23/4/19

شکیل الرحمن... سیکولر رحمن مضمون نگار: قدوس جاوید


شکیل الرحمن... سیکولر رحمن

قدوس جاوید
شکیل الرحمن : اگر ’شکیل الرحمن‘ کے سانچے میں ڈھلے، اور اردو تنقید میں شکیل و جمیل زاویوں کا اضافہ کیا تو اس کا سبب ان کی فطری، سیکولر اور جمال پسندنفسیات کے علاوہ، کشمیر میں ان کاطویل المدتی قیام بھی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک سچ ہے کہ اگرشکیل الرحمن کا ورود اس وادی میں نہ ہوا ہوتا تو شاید ’نیاکشمیر‘ میں اردو زبان وادب کافروغ اس رفتار اور معیار سے نہ ہوا ہوتا، جس رفتار اور معیار سے کشمیر میں اردو زبان و ادب کی نشر و اشاعت، ڈاکٹر شکیل الرحمن کی آمد کے بعد ہوئی۔آج اگر ریاست جموں وکشمیر کو بھی اردو زبان وادب کاایک اہم مرکز تسلیم کیا جاتا ہے تو اس کے پس پشت شکیل صاحب کی برسوں کی محنت ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں اردو کی عوامی مقبولیت کی شہادتیں آج کشمیر کے گاؤں گاؤں میں ملتی ہیں۔ شکیل الرحمن کے شاگردوں اور ان شاگردوں کی ذُریات اس ریاست کے تینوں خطوں جموں، کشمیر،اور لداخ میں آج بھی اردو زبان وادب کی آبیاری میں مصروف ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ شکیل الرحمن نے ’پٹنہ یونیورسٹی ‘سے اعلی تعلیمی سندیں حاصل کی تھیں۔
پروفیسر شکیل الرحمن کو ان کی ادبی خدمات کے لیے ہند و پاک کے کئی اداروں کی جانب سے ایوار ڈدیے گئے ہیں۔موصوف کئی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بھی رہے۔ شکیل الرحمن نے کم و بیش پچاس کتابیں تصنیف کیں،خود شکیل ارحمن کی شخصیت اور ادبی خدمات پر ایک درجن کے قریب کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ ریاست جمو ں و کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ،ہندو مسلم اساطیر اور ’آرکی ٹائپس‘ خدا مرکز فکر و فلسفہ، تصوف اور بھکتی،انسان دوستی، مذہبی رواداری اور علم وآگہی کی روایات کے جذب و انجذاب سے عبارت ہے۔،اس اعتبار سے، گوتم بدھ اور حضرت شیخ شرف الدین یحی منیری کی سر زمین بہار کی خاک سے اٹھنے والے شکیل الرحمن کی شخصیت اور فن کی زمین کو آسمان کرنے میں کشمیر کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ شکیل الرحمن کے خمیر میں رومانیت،روحانیت تو ابتدا سے ہی تھی لیکن کشمیر میں،از کاہ تا کوہ،اور قطرہ سے لے کر دریاؤں، چشموں اور جھیلوں تک حسن فطرت کی جلوہ آرائیوں نے ان کے وجود میں حسن و جمال کی شمعیں روشن کر دیں۔ساتھ ہی سنسکرت،فارسی اور کشمیری علما و فضلا اور صوفیا و اولیائے کرام کے کارناموں نے شکیل الرحمن کے دیدۂ بینا میں وہ نگاہ شوق بھی پیدا کردیا جس کے فیض سے انھیں مشرقی، خصوصاً ہندوستانی تہذیب، تاریخ، نفسیات اور فنون لطیفہ کی دنیاؤں کے اسرار و رموز اور امکانات و امتیازات کی تہوں اور طرفوں کو کھولنے میں انھیں ہمیشہ رہنمائی ہی حاصل ہوتی رہی۔اگر شکیل الرحمن کی شخصیت ادب اور زندگی کو ان کے’ کُل‘ (Totality) میں سمجھنا ہوتو، وجود آدم، تخلیق کائنات،ادب وثقافت، مذہب اورنفسیات، بندہ اور خدا اور جسم اور روح کی عام، رسمی اور مروجہ توضیحات کے وسیلے سے نہیں سمجھا جا سکتا۔
شکیل الرحمن کا وجود، کسی ’ ادبھُت‘ غیر معمولی صوفی سائیںیا جوگی کی طرح ’بھیدوں ‘بھر ا وجود تھا۔شکیل الرحمن (غالباً) جسم اور روح کے ا تصال کے قائل تھے۔جسم کے اندر روح کو بیدار اور متحرک کرنے کے امکان پر ان کا یقین تھا پورے وجود کے ساتھ محبت،بندگی یاعبادت کا مطلب ہی جسم اور روح کا اتصال Possession ہے۔ شکیل الرحمن خود کو ہی نہیں دوسروں کو بھی اپنا تابع بنانے، اپنے وجود میں شامل کرنے کی قوت رکھتے تھے۔ سمجھنے کے لیے اسے Messmerism بھی کہہ سکتے ہیں۔ Mystical Experience سے لے کر Sexual Experience تک جسم ہی روح میں تحلیل ہوتا ہے اگر روح بیدار ہو۔ ’’عام معمولی خواہشوں سے ’تجربہ‘ حاصل نہیں ہوتا، خواہشوں کو وجود کی آنچ پر تپانا ہوتا ہے پھر ایسی آرزوئیں جنم لیتی ہیں جو ’تجربے ‘بخشتی ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ شکیل الرحمن کے بارے میں کشمیر میں مشہور تھا کہ ’وہ روحوں سے باتیں کرتے اور کرواتے ہیں۔ ان کی مبینہ روحانی قوتوں کی وجہ سے ہی لوگ اُنھیں ’بابا سائیں‘ بھی کہا کرتے تھے۔ شکیل صاحب اپنے بعض ذاتی خطوط میں اپنے نام کی جگہ ’باباسائیں‘ہی لکھا کرتے تھے ،واللہ اعلم بالصواب۔ 
شکیل الرحمن سنہ 1953 میں بہار سے کشمیر آئے اور گویا کشمیر کے ہی ہو کر رہ گئے۔کم و بیش چالیس سالہ قیام کے دوران شکیل الرحمن نے کشمیر کو بڑی گہرائی سے دیکھا، سوچا اور برتا ہے۔ شعوری یا لاشعوری طور پر، اردو ادب کے جمالیاتی مطالعے کا ’محرک خاص‘ (Dominat) کشمیر بھی رہا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ کشمیر اپنے حسن و جمال کے لیے ایک عالم میں جتنا مشہورہے اس سے کہیں زیادہ علم و عرفان کے بے مثل مرکز کی حیثیت سے بھی یہ سر زمین اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ سنسکرت زبان و ادب کے حوالے سے گراں قدر تصنیفات کشمیرِ قدیم میں ہی لکھی گئیں۔ 
( یوں تو سنسکرت زبان میں تصنیف و تالیف کے اصول و قواعد کے حوالے سے ’پاننی‘ (چار سو سال قبل مسیح) کی شہرہ آفاق تصنیف ’اشٹ ادھیائے‘ آج بھی علم اللسان کے تعلق سے ایک معجزہ تسلیم کی جاتی ہے،کہا جاتا ہے کہ ’’سورج مغرب سے طلوع ہو سکتا ہے لیکن پاننی کا لکھا ہوا غلط نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ لیکن سنسکرت شعریات و جمالیات پر سب سے زیادہ کام کشمیر کی وادی میں ہی ہوا۔ اس ضمن میں ابھینو گپت، آنند وردھن، ممٹ وغیرہ برہمن مفکرین کے کارنامے لازوال ہیں ان کے ساتھ ہی بودھ اور جین دانشوروں دِن ناگ،ناگ ارجن، بھامہ،اور دنڈن وغیرہ نے لفظ و معنی کے رشتے اور شاعری میں الفاظ کے برتاو کے سبب، صوت و آہنگ،تاثر اور کیفیت کے حضور اور غیاب سے متعلق جو ہمہ جہت عالمانہ بحثیں کی ہیں،شکیل الرحمن کی تحریروں میں ان کے سائے جگہ جگہ رقص کناں نظر آتے ہیں۔ اسی طرح سنسکرت اور کشمیری کے بعد انیسویں صدی کے اخیر تک اس ریاست کی سرکاری، درباری اور علمی و ادبی زبان کی حیثیت سے فارسی کا بول بالا رہا۔ شکیل الرحمن نے سنسکرت فارسی اور عربی کی ایسی ساری ادبی و علمی روایات کو اپنے اندر جذب کیا تھا ۔)
آزادی کے کچھ عرصہ بعدہی سنہ ،1953 میں شکیل صاحب ڈگری کالج بھدرک (اُڑیسہ) میں لکچرر ہو گئے تھے لیکن اسی بیچ دہلی میں مولانا ابوالکلام آزاد کے سکریٹری جناب اجمل خاں صاحب نے بتایا کہ ’’مولانا چاہتے ہیں کہ آپ کشمیر چلے جائیں، سو، شکیل صاحب کشمیر چلے آئے اور سرینگر کے مشہور ایس.پی. کالج میں شعبہ اردو کے سربراہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ کشمیر یونیورسٹی کا قیام 1951میں عمل میں آچکا تھا۔ 1958 میں ڈوگرہ راج کے جانشین ڈاکٹر کرن سنگھ، سابق صدر ریاست جموں و کشمیر نے اپنی ملکیت میں سے ’نسیم باغ‘ سے متصل ’حضرت بل مسجد‘ کے بالمقابل، سیب اور ناشپاتی کے باغات یونیورسٹی کو عطیے کے طور پر دے دیے،جہاں بعد میں یونیورسٹی کی کئی خوب صور ت عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ ابتدا میں آرٹس کے چند ہی سبجیکٹس حضرت بل کے ’نسیم باغ‘ میں ملکہ نور جہاں کے قائم کردہ’ہفت چنار‘کی ایک عمارت میں پڑھائے جاتے تھے۔ جب ’جمو ں و کشمیر یونیورسٹی‘ میں شعۂ اردو قائم ہوا تو اس کی پہلی اینٹ شکیل صاحب نے ہی رکھی۔ شکیل الر حمن شعبہ اردوجموں وکشمیر یونیورسٹی کے بانی اور اولین سربراہ تھے۔ ان دنوں حامدی کاشمیری ایس پی کالج میں انگریزی کے لکچرر تھے۔ شکیل صاحب نوجوان تھے اور تنہا شعبے اردو کی ساری ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام دے رہے تھے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شکیل صاحب کی صدارت بحال رکھی جاتی لیکن شیخ محمدعبداللہ نے حیدرآباد سے پروفیسر محی ا لدین قادری زور کو بلا کرشعبہ اردو کی صدارت سونپ دی،بعد میں شکیل صاحب اور زور صاحب کی کوششوں سے حامدی صاحب کی تقرری بھی شعبہ اردو میں ہو گئی۔ ان دنوں فیضی صاحب جموں وکشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے کچھ عرصے بعد تلسی باغ سری نگر میں واقع سرکاری کوٹھی میں، ایک دن اچانک ہی، زور صاحب دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ شکیل صاحب پر پھر شعبہ اردو کی صدارت کی ذمے داریاں آگئیں لیکن ایک بار پھر شکیل صاحب کے ساتھ بے انصافی کی گئی اور حیدر آباد یونیورسٹی کے ہی شعبہ اردو کے سابق سربراہ پروفیسر عبد القادر سروری کو کشمیر بلا کر شعبہ اردو کی صدارت سونپ دی گئی۔ شکیل صاحب نے صبر کیا۔سروری صاحب برسوں اپنے منصب پر فائز رہے اور اس عرصے میں انھوں نے ’کشمیر میں اردو‘ جیسی معر کتہ الآرا کتاب تین جلدوں میں تصنیف کی۔
سروری صاحب نے بھی 1970 میں کشمیر میں ہی داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ ان کی تدفین سرینگر کے جو اہر نگر کے قبرستان میں ہوئی۔سروری صاحب کے بعد شعبہ اردو کی صدارت ایک بار پھر شکیل صاحب کو ہی سنبھالنی پڑی۔لیکن جب پروفیسر شپ کے لیے انٹر ویو ہوا تو، مخالفین کی سازش کی وجہ سے ایک بار پھر شکیل صاحب کی حق تلفی کی گئی، ڈاکٹر محمد حسن صاحب کو پروفیسر اردو منتخب کرلیا گیا اور شعبے کی صدارت بھی سونپ دی گئی۔شکیل صاحب سخت بد دل ہوئے۔ شکیل صاحب اپنی محبتوں اور خدمات کی وجہ سے طلبا میں بے حد مقبول تھے۔شکیل صاحب کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کے خلاف طلبا نے زبردست احتجاج کیا۔شعبہ اردو کا ماحول پراگندہ ہو چکا تھا، محمد حسن بھی بد دل ہو چکے تھے اور آخر کار وہ نہرو فیلو شپ پر جواہر لال یونیورسٹی چلے گئے۔لیکن اس بار مخالفین کی ایک نہیں چلی اور شکیل الرحمن صاحب نے باضابطہ طور پر پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کی ذمے داریاں سنبھالیں۔ شعبہ اردو یوں بھی شکیل صاحب کے دم سے ہی چل رہا تھا اب اس کی منصوبہ بند ترقی کی ر فتارمیں تیزی آئی، اور درس و تدریس اور تحقیق کامعیار بھی مزید بلند ہونے لگا۔ 
1983 میں شکیل صاحب کو بہار یونیورسٹی کاوائس چانسلر بنا دیا گیا جب وہاں کی وائس چانسلر شپ کی مدت ختم ہوئی تو انھیں 1988 میں للت نرائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ کی وائس چانسلر شپ کی ذمے داریاں سونپ دی گئیں۔ در بھنگہ میں شکیل صاحب طلبا میں ہی نہیں سِول سوسائٹی اور افسران میں بھی بے حد مقبول تھے اس کی وجہ ان کی بیش بہا خدمات تھیں۔ شکیل صاحب طلبا اور تعلیم کے مفاد میں، یونیورسٹی کو ہر طرح کی بد عنوانی،بد نظمی اور سیاسی دخل اندازی سے پا ک کرنا چاہتے تھے۔لیکن مقامی لیڈر اور اس وقت کے وزیر تعلیم کو یہ پسند نہ تھا۔ شکیل صاحب کسی بھی طرح کی سفارش یا دباؤ برداشت کرنے کو تیار نہ تھے شکیل صاحب اور وزیر تعلیم کا ٹکراؤ اتنا بڑھا کہ شکیل صاحب پر استعفیٰ دینے کا دباؤ ڈالا جانے لگا لیکن شکیل صاحب استعفیٰ دینے کی وجہ بتائے جانے پر اصرار کرتے رہے طلبا اورملازمین اور عام لوگ چاہتے تھے کہ شکیل صاحب کسی بھی قیمت پر استعفیٰ نہ دیں۔ لیکن سیاست کب شکست ماننے والی تھی، گورنر گووند نرائن گور نے شکیل صاحب کو وائس چانسلر شپ سے ہٹا دیا۔لیکن ابھی کچھ ہی وقت گذرا تھا کہ پارلیمانی انتخاب کا وقت آگیا دربھنگہ کے طلبا اور عوام و خواص نے انھیں اصرار کرکے ’جنتا دل‘کا امیدوار بنایا۔ مقابلہ، ان کے کٹر مخالف ناگیندر جھا سے ہی تھا شکیل صاحب کے پاس نہ تو پیسہ تھا اور نہ سیاست کا کوئی تجربہ، در بھنگہ کے لوگوں نے خود ہی پیسے اکٹھے کیے اور سارا انتظام بھی کیا شکیل صاحب کو دربھنگہ میں لوگ’سیکولر رحمن‘ کہتے تھے۔ الیکشن میں شکیل صاحب نے ناگیندر جھا کو اتنی بھاری اکثریت سے ہرایا کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے،جب مرکز میں چندر شیکھر جی کی حکومت بنی تو پرو فیسر شکیل الرحمن کو مرکزی کابینہ میں ’صحت عامہ اور خاندانی بہبود‘ Health&Family Welfare کا وزیر بنادیا گیا۔ چندر شیکھر حکومت کے زوال کے بعد شکیل الرحمن نے ’گُڑ گاؤں‘میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔
اس پیش بندی کے بعد اب شکیل الرحمن کی ذاتی زندگی اور گھر آنگن میں بھی جھانکنا ہوگا اور اس کے لیے راقم کو اس قصے میں ’اِنٹری ‘لینی ہوگی۔ میں 15ستمبر سنہ 1977 کو سری نگر وارد ہوا۔لال چوک کے ایک ہوٹل میں ٹھکانہ کیا۔ ان دنوں پروفیسر رئیس احمد کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پروفیسر سیف الدین سوز (سابق مرکزی وزیر) رجسٹرار ہوا کرتے تھے۔ میں، 16 ستمبر 1977کو شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی میں شکیل رحمن صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، انھوں نے Joining کروائی۔ اس وقت شکیل صاحب کے چیمبر میں حامدی کاشمیری، اسد اللہ کامل اور برج پریمی ایما بھی موجود تھے کشمیر کی روایتی مہما ن نوازی اور اخلاقیات کے مطابق سب نے بڑی گرم جوشی سے گلے لگا کر استقبال کیا۔ (خیر، خیریت، سفر، چائے اور دیگر دفتری رسومات کی ادائگی کے بعد شکیل الرحمن صاحب اٹھے اور مجھے ساتھ آنے کو کہا، مجھے لے کر وہ کلاس روم میں آئے، طلبا سے میرا تعارف کروایااور مجھ سے کہا کہ ان دنوں میں غالب پڑھا رہا ہوں، آج آپ پڑھائیں گے۔ میں ذرا دیر کے لیے پریشا ن ہوا کہ آتے ہی اولے پڑے لیکن صدر شعبہ شکیل صاحب کا حکم تھا،انکار کی نہ جرات تھی نہ گنجائش اور پھر یہ بھی کہ غالب میرا بھی محبوب شاعر ہے اس لیے میں نے طلبا سے کچھ رسمی گفتگو کے بعد غالب کی انفرادیت پر ایک تفصیلی لکچر دیا (اور خاص طور پر بتایا کہ میر،غالب اور اقبال تینوں عظیم شاعر ہیں لیکن کون کیوں عظیم ہے یہ سمجھنا ضروری ہے۔اور میں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی۔) میں جب کلاس روم سے واپس آیا تو شکیل صاحب نے کہا ’’آپ فی الحال ڈاکٹر برج پریمی ایما صاحب کے ساتھ بیٹھیں گے ‘‘اتنا کہہ کر شکیل صاحب خود کلاس لینے چلے گئے۔اور میں شعبے کے دوسرے اساتذہ سے باتیں کرنے لگا خاص طور پر حامدی صاحب اور ایما صاحب سے ایسی بے تکلفی ہو گئی جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ کلاس لے کر شکیل صاحب اپنے کمرے میں آئے اور مجھے بلایا، انھیں طلبا نے میرے لیکچر اور رسمی بات چیت کے بارے میں سب کچھ بتادیا تھا شکیل صاحب خوش اور مطمئن تھے۔مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا ’’کیا ضرورت تھی یہ کہنے کی کہ تم شادی شدہ ہو ؟کچھ دن خاموش رہتے،تماشہ دیکھتے۔پھر کہا )
شام کو میں شکیل صاحب کے ساتھ ہی شعبے سے نکلا۔ ان دنوں شکیل صاحب لال چوک کے عقب میں واقع پوش کالونی جواہر نگر میں اپنی مختصر فیملی (اہلیہ اور تین بچوں، انجم، رومی اور جُولی ) کے ساتھ رہتے تھے۔گھر پہنچے تو شکیل صاحب نے تعارف کروایا سب لوگ اتنی محبت سے ملے کہ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ خوب باتیں ہوئیں شکیل صاحب کے چائے اور رات کا کھانا کھانے کے بعد میں آٹو سے لال چوک اپنے ہوٹل آگیا۔ دوسرے دن شکیل صاحب کے حکم پر میں ہوٹل سے ان کے گھر منتقل ہوگیا۔ بھابھی نے کہا جب تک یونیورسٹی میں رہائش کا انتظام نہیں ہوتا یہیں ہمارے ساتھ رہوگے۔ اور میں مہینوں ان کے ساتھ رہا۔شکیل بھائی کو بہت قریب،بہت گہرائی سے جاننے کی شروعات یہیں سے ہوتی ہے ۔
’موتیہاری‘ شکیل الرحمن کے آبائی شہر کا نام ہے ر یاست بہار کے شمال میں ضلع چمپارن میں۔ چمپارن، نیپال کی سرحد ہے۔ کہا جاتا ہے، گوتم بدھ جب’ کپل وستو‘ سے چلے تو اس مقام پربھی رکے،کسی نے انھیں’ چمپا‘ کا زرد پھول پیش کیا اور پھر سارا علاقہ چمپاکے مہکتے ہوئے زرد پھولوں سے لد گیا۔اسی سے اس کا نام’چمپا...رن ‘ ہوا، یعنی چمپا پھولوں کی خوشبوؤں سے بھرا جنگل۔اسی مٹی پر ان کا جنم ہوا، 18تاریخ تھی،فروری کا مہینہ تھا اور سال تھا 1931 کا، وقت صبح پانچ بجے‘‘(آشرم ص21)۔ شکیل الرحمن کے والد،خان بہادر مولوی جان محمد کا شمار بہار کے معروف ترین وکیلوں میں ہوتا تھا اور وہ چھپرہ سے موتیہاری، آبسے تھے شکیل صاحب کے جد امجد لالہ روپ دون پرشاد سہائے’کائستھ ہندو تھے۔ان کے ایک پوتے اورشکیل صاحب کے دادا،شری لیلا پرشاد نے اسلام قبول کر لیا تھا (مسلم نام عبد الرحمن ) لیکن تایا دادا سری کانت پرشاد اور ان کا خاندان ہندو ہی رہا خاندان کے بہت سے افراد ہندو ہی رہ گئے تھے پھر بھی رشتے ناطے اسی طرح قائم تھے (ہندوستان کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد بھی ان کے ہندو رشتہ داروں میں سے تھے) اس طرح شکیل الرحمن دو مختلف مذاہب اور دو مختلف نظریہ حیات کے ایک بڑے خاندان میں پرورش پاتے رہے اور ایک انوکھے طرز زندگی سے آشنا ہوتے رہے۔ سب اس طرح رہتے تھے جیسے ایک ہی خاندان کے ہوں، اور تھے بھی ایک ہی خاندان کے۔ ’’سب ایک دوسرے کے تہواروں اور خوشیوں میں شریک ہوتے ایک فرد کا غم دوسرے کا غم بن جاتا ‘‘ ہولی دیوالی دسہرہ،عید اور بقرعید کے تہواروں میں سب شریک ہوتے۔دو بڑے مذاہب کی تہذیبی اور تمدنی آمیزش نے شکیل الرحمن کی نفسیات، اور تخلیقیت کو اور علمی وادبی، تنقیدی و تجزیاتی شعور کو ایک ایسے مثالی سیکولر سانچے میں ڈھال دیا جس کی کوئی دوسری نظیر اردو میں مشکل سے ہی ملے گی۔ وقت کے ساتھ شکیل الرحمن کے وجود کے اندر کا ’ سیکولر رحمن‘، زمین پرہی نہیں کا غذ پر بھی، گوتم بدھ، شیخ العالم نُند رشی، اور لل عارفہ کی طرح انسانیت پرستی (Humanism) برتتا رہا۔ ابتدا سے لے کر انتہاتک ان کی تمام تحریروں میں ’سیکولرزم کی جمالیات‘ کی خوشبو رچی بسی نظر آتی ہے۔ ان کے والد کی مادری زبان بھوج پوری تھی لیکن گھرمیں بھوج پوری اور اردو دونوں زبانوں کا چلن تھا۔ گھر کے سبھی لوگ تعلیم یافتہ تھے اس لیے ضرورت کے مطابق سبھی لوگ انگریزی کا استعمال کرنے پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ ریڈیو کشمیر اور دور درشن کشمیر کے بعض افسران سے جو بھوج پور سے تعلق رکھتے تھے، ان کے ساتھ شکیل صاحب بھوج پوری میں بھی بات چیت کر لیا کرتے تھے۔ بچپن سے ہی شکیل الرحمن کا فطرت سے ایک گہرا رشتہ قائم ہو گیا تھا ’’پہاڑوں، ندیوں، جھیلوں، تتلیوں پرندوں، درختوں، پودوں اور دنیا کے مختلف رنگوں نے انھیں اپنی مکمل گرفت میں لے لیا تھا ’’پہاڑوں اور خصوصاًہمالہ کی برف پوش چوٹیوں سے شکیل صاحب کا جو حسی اور جذباتی تعلق پیدا ہوا ان ہی سے ممکن ہے اساطیر اور قدیم مذاہب کے مطالعے کا شوق بیدار ہوا ہو... 
کشمیر میں شکیل صاحب کے گھر (155.جواہر نگر) سے یونی ورسٹی تقریباًًدس بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ہم گھر سے نکل کرٹہلتے ہوئے کچھ ہی فاصلے پر کلچرل اکادمی کے سامنے واقع ’ناو گھاٹ ‘ پہنچتے۔یہاں ایک ایک روپیہ لے کر لوگوں کو ناؤ سے جہلم ندی کے اُس پار’’ ٹنڈل بسکو اسکول کے پیچھے گھاٹ پر اُتارا جاتا تھا۔گھاٹ سے چندگھروں کے فاصلے پر ہی لال چوک ہے جہاں سے درگاہ، حضرت بل/یونیورسٹی کے لیے بسیں ملتی تھیں زیادہ تر بسیں رعناواری،خانیار،حسن آباد ہوتے ہوئے درگاہ/ یونیورسٹی جاتی تھیں۔لیکن بعض بسیں ڈل لیک، شنکر آچاریہ، نہرو پارک، گرانڈ ہوٹل، گورنر ہاؤس،اور شالیمار باغ ہوتے ہوئے بھی درگاہ /یونیورسٹی تک جاتی تھیں ڈل لیک کا علاقہ سرینگر آنے والے سیاحوں کے لیے کئی اعتبار سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے اس کے ایک طرف سستے اور مہنگے ہر طرح کے ہوٹلوں کا جال بچھا ہوا ہے سڑک کی دوسری جانب ڈل جھیل پر میلوں تک چھوٹے سے لے کر بڑے فا ئیو اسٹار’شکاروں‘ کا ایک طویل سلسلہ ہمہ وقت موجود نظر آتاہے۔ شام ڈھلے جب ان شکاروں پر چراغاں ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے پانی میں چراغوں کے پھول کھلے ہوں۔ (اب ڈل جھیل پر جگہ جگہ خوبصورت ترتیب کے ساتھ رنگ برنگے فوارے بھی لگادیے گئے ہیں )۔ یونیورسٹی جانے کا یہ راستہ ذرا لمبا ضرور ہے لیکن بے حد خوبصورت ہے۔اگر ہم (شکیل صاحب اور میں ) گھرسے ذراپہلے نکلتے تو ڈل لیک کی طرف سے جانے والی بس ہی لیتے۔پورے راستے شکیل صاحب کشمیر کی تاریخ، عروج و زوال، ادب و ثقافت، صوفیائے کرام، ہندو دھرم، اسلام، بودھ مت اور رشی ازم وغیرہ کے بارے میں بتاتے رہتے۔ شہمیری دور،مغل دور، سکھ دور اور ڈوگرہ دور حکومت قبائلی حملہ،پنڈت نہرو، مسٹر محمد علی جناح اور شیخ محمد عبد اللہ وغیرہ کے حوالے سے بعض وہ باتیں بتاتے جن کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں عام طور پر نہیں ملتا۔ پھر دوسری جنگ عظیم، قحط بنگال،بہار کا زلزلہ، مذہب، تصوف،تقسیم ملک، فسادات وغیرہ موضوعات پر شکیل صاحب کی ہر گفتگو ذات پات، سماج کی طبقاتی تقسیم سے ما ورا ہوتی تھی۔ شعبہ اردو کا ماحول بڑا دلچسپ تھا پروفیسر اسد اللہ کامل بس یونیورسٹی کے ایسے ملازم تھے جو گھر سے ’ٹفن ‘لے کر آتے اور آتے ہی کھانے بیٹھ جاتے، کلاس روم میں جاتے اور اللہ رسول کی بڑی ایمان افروز باتیں کرتے، ایک بار غلطی سے کہہ بیٹھے ’’غالب عظیم شاعر تھا لیکن شر اب پیتا تھا‘‘، ایک ذہین طالب علم نے شرارتاًسوال کرڈالا ’’غالب عظیم شاعر تھے اس کی دلیل کیا ہے؟کامل صاحب ادھر ادھر کی کچھ ہانکتے رہے لیکن وہ طالب علم اپنے سوال پر قائم رہا تو کامل صاحب نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ ’’خدا رسول کی قسم غالب عظیم شاعر تھا ‘‘۔ حامدی صاحب جتنے اچھے انسان ہیں اتنے ہی اچھے استاد بھی تھے، لیکن عموماًً بھاگم بھاگ آتے، کلاس لیتے، اساتذہ کے ساتھ بیٹھتے، محبتیں بانٹتے اور چلے جاتے۔ برج پریمی شعبہ اردو کی ناک تھے شعبے کے ٹائم ٹیبل، خط و کتابت سے لے کر درس و تدریس تک ہر کام ذمے داری سے نبھاتے ’منٹو کی شخصیت ا ور فن ‘ پر ان کے کام سے دنیا واقف ہے۔ شکیل صاحب انھیں بے حد عزیز رکھتے تھے برج پریمی مجھ سے ایک آدھ سال پہلے شعبے میںآئے تھے۔
جب شکیل صاحب،میں اور برج پریمی تینوں ہی کیمپس میں رہنے لگے تو پھر ہم اکثر شام کو اور سردموسم میں دن کو شکیل صاحب کے لان میں بیٹھتے شکیل صاحب کا کوارٹر گرلز ہوسٹل کے سامنے تھا۔شکیل صاحب گھر پر گرمیوں میں کرتا پاجامہ اور کبھی کبھار لُنگی بنیا ن میں اور سردیوں میں گرم کپڑے اور گاوؤن پہن کر بیٹھتے بھابھی (عصمت شکیل) ایک مثالی بیوی اور ماں ہیں شکیل صاحب کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت،پسند اور ناپسند کا خیال رکھتی تھیں۔ طرح طرح کے پکوان بنانے میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں اور پوچھ پوچھ کر کھلاتیں بھابھی کا تعلق بنگالی سماج اور تہذیب سے تھا،یونیورسٹی کیمپس کے سامنے ہی ڈ ل جھیل تھی ڈل کی مچھلیاں اپنی لذت کے لیے پورے جموں وکشمیر میں مشہور ہیں۔ کشمیر میں مچھلی کئی طرح سے پکائی جاتی ہے لیکن ہر تہوار میں ہندو مسلمان سب کے گھروں میں ’مچھلی اور ندرو ‘ (کمل ککڑی) کی ’ڈِش ‘ لازمی طور پر پکائی جاتی ہے شکیل صاحب کو چکن اور مٹن سے زیادہ ’،مچھلی ندرو‘ پسند تھا۔شعبے کے پیون غلام قادر شکیل صاحب کے لیے مچھلیاں خرید کر لاتے تھے۔شکیل صاحب کم خو راک تھے۔دن کا کھانا نہیں کھاتے، سگریٹ کی عادت نہیں تھی، شعبے میں چائے پیتے اور چائے کے بعد پان کھاتے۔ لال چوک میں ’شکتی سویٹس‘ کے پاس ہی ’میر صاحب ‘کی پان کی دوکان تھی شکیل صاحب وہیں سے پان منگواتے۔کشمیر میں پان کھانے کا رواج ان دنوں بھی نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے۔لال چوک میںِ اکا دُکا ہی پان کی دوکانیں تھیں جو سیاحوں کے پان کے شوق کو پوری کرتیں۔کشمیر یونیورسٹی میں سال میں دو بار ’پکنک‘ پر جانے کارواج ہے ایک بار مارچ اپریل میں یونیورسٹی کھلنے کے بعد اور دوسری بار اکتوبر نومبر میں، سرما کی چھٹیوں سے پہلے۔ ہمارا شعبہ بھی جاتا، گلمرگ، پہلگام، سونہ مرگ اور ویری ناگ وغیرہ سیاحتی مقامات میں سے کہیں بھی جاتے طلبا و طالبات کے ساتھ اساتذہ،ریسرچ اسکالرز اور کلرک،پیون وغیرہ بھی ہوتے اکثر شکیل صاحب بھی بھابھی اور بچوں کے ساتھ پکنک میں شریک ہوتے۔ جب میری اہلیہ بھی کشمیر آگئیں تو وہ بھی پکنک میں شریک ہونے لگیں برج پریمی بھی اپنی بیگم کے سا تھ آتے۔ ڈاکٹر مجید مضمر اور ڈاکٹر سجان کور بالی بھی ہمارے ساتھ ہوتیں۔سجان کور نے شکیل صاحب کی نگرانی میں ہی ’اردو تنقیدمیں غالب شناسی‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیاتھا اور کشمیر یونیورسٹی میں پہلی ’سکھ ‘پروفیسر تھیں۔  
شکیل صاحب شعبہ اردو کو ’ایڈوانس سینٹر‘ بنانا چاہتے تھے اس کے لیے انھوں نے ’یونیورسٹی گرانٹس کمیشن‘سے بات بھی کر لی تھی۔ ہم لوگوں نے اس کے لیے ضروری کاغذات، یو جی سی کو بھیج دیے۔ پہلے مرحلے میں شعبہ اردو کو Department of Special AssisTance کا درجہ دیاگیا۔D.S.A کی عمارت کی تعمیر،لائبریری وغیرہ کے لیے کروڑوں روپے خرچ ہوئے متعلقہ پروفیسروں نے پانچ سال تک عیش کیے لیکن پانچ برسوں میں،پانچ سطریں بھی نہیں لکھ سکے۔U.G.C کی ایک ٹیم انسپکشن کے لیے آئی اور D.S.A کے پروفیسروں کےZero Contribution کی بنیاد پر D.S.A کو ایک سخت مذمتی نوٹ کے ساتھ بند کردیا گیا ۔یہ سب کچھ شکیل ساحب کی غیر حاضری میں ہوا کیونکہ 1983 میں شکیل صاحب ’بہار یونیورسٹی‘کے وائس چانسلر ہو کر مظفر پور چلے گئے تھے۔ وہاں کی وائس چاسلر شپ کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ دوبارہ کشمیر یونیورسٹی چلے آئے۔ لیکن پھر 1988 میں بہار کی ہی للت نرائن متھلا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہو کر دربھنگہ چلے گئے۔
کشمیر چھوڑنے کے بعد شکیل صاحب پھر کبھی لوٹ کر کشمیر نہیں آئے،لیکن ان کے خط اور ٹیلیفون برابر آتے رہے،میرے پاس اور برج پریمی ایما کے پاس اور ہم سے زیادہ مجید مضمر اور ڈاکٹر سجان کور کے پاس۔ 
مجید مضمر (مرحوم)ریسرچ اسکار تھے تب بھی اور لکچرر ہو گئے تب بھی ہمارے ساتھ ہی ہوتے۔ شکیل صاحب،مجید مضمر کو بہت عزیز رکھتے تھے۔شکیل صاحب جب کشمیر چھوڑ کر گئے تو اپنی لائبریری اور کئی نادر و نایاب مسودات،خطوط وغیرہ مجید صاحب کے حوالے کیے تھے ان میں مہاتما گاندھی کا اردو میں لکھا ہوا ایک رُقعہ اور شریمتی اندرا گاندھی کا اردو میں دستخط کیا ہوا ایک خط بھی تھا اس کے علاوہ شکیل صاحب کی ایک آدھ کتا ب کا ہاتھ سے لکھا ہوا مسودہ بھی تھا۔ مجید مضمر کے ناوقت انتقال کے بعد پتہ نہیں یہ چیزیں کیا ہوئیں۔ شکیل صاحب نے کشمیر کے بعد بقیہ زندگی دلی کے پاس گُڑ گاؤں میں ہی گذاری۔ فرصت تھی،جمالیات کے حوالے سے درجنوں کتابیں لکھیں،اور تا دمِ آخر لکھتے ہی رہے۔گُڑگاؤں میں ہی ایک طویل بیماری کے بعدتاریخ..... 2016 کو ان کا انتقال ہو گیا، اِنا للّٰہ و اِنا اِلیہ راجعون۔ اردو ادب کا بابا سائیں اب ہم میں نہیں لیکن ریاست جموں وکشمیر میں اردو زبان و ادب کی بات جب بھی کہیں چلتی ہے شکیل الرحمن کی خدمات کو ضرور یاد کیا جاتا ہے

Prof. A.Q. Jawaid 
Baitul-Zehra, 27, Green Hills Colony
Near Govt. Higher 
Secondary School, Bhatindi 
Jammu - 181152 (J&K)



ماہنامہ اردو دنیا، دسمبر2016





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں