27/10/21

اردو لوک گیتوں کے امتیازات - مضمون نگار: عبداللہ امتیاز احمد

 



 

لوک گیت لوک ادب کی اہم شاخ ہے جس میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کی جاتی ہے۔ اس میں انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام موضوعات بیان کیے جاتے ہیں۔ لوک گیت میں عوام کے جذبات کا فطری اور براہ راست اظہار ہوتا ہے یہ عوام کے ذہنوں میں محفوظ رہنے والا وہ ادبی سرمایہ ہے جو کبھی ضبط تحریر میں نہیں آیا اس لیے آج تک لوک گیتوں کی کوئی تحریری شکل دستیاب نہیں ہوئی۔ اس میں انسان کے دلوں کی آوازیں واضح طور پر سنی جا سکتی ہیں جس میں انسان کے سادہ جذبات بیدار نظر آتے ہیں اور اجتماعی خوشیوں اور غموں کا اظہار ہوتا ہے۔ انسان اپنی خوشیوں کا جسمانی اظہار رقص کے ذریعے اور زبانی اظہار گیت کے ذریعے کرتا ہے۔ در اصل جب انسان بے انتہا خوش ہوتا ہے تو کچھ نا کچھ گنگناتا ہے اور جب کبھی خوشی کی انتہا ہوتی ہے تو اپنے جسمانی اعضا کو بھی حرکت دینے لگتا ہے۔ یہیں سے رقص کا آغاز ہوتا ہے اور جب ان جذبات کوگیت کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے تو اسے لوک گیت کہتے ہیں۔

لوک گیت زمانی اعتبار سے اتنے ہی قدیم ہیں جتنی خود انسانی تہذیب۔ قدیم عہد میں لوگ اپنی خوشیوں کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتے تھے اور ان کی اس خوشی میں معاشرے کا ہر فرد شامل رہتا تھا۔ اس موقع پر سارے لوگ ناچ گا کر اپنی خوشیوں کا اظہار کرتے اور غموں میں بین کرتے تھے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو جب انسان کا وجود عمل میں آیا تو سب سے پہلے اس نے اپنی بات سمجھانے کے لیے اشاروں کا استعمال کیابعد میں زبان وجود میں آئی جب زبانی شکل میں اس نے اپنی بات کو پیش کیاتو سب سے پہلے اس نے نظم کو اپنا وسیلۂ اظہار بنایا۔ یعنی شعری زبان کا استعمال کیا جب یہی وسیلۂ اظہار شعری پیکر میں ڈھلنے لگے تو لوک گیت کا وجود عمل میں آیا۔ لوک گیت کے ابتدائی نمونے ہمیں قدیم مذہبی مقدس کتابوں میں دیکھنے کوملتے ہیں۔ وید، پران اور اپنشد میں لوک گیت کے ابتدائی نمونے موجود ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوک گیتوں کی روایت بہت قدیم ہے۔ ویدوں میں سب سے پہلے گاتھا اور گاتھن لفظ استعمال ہوا ہے جس سے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ لوک گیتوں کی روایت دور قدیم سے چلی آرہی ہے۔ پراکرت اور اپ بھرنش زبانوں میں بھی لوک گیت کے نمونے دستیاب ہیں۔

سب سے پہلے لوک گیت کب وجود میں آیا؟ اس کا پختہ ثبوت ہمارے پاس موجود نہیں ہے کیوں کہ لوک گیتوں کا کوئی قلمی نسخہ ابھی تک دستیاب نہیں ہوا ہے جس کی بنیاد پر لوک گیت کی ابتدا اور ارتقا کی کہانی بیان کی جاسکے۔ ہاں اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ویدوں سے لوک گیت کی روایت کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس کے بعد مختلف مذاہب کی مقدس کتابوں میں اس کے ا بتدائی نمونے دیکھنے کو ملتے ہیںالبتہ ان گیتوں میں پیش کردہ معاشرے اور نظام سیاست کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان گیتوں کا تعلق کس عہد سے رہا ہوگا۔ یہ لوک گیت نہ نئے ہوتے ہیں نہ پرانے بلکہ اس کی جڑیں ماضی میں پیوست ہوتی ہیں۔ لوک گیت ہمارا قومی سرمایہ ہے جس کا نمونہ مختلف مواقع پر اکثر و بیشترہمارے گھروں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوک گیتوں کی زبان ضرور بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے مگر ان سب کا بنیادی جذبہ ایک ہی ہے کیوں کہ لسانی تفریق کی وجہ سے ایک ہی لوک گیت مختلف مقامات پر مختلف طریقے سے گایا جاتا ہے جس کی وجہ سے الفاظ اور آوازوں میں واضح طور پر فرق دکھائی دیتا ہے مگر ان کے جذبات و خیالات میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ عام طور پر لوک گیت مندرجہ ذیل مو ضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں:

.i       بچے کی پیدائش کے موقعے پر گائے جانے والے مختلف اقسام کے گیت

.ii      شادی بیاہ کے موقعے پر گائے جانے والے گیت

.iii     موسموں اور تہواروں سے مناسبت رکھنے والے گیت

iv.     پیشہ ورانہ افراد کے گیت

مذکورہ بالا امور پر بحث کرنے سے قبل یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لوک گیت کے لفظ، ہیئت اور تعریف پر ایک نظر ڈالی جائے۔

انگریزی ادب میں لوک گیت اور لوگ کتھاؤں کے لیے Ballad لفظ استعمال ہوا ہے، Ballad کا مادہ در اصل لاطینی زبان کا لفظ (بے لارے) ہے رابرٹس گریبس نے لکھا ہے کہ اس کا تعلق Balle لفظ سے ہے اس کا مطلب اس گیت سے تھا جو گیت رقص کرتے وقت گایاجائے مگر بعد میں اس کا استعمال ہر طرح کے گیتوں کے لیے ہونے لگا۔

لوک گیت کی تعریف:

Understanding Poetry کے مصنف جیمس ریوس لوک گیت کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’لوک گیت عوام کے جذبات کا براہ راست اور فطری اظہار ہوتے ہیں، یہ عوام کے ذہن میں محفوظ رہنے والا وہ ادبی سرمایہ ہے جو ضبط تحریر میں نہیں آتا ہے۔‘‘(ص ۲۱)

پنڈت رام نریش ترپاٹھی لوک گیت کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:

’’ان پڑھ دیہاتیوں کے دلوں سے نکلے ہوئے وہ جذباتی بول جو شعری اور لسانی پابندیوں سے آزاد ہوں پھربھی ان میں لحن اور ایک قسم کامیٹھا سرہے۔‘‘

( پنڈت رام نریش ترپاٹھی،گرام گیت، کویتا کومدی،  ص4)

اڑیسہ کے مشہورلو ک ادیبK. B. Das لوک گیت کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’عوام کے دلوں سے نکلے ہوئے بول جو غیر اختیاری طور پر اضطراری حالت میں کسی المناک یا طربناک جذبے سے تاثر کے بعد نکل جاتے ہیں۔‘‘

(بحوالہ اظہر علی فاروقی: اترپردیش کے لوک گیت، ص18)

ڈاکٹرمجیب الاسلام لوک گیت کی تعریف ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

’’لوک گیت عوامی ادب کی وہ مشہور صنف سخن ہے جو انسانی پیدائش سے ظہور میں آئی۔ اس کی جغرافیائی حد بندیاں تو ضروری ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ عوام کے ذہنوں میں محفوظ رہنے والا وہ قیمتی سرمایہ ہے جسے ضبط تحریر میں نہیں لایا جا تاتھا۔ یہ ان عوام کے داخلی جذبات کا فطری اظہار ہے۔ اس کا خاص کام خواتین کے جذبات کا بے اختیار اور ان کے بھر پور احساسات کا بیان ہوتا تھا۔‘‘

( مرتبہ: پروفیسر قمررئیس، اردو میں لوک ادب، ص284)

اس طرح لوک گیتوں کی بیان کردہ تعریفوں کی بنیاد پر لوک گیتوں کے واضح نقوش ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ان تعریفوں کو پڑھنے کے بعد ان کی تاریخ کا عکس بھی واضح طور پرہمارے سامنے آتا ہے۔ لوک گیت ہمارے ماضی کی زندگی کے عکاس ہیں جس میں عوام کے جذبات، خیالات و نظریات کا گہراعکس نظر آتا ہے۔ اس میں عوام کی سادگی اور معصومیت واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ چونکہ اس کا ماخذ انسان کا دل ہوتا ہے اس لیے ایک دل کی بات دوسرے دل پر گہرا ثر ڈالتی ہے۔ لوک گیت کے چند الفاظ ہماری زندگی کے تاریک پہلوؤں کو روشن تر بنا دیتے ہیں۔ اس میں پوری قوم کی تہذیب و تمدن کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ عموماً لوک گیتوں میں سنجیدگی، سادگی اور بے ساختگی پائی جاتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی گیتوں میں گہرا طنز بھی دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ لوک گیتوں کی کوئی تحریری شکل دستیاب نہیں ہے۔ یہ زیادہ تر سینہ بہ سینہ ایک شخص سے دوسرے شخص تک پہونچتا رہتاہے۔ لوک گیت اور ہماری تہذیب و تمدن کے درمیان ایک گہرا رشتہ پایا جاتا ہے۔ اسی لیے لوک گیتوں میں ایک مخصوص سماج کا عکس واضح طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان لوک گیتوں میں سماج اور انسانی زندگی کے بے شمار پہلوؤں کی عکاسی کی جاتی ہے۔ لوک گیتوں کی نوعیت انفرادی کے ساتھ اجتماعی بھی ہے۔ کیونکہ اس میں مشترکہ طور پر پورے سماج کے رسم و رواج، عقائد و توہمات اور عادات و اطوار کا بیان ہوتا ہے اور ان لوک گیتوں کی تخلیق میں پورے معاشرے کے لوگ شامل رہتے ہیں۔ اس میں چھوٹے بڑے، اعلیٰ و ادنیٰ، امیر و غریب اور رؤسا و امرا سبھی کا ذکر ملتا ہے۔ عام طور پر دیہاتی زندگی کے ہر پہلو کا گیتوں میں ذکر ملتا ہے۔ اگر ہم لوک گیتوں کو دیہاتی لوگوں کا منظوم تذکرہ کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ جیسا کہ اظہر علی فاروقی نے لکھا ہے:

’’یہی وجہ ہے کہ لوک گیت کہنے پر عام طور پر وہ گیت سمجھے جاتے ہیں جو دیہاتیوں کی زندگی کے ترجمان ہوں۔ اور دیہاتی سماج کی نمائندگی کریں اور جس پر شہری زندگی اور تمدن کی چھاپ نہ ہو اور شاید اسی لیے لوک گیت کی اصطلاح سے پہلے ان کے لیے گرام گیت لفظ مستعمل رہا ہے۔‘‘ (اترپردیش کے لوک گیت، ص17)

لوک گیت کی تاریخ:

لوک گیت کی تاریخ پر نظر ثانی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوک گیت کی روایت بہت قدیم ہے۔ یہاں تک کہ علما کا خیال ہے کہ یہ لوک گیت رگ وید سے قبل بھی گائے جاتے تھے۔ کیوں کہ رگ وید میں لوک گیت کا ذکر کئی مقام پر ملتا ہے۔ رگ وید کب تصنیف ہوا اس کی تاریخ آج تک طے نہیں کی جا سکی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوک گیت کی روایت بہت قدیم ہے۔ رگ وید کے بعد مختلف مذہبی مقدس کتابوں مثلاًارڑیک برہمن، پران، مہابھارت اور رامائن وغیرہ میں بھی مختلف موقعوں پر گیت گانے کا ذکر ملتا ہے۔ کسی راجا کی ستائش اور یگیہ کے موقع پر بھی گیت گانے کا رواج عام تھا۔ جس کا ذکر کرتے ہوئے اظہر علی فاروقی لکھتے ہیں:

’’عہد قدیم میں کسی فرماں روا کی کار گزاریاں، اس کے فلاح وبہبود کے کارناموں کی ستائشی گاتھا بہت کچھ تبدیل ہو کر عوام کے زباں زد ہوجاتے تھے اور پیڑھی در پیڑھی اور سینہ بہ سینہ چلتے رہتے تھے۔ جو بعد میں جن گاتھا یا لوک گیت کے نام سے مشہور ہوئے۔‘‘(ایضاًص 19)

قدیم عہد میں یہ گیت ان ستائشی گاتھاؤں کے علاوہ شادی بیاہ کے مو قعوں پر بھی گائے جاتے تھے۔ اس میں خصوصیت کے ساتھ دیوتاؤں کا ذکر کیا جاتا تھا۔ پارسیوں کی مذہبی کتاب ’اویستا‘  میں بھی پارسی مذہب کے بنیادی اصولوں کو گیتوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ گوتم بدھ کی پیدائش کے متعلق‘ جاتک کتھاؤں ’میںبھی خوبصورت گیت دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مطالعہ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وکر م سنوت کی تیسری صدی میں جس وقت پراکرت زبان اپنے عروج پر تھی اس زبان میں بے شمار لوک گیت تخلیق کیے گئے۔ راجا شالی واہن کے عہد میں لوک گیت تخلیق کرنے اور گانے کا ذکر کئی مورخوں نے کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس راجا نے تقریباً سات سو گیتوں کو محفوظ بھی کیا تھا۔

بالمیکی رامائن میں پروشوتم رام کی پیدائش کے وقت عورتوں کے ذریعے گیت گانے کا ذکر ملتا ہے۔ اس موقع پر گیت گانے اور رقص کرنے کا بیان تاریخ میں موجود ہے۔ کالی داس نے راجا دلیپ کے دربار میں گیت گانے اور طوائفوں کے ذریعے رقص کیے جانے کا بھی ذکر کیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں محنت مزدوری کرتے وقت ایک ساتھ جمع ہوکر گیت گانے کا رواج عام تھا۔ سنسکرت کے مشہورشاعر وجکا نے ایک عورت کے ذریعے موسل سے دھان کوٹتے وقت خوبصورت گیت گانے کا ذکر کیا ہے۔ بلکہ ایک عورت کھانا بنا رہی ہے مگر لکڑی کے دھوئیں سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہا ہے۔ اس معمولی سے موقع پر بھی گیت گانے کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔ اس طرح اگر ہم دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ گیت گانے کا رواج زمانہ قدیم سے ا ٓج تک جاری و ساری ہے۔

ان گیتوں کا سلسلہ مختلف ادوار سے ہوتے ہوئے مسلمانوں کے ہندوستان آنے تک جاری و ساری رہا۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد یہاں ایک نئی زبان وجود میں آنے لگی جسے بہت بعد میں اردو کے نام سے موسوم کیا گیا لیکن اس دوران بھی مقامی بولیوں میںلوک گیتوں کا چلن تھا کیونکہ فاتح اپنے ساتھ کوئی زبان لے کر نہیں آتا بلکہ وہ  بہت حد تک مفتوح ہی کی زبان اور رسم و رواج میں گھلنے ملنے کی کوشش کرتا ہے۔اس طرح غیرملکیوں اور مقامی افراد کے میل جول سے ایک مخلوط زبان وجود میں آئی مگر یہاں کے مقا می اثرات کی بنیاد پر ترکی اور فارسی زبان میں بھی گیتوں کا چلن ہوا یہاں تک کہ امیر خسرو کے عہد میں یہ اثرات واضح طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اس نئی زبان میں انھوں نے ایسے گیت تخلیق کیے جسے ہم لوگ گیت کہہ سکتے ہیں۔ جیسے قوالی، رنگ شریف، خیال اور قال وغیرہ راگوں کی ایجاد کی۔ نمونے کے لیے ان کا یہ مکھڑا دیکھیے         ؎

دھیرے بہو ندیا مورے پیا ہیں اترت پار

گھی کے دئ نا بارو نندیا ہمرے گھر آئے محمدؐ بانرا

امیر خسرو سے یہ سلسلہ چلتا ہوا مغلیہ عہد تک پہونچا اور شہزادہ سلیم کی شادی کی تقریب میں دیسی بولیوں میں راجپوتوں کے ذریعے گیت گانے کا ذکر ملتا ہے جو اس طرح ہے          ؎

تم شاہنشاہ ہم آپ کے داس

رہے کرم شاہ کا ٹوٹ نہ جائے آس

یہ سن کر اکبر نے جذباتی انداز میں کہا          ؎

ہم شاہنشاہ سہی پھر بھی آپ کے بھائی

اور راجکماری محل کی آبرو اور چوکھٹ کی لاج

اس طرح اندازہ ہوتا ہے کہ مغلیہ عہد میں ترکی اور فارسی گیتوں کے علاوہ مقامی گیت بھی مختلف موقعوں پر گائے جاتے تھے۔ مثلا شادی بیاہ، سنسکاروں اور دوسری تقریبات کے موقعوں پر ان گیتوں کا چلن عام تھا۔ گیتوں کے رشتے کو انسانی تہذیب و تمدن سے جوڑتے ہوئے اظہر علی فاروقی نے لکھا ہے :

’’بہر کیف گاتھا کا وجود بالکل نظر آتا ہے اور انسان میں جذبہ قدیم عہد سے پایا جاتا ہے اگر بنی نوع انسان اور شاعری دونوں ہم عمر کہے جا سکتے ہیں تو لوک گیتوں اور بنی نوع انسان کی ہم عمری میں بھی کوئی شبہ پیدا نہ ہونا چاہیے۔‘‘(ایضاًص21)

لوک گیتوں کے امتیازات:

لوک گیتوں کی کئی ایسی خصوصیات ہیں جو انھیں مروجہ شاعری سے الگ مقام عطا کرتے ہیں جیسے ان لوک گیتوں میں ردیف اور قافیہ کی قید و بند نہیں ہوتی بلکہ دیہاتی لوگوں کے جذبات کا بر ملا اظہار ہوتا ہے۔ اس میں وزن کی کوئی قید نہیں ہے۔ بلکہ گیت پڑھتے وقت حسب ضرورت گیت کی لَے کو کھینچ تان کر پڑھنے سے وزن برابر ہو جاتا ہے۔ چونکہ لوک گیتوں کا عوام کے دلوں سے گہرا رشتہ ہوتا ہے اس لیے ان گیتوں میں پیچیدگی نہیں پائی جاتی بلکہ جیسی ان کی سیدھی سادی زندگی ہوتی ہے ویسے ہی وہ سیدھے سادے الفاظ میںاپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے لوک گیت کی ایک تعریف یہ بھی ملتی ہے کہ ’’لوک گیت سیدھے سادے عوام کے دلوں سے نکلے ہوئے وہ احساسات و جذبات ہیں جو شعری اور لسانی پابندیوں سے آزاد ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اس میں بلا کی تاثیر ہوتی ہے۔‘‘

لوک گیتوں کا سب سے اہم وصف یہ ہے کہ اس کا تخلیق کار گمنام ہوتا ہے کیونکہ عام طور پر ان گیتوں کی تخلیق پورا معاشرہ مل کر کرتا ہے اس لیے اس کو کسی ایک شخص سے منسوب کرنا قطعی مناسب نہ ہوگا اور گیتوں میں چوں کہ تخلص کا بھی التزام نہیں ہوتا اس لیے ان گیتوں کے تخلیق کار کا علم نہیں ہو پاتا۔ کیونکہ لوک گیت غیر شخصی اور گم نام ہوتے ہیں یہ انفرادی نہیں بلکہ ایک اجتماعی صنف ہے اور نہ کبھی اسے ضبط تحریر میں لایا گیا۔ یہ صنف سینہ بہ سینہ رواں دواں ہے اور انسان کے دل و دماغ میں محفوظ رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر بہت سی چیزیں ایسے لوگوں سے منسوب کر دی گئی ہیں جس کا تعلق اس سے دور کا بھی نہیں ہے۔ اس کی بہترین مثال امیر خسرو کے بہت سے گیت، غزل، قوالی اور لاونیاں ہیں جنھیں اکثر و بیشتر امیر خسرو سے منسوب کر دیا گیا ہے لیکن تحقیق سے معلوم ہوا کہ ان چیزوں کا امیر خسرو سے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

رابرٹ گریبس نے لکھا ہے :

’’موجودہ سماجی حالات میں کسی ادیب و شاعر کا گم نام ہونا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اسے اپنی تخلیق کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں شرم آتی ہے، یا پھر ڈر لگتا ہے، لیکن قدیم سماج میں یہ صرف تخلیق کار کے نام کی بے توجہی کے سبب ہوتی تھی۔‘‘

(The Old English Ballads P.12)

لیکن گیتوں کے متعلق بہت سے علما نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ ان لوک گیتوں کا کوئی خالق ضرور رہا ہوگا۔ کچھ مغربی مفکرین بھی لوک گیتوں کا خالق کسی ایک شخص کو تسلیم نہیں کرتے ہیں لیکن جب تک ہمارے پاس مکمل شواہد موجود نہ ہوں ہم کوئی بات وثوق سے نہیں کہ سکتے کی گیتوں کا خالق کوئی ایک شخص ہے یا پورا معاشرہ۔ بہر حال آج تک کسی گیت کے تخلیق کار کا علم نہ ہو سکا۔ مگر کچھ اصناف جیسے خیال، لاونی، دادر اور برہاوغیرہ کے سلسلے میں کسی حد تک یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کسی شاعر کی اپنی تخلیق ہیں۔

اکثر و بیشتر لوک گیتوں کے اصل متن کا علم بھی علما کو نہیں ہوتا چونکہ گیت کا وجود مشترکہ طور پر عمل میں آیا ہے اس لیے اس کے بنیادی متن کی تصدیق کرنا بہت مشکل ہے۔ تخلیق چاہے جو بھی ہو وہ گیت تخلیق کر کے جدا ہوجاتا ہے اب ایسی حالت میں یہ لوک گیت پورے معاشرے کی امانت ہوتا ہے اس میں وقت اور ضرورت کے لحاظ سے ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔اب ایک ہی گیت لسانی تفریق کی وجہ سے مختلف شکلیں اختیار کر لیتا ہے۔ اصل گیت میں جب مقامی الفاظ خلط ملط ہو جاتے ہیں تو گیت کا پورا خاکہ ہی بدلا ہوا معلوم ہوتا ہے جس کی وجہ سے گیتوں میں رد وبدل ہوتا رہتا ہے۔ جیسا کی رابرٹ گریبس نے لکھا ہے کہ:

’’کسی لوک گیت کا کوئی Original Version  نہیں ہوتا گو عوام اپنی مرضی کے مطابق اس میں پھیر بدل کرتے رہتے ہیں اس لیے کسی ایک Version  کو ہی اصل نہیں مانا جا سکتا۔‘‘

The Old English Bellads, P.12))

مثلا’الہا‘کا اصل مصنف جگنک کو تسلیم کیا جاتا ہے جو بندیل کھنڈ کی بولی میں تخلیق کی گئی۔ مگر الہا جو آج گایا جاتا ہے اس کو دیکھ کر ضرور کہا جا سکتا ہے اس میں اصل متن اتنا طویل نہیں رہا ہوگا جتنا آج گایا جا رہا ہے۔ اس طرح الہا کی طوالت اس کے اصل متن سے کہیں زیادہ ہے۔ بھوجپوری اور میتھلی میں گائے جانے کی وجہ سے اس کے الفاظ میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہو گئی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان لوک گیتوں کا کوئی بنیادی متن نہیں ہوتا اور نہ ہی آخری شکل ہوتی ہے۔

لوک گیتوں کا پورا سرمایہ زبان زد روایت پر منحصر ہے جو سینہ بہ سینہ نسل در نسل ایک شخص سے دوسرے شخص تک منتقل ہوتا رہتا ہے جو کہ ہمارے زبانی ادب کا اہم حصہ ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب تک رسم الخط ایجاد نہیں ہوئی تھی تب تک تمام چیزیں سینہ بہ سینہ ہی چلتی رہی ہیں یہاں تک کہ ہماری مذہبی کتاب قرآن مجید خود زبانی روایت کی دلیل ہے کیوں کہ جب جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آتے اور محمدؐ انھیں زبانی یاد کر لیا کرتے تھے، یہ وحی بعد میں قرآن مجید کی شکل میں ہمارے سامنے آئی جس کوبہت بعد میں تحریری شکل میں پیش کیا گیا۔ اس طرح زبانی ادب کی اہمیت بھی کم نہیں ہے۔ جو ایک شخص سے دوسرے شخص تک منتقل ہوتی رہی۔ جیسا کہ گومر نے لکھا ہے کہ’’ زبانی روایت کسی گیت کی اہم خصوصیات ہوتی ہیں۔‘‘ اظہر علی فاروقی کا بھی یہی ماننا ہے کہ جو گیت تحریری شکل اختیار کر لیتے ہیں وہ ڈائمنشن سے محروم ہوجاتے ہیں کیونکہ لوک گیت کا تعلق پڑھنے سے زیادہ گانے سے ہے۔

لوک گیتوں میں سادہ اسلوب اور فطری اثر انگیزی ہوتی ہے کیونکہ لوک گیت شاعری سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ یہ عروضی نظام کی قید سے پوری طرح آزاد ہے۔ یہ وزن، بحر، ردیف، قافیہ اور دیگر شعری لوازمات سے بالکل پاک ہیں۔ یہ دیہی عوام کے دلوں کا فطری اور براہ راست اظہار ہوتا ہے،  جس میں ان کے سیدھے سادے اور فطری جذبات و احساسات کا گہرا عکس ہوتا ہے۔ کیوں کہ دیہاتی عوام سادگی پسند ہوتے تھے ایسی صورت میں فنی لوازمات کی پابندی کی ان سے امید بھی نہیں کی جا سکتی تھی کیوںکہ زیادہ تر دیہاتی ناخواندہ تھے اس لیے ان کی اصناف بھی اس طرح کی پیچیدگیوں سے آزاد ہوتی تھیں۔

ان سے الفاظ کے ساتھ لہجے و تلفظ کی صحیح ادئیگی کی امید کرنا بے سود ہے۔ اس لیے لوک گیتوں کی زبان پرمقامی الفاظ کا اثر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گیتوں کی زبان دیگر شعری اصناف کی بہ نسبت مختلف نظر آتی ہے۔ گیتوں کی زبان کا امتیاز خاص ہے کہ ان گیتوں میں جو الفاظ آگئے اور ان کے خیالات و جذبات سے مناسبت رکھتے ہیں تو ایسے الفاظ کو انھوں نے قبول کر لیا چاہے بنیادی طور پر وہ لفظ کسی بھی زبان سے تعلق رکھتا ہو۔ وہ نہ تو متروکات کے قائل ہیں اور نہ وضع اصطلاحات کے حامی اور نہ ماخذات کا تصور ان کے یہاں کوئی اہمیت رکھتا ہے۔ مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ گیتوں کی زبان لوچدار Flexibleہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ الفاظ کو توڑ مروڑ کر اپنے اعتبار سے ڈھال لیتے ہیں۔

لوک گیتوں پر مقامی اثرات کا گہرا عکس ہوتا ہے اور معاشرے سے لوک گیت کا تعلق ہوتا ہے اس معاشرے کے خط وخال کو پوری طرح اجاگر کر دیتا ہے چاہے اس میں کسی طرح کے مضمون کیوں نہ بیان کیے جائیں۔ مقامی اثرات کی نمائندگی واضح طور پر نظر آئے گی یہی وجہ ہے کہ جس قوم، نسل، یا ملک میں جو لوک گیت رائج ہوتا ہے وہاں اس میں عوام کے تمام متعلقات کا ذکر خوبصورت طریقے سے ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ان گیتوں میں مقامی تاریخی واقعات کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ ان گیتوں کا موسیقی اور رقص سے چولی دامن کا رشتہ ہے کیوںکہ لوک گیت کے لیے Ballad  لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے وہ گیت یا گانا جو رقص کے ساتھ پیش کیا جائے، جیسا کہ‘‘بے لارے’’ کے معنی ’’ناچنا‘‘ ہے اس طرح Ballad گیت کو عام لوگ کورس میں گاتے تھے Exciting and respective music کے بغیر بنایا گیا گیت ادھورا ہے کیوں کہ موسیقی اس کی روح ہے۔

ڈھولک گیت، چہار بیت، قوالی اور لاونی وغیرہ میں مو سیقی کو اہمیت حاصل ہے۔ اسے اکثر گاجے باجے کے ساتھ ہی گاتے ہیں۔ اس دوران ایک شخص کے ذریعے گائے جانے والے گیت کو کورس میں لوگ دہراتے ہیں۔ گیت اور موسیقی کا رشتہ اتنا گہرا ہے کہ جہاں کہیں موسیقی کے آلات دستیاب نہیں ہوتے،لوگ ان کی جگہ دوسری چیزوں سے آلات موسیقی کا کام لیتے ہیں۔

لوک گیتوں میں حزن و یاس کی بھی خوبصورت تصویر دیکھنے کو ملتی ہے۔ جس میں ہمارے معاشرے کے دردناک پہلوؤں کی عکاسی کی جاتی ہے۔ کیوں کہ دیہاتی لوگوں کا غموں اور مصیبتوں سے گہرا رشتہ ہے جس کی وجہ سے وہ اکثر مفلسی اور درد کا شکار رہے،یہی وجہ ہے کہ ان کے گیتوں میں بھی اس پہلو پر اچھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ عام طور پر گیتوں میں عوام کے غم بھی مشترک نظر آتے ہیں۔ جیسے خانگی زندگی میں ساس نند کا سلوک، بیٹی کی رخصتی، شوہر سے جدائی اور بانجھ عورت کا درد وغیرہ سے متعلق گیت دیہاتی لوگوں کے غموں کی عکاسی کرتے ہیں۔


Dr. Abdullah Imteyaz Ahmad

Head, Dept of Urdu

B-Wing, 1st Floor, Ranade Bhavan

University of Mumbai

Kalina Campus, Santa Cruz (E)

Mumbai - 400098 (MS)

Mob.: 9869198168, 9839194123




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں