30/1/18

مضمون: نو آبادیاتی ہندستان اور اودھ پنچ کا مزاحمتی کردار ازرضی احمد



نو آبادیاتی ہندستان اور اودھ پنچ کا مزاحمتی کردار


ہندستان اپنی صنعت و حرفت، زرعی پیداوار اور تجارت کے اعتبار سے شروع سے ہی اہمیت کا حامل رہا ہے ، اسی وجہ سے دیگر ممالک کے بہت سے تاجروں اور کمپنیوں نے تجارتی مقاصد کے پیش نظر یہاں کا رخ کیا اور یہاں کے باشندوں اور حکمرانوں نے ان سب آنے والوں کا استقبال کیا اور انھیں ہر طرح کی اعانت اور سہولتیں بہم پہنچائیں۔ ان ہی غیر ملکی کمپنیوں میں برطانیہ سے آنے والی ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ بھی ہے جسے مغل حکمراں جہانگیر کے عہد میں تجارت کی منظوری دی گئی، اس کمپنی کے مالک اور اس سے منسلک دیگر عہدیداران انگریز تھے ، جن کا مقصد اصلی تجارت کے پس پردہ یہاں کی حکومت پر قابض ہونا تھا اور وہ اول دن سے اپنے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے خاکے اور منصوبے تیار کرنے لگے ، اس خواب کی تعبیر جنگ پلاسی میں نواب سراج الدولہ کی شکست کے بعد ملنی شروع ہو گئی،کمپنی کے ذریعے بنگال پر تسلط اور حکمرانی قائم کرنے کے بعد ملک کے دیگر حصوں کا استحصال بھی شروع ہو گیا اور ہندستان کی دولت انگلستان منتقل ہونے لگی، انگلستان سے تیار شدہ مال ہندستانی بازاروں میں بڑی تعداد میں فروخت ہونے لگا اور ہندستان کی صنعت و حرفت تباہ و برباد ہو تی چلی گئی اورنتیجتاً ہندستان صرف ایک زرعی ملک بن کر رہ گیا۔ انقلاب 1857کے بعد حکومت برطانیہ نے ہندستانی حکومت کی باگ ڈور ایسٹ انڈیا کمپنی سے اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اس طرح ہندستان برطانوی نو آبادیات کا حصہ بن گیا اور یہاں سے ہندستانی باشندوں اور یہاں کے مال و متاع کے استحصال کا ایک روح فرسا دور شروع ہوگیا۔ 

نو آبادیات کا مطلب یہ ہے کہ ایک ملک جو اپنے آپ کو مختلف جہات مثلا ًنسل، تہذیب، معیشت اور جدید ٹکنالوجی وغیرہ کے اعتبار سے برتر اور ترقی یافتہ سمجھتا ہے وہ ایک ایسے ملک پر قابض ہو کر اسے اپنی محکومی میں رکھتا ہے جسے وہ مذکورہ بالا امور میں کم تر اور پس ماندہ خیال کرتا ہے، اور یہ غیر ملکی اقلیت اس محکوم معاشرے اور قوم کو اس وقت تک اپنی محکومی میں رکھتی ہے جب تک کہ وہاں کی عوام اس نظام حکومت اور افراد حکومت کے خلاف قومی تحریک چھیڑ کر اور جان و مال کی قربانی پیش کر کے اپنے آپ کو آزاد نہ کرالیں۔ اس نو آبادیاتی طرز حکومت میں محکوم ملک کے باشندوں کو غیر ملکی حکمراں طبقہ اقتدار میں شریک نہیں کرتا، اس طرح وہ محکوم طبقہ حکمران جماعت کا حصہ بننے کے بجائے مکمل طور پر اس کا محکوم ہوتا ہے اور حکمراں طبقہ پوری محکوم آبادی کا استحصال کرتا ہے ، محکوم ملک کی معیشت اور وہاں کے مال و دولت کو اپنے ملک کی معیشت کے تابع بنا کر اپنے مقاصد اور مفاد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔اس ضمن میں ڈاکٹر مظہر مہدی نے مختصر الفاظ میں نو آبادیات کی تعبیر و تشریح ان الفاظ میں کی ہے:                                                                                                          
’’نسل، تہذیب، معیشت اور ٹکنالوجی کے معاملات میں برتر اور ترقی یافتہ سمجھی جانے والی غیر ملکی اقلیت بالخصوص یوروپیوں کا ان ہی معاملات میں ’کم تر‘ اور پس ماندہ خیال کی جانے والی، مختلف نسل کی اجنبی اکثریت علی الخصوص افریقی اور ایشیائی معاشروں کو سیاسی، معاشی، تہذیبی اور دانشورانہ محکومی کی حالت میں اس وقت تک رکھنا جب تک کہ وہاں کے عوام اس حکومت کے خلاف قوم پرست تحریک چھیڑ کر اپنے ملک کو آزاد نہ کرالیں، نوآبادیات سے موسوم کیا جاتا ہے۔‘‘
( مظہر مہدی، اردو دانشوروں کے سیاسی میلانات، نو آبادیاتی ہندوستان، دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1999 ص13)     
انگریزوں نے ہندستان کو اپنی نوآبادیات میں شامل کرنے اور ہندوستانی باشندوں پر اپنی سماجی، سیاسی اور تہذیبی برتری قائم کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے ، انھوں نے یہاں کے مقامی لوگوں کے درمیان مذہب کے نام پر ہندو مسلم میں تفریق پیدا کی تو دوسری طرف ایک ہی مذہب کے لوگوں کو مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کر دیا، کیونکہ ان کے متحد ہونے سے ان کی حکومت کو خطرہ پیدا ہو سکتا تھا، انھوں نے ہندوستانیوں کو کہیں ذات کے نام پر تو کہیں علاقے کے نام پر بھی لڑانے کی کامیاب کوشش کی، انگریز حکمرانوں نے یہاں کے باشندوں اور ان کے تہذیب و تمدن کو غیر مہذب اور بد اخلاق و غیر شائستہ کہہ کر انھیں حقارت کی نظروں سے دیکھا، مقامی باشندوں کے اوپر یورپ سے لائے گئے تہذیب و تمدن کو تھوپنے ، اپنی نسلی، سماجی و سیاسی برتری کو قائم رکھنے اور اپنی عنان حکومت کو بنائے رکھنے کو نوآبادیات کا نام دیا۔ نو آبادیات پر حکومت کے زعم میں طرح طرح کی بندشیں عائد کیں اور نئے نئے قوانین نافذ کیے جن کی مدد سے ان کا برابر استحصال کیا جاتا رہا اور ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک روا رکھا گیا۔   اسی رویے کی  زد میں صحافت بھی آئی۔ صحافت پر بھی بندشیں لگائی گئیں۔ ان پر پابندیاں عائد کی گئیں اسی وجہ سے اس وقت کے جدید و قدیم اخبارات یا تو حکومت کے ہمنوا اور طرفدار تھے اور جو نہیں تھے انھوں نے خوف واحتیاط کی وجہ سے اپنے انداز تحریر اور لہجے کو پست اور نرم کر رکھا تھا اور بڑے محتاط انداز میں خبریں اور مضامین شائع کرتے تھے، دھیرے دھیرے فضا معتدل ہوئی اور خوف و دہشت کا ماحول کم ہوا، اب جا کر اردو اخبارات نے حکومت کی بد عنوانیوں اور غلط پالیسیوں کے خلاف لکھنا اور تبصرے شائع کرنا شروع کر دیا، لیکن اس طرح کے نظریات کے حامل اخبارات کی تعداد بہت کم تھی،اسی دور میں 16جنوری1877 کو منشی سجاد حسین کی ادارت میں لکھنؤ سے اودھ پنچ جاری ہوا۔ اس ہفت روزہ اخبار نے اردو صحافت میں جدید طرز نگارش کی بنیاد ڈال کر ایک معین اور مستحکم پالیسی کے تحت اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا، جہاں اس نے مختلف میدانوں میں قابل قدر صحافتی اور ادبی خدمات انجام دیں۔ وہیں اس کا سب سے اہم اور نمایاں کارنامہ نو آبادیات مخالف کردار ہے۔

اودھ پنچ 16 جنوری 1877 کو جاری ہوا اور1934 میں بند ہو گیا، یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا۔ یہ اپنے طرز کا پہلا اخبار تھا جس کی ایک معین پالیسی، مستقل  مقصد اور مسلک تھا، اس نے صحافت کی عام روش سے ہٹ کر طنز و ظرافت کا لب و لہجہ اختیار کیا اور سب سے پہلے نہ صرف اردو صحافت بلکہ اردو ادب میں مغربی طنز و ظرافت کو رواج دیا۔ یہ اخبار نہ صرف اردو بلکہ ہندوستان کی تمام زبانوں میں اس وقت قومی اخبار تھا اور قومی خدمت کی غرض ہی سے نکالا گیا تھا۔ اس اخبار کی اشاعت کے ابتدائی ایام ہی میں عوام و خواص کے درمیان اسے شہرت و مقبولیت حاصل ہو گئی اور ملک کے کونے کونے میں اس کا چرچا ہونے لگا۔ اپنی نمایاں خصوصیات کی وجہ سے اس دور کا نمائندہ اخبار ہو گیا اور اس دور کے بلند پایہ قلم کاروں اور ادیبوں کا قلمی تعاون حاصل رہا، اس اخبار کی کامیابی اور مقبولیت عام کی واضح دلیل یہ ہے کہ اس نے اپنی اشاعت کے ابتدائی دور سے ہی قارئین کا ایک وسیع حلقہ پیدا کر لیا، اس دور میں جب کہ دیگر عام اخبارات کی تعداد اشاعت دو، تین سو سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، اودھ پنچ کی تعداد اشاعت تیرہ ہزار تک پہنچ گئی تھی، اس اخبار کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی نیز اس کے طرز نگارش سے عوامی دلچسپی نے اس طرز کی صحافت کا راستہ ہموار کر دیا اور ملک کے تقریباً 28شہروں سے 70کے قریب ’ پنچ‘ اخبارات منظر عام پر آئے۔

اودھ پنچ کا عہد نو آبادیاتی رہا ہے جو بہت ہی پر آشوب اور خلفشار و انتشار کا دور تھا، اس اخبار کے مدیر منشی سجاد حسین جیسا حساس اور نباض قوم اور مشرقی تہذیب و تمدن کا دلدادہ اس دور سے کیسے نبرد آزما نہ ہوتا، لہٰذا انھوں نے اس وقت کے دیگر نمائندہ قلم کاروں کی معاونت سے مغربی تہذیب اور اس کے مضر اثرات سے ہندوستانیوں کو آگاہ ہی نہیں کیا بلکہ ان سے مقابلہ کرنے کے لیے ان کے اندر روح پھونک دی۔ انگریزوں کی طرف سے سیاسی، سماجی، تہذیبی، معاشی اور معاشرتی حملوں کا اس اخبار نے بھر پور مقابلہ کیا اور انگریز حکمرانوں کی طرف سے ہندستانیوں کے ساتھ کی جانے والی تفریق اور ظلم و زیادتی کو ہدف تنقید بنایا۔          
                                                          
نو آبادیاتی ہندستان میں اس اخبار نے اپنی صحافتی ذمے داریوں کو بخوبی نبھاتے ہوئے قابل تعریف کارنامہ انجام دیا، یہ اپنی نوعیت کا وہ نمائندہ بے باک صحیفہ تھا جس نے انگریزی حکومت کے دبدبے کا لحاظ کیے بغیر ہندستان میں سب سے پہلے جرأتمندانہ سیاسی تحریک کی بنیاد ڈالی اور قومی حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائی۔ اودھ پنچ کے مدیر اور دیگر نامہ نگاروں کی بے باکی، اس زمانے کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے، بڑی ہمت کا کام تھا لیکن طنز و ظرافت کے پیرایۂ بیان نے اس مشکل اور نا خوشگوار کام کو آسان اور خوشگوار بنا دیا۔ یہ اخبار انگریزی حکومت کا مخالف، قومی یکجہتی کا حامی، امن و آشتی کا پیغامبر اور طنز و مزاح کا شاہ کار تھا۔                       
                                     
اس اخبار کی اشاعت جن مقاصد کے تحت عمل میں آئی تھی ان کے حصول میں اس نے قابل قدر کوشش کی اور برطانوی حکمرانوں کی بد عنوانی کو ہمیشہ اپنی تنقید کا نشانہ بنایا، نوآبادیاتی ہندوستان میں حکومت کی غلط پالیسیوں اور طرز حکومت، مغربی تہذیب و تمدن کی مخالفت اور مشرقی طرز معاشرت کی حمایت کے ساتھ ساتھ اس نے اردو صحافت میں جدید طرز نگارش کی بنیاد ڈالی، طنز و مزاح سے اردو صحافت کو متعارف کرایا، اردو اخبارات میں کارٹون کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا اور با مقصد صحافت کی ایک مضبوط بنیاد ڈالی۔ نظم و نثر میں طنز و مزاح نگاروں کی ایک جماعت کو تیار کیا اور اردو ادب میں طنز و مزاح کو رواج دیا۔                                                                                    
Razi Ahmad
New Delhi - 110025
Mob.: 9810758952

یہ مضمون ’’اردو دنیا‘‘ کے مئی 2017 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔  اگر آپ اس شمارے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں