23/4/19

’یہ کس مقام پہ تنہائی سونپتے ہو مجھے‘ کا خالق اقبال مہدی مضمون نگار: نگار عظیم




’یہ کس مقام پہ تنہائی سونپتے ہو مجھے‘ کا خالق

اقبال مہدی

نگار عظیم


2016 اردو دنیا کے لیے بہت خسارے کا سال رہا۔ اف! کیسی کیسی نامور، دانشور اور فعال ہستیاں ایک کے بعد ایک رخصت ہوتی چلی گئیں۔ انتظار حسین، زبیر رضوی، عابد سہیل، ندا فاضلی، جوگندرپال، شکیل الرحمن.. پوری ستاروں کی ایک کہکشاں آسمان کی وسعتوں میں کہیں کھوگئی۔ گزرنے اور بچھڑنے کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ چپکے سے اگلی نسل کی طرف منتقل ہوگیا۔ اپنے بزرگوں کے چلے جانے پر جس یتیمی کے احساس سے دوچار ہونا پڑا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ بزرگوں کے بعد ہمصروں کے جانے کی ابتدا اسی طرح اتنی تیزی سے ہوگی وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ پیغام آفاقی دیکھتے ہی دیکھتے ایک تارہ بن کر کہیں گم ہوگئے اور سب ہکا بکا رہ گئے اور اب اقبال مہدی... زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے... اقبال مہدی کا پورا نام زبان پر آتے ہی خاموش متین، مسکین ، ہم نوا، غم نوا، سنجیدگی کا پیکر ایک ایسا چہرہ ابھر کر سامنے آتا ہے جسے دیکھ کر احساس ہوتا کہ زمانے بھر کا درد و غم ان کے انگ انگ سے رِس رہا ہو۔ معلوم نہیں ایسا کیوں تھا ان کی مسکراہٹ بھی سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوتی تھی۔ میرے دل کی بے چینی ایک دن زبان بن گئی ’’لگتا ہے صغریٰ آپا کے رعب دبدبے اور خوف نے آپ کو کھلنے ہی نہیں دیا۔‘‘ ایک لمحہ کو چہرہ کھلا، مسکراہٹ نمودار ہوئی اور دوسرے ہی پل اندر کہیں وجود کی گہرائیوں میں اتر گئی۔ تپاک سے بولے جس پر پڑتی ہے بس وہی جان سکتا ہے یہ تو خیر ایک مذاق تھا لیکن یہ ضرورہے کہ اقبال مہدی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بہت دیر سے پہچانے اور وہ بھی صغریٰ آپا کی بدولت۔
ادبی خانوادے کے دو بڑے نام صالحہ عابد حسین اور صغریٰ مہدی کے بعد تیسرا نام اقبال مہدی کا آتا ہے۔ 1999 میں پہلا افسانوی مجموعہ ’درد آتا ہے دبے پاؤں‘ منظر عام پر آتا ہے تو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اقبال مہدی کے چہرے پر درد کی لکیریں یوں ہی نظر نہیں آتی تھیں۔ اقبال مہدی قلمکاروں کے اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جہاں قلمکار غم کھاتا ہے، درد سہتا ہے اور زہر پیتا ہے۔
بایوکیمسٹری میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اپنے کام اور فیلڈ میں ماسٹر ہونے کے بعد کوئی کیونکر آرٹسٹ اور رائٹر بن جاتا ہے؟ ظاہر ہے سماجی سیاسی اقتصادی ناہمواریاں جب ناقابل برداشت ہوجائیں اور دل پارہ پارہ ہونے لگے تو اظہار کے وسیلے تلاش کرنا انسان کی ضرورت بھی ہے، فطرت بھی اور کمزوری بھی۔ اقبال مہدی آرٹسٹ بھی بنے اور قلمکار بھی۔ انسانی رشتوں کی کچی ہوتی ٹوٹتی ڈور، بدلتی تہذیب میں اخلاقیات کا پیچھے چھوٹنا، مشترکہ خاندانوں کا بکھراؤ اور سیاست کا مکروہ چہرہ زمیندارانہ نظام کے اثرات جب حساس ذہن کو گرفت میں لے لیتے ہیں تو اقبال مہدی جیسے افسانہ نگار قلم اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ گھر کے ملازم سے لے کر عالمی سیاست تک اقبال مہدی کی رسائی ہے۔ تقریباً تین دہائی کی قلیل مدت میں چار افسانوی مجموعے اردو دنیا کو دیے یہ معمولی بات نہیں۔ ’درد آتا ہے دبے پاؤں‘ کے بعد ’تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے‘ اور پھر ’تم نے جفا بھی کی تو صنم مدتو ں کے بعد‘ ان کا آخری مجموعہ ’یہ کس مقام پر تنہائی سونپتے ہو مجھے‘ 2013 میں منظرعام پر آیا۔ یہ آخری مجموعہ ان کے پچھلے تینوں افسانوی مجموعوں سے ذرا منفرد اور زیادہ حساس ہے۔ دو اہم مشہور فکشن نگار قرۃ العین حیدر اور صغریٰ مہدی کے قلمی چہرے افسانوی انداز میں پیش کیے تو مجھے منٹو کے ’گنجے فرشتے‘ یاد آگئے۔ کیونکہ انھوں نے منٹو کی ہی طرح دونوں شخصیات کا بڑے سلیقے سے مونڈن کیا ہے۔ یہ دونوں مضمون اقبال مہدی کا فنِ عروج ہیں۔ 
اقبال مہدی کی افسانوی کائنات بھی بڑی منفرد ہے۔ افسانوی مجموعوں کے عنوانات ہی اس قدر فکر انگیز ہیں کہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اور پھر مجموعوں میں شامل افسانوں کے عنوان بھی توجہ طلب ہیں۔ یہاں ان کے افسانوں کے موضوعات پر یا کرداروں پر تبصرہ و تنقید کی گنجائش نہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان جیسے لب و لہجے کی، زبان اور محاوروں کی نثر اب لکھنے والا کوئی نہیں... کوئی بھی نہیں۔ ایک طرف چاشنی ہے تو دوسری طرف تیر و طنز، شگفتگی اور احتجاج... موقع محل کے حساب سے وہ اپنی زبان دانی کے ہنر کو خوب کام میں لائے ہیں۔ افسانہ قرأت کرنے کا انداز بھی بڑا مؤثر منفرد اور واضح ہوتا تھا۔ اسی طرح انھوں نے رنگو ں کے کھیل سے بھی جادو جگایا ہے۔ شاید بہت کم حضرات واقف ہوں گے کہ اقبال مہدی ایک اچھے آرٹسٹ بھی تھے ان کے آرٹ کے کئی بہترین نمونے ان کے گھر کی زینت ہیں۔ باغبانی کے انتہائی شوقین جب بھی گھر جائیے خالی اوقات میں ذہن کو تازہ کرنے کے لیے وہ کھرپی کا استعمال قلم کی ہی طرح کرتے تھے151 اس کے نتائج بھی ان کے سرسبز و شاداب پیڑ پودوں اور پھولوں میں نظر آتے ہیں۔ یادیں باتیں اور ملاقاتیں تو بہت ہیں لیکن آخری دو ملاقاتیں ذہن کے پردے سے ہٹتی ہی نہیں۔ میرے غریب خانے پر میرے ساتھ فرش پر بیٹھ کر حلیم کھاتے ہوئے کچھ اس طرح مخاطب ہوئے ’’بالکل آپا کی طرح ڈانٹ کر کھلاتی ہیں آپ اور وہ بھی حلیم جو مجھے اور انھیں بہت پسند تھا‘‘ یہ کہہ کر وہ آبدیدہ ہوگئے تھے اور مجھے بھی کردیا تھا۔ ہم دونوں ہی اپنے آنسو پی گئے تھے یقیناًاس میں صغریٰ آپا کی یاد اور میرے لیے محبت شامل تھی۔ دوسری ملاقات اس کے تقریباً کچھ ماہ بعد اور انتقال سے ڈیڑھ دو مال قبل بٹلہ ہاؤس قبرستان کے پاس وہ بھی کچھ خریداری کررہے تھے اور میں بھی۔ لیکن ہم دونوں بیمار تھے۔ ہم حکیم کی طرح وہ مجھے ہدایتیں دے رہے تھے اور میں انھیں۔ اگلی ملاقات کا وعدہ کرکے ہم دونوں رخصت ہوئے تھے لیکن وہ اگلی ملاقات... آہ... بس انتظار ہی بنی رہی151
پیڑ پودوں پھولوں قدرت اور مخلوق سے محبت کرنے والے انسان بہت نرم دل حساس اور حددرجہ خوددار ہوتے ہیں۔ یہی نرم گفتاری اور خودداری اقبال مہدی کا خاصہ تھی، جو مجھ جیسے ان کے بہت سے دوستوں کو یاد آتی رہے گی۔وقت اپنی رفتار سے آگے بڑھے گا ادب اور تنقید اپنی رفتار سے۔ اقبال مہدی کا اردو ادب کے لیے جو بھی سرمایہ ہے وہ یقیناًقیمتی سرمایے میں شامل ہوگا اور ان کے فن اور شخصیت پر مزید گفتگو ہوتی رہے گی.. محروم تو ہم ہوئے ہیں نہ ہم نوالہ رہا نہ ہم پیالہ... ہم ایک ایسے انسان سے محروم ہوئے ہیں جس کا لفظِ مخاطب بھنّو اور بی بی ہوتا تھا... زندگی میں قدم قدم پر ساتھ نبھانے والی ان کی شریک حیات ’شمع قبلہ‘ کو خدا ہمیشہ روشن رکھے کہ اب وہی ان کی دو پیاری بیٹیو ں کے مستقبل کا چراغ ہیں151 بھلے ہی وہ ان کو ایسے وقت تنہائی سونپ گئے جب انھیں ان کی بے حد ضرور ت تھی151

Nigar Azeem, 
H-3, Batla House, 
Jamia Nagar, Okhla,
 New Delhi - 110025

ماہنامہ اردو دنیا، دسمبر2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں