (مطبوعہ) دونوں ایک ہی فارسی داستان کا اردو ترجمہ ہیں اور اس کا خالق ابوالفیض فیضی ہے جو جلال الدین محمد اکبر کے زمانے میں موجود تھا۔ ان دونوں داستانوں کی کہانی اور کردار ایک دوسرے سے اس طرح مماثلت رکھتے ہیں کہ پڑھنے والا بغیر کسی عذر کے یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ یہ دونوں کسی ایک فارسی داستان کا اردو ترجمہ ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے شیخ تصدق حسین کی داستان ’بالا باختر‘ مطبوعہ کا تجزیہ اپنی کتاب’ساحری، شاہی،صاحب قرانی داستان امیر حمزہ کا مطالعہ، جلد چہارم:داستان دنیا (1) میں کیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ لگانا زیادہ آسان ہوجاتا ہے کہ ان دونوں داستانوں میں مماثلت کہاں تک ہے۔ فاروقی نے ساحری، شاہی، صاحب قرانی (داستان امیر حمزہ کا مطالعہ جلد اول:نظری مباحث )میں طلسم گوہر بار کا ذکر کرتے ہوئے جلال لکھنوی کی داستان کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ :

’’اسی ایڈیشن کے صفحہ 19 پر محمد سلیم الرحمن نے اس داستان کی طباعت اول کے سر ورق پر نقل چھاپی ہے۔ ا س سے اس کی تاریخ اشاعت 1887 معلوم ہوتی ہے۔ شیخ تصدق حسین کی بالا باختر اول بار 1899 میں چھپی۔ محمد سلیم الرحمن نے لکھا ہے کہ اس داستان کو ایک جلد میں انبا پرساد رسا نے ، اور تین جلدوں میں ضامن علی جلال نے بھی لکھا ہے۔ یہ ہنوز غیر مطبوعہ ہیں۔ 6

اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جلال لکھنوی اور شیخ تصدق حسین کی داستان(بالاباختردفتر سوم داستان امیر حمزہ صاحب قران)ایک ہی فارسی داستان کا دو اردو ترجمہ ہیں اور جب ہم شیخ تصدق حسین کی داستان کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دونوں داستانیں ایک ہی داستان گو نے کہی ہے۔ جلال لکھنوی نے تو اس بارے میں کچھ بھی نہیںلکھا ہے لیکن شیخ تصدق حسین نے اس داستان سے متعلق بعض باتوں کی تفصیل بیان کر دی ہے۔ان کے مطابق یہ داستان اکبر بادشاہ کے زمانے میں لکھی گئی تھی۔ مشہور داستان گو فیضی نے اسے فارسی قالب میں ڈھالا تھا۔ شیخ تصدق حسین نے بالاباختر کا اردو ترجمہ (مطبوعہ)صرف ایک جلد میں کیاہے جب کہ جلال لکھنوی کا اردو ترجمہ (غیر مطبوعہ) تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ بالاباختر (شیخ تصدق حسین) کے ابتدائی صفحات پر مطبع کی طرف سے( منشی نولکشور کانپور) داستان بالاباخترکے بارے میں یہ لکھا ہے :

’’تمام زمانہ پر واضح ہے کہ داستان امیر حمزہ صاحب قران وہ وادی ناپیدا کنار ہے جس کی بالا دوی میں پیک خیال بھی معترف بہ عجز و قصور ہے جن حضرات شائقین نے ان داستانوں کو سنایا ملاحظہ فرمایا ہے وہ کما حقہ واقف و آگاہ ہیں کہ یہ داستانیں برسوں میں بھی تمام نہیں ہوتیں الحق کہ ان کے اصول فارسی کے مصنف ہمہ دان شیخ ابوالفیض فیضی نے جو ان داستانوں کو واسطے تفریح طبع جلال الدین محمد اکبر بادشاہ کے اس قدر وسیع البیانی اور نازک خیالی کے ساتھ تصنیف فرمایا کس قدر جانکاہی کی ہوگی۔اس داستان کے آٹھ دفتر ہیں اور بعض دفتر کئی جلدوں پر مشتمل ہیں حسب ذیل ہیں۔

اول:نوشیرواں نامہ:2 جلد

دوم:کوچک باختر:1جلد

سوم: بالاباختر:1جلد

چہارم:ایرج نامہ:2جلد

پنجم: طلسم ہوشربا،7 جلد

ششم:صندلی نامہ:1جلد

ہفتم: تورج نامہ:2جلد

ہشتم:لال نامہ:1جلد

...مذکورہ بالا دفتربالاباختر جو داستان کا دفتر سوم ہے اور جس کو بلبل ہزار داستان شاخسار بلاغت گل سر سبد چمنستان فصاحت ماہر خوش بیان کامل شیرین زبان تصدق حسین صاحب داستان گو نے حسب تحریک شیخ حامد حسین صاحب از جانب مطبع نولکشور بڑی محنت و مشقت سے بزبان اردو نہایت فصیح و بلیغ ترجمہ فرمایا)۔‘‘7

شیخ تصدق حسین کو سن شعور سے ہی داستان گوئی کا شوق تھا۔ داستان بالا باختر نے اس شوق کو مہمیز کرنے کا کام کیا۔ وہ داستان کے مقدمے میں سبب تالیف کے سلسلے میں رقم طراز ہیں :

’’شیخ تصدق حسین داستا ن گو خدمت ناظرین باتمکین میں بصد ادب ملتمس ہے کہ اس حقیر پر تقصیر کو ابتدائے سن شعور سے داستان گوئی کا شوق تھا اور ماہرین اس فن کی خدمت گذاری میں بسر کرتا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگر چہ کم مایگی اور عدم لیاقت علمی سد راہ شہرت وترقی تھی تاہم امرا ورئوسادیگر صنادید شہر نے اپنی عالی ہمتی اور حقیر نوازی سے اس کج مج زبان کے بیا ن کو پسند فرمایا اور بمو جب المرء یقیس علیٰ نفسہ اچھے لوگ بھی اس روالخلائق کو اچھا سمجھنے لگے۔ ...امیر با اقبال رئیس با جاہ و جلال شریف و شریف پرور قدردان اہل علم و ہنر زیب و سادہ بہت و برتری مسند نشین بزم حشمت و بہتری عالی جناب معلیٰ القاب جناب منشی نولکشور صاحب سی آئی ای منشی شیخ حامد حسین کے یہ حکم صادر فرمایاکہ داستان امیر حمزہ صاحب قران کے کل دفاتر کا بزبان اردو بہ عبارت سلیس و مضامین نفیس از طرف مطبع بہ خاکسار کرے۔ چونکہ یہ داستان ایسی ضخیم ہے جس کے ہر دفتر کی ہر ایک جلد روکش بحر زخار ہے اور ان کے اصول بزبان فارسی مصنفہ ماہر ہمہ دان شیخ ابوالفیض فیضی ہیں جنھوں نے براے تفریح طبع جلال الدین محمد اکبر بادشاہ ہند کے اس داستان عظیم الشان کو نہایت وسیع البیانی اور نازک خیالی کے ساتھ تصنیف کیا تھا اس کمترین کو جرأت نہ ہوتی تھی کہ اتنے بڑے امر بزرگ کی خدمت کا بار انصرام اپنے ذمہ لے لوں، مگر اصرار محب موصوف اور ارشاد آقاے نامدار ممدوح سے بفحواے المامور معذور چار و نا چار خدمت ترجمہ کو منظور کیا اور الحمد اللہ کہ باقبال خدا وند نعمت محتشم الیہ باحسن وجوہ دفتر ہائے مفصلہ ذیل کا ترجمہ اس ذرہ بے مقدرا کے سعی سے انجام پذیر ہوا۔‘‘8

 داستان سے دلچسپی اور شوق جلال کو ورثے میں ملا تھا جلال نے اردو ترجمے کے سلسلے میں داستان کی ابتدا میںہی لکھا ہے جسے اس داستان کا دیباچہ بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ جامع بھی ہے ملاحظہ کریں:

’’خوشہ چیں ارباب کمال سید ضامن علی تخلص بہ جلا ل کی جب ایرج نامہ کی اردو کرنے سے فرصت ہوئی سرکار فیض سے دفتر سویم یعنی کتاب بالا باختر رنگنے کے واسطے عنایت ہوئی۔اگرچہ یہ ہیچ مداں کج مج زبان لیاقت نثر طرازی اور قابلیت انشاپردازی نہ رکھتا تھا مگر تعمیل حکم سے چارا نہ ہوا۔ناگزیر خامہ رنگین بیان کو ہاتھ میں اٹھا لیا اور کچھ عبارت بے رنگ لکھنا شروع کیا۔‘‘9

داستان بالاباختر میں جلال لکھنوی نے جابجا اپنی رباعیات اور اشعار کو شامل کر دیا ہے جس سے اس داستان کی اہمیت میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ داستان کی ابتدا اس طرح سے ہوتی ہے    ؎

ساقی مے لالہ رنگ سے بھر  ساغر

نہ خالی ہوں سبو پلا برابر ساغر

دل کو ہوس شراب اس دور میں ہے

یہ شیشہ پکارتا ہے ساغر ساغر

’’نازکی بخش بوستان مضامین کہن چلے، بند شاہدان کو آئین سخن مشام سخنوران کو ترو تازہ اور بزم سامعان کو سرمایہ اندوز رونق بھی اندازہ کرتی ہیں کہ جس وقت شمع کا شانہ شان و شوکت نور دیدہ شجاعت و بسالت نو نہال گلشن کامران چراغ دود مان صاحب قرانی ملک قاسم امیر کشور کیرسے آزردہ ہوکر یکہ و تنہا وقت شب لشکر سے مل کر ایک طرف کو روانہ ہوا ، اثنای راہی سیارہ بن عمر کے ہاتھ رقعہ اس مضمون کا شاہزادہ بدیع الزماں کو بھیجا کہ میں عازم در بند جالندریہ جارہا ہوں اگر تجھے کچھ دعوی شجاعت ہے مدعی جرأت ہے توآ میرے تعاقب میں،عالم تنہائی میں خوب مقابلہ ہوگاوہیں میرے اور تیرے جھگڑے کا فیصلہ ہوگاجو غالب ہو وہ دنگل رستم کا امیر طالب ہو، سیارہ بن عمر نے وہ رقعہ لے کر خیمہ گاہ بدیع الزماں کا راستہ لیا۔ دوسرے دن جاکر دیا بدیع نے اس اس رقعہ کو پڑھا۔ ... غیظ و غضب بڑھا اسی وقت یہ بھی لشکر سے نکل کھڑا ہوا اور مرکب صبا رفتار پر سوار ہوکر تعاقب میں قاسم کی چل کھڑا ہوا ...سینی شاہزادہ خاور سپاہ ملک قاسم کا کہ دوپہر رات تک برابر اس نے رہزنی کی تا صبح مرکب اڑائے ہوئے چلا آیا یہاں تک کہ سامنے دربند جالندریہ کو پایا یہ پہلا در بند ہے ان سات دربندوں میں سے جو علاقہ تک سائل سے رکھتی ہیں ان شاء اللہ العزیز۔‘‘10

 جلال لکھنوی نے پہلی جلد میں یہ اہتما م کیا ہے کہ جیسے جیسے واقعات قلمبند کرتے گئے ہیںویسے ہی ان واقعات کو لال روشنائی سے شروع کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صرف اور صرف پہلی جلد تک ہی محدود ہے۔ بقیہ کی دونوں جلدوںمیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

اب یہاں شیخ تصدق حسین کی داستان کا آغاز پیش کیا جارہا ہے۔ تاکہ یہ آسانی سے ذہن نشین ہوجائے کہ دونوں داستانیں ایک ہی فارسی داستان کا اردو ترجمہ ہیں۔ انھوں نے اس داستان کا آغاز حمد،نعت اور منقبت حضرت ابو طالب سے کیا ہے۔جب کہ جلال لکھنوی نے اپنی داستان کاآغاز رباعی سے کیا ہے۔داستان بالا باختر(شیخ تصدق حسین )سے اقتباس ملاحظہ کریں:

’’جب شہزادہ خاور سپاہ قاسم ذی جاہ اپنے غصہ کو ضبط نہ کرسکے لحاظ وپاس امیر باتوقیر سے ظاہراً  تو کچھ نہ کہا مگر لشکر سے تنہا نکل گئے۔ جاتے وقت انھوں نے عیار سیارہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تو جاکر شاہزادہ بدیع الزماں سے میری طرف سے کہہ دینا کہ میںطرف در بند جالندریہ کے جاتا ہوںاگر کچھ آپ کو دعویٰ مردی و مردانگی کا ہو تو اسی مقام پر تشریف لائیے۔ اور دنگل رستم کا فیصلہ کر لیجیے۔ قاسم یہ پیغام دے کرسمت دربند جالندریہ کو روانہ ہوئے ادھر سیارہ عیار نے پیغام ملک قاسم کا شہزادہ دیع الزماں کو پہنچایا۔ حال روانگی بدیع الزماں کا پھر عرض کیا جائے گا۔ اب حال شہزادہ قاسم کا سنیے کہ انھوں نے گھوڑے پر سوار ہوتے ہی سیدھی راہ دربند جالندریہ کی لی۔ اور گھوڑا سرپٹ دوڑاتے ہوئے سیکڑوں کوس نکل گئے۔ جاتے جاتے قریب شام متصل ایک باغ کے پہنچے ، چونکہ خستہ بہت ہوگئے تھے، چاہا کہ آج شب کو اس باغ میں آرام لوں، صبح پھر روانہ ہوں گا، اس ارادہ پر دروازہ باغ کا تلاش کرنے لگے۔ مگر چہار جانب ڈھونڈھادر باغ کا کہیں پتا نہ پایا۔ آخر امر مجبور و ناچار ہوکر گھوڑ ے کو ایڑ لگائی۔ گھوڑا طرارہ بھر کے دیوار باغ کو پھاند گیااور قاسم اندر باغ کے پہنچے۔جاتے ہی باغ میں ایسی ہوائے سرود خنک آئی کہ ان کا دل باغ باغ ہوگیا اور  ماندگی سفر بھول گئے۔‘‘11

ان دونوںاردو ترجموں میںزبان و بیان کا فرق ہمیں صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ جہاں ایک طرف جلال لکھنوی نے مشکل اور دقیق الفاظ و محاورات کا استعمال کیا ہے تو وہیں شیخ تصدق حسین نے صاف، سادہ اور سلیس زبان کا استعمال کر کے داستان کومزید دلکش بنا دیا ہے۔ اور اس طرح نہ صرف داستان میں دلچسپی برقرار رہتی ہے بلکہ قاری نثر کی روانی میں بہتا چلا جاتا ہے۔اسے اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا۔

داستان بالا باخترکے اہم کرداروں میںسیارہ بن عمر، شاہزادہ بدیع الزماں، سینی ،شاہزادہ خاور سپاہ، ملک قاسم، امی سعید،بختیارک،مالک اڑدر،ماہ لقا،ملکہ شمہ خونریز، قوت شاہ، ملکہ گیتی افروز(لقاے بے بقا کی بیٹی)، مہروند عیار، حمزہ ایلچی،دل فگار، زمرد شاہ، باختر، عمر، اسد، امیر بلا خان، خواجہ جادوگر، نمبیرہ حمزہ، مریخ جادوگر وغیرہ ہیں۔ اس داستان کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں کئی ملکوں کی نشاندہی کی گئی ہے اس میں ملک اصفہان، چین، ترکستان، ملک صفوانیہ،ملک جالندریہ، ملک بر بر اورشہر زبیدہ وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔

شیخ تصدق حسین کے ترجمے کی متعدد خوبیاں ہیں۔ انھوں نے اردو کے انداز واسلوب کو پیش نظر رکھا ہے۔ تاکہ نثر کا حسن اور داستان کی جمالیات کو بہتر طور پر اردو کے قالب میں منتقل کیا جاسکے۔یہی وجہ ہے کہ ایک عبار ت کا ترجمہ کرتے وقت شیخ تصدق حسین جلال پر فوقیت لے جاتے ہیں۔ تقابلی مطالعہ پیش نظر نہیں ہے مگر بطور تعارف یہ باتیں بھی پیش نظر رہنی چاہیے۔

دونو ں ترجموں کو سامنے رکھ کر کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں زبان و بیان کا نمایاں فرق نظر آئے گا۔ جلال کی زبان مقفیٰ و مسجع ہے جب کہ شیخ تصدق حسین کی زبان میں سلاست وروانی ہے۔ایسی صورت میں داستان کو پڑھنے کا ایک الگ لطف ملتا ہے۔ جلال نے زبان وبیان کے خارجی پہلوئوں کو اختیار کیا ہے جسے عرف عام میں لکھنوی انداز کہا جاسکتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے ترجمہ کرتے وقت زبان و وبیان پر اس طرح توجہ نہیں دی جیسا کہ شیخ تصدق حسین نے دی۔ جلال لکھنوی نے فارسی لفظیات کو برتنے سے گریز نہیں کیا ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شیخ تصدق حسین کے ترجمے کو پڑھ کر اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا ہے جب کہ جلال کے ترجمے میں یہ خوبی کم پائی جاتی ہے۔جلال کو شعری اظہار میں جو مرتبہ حاصل ہے وہ نثر میں نہیں ہے۔ اس داستان کا مطالعہ کرنے والوں کا یہ ایک عمومی احساس ہے۔ سہیل بخاری نے لکھا ہے کہ:

’’مصنف اگر چہ زبان اردو کے ماہر اور اعلیٰ پایہ کے شاعر ہیں، لیکن ان کی نثر کو ان کی شاعری سے کوئی نسبت نہیں ہے، عبارت پر فارسی کے ترجمہ کو اثر صاف نمایاں ہے۔ او ر اگرچہ روز مرے اور محاورے پر ان کی خاص توجہ ہے پھر بھی بیان میں کوئی دل کشی نہیں ہے۔ فارسی کی ترکیبوں کے علاوہ لفظوں اور فقروں کی ترتیب بھی فارسی ہی کی ہے۔ اور جہاں فارسیت سے ہٹ کر عبارت میں روانی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اسلوب کا توازن قائم نہیں رہ سکا ہے۔12

مجموعی طور پرجلال لکھنوی کی ادبی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ایک اہم شاعر کے طور پر ان کی حیثیت مسلم ہے۔ جیسا کی پہلے ہی عرض کیا گیا ہے کہ شاعری کے ساتھ خصوصاً زبان و لغت پر ان کی گہری نگاہ تھی۔یہ بات داستان کے ترجمے سے واضح ہوجاتی ہے کہ جلال کو اپنے قدیم سرمایے سے بھرپور واقفیت تھی۔

حوالے

1        رسالہ نگار،راز یزدانی،ص،15،مارچ1953

2        جلال لکھنوی: سوانح حیات ، کلام پر تنقید مع انتخاب کلام، پروفیسر محمد حسن،ص159

3        اردو داستان تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، ڈاکٹر سہیل احمد بخاری، ص278

4        اردو کی نثری داستانیں ،گیان چند جین،ص698

5        اردو کی نثری داستانیں:گیان چند جین،ص،697-98

6        ساحری، شاہی، صاحب قرانی داستان امیر حمزہ کا مطالعہ جلد اول:نظری مباحث ،شمس الرحمن فاروقی،ص445

7        بالا باختر ،منشی نولکشور،ص1

8        بالاباختر ،شیخ تصدق حسین،ص1

9        داستان بالاباختر ، جلد اول،جلال لکھنوی،ص 1،2

10      ایضاً،ص2۔3

11      بالاباختر،شیخ تصدق حسین،ص4

12      اردو داستان تحقیقی و تنقیدی مطالعہ،ڈاکٹر سہیل بخاری، ص279

 

Mohd Saeed Akhtar

613/P-18(kha-514)Near Zainab Masjid Millat Nagar Dhal Faizullah Ganj

Lucknow- 226020 (UP)

mohdsaeedakhtarr@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اکبر الہ آبادی کی شاعری میں مشرق کا تصور، مضمون نگار: امیرحسن

  اردو دنیا، جنوری 2025 تجھے ہم شاعروں میں کیوں نا اکبر معتبر سمجھیں بیاں ایسا کہ دل مانے زباں ایسی کہ سب سمجھیں اکبر الہ آبادی دنیائ...