18/4/19

اردو کا خاموش خدمت گزار: احسن سلیم مضمون نگار: شاہ نواز فیاض



اردو کا خاموش خدمت گزار: احسن سلیم
شاہ نواز فیاض
اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے دوسرے حصے کا ابتدائی سال (2016)اردو کے شیدائیوں کے لیے بہت تکلیف دہ رہا۔ جنوری2016سے اب تک نہ جانے اردو کے کتنے شاعر و ادیب، ناقد و محقق دنیا سے چلے گئے۔ اگر سرسری طور پر نگاہ ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ پوری بستی اجڑگئی ہے۔ ملک زادہ منظور چلے گئے، انتظار حسین،جوگیندر پال،اسلم فرخی، عابد سہیل، زبیر رضوی، ندافاضلی، اسلوب احمد انصاری، شکیل الرحمن، سیدہ جعفر، احسن سلیم اور اب پیغام آفاقی بھی اپنے آفاقی پیغام کو چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی آندھی چلی، اور بہت سارے لوگوں کو اپنے ساتھ اڑا لے گئی۔مذکورہ بالا اسما پر غور کیاجائے تواندازہ ہوتا ہے کہ احسن سلیم کو ابھی سے لوگوں نے بھلانا شروع کر دیا ہے۔ البتہ یہ خوش آئین خبر ہے کہ ’اجرا‘کا کوئی خاص شمارہ ان کی خدمات کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر احسن سلیم ایک شاعر تھے، لیکن ادب کے متعلق ان کا جو نظریہ تھا، وہ معروف سہ ماہی رسالہ’اجرا‘ کی ابتدا سے ہوتا ہے۔اس رسالے میں انھوں نے ’ادب برائے تبدیلی ‘ کے متعلق جس بحث کا آغاز کیا تھا، وہ بہت دنوں تک یاد کیا جائے گا۔اس بحث میں کئی بڑے ناموں نے بھی حصہ لیا۔
احسن سلیم(1949تا /25جون2016)کا اصلی نام محمد سلیم قائم خانی تھا۔انھوں نے حیدرآباد سٹی کالج سے گریجویشن کیا اور سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے پاس کیا۔1973سے بینک میں ملازمت کرنے لگے۔ انھیں بچپن ہی سے کہانیاں سنانے کا شوق تھا۔احسن سلیم نے نثری نظم اور غزل میں طبع آزمائی کی۔اجرا جیسے رسالے کی کامیاب ادارت کی۔ادب سے ان کی محبت بے لوث اور منفعت سے عاری تھی۔وہ نہ صرف ایک ادبی جریدے کے مدیر اور سرپرست تھے، بلکہ کتنے نئے اور تازہ اذہان کے پاسبان اور رفیق تھے۔احسن سلیم سہ ماہی ’اجرا‘سے پہلے’سخن زار‘سے وابستہ تھے۔ادارت کا سلسلہ ملازمت کی سبکدوشی کے بعد شروع ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک محنتی انسان تھے۔اس کا ثبوت انھوں نے سہ ماہی ’اجرا‘ کو سامنے لا کردیا۔یہ سہ ماہی رسالہ کراچی (پاکستان )سے احسن سلیم کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ دراصل یہ سہ ماہی کتابی سلسلہ تھا۔اس کا پہلا شمارہ جنوری تا مارچ2010میں منظر عام پر آیا۔ غالباً اس کا آخری شمار ہ جولائی تا ستمبر2015میں آیا۔اس اعتبار سے کل تیئس شمارے منظر عام پر آئے۔جب تک احسن سلیم کی صحت ٹھیک تھی، اس وقت تک یہ رسالہ تسلسل کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔اجرا کے ابتدائی شماروں کے سر ورق پر لکھا ہوتا تھا:
’’منتخب عالمی اور علاقائی ادب کے ساتھ ساتھ پاکستان، ہندوستان اور دنیا بھر کے منفرد اور مقبول لکھاریوں کے مضامین، کہانیاں، شاعری اور دیگر فن پاروں پر محیط سہ ماہی کتابی سلسلہ۔ ‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ احسن سلیم نے اس کام کو بڑے منصوبے کے ساتھ شروع کیا تھا۔یہ ان کی ادب کے تئیں دلچسپی کی انتہا ہے؛ ورنہ بینک میں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد، وہ اپنے آپ کو کہیں مصروف کر سکتے تھے، لیکن انھوں نے ادب کی خدمت کو ہی اپنا فریضہ سمجھا۔ دوران ملازمت لوگ انھیں سخن سنج اور سخن فہم کی حیثیت سے ہی جانتے تھے، لیکن انھوں نے اپنا دوسرا رخ سہ ماہی’ اجرا‘ سے شروع کیا۔اگر ان کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو صرف اورصرف اس رسالے کی وجہ سے ان پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔اجرا میں ایک کالم’خیابان خیال‘ کے عنوان سے تھا۔اس کالم کے تحت احسن سلیم الگ الگ موضوعات پر اداریہ لکھا کرتے تھے۔اس اداریے سے ان کا تنقیدی رویہ بھی سامنے آیا۔
احسن سلیم اچھے اور معیاری ادب کے دلدادہ تھے۔ وہ ہمیشہ اچھے ادب کی تخلیق پر زور دیتے تھے۔یہ ان کا ادب کے تئیں محتاط رویہ ہی کہا جائے گا، جو انھوں نے اجرا کے تئیسویں شمارہ(جولائی تا ستمبر2015) میں’ادب آزاد ہے!‘کے موضوع پر لکھتے ہوئے کہا تھاکہ:
’’ہمارے مین اسٹریم کے دانشور ایک ایک کر کے اٹھتے جا رہے ہیں۔حسن عسکری اور فیض احمد فیض سے قمر جمیل تک اہم ادبی دانشور اب ہم میں نہیں ہیں... بعض نقاد ایسے بھی ہیں جو تیسرے چوتھے درجے کے شاعروں کی شان میں قصیدے لکھ لکھ کر انھیں فیض اور راشد سے بھی بڑا شاعر بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔
غیر تخلیقی ادب کی حوصلہ افزائی کے رویوں کو ترک کر دینا چاہیے۔بگاڑ اور خرابی کی جڑ یہی’حوصلہ افزائی‘ ہے۔‘‘
(اجرا۔کراچی، پاکستان۔ جولائی تا ستمبر 2015، ص 12) 
احسن سلیم کے درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادب کے معیار کو باقی رکھنے کے لیے وہ کس قدر محتاط ہیں۔یہ سچ بات ہے کہ ہم ادب کی بات کرتے ہیں، لیکن اس میں مقصدیت اس طرح غالب ہے کہ بسااوقات اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔بعض نعروں نے ادب کو بہت نقصان پہنچایا؛ جیسے’ادب برائے ادب‘ اور ’ادب برائے زندگی‘۔ذکر بالا اداریے میں احسن سلیم نے اسی آزادی کی طرف اشارہ کیا ہے۔دراصل یہ پورا اداریہ سوسن سون ٹیگ کی اس تقریر سے ماخوذ ہے، جو انھوں نے فرائیڈن اسپریس (Frieden Spries) ایوارڈ کے موقع پر 2003میں کی تھی۔سوسن سون ٹیگ نے اپنی تقریر میں ادب کی اسی آزادی کا مدعا اٹھایا تھا۔اردو قارئین کے سامنے احسن سلیم نے اسے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔اسی طرح سے احسن سلیم نے اجرا کے اکیسویں شمارے (جنوری تا مارچ2015) میں ’ادبی و فکری اقدار کی صورت گری‘ کے عنوان سے جو اداریہ لکھا وہ بھی کئی اعتبار سے کافی اہم ہے۔اسی میں انھوں نے اعلان کیا تھا کہ اجرا اور عالمی تحریک ادب کے زیر اہتمام اگست 2015 میں ’ادب برائے تبدیلی‘ کے حوالے سے ایک بین الاقوامی ادبی کانفرنس کا انعقاد کرے گی۔لیکن جن لوگوں نے تعاون کرنے کا وعدہ کیا تھا، وہ بوجوہ پیچھے ہٹ گئے۔اور اس پروگرام کواس سطح پرعملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا،جیسا وہ چاہتے تھے، اس کا انھیں بہت ملال بھی تھا۔لیکن اس بحث کو اجرا میں انھوں نے اٹھایا،اور کئی اہم لکھنے والوں (محمد ناصر شمسی، پروفیسر عتیق احمد جیلانی، ریاض تسنیم)نے حصہ لیا؛ اور کئی کئی قسطوں میں اپنی بات قارئین کے سامنے پیش کیں۔
احسن سلیم کے دوسرے اداریے جیسے ’آنسوؤں کا بہتا ہوا دریا‘ (اکتوبر تا دسمبر2014 )،خالی جیب اور خالی ہاتھ، جمہوری طرز احساس اور شکر گزاری کے جذبات (شمارہ18)، باطنی تسکین، کے علاوہ ان کے دوسرے اداریے، اسی طرح سے ادب کے کسی نا کسی مسئلے پر ہوتے تھے۔ان کے اداریے، نہ صرف کسی مسئلے پر لکھے جاتے تھے، بلکہ وہ تاریخی اور علمی اعتبار سے بھی کافی اہم ہوتے تھے کہ انھوں نے اپنے اداریے سے اردو قارئین کو متعصب ذہنوں سے آزادی دلانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ ادب کو تعلقات کی عینک سے نہ دیکھا جائے، بلکہ فن پارے کو فن کی کسوٹی پر پرکھا جائے؛ ممکن ہے کہ نقاد کے سخت جملے سے کسی کو دکھ پہنچے، لیکن ادب کی تعمیر و ترقی میں ایسا کرنا نا گزیر ہے۔قاضی عبد الودود نے تعلقات سے بہت اوپر اٹھ کر اپنے تبصرے لکھے،ان کے تبصرے بلاشبہ سخت ترین ہوتے تھے، لیکن محققین نے احتیاط سے کام لینا شروع کیا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پھر سے کوئی قاضی عبد الودود بنے، بھر سے کوئی احسن سلیم بن کر ’خیابان خیال‘ لکھے۔اس سے ادب میں پختگی ہی آئے گی۔ آنے والی نسلوں کو اگر کچھ دینے کا رادہ ہے تو سخت لہجہ ہونا ہی پڑے گا۔معیاری ادب کی تخلیق پر ہی احسن سلیم نے زور دیاہے،ادب کی بقا کے لیے معیار ہی سب سے موثر ذریعہ ہے۔
احسن سلیم بنیادی طور پر شاعر تھے۔ان کی نظمیں اور غزلیں اور بطور خاص نثری نظمیں ہی ان کے اردو ادب میں تعارف کا ذریعہ بنیں۔نثری نظم کی تحریک جو قمر جمیل، رئیس فروغ، ضمیر علی اور دیگر سینئر حضرات نے شروع کی تھی، احسن سلیم بھی اس کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ احسن سلیم نے بے شمار نثری نظمیں کہی ہیں، ان میں کچھ تو بے مثال ہیں، جیسے وراثت، آسمانی جنون وغیرہ۔
احسن سلیم کی جو کتابیں شائع ہوئی ہیں، وہ ’ست رنگی آنکھیں‘، ’منجمد پیاس‘،’جوئے میں جیتی ہوئی آنکھیں‘، ’آسمانی جنون‘، ’وراثت‘ کے علاوہ خطوط کا ایک مجموعہ ’پتوں میں پوشیدہ آگ‘ ہیں۔ لیکن احسن سلیم کے تعلق سے پڑھتے ہوئے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ’اجرا‘ کی اشاعت نے انھیں ایک الگ پہچان دی۔ ادب کے تعلق سے ان کے نظریات ’اجرا‘ ہی کے ذریعے لوگوں کے سامنے آئے۔اس کے علاوہ احسن سلیم نئے لوگوں کے لیے’اجرا تخلیقی مکالمہ‘ کے تحت ہر پندرہ دن کے بعد ایک اجلاس منعقد کرتے تھے، جس میں شہر کے بہت سے افراد شریک ہوتے تھے۔ ان جلسوں میں مضامین، افسانے اور شاعری پڑھی جاتی تھی اور پھر اس پر مکالمہ ہوتا تھا۔اس کی پذیرائی کراچی کے ادبی حلقوں میں بھی کی گئی۔ اس سے واضح طور یہ بات سامنے آتی ہے کہ احسن سلیم نے ادب کے حسن کو نکھارنے اور معیاری بنانے میں اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کی۔ وہ اسی کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ گردانتے تھے۔
احسن سلیم کا شمار نظم کے اہم شعرا میں ہوتا ہے۔ان کی نثری نظم کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا اسلوب بہت جدا گانہ ہے۔بلند خیال، نئی لفظیات، پر قوت آہنگ۔لیکن ایک چیز کا احساس ضرور ہوتا ہے کہ انھوں نے کچھ عدم توجہی برتی، اور ایسا بھی لگتا ہے کہ کچھ اپنوں نے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا؛ کیونکہ ان کی کتابیں صحیح معنوں میں قارئین تک پہنچ ہی نہیں سکیں۔اس سمت بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ان کے ادبی سرمایے کو عام قارئین تک پہنچایا جائے۔اس کا ایک بنیادی فائدہ ضرور ہوگا کہ جو لوگ احسن سلیم سے واقف ہیں، وہ ان کے سرمایے سے انھیں جانیں گے۔اور چند لوگوں تک محدود ہونے کے بجائے ایک بڑے حلقے تک ان کا سرمایہ پہنچ جائے گا۔چیزیں ضائع ہونے سے بچ جائیں گی۔
احسن سلیم نے عام طور پر نظمیں ہی کہی ہیں، لیکن ان کی غزلیں، وہ تعداد میں چاہے جتنی بھی ہوں، ان میں نہ صرف روانی ہے، بلکہ ان کے پڑھنے سے عجیب و غریب سی نغمگی کا احساس ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں جس احساس کے سہارے اپنی بات کو غزل کے سانچے میں ڈھالا ہے، اس میں زندگی کے بہت سے ٹوٹے ہوئے رشتوں کی یاد سمٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ وہاں(پاکستان) جا کر بھی اپنے آبائی وطن راجستھان (ہندوستان) کو کسی طور بھی بھول نہیں سکے۔احسن سلیم کے یہاں احساس دراصل زندگی کی علامت ہے، وہ انھیں میں چلتی پھرتی دنیا دیکھتے ہیں۔غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
میں سمت غیب سے قدموں کی چاپ سنتا ہوں
مدیرِ وقت ہوں صدیوں کی چاپ سنتا ہوں
نجانے کون ہے؟ کس کا کلام ہے لیکن!
میں گوشِ دہر ہوں صدموں کی چاپ سنتا ہوں
ہوا جو قتل وہ صدیوں کا نور تھا شاید
کنارِ آب، میں نوحوں کی چاپ سنتا ہوں
گھروں میں جاگتا رہتا ہے خواب کا منظر!
مگر میں نیند میں بوٹوں کی چاپ سنتا ہوں
احسن سلیم انجام کی پرواہ کیے بغیراپنی بات کہتے تھے۔ پاکستان میں جب دہشت گردوں نے اسکولی بچوں کو اپنی درندگی کا شکار بنایا تھا تو اس وقت احسن سلیم نے ’اجرا‘ کا جو اداریہ لکھا تھا، وہ ان کی بے باکی کا کھلا اظہار ہے۔ انھوں نے جہاں ہتھیاروں کی مذمت کی ہے، وہیں حکومت پاکستان کے رویے پر سوال بھی اٹھایا تھا۔ انھوں نے لکھاتھا:
’’دنیا کی تاریخ میں معصوم طالب علموں پر، دہشت گردوں کا ایسا بہیمانہ حملہ، علمی درسگاہ میں موت کا ابلیسی رقص، دراصل اکیسویں صدی کے بطن سے پیدا ہوتی ہوئی انسانیت اور عالمی کلچر کے رخسار پر دہشت گردی کا ایسا طمانچہ ہے جس کی انگلیوں کے نشان مدتوں انسانیت کو شرمندہ کرتے رہیں گے۔ ہمارے وطن میں دہشت گردی کی سفاکانہ کارروائیاں گزشتہ چار دہائیوں سے جاری ہیں۔ ان دہشت گردوں کے خلاف ہماری حکومتوں کے بے فیض اور لا یعنی اقدامات محض خانہ پری کرنے کی عادت کا تسلسل ہیں۔‘‘ 
(اجرا،کراچی، پاکستان، شمارہ20، اکتوبر تا دسمبر2014، ص، 12)
اس طرح کی عبارت وہی لکھ سکتا ہے، جس میں قوت ہوگی۔احسن سلیم نے قلم کا سودا نہیں کیا۔انھوں نے وہ لکھا، لکھا جانا چاہیے تھا۔احسن سلیم کا یہ شعر’ہوا جو قتل وہ صدیوں کا نور تھاشاید،کنارِ آب، میں نوحوں کی چاپ سنتا ہوں‘ یا ان جیسے اشعار، ان کے بلند حوصلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔احسن سلیم زندگی جینے کے نئے نئے امکانات تلاشتے تھے۔ایک طرف قتل تو دوسری طرف کنار آب اور نوحوں کی چاپ، اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ حالات سے لڑنے میں یقین رکھتے تھے اور ایسا اس لیے تھا، کیونکہ انھیں خود پر بھروسا تھا۔پچھلی دو دہائیوں میں عالمی سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ یقیناًبہت خوفناک ہے۔ایسے میں کچھ لوگ وہ ہیں جو خاموشی پر یقین رکھتے ہیں، سب کچھ دیکھنے کے باوجود اظہار کرنے کی قوت نہیں رکھتے، اور کچھ لوگ ایسے ہیں جواظہار کی قوت رکھتے ہیں، اور اپنی بات مختلف پیرائے میں، کبھی نثر میں تو کبھی نظم کی صورت میں عام لوگوں تک پہنچاتے ہیں،ایسے ہی لوگوں میں احسن سلیم کا شمار ہوتا ہے۔ان کی ذاتی زندگی سے عام لوگوں کو سروکار نہیں ہونا چاہیے، ہمیں غور اس بات پر کرنا چاہیے کہ انھوں نے ایسا کون سا کام کیا ہے، جو سماج کے لیے اور ادب کے لیے موثر ثابت ہوا۔اس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے۔احسن سلیم کے ایسے بہت سے کام ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گے۔
احسن سلیم نے نثری نظم میں خوب طبع آزمائی کی، اور ان میں سے کچھ شاہکار بھی مانی جاتی ہیں۔سہ ماہی ’سمت‘ جو کہ اعجاز عبید کی ادارت میں نکلنے والا آن لائن رسالہ ہے۔اس رسالے میں’یاد رفتگاں‘ کے تحت احسن سلیم کی نظم ’وراثت‘کو شائع کیا گیا ہے۔یہ نظم تقریباً بیس صفحات پر محیط ہے۔اس نظم کے کچھ حصے ملاحظہ ہوں:
آؤ ہم
اپنے بوسیدہ کپڑوں کی باسی خوشبو
سورج کے منھ پر الٹ دیں
اور ہرے بھرے جنگلوں سے
نئی خوشبو سمیٹ لائیں
تلخی کا ایک گھونٹ
کئی ہزار شیروں کو جنم دے سکتا ہے
آؤ ہم
بھوسے کے ڈھیر میں
شیروں کے بیج بو دیں
ورنہ...۔
یہ ریشمی سانپ
تمھاری چھاتیاں پی جائیں گے
اور ہماری آگ کا دھڑکتا پھول
وقت سے پہلے یتیم ہو جائے گا
(رسالہ سمت۔شمارہ31جولائی تا دسمبر 2016 ص، 82-83)
احسن سلیم کی نظم کے ذکر بالا حصے پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے کس طرح سے نئی نئی چیزوں کو نئے خیالات کو اپنے انداز میں قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ ایک طرف باسی خوشبو کو سورج کے منھ پر انڈیلنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ہرے بھرے جنگلوں سے نئی خوشبو سمیٹ لانے کی بات۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ احسن سلیم زندگی کے خراب حصے کو اپنے سے دور کرنے اور نئی نئی چیزوں کی تلاش کر کے زندگی کو از سر نو خوش حال بنانے کی جد وجہد کرتے ہیں۔اس کے طریقے کیا ہو سکتے ہیں، اس کی تلاش از خود کرنی ہوگی۔لیکن احسن سلیم نے اشارہ ضرور کیا ہے۔دانا کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔احسن سلیم کی ایک اور مشہور نظم’آسمانی جنون‘ ہے۔ اس نظم کا ایک حصہ ملاحظہ ہو:
شاعری
ایک آسمانی جنون ہے
جڑواں گھروں کے درمیان
ایک پرانا مکالمہ دہرایا گیا
ہمارے خواب
آئندہ میں سفر کرنے کے قابل نہیں رہے
خیال کی لہروں کے ساتھ
ہمارا
ناتواں ارتکاز
گندے نالوں میں بہا دیا گیا
دھول سے اٹے ہوئے
عام آدمی کے خواب
راستوں میں دھر لیے گئے
عدم آگہی کی چادر تان دی گئی
ہمارے کھیتوں میں
سربریدہ فصلوں کی پاسبانی کے لیے
بے لباس آنکھوں میں
ننگے خواب اتار دیے گئے
(اجرا۔کراچی، پاکستان۔جولائی تا ستمبر2015، ص، 144) 
بحیثیت مجموعی کہا جا سکتا ہے کہ احسن سلیم نے نثری نظم کے فروغ میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔انھوں نے جو کچھ بھی تخلیق کیا، اسے اس طرح سے پذیرائی حاصل نہیں، جس کی وہ مستحق ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ احسن سلیم نے عدم توجہی برتی، ان کی کتابیں محدود دائرے ہی تک پہنچ سکیں۔دوسرے یہ کہ انھوں نے جب سے اجرا کی اشاعت شروع کی، اور چیزوں کی طرف اس طرح سے توجہ نہیں کی، جس طرح کرنا چاہیے تھا۔اس لیے بھی ان کی شخصیت بحیثیت تخلیق کار گمنامی کا شکار ہوگئی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا جائے۔تاکہ ادب میں ان کو وہ مقام مل سکے جس کے وہ مستحق ہیں۔

Dr. Shahnewaz Faiyaz, 
H.No. 1262 Zubaida Building 
Near Aoliya Masjid 
Ghaibi Nagar, Bhiwandi, 
Thane - 421302 (MH)


ماہنامہ اردو دنیا، دسمبر2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

2 تبصرے: