31/1/18

مضمون: قلم کا سپاہی: شاہد رام نگری از ڈاکٹر محمد رحمت اللہ


قلم کا سپاہی: شاہد رام نگری

شاہد رام نگری اصلی نام سراج الدین انصاری تھا۔ انھوں نے اترپردیش بنارس کے رام نگر کے علمی، دینی اور مذہبی گھرانے میں 1927میں آنکھیں کھولیں۔ ان کے والد کا نام حافظ ابو محمد امام الدین رام نگری تھا۔ شاہد رام نگری کے والد بزرگوار صرف حافظ قرآن نہیں تھے بلکہ اپنے وقت کے جید عالم دین، مصنف اور شاعر تھے۔

انھوں نے کسی مدرسہ ، مکتب یا اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ ان کی ذہانت ، محنت لگن اور مطالعہ کتب نے انھیں حافظ، عالم اور شاعر بنادیا۔ امام الدین کی سات اولاد میں شاہد رام نگری کا تیسرا نمبر تھا۔ معاشی بدحالی کے سبب شاہد کی تعلیم مکتب سے آگے نہ بڑھ سکی۔ لیکن والد کی تربیت اور خود اپنی محنت و لگن، اعلیٰ ذہانت، شوق مطالعہ اور کتب بینی نے شاہد رام نگری کو ملک کے مشہور و معروف صحافیوں کی صف میں شامل کردیا۔

شاہد کے والد نے جب 1946 میں بنارس میں ساڑیوں کا کاروبار شروع کیا تو اپنے بیٹے شاہد کو بھی اس کاروبار سے منسلک کرلیا۔ لیکن قسمت کی خرابی کہیے کہ 1948 میں یہ کاروبار ختم ہوگیا۔ اس کے بعد عبدالخالق سہارنپوری کے دواخانے میں معاون کے طور پر کام کرنے لگے۔ شاہد صاحب 1952 میں پہلی بار اسلامی ساہتیہ سدن کے کام (کتابوں کی توسیع) کے سلسلے میں بہار تشریف لائے۔ مولوی حفیظ اﷲ، پھلواری شریف، جو ’مساوات‘ نکالا کرتے تھے،ان سے ملاقات ہوئی۔ ’مساوات‘ شاہد صاحب کی صحافتی زندگی کے لیے دلچسپی کا باعث بنا۔ بعدہٗ محمد نور کے اخبار روزنامہ ’ساتھی‘ سے بحیثیت کاتب اور کاپی پسٹر سے ان کی وابستگی ہوئی۔ اعلیٰ ذہانت و فطانت نے انھیں ہندی اخبارات سے اردو ترجمہ اور ادارتی نوٹ لکھنے کا سلیقہ سکھا دیا۔ اور ایک وقت وہ بھی آیا جب ان کو ’ساتھی‘ کی ادارت کی ذمے داری سونپ دی گئی۔ وہ اس امتحان میں کامیاب و کامران ٹھہرے اور اداریہ بھی لکھنے لگے۔ حسب منشا پذیرائی نہ ہونے کے سبب انھوں نے ’الکلام‘ کا اجرا کیا۔ جلد ہی ’الکلام‘ کا شمار ریاست کے معیاری پرچوں میں کیا جانے لگا۔ معاشی تنگی کی وجہ سے یہ پرچہ زیادہ دنوں تک جاری نہ رہ سکا ۔ شاہد صاحب نے ایک بار پھر ہمت جٹائی اور ایک دوسرا اخبار منصہ شہود آیا۔ جس کا نام ’امروز‘ تھا۔ ’امروز‘ کا حشر بھی ’الکلام‘ جیسا ہی ہوا اور کچھ ہی دنوں کے بعد مالی تنگی کے سبب بند ہوگیا۔

معروف کانگریس لیڈر عبدالقیوم انصاری نے  ہفت روزہ اخبار ’مومن دنیا‘ نکالا تھا۔ اس کی ترتیب و تزئین میں شاہد صاحب نے خاص دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔ یہ ہفت روزہ اخبار بھی ایک دو سال کے بعد بند ہوگیا۔ امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے امیر شریعت اور مشہور و معروف عالم دین حضرت مولانا منت اﷲ رحمانی رحمۃ اﷲ علیہ کی مردم و جوہر شناس نگاہوں نے شاہد صاحب کی صحافتی دیانت داری اور بیباکانہ صلاحیت کو پہچان لیا۔ حضرت مولانا نے امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ ’نقیب‘ کی ادارت کی ذمے داری شاہد صاحب کے سپرد کردی۔ انھوں نے اپنے فرائض کے تئیں ایماندارانہ اور دیانتدارانہ کردار ادا کرتے ہوئے اس ترجمان کو ایک وقار عطا کیا اور ملک و بیرون ملک میں اس اخبار کو شہرت دوام حاصل ہوئی اور صرف یہی نہیں بلکہ شاہد صاحب کی ایمانداری اور وفاداری  ہفت روزہ ’نقیب‘ کے ساتھ ایسی رہی کہ وہ آخری دم تک اس کے مدیر رہے۔ ’نقیب‘ میں لکھے گئے شاہد صاحب کے اداریے اور مضامین آج بھی  قوم و ملت کے لیے مشعل راہ ہیں۔

عظیم آباد سے اس وقت نکلنے والے مختلف اخبارات ’سنگم‘؛ ’صدائے عام‘؛ ’ایثار‘ سے شاہد صاحب کے گہرے تعلقات رہے ہیں اور ان کے مضامین اور اداریے ان اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔   کثیرالاشاعت معروف روزنامہ ’قومی تنظیم‘ کی مجلس ادارت سے بھی شاہد صاحب آخری دم تک جڑے رہے۔ قوم و ملت کو ایک نئی سمت عطا کرنے میں ان کی تحریروں نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

شاہد صاحب کبھی کسی مسئلے پر الجھے ہوئے نظر نہیں آئے، اپنے سامنے سخت و سست لہجے میں بولنے والوں کو اپنی شیریںبیانی سے مسخر کر لیتے تھے اور ان سے ملنے والا ہر شخص ان کا گرویدہ اور معترف ہوجاتا تھا۔مسئلہ چاہے جو ہو، ملی ہو، سماجی یا سیاسی ہو یا ثقافتی اور تعلیمی ہو یا مذہبی جب کبھی کسی موضو ع پر قلم اُٹھاتے، تو نہ صرف اس کا حق ادا کرتے بلکہ اس کا حل بھی ڈھونڈنکالتے تھے۔ انھیں زرد صحافت سے سخت ترین نفرت تھی۔ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے حق بیانی اور صاف گوئی کو ہی منظر عام پر لانا پسند کرتے تھے۔

شاہد رام نگری مزاجاً خاموش پسنداور بے باک صحافی تھے۔ دور اندیش ، حق پرست، مستند اور صاحب طرز ادیب تھے ۔ انھوں نے سب کچھ قربان کردیا اس فن کو زندہ رکھنے اور اسے وقار بخشنے کے لیے ان کے پاس دولت تو تھی نہیں لیکن جو کچھ تھا، تن، من ، دھن سب نچھاور کردیا اُردو صحافت کے لیے۔ جس نے خون کو خون نہ سمجھا او ر اگر سمجھا تو اسے جلادیا اردو کے لیے، جنھوں نے قربان کردیا خود کو وطن کے لیے جنھیں پڑھنے سے آج بھی قوم و ملت کے لیے تڑپ محسوس ہوتی ہے۔

شاہد رام نگری کی ایمانداری، دیانتداری، بیباکی اور حق گوئی نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو بھی بے حد متاثر کیا۔ پھلواری شریف کے ایک جلسے میں لالو پرساد نے بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیرمین کے عہدۂ جلیلہ کے لیے ان کے نام کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کا پورے مجمع نے تالیوں سے استقبال کیا او ر مبارکباد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اتنا ہی نہیں وزیراعلیٰ موصوف نے شاہد صاحب کو اسٹیج پر بلا کر گورنر سے تعارف بھی کرایا۔ شاہد صاحب کے چیئرمین بنائے جانے کے اعلان نے مدارس اسلامیہ کے اساتذہ و طلبا میں خوشی کی لہر دوڑادی۔ ان کی نامزدگی کے تعلق سے اخبارات نے جلی حروف میں خبریں بھی شائع کیں۔ چیئرمین کا عہد ہ پیش کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بہار لالو یادو نے کہا تھا:
’’یہ عہدہ شاہد رام نگری کو اسلامیات کے واقف کار ہونے کے علاوہ ایک سینئر او رتجربہ کار صحافی ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔‘‘

بہار قانون ساز کاونسل کے سابق چیئرمین پروفیسر جابر حسین اپنی ڈائری کے مجموعہ ’بے اماں‘ میں بہ عنوان ’ایک ایماندار آواز کی موت‘ میں تحریر کرتے ہیں:
’’وزیر اعلیٰ نے انھیں اس دن جلسہ کے اسٹیج پر بلایا تھا اور گورنر صاحب سے ان کا تعارف کرایا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے خود قبول کیا تھا کہ شاہد رام نگری کو یہ عہدہ اسلامیات کا واقف کار ہونے کے علاوہ ایک سینئر اور تجربہ کار صحافی ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔‘‘
شاہد رام نگری بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین بنائے جانے کے اعلان کے بعداس عہدہ کو لے کر کافی پریشان تھے کہ جس ادارے کا انھیں چیئرمین بنایا گیا ہے، وہاں اچھے اچھوں کے پایۂ استقامت میں لغزش آجاتی ہے۔انھیں صحافتی زندگی سے ایسا لگائو تھا کہ وہ اسے چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ انھیں یہ اندیشہ تھا کہ وہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے وابستہ ہو کر اپنی شناخت کھو دیں گے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ زندگی نے انھیں مہلت نہ دی اور وہ اس ذمے داری پر فائز ہونے سے قبل ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

اﷲ رب العزت نے ان کے اس اندیشے کی لاج رکھ لی اور وہ ایک بے باک اور ایماندار صحافی کی حیثیت سے امر ہوگئے۔ ہفتہ وار نقیب میں شائع ایک تعزیتی مضمون کے الفاظ ہیں:
’’ا نھیں اندیشہ تھا کہ وہ اس ادارے سے وابستہ ہو کر اپنی شناخت کھو دیں گے۔‘‘
30اکتوبر 1991 کی صبح شاہد صاحب ساڑھے سات بجے چائے اور  بسکٹ کا ہلکا ناشتہ لے رہے تھے کہ سینہ میں یکایک درد محسوس کیا او ر پونے آٹھ بجے یہ درد ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔

شاہد رام نگری کے انتقال کی خبر جب پروفیسر جابر حسین کو دی گئی تو وہ سکتے میں آگئے۔ انھیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ شاہد صاحب گزر گئے۔ پروفیسر حسین نے شاہد صاحب کے انتقال کی خبر اس وقت کے وزیر اعلیٰ جناب لالو پرساد کو بذریعہ ٹیلی فون دی ۔ پروفیسر جابر حسین کے الفاظ میں:
’’آج سویرے ان سے ملنے کی بات تھی۔ ان کا فون آنا تھا۔ امارت شرعیہ سے فون تو آیا لیکن ان کی موت کی خبر لے کر آیا۔ ایک گھڑی کو لگا جیسے اپنے دل کی دھڑکن بھی رک گئی۔ قاضی مجاہدالاسلام قاسمی صاحب خود فون پر نہیں ہوتے تو شاید یقین کرنے کو جی نہیں مانتا۔
پھلواری شریف کے راستے میں ایک جگہ رک کر میں نے فون پر ان کی موت کی خبر وزیر اعلیٰ لالو پرساد کو دی۔ وہ سن رہ گئے۔ میں نے ان کی آواز سے محسوس کیا، انھیں گہرا دھکا لگا ہے۔ ابھی کل ہی تو انھوں نے شاہد رام نگری کے لیے کابینہ وزیرکا درجہ اور سہولیات منظور کی تھیں۔ اور محکمے کو احکامات جاری کرنے کی ہدایت دی تھی۔ ایک غریب اور پسماندہ طبقہ کے قابل آدمی کو عہدہ اور منصب دے کر وہ خود بھی فخرمحسوس کر رہے تھے۔ ‘‘

پروفیسر جابر حسین نے اپنے مضمون میں شاہد رام نگری کو قلم کا سپاہی اور ان کے انتقال کو ایک ایماندار آواز کی موت قرار دیتے ہوئے تحریر کیا ہے:
’’میرے لیے شاہد رام نگری ایک بڑے بھائی سے بھی زیادہ تھے۔ قلم کا ایک ایسا سپاہی جس نے نہ جانے کتنے موقعوں پر روایتی مسلم سیاست سے ہٹ کر سچائی کا ساتھ دیا تھا۔ جب جب مسلم سیاست پر فرقہ پرست موقع شناسوں کا شکنجہ کسنے لگتا، شاہد رام نگری بے خوف و خطر ان شکنجوں کو توڑنے کی مہم میں جٹ جاتے۔
وہ مجھے بے حد عزیز تھے، کیونکہ انھوں نے کبھی اپنے قلم کا، اپنی تحریر کا، اپنے الفاظ اور اپنے عقائد کا سودا نہیں کیا۔ نہ وہ کسی کی آستین کا سانپ تھے، نہ ان کی آستین میں سانپوں کے لیے کوئی جگہ تھی۔
ایک بے حد ایماندار آواز، ایک بے حد پر خلوص عبارت تھے، شاہد رام نگری۔
ان کی موت ایک ایماندار آواز کی موت ہے۔‘‘

میں نے شاہد رام نگری کے متعلق جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ وہ طبعاً خاموش پسند اور سنجیدہ تھے۔ محنت، لگن اور حوصلہ ان کا شعار تھا، کسی بھی مسئلے پر ٹھہر ٹھہر کر اور ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر بولا کرتے تھے۔ وہ ایک بیباک انسان، دوراندیش، محب وطن، ایماندار، دیانتدار، حق گو اور قناعت پسند صحافی تھے۔ گرچہ ان کے تعلقات ریاست کے بڑے بڑے عہدیداروں سے تھے۔ انھوں نے اس تعلقات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے فقرو استغنا کو ترجیح دی۔ یہی ان کا شیوۂ حیات تھا۔ انھوں نے اپنی محنت اور لگن سے ہی اردو صحافت میں اعلیٰ مقام بنایا اور وہ یہی عظیم دولت اپنے پسماندگان کے لیے چھوڑ گئے۔یہی وہ شاہد رام نگری تھے جو مرتے وقت بھی صحافیوں اور ادیبوں کے لیے عدیم المثال سند چھوڑ گئے۔ غریب اور ایماندار ہونے کی سند، جن کے بینک اکائونٹ میں صرف 325روپے کی رقم ملی۔ اور یہ وہ رقم تھی جو انھیں ایک ریڈیو پروگرام کے عوض میں ملی تھی۔ کسی شاعر نے ٹھیک ہی کہا ہے:
کیا کروں گا میں شاہوں کا مقدر لے کر
ہاتھ  خالی  گیا  دنیا  سے  سکندر  لے کر

شاہد رام نگری بہار اور اردو دونوں کے یکساں طور پر عاشق تھے۔ بہار سے انھیں ایسا لگائو ہو گیا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بہار کے ہو کر رہ گئے۔ بہار سے ایسے جڑے کہ اسی سرزمین پر دم توڑ دیا اور یہاں کی زمین نے انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے سینے سے لگا لیااور اردو صحافت کا یہ مینار اپنی روشنی آج بھی اسی صورت میں بکھیر رہا ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والوں اور ان کے سیکھنے والوں کی تعداد آج بھی بہار کی صحافت میں اپنی شراکت کا احساس دلا رہی ہے ۔ بہار کی صحافت کا جب بھی ذکر ہوگا شاہد رام نگری کا نام فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔  انھوں نے صحافت کا جو معیار قائم کیا وہ باقی تو نہیں رہا لیکن ختم بھی نہیں ہوا اس سے لگتا ہے کہ شاہد رام نگری کے مزاج کی پاسداری کرنے والے اور ان کے موقف کو زندہ رکھنے والے صحافی ہنوز باقی ہیں۔
Dr. M Rahmatullah
Consulting Editor (Urdu), Doordarshan News, New Delhi 110049
Mob. No.: 9818462389

 یہ مضمون قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے رسالے ’’اردو دنیا‘‘ کے اگست 2017 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اگر آپ رسالے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے لنک پر کلک کیجیے:۔


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں