18/4/19

کتابوں کا عاشق: اسلم محمود مضمون نگار: ٹی آر رینا



کتابوں کا عاشق: اسلم محمود

ٹی آر رینا
اسلم محمود کا انتقال اِس سال یکم مئی 2016 کو لکھنؤ کے ایک اسپتال میں ہوا۔ بارہ برس قبل انھیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور پچھلے سال انھیں پیس میکر لگایا گیا تھا۔ 30 مارچ 2016 کو پھر دوسرا اٹیک ہوا۔ انھیں اسپتال میں بھرتی کیا گیا۔ دو تین مرتبہ ان کے قویٰ اور جسمانی اجزا جواب دے چکے، دھیرے دھیرے گردے و پھیپھڑے جواب دے گئے، خود سے اٹھ نہیں سکتے تھے۔ آخر وہ شام آئی اور چار بجے اِن کی روح قفسِ عنصری سے بارگاہِ الٰہی کی طرف پرواز کرگئی۔ اس وقت ان کی عمر 75 برس کی تھی۔ دوسرے دن 2 مئی کو لکھنؤ کے نشاط گنج، پیپرمل قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ ان کے والد محترم بھی جنوری 2001 کے آخرمیں اسی سرزمین لکھنؤ میں پیوند خاک ہوئے تھے۔ 
ان کے لواحقین میں ان کی بیگم، بیٹا، بہو اور ان کے بچے شامل ہیں۔ بیٹا اِس وقت دبئی میں کسی بڑی فرم میں کام کرتا ہے۔ اسلم محمود صاحب ریلوے انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد مکمل طور پر لکھنؤ میں قیام پذیر ہوگئے۔
مہر الٰہی ندیم صاحب نے ایک رات اِس منحوس خبر کی اطلاع فون پر دی۔ دل کو ایک دھچکا سا لگا اور ذہن بری طرح متاثر ہوا۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ گذشتہ برس 31 جولائی 2015 کی نصف شب کے بعد بیگم صاحبہ مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوکر سفر آخرت اختیار کرچکی تھیں اور میں ذہنی طور پر پہلے سے ہی بہت پریشان تھا۔
میرے مراسم مرحوم کے ساتھ 2006 سے چلے آرہے تھے۔ 26 فروری 2006 کو برصغیر ہند و پاک کے معروف محقق و مدون رشید حسن خاں صاحب کا انتقال ہوچکا تھا۔ میرے ذہن میں کسی غیبی طاقت نے یہ بات ڈال دی کہ مجھے مرحوم خاں صاحب کے خطوط، جو انھوں نے برصغیر کے مشاہیر ادب کے نام تحریر کیے ہیں انھیں جمع کرکے مرتب کرنا چاہیے۔ اس کارِ خیر کے لیے راقم نے ایک اشتہار ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ دہلی کے لیے بھیج دیا۔ وہ ماہ مارچ کے ایک شمارے میں شائع ہوگیا۔ سب سے پہلے ڈاکٹر ممتاز احمد خاں (ریڈر شعبۂ اردو، مظفر پور یونیورسٹی، بہار) اور یعقوب میراں مجتہدی صاحب (مرتب: لغتِ مجتہدی انگریزی اردو، تین جلدوں میں) حیدر آباد نے بہ ذریعہ خط رابطہ قائم کیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور اسی سال اسلم محمود صاحب سے بھی بہ ذریعہ فون اور خط سے رابطہ قائم ہوا۔
انھوں نے اپنے نام کے ستاون (57) خطوط کے عکس روانہ کیے، جو میری مرتب کردہ ’رشید حسن خاں کے خطوط‘ کی پہلی جلد کے صفحہ 184 تا 240 پہ محیط ہیں۔ اپنے خطوط کے عکس تو انھوں نے روانہ کیے ہی، اس کے علاوہ انھوں نے ہندستان، پاکستان، شکاگو اور نیویارک کے حضرات کے پتے اور ٹیلی فون نمبر بھی روانہ کیے، ساتھ ہی وہاں کے حضرات سے اِس سلسلے میں خود بھی بات کی اور انھیں خطوط کے عکس بھیجنے کے لیے آمادہ کیا۔ 
شاعری کے مطبوعہ و غیرمطبوعہ مجموعوں کے علاوہ انھو ں نے چند بیاضیں بھی جمع کررکھی تھیں، جن میں دوسری قسم کا کلام شامل تھا۔ دو تین بیاضیں میں نے بہ چشم خود دیکھیں۔ وہ انھیں کمپوز کروا کر چھاپنا چاہتے تھے، مگر ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ انھیں چھاپے گا کون؟
انھوں نے مجھے ’دیوانِ چرکین‘ کا ایک قدیم طبع شدہ نسخہ دکھایا جو تقریباً ڈیڑھ سو برس سے زیادہ پرانا تھا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک گورکھپوری نوجوان اسے مرتب کرکے شائع کرچکا ہے۔ پھر وہ نیا شائع شدہ نسخہ بھی دکھایا۔ میں نے ایک جلدکی خواہش ظاہر کی۔ کہنے لگے ایک ہی جلد میرے پاس ہے۔ آپ تک ضرور پہنچے گی۔ ایسا ہی ہوا وہاں سے آنے کے بعد ایک دن ڈاکیہ ایک پیکٹ دے گیا، کھولا تو اُس میں ’دیوانِ چرکن‘ تھا۔ چرکین کا پورا نام شیخ باقر علی چرکین رودولوی ثم لکھنوی درج ہے۔ مرتب کا نام ابرار الحق شاطر گورکھپوری ہے۔ سالِ اشاعت 2007۔ مطبع: گوتم آفسٹ پریس، قاضی کمپاؤنڈ، اسمٰعیل پور، گورکھپور ہے۔
اس نئے شائع شدہ ’دیوانِ چرکین‘ کے صفحات میں مرتب کی اُس تحریر کو دیکھا جاسکتا ہے جس میں اسلم صاحب کے فراہم کردہ نسخے، دوسری کتابوں اور ان کے ذاتی کتب خانے سے استفادے کا یوں ذکر کیا ہے:
’’میرے ایک قریبی دوست نے میری توجہ کتابوں کے ایک دل دادہ جناب اسلم محمود (جو ریلوے انتظامیہ سے حال ہی میں سبک دوش ہونے کے بعد اندرانگر لکھنؤ میں رہائش پذیر ہیں) کے ایک انوکھے مضمون کی جانب مبذول کرائی۔ یہ مضمون ماہنامہ ’نیا دور‘ لکھنؤ کے اودھ نمبر (حصہ دوم) کے اکتوبر، نومبر 1994 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس میں اسلم محمود صاحب کے مضمون ’اودھ اور اطراف کی چند انوکھی اردو مطبوعات‘ کا میں نے مطالعہ کیا جس میں چرکین کے قدیم مطبوعہ دیوان کا مختصر مگر معتبر ذکر تھا۔
موصوف نے اپنے مضمون میں سولہ نایاب و نادر اردو کتابو ں کا ذکر کیا تھا جس میں ایک ’دیوانِ چرکین‘ کا نسخہ بھی شامل تھا جو 1273ھ/ 1856-57 کا طبع شدہ تھا۔ یہ بھی علم ہوا کہ ساری کتابیں اسلم محمود صاحب کے ذاتی ذخیرۂ کتب کی زینت ہیں اور انھیں ان کی رضامندی سے دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ چنانچہ میں نے اپنے ایک عزیز مقیم لکھنؤ کے ذریعے اسلم محمود صاحب کا ٹیلی فون نمبر حاصل کرکے انھیں اپنے ارادے سے مطلع کیا۔ موصوف میرے مقصد کو جان کر بہت خوش ہوئے اور فوراً مجھے ہر طرح کا تعاون دینے کے لیے راضی ہوگئے۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے مجھے یہ بھی تنبیہ کی کہ اردو والے جب یہ سنیں گے کہ آپ چرکین جیسے ’بے آبرو‘ شاعر پر کام کرنا چاہتے ہیں تو زیادہ تر لوگ آپ کی ہمت پست کریں گے مگر بہتر ہوگا کہ ایسے لوگوں کو نظرانداز کردیا جائے۔ میں نے ان کے گراں قدر مشوروں کو ذہن نشین کرلیا۔ چند ہفتوں بعد اسلم محمود صاحب سے چرکین اور کلامِ چرکین پر مفید مواد حاصل ہوا جس کی وجہ سے میرا کام پایہ تکمیل تک پہنچ کیا۔ (ص 21)۔۔۔ مزید کرم فرماتے ہوئے اسلم محمود صاحب نے ملک کی بہت سی لائبریریو ں کے پتے اِس ہدایت کے ساتھ عنایت کیے کہ میں اُن سے خود رابطہ قائم کرکے چرکین کے دیوان کے مختلف ایڈیشن حاصل کروں...
ہاں اسلم محمود صاحب برابر ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعے میری رہنمائی فرماتے رہے اور مناسب ہدایات سے بھی نوازتے رہے۔ نیز میرے کام کی پیش رفت کے بارے میں بھی اکثر و بیشتر دریافت کرتے رہے۔‘‘ (ص 21-22)
اسلم محمود نے اپنے ذخیرۂ کتب سے ’دیوانِ چرکین‘ (مطبوعہ) کا وہ نسخہ شاطر کو مہیا کروایا جس کے مرتب سید مقصود عالم مقصود رضوی پہانوی تھے۔ یہ وہی نسخہ (1273ھ/ 1856-57) ہے جس کا ذکر اوپر کے اقتباس میں آیا ہے۔ شاطر کی تحقیق کے مطابق شاید یہی نسخہ اوّل ہے، ملاحظہ فرمائیں درج ذیل اقتباس:
’’چرکین کے استاد بھائی مقصود تھے کیونکہ دونوں نواب عاشور علی خان بہادر کے شاگر دتھے۔ مقصود نے اپنے استاد بھائی ہونے کا حق یوں ادا کیا کہ چرکین کا کلام اکٹھا کرکے شائع کروایا۔ جس قدر چرکین کے دواوین مجھے اب تک دستیاب ہوئے ہیں اُن میں سب سے زیادہ کلام اِسی مطبوعہ دیوان میں ہے۔ اس سے پہلے کا کوئی نسخہ دستیاب نہیں ہوسکا جتنے بھی بعد کے قلمی یا مطبوعہ نسخے حاصل ہوئے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب کے سب اسی مطبوعہ دیوان پر مبنی ہیں۔ قیاس ہے کہ یہ دیوان چرکین کا پہلا ایڈیشن ہے۔ یہ بھی گمان ہے کہ مقصود ایسا ذہین استاد بھائی اگر چرکین کو نہ ملتا تو شاید چرکین کا جو کچھ کلام آج ہم تک پہنچا ہے وہ تلف ہوگیا ہوتا یا گم نامی کے غار میں پڑا ہوتا۔
متذکرہ دیوانِ چرکین حوض اور حاشیے میں بیالیس صفحات پر چھپا ہے جس کی کتابت چیت رام نے کی ہے۔ نسخے پر نہ تو ناشر کا اورنہ مطبع کا نام ہے ہاں مقامِ اشاعت لکھنؤ ضرور درج ہے۔‘‘ (ص 23)
شاطر مزید لکھتے ہیں:
’’اس کا ایک نسخہ خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ اور دوسری کاپی اسلم محمود صاحب کے ذخیرۂ کتب، لکھنؤ میں ہے۔ اس میں پرانے املے کا استعمال کیا ہے۔‘‘ (ص 23)
اسلم محمود صاحب کی ہی عنایت سے شاطر صاحب کو ایک اور ’دیوانِ چرکین مطبوعہ‘ جو ان کے دوست نیر مسعود صاحب کے کتب خانہ لکھنؤ میں موجود ہے دیکھنا نصیب ہوا۔ اس کے سرورق پر صرف دیوان چرکین چھپا ہے۔ اس مرتب کا نام، ناشر اور مقامِ اشاعت درج نہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے شاطر کو ایک اور قلمی نسخے کا عکس مہیا کیا جو انھوں نے مسلم بن عقیل صاحب رودولی، ضلع بارہ بنکی سے 20 مئی 2004 کو لکھنؤ میں حاصل کیا تھا۔ عقیل صاحب اپنے کو چرکین کے خاندان سے بتاتے ہیں۔
شاطر نے اسلم محمود صاحب کے کتب خانے میں موجود ایسے نسخے کا ذکر کیا ہے جس کے بغیر ’دیوانِ چرکین‘ مکمل نہیں ہوسکتا تھا۔ شاطر صاحب کی تحریر ملاحظہ فرمائیں:
’’اسلم محمود صاحب کے ذخیرۂ کتب میں سید امیر علی نیاز کا ’دیوانِ نیاز‘ بھی موجود ہے جو مطبع محمدی، دہلی سے 1286ھ یعنی 1869 میں شائع ہوا تھا۔ اس کے آخری پانچ صفحات پر ’چرکین نامہ ‘ شائع ہوا ہے۔ اس میں پندرہ ہزلیں ہیں۔ یوں تو تیرہ ہزلیں وہی ہیں جو 1273ھ کے مطبوعہ نسخے میں بھی موجود ہیں لیکن دو ہزلیں ایسی ہیں جو کسی اور نسخے میں موجود نہیں ہیں۔ یہ دونوں زائد ہزلیں موجودہ متن میں شامل کرلی گئی ہیں۔‘‘ (ص 26)
ان اقتباسات کو پیش کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ جس شاعر کو ’فحش نگار اور بے آبرو‘ کہہ کر نظرانداز کردیا گیا تھا ۔ اس کے کلام کے مطبوعہ اور غیرمطبوعہ نسخوں کواسلم محمود صاحب نے اپنے کتب خانے میں محفوظ کررکھا تھا۔ اگر انھوں نے ایسا نہ کیا ہوتا تو ’دیوانِ چرکین‘ موجودہ دور میں مرتب ہوکر کبھی منظرعام پر نہ آتا۔
باتوں باتوں میں اسلم محمود صاحب نے بتایا کہ ان بیاضوں میں ایک دو رشید حسن خاں صاحب مرحوم کی مع منتشر کلام بھیجی ہوئی ہیں۔
اسلم محمود کے رشید حسن خاں مرحوم سے تعلقات کب سے تھے میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ شاید میں نے ان سے پوچھا یا نہیں، یاد نہیں۔ ہاں مرحوم خاں صاحب کے ستاون خطوط میں پہلا اور آخری خط اسلم محمود کے نام 17 اکتوبر 1992، ٹی سی 8، گائر ہال، دہلی یونیورسٹی دہلی 110007 اور 15 اگست 2004 شاہ جہان پور کا تحریر کردہ ہے۔
خاں صاحب اپنے پہلے مکتوب میں اسلم محمود صاحب کے کتب خانے کا ان الفاظ میں ذکر کرتے ہیں:
’’آپ کے ذخیرے کی فہرست عنوانات دیکھ کر آنکھوں کی روشنی بڑھ سی گئی۔ آفریں ہے آپ کی ہمت پر اور مرحبا کہتا ہوں آپ کی خوش ذوقی اور تنوع پسندی پر۔ اب جب بھی اُدھر کا پھیرا ہوا، اِس ذخیرے کو ضرور اپنی آنکھوں سے دیکھوں گا۔ ہاں ’مطائبات‘ کا ذخیرہ بھی آپ کے پاس ہے اور بہت، اس سے متعلق کئی بار سن چکا ہوں۔ اسے بہ طور خاص دیکھوں گا۔ کلکتے سے ایک انتخابی مجموعہ گلدستۂ نشاط شائع ہوا تھا، نستعلیق ٹائپ میں، اس کے آخر میں ایک مختصر سا حصہ ’ہزلیات‘ کا بھی ہے، کیا وہ آپ کی نظر سے گزرا ہے؟ میرے پاس اس حصے کی نقل ہے۔
شان الحق حقی صاحب سے آپ خوب واقف ہوں گے، وہ دوسرے انداز کی شاعری بھی کرتے ہیں اور بعض اوقات مزے کے شعر کہہ جاتے ہیں۔ کیا ان کا کچھ کلام آپ کے پاس ]ہے[۔ مجھے انھوں نے ایک چھوٹی سی نوٹ بک اپنے ہاتھ سے لکھ کر دی تھی جو ایسے ہی کلام پر مشتمل ہے۔ اگر آپ کے پاس ان کی شاعری کا یہ نمونہ نہ ہو تو میں اُسے بھیج دوں، اِس طرح محفوظ بھی ہوجائے گا۔‘‘ (رشید حسن خاں کے خطوط، ص 184)
اسی بات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اسلم صاحب کو لکھتے ہیں:
’’مطلوبہ چیزیں بھیج رہا ہوں۔ گلدستۂ نشاط کی نقل ایک صاحب سے تیار کرائی تھی، تعارفی نوٹ مختصر سا میں نے لکھا تھا، ہزلیات کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسے اور میر حسن کے واسوختوں کو میں نے محفوظ کرلیا تھا۔ وہ پورا حصہ بھیج رہا ہوں۔ اسے واپس کرنے کی ضرورت نہیں۔
حقی صاحب کی بیاض بھی ملفوف ہے، اسے البتہ واپس کردیجیے گا۔‘‘ (ص 185)
دو سطر اوپر میر حسن کا ذکر آیا ہے جس سے راقم کی بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہر دور کے اچھے اچھے شعرا نے ایسا کلام کہا ہے۔ اسلم صاحب نے حقی صاحب کی بیاض کی نقل اتارنے کے بعد اِسے واپس بھیج دیا۔ 14 فروری 1993 کو پیکٹ رشید حسن خاں صاحب کو ملتا ہے۔ 15 فروری 1993 کو وہ پھر اسلم محمود کو لکھتے ہیں:
’’کل پارسل مل گیا، شکر گزار ہوں۔ میری نظر میں اس زمانے میں اعلیٰ درجے کے فحش نگار محشر عنایتی مرحوم تھے، رام پور کے۔ میری رائے میں تو بعض اعتبارات سے وہ رفیع احمد خاں مرحوم سے بھی آگے تھے۔ میں نے ان کا کلام مختلف لوگوں سے سنا ہے، مگر ایسے کسی شخص کو نہیں جانتا جس کے پاس وہ ذخیرہ ہو۔ آپ رام پور میں کسی معتبر شخص سے دریافت کیجیے۔
ایک صاحب نے، جن کا نام اب یاد نہیں، مجھے ایک بار اُن کی ایک غزل سنائی تھی، ’مرصع‘ تھی۔ ایک شعر تو ایسا تھا کہ پورے فارسی ادب میں اُس کا جواب نہیں ملے گا، قدِ محبوب کی ایسی تشبیہ کہیں دیکھی ہی نہیں۔ وہ شعر مجھے یاد ہے:
شاعر ثنائے قامتِ دلدار کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اِس کا مقطع تو ایسا استادانہ ہے کہ کسی بھی بڑے استاد کو اس پر رشک آسکتا ہے۔ قافیہ ہے: نظر، منظر۔ اس میں ’محشر‘ کا قافیہ سامنے کا ہے، شاعر نہیں کہے گا تو کوئی دوسرا کہہ دے گا۔ مگر شاعر کیسے کہے، ردیف مانع ہے، مگر مرحوم نے کہا ہے اور اس طرح، مقولۂ غیر بنا کر:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ص 186)
مسئلہ یہاں فحش کلام کا نہیں، دیکھنا یہ ہے کہ کہنے والا کیسی استادانہ مہارت رکھتا ہے۔ بحر و وزن، قافیہ و ردیف کے علاوہ عروضی پابندیوں کا لازمی دھیان رکھا جاتا ہے۔ غزلیہ شاعری کے سبھی لوازمات ایسے شعرا حضرات کے کلام میں ہمیں نظر آتے ہیں۔
موجودہ دور کی اردو دنیا اسلم محمود صاحب سے پوری طرح متعارف نہیں تھی، اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ ریلوے کے محکمے میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ انھوں نے شاید کسی ادبی سمینار یا اجتماع میں حصہ نہیں لیا، نہ ہی کسی نے ان کے ذخیرۂ کتب پر کبھی کوئی مضمون شائع کیا ہو۔ ہاں انفرادی طور پر کتابیں جمع کرنے کا ان کا شوق (جیسا کہ اس سے قبل ذکر آچکا ہے) جنون کی حد تک تھا۔ ان کے شوق کے ایک اور پہلو سے متعلق جو جان کاری میں آپ حضرات کو دینے جارہا ہوں، اسے سن کر آپ انھیں دادِ تحسین دیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ ان کے ذخیرۂ کتب میں صرف ’خطاطی‘ پر دو سو پچاس کتابیں موجود ہیں، جو انھوں نے برصغیر ہند وپاک، ایران، عرب اور بیرونی ممالک سے حاصل کی تھیں۔ برصغیر ہند و پاک کے تحقیقی کام کرنے والے جن حضرات کو ان کے کتب خانے کا علم ہوا، انھوں نے ان سے رابطہ قائم کیاا ور انھوں نے ہر طرح سے ان کی مدد کی۔
ایک اصول کی انھوں نے زندگی بھر سختی سے پابندی کی۔ ایک بار جو کتاب ان کے ذخیرے میں شامل ہوگئی وہ اسے نہ تو اپنے سے جدا کرتے تھے او رنہ ہی کسی کو مستعار دیتے تھے۔ وہ اس کا عکس بنوا دیتے یا وہ شخص ان کے کتب خانے میں آکر اس سے استفادہ کرسکتا تھا۔ ہاں، البتہ رشیدحسن خاں صاحب اس سے مستثنیٰ تھے، ان کا بھی یہ اصول تھا کہ جس سے کوئی کتاب منگواتے، کام مکمل ہونے کے فوراً بعد بہ حفاظت کتاب لوٹا دیتے تھے۔
اسلم محمود کی فرمائش پر رشید حسن خاں صاحب نے زٹل نامہ، جعفر زٹلی اور مصطلحاتِ ٹھگی علی اکبر الہ آبادی جیسی کتابیں مرتب کیں۔ اسلم صاحب نے ان نسخوں کے عکس ہی مہیا نہیں کرائے بلکہ ان سے متعلق بہت سا مواد بھی بہم پہنچایا۔ خاں صاحب کے اصرار پر انھوں نے مصطلحات ٹھگی کی ببلوگرافی مرتب کی جو پانچ صفحات پر مشتمل ہے، جن میں چار صفحات انگریزی کتب اور آر ٹیکل اور ایک صفحہ اردو اور فارسی کتب سے متعلق ہے۔ کتاب کے آخر میں یہ صفحہ 245 تا 249 پر محیط ہے۔
پروفیسر نیر مسعود بھی اسلم صاحب سے قبل ’امراؤ جان ادا‘ مرتب کرنے کی فرمائش کرچکے تھے۔ اسلم صاحب نے اس کے چند نسخے بھی بہم پہنچائے تھے، مگر تلاش کے باوجود خاں صاحب کو اِس کی اشاعتِ اول کا نسخہ نہیں مل سکا اور وہ اسے اس کے بغیر مرتب کرنا نہیں چاہتے تھے، لہٰذا یہ کام دھرا کا دھرا رہ گیا۔
مثنوی گلزارِ نسیم، انشائے غالب، مثنویاتِ نواب، مرزا شوق لکھنوی (فریب عشق، بہارِ عشق، زہر عشق)، مثنوی سحرالبیان، کلاسیکی ادب کی فرہنگ اور گنجینہ معنی کا طلسم جیسی اہم کتابیں رشید حسن خاں صاحب نے مرتب کیں، ان سب میں کسی نہ کسی حد تک اسلم صاحب کے مواد اور مشوروں کا دخل رہا ہے۔
22 تا 27 نومبر 2013 کو میں پرنسپل ڈاکٹر جوگ راج (اردو ریسرچ اینڈ ٹریننگ سنٹر سولن، ہماچل پردیش اور لکھنؤ یوپی) کی دعوت پہ لکھنؤ پہنچا۔ وہاں اردو مرکز میں چھ دنوں کے لیے اردو زبان سے متعلق ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس میں پروفیسر غضنفر (جامعہ اردو دہلی) جو پہلے یہاں پرنسپل رہ چکے ہیں وہ بھی مع بیگم شامل ہوئے۔ پروفیسر کول جو یہاں جوگ راج صاحب سے پہلے پرنسپل تھے (اب دہلی میں قیام پذیر ہیں) وہ بھی حاضر ہوئے۔ یوپی اردو اکادمی کے مازاختر اور محسن خاں، ڈاکٹر ملکہ خورشید، ڈاکٹر منصور حسن خاں، ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی (جوش ملیح آبادی کے بہن کے نواسے)، عمران انوروی، پاٹھک صاحب کے علاوہ شہر کے نامور شعرا اور افسانہ نویس، لکھنؤ ہی میں ایک تبلیغِ اسلام نام کا ادارہ ہے اس کے سربراہ بھی شامل ہوئے۔
دوسرے دن 24 نومبر 2013 کو محفلِ افسانہ منعقد ہوئی۔
شام کے وقت میں ڈاکٹر دینکر کے ساتھ بائیک پر اسلم محمود صاحب کے گھر اندرانگر 885-A پہنچا۔ بل بجائی وہ باہر گیٹ پر آئے۔ مجھے اچانک وہاں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ مجھے گلے لگایا اور اندر لے آئے ڈرائنگ روم میں۔ حال چال پوچھا، آنے کی وجہ پوچھی۔ تھوڑی دیر کے بعد چائے آگئی، ہم سب نے اکٹھا چائے پی۔ بیٹے اور بہو سے ملوایا۔ سب کے ساتھ تصویریں کھینچی گئیں۔ قریب ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ہم واپس ہوئے کیوں کہ ڈاکٹر دینکر مجھے اردو مرکز چھوڑ کر گھر جانے والا تھا۔ یہ ہماری دوسری اور آخری ملاقات تھی۔
بہت سے مضامین میں نومبر 2014 سے پہلے جمع کرچکا تھا۔ بیگم کی اس جہاں سے رخصتی کے بعد میں خاموش سا ہوگیا، گھر میں صرف ایک بچی ہے، چار کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ چھ ماہ کے بعد ایک دن سبھی بیٹیاں جمع ہوئیں اور کہا: پاپا ایسا کب تک چلے گا، آپ اپنی توجہ لکھنے پڑھنے کی طرف مبذول کریں، خاموشی آپ کے لیے خطرناک ہے۔
کتابوں کا عاشق ہی نہیں مجنوں (اسلم محمود) اپنی لیلیٰ (لائبریری) کو ابدی زندگی بخش کر یکم مئی 2016 کو اِس جہانِ فانی (کے شہر لکھنؤ) سے رخصت ہوکر 2 مئی 2016 سے لکھنؤ کے نشاط گنج، پیرپل کے شہر خاموشاں میں ابدی نیند سورہا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاِ الَیْہِ رَاجِعُون!

Dr. T.R. Raina, 
F-237, Lawer Hari Singh Nagar
Rehari Colony, Jammu - 180005 (J&K)
Mob.: 09419828542
E-mail.: trrainaraina@yahoo.com

ماہنامہ اردو دنیا، دسمبر2016





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں