5/4/23

پنڈت رام نریس ترپاٹھی اور اردو: نیاز سلطان پوری


 پنڈت رام نریش ترپاٹھی (پ  4 مارچ 1889،   و 16 جنوری 1962) کاشمار’دویدی یگ‘کے ممتاز شعرا میں ہوتاہے۔ آپ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ آپ بیک وقت بلند پایہ شاعر، مستند ادیب، سماجی کارکن مجاہدِ آزادی تھے، حصولِ آزادی کے لیے آپ نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، برٹش حکومت نے 18 ماہ قید سخت اورسوروپے جرمانے کی سزاسنائی۔ علاوہ ازیں آپ نے اپنی پرشکوہ نظموں کے ذریعے ابنائے وطن کے دلوں میں حب الوطنی  کا جذبہ اورآزادی کی تڑپ پیدا کی۔ منشی پریم چند کی طرح آپ نے بھی اپنا ادبی سفر اردو کے ذریعے شروع کیالیکن جلد ہی ان کو احساس ہوگیاکہ ہم عصر شعرا وادبا کے آگے ان کا چراغ نہ جل سکے گا، غالباً اسی لیے آپ نے ہندی زبان کو اپنے احساسات و جذبات کے اظہار کامؤثر وسیلہ بنایااورجلد ہی دنیائے ادب ہندی میں ایک نمایاں مقام حاصل کرلیا۔ یہ وہ زمانہ تھاجب ہندوستان کی تحریکِ آزادی کے ساتھ ساتھ ہندی تحریک بھی ابنائے وطن کو اپنی جانب متوجہ کررہی تھی اورحصولِ آزادی کے ساتھ ساتھ ہندی زبان کوقومی زبان بنانے کی تحریک شباب پر تھی۔ انھوں نے کھڑی بولی میں نثر ونظم کے اعلیٰ نمونے پیش کرکے ہندی کویوں اور لیکھکوں کے لیے مشعلِ راہ کاکام کیااوربرج بھاشاکی جگہ کھڑی بولی کو ہندی ادب کے راج سنگھاسن پر بٹھانے میںکلیدی کردار  اداکیا۔

پنڈت رام نریش ترپاٹھی کاجنم4 مارچ1889 کو  موضع کوئری پورضلع جون پور موجودہ سلطان پورمیں ایک غریب برہمن خاندان میں ہوا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں حاصل کی، پہلے اردو پھر ہندی کی طرف راغب ہوئے،سن شعور تک پہنچتے پہنچتے ان کے دل میں حب الوطنی اورخدمتِ خلق کا جذبہ کوہِ آتش فشاں کالاوہ بن کر پھوٹ پڑا۔ وہ گاندھی جی سے ازحد متاثر ہوئے اوردیگر ابنائے وطن کی طرح تحریکِ آزادی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ نتیجتاً  1922میں سرکارِ انگلشیہ نے انھیں گرفتا رکرکے آگرہ میں داخل ِ زندا ںکیا۔ جہاں بقول پروفیسر محمود الٰہی ’’آگرہ جیل صرف پولیٹکل قیدیوں کے لیے خالی کردیاگیا۔ چنانچہ اس وقت تقریباً تین سو پچاس سیاسی قیدی اس جیل میں موجود ہیں۔ اس زندانی مجمع میں جہاں بہت سے وکیل، بیرسٹر، ایڈیٹر، پروفیسر اور ڈاکٹر اوردرجنوں ایم اے، اوربی اے ہیں وہیں ہندی اردو شعرا کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ یہ تمام اسیرانِ زندانِ فرنگ مختلف مشاغل میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔ چنانچہ منجملہ اور مشغلوں کے ایک ہفتہ وار مشاعرہ بھی ان لوگوں کے پروگرام میں داخل ہے اورپہلا مشاعرہ 20 جنوری 22کو بعد نماز جمعہ( جیل خانے میں باقاعدہ نماز ہوتی ہے اور ہندو پوجا کرتے ہیں) شروع ہوا۔ میرِ مشاعرہ مولاناعارف ہنسوی کو منتخب کیاگیا،مصرع طرح یہ تھا         ؎

ہے یہ وہ درد جو شرمندۂ احساں نہ ہوا1

       حسرت موہانی

اس مشاعرے میں تقریباً دوسو آدمی شریک تھے جن میں مسٹر مہادیودیسائی، پرائیویٹ سکریٹری مہاتما گاندھی، مسٹر جارج جوزف ایڈیٹر انڈی پنڈنٹ الٰہ آباد، سوامی سچیتا نند، بابو ہرنام سنگھ بی اے، پنڈت گووند مالوی فرزند پنڈت مدن موہن مالوی الٰہ آباد، مسٹر گنپت سہائے  سلطان پوربطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ اس زندانی مشاعرے میں ایسی غزلیں پڑھی گئیں جو موجودہ تحریک کے سلسلے میں قومی جوشِ عمل اورحب الوطنی کے جذبات سے مالامال تھیں،مسٹر عبدالمجید خواجہ کاشعر بہت پسند کیاگیااوربار بار پڑھوایا گیا،بابو رگھو پتی سہائے کی پوری غزل بہت پسند کی گئی اوراہلِ سخن نے خوب داددی، مسٹر مہابیر تیاگی  نے بے ساختہ دادطلب کی، سید محمد شاہدکے دو شعر پسند کیے گئے  مولاناخجندی کی پوری غزل قادرالکلامی کی مظہر تھی، حافظ عثمان کا شعرپسند کیاگیا،حفیظ الرحمٰن صاحب کی پوری غزل بہت توجہ اورشوق سے سنی گئی،پنڈت رام نریش ترپاٹھی نے ایک شعرپڑھاجو حسبِ ذیل ہے

اس نے سمجھاہی نہیں حبّ ِ وطن کیاشے ہے

جیل میںآکے جو سرکار کامہماں نہ ہوا2

پنڈت جی مہاتماگاندھی سے از حد متاثر تھے،ان کی فکر پر گاندھی جی کے اثرات مرتب ہوئے۔ وہ ہندی کے مقتدر کوی ولیکھک (ادیب) بھی تھے اس کے ساتھ ہی ساتھ انھیں ارد وزبان وادب سے بھی والہانہ عشق تھا۔ 1918 انھیں ہندی ساہتیہ سمّیلن ممبئی کے اجلاس میں پرچار منتری (سکریٹری نشر واشاعت ) منتخب کیا گیا اور جنوبی ہندوستان میں ہندی کی اشاعت کاکام سونپاگیا،اس وقت سبھا کے صدر گاندھی جی تھے، ترپاٹھی جی اردو کوایک الگ زبان نہیں مانتے تھے بلکہ ہندی اورارد وکوایک ہی زبان تسلیم کرتے تھے،چنانچہ لکھتے ہیں  

ہندی سے میراابھپرائے (مقصود) پرانی ہندی سے نہیں ہے بلکہ اس کھڑی بولی سے ہے جس کاسانچہ وہی ہے جو ارد وکاہے۔‘‘3

انھوں نے ہندی زبان میں کویتاکَومۡدی حصہ چہارم، اردو شاعری کی تاریخ سپردِ قلم کی جو ادبی حلقوں میں قدرکی نگاہ سے دیکھی گئی،وہ اردو کو مسلمانی ہندی کے نام سے موسوم کرتے تھے۔چنانچہ ایک جگہ رقم طراز ہیں

خسرو اورکبیر کی کویتاکے اداہرنوں(مثالوں) کے رہتے ہوئے آب حیات کے فاضل مصنف مرحوم پروفیسر آزاد کایہ لکھنا کہ ہماری اردو زبان برج بھاشاسے نکلی ہے،صحیح نہیں ہے،اردو کبھی کسی بھاشا سے نکلی ہی نہیں، ہندی ہی کانام اۡردو رکھ لیاگیاہے۔اس کا نام ارد ونہ رکھ کرمسلمانی ہندی رکھاجاتاتوادھک سارتھک (زیادہ بامعنی ) ہوتا۔‘‘4

جب ہماری ہندی کاویاکرن (قواعد) ایک ہے، دونوں کاسانچہ ایک ہے تب اردو الگ سوتنتر(آزاد) بھاشا (زبان) کیسے کہلاسکتی ہے؟ ہندی اوراردو میں صرف اتنا انتر (فرق) ہے کہ ہندی دیوناگری لپی (رسم الخط) میں لکھی جاتی ہے اوراس میں سنسکرت کے شبد (الفاظ) ادھک (زیادہ ) رہتے ہیں اوراردو فارسی لپی میں لکھی جاتی ہے اور اس میں عربی فارسی کے شبدوں کی ادھکتا (کثرت )رہتی ہے۔ گجراتی بھاشاکے بھی دو روپ ہیں ایک پارسیوں کی گجراتی اوردوسراناگری برہمنوں کی گجراتی۔ پارسیوں کی گجراتی میں عربی فارسی کے شبد ادھک رہتے ہیں اور ناگری برہمنوں کی گجراتی میں سنسکرت کے تتسم اورتدبھوشبد۔ پر دونوں روپوں کانام ایک ہے۔ یہی ہندی میں بھی ہوناچاہیے۔ پر  در بھاگیہ سے اردو ایک الگ زبان قراردی گئی ہے۔ہندو مسلمانوں کے جھگڑے کاوہ بھی ایک کارن(وجہ) بنادی گئی ہے۔ ہندی توسروانگ پورن (سراپا،مکمل) اس دن ہوگی جس دن غالب، ذوق، حالی، داغ، اکبر اوراقبال کو بھی وہ اپناکوی کہنے   لگے گی۔    5

متذکرہ بالاشعرا میں حالی، داغ اور اکبر کاکلام ناگری حرو ف میں منتقل کیا جاسکتا ہے، لیکن غالب، ذوق اور اقبال کے فارسی آمیز کلام کو ناگری حروف کاجامہ پہنانے کے بعد کیا ہندی کے عام قاری صحیح طورپرا س کی قرأت کرپائیں گے؟ کسی بھی زبان کے رسم الخط سے اس کی شناخت ہوتی ہے، کیاجسم سے کھال اترجانے کے بعد آدمی کی شناخت قائم رہ سکے گی؟ اگر پنڈت جی کے مشورے کومان لیاجائے تواردو ادب کے ایک بڑے حصّے کو قلم زد کرنا پڑے گااوراردو ادب کی بھرپور نمائندگی نہ ہوپائے گی۔ ذرا غالب کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے         ؎

کاو کاوِسخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا شام کالاناہے جوئے شیر کا

یادوسرا شعر          ؎

آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے

مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریرکا

یاڈاکٹر سر محمد اقبال کایہ شعر          ؎

آں کلیمِ بے تجلی آں مسیحِ بے صلیب

نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب

بجاکہ بول چال کی سطح پرہندی اوراردو زبان میں کوئی فرق نہیں لیکن ادبی سطح پر دونوں زبانوں میںکافی فرق ہے۔ ارد وزبان کارسم الخط تبدیل کرنے سے اردوزبان کاوجود خطرے میں پڑجائے گااوراس کاسرمایہ اچھی طرح سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔

جیساکہ متذکرہ بالاسطور میںکہاجاچکاہے کہ ترپاٹھی جی ہندی کے پرجوش حامی اورہندی ادب کی قدآور شخصیت تھے، انھوں نے تقریباًہر صنفِ اد ب میں ہندی زبان وادب کے قابلِ قدر نمونے پیش کیے ہیں۔ بقول اودھ بیراگی ہندی ساہتیہ کی سبھی ودھاؤں میں انھوں نے نہ کیول لکھابلکہ ابھنو پریوگ ( نت نئے تجربے ) بھی کیا ہے۔ ان کے بتائے نردیشوں (ہدایات) پر چل کرانیک کویوں،لیکھکوں نے ہندی ساہتیہ کو وِپۡل سمپدا(بڑی دولت) سے بھرپورکیا۔    6

علاوہ ازیں پنڈت جی اچھے محقق اورتنقید نگاربھی تھے،ان کی ادبی و تنقید ی بصیرت کا عالم قائل تھا۔ انھوں نے اپنی تحقیقی کتاب ’تلسی داس اوران کی کویتا ‘ کے ذریعے گوسوامی تلسی داس کی جائے ولادت کاتعین بھی کیا۔عام طور پر تلسی داس کی جائے پیدائش کو لے کر علمائے ادب میں اختلاف پایاجاتاہے۔ ایک گروہ ان کی جائے پیدائش باندہ ضلع کے راجہ پور نامی گاؤں کومانتاہے، دوسرا گروہ گونڈہ ضلع کے کسی مقام پر اور تیسراگروہ ایٹہ ضلع کا سوکر کا علاقہ تلسی داس کی جائے پیدائش قراردیتاہے۔ ترپاٹھی جی نے تلسی داس کی جنم بھومی سوروں (ایٹہ) کو بدلائل ثابت کیاہے اوربطور ثبوت تلسی داس کا مندرجہ ذیل دوہا پیش کیاہے         ؎

کھیلت اودھ کھوری،گولی بھونراچک ڈوری

لفظ چک ڈور کے بار ے میں ان کاکہناہے کہ برج اوراس کے قرب و جوار کے اضلاع میںبھونرااورچک ڈورکھیلنے کارواج بہت ہے۔اجودھیا،بنارس یاراجہ پور میں یہ کھیل نہیں کھیلاجاتاجبکہ سوروں (ایٹہ) میں اس کابڑارواج ہے۔ ترپاٹھی جی کامانناہے کہ تلسی داس کاجنم ایسے مقام پر ہواتھاجہاں بھونرا اورچک ڈوری کھیلنے کابہت رواج تھا۔ رام چرت مانس اورتلسی داس کے بارے میں جتنی رائیں اب تک موصول ہوئی ہیں ان میں کوی ور رام نریش ترپاٹھی کانظریہ ابھی نوہے۔   7

پنڈت جی نے تقریباً سارے ہندوستان کا دَورہ کرکے لوک گیتوں کو جمع کیا۔ ان لوک گیتوں کو اکٹھا کرنے میں اۡنھیں کافی محنت اوردقتوں کاسامنا کرناپڑا۔ کھیتوں میں چھپ کر اورمکانوں کی دیواروں کے پیچھے بیٹھ کر شادی بیاہ اورخوشی کے تہواروغیرہ کی تقریبات میں گائے جانے والے لوک گیتوں کوقلم بند کرتے تھے۔اس طرح انھوں نے لوک ادب کے معتد بہ حصے کو برباد ہونے سے بچالیا۔ اگر پنڈت جی نے کچھ بھی نہ لکھاہوتا تواۡن کایہی کارنامہ ان کے نام کوزندہ رکھنے کے لیے کافی تھا۔

ترپاٹھی جی نے ہندوستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سیر وسیاحت کی ہے اس لیے ان کے کلام میں فطرت کا جوروپ ملتاہے وہ بڑا ہی ہمہ گیرو متنوع ہے، بھارتیندوکے عہد سے حبُّ الوطنی کاجوجذبہ چلا آتاہے اسے ذات پات کے بجائے وطن کی پہنائیوں میں عام کرنا ترپاٹھی جی کاکام تھا، ان کے لیے وطن کا لفظ پوری وسعت اورہمہ گیری کے ساتھ آتاہے۔8

ترپاٹھی جی نے کویتاکومدی حصہ چہارم ص 229 میں  اردو شاعری کی عہد بہ عہد تاریخ بزبانِ ہندی رقم کی ہے جسے ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھاگیا۔ اس کتاب کی تیاری میں جن کتابوں سے استفادہ کیاگیاہے ان کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں

1       اردو ساہتیہ کااتہاس، دوحصے، مصنفہ ڈاکٹررام بابو سکسینہ، ناشر ہندوستانی اکادمی الٰہ آباد۔

2       شعر و شاعری وشعر وسخن آدی۔ مصنفہ شری ایودھیا پرشاد گولیہ، ناشر بھارتیہ گیان پیٹھ، کاشی۔

3       اردو شاعری، مصنفہ شری نارائن پرشاد جین، ناشر ہندی گرنتھ رتناکر کاریالیہ،بمبئی۔

4       اردو کے کوی اور ان کا کاویہ، لیکھک پنڈت گرجادت شکل گریش ناشر پستک بھنڈار،بنارس

5       اردو کاویہ کی ایک نئی دھارا،  لیکھک اوپیندر ناتھ اشک، ناشر ہندوستانی اکادمی الٰہ آباد

علاوہ بریں انھوں نے تاریخ ادبِ اردو کے متعلق متعدد کتابوں کامطالعہ بھی کیا لیکن وہ مولانامحمد حسین آزاد کی آبِ حیات سے زیادہ متاثر ہوئے۔

ترپاٹھی جی نے ہندی زبان میں اردو شاعری کی تاریخ سپردِ قلم کرکے ہندی ادب کے پریمیوں کے روبرو پیش کیا۔ اس طرح بلاواسطہ طور پر انھوں نے اردو شاعری سے ہندی کے عام قارئین کو روشناس کرایا۔ پنڈت جی اردو عہدمیں پیدا ہوئے، اردوکی انگلی پکڑ کر انھوں نے ادب کی خدمت کرناسیکھالیکن اپنی زندگی کے آخری ایام میں خود کو انھوں نے ہندی زبان وادب کی ترویج و اشاعت کے لیے وقف کردیا۔ شاید ان کی دوربیں نگاہوں نے آزادی کے بعد اردوکے تاریک مستقبل کو دیکھ لیاتھا، اسی لیے انھوں نے اردو سے منھ موڑ کراپنی ساری توانائی ہندی ادب کی تخلیق میں صرف کردی  اور کئی قابلِ ذکر تخلیقات ان کے رشحاتِ قلم کا نتیجہ ہیں جن میں ملن پتھک، سوپن،جیسی مایۂ ناز شعری تخلیقات شامل ہیں، علاوہ ازیں انھوں نے فکشن، تنقید و تحقیق، بچوں کا ادب، سوانح، فلکیات اورلو ک ادب کواپنی توجہ کا مرکز بنایا اورکئی شاہکار تخلیقات کے ذریعے ہندی ادب کے سرمایے میں قابلِ قدراضافہ کیا۔ راقم الحروف کی دانست میں دنیائے ادب میں ان کاہمسرکوئی دوسرانظر نہیں آتا۔ اگر ترپاٹھی جی نے کویتا کومدی حصہ چہارم کو اردو زبان کا جامہ پہنایا ہوتا تو اس کتاب کی بھی اردو حلقوں میںخوب خوب پذیرائی ہوئی ہوتی، مگر ترپاٹھی جی ہندی کے اتنے پرجوش حامی تھے کہ رفتہ رفتہ اردو زبان کی تصنیف و تالیف سے دست کش ہوگئے۔

ا س کتاب میں ترپاٹھی جی نے اردو شاعری کو پانچ ادوار میں تقسیم کیاہے۔ پہلے دَور کے مخصوص شعرا ولی، آرزو، ناجی، یک رنگ، حاتمِ، آبرو، اورفغاں، دوسرے دَور کے خاص شعرا جانِ جاناں، سودا، سوز، درد، اور میر ہیں۔  اس دَور میں بہت سے قدیم الفاظ نکال دیے گئے اور بہت سے نئے بھرتی کرلیے گئے۔تیسرے دَورکے مخصوص شعرا جرأت، حسن، انشا، مومن، ذوق، غالب، امیر، انیس، دبیر، داغ اورآسی ہیں۔ اس عہد میں زبان پہلے کی بہ نسبت زیادہ آراستہ ہوگئی ہے۔ پانچویں دَور کے شعرا میں حالی، اکبر، اقبال اورچکبست وغیرہ شامل ہیں۔ اس عہد کی زبان پہلے کی بہ نسبت زیادہ معنی خیز اوربامحاورہ ہوگئی ہے۔

اس کتاب میں چار مختلف اصنافِ سخن کو متعارف کرایا ہے جن میں غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ،رباعی، مثلث، مخمس، مسدس وغیرہ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں اس کتاب میں ساٹھ اردو شعرا کامختصر تعارف اور ان کے فکر و فن پر پرمغز تبصرہ اورمنتخب اشعار پیش کیے گئے ہیں جن میں شاہ عالم، نواب آصف الدولہ آصف، نواب وزیر علی خاں وزیر،بہادر شاہ ظفر، نواب واجد علی شا ہ اختر، امیر خسرو، ولی، آبرو، آرزو، حاتم، مجنوں، جانِ جاناں، میاں چرکیں، جعفر زٹلی، میر، درد، سوز، میرحسن، انشا ، جرأت،مصحفی،نظیر، ناسخ، آتش، ذوق، غالب، مومن، انیس، دبیر، نسیم، امیر مینائی، داغ، آسی، شیفتہ وغیرہ شامل ہیں۔

شاہ عالم کا تعارف ان الفاظ میں کیاگیاہے

شاہ عالم دلّی کے بادشاہ تھے،رات دن آپس کی لڑائی جھگڑے اور سلطنت چھن جانے کے ڈر سے پریشان رہتے تھے۔ 1733میں ایک روہیلہ نے دیوانِ خاص میں چھاتی پر چڑھ کر آپ کی آنکھیں نکال لی تھیں، آپ نے ساراجیون (زندگی) تکلیف میں کاٹا۔شاعری کاشوق آپ کو بھی تھا، آفتاب تخلص تھا، آپ فرماتے ہیں        ؎

صبح تو جام سے گزرتی ہے

شب دل آرام سے گزرتی ہے

عاقبت کی خبر خدا جانے

اب تو آرام سے گزرتی ہے

کویتا کومدی     9

نواب واجد علی شاہ کاتعارف ان الفاظ میں کرایاہے

نواب واجد علی شاہ لکھنؤکے آخری نواب تھے۔ 1847 میں بیس برس کی عمر میں گدّی پر بیٹھے۔ان کادربار رنڈیوں، بھانڈوں بھڑؤوں، مسخروں، گویّوں اور شاعروں سے بھرا رہتا تھا، انگریزوں نے انھیں 31جنوری 1856کو قید کرکے کلکتے بھیج دیا۔یہ شاعری بھی کرتے تھے۔  اخترتخلص تھا، 40 کے قریب ا ن کے دیوان ہیں۔

لکھنؤ سے جاتے جاتے یہ آہ نکلی تھی            ؎

در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں

خوش رہو اہلِ وطن ہم تو سفر کرتے ہیں 

نہیں چاہیے قصرِ فردوس زاہد

مجھے ہے فقط کوئے جاناں سے مطلب 10

اردو شاعری کاہندؤں پر بھی غیر معمولی اثرپڑا۔اس ضمن میں ترپاٹھی لکھتے ہیں

اردوشاعری کاہندوؤں پر بھی ایسا پربھاؤ(اثر) پڑاکہ شاعروں میں اکرام پانے کے لیے وہ بھی چتا کو چھوڑ کر قبرمیںجانے لگے اوراپنے چاروں دھام چھوڑکر کعبہ کو سجدہ کرنے لگے۔ نسیم  ہندوشاعرتھے،وہ کہتے ہیں          ؎

بتوںکو چھوڑ کرکون جائے

یہیں سے کعبے کو سجدہ ہمارا

چکبست کشمیری برہمن تھے وہ بھی چِتا کو بھول کر قبرکو یاد کرتے تھے         ؎

جس پہ احباب بہت روئے فقط اتنا تھا

گھر کو ویران کیا، قبر کو آباد کیا   

ہندو شاعر وایشورتک کو بھول گئے اورخدا اوراللہ کو رٹنے لگے۔ چکبست کہتے ہیں          ؎

مجھ سے روشن اِن دنوں دیر و حرم کانام ہے

پائے بۡت پر ہے جبیں، لب پر خداکانام ہے

اِن ہی کاایک شعر اور          ؎

پڑھی نماز تو اُجڑے گھروں کے صحرامیں

اگر نہائے تو اپنی لہو کی گنگامی ں

بسمل الٰہ آبادی بھی ہندوشاعر ہیں، وہ فرماتے ہیں         ؎

دیر میںپڑھتے ہیں پانچوں وقت کی بسمل نماز

ایسا ہندو دیکھیے، ایسامسلماں دیکھیے11

ترپاٹھی جی نے مرثیے کی معنویت پر بھرپورروشنی ڈالی ہے۔مرثیے کاتعارف وہ اِن الفاظ میں کراتے ہیں

مرثیہ شوک گیت کو کہتے ہیں پرایا سبھی مرثیوں میں حسن حسین کاشوک پرد برتانت کہاگیاہے۔لکھنؤ میں انیس اوردبیرکے مرثیے بہت پرسِدھ ہیں۔ مرثیے کی بنیاد پہلے پہل دکنی ہندی میں پڑی پر لکھنؤ آکر وہ سرو رنگ پورن ہوا۔

ایک جگہ حالی اور اکبر کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں

نظیر، انیس اور دبیرکے بعدحالی اوراکبر یہی دو شاعر ایسے ہوئے ہیں جنھوں نے شاعری میںنئے موڑ لیے، حالی نے تو عاشقانہ شاعری کے وِرودھ ایک نیاہی راستہ نکالا اور ان کی منزل بھی وہی ختم کرگئے۔ حالی اوراکبر عشقیہ شاعری کو جھک جھوڑ کر جگادیا۔   12

رگھوپتی سہائے فرا ق گورکھپوری کے فکر و فن کاجائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں

فراق صاحب آزاد خیال انسان ہیں، عہدِ شباب میں ملک کی پکار پر انھوں نے بہت بڑا ایثار پیش کیا،گورنر نے آئی سی ایس میں ان کو نامزد کردیاتھاپر انھوں نے اس کی پروا نہ کی اورمہاتماگاندھی کے سہیوگ اندولن میں انھوں نے بڑے ساہس سے بھاگ لیا، اور1921میں جیل چلے گئے۔ جیل میں اس پستک کالیکھک ان کے ساتھ تھا۔ جیل سے نکلنے کے بعدیہ کرشچین کالج لکھنؤ میں ادھیاپک نیوکت ہوئے، اس کے بعدالٰہ آباد یونیورسٹی میں آگئے۔ فراق بڑے زندہ دل شاعر ہیں، ان کی شاعری میں امیر مینائی،حسرت، اصغراوراقبال کی شاعری کا لطف آتاہے۔ یدّپ حسن اورعشق کادامن انھوں نے نہیں چھوڑا پر نئے نئے بھارتیہ وِشے بھی بہت لیے اوراۡن پرچبھتے ہوئے وِچار بھی باندھے۔

یہاں فراق کی شاعری کے کچھ نمونے دیے جاتے ہیں          ؎

تجھے دنیا کو سمجھنے کی ہوس ہے، اے کاش

تجھے دنیا کو بدل دینے کاعرفاں ہوتا

نہ سمجھنے کی ہیں باتیں نہ یہ سمجھانے کی

زندگی اجڑی ہوئی نیند ہے دیوانے کی13

ترپاٹھی جی اگرچہ ہندی کے پرجوش حامی تھے لیکن انھوں نے اردو کی خوبیوں کابرملا اظہار بھی کیاہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں

اردو کے کوی محاوروں میں ہی باتیں کہتے ہیں۔ محاوروں کو لے کراردو شاعروں میں کافی بحث پیڑھیوں تک چلتی رہی،جھگڑے ہوئے، کتابیں لکھی گئیں،کھوج کھوج کر محاورے جمع کیے گئے... وہ استعمال میں لائے گئے اوراردوکی شاعری کی بھاشا (زبان)محاوروں سے جگمگا  اٹھی۔ اردوکے شاعرسماج کے اندرہی رہے،انھوں نے سماج کو وہی باتیں دیں جن کو ان کے سَمَے کا سماج چاہتا تھا۔ ہندی کویوں نے انترکش (خلا) کواپنا ابھیسار استھان بنالیاجو کسی کودکھائی نہیں پڑتااورنہ جہاں تک کسی شروتا(سامع) کی پہنچ ہی ہوتی ہے،یہی کار ن ہے کہ اردو شاعروں کے جتنے شعر لوگوں کی زبان پر ہیں ان کاشتانک (عشر عشیر) بھی ہندی کویوں کی پنکتیاں (مصرعے) کسی کو یاد نہیں۔   14

ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ہندوستانی زبانوں کے شعرا اورادبا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے تھے، انھوں نے باہم ایک دوسرے سے اثر قبول کیا۔ترپاٹھی جی ہندی کویوں کو پرخلوص مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں

شاعروںکاجھکاؤ اب ہندی کی اور ہورہا ہے، ہندی کویوں کوبھی آگے بڑھ کر انھیں گلے لگاناچاہیے تاکہ دونوں ایک دوسرے سے لابھ اٹھاسکیں۔‘‘15

اردو نثر کے ارتقاپر اظہارخیال کرتے ہوئے ترپاٹھی جی کہتے ہیں 

شروع شروع میں مسلمانوں میں اردو شاعری کی لوک پریتابڑھی جس کاادگم استھان (جائے ولادت) دکھّن تھا۔ اسی طرح اردو گدیہ کی شروعات بھی پہلے پہل دکھنی ہندی ہی سے ہوئی،یدّپ ان ہی دنوں اتر بھارت میں بھی اردو گدّیہ کاوِکاس ہونے لگا تھا۔ اردو گدّیہ کو سب سے بڑا سہارا فورٹ ولیم کالج کلکتہ سے ملا۔ ایسٹ انڈیاکمپنی کے کرمچاریوں کوشاسن کے کام میں سوِدھا  لانے کے لیے دیسی بھاشاؤں کاجاننا بہت ضروری سمجھ کر 1803 میں اۡوکت کالج کاایک وبھاگ (شعبہ) کھولا گیا  تھاجس کے سنیوجک گلکرسٹ صاحب تھے جوسوئم کئی بھاشاؤں کے اچھے جانکار تھے۔اس محکمے کے دواراڈاکٹر گلکرسٹ کی دیکھ ریکھ میں جو پرسدھ ہندوستانی لیکھک داں نیوکت ہوگئے تھے ان میں سے کچھ کے نام یہ ہیں

میرامن، افسوس، حسینی، لطف، حیدری، جوان،  للولال جی، نہال چند، اکرام علی وِلا، سید محمد منیر، شیر علی افسوس اورمداری لال گجراتی، صدل مصر، اتیادی (وغیرہ)    16

اگر ترپاٹھی جی نے کویتاکومدی کو فارسی رسم الخط میں منتقل کیاہوتا تو ان کاشماربھی اردو  کے اوّلین مورخوں میں ہوتا اور اردو دنیامیں ان کانام بھی ادب و احترام کے ساتھ لیاجاتا۔

حواشی

1       مشاعرہ، زنداں، ناشر اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ،ص27-28

  2     ایضاً    ص30

3       کویتا کومدی چوتھابھاگ ارد وص 111

4       ایضاً   ص 28

5       ایضاً   ص 30۔29

6       راشٹریہ سہارالکھنؤ 13جنوری 1999،  ص7

7       ایضاً    ص7

8       ہندی اد ب کی تاریخ،از ڈاکٹر محمد حسن   ص 229

9       کویتاکومۡدی چوتھا بھاگ اردو   ص   80

10     ایضاً   ص84. 83

11     ایضاً    ص    50

12     ایضاً    ص  9

13     ایضاً    ص526۔  525

14     ایضاً    ص 110

15     ایضاً   ص110

16     ایضاً   ص    111

Niyaz Sultanpuri

Bhatti Jarauli, Post: Kataun

Distt.: Sultanpur- 227408 (UP)

Mob.: 8756228058

 

 

 

 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں