3/4/23

جونپور کی تین معاصرمحترم شخصیتیں: عبدالحق

 

مولانا کرامت علی جونپوری (1796-1871) دعوتِ دین کے بے مثل مبلغ اور مجاہد ہیں۔ دیار ِ مشرق میں احیائے دین کے وہ مردِ میداں ہیں اور میر لشکر بھی۔ احیائے دین کے ساتھ ان کے ہدف میں انگریزی اقتدار کے خلاف جدوجہد بھی تھی۔ اس خانوادے کی خدمات کا اعتراف ابھی باقی ہے۔ رجب علی ان کے چھوٹے بھائی تھے۔رجب علی کے بیٹے کا نام ابوالحسن ہے۔ جو ظفر احمد صدیقی کے والد ماجد ہیں۔مولانا ظفر احمد صدیقی 18 جنوری 1928 کو پیدا ہوئے۔ اور 7 جولائی 2021 کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ ان کی تدفین میں شریک نم ناک نگاہوں کا ایسا ہجوم جونپور میں کبھی نہیں دیکھا گیا لگتا تھا کہ پورا شہر سکوتِ غم کی سایہ نشینی میں پردہ پوش ہے۔ یہ ان کی بے پناہ مقبولیت کا مظہر تھا۔ ان کی علمی وروحانی شخصیت پراہالیانِ شہر کو ناز تھا۔ خود مولانا کو جونپور اور باشندوں پر بڑا اعتماد تھا۔جامع مسجد کی نئی تعمیر کے لیے شہر کے لوگوں نے اس اعتماد کو بحال کرکے تعاون کی بے مثال نظیر پیش کی۔ مولانا کی آواز پر شہر کے سبھی پیروجوان نے لبیک کہا اور صدیوں سے مسمار قدیم تعمیر کو بحال کیا۔ جو کسی عجوبہ سے کم نہیں۔ مسلکی اختلاف کے باوجود عالم اور عامی سبھی ان کا احترام کرتے تھے۔وہ عصر حاضر میں جون پور کی سب سے محترم اور برگزیدہ شخصیت کے پیکر تھے۔وہ علم وعمل کی مثال تھے وہ عرفان ِ نظر اور گدازِ قلب کے مرکز محسوس تھے۔ خلقِ خدا کی نظر میں ان کی خدادوستی کی دوسری نظیر نہ تھی۔ صبح وشام ان کے گرد دعائے خیر کی دستیابی کے لیے عوام منتظررہتے۔

9 اکتوبر 1982کو انھیں پہلی بار دیکھا ایک عالم روشن نظر آیا۔ قدوقامت کی وجاہت، علم وعمل کی درازی سے ہم آہنگ تھی۔ سفید کپڑے زیب تن کیے تھے چہرے کی نورفشانی قلب ونگاہ کی بشاشت سے ہم دوش تھی۔ میری پہلی بیٹی صائمہ کا میرے سسرال بلواگھاٹ جون پور میں عقیقہ تھا۔میرے خسر فضل الرحمن مرحوم کی خصوصی درخواست پر وہ تشریف لائے تھے بیٹی کا نام صائمہ انھیں کا تجویز کردہ ہے۔ راقم مولانا محترم کے گھر اکثر حاضر ہوتا وہ  مجھ پر بڑی شفقت فرماتے۔وہ جونپور کے ماضی کی بازیافت اور بزرگوں کی بے کراں خدمات کا بھی تذکرہ کرتے۔ جون 1983 میں حافظ سراج الدین مرحوم کے ہمراہ ان کے پاس حاضر ہوا۔راقم نے جونپور پر لکھے گئے ڈاکٹر محمد سعید کے تحقیقی مقالے کا ذکر کیا۔ انھوں نے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ چند ماہ کے بعد دہلی سے جونپور جانا ہوا۔ وہ کتاب ساتھ لے گیا اور مولانا کو حاضر کیا وہ بہت خوش ہوئے اوروہ کتاب کئی ماہ تک مولانا کے پاس رہی۔ ان کی خواہش تھی کہ اس کا اردو میں ترجمہ ہوجائے۔ جو ابھی تک ممکن نہ ہوسکا۔ مرحوم نے اپنی ہر تصنیف وتالیف سے نوازا۔ آخری کتاب مفتاح الجنت ہے۔ یہ مولانا کرامت علی کی تصنیف ہے۔ جسے مولانا ظفر احمد صدیقی نے علمی اندازسے مرتب کیا ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ اردو کی یہ پہلی فقہی کتاب ہے جوروز وشب کے معمولات اور عبادات کے مسائل پر مشتمل ہے۔ اردو میں فقہ نویسی کے ادب میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔یہ کتاب 1827 میں پہلی بار شائع ہوئی۔ اس وقت تک اردو کا نثری ادب بہت حد تک مذہبی مبادیات ومسائل تک محدود ہے۔یہ بات فورٹ ولیم کالج کے تراجم سے صرفِ نظر کرکے عرض کررہا ہوں۔تقویت الایمان کو جو مقبولیت ملی وہ انیسویں صدی کی کسی کتاب کو نہ حاصل ہوسکی۔ مذکورہ کتاب کو بھی دیار مشرق میں بہت پسند کیا گیا۔ بنگال وبرما تک اسے مقبولیت حاصل ہوئی۔مولانا ظفر احمد صدیقی مرحوم نے اپنے گراں قدر حواشی سے اسے اور بھی مفید ومحترم بنادیا ہے۔ مولانا کرامت علی کا ایک اور کام قابل ذکر ہے۔

وہ ایک مثالی عالم باعمل کے خوب رو پیکر تھے۔ روزوشب کے دینی معمولات کے علاوہ مجاہدانہ فکرو عمل کا امتزاج بھی ان کی سرشت میں شامل تھا۔ سکندر لودھی نے شاہانِ شرقی کو شکست دی اور شہر کو بھی تاراج کیا۔ فوجیوں نے جامع مسجد کو بھی کسی حد تک مسمار کیا۔ مسجد کا مشرقی دروازہ زمیں بوس کردیا گیا تھا۔ جو کئی صدیوں تک داستان خوں ریز کے منظر کو دہراتا رہا۔مولانا ظفر احمد صدیقی کے عزم وارادے کو آفریں ہوکہ انھوں نے اس دروازے کی تعمیرِ نو کا ارادہ کیا اور اسے مکمل کرکے عہد حاضر میں فن تعمیر کے معجزات کی انوکھی مثال قائم کی۔

سید غلام سمنانی مرحوم (وفات 22اپریل 1999) سے دہلی میں ملاقات ہوئی وہ مجھے بہت عزیز لگے۔ پہلی ملاقات میں ان کی پُروقار علمی شخصیت نے متاثر کیا۔ وہ انگریزی کے استاد تھے۔ مگر اردو،فارسی،اسلامیات اور شعر کے تخلیقی نکات پر گہری نظررکھتے تھے۔ ناچیز کو جونپور کی دو بڑی شخصیتوں کی علمی عظمت اور وجاہت نے علاقائی عصبیت کے فخر بے جا کی نفسیات سے قریب تر کیا۔ اب سوچتا ہوں تو میرا احساسِ تفاخر غلط بھی نہ تھا۔ خاکسار نے سید غلام سمنانی جیسے وسیع اور جامع مطالعہ سے مربوط شخصیت کم دیکھے۔ وہ برادرانہ شفقت فرماتے۔ ناچیز ان سے اصرار بھی کرتا کہ وہ تصنیف وتالیف کی طرف متوجہ ہوں۔مگر پان کی گلوریاں اور شعرا کی ہم نشینی ان کے لیے حصار بن گئی تھیں وہ ہمہ وقت اس ہجوم ناز میں میر مجلس نظر آتے۔ گھنٹوں ہوسٹل کے تنگ کمرے میں اہل سخن باادب بیٹھے رہتے۔ ان سے فرصت ملتی تو حبس دم کے دوامی آزار کو انگیز کرنے کے لیے مجبور ہوتے۔ ان حالات سے نبردآزما ہونے کے باوجود کچھ کام کرسکے۔ نیشنل بک ٹرسٹ کی فرمائش پر امیر خسرو پر انگریزی میں ایک مونوگراف تیار کیا۔ عہد شاہ جہاں کی ایک تاریخ کا ترجمہ کیا۔ باشم کی مشہور تاریخی کتاب ’ہندوستان کا شاندار ماضی‘کا ترجمہ شائع کیا۔یہ ان کی علمی اور ذولسانی بصیرت کا بہترین شاہ کار ہے اس ترجمے نے علمی وقار میں اضافہ کیا۔ ترجمے کو تخلیق کا حریف بنادیا۔ علامہ اقبال سے ان کی عقیدت مندی اور پرستاری لائق ستائش تھی۔ اقبال کی مجلس ِ شوریٰ کی پیروی میں کیفی اعظمی، پروفیسر محمد حسن کے بعد انہوں نے چوتھی مجلس شوریٰ تخلیق کی جو فکرِ اقبال سے ہم آہنگ ہے اور شعری حسن آفرینی سے دہلی کی کئی محفلوں میں شعر سناتے ہوئے دیکھا اور اکثر روبرو بھی سنا۔ شاعری فارسی ترکیبوں سے گراں قدر تھی،مگر بوجھل نہیں محسوس ہوئی۔کیونکہ کئی ماہ تک سردیوں میں انھوں نے راقم کے غریب خانے پر قیام کیا۔ کالج سے دور قیام تھا اور بچے جون پور جاچکے تھے مجھے دہلی یونیورسٹی کے احاطے میں یونیورسٹی کا مکان ملا ہوا تھا۔ میری گذارش پر وہ میرے پاس آگئے۔ میرا بھانجہ ہر وقت ان کی خدمت کرتا۔چند ماہ ان کے ساتھ بہت اچھے گزرے۔ سردیوں میں بھی وہ آدھی رات تک نیند کو ٹالتے رہتے۔ ان کی صبح بھی دیر سے نمودار ہوتی۔ اٹھنے کے بعد نماز ادا کرتے۔ فیضان (میرا بھانجہ) مصلے پر ہی انھیں چائے پیش کرتا۔ ان سے دعائیں لیتا۔ چونکہ وہ ذاکر حسین کے شبینہ کالج میں تھے اس لیے بہت اطمینان سے سہ پہر میں کالج کے لیے کشاں کشاں روانہ ہوتے۔تدریسی اوقات کے بعد اکثر محفل شعر بھی منعقد ہوجاتی۔ دن بھر کی تکان سے آسودگی مل جاتی۔ تقریباً یہ معمول بن گیا تھا۔

تیرے فسانے عجیب تیرے زمانے عجیب

130 اشعار پر مشتمل ہے ابلیس کی تیری مجلسِ شوریٰ یہ نظم سمنانی مرحوم کے قدرت کلام کی یاد گار ہے۔ ابلیس کی آخری گفتگو کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

میں کہ ہوں آتش نفس، آتش نژاد، آتش ضمیر

میری قسمت میں نہیں فیضِ نجات ِ اخروی

ہے مرا پرداختہ اس دور کا سارا نظام

ہے مری پروردۂ آغوشِ تہذیب نوی

اشتراکیت ہوئی میرے نفس سے بار ور

میرے ہی زلّہ ربا ہیں مزد کی ومانوی

سمنانی محروم نے نظم میں ایک دوسرا نکتہ پیدا کیا ہے کہ ابلیس کی زبان سے شاعر ِ مشرق کے حضور خراج پیش کرنے کا منتظر بھی منظوم کیا ہے          ؎

وہ حکیمِ ارضِ مشرق نغمہ سازِ بے بدل

سرگروہِ عاشقاں، سرخیل ارباب ہمم

صاحبِ ضربِ کلیم وجانِ اسرارورموز

دیکھتا ہے دل کے آئینہ میں تقدیرِ امم

لفظیات اور آہنگ کے ساتھ اقبال کے تعارف کا اسلوب بھی انوکھا ہے۔مرحوم کی پوری شاعری پر اقبال کی فکر اور اسالیب کا گہرا نقش نمایاں ہے۔شخصیت کے ساتھ حلقۂ یاراں میں ایسے مرد ہنر مند کا کلام مرتب نہ ہوسکا۔ان کی شعری تخلیق کی یہ شناخت بھی تھی۔ افسوس ہے کہ ایسے مردِ ہنر کا کلام مرتب نہ ہوسکا۔ ان کی غزلیں بھی ان کے منفرد اسلوب ِفکر کی غماز ہیں وہ کلاسیکی روایات کی حامل ہیں۔ اور جدید فکر ومسائل کی ترجمانی سے معمور بھی ہیں۔

مسجد قرطبہ کے واگذاشت ہونے کی خبر پر سمنانی صاحب نے اسی وزن اور ہیئت میں 64 اشعار کی بڑی خوب صورت نظم لکھی۔جورسالہ ’معارف ‘ میں بڑے اہتمام سے شائع ہوئی۔ یہ ایک مرصع اور مربوط آہنگ سے منفرد اسلوب کی حامل ہے اور اقبال کی تخلیق سے قریب تر ہے۔ اس نظم سے مشابہ ابھی تک کوئی دوسری نظم نظر سے نہیں گزری اقبال کے ’پیام ِ مشرق‘ کے ’لالۂ طور‘ کی رباعیوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ مسودہ مجھے دکھایا تھا اور کچھ حصہ سنایا بھی تھا۔ افسوس ہے کہ انتقال کے بعد ان رباعیوں کا کیا انجام ہوا۔ معلوم نہ ہوسکا، مرحوم کی بہت سی تحریریں اسی طرح تلف ہوئیں۔ مرحوم مزاجاً قلندری اور بے نیازی کے پیکر تھے وہ اپنا نہ بن سکے اور نہ اپنا کچھ کرسکے ہاں تن آسانوں کے کام آئے۔ وہ مردِ میداں اور میر لشکر کی آرزو بھی نہیں رکھتے تھے۔ہاں سجادہ نشینی کی مجلسی روایت پر ہمیشہ کار بند رہے مگر شاعری میں عزم جواں اور پیکار ِ زندگی کی ترجمانی ان کا شیوۂ گفتار تھا۔ سکون پسند زندگی تھی۔ علم کا جلال پُر شکوہ تھا۔ مگر نرم دمِ گفتار تھے۔تبحرعلمی کے ساتھ وہ مسلکی معامالات میں محدود نظر رکھتے تھے۔ چونکہ وہ خانوادہ ٔ خانقاہی کے پروردہ تھے۔ان کے عزیز واقارب کو بھی کچھوچھہ کی سجادگی وشہ نشینی راس آتی تھی۔

لطائف ِ اشرفیہ مخطوطہ کی تدوین وترجمہ کا بار بار ذکر کرتے۔ نعتیہ ادب سے فکری مناسبت تھی۔ اس موضوع پر ان کی گفتگو وسعتِ مطالعہ کی مظہر ہوتی۔ مولانا سہیل اعظمی کا بے نظیر نعتیہ قصیدہ         ؎

کرے تارِ شعاعی لاکھ اپنی سعیِ امکانی

رفوہوتا نہیں اب صبح کا چاکِ گریبانی

پورا قصیدہ تقریباً ازبر تھا وہ لطف وانبساط کے ساتھ اکثر پڑھتے۔ اقبال کا کلام ان کے ریشہ ہائے دل میں رواں رہتا۔ خود ان کی شاعری میں اقبال کی لفظیات اور ترکیبیں ان کی شناخت بن گئی تھیں معاصر شعرا کی محفلوں میں ان کا بڑا وقار تھا۔ ان جیسا کوئی صاحب ِ مطالعہ بھی نہ تھا۔ مگر خاکساری اور عاجزی ان کی نسبی فطرت کا جوہر خاص تھا۔ انھوں نے کئی کتابوں پر مقدمے لکھے اور قطعات تاریخ بھی رقم کیں جون پور کے ایک کہنہ مشق شاعر محسن رضا کے شعری مجموعہ’زخمہ‘ کا مقدمہ قابلِ ذکر ہے ان کے انتقال پر تاریخ بھی قلم بند کی۔ دہلی یونیورسٹی کے قریب اسپتال میں انتقال کی خبر ملی۔ سایۂ شفقت سے محرومی اور چراغ ِعلم کا سرشام بجھ جانا، راقم کے قیامِ دہلی کا پہلا حادثہ تھا۔ دہلی میں کسی دوست کے گزرجانے کا یہ پہلا صدمہ تھا۔ بعد میں پروفیسر خواجہ احمد فاروقی اور پروفیسر محمد حسن جیسے محسن ومربی کے انتقال سے شہرِ علم پر تاریکی ویرانی کا احساس ہوا        ؎

پاس اگر تو نہیں شہر ہے ویراں تمام

ان حضرات کی رفاقتیں اور بے شمار یادیں اب بھی گوشۂ دل میں اضطراب پیدا کرتی ہیں۔ دیر تک سکوتِ مرگ کی خاموشی طاری رہتی ہے        ؎

رفتید ولے نہ از دلِ ما

جون میں ایک تیسری شخصیت ڈاکٹر عبدالسلام (وفات 24اکتوبر 2019)کی تھی جن کا مطب سبزی منڈی میں ہے۔ وہ ندوی عالم تھے۔ علی گڑھ سے بی یوایم ایس کیا تھا۔ دستِ شفا رکھنے والا کرشمہ ساز طبیب سے میری رفاقت تھی۔ وہ ہم مشرب وہم راز تھے۔ جلوت وخلوت میں ان کی ہم نشینی سرمایۂ زندگی تھی۔ بقول اقبال ان کے نفس کی موج سے نشوونما ئے زندگی تھی وہ بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ رفاقتیں اب سراب بن گئیں۔ وہ بے انتہا مخلص تھے اور مخیر تھے۔ کئی مسجدوں کے انتظام وانصرام میں مصروف رہتے مریضوں کے ساتھ مسیحائی کا حسن ِ سلوک اور ان کی دل داری شیوۂ زندگی کا دستور بن گیا تھا۔ چمکتا چہرہ اور خوش مزاجی وخوش گفتاری کا خاصہ تھا۔ کبھی کبھی ذاتی زندگی کی نارسائیوں کی پرچھائیں پل بھر کے لیے متاثر کرتیں مگر وہ اندوہِ دل نہ بن سکیں وہ خوش کلامی کے ساتھ خوش خوراک تھے احباب کو دستر خوان پر جمع کرنے کی جبلی خواہش سے ہمیشہ سرشار رہتے۔آئے دن دوستوں کے لیے دستر خوان مخصوص اور موسمی کھانوں سے آراستہ ہوتا۔ انھیں کھانے سے کہیں زیادہ کھلانے کا شوق ہوتا۔ اچھی بات یہ تھی کہ ان کی رفیقۂ حیات شہناز بیگم کو بھی اتنی ہی مسرت ہوتی وہ خود نگرانِ کار اور میزبان ہوتیں۔ان دونوں کی رفاقتیں بھی قابلِ رشک تھیں۔سلام صاحب نام لے کر پکارتے مگر وہ بڑی محبت سے ڈاکٹر صاحب ہی کہتیں۔ سلام صاحب مریضوں اور مطب کی مصروفیات سے فارغ ہوتے ہوئے رات کے گیارہ بج جاتے۔ محترمہ بھی ان کے کھانے کے اہتمام میں مصروف رہتیں۔ حیرت ہوتی تھی کہ صبح سے رات تک وہ مریض دیکھتے تھکتے نہ تھے۔ ناچیز نے ان سے بارہا درخواست کی یہ مصروفیت صحت کو راس نہیں آتی۔ مگر انھیں ایک جنون تھا۔ ہر لمحے کو خدمتِ خلق کے لیے وقف کرچکے تھے۔آخر کار صحت شکر کی مہلک بیماری کی نذر ہوگئی۔ مگر ان کے عزم واستقلال پر حرف نہ آیا۔

میری ان سے ملاقات 1977 میں ہوئی۔ والدہ کے علاج کے سلسلے میں میرے محترم دوست حافظ سراج الدین کاشف مچھلی شہری نے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ انھیں کے ساتھ سلام صاحب کے مطب میں حاضر ہوا۔ ایک جواں سال اور خوب رو مسیحا سے ملاقات ہوئی۔ گورے رنگ نے چہرے کو نور وسرور کی بشاشت بخشی تھی۔ آنکھوں کی چمک میں صبحِ نو کے ظہور کا عالم محسوس ہوا۔ گفتگو میں دلبری اور دردمندی نے بہت متاثر کیا۔ ان سب سے بڑھ کر ان کی سرگرمی اور تفاعل وتحرک کا انداز قابلِ رشک تھا۔ لباس کی سادگی حکیم حاذق کے گداز بدن پر زیب دیتی۔ ان کی شخصیت میں وقار تھا مگر یہ وقار محبت وشفقت کا مرکب یا مجموعہ بھی تھا۔ بعض معاملات میں انھیں نرم لہجے میں بگڑتے مگر آخر میں مسکراتے بھی دیکھا وہ گرم گفتاری کے بعد پشیماں ہوتے۔

جان سے ہم تو جاتے ہیں تم بھی جاؤ جانے دو

پر بات ختم ہوتی۔ مریضوں سے الجھتے نہ دیکھا۔ ہاں سرپرستوں اور تیمارداروں کو تنبیہ ضرور کرتے۔ مرض کے علاوہ مریض کی نفسیات اور طرزِ زندگی کے احوال پر نظر رکھتے۔ ان کی بے مثال مسیحائی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ جب انگریزی دواکار گر نہ ہوتی تو وہ طب یونانی کی ادویہ تجویز کرتے۔ انھیں مفردات کا خوب علم تھا۔ راقم کو اکثر بتاتے کہ شہر کے سب سے مشہور حکیم منظور احمد کے مطب میں مدتوں کام کرنے کی وجہ سے جڑی بوٹیوں کے علم سے وہ زربکف ہوئے۔ڈاکٹر صاحب بہت سی یونانی دوائیں خود تیار کراتے دوستوں کے لیے بھی کارکشائی اور کارسازی کا سامان فراہم کرتے۔ خاص طور پر موسم سرما میں مقویات کی تیاری کا بڑا اہتمام کرتے۔ ایک میرشکار سے ان کا خاص تعلق تھا۔سردیوں میں سیکڑوں کنجشک خریدتے اور خاص معجون تیار کراتے۔ کنجشک کے گوشت سے پلاؤ پکواتے اور دسترخوان پر لطفِ دوستاں کا مزہ لیتے۔ وہ بے حد خوش باش اور خوش خو انسان تھے۔ مسکراتا ہوا چہرہ ہر مرض اور ہر غم کو غلط کرنے کے لیے کافی ہوتا۔ وہ ملولِ خاطری کو پسند نہ کرتے اور نہ کبھی مایوسیوں سے شکست کھائی نجی زندگی کی بعض ناہمواریوں کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتے۔یہ مکروہات شخصی نہ تھے۔ بلکہ مسلم معاشرے کے پروردہ تھے۔ جنھیں چار وناچار انگیز کرنا پڑتا ہے۔ جونپور کا مسلم معاشرہ کبھی علم وعمل کے بام گردوں سے ہم آغوش ہوا کرتا تھا مگر معاصر سماجی صورت ِحال تشویش ناک اور زوال زدہ ابتری میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس کا مداوا کسی بھی چارہ ساز کے بس میں نہ تھا۔ ڈاکٹر عبدالسلام آئے دن معاشرے کے مختلف مسائل سے گزرتے رہے۔ انھیں منصف ومسیحا سمجھ کر لوگ مسائل کے حل کے لیے رجوع کرتے رہے۔ وہ اپنی زندگی کی ناخوش گواریوں سے بھی نبردآزما تھے۔ پہلی شادی سے مطمئن نہ تھے۔ تمام تر شفقت وکفالت کے بعد بھی چھوٹے بھائی نے الگ رہنا پسند کیا۔ حددرجہ احترام واحتیاط کے باوجود والدین نے چھوٹے بھائی کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی وہ معذور بہن کے معالجے میں اپنی بے دست وپائی کو شدت کے ساتھ محسوس کرتے رہے۔ ٹانڈہ میں دوسری شادی نے انھیں مسرور ومطمئن کیا اور شہناز بیگم کی رفاقت کو ربِّ کریم کی بے پایاں نوازش کہنے لگے۔ ہاں ایک احساس اب بھی دامن گیر تھا۔ انھوں نے ایک دن سیہ رات کی تنہائی میں ایک بڑے راز کی بات کہی جو دوست کی امانت کے طور پر آج بھی سینے میں محفوظ ہے۔ یہ ہم دمِ دیر ینہ کی بخشی ہوئی خلش کی بڑی نعمت و نوازش سے کم نہیں۔ اقبال نے کہا ہے کہ بزم جہاں،حوروجناں اور بادہ وساغر سے کہیں زیادہ بہتر اک ہم دمِ فرزانہ کی صحبت ہے        ؎

از بزمِ جہاں خوشتر از حور و جناں خوشتر

اک ہمدمِ فرزانہ و زبادہ وپیمانہ

جونپورمیں ہر سال کئی راتیں ان کے گھر بسر ہوئیں گورکھپور، بنارس، اعظم گڑھ، مئو، الہ آباد،جون پور تقریباً ہر سال کسی نہ کسی ادبی یا تعلیمی کام کے لیے جانا ہوتا۔ واپسی میں جون پور انھیں کے ساتھ قیام کرتا۔ یہ شادی یعنی 1981 سے پہلے کی بات ہے۔ میری شادی میں ایک موثر محرک وہ بھی تھے۔ 1980 میں شبلی کالج میں ایم  اے کے آخری سال کے زبانی امتحان (وایوا) کے لیے حاضر ہوا۔ ناہید رحمن بھی وہاں امتحان دینے آئی تھیں۔ ان کے خاندان کے سبھی لوگ ڈاکٹر عبدالسلام سے ہی علاج کراتے تھے۔ ان کے گھر سے ڈاکٹر صاحب کا بہت ہی بے تکلفی کا معاملہ تھا۔ شبلی کالج سے گاؤں لوٹتے وقت رات ان کے گھر ٹھہرا۔ جونپور کی تمام طالبات کا ذکر آیا۔ وہ بڑی توجہ سے سنتے رہے اور طالبات کے گھر گھرانے سے اپنی شناسائی کا ذکر کرتے رہے۔ انھوں نے فضل الرحمن مرحوم سے میر اذکر کیا۔

یہ عجیب بات تھی کہ انھوں نے ایک تخلیقی ذہن پایا تھا۔یادداشت بلا کی تھی۔’کلیاتِ قانوں‘ کے صفحے کے صفحے انھیں ازبر تھے۔اکثر مجھے سنایا بھی۔ اس کی بنا پر وہ مرکبات کے اجزا کے خواص کا تجزیہ بھی کرتے اور علاج کے دوران استعمال بھی کرتے۔انگریزی دواؤں پر تکیہ تھا۔ مگر ساری دوائیں اعلیٰ پایے اور معتبر کمپنیوں پر ہی اکتفا کرتے جب بھی موقع ملتا کچھ رقم کرتے۔ مختصر جملے حکمت ونصیحت سے بھر پور عبارت محفوظ ہوجاتی یہ سب ان کے ذہنی مشاہدے پر مبنی ہوتے۔مجھے اکثر پڑھ کر سناتے بھی، کبھی کبھی جملے درست بھی کیے جاتے۔’کشکول‘ کے علاوہ کئی کتابچے شائع ہوئے۔ ناچیز نے 1989 میں شائع ہونے والی کتاب ’اقبال کے شعری اسالیب‘ ان کے نام معنون کی۔ انتساب کے مصرع پر مجھے بے حد داد ملی مگر دونوں کی دوستی کے مراسم پر رشک بھی کیا گیا           ؎

تیرے نفس کی موج سے نشوونمائے آرزو

ان کی سرخوشی اور سرشاری دیکھ کر مجھے بڑی مسرت حاصل ہوئی یہ عمر بھر کی کمائی نہ تھی بلکہ علم واکتساب کا آغاز ہوا تھا پھر بھی فارسی شعر سے لطف اندوز ہوتا رہا         ؎

حاصلِ عمر نثارِ رہ یارے کردم

شادم از زندگیِ خویش کہ کارے کردم

(زندگی بھر کی کمائی کو دوست کی راہ میں لٹادیا۔ خوش ہوں کہ اپنی زندگی میں ایک کام تو کیا)

محبوب دوست اور مشفق ومہرباں ہم نوا کی یادوں کا غبار زندگی کا زاد راہ بن کر اکثر مغموم ومضطرب کرتا ہے        ؎

بے بہا موتی ہیں تیرے چشمِ گوہر بار کے   


Prof. Abdul Haq

2315, Ground Floor, Hudson Lane

Kingsway Camp

Delhi - 110009

Mob.: 9350461394

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں