29/1/18

مضمون : سر سید کا تصورِ علم از حافظ محمد جہاں گیر اکرم


سر سید کا تصورِ علم


بلاشبہہ سرسید احمد انیسویں صدی کے ان یادگارِ زمانہ عظیم ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے اپنی فکرِ عمیق سے قوم وملت کی عظیم الشان خدمات انجام دیں۔ وہ مصلح اعظم بھی تھے،  قومی مدبر اور ماہر تعلیم بھی۔ وہ اردو نثر کے عہد زریں کے معمار بھی تھے اور صاحبِ طرز انشاپرداز بھی۔ وہ عزم مستحکم، یقیں محکم اورعمل پیہم دل میں لے کر اٹھے۔ وہ فرسودہ رسومات اور بے جا توہمات کی آندھیوں کے بیچ جدید علوم کی شمع اپنے ہاتھوں میں لے کر جہالت کی تیرگی کو رفع کرتے رہے اور اس طرح انھوں نے نفسِ سوختہ ٔ شام وسحر تازہ کرنے کا کام کیا۔

سرسید احمد خاں کے فکر وعمل کے میدان خصوصاً تین تھے مذہب، سیاست اور تعلیم۔ ان کے علاوہ اگر کچھ تھا بھی تو وہ انھیں نظریات وخیالات کے گر د گھومتا تھا۔ ان کی ادبی حیثیت گرچہ مسلّم اور ثابت شدہ ہے لیکن انھوں نے انشاء وادب کو کبھی مقصد نہیں بنایا بلکہ اپنے مقصد کی حصولیابی کے ضمن میں استعمال کیا۔جس طرح علامہ اقبال نے شاعری کو مقصد نہیں بنایا بلکہ مقصد کے لیے شاعری کی۔ اسی طرح ادب سرسید کے نزدیک محض تفریحی مشغلہ نہ تھا بلکہ خیالات ونظریات کے اظہار کا وسیلہ تھا۔ حالانکہ نثر میں ان کا طرزِ بیان اور ان کا کل سرمایہ تحریر اردو زبان وادب کا نادر اور ناقابلِ فراموش حصہ ہے لیکن وہ اصلاًمصلحِ قوم، سیاسی اور مذہبی مفکر تھے۔ لہٰذا ان کے تمام تصنیفی کارناموں کو ان کے عقائد سیاسی، تعلیمی مشن اور افکار دینی کی روشنی میں جانچنا وپرکھنا چاہیے کیوں کہ ان کی ادبی حیثیت انھیں چیزوں کے تابع ہے۔

سرسید جس صدی کی پیداوار ہیں وہ بحث ومناظرہ کی صدی ہے۔ اقدار مشرق ومغرب، قدیم وجدید، بدعت وسنت، مذہب وسائنس، جبلت وعقل تمام معاملات میں ایک طرح کا تصادم نظر آتا ہے۔سرسید ایک صاحبِ فکر اور اثر پذیر شخص تھے اس لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ان تنظیموں اور ہنگاموں کو تماشا ئی بن کرایک تفریحی نظر ڈالتے اور آگے بڑھ جاتے۔ وہ ساحل سے طوفان کا نظارہ کرنے والوں میں سے نہیں تھے بلکہ اس میں کود کر سینہ سپر ہونے والے بہادروں میں سے تھے۔ اس لیے انھوں نے ہر مورچہ پر عملی حصہ لیا۔ خواہ عقل اور مذہب کی معرکہ آرائی ہو یا مذہب اور سیاست کا تصادم یا علم دین اور دنیوی کی سرد جنگ، ایک بہادر اور جانباز سپاہی کی طرح ہر مورچہ پر ہم انھیں سرگرم عمل پاتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا یہ اقتباس پیشِ خدمت ہے:
’’غدر کے بعد نہ مجھ کو اپنا گھر لٹنے کا رنج تھا، نہ مال واسباب کے تلف ہونے کا۔ جو کچھ رنج تھا اپنی قوم کی بربادی کا۔۔۔۔  جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ چند روز اسی خیال اور اسی غم میں رہا۔آپ یقین کیجیے کہ اس غم نے مجھے بُڈھا کردیا اور میرے بال سفیدکردیے‘‘۔ (تہذیب الاخلاق)

سرسید احمد خاں یورپ سے درآمد فکر اور عقل پسندی سے بہت متاثر ہوئے۔ اس زمانے میں یہ تسلیم کرلیا گیاتھا کہ حقیقت تک رسائی اور اس کے ادراک کا بڑا ذریعہ عقل ہے۔ اسی طرح قوانینِ فطرت یا نیچر کا مشاہدہ اور تجزیہ بھی اس صدی کا ایک اہم موضوع تھا۔ نیچر اور فطرت کی ا صطلاح نے یورپ کے ادیب ومفکر کو سرشار کر رکھاتھا اور یورپ کا یہ تحفہ جب ہندستان پہنچا تو یہاں بھی اس کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ سرسید احمد اور ان کے رفقا نے اہلِ مغرب کی طرح نہ صرف اس کا استعمال کیا  بلکہ مدتوں اس کو سر آنکھوں پر رکھا۔ اس صدی کے ہندستان کی ترقی اور ارتقا کے مغربی نظریوں سے بھی سرسید بے حد متاثر ہوئے مگر یہ امر قابلِ غور ہے کہ ان کو ارتقا سے زیادہ ترقی کی اصطلاح زیادہ پسند تھی۔

اس عہد کے ہندستان میں اجتماعیت، سویلائزیشن، تہذیب اور کلچر کے مغربی تصورات کی ا شاعت میں سرسید اور ان کے رفقا نے خاص دلچسپی دکھائی اور جدید نظریۂ تہذیب کے ایک بڑے مبلغ اور داعی بن کر سامنے آئے۔ یہی وجہ تھی کہ رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ میں تہذیب سے متعلق بہت سے مقالے لکھے گئے ہیں۔ مختصر یہ کہ جہاں ان تصورات نے فکر ونظر کی حدود کو وسعت عطا کی وہاں ان سے زندگی کی جذباتی اور روحانی بنیادوں کو بہت ضعف پہنچا۔ اس کی وجہ سے نجات اخروی کی جگہ موجودہ زندگی کے اجتماعی راحت وآرام نے لے لی اور مذہب کے ساتھ ساتھ اکثر اخلاقی قدروں کے متعلق شک اور تردد پیدا ہوگیا۔

تعلیم کے معاملے میں سرسید کے خیالات ونظریات بے حد مقبول ہونے کے باوجود کچھ زیادہ جدید نہ تھے۔ سائنس وعلوم جدید اور انگریزی زبان کی تعلیم گرچہ اس زمانے میں بڑی کشش رکھتی تھی مگر وہ تعلیم کے معاملے میں اتنے انقلابی نہ تھے جتنا ان کو سمجھ لیا گیا ہے۔اکبر الٰہ آبادی نے سرسید کے انھی نظریات پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے :  
سید جو گزٹ لے اٹھے تو لاکھوں لائے
 ہم  قرآن  دکھاتے   رہے  پیسہ  نہ ملا
عام طورپر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سرسید انگریزی تعلیم کے حق میں تھے اور اسے پھیلانا چاہتے تھے اورعلماے وقت انگریزی تعلیم کو دین کا دشمن سمجھتے تھے۔ مگر انصاف کی بات یہ ہے کہ علما کو اختلاف سرسید کے مذہبی عقائد اور انگریزی تہذیب وتمدن سے تھا نہ کہ انگریزی تعلیم کے پھیلاؤ سے۔ اب چوں کہ سرسید انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی تہذیب وتمدن کے بھی مداح تھے اس لیے بہت سے مغالطے پیدا ہوگئے۔ اسی طرح سرسید نے عربی تعلیم اور قدیم مدارس کے خلاف’’ تہذیب الاخلاق‘‘ میں کئی مضامین لکھے اس سے بھی ان کے خلاف فضا پیدا ہوئی۔
سرسید کے افکار کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قدیم کے مقابلے میں جدید اور ماضی کے مقابلے میں عہد حاضر سے زیادہ وابستہ نظر آتے ہیں۔ ان کا ذہن تجدد پسند تھا یہی وجہ تھی کہ انھوں نے عہدِ حاضر کے مسائل کی طرف زیادہ توجہ کی اور علم وادب کے جن موضوعات پر لکھا  ان میں خاص مقصد یہی تھا کہ جہاں تک ہو قوم وملک کی موجودہ حالت چست ودرست ہو۔مسائل حاضرہ سے سرسید کی دلچسپی کا اہم ثبوت’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کے ان مضامین میں موجود ہے۔
سرسید احمد نئی تہذیب کو گلے لگانا چاہتے تھے۔ یہ حقیقت ہے لیکن اس لیے نہیں کہ وہ فیشن پرست تھے اور تہذیبِ نو کی چمک دمک نے ان کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا اور یہ بھی نہیں تھا کہ انھیں اپنے دین ومذہب، معاشرت وروایت سے لگاؤ نہیں تھا بلکہ ان کی چاہت تھی کہ اپنے دین ومذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر اچھی بات اور ہر اچھی چیز کو اپنا لیا جائے جو ترقی کا زینہ بنے۔ وہ چیز خواہ وراثت سے آئی ہو یا پھرنئی تہذیب کے ذریعے۔ اسی طرح ہر بری چیز اور بیجا  رسومات کی پیروی جو ترقی میں رکاوٹ ہو  انھیں قطعی پسند نہیں تھی،   اس لیے سرسید نے مذہب کی فرسودہ باتوں کی مخالفت کی اور مذہب کو اس کے حقیقی رنگ میں پیش کرنے کی اصلاحی کوششیں کرتے رہے اور نئی تہذیب کی اچھی چیز کو اپنانے کی تلقین کرتے رہے اور معاشرے کو اس لائق بنانے کے لیے کوشاں رہے کہ اس کے افراد میں اچھے برے کی تمیز پیدا ہو سکے۔ وہ کھلے ذہن اور پوری آزادی کے ساتھ برائی کو اچھائی میں بدلنے کا ہنر لوگوں کے دلوں میں پیدا کرنے کی سعی کرتے رہے۔
تمام تر سرگرمیوں کے باوجود سرسید احمد اپنے ادبی ذوق کی تکمیل کے لیے کچھ وقت نکال لیتے تھے ان کی ادبی دلچسپیوں کا دائرہ بہت ہی وسیع وہمہ گیر تھا۔ تاریخ، سیاسیات، آثار قدیمہ، صحافت، ادب، مذہب اور سائنس جیسے تمام موضوعات پر انھوں نے متاعِ لوح وقلم لٹائے۔ سرسید احمد پہلے شخص تھے جنھوں نے روایت سے بغاوت کرتے ہوئے آزادیِ رائے اور حریتِ خیال کارواج عام کیا۔ انھوں نے ایک ایسے مکتبِ فکر کی بنیاد رکھی جس کے حلقے ودائرے میں عقل، نیچر، تہذیب اورمادی ترقی سبھی کچھ موجود اور محفوظ تھی۔ انھوں نے کھلے ذہن سے سوچنے وفکر کرنے اور سائنٹیفک طورپر کسی چیز کو پرکھنے اور جانچنے کا رجحان رائج کیا۔ اس طرح انھوں نے دین کو جلا بخشنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ادب کے معاملے میں انھوں نے کلاسیک اور رومان کے بیچ کی چیز کو اختیار کرکے ایک نئی روش کا رواج ڈالا۔ انھوں نے فکر وادب میں روایات واسالیب کو غیر ضروری قرار دیا۔ الغرض ادب میں جو فرسودگی، خشکی، تعطل اور جمود طاری ہوگیا تھا ان کی اصلاحی تحریک سے اس کا ازالہ ہوگیا۔ یہ ان کا انتہائی اہم کارنامہ تھا۔ وہ اردو زبان کے لیے مسیحا بن کر آئے۔ انھوں نے اردو ادب میں جدت، ہمہ گیری، ایک مقصد ادراک اور ایک خاص طرح کی معقولیت پیدا کی ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ادب وزندگی اور ادب ومعاشرے کے رشتے کو استوار کیا۔
’’سرسید نے اردو ادب کو خانقاہ، دربار اور کوچہ وبام سے نکال کر دفتروں، تعلیم گاہوں اورمتوسط طبقے کے دل ودماغ تک پہنچایا۔ ’تہذیب الاخلاق‘ کے مضامین میں سرسید اپنی فکر کی بلندی پر نظر آتے ہیں۔اس پرچہ نے قوم کی ذہنی قیادت، علما  اور رئیسوں کے بجائے متوسط طبقے کے ہاتھوں میں دے دی۔  اس نے دین کی خاطر دنیا کو بھی سنوارنے پر زور دیا۔ باوجود شدید مخالفت کے اس کا اثر ہوا اور لوگ سرسید کے پیام کی طرف تیزی سے متوجہ ہونے لگے‘‘۔ (مضامین سرسید انتخاب۔ ص9)
انگریزوں کے ہندستان پر تسلط واقتدار کے بعد مسلمانانِ ہند بے یارومددگار ہو کر رہ گئے۔ تعلیمی، معاشی واقتصادی، معاشرتی ملازمتوں اور روزگار وں غرض تمام سہولتوں سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انھیں محروم وبے دخل کردیا گیا اور سب سے زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ ان کے دین ومذہب پر بھی خطرے کے بادل منڈلانے لگے۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ عیسائی مشنری ومبلغین حکومت کی سرپرستی میں سرگرم عمل ہوگئے اور سر ویلیم میور نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں اپنی کتاب ’لائف آف محمد‘ میں نا زیبا و نا شائستہ خیالات کا اظہار کیا جس کے جواب میں سرسید احمد نے ’خطباتِ احمدیہ ‘ لکھ کر ان تمام نظریات وخیالات کی تردید کی۔
سرسید چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو علوم جدیدہ حاصل کرکے مذہب کا دفاع کرنا چاہیے اور اس کے تحفظ کے لیے تمام سازشوں اورا سکیموں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ اگر مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا تو ہندستان سے مذہب اسلام معدوم ہو جائے گا۔
مغربی تعلیم سے نوجوان مسلمانوں کے مذہبی عقائد پر جو اثر پڑ رہا تھا سرسید اس سے پوری طرح باخبرتھے۔ مذہب کے تحفظ کے لیے دینیات کی تعلیم کے بھی وہ طرفدار تھے لیکن مسلمانوں کے یہاں جو کتابیں دینیات میں داخلِ نصاب تھیں سرسید کے خیال میں وہ اس مسئلے کا سدِ باب کرنے کے لیے ناکافی تھیں جو انگریزی تعلیم کے زیرِ اثر پیدا ہو رہا تھا اس لیے وہ درسی کتابوں میں ترمیم چاہتے تھے تاکہ اسے پڑھ کر دین کی حفاظت کا شعور پیدا ہو سکے۔
سرسید احمد نے شدت سے محسوس کیا تھا کہ مسلمانوں کو جدید تعلیم کی ضرورت ہے اس لیے اپنی تمام صلاحیت اور قوت اس کام کے لیے لگادی۔ انھوں نے یہ بھی محسوس کرلیا تھا کہ ان کی قوم اس پر آسانی سے رضا مند نہیں ہو گی۔ اس کے لیے کافی محنت وکوشش درکار ہے اور اس محنت ومساعی سے وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرسید احمد راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ان کو اسلام کی صداقت کا یقین کامل تھا۔ ان کو قرآن کا کتابِ الٰہی ہونے اور حضورﷺ کے آخری نبی ہونے کا ایمان کامل تھا اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ بے باک، بے خوف اور جرأت مند تھے اس لیے ان کے متعلق یہ رائے قائم کرنا کہ وہ انگریزوں کو خوش کرنے یا ذاتی مفاد کی خاطر بعض باتیں کرتے تھے جوحقیقت پرمبنی نہیں۔لہٰذا انھیں باتوں سے متعلق اپنے بے تکلف دوست سید مہدی علی خاں کو ایک خط میں اپنے دل کا حال لکھتے ہوئے سچائی کا اقرار کرتے ہیں:
’’میں سچ اپنے دل کا حال لکھتا ہوں اگر خدا مجھ کو ہدایت نہ کرتا اور تقلید کی گمراہی سے نہ نکلتا اور میں خود تحقیقات حقیقتِ اسلام پرمتوجہ نہ ہوتا تو یقینا مذہب کو چھوڑ دیتا‘‘۔ (حیاتِ جاوید۔مطبوعہ انجمن ترقی اردو، ص: 423)
سرسید کا تصورِ تعلیم سب سے زیادہ اہم اور قابلِ توجہ ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی وعروج میں تعلیم کا اہم کردار ہوتا ہے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کی تنزلی اور زبوں حالی کی ایک خاص وجہ تحصیلِ علم سے بے اعتناعی ہے۔ علم نہیں ہونے کی وجہ سے معاشرے میں مسلمانوں کی کوئی عزت،قدر اور وقعت باقی نہیں رہ گئی ہے۔  وہ اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ علم سے پرہیز اور دین سے دوری مسلمانوں کو ذلیل وخوار کرکے چھوڑے گی اور مسلمانوں کی حیثیت وہ ہو جائے گی جس کا ذکر علامہ اقبال نے اس طرح کیا ہے :
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اسی راکھ کے ڈھیر میں پھر سے چنگاری جگانے کی کامیاب کوشش سرسید نے کر دکھائی۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہ چنگاری علم کے چراغ سے پیدا ہوگی اس لیے تعلیم کے فروغ کے لیے اور جدید علوم وفنون کی طرف مائل کرنے کے لیے انھوں نے اپنی اصلاحی تحریک پر خاص طورسے زور دیا۔
سرسید نے دیکھاتھا اور سمجھاتھا کہ جدید علم وسائنس ہی ترقی کی راہیں دکھاتی ہیں لہذا عصرجدید میں سرسید کی ان تحریکوں کی بڑی اہمیت وافادیت ہے بلکہ اس کی معنویت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کی اہمیت ومعنویت دائمی ہے۔ آج پورے عالم میں مسلمانوں پر جو خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں اس کا علاج جدید سائنسی علم وٹکنالوجی میں پوشیدہ ہے۔ جس کے سرسید قائل اور حامی تھے اس لیے مطالعہ سرسید کی اہمیت اور معنویت دائمی حیثیت کی حامل ہے۔
سرسید انگریزی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنانے پر اس لیے زور دیتے رہے کہ ان کے خیال میں سائنس، جغرافیہ، حساب وغیرہ کی تعلیم کے لیے اس زبان میں وافر مقدار میں کتابیں دستیاب ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ انگریزی زبان بلا شبہ ایسی ہے کہ انسان کی ہر قسم کی علمی ترقی اس میں ہو سکتی ہے۔ حالانکہ حالی اس خیال سے کافی حد تک اختلاف رکھتے تھے۔ان کی یہ سوچ تھی کہ انگریزی زبان میں بھی ایسی تعلیم ہوتی ہے جو دیسی زبان کی تعلیم سے بھی زیادہ نکمّی، فضو ل اور اصلی لیاقت پیدا کرنے سے قاصر ہو۔ بہر حال اس بحث سے جدا سرسید احمد کے اس موقف اور جذبے پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے جو انھوں نے اپنی قوم کی ترقی کے لیے اختیار کیا تھا۔ ا س لیے مولانا ابوالکلام آزاد نے سرسید کی کوششوں کوان الفاظ میں خوش آمدید کہاہے:
’’اغلب خیال یہ ہے کہ عوام کے ذہنی رجحان پر جتنے ہمہ گیر اثرات ’تہذیب الاخلاق‘ نے چھوڑے ہیں ہندوستان (برصغیر پاک وہند) کے کسی اور رسالے نے نہیں چھوڑے‘‘۔
Hafiz Mohd Jahangir Akam
PGTUrdu, Kamran Model School, Chanda Patti, Lahirya Sarai
Darbhanga - 846004 Bihar

یہ مضمون ’’اردو دنیا‘‘ کے مئی 2017 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔  اگر آپ اس شمارے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:۔





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں