31/1/18

مضمون: 1857 اور بہادر شاہ ظفر از سعدیہ پروین نہال احمد

1857 اور بہادر شاہ ظفر
سراج الدین ظفر خاندان تیموریہ کا آخری بادشاہ تھا، جس کی تقدیر میں کاتب ازل نے زندگی کی دیگر تلخیوں اور ناکامیوں کے علاوہ قید فرنگ بھی لکھ دی تھی، اس کے اسباب کئی طرح کے تھے جیسے ملّی کردار کا کمزور ہو جا نا، خاندان کی قدیم روایات جیسے بہادری، شجاعت، دلیری کو چھوڑ کر عیش و عشرت میں گم ہوجانا، معاملات حکومت کی طرف سے غفلت برتنا، رعایا پر ظلم و ستم ڈھانا۔ ذاتی مفاد کے لیے ملک و قوم کو غلامی کی زنجیروں کی نذر کرنا، جس کی وجہ سے زوال رونماہوتا ہے۔ یہی وہ بنیادی کمزوریاں تھیں جو اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغل بادشاہوں میں پیدا ہو گئیں۔ ان چیزوں نے دیمک بن کرسلطنت عالم گیر کی بنیادیں کھوکھلی کردیں۔ اورنگ زیب کے جانشین سلطنت کو سنبھالنے کے اہل نہیں تھے۔ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد شہزادوں میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ جیسے:بہادر شاہ اوّل نے 1707 سے 1712 تک حکومت کی اس میں راجپوتوں اور سکھوں نے بغاوت کر دی۔ فرخ سیر کے دور حکومت 1713 سے 1719 تک مسلمان امراء کے 2 حصے ہوگئے۔ ایرانی اور تورانی (شیعہ اور سنی) اس سے اسلامی حکومت کو شدید ضرب لگی۔

بہادر شاہ ظفر اوّل کے عہد 1712 سے بہادر شاہ ثانی کے عہد حکومت 1857 تک کی تاریخ سیاسی افراتفری اور زبوں حالی، خود غرضی و خانہ جنگی، قتل و غارت گری اور لوٹ کھسوٹ کے ہولناک واقعات کی تاریخ ہے، بحیثیت مجموعی اس مدت میں جتنے بادشاہ برسر حکومت آئے، وہ عیش و عشرت کے بندے اور نفس کے غلام تھے، دشمن کمین گاہ میں تھا انھیں پرواہ نہ تھی۔

میدان کارزار میں داد شجاعت دینے والے، تلواروں کی جھنکار کو نغمہ و سرودِجنگ سمجھنے والے، ملک کے پاسبان، قوم کے رکھوالے، یعنی خود شاہان ذی وقار اپنے اسلاف کے کارنامے بھلائے آنکھوں پر غفلت کی پٹی باندھے۔ بزم عیش و طرب سجائے بیٹھے تھے۔

اسی اثنا  1775 میں بہادر شاہ ظفر سماۃ لال بائی کے بطن سے پیدا ہوئے ان کی پیدائش کے وقت 24 صوبوں پر حکومت کرنے والے بادشاہوں کا وارث، ان کے والد اکبر شاہ ثانی اپنی آنکھوں سے محروم اور انگریزوں کا پنشن خوار ہو چکےتھے، اس جرم میں کہ وہ الٰہ آباد چھوڑ کے دہلی چلے آئے تھے، ان کی پنشن بند کر دی گئی، اسی بے بسی اوربیکسی میں بہادر شاہ ظفر کی تعلیم و تربیت ایسی نہیں ہو سکتی تھی جیسی مرادو دانیال کی یا دارا شکوہ اوراورنگ زیب کی ہوئی تھی۔یہی وجہ ہے کہ ظفر امور حکمرانی سیکھنے کی بجائے ادب و انشاء، تصوف و اخلاق، فقہ و حدیث، تفسیر، خوش نویسی اور فن شعر گوئی میں مہارت رکھتے تھے۔

1837میں بہادر شاہ ظفر کے تخت نشین ہوتے ہی ہندوستان میں انگریزوں کا زور بہت بڑھ گیا، انگریز افسر لارڈ کینگ نے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بعد خطاب شاہی ختم کر دیا۔شہنشاہ عالم گیر کے بعد بہادر شاہ ظفر تک کا دور سیاسی افراتفری اور اقتصادی بد حالی کا دور تھا، ایسی بد حالی جس میں بد نظمی، انتشار، لوٹ مار، قتل وغارت غرض کہ ایک عجب طرح کی بے اطمینانی اور بے سرو سامانی ہر طرف چھائی نظر آتی تھی، ہر شخص سراسیمہ تھا، عزت و ناموس اورجان کے لالے پڑے تھے،  فوج کی اقتصادی پریشانی کا یہ حال تھا کہ سپاہی تنگ آکر اپنی ڈھال اور تلوار تک گروی رکھ دیتے تھے، اس دور کے عوام یہاں تک کہ شعراکے یہاں بھی ان حالات و زمانہ اور گردش تقدیر کا رونا ملتا ہے، ہر خاص و عام انگریزوں کے ظلم و ستم سے عاجز آگئے تھے، کیا ہندو، کیا مسلمان، ہر کوئی سیاسی آزادی کا خواہاں تھا، خود بہادر شاہ ظفر بھی ایسا بادشاہ تھا.... ’’جس کی زندگی کی ایک ایک سانس اپنے غموں کی زنجیر سے الجھ رہی تھی۔‘‘
بقول نواب نصیر حسین خیال :
’’دنیا کی تاریخ میں ایسی نظیر ڈھونڈنے پر نہ ملے گی کہ کوئی حکمراں قوم اپنی زبان کو سلام کر کے رعایا کی زبان کو یوں تسلیم کرے کہ یہ رعایت و مروت اسی خاندان پر ختم ہوگئی۔‘‘ (بحوالہ مغل اور اردو)
30 ستمبر 1837 ہفتہ کے روز بہاد ر شاہ ظفر نے تخت نشینی اختیار کی، اسی کے ساتھ بادشاہ کو بھی انگریزوں کی طرف سے بے اثرو بے عزت کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں، خاندانی تنازعات ابھرتے گئے، کمپنی کی جانب سے دیے جانی والے تحائف (عیدین اور نوروز کے ) لارڈ البز نے بند کر دیے، 1843 میں پنشن بھی نہیں بڑھائی گئی، خرچ زیادہ ہونے لگے، اور آمدنی کا ذریعہ کم تھا، شہریوں کی نظر وں میں بادشاہ کو ذلیل کرنے کی سعی کی جانے لگی، اختیارات شاہی کو ختم کر نے کے لیے ذلیل حرکتیں کی جانے لگیں۔ہندوستانی مذہب کی بے حرمتی اور عیسائیت کی تبلیغ کی جانے لگی۔
مجموعی طور پر ہندوستانیوں کے دل میں انگریزوں کے خلاف بغاوت ابھرنے لگی، چنانچہ سب سے پہلے بادشاہ نے فوجیوں کو طلب کیا جب اس بات کا علم لفٹننٹ گورنر کو ہوا تو اس نے تحقیقات شروع کی، اور فوجی لوگوں کا آئندہ بادشاہ سے مرید ہونا بند کرایا۔ (مقدمہ بہادر شاہ ظفر، ص103)
بقول مکند لال مجز:
’’ اس رو زسے بادشاہ اور فوج میں ایک قسم کا ارتباط ہوگیا تھا۔‘‘(مقدمہ بہادر شاہ ظفر، ص103)
نہیں حال دہلی سنانے کے قابل
یہ قصہ ہے رونے رلانے کے قابل
اجاڑے لٹیروں نے وہ قصر اس کے
جو تھے دیکھنے اور دکھانے کے قابل
نہ گھر ہے نہ در ہے، فقط اک ظفر ہے
فقط حال دہلی سنانے کے قابل
چنانچہ ہندو مسلم جنگ آزادی کے لیے اکٹھا ہو گئے، اور 11 مئی 3 بجے سہ پہر کے قریب بغاوت کا اعلان کیا گیا اور اس میں نعرہ لگایا گیا :
خلقت خدا کی، ملک بادشاہ کا ‘‘
اس نعرے کے ساتھ ساتھ دیکھتے ہی دیکھتے لا ل قلعہ بغاوت کا مرکز بن گیا، فوجی سازش کا نتیجہ تھا کہ قلعہ میں کارتوس کے استعما ل سے سپاہیوں میں ناراضگی پیدا ہو گئی، اور 31 مئی 1857 اتوار کا دن بغاوت کا ہونا طے پایا اور طے ہوا :
(1)     تمام یورپین کو مار ڈالیں گے۔
(2)       خزانوں پر قبضہ کیا جائے جو ربیع کی فصل کی پیداوار سے بھرے ہوئے ہیں۔
(3)       جیل سے قیدی رہا کرائے جائیں جن سے پچیس ہزار سپاہیوں کی فوج تیار کی جائے گی۔
اس بات کی خبر جب انگریزوں کو ہوئی اور جب یہ خبر لفٹننٹ کرنل اسمتھ کو ہوئی تو انھوں نے تار کے ذریعے فوراً خبر پھیلا دی اور انگریز الرٹ ہوگئے۔  10 مئی 1857 کو میرٹھ میں بغاوت کی چنگاری اٹھی، اور اسی رات فوجی دہلی آئے، صبح جمنا ندی پر پہنچے اور ابتدا سلیم پور کی پرمٹ چوکی پر آگ لگانے سے کی، اس دوران کلکٹر کو قتل کر دیا گیا، جمنا کے پل کو پار کیا اور کلکتی دروازے پر پہنچے، بادشاہ نے پوچھا : کون؟تو لوگوں نے کہا:

 ’’ ہم انگریزوں کے ظلم سے عاجز آچکے ہیں، یہاں تک کہ اب محرب کارتوس میں چربی کا استعمال کیا جانے لگا، اب غدر کے چھڑنے کا رجحان ہم لے آئے ہیں۔
بادشاہ خاموش رہا، اس کے بعد انھیں جو انگریز دہلی میں ملتا اسے قتل کرتے چلے گئے، دین و دھرم کا نعرہ بلند ہو نے لگا، ہندو مسلمان ایک ساتھ جمع ہو گئے، فوجیوں نے بھی مدد کی، اور اس میں ہندو مسلم جنگ آزادی کے لیے شریک ہو گئے، اور نعرہ دیا، ’’خلقت خدا کی، ملک بادشاہ کا۔‘‘
بادشاہ نے بھی فوجی بھرتی کا اعلان کر دیا جب کہ دربار میں مخبروں کا جال پھیلا ہوا تھا، خاندانی اختلافات عروج پر تھے، درباری لوگوں میں اور شاہی قرابت داروں میں اتحاد و یک جہتی نہیں تھی، عوام کا کو ئی پرسان حال نہیں تھا۔لیکن! ان کی آزادی کے جذبے میں خلوص تھا، تحریک سے ہمدردی تھی، انگریزوں سے نفرت تھی، یہ جنگ آزادی کا نعرہ تقریباً 4 مہینے 4 دن جاری رہا۔جوابی کاروائی میں انگریزوں نے 13 ستمبر کو دہلی پر پانچ طرف سے حملہ کر دیا، اور 19 ستمبر کو دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ 
بادشاہ آخر میں ہمایوں کے مقبرے پر چلے گئے، ہڈسن ہمایوں کے مقبرے پر آیا، وعدے وعید کے بعد بادشاہ پالکی پر سوار ہوا، ساتھ میں جواں بخت، بیگم زینت محل، بیگم تاج محل، حکیم احسن اللہ خان، مزرا قیصر شکوہ، میر فتح علی، فوجدار، بقول مینول شاہی خاندان کے سات سو آدمی سوار ہوئے، بہادر شاہ ظفر جب شہر میں داخل ہو ئے تب انگریزو آفیسران نے طعن و تشنیع کی، (تواریخ اودھ، ص453)
’’20 ستمبر کو پوری دہلی پر انگریز قابض ہو گئے جامع مسجد کے صحن میں مسلمانوں کو قتل کیا گیا، اس قتل عام میں 27 ہزار عام مسلمان اور 8 ہزار فوج شہید ہو گئی، عورتوں کی عصمت کو ریزہ ریزہ کیا گیا‘‘ (قیصر التواریخ، 455)

ہندوستانی مسلمانوں کو زندہ آگ میں جلایا گیا، جو بھی ملتا اسے سنگینوں سے ختم کردیا جاتا، خاوندوں نے اپنی عورتوں کو قتل کیا اور پھر خود کشی کی، ہزاروں مجاہدین پھانسی پر چڑھے، زندہ مجاہدوں کو سور کی کھال میں سیل کردیا گیا۔

Time of India کے مدیر Dr. lane Ireland اپنی رسل ڈائری مئی 1858 میں ص 43میں لکھتے ہیں:
’’زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سینا یا پھانسی سے پہلے ان کے جسم پر سور کی چربی ملنا، یا زندہ آگ میں جلانا یا ہندوستانیوں کو مجبور کرنا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بد فعلی کریں ایسی مکروہ اور ظالمانہ حرکات کی دنیا کی کوئی بھی تہذیب کبھی اجازت نہیں دیتی۔‘‘

بہادر شاہ ظفرکے جانشیں مرزا خضر سلطان، مرزا مغل اور ابوبکر کو ہڈسن نے تین تین گولیاں قلب پر ماریں، شہ رگ کو سنگین سے چیر دیا، چلو میں لے کر ان کا خون بہایا، اور ان کے سر کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا، پھر کوتوالی چبوترے پر جا کر نعشوں کو زمین پر ڈال دیا، 3 دن بعد خواجہ باقی باللہ میں دفن کر و ا دیا۔(تواریخ اودھ، ص 454)

بہادر شاہ ظفر پر مقدمہ چلا، 27 جنوری 1858 سے 9 مارچ 1858 پر ختم ہوا، اور جلا وطنی کی سزا ملی، کلکتہ سے فورا ً بحری سفر کے ذریعے رنگون بھیج دیا گیا، 7 نومبر 1862 بمطابق 14 جمادی الاول 1289ھ بروز جمعہ کو دنیائے فانی کو الوداع کہا، (واقعات دارا لحکومت دہلی، اول، ص 737)
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ایک سلطنت کا ہی نہیں بلکہ ایک تہذیبی روایت کا بھی خاتمہ ہو گیا، ایک ایسی روایت جسے مغلوں نے پروان چڑھایا، جس نے یہاں کی تہذیب کو آب و رنگ بخشا، جس نے اس تہذیب کو وسعت اور کشادگی عطا کی، لطافت اور نزاکت بخشی، یہ ایسی تہذیب تھی جس میں جلال بھی تھا اور جمال بھی تھا، جس نے آگرہ اور دلی کے سنگ سرخ کے قلعے اپنی یادگار چھوڑے، اور جس نے انسانی حسن کے تخیل کو تاج محل کی صورت میں جنم دیا،لیکن 1857 کے انقلاب نے اس ملک پر ایک ایسی قوم کو مسلط کیا جو پہلے پہل صرف تجارت اور کاروبار کی نیت سے اس ملک میں داخل ہوئی اور آہستہ آہستہ مختلف تدبیروں سے اس نے ملکی سیاست اور حکومت پر ڈورے ڈالے، اس ملک کی بد قسمتی تھی کہ درباروں میں بغض و کینہ و حسد کا ایسا جال پھیلا کہ قوائے عمل بالکل مضمحل ہو گئے، اور دھرتی پر اس ڈوبتی ناؤ کو بچانے والا کوئی نہ رہا۔

لیکن!  آندھی چڑھتی ہے تو اترتی بھی ہے، طوفان اور سیلاب کتنا ہی زور کیوںنہ باندھے، اور کتنی ہی تباہی اور ہلاکت کیوں نہ پھیلائے ایک مدت کے بعد اسے بھی اپنا زور کھونا پڑتا ہے، بر صغیر ہندو پاکستان کی سیاسی حدود اسی زور کو توڑنے کی کوشش تھی، بلا شبہہ یہ ایک تنکے کی کوشش تھی، جو سمندر کی طوفانی موجوں کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑا ہوا تھا، لیکن آہستہ آہستہ ان تنکوں نے ہی اس طوفان کے دھاروں کو روکناشروع کیا، جس میں سر سید کی کاوشیں قابل تعریف ہیں  :
ہم دیکھ چکے خوب تماشائے زمانہ
اچھا ہے جو کچھ اور نہ دکھلائے زمانہ
ڈھونڈو تو زمانے میں نہیں مہرو محبت
کس طرح کا آیا ہے ظفر ہائے زمانہ

Prof. Sadiya Parveen Nehal Ahmed
Ass.Prof. Department of Urdu/persian, M.S.G. Arts, Science and Commerce College, Malegaon camp, Dist.: Nasik - 423203 (Maharashtra
Mobile No: 98605903002
email : zafershafeeque@yahoo.com

 یہ مضمون قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے رسالے ’’اردو دنیا‘‘ کے اگست 2017 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اگر آپ رسالے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے لنک پر کلک کیجیے:۔

قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں