اردو غزل ’اسم ِ بامسمیٰ‘کا کردار نبھاتے ہوئے دو سو سال
سے ایک ہی رنگ و آہنگ میں اپنا سفر طے کرتی آرہی تھی۔ خواجہ حالی کے بیانات محض کاغذی
کارروائی کے طور پر ہی دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔عملی طور پر اردو شعرا اس وقت تک اسی
گھسی پٹی روش پر گامزن تھے جس کی ابتدا ولی دکنی،عزلت سورتی،شاہ حاتم دہلوی وغیرہ سے
ہوتی ہے۔غالب کے گزرنے کو 15 برس بیت گئے تھے اور غالب نے اردو شاعری میں جو انقلاب
برپا کیا تھا، بس وہی ایک راستہ اہلِ اردو کے نزدیک ’جدید‘ باقی رہا تھا۔کل ملا کر
ہندوستان بھرکے شعرا نے اسی ایک راستے کی تقلید ’فرضِ عین‘ تسلیم کر لی تھی۔ ایسے میں
بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں یگانہ چنگیزی نے ایک نئی عمارت کی بنا رکھی۔ ابتدا
میں خواجہ آتش کے رنگ میں شعر کہنے کے بعد یہ شیوہ بھی یگانہ کو بہت زیادہ مفید نہ
معلوم ہوا اور یہیں سے اردو شاعری کو ایک نیا موڑ ’یگانہ‘ کی صورت میں ملتا ہے۔
اردو شاعری کو پہلی مرتبہ کسی شاعر نے محض واردات ِ قلب کی
سطحیت سے آزاد کرنے کا نظریہ سامنے رکھا۔ گوشت پوست میں غرق اردو شاعری کو دقیانوسی
زنجیروں سے آزاد کرنے کا ایک منضبط لائحۂ عمل یگانہ نے اپنی شاعری کے ذریعے پیش کیا۔
وجودی شاعری کا زندہ اور توانا پہلو یگانہ
کے طفیل اردو شاعری کو نصیب آیا۔ فرد اور عظمتِ فرد کو اپنی پوری آب و تاب
کے ساتھ شاعری کے میدان میں داخل کیا گیا اور یہ تسلیم کرنے پر اہل ِاردو مجبور ہوئے
کہ شاعری محض عشقیہ معاملہ بندی ،سرمستیِ رندی اور قصیدہ خوانی تک محدود نہیں بلکہ
اور بھی کچھ ہے۔اور اسی ’اور بھی کچھ‘ کو یگانہ نے شعری تہہ داری کے ساتھ غزل میں جائز
مقام دلایا۔معرفت اور مجاز کے درمیان حد ِ فاصل کھینچنے میں مصروف شعرائے اردو کے لیے
یگانہ کا وژن بالکل انوکھا رہا۔بلکہ اول اول ناقابلِ ہضم۔لیکن زمانہ جانتا ہے کہ جدید
شاعری کے امام یگانہ چنگیزی کی قربانیاں داخلِ نصاب نہ ہوتیں توہمیں شکیب جلالی، زیب
غوری، ندا فاضلی، شجاع خاور اور اسی قبیل کے دیگر شعرا کی شاعری قطعی پسند نہ آتی۔
نباضِ ادب، ماہرِ غالبیات آنجہانی کالی داس گپتا رضا کے استاد اور شاگرد ِ داغ علامہ
جوش ملسیانی نے یگانہ کے کلام کے متعلق کیا
نپی تلی رائے دی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
’’یگانہ کا نمایاںوصف یہ ہے کہ فلسفیانہ شاعری اور حقائق
ِ زندگی کے دقیق مضامین کو موضوعِ سخن قرار دے کر وہ غزل کا انداز ِ بیان اور غزل کی
زبان کسی شعر میں ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔کسی غزل میں کوئی شعر ایسا نظر نہیں آتا جو
خشک سے خشک مضمون کو بیان کرنے کے باوجود غزل کے انداز سے بیگانہ ہو۔غور سے دیکھا جائے
تو معلوم ہو گا کہ شعر میں اس وصف کا پیدا کرنا اس میدان میں فی الحقیقت بہت مشکل کام
ہے۔‘‘1
ایمان کی بات یہ ہے کہ یگانہ کی شاعری ہمیں زندگی جینے کا
فن سکھاتی ہے۔کم زور لمحوں میں ہمیں حوصلہ بخشتی ہے۔ہماری ڈھارس بندھاتی ہے۔یہی یگانہ
کی شاعری کا ماحصل ہے۔خود کے لیے نئی راہ تیار کرنے اور پھر اس کی عظمت و انفرادیت
زمانے سے منوانے میں یگانہ کو بڑی قربانیاں دینی پڑیں۔یگانہ کی کیفیت بقول خلیل فرحت
کارنجوی مرحوم ؎
ذوق کے دور میں غالب
کا طرفدار ہوں میں
بے تکلف مجھے سولی پہ چڑھایا جائے
کی سی ہے۔یگانہ کے وقتوں میں لکھنوی تہذیب اور لکھنؤ اسکول
پر مرثیے کا کچھ اس طور غلبہ تھا کہ ہر صنفِ سخن سے ’مرثیہ پن‘ جھلکتا تھا۔ یاسیت،
قنوطیت سے اردو شاعری لبریز تھی۔ ہر عاشق در ِ جاناں پر مرجانے کو زندہ رہنے پر مقدم
جانتا تھا۔گلدستوں اورطرحی مشاعروںمیں محض پینترے بازی اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے
کے جنون نے اردو شاعری کی صورت ہی کچھ اور کردی تھی۔ یگانہ نے ان تمام گورکھ دھندوں
سے پاک،صاف ستھری اور بامعنی شاعری سے اردو ادب کو روشناس کیا۔ایک ایسی شاعری جو انسانیت
کے لیے اکسیر ہو، ایک ایسی شاعری جہاں فرد کے زخموں پر مرہم لگایا جاتا ہو۔میں عرض
کر چکا ہوں کہ خواجہ الطاف حسین حالی پانی پتی کے متعینہ اصولوں کو اس وقت تک کسی نے
خود پر منطبق نہیں کیا تھا۔یگانہ کی شاعری خواجہ حالی کے نافذ کردہ قوانین سے میلوں
آگے بڑھ گئی۔ اہلِ زمانہ اس انقلاب سے چونک پڑے کہ،یہ کون حضرت ِ آتش کا ہم زباں
نکلا۔
نیاز فتح پوری جیسے سخت ترین نقاد بھی یگانہ کی شعری روش
کے قدردان رہے،فرماتے ہیں:
’’یگانہ پہلا شخص تھا جس نے لکھنؤ کے روتے اور بسورتے رنگ
ِ تغزل پر کاری ضرب لگائی اور یہ کہنا غالباً غلط نہ ہوگا کہ یگانہ ہی نے سب سے پہلے
اپنے زمانے کے لکھنوی شاعروں کے اس رنگ ِ تغزل کو بدلاجو اپنا اصلی رنگ چھوڑ کر بے
تمیزی کے ساتھ غالب کی تقلید پر آمادہ ہوگئے تھے۔یگانہ نے غالب کے متعلق جو کچھ لکھا
،میں اسے ردِّ عمل سمجھتا ہوںاس شدید مخالفت کا جو لکھنوی مقلدین کی طرف سے یگانہ کے
باب میں ظاہر کی گئی اور جسے یگانہ ایسے حساس آدمی کے دماغ کو واقعی بری طرح متاثر
کرنا چاہیے تھا،ورنہ یگانہ کی فطرت شاید اس کو گوارا نہ کرتی۔ یگانہ کی شاعری حسن و
عشق کا وہ مرقع نہیں ہے، جس میں محبت کی فتادگی،خواری وتذلل تک پہنچ جاتی ہے بلکہ اس
میں ہمیں ایسے عشق ِخوددارکی جھلک نظر آتی ہے جس کا سینہ تو ضرور خونچکاں ہے لیکن
لب پر آہ و فغاں نہیںہے۔ایسے جواہر ریزوں کی ان کے یہاں کمی نہیں ہے۔‘‘2
یگانہ کی شاعری کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان کی آواز اپنے
پیش روئوں یا ہم عصروں ، سبھی سے جداگانہ ہے۔ یگانہ کا شعر کسی دوسرے کے خانے میں رکھا
نہیں جا سکتا اسی لیے انتساب ِ شعر کے معاملے میں یگانہ کا کوئی ایک شعر بھی تاحال
کسی اور شاعر سے منسوب نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس کے بر عکس آپ جگر، اصغر، سیماب، فانی،
عزیز، ثاقب وغیرہ کے سیکڑوں اشعار یہاں وہاں خلط ملط پائیں گے۔ کلام کی یہی انفرادیت
یگانہ کی شناخت کا وسیلہ ہے۔ان کی آواز ان کی اپنی ہے،وہ کسی کے لہجے کی جگالی نہیں
کرتے۔ میرے مربی ندافاضلی صاحب یگانہ چنگیزی کے ساتھ ساتھ مرحوم خلیل فرحت کارنجوی کے متعلق اکثر فرماتے ہیں کہ’بڑا شعر کہنا
بڑی بات نہیںہے بلکہ اپنا شعر کہنا بڑی بات ہے۔‘
نریش کمار شاد یگانہ کی شاعرانہ عظمت کے یوں قائل ہیں:
’’میرزا یگانہ چنگیزی بلا شبہ اس دور کے نہایت عظیم غزل گو
شعرا میں سے ہیں۔عظمت کا لفظ اگرچہ اس دور میں اپنی معنویت کھوچکا ہے لیکن میرزا یگانہ
کی غیر معمولی شعری صلاحیتوں کے پیشِ نظر ان کی عظمت پر شک کرنا ادبی خیانت کے مترادف
ہے۔ یاس کی غزلوں کا لب و لہجہ ہمارا ادبی و تہذیبی ورثہ ہے۔ہمیں نئی نسل کے شاعروں
کو ان کے کلام کی صحت مند اور توانا روایات کو اپنانے کے لیے کسی تعصب اور بغض کے بغیر
غیر متعلقہ امور کو بھلا کر اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔‘‘ 3
یگانہ کی شاعری مردانہ آہنگ کی لَے بلند کرتی ہے۔ مردانہ
اور دلیرانہ جذبات کو یگانہ کچھ اس ڈھب سے شعری جامہ پہناتے ہیں کہ قاری و سامع جوش
و انبساط کی سی کیفیت محسوس کرنے لگتا ہے۔ یگانہ کے یہاں افسردگی، لاچارگی، یاسیت،
شکست خوردگی وغیرہ حوصلہ شکن مضامین عنقا ہیں۔ اس کے بدلے یگانہ کی شاعری ولولہ، غیرت،
خودداری، حوصلے کی تعلیم دیتی ہے۔ ہم فرد کے غموں کا مداوایگانہ کی شاعری میں تلاش
کر سکتے ہیں اور یقین جانیے کہ اس تلاش میں مایوسی نہیں ہوگی۔حقائق ِ زندگی کے اظہار
پر یگانہ کی زبردست گرفت ہے۔ اردو شاعری میں حقائق ِ زندگی کو اس بڑے پیمانے پر یگانہ
سے قبل کسی نے بروئے کار نہیں لایا۔یگانہ کی فکری بلندی نے معاملات ِ زیست کی سطحیت
کو بھی ارفع مقام عطا کیا ہے۔ان کے یہاں بہت چھوٹی سی بات بھی چھوٹی معلوم نہیں پڑتی۔
اظہار اور تخلیق پر یہی قدرت یگانہ کو سربلندی فراہم کرتی ہے۔ مصائب ِ زمانہ کے یگانہ
شاکی ضرور ہیں تاہم ان سے نمٹنے کا فن ان کی شاعری سے عیاں ہے۔حالات کی سختی اور ناہمواری
وقت میں یگانہ کے اشعار ایک سچے دوست کا کردار نبھاتے ہیں۔اور محض ہمیں سنبھالا ہی
نہیں دیتے بلکہ لب ِ ساحل تک پہنچنے کا راستہ بتاتے ہیں۔یہی بے پناہ انسیت یگانہ کی
شاعری سے قاری کا رشتہ استوار کرتی ہے۔اور وہ حیرت،تاسف و گم گشتگی کے بھنور سے نکلنے
میں کامیاب ہوجاتا ہے۔یہی یگانہ کی شعری کامیابی ہے۔
پروفیسر مجنوں گورکھپوری یگانہ کی شاعری کا کس بل محسوس کرتے
ہیں:
’’میزرا یاس یگانہ اردو غزل میں پہلے شخص ہیںجن کی شاعری
میں وہ کس بل محسوس ہوتا ہے جس کو ہم صحیح اور توانا زندگی سے منسوب کرتے ہیں۔غزل کو
جو اب تک صرف حسن و عشق کی شاعری سمجھی جاتی رہی ہے یگانہ نے زندگی کی شاعری بنا دیا
ہے اور انسان اور کائنات کی ہستی کے رموز ا شارات کو اپنی غزلوں کا موضوع قرار دیا
ہے۔ میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ ان کے یہاں حسن و عشق سے متعلق اشعار نہیں ملتے،ملتے
ہیں مگر ان میں بھی حسن و عشق کا احساس عام اور عالم گیر زندگی کے احساس میں سمویا
ہوا ہوتا ہے۔‘‘4
تخیل کی بلندی، لہجے کی ندرت اور زبان پر قدرت، یہ تینوں
صفات کسی ایک شاعر میں موجود ہوں،اردو شاعری میں اس کی مثالیں بہت کم دیکھنے کو ملتی
ہیں۔ اس قبیل میں غالب، داغ ، امیر اور بلاشبہ یگانہ چنگیزی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ذوق
دہلوی کے بعد اردو شاعری میں محاورے کے صرف ِ بامحل کا سہرا یگانہ ہی کے سر جاتا ہے۔
آپ یگانہ کی شاعری میں محاورات کا اصراف ملاحظہ فرمائیں، یوں لگتا ہے جیسے محاورہ
ہی شعر کے لیے بنا ہو۔ محاورہ دراصل ایک بے جان شے کا نام ہے، ایک سچا فنکار اپنی برجستگی
اور صرف ِ بامحل سے محاورے میں جان بھر دیتا ہے۔ یہی وصف یگانہ کی شاعری کو منتہائے
خصوص تک پہنچا دیتا ہے۔ چنداں محاورے تو کچھ یوں نظم ہوگئے ہیں کہ اس کے بعد ممکن نہیں۔یگانہ
کی حیات میں ان کے مخالفین بھی اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ انھیں زبان پر بڑی قدرت
حاصل تھی۔ فارسی، اردو اور انگریزی ادب کے کثیر مطالعے نے جہاں زبان کو پختگی بخشی
وہیں بیان بھی پر اثر ہوگیا۔ ٹھیٹ اردو کے الفاظ بھی یگانہ ہی کے طفیل داخل ِ غزل ہوئے
اور وہ بھی اس شان سے کہ باید و شاید۔عوام تو خیر جانے دیجیے،خواص اور اساتذئہ فن بھی
اپنے روزمرہ میں جن الفاظ کا استعمال کرتے تھے انھیں غزل میں شریک کرنا گناہ ِ کبیرہ
گردانتے تھے۔یگانہ نے روزمرہ کے الفاظ کو غزل میں یوں برتاکہ ایسے خشک اور سماعت پر
بار محسوس ہونے والے الفاظ بھی مزہ دینے لگے۔
ایمان کی بات یہ ہے کہ عامیانہ الفاظ بروئے کار لانے پر بھی یگانہ کے ٹھیٹ اردو
کے الفاظ ’بازاری‘ نہیں معلوم پڑتے۔عمر بھر کی مشاقی اور قادر الکلامی نے ایسے لفظوں
کی ’ثقلیت‘ کو زائل کردیا۔اور غزل کی لفظیات میں ایک زبردست اضافے کا موجب ہوا۔
باقر مہدی نے فیصلہ کن انداز میں فرمایا ہے، او رکیا خوب
فرمایا ہے:
’’یگانہ کا آرٹ مینا کاری کا آرٹ نہیں ہے۔ان کے یہاں نازک
جذبات بھی زور ِ بیان کے تیکھے پن کے ساتھ آتے ہیں اور ان کا یہی کارنامہ ہے کہ انھوں
نے آتش اور غالب کی زمین میں بلند پایہ غزلیں کہی ہیں جو نہ تو ان شعرا کی آواز
ِ بازگشت ہیں اور نہ صدا بہ صحرا بلکہ ان میں آواز کی تیزی اور سوز و گداز کی آنچ
کے ساتھ زندگی کا ولولہ بھی پایا جاتا ہے جسے ہم یگانہ آرٹ کہہ سکتے ہیں۔ یگانہ آرٹ
سنگ تراشی کا آرٹ ہے۔ان جاندار پتھروں میں ذہن کے مختلف موڈل کی بے شمار کیفیتیں اور
فکر کی تصویریں دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ابھر آئی ہیں اور یہ بھی معجز نما شخصیت کا
پرتو ہے۔ یگانہ نے اردو شاعری کو جو ولولہ بخشا ہے وہ سرکشوں کی پوری داستان کا عنوان
بن سکتا ہے۔ اگر اقبال کی شاعری بقول سرور صاحب’ارضیت کا عہد نامۂ جدید ‘ ہے تو یگانہ کی شاعری اردو میں ایک باغی
کا پہلا کامیاب شعری رجز ہے، جس کی بنیاد’مانگے کے اجالے‘ پر نہیں رکھی گئی تھی بلکہ
جس کا سرچشمہ خود یگانہ کی شخصیت تھی۔اردو غزل میں میر اور غالب کے بعد تیسرا نام جو
سب سے زیادہ احترام اور اہمیت کا مالک ہے،وہ یگانہ کا ہے۔‘‘5
اردو غزل کی تاریخ میں غالب، آتش اور اقبال کے بعد انفرادی
لفظیاتی تشکیل صرف یگانہ کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ زبان اور اس کا رچائو،اور ان دونوں
خصوصیات کو اپنے قطعی نئے موضوعات میں خوش سلیقگی کے ساتھ جس طرح یگانہ نے برتا ہے
وہ اپنی مثال آپ ہے۔ حالانکہ محض ’زبان‘ کے نام پر اپنی دوکانداری چلانے والے شعرا
کے یہاں ’لچھے دار زبان‘ تو ضرور مل جاتی ہے تاہم اس چکر میں شعری پہلو خشک ہوجاتا
ہے۔اور شعر دیر پا اثر چھوڑنے سے قاصر رہتا ہے۔غالب، آتش اور یگانہ متذکرہ دونوں ہی
صفات پر ید ِ طولیٰ رکھتے ہیں اور اسی لیے ان کی شاعری کا جادو اتنے برس بعد بھی سر
چڑھ کر بول رہا ہے۔
مصرعوں کی ساخت پر یگانہ بے حد توجہ دیتے ہیں۔ ان کے یہاں
کوئی مصرعہ لکنت کا شکارمحسوس نہیں ہوتا۔ سجے سجائے اور ڈھلے ڈھلائے مصرعوں کو پڑھ
کر طبیعت جھوم اٹھتی ہے۔ سلاست اور روانی کا وہ عالم ہے کہ گمان پڑتا ہے کہ جیسے پوری
غزل غیب سے اتاری گئی ہو۔کہیں کسی شعر میں جھول، بے جا اضافتیں، نامانوس تراکیب، دور
از قیاس استعارات وغیرہ کو دخل نہیں ہے۔ ان کے ہر شعر سے استادانہ شان جھلکتی ہے۔رموز
ِ شاعری سے مکمل آشنائی نے یگانہ کی شاعری کو ’سند‘ کادرجہ دے دیا ہے۔ فن کی باریکیوں
پر قدرت رکھنے کے باوجودان کی شاعری بوجھل
نہیں لگتی۔وگرنہ اس قماش کے بیش تر شعرا کے اشعار بطور ’سند‘ تو پیش کیے جاسکتے ہیں
لیکن ’پسند ‘نہیں کیے جاسکتے۔
اردو غزل کے خد و خال اور اس کے تخلیق کاروں کو شک کی نگاہ
سے دیکھنے والے سخت ترین نقاد محترم پروفیسر کلیم الدین احمد نے بھی یگانہ کی شاعری
اور اس کے ابعاد کی عظمت ِ دوچند کو تسلیم کیا ہے،فرماتے ہیں:
’’یگانہ چنگیزی نے چند مخصوص وجہوں کے سبب صحتِ زبان،لطفِ
محاورہ کی طرف زیادہ توجہ کی ہے اور اس میں نمایاں کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ان کی شاعری
کی دوسری خصوصیت زور،شگفتگی اور انبساط ہے۔قنوطیت کا نام و نشان نہیں۔ان کا لہجہ بلند
اور آواز خوش آئند ہے۔‘‘6
اردو شاعری کی تثلیث رندی، عاشقی اور تصوف سے قطعی مختلف
طرز ِ فکر رکھنے والے یگانہ نے اپنے بعد کی نسلوں کے لیے ایک نئی راہ فراہم کر رکھی
ہے۔اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ اعزاز اردو شاعری میں دو ہی شاعروں کے حصے میں آیا ہے۔
اول غالب دوم یگانہ۔غالب نے اپنے پیش روئو ں کے موضوعِ اظہار اور طرز ِ اظہار سے انحراف
کیا۔ ٹھیک اسی طرح یگانہ نے غالب کے موضوعات اور طریقہ ہائے اظہار سے انکار کیا اور
نئی طرز ایجاد کی۔ مطلب یہ کہ غالب نقشِ اول ہیں اور یگانہ نقشِ ثانی۔ غرض کہ یگانہ
کی شاعری ’رجحان ساز‘ ثابت ہوئی اور اسی آواز کی گونج شاد عارفی و نئی نسل کے دیگر
احتجاجی شعرا کے یہاں سنائی دی۔
یگانہ اظہار کو معنی پر مقدم جانتے ہیں۔ ان کی شاعری پڑھنے
سے اندازہ ہوتا ہے کہ اظہار کی سطح پر ان کے یہاں مشاقی اور تازہ کاری دکھائی پڑتی
ہے۔ میرا ایمان ہے کہ کسی بھی شاعر کے ہر شعر میںکچھ نہ کچھ معنی تو نکل ہی آتے ہیں،
سوال یہ ہے کہ معنی کے علاوہ اظہار کی سطح پر بھی کچھ نیا پن ہے یا نہیں؟ ایک معمولی
سے خیال کو مناسب و موزوں اظہارکے پیرائے میں پیش کیا جائے تو شعر دو آتشہ ہوجاتا
ہے۔ وگرنہ بلند خیال بھی پست اظہار کی بنا پر رفعت حاصل نہیں کرسکتا۔بلند آہنگی اور
بیان کا زور اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یگانہ اظہار کے معاملے میں سنجیدگی سے
کام لیتے ہیں۔
ندا فاضلی فرماتے ہیں:
’’یا س سے یگانہ اور یگانہ سے چنگیزی بننے کا ادبی سفر خود
یگانہ کی ادبی زندگی کاہی نہیں اردو ادب کی تاریخ کا بھی اہم واقعہ ہے۔ اس واقعے کی
تشکیل میں کئی اہم چہرے شامل ہیں۔ یگانہ کی زندگی کے یہ مختلف ادوار جو ان کی غزلوں،
رباعیوں اور مضامین میں نمایاں طور پر جھانکتے نظر آتے ہیں اب غالب کے بعد غالب جیسی
تخلیقی توانائی کی دوسری مثال ہے۔ یگانہ کا عہد غزل کا سنہری دور تھا، حسرت، فانی،
جگر، اصغر اس دور میں صنف ِ غزل کے روشن ستارے تھے۔ یگانہ کا امتیازی وصف یہی ہے کہ
انھوں نے بھی غالب کی طرح اپنے دیکھے ہوئے اور اپنے جیے ہوئے پر اپنی شاعری کی بنیاد
رکھی۔ یگانہ نے اپنے شعر کہے جو موضوع،برتائو اور اظہار کے لحاظ سے اپنے ہم عصروں کے
اجتماع میں الگ سے نظر آتے ہیں۔ ان کی غزلوں کا مرکزی کردار زمین کی سختی اور آسمان
کی دوری کو تصوف اور حسن و عشق کے کھلونے سے بہلاتا نہیں، ان سے آنکھ ملاتا ہے اور
ٹکراتا ہے۔یگانہ کی شعری شناخت ان کے عہد میں ممکن نہیں تھی۔اس کو نئے دور کا انتظار
تھا جو اب پورا ہوچکا ہے۔‘‘7
اردو شاعری میں رباعی یگانہ کی حاضری تک محض ادق مضامین،فلسفیانہ
معاملات اور تشکیک و عقیدے کے اظہار کا ذریعہ تھی۔ یگانہ نے پامردی کے ساتھ اس بیش
قیمتی صنفِ سخن کا دائرئہ موضوعات وسیع کیا۔انسانی پراگندگی، زمینی مسائل، شکست و ریخت،
سماجی افترا پردازیاں وغیرہ سے متعلقہ مضامین کو یگانہ نے اپنی رباعی میں شایانِ شان
مقام عطا کیا۔موضوعات کا تنوع، مردانہ کس بل اور فکر کی انفرادیت نے یگانہ کی رباعیوں
کو ایک خاص مرتبہ بخشا ہے۔
یگانہ کے رباعیوں کے مجموعے ’ترانہ‘ پر تبصرہ فرماتے ہوئے
علامہ سید سلیمان ندوی نے خوب رائے دی
’’میرزا یاس عظیم
آبادی اردو کے مشہور شعرا میں ہیں۔ یہ بات بلا خوف ِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ میرزا
یاس یگانہ اپنے وقت کے ایک کامل شاعر ہیں ،ان کے خیالات بلند،زبان صاف ستھری،ترکیبیں
چست اور کلام حشو و زوائد سے پاک ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ لکھنو ٔ کے طرز ِ شاعری میں
ان کے ہنگاموں کے باعث مفید انقلاب پیدا ہوا ہے۔غزلیات کے ساتھ ان کی ہر رباعی زبان
کی صفائی اور روزمرہ اور محاورات کی برجستگی اور ترکیبوں کی چستی کے لحاظ سے قابلِ
داد ہے۔ایسا نہ سمجھا جائے کہ ان کی رباعیوں کے مضامین صرف ’فلسفۂ خودی‘کی تشریح پر
مشتمل ہیں، بلکہ ’انفس‘ کے بعد ’آفاق‘ کا فلسفہ بھی ان میں جا بہ جا بیان کیا گیا
ہے،کہتے ہیں اور کیا خوب کہتے ہیں۔‘‘8
غرض کہ یگانہ چنگیزی کی شاعری آنے والے وقت کے لیے نوید
ِ بہار کا کام کرتی رہی جو بہ زمانۂ خزاں دی جاتی ہو۔ پھر چاہے وہ غزل کے نصاب میں
نئے موضوعات کی شمولیت ہو، یا ٹھیٹ اردو کے الفاظ کی شرکت، یا فرد کو مکمل اکائی کی
طرح سمجھنے،اس کے مسائل کا حل تلاش کرنے اور اس پر دست ِ ہمدردی پھیرنے کے ذیل میں
ہو۔یگانہ کی خدمات سے اردو ادب انکار نہیں کرسکتا۔
حواشی
- میرزا یگانہ چنگیزی ،مطبوعہ آجکل،یکم اپریل 1945، ص8
- بزمِ نگار نمبر،ماہنامہ’ نگار‘ لکھنؤ،جنوری فروری 1941، ص 222
- یاس کی خود پرستی،مطبوعہ ’نیا دور‘لکھنؤ ،جولائی 1961، ص 32
- غزل اور عصر ِ جدید، مطبوعہ ’نگار‘ لکھنؤ،جنوری 1942، ص 50
- یگانہ آرٹ،مطبوعہ ’آجکل‘دہلی، مئی 1956، ص 15
- بزم ِ نگار،مطبوعہ ’نگار‘ لکھنؤ،جنوری 1942، ص 18
- مکتوب ِ ندافاضلی بنام خاکسار محررہ 27 فروری 2014
- تبصرہ بر ’ترانہ‘مطبوعہ ’معارف ‘اعظم گڑھ ،شمارہ نمبر4 جلد 33، اپریل 1934، ص نمبر314
Waseem
Farhat (Alig)
Editor
: Sah Mahi 'Urdu'
'Adabistan' Near Wahed Khan
Urdu,
D, Ed, College, Walgaon Road
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں