5/4/23

ہندوستانی ثقافت لکھنؤ اور فسانۂ آزاد: ساجد ذکی فہمی


 اردو ادب میں ثقافت کا لفظ زیادہ پرانا نہیں ہے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں یہ لفظ عربی سے اردو میں منتقل ہوا۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے  کہ اردو کی پرانی لغت میں ثقافت کا لفظ موجود نہیں۔ مثلاً نور اللغات، فرہنگ آصفیہ وغیرہ۔ ثقافت سے پہلے جو لفظ اردو ادب میں مستعمل دکھائی دیتا ہے وہ ’تہذیب‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ تمام لغت نگاروں نے ثقافت کے ذیل میں تہذیب کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مندرجہ بالا لغات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ لیکن ان دونوں الفاظ کے ہم معنی ہونے پر بعض حضرات مختلف الرائے ہیں۔ اس مسئلے پر بحث کرنے کے لیے ایک الگ مضمون کی ضرورت درپیش ہوگی۔ لہٰذا اس بحث سے قطع نظر تہذیب اور ثقافت کو ایک ہی زمرے میں رکھ کر اپنی بات آگے بڑھاتا ہوں۔

کلچر یعنی ثقافت کی تعریف کرتے ہوئے ای۔ بی ٹائیلر (Edward Burnett Tylor) نے رقم کیا ہے

’’ثقافت (کلچر) وہ پیچیدہ عنصر ہے جس میں علم، اخلاق، قانون، رسم و رواج اور وہ تمام صلاحیتیں اور عادات وخصائل شامل ہوتے ہیں ، جن کو انسان سماجی حیوان ہونے کی بنا پر حاصل کرتا ہے۔‘‘ 1

اسی ضمن میںمیلنا وسکی تحریر کرتی ہیں

’’ثقافت ایک معاشرتی ورثہ ہے۔ جس میں روایتی طور پر پائی ہوئی ہنر مندی، مواد، مشینی عمل، خیالات، عادات و اطوار اور اقدار شامل ہیں۔‘‘  2

رالف لنٹن تہذیب کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں

’’تہذیب عقائد، جذبات، عادات، اداروں اور علامات کا ایک مجموعہ ہے جو ایک گروپ کے افراد کے کردار اور ان کے ردِ عمل کو متعین کرتا ہے۔ اس پر جغرافیائی اور تاریخی حالات کا نیز معیار زندگی، تعلیم، زبان اور ادب سب کا اثر پڑتا ہے۔‘‘ 3

مندرجہ بالا اقتباسات کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ لفظ ثقافت میں بڑی وسعت ہے۔ اس کے ذیل میں علم، اخلاق، قانون، خیالات، رسم و روج، عادات و اطوار، زبان و ادب، فکر و فن، عقائد، جذبات، سیاست، فلسفہ، مذہب وغیرہ تمام چیزیں آجاتی ہیں۔

ثقافت کسی جامد شے کا نام نہیں کہ اس میں تبدیلی ناگزیر ہو۔ کسی قوم، ملت اور قبیلے کی ثقافت جب کسی دوسرے قبیلے، ملت اور قوم پر اثر انداز ہوتی ہے یا ان کے درمیان ربط و ضبط کا عرصہ طویل ہوتا ہے تو دونوں کے اشتراک سے ایک نئی ثقافت جنم لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان جو مختلف مذاہب، رنگوں اور نسلوں کا گہوارہ ہے ثقافتی اعتبار سے نہایت دل چسپ اور دل کش دکھائی دیتا ہے۔ یہاں کے رسم و رواج، طور طریقے، رہن سہن، عقائد و نظریات اور زبان و ادب وغیرہ کو کسی ایک گروہ یا قبیلے کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ کسی بھی خطے یا علاقے میں فاتح اور مفتوح قوم کے درمیان تہذیبی، تمدنی، معاشرتی، سیاسی وغیرہ سطح پر رد و قبول کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مثلاً ہندوستان میں آریائوں سے ماقبل کی ثقافت پر آریائی تہذیب کے اثرات، ہند آریائی تہذیب پر اسلامی تہذیب کے اثرات یا موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب کے اثرات وغیرہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔ وقت اور حالات کے پیش نظر ان تمام تہذیبوں کے اثرات ایک دوسرے پر اپنے نقوش ثبت کرتے رہے اور بالآخر ان تہذیبوں کے اختلاط سے ثقافت کے ارتقا کی ایک نئی صورت جلوہ گر ہوئی۔ تہذیبوں کے اسی اختلاط اور امتزاج باہمی نے آگے چل کر ہندوستانی ثقافت کی صورت اختیار کرلی۔

لکھنؤ اسی ہندوستانی ثقافت کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھا۔ فن تعمیر، موسیقی، لباس و زیورات، طرز معاشرت کے ساتھ علم و ادب کے میدان میں بھی لکھنؤ نے گہرے نقوش ثبت کرنے کی کوشش کی۔ دلّی کی تباہی کے بعد وہاں کا تمام تہذیبی سرمایہ آہستہ آہستہ لکھنؤ منتقل ہونا شروع ہوا۔ لیکن لکھنؤ نے ان تمام پر ایسی رنگ آمیزی اور نقاشی کی کہ بہ نسبت دلّی کے وہ  زیادہ لطیف، نفیس اور شاندار دکھائی دینے لگیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں تہذیب یا ثقافت کوئی ایسی شے نہیں جسے فوراً وجود بخش دیاجائے، بلکہ یہ ایک ایسا نقش ہے جس کو ابھرنے میں طویل مدت درپیش ہوتی ہے۔ ثقافتی ارتقا کے دوران کئی نقوش بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ بالآخر تمام مد و جزر سے گزرنے کے بعد ایک ایسا نقش ابھر کر سامنے آتا ہے جسے زمانہ قبول کرلیتا ہے۔ لیکن لکھنؤ والوں نے دلّی کی تباہی کے بعد دلّی سے الگ ایک نئی تہذیب و ثقافت کی بنیاد ڈالنے کی کوشش شروع کردی۔ ظاہر ہے یہ طریقہ قانون فطرت کے خلاف تھا۔ لہٰذا ظاہری طور پر لکھنوی تہذیب چمک دار اور آنکھوں کو خیرہ کرنے والی تو بن گئی، لیکن بنیاد کمزور ہونے کی وجہ سے وہ دیرپا اثرات کی حامل نہ ہوسکی۔ اس کی مزید وضاحت عبدالحلیم شرر کے اس اقتباس سے بھی ہوتی ہے

’’۔۔۔دہلی کے مقابلے میں ایک نئی متمائز معاشرت اختیار کرنے کی شعوری کوششوں نے زندگی کے ہر شعبے میں ایسی چیزیں پیدا کرنی شروع کیں، جن میں نمود تو بہت تھی، تہہ داری نہیں تھی۔ ‘‘  4

البتہ جہاں تک مذہب کی بات ہے اس نے لکھنوی تہذیب پر گہرے نقوش مرتسم کیے۔ لکھنؤ جب تک دلّی سلطنت کے ماتحت رہا (خواہ برائے نام ہی سہی) اس وقت تک لکھنوی معاشرت میں مذہبیت کا غلبہ اس درجہ حاوی نہیں تھا، حالانکہ اس زمانے میں بھی لکھنؤ کے فرماروایان شیعیت کے قائل تھے۔ لیکن جوں ہی انگریزوں کی شہ پر غازی الدین حیدر نے بادشاہت کا اعلان کیا تو مذہب میں بھی اختراعات کاسلسلہ شروع ہوا۔ خود مختاری کا احساس، حکومت کا زعم، مغلوںسے نجات اور مذہبی جوش نے غازی الدین حیدرسے مذہبی معاملات میں بھی ایسے ایسے کام کروائے جو لکھنؤ سے پہلے عالمی منظر نامے پر کبھی دیکھے نہیں گئے تھے۔زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح مذہبی معاملات میں بھی باطن سے زیادہ ظاہر پر زور صرف کیا گیا۔

بہرحال تغیر و تبدل کا یہ سلسلہ جب زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کر رہا تھا، تو یہ کیوں کر ممکن تھا کہ زبان و بیان پر اس کے اثرات مرتب نہ ہوتے۔ لہٰذا ’اصلاح زبان‘ کے نام پر ایک تحریک کی شروعات ہوئی، جس میں ناسخ اور شاگردان ناسخ پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ نثر و نظم دونوں میں لفظوں کی تراش خراش، تشبیہات و استعارات، رمزیات و کنایات، محاورات و ضرب الامثال کے ساتھ نازک خیالی منتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ جو عبارت تھی مقفع و مسجع، جو اشعار تھے رنگینی، معاملہ بندی، رعایت لفظی، فحاشی اور عریانیت کی اعلیٰ مثال۔ غرض کہ ادبا و شعرا نے سادگی اور زندگی کے حقائق کے برعکس رنگینی اور سطحی جذبات کی عکاسی کو اپنا مطمح نظر سمجھ رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب میر صاحب نے دلّی کی تباہی اور معاشی تنگی سے پریشان ہو کر لکھنؤ میں سکونت اختیار کی تو لکھنؤ اپنی تمام تر رنگینی، دل کشی اور دل فریبی کے باوجود ان پر دیرپا اثرات مرتب نہ کرسکا اور بالآخر وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے         ؎

خرابہ دلّی کا وہ چند بہتر لکھنؤ سے تھا

وہیں میں کاش مرجاتا سراسیمہ نہ آتا یاں

برسوں سے لکھنؤ میں اقامت ہے مجھ کو لیک

یاں کے چلن سے رکھتا ہوں عزم سفر ہنوز

آباد اجڑا لکھنؤ چغدوں سے اب ہوا

مشکل ہے اس خرابے میں آدم کی بود و باش

میر اور لکھنؤ کے متعلق محمد حسین آزاد نے بھی آب حیات میں چند واقعات نقل کیے ہیں جن سے میر کی لکھنؤ کے تئیں بے زاری کا اظہار ہوتا ہے۔ 

یہ تمام باتیں اپنی جگہ پر درست ہیں لیکن اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ لکھنؤ؛ اپنی تمام تر خارجیت کے باوجود رثائی ادب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ فن مرثیہ گوئی کو جس قدر فروغ لکھنؤ میں حاصل ہوا یا جس اعلیٰ پایے کے مرثیہ گو لکھنؤ میں موجود تھے ہندوستان کے کسی دوسرے صوبے یا خطے میں نہیں تھے۔ لکھنؤ میں مرثیہ گوئی کی ترقی کی بنیادی وجہ بادشاہ اور عوام کے دلوں میں مذہبیت کاغلبہ تھا۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ مذہب ہی ایک ایسی شے ہے جس کا تعلق ظاہر سے کم باطن سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے اثرات بھی دیرپا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی لکھنؤاسی ثقافت کے رنگ میں گرچہ پوری طرح نہیں لیکن رنگا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ گفتگو کا سلسلہ دراز تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے برعکس گریز کا پہلو اختیار کرتے ہوئے فسانۂ آزاد کی طرف رجوع کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

’فسانۂ آزاد‘ از پنڈت رتن ناتھ سرشار دسمبر 1878 تا دسمبر 1879 تک ’اودھ اخبار‘ میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ بعد ازیں یہ فسانہ منشی نول کشورپریس لکھنؤ سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ مکمل فسانۂ آزاد قسط وار شائع ہوا تھا یا اس کی کون سی جلد کب شائع ہوئی۔البتہ جہاں تک فسانۂ آزاد میں موجود ہندوستانی ثقافت کی بات ہے اس کے متعلق یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ اس فسانے میں لکھنوی ثقافت پورے آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ بعض حضرات یہ اعتراض کرسکتے ہیں کہ فسانۂ آزاد میں سرشار نے لکھنؤ کی زوال آمادہ تہذیب و ثقافت کا نقشہ کھینچا ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسی زوال آمادہ تہذیب و ثقافت کو دراصل لکھنوی ثقافت کا درجہ حاصل ہے۔ کیوں کہ جو حضرات اس قسم کے اعتراضات کرتے ہیں دراصل ان کی نگاہ مغل دور حکومت پر مرکوز ہوتی ہے۔ لہٰذا جب وہ مغلیہ عینک سے لکھنوی ثقافت کا جائزہ لیتے ہیں تو مایوسی ان کے حصے آتی ہے۔ ان کے دلوں میں نئی ثقافت کے نمو کی خوشی نہیں بلکہ پرانی ثقافت کے منہدم ہونے کا افسوس زیادہ ہوتا ہے۔

’فسانۂ آزاد‘ میں سرشار نے لکھنؤ کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں سماجی، سیاسی، مذہبی، معاشرتی، تعلیمی اور تمدنی غرض کہ ہر شعبے کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ درج ذیل میں ’فسانۂ آزاد‘ سے چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔

زبان و بیان

دو راہ گیر جو ایک دوسرے سے واقف نہیں اس کے باوجود گفتگو میں بے تکلفی کس درجے کی ہے ملاحظہ کیجیے

مثال نمبر1

نازک بدن میاں جانے والے! او میاں جانے والے! اے ذری ادھر تو دیکھو ! الٰہی ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ میرا کلیجہ بلیوں اچھلتا ہے۔ بھری برسات کے دن اے ہے! کہیں پھسل نہ پڑیں، تو قہقہہ اڑے۔یار لوگوں کو دل لگی ہاتھ آئے۔ ان بے چارے کی کھوپڑی پر جائے۔ حضرت سنبھلے ہوئے۔

جانے والا(ٹھہر کر) ارشاد، آپ اپنا مطلب فرمائیے۔ میرے پھسلنے کی فکر نہ کیجیے۔

نازک بدنگریے گا تومجھ سے ضرور پوچھ لیجیے گا۔

جانے والابہت خوب، ضرور پوچھ لوں گا ، بلکہ آپ کو ساتھ لے کر گروں تو سہی۔ نیچے آپ ہوں، اوپر بندہ انشاء اللہ۔

نازک بدنآپ نے یہ کیسی نیم ٹر قطع بنائی ہے۔ کہیں گڈا میر کی پھبتی آپ ہی پر تو لوگ نہیںکہتے ہیں۔

جانے والاآپ کو یہ زنانوں کی وضع کیسی بھائی۔ یہ چھمی جان آپ ہی تونہیں مشہور ہیں۔

چھمی جان(وہی نازک بدن) خدا کی قسم آپ کے کالے کپڑوں سے میں سمجھا، کہ بنڈیلا کسم کے کھیت سے نکل پڑا۔۔۔

جانے والاقسم حضرت عباسؓ کی میں آپ کو دیکھ کر یہ سمجھا کہ کوئی زنانہ مٹکتا جاتا ہے یا پنجہ کش ساقن مردانہ بھیس میں آتی ہے۔  5

مثال نمبر 2

آزاد    (گھڑی جیب سے نکال کر) آئیں آٹھ پر اکیس منٹ آئے۔ اس خوش گپی نے آج ستم ڈھایا۔ لکچر سننے میں نہ آیا۔ مفت کی بک بک ، جھک جھک۔ لاحول ولا قوۃ۔ واللہ لکچر لائق شنید تھا۔ لعنت بکار شیطان۔

چھمی جاناللہ جانتا ہے۔ اس وقت کلیجے پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔ نہ جانے تڑکے تڑکے کس منحوس کا منھ دیکھا ہے، کہ بھیرویں کے مزے ہاتھ سے گئے۔

حبیب لبیب    یہ ضعیف الاعتقادی، بھلا کسی کے منھ دیکھنے سے کیا ہوتا ہے۔ آپ بھی نرے چونچ ہی رہے۔ اتنی دیر تک سمجھایا، سرمغزن کی، مگر واہ رے کتے کی دم، بارہ برس بعد بھی ٹیڑھی ہی نکلی۔ جو کہیں چھ مہینے ہماری جوتیاں سیدھی کرو تو اونٹ سے آدمی بن جائو۔

چھمی جانواہ! بس چلیے چلیے۔ یہ زبانی داخلہ بہت سنا ہے۔ ایسے ہی بڑے صوفی صافی ہو، تو ذرا ساتھ چلے چلونہ‘ بغلیں کیوں جھانکتے ہو۔  6

مذہبی عکاسی

نوابین اودھ نے جب بادشاہت اختیار کی تو شیعیت کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ نئے نئے رسوم ایجاد ہونے لگے۔ امام باڑے اور مزارات وغیرہ پر عقیدت مندوں کا ہجوم امڈا چلا آتا تھا۔ ’فسانۂ آزاد‘ میں سرشار نے لکھنؤ کے ان مناظر کی عکاسی نہایت دلچسپ انداز سے کی ہے۔ مثلاً شاہ مینا صاحب کی مزار  کا ایک منظر یوں بیان کرتے ہیں

مثال نمبر1     ’’۔۔۔ شاہ مینا صاحبؒ کی درگاہ سب میں انتخاب زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ اللہ اکبر گرد مزار کہیں نوجوانوں کی وہ دھوم دھام ہے کہ جس طرف دیکھیے اژدہام عام ہے۔ غٹ کے غٹ، جوق کے جوق چلے جاتے ہیں۔ غول کے غول امڈے آتے ہیں۔ وہ بھیڑ بھڑکا، وہ دھکم دھکا ، وہ ریل پیل وہ شور و شر کہ الامان ! الحذر! ایک دوسرے کو ریلتا ہے، دوسرا تیسرے کو ڈھکیلتا ہے، ڈولیوں پر ڈولیاں اور فنس پر فنس چلی آتی ہیں۔ مہ جبینان ماہرو، تماشہ بینوں کے بدولت گلچھرے اڑاتی ہیں۔۔۔۔ دوسری جانب قوال حقانی غزلیں گاتے صوفیوں کو وجد میں لاتے ہیں۔ کسی اہل دل کو حال آیا۔ کوئی آنکھوں میں آنسو بھر لایا۔ ہو حق کا نعرہ بلند ہے۔ سرور و غنا کا لطف دو چند ہے۔ ایک سمت ساقنوں کا گرم بازار، دکانیں دھواں دھار، چلم پر چلم بھری جاتی ہے۔ دم پر دم پڑتے ہیں۔ ناتواں نوجوان نشہ کے زور میں عجیب لوچ سے اکڑتے ہیں۔‘‘  7

مثال نمبر2’’۔۔۔ گھر گھر شیون و شن، گھر گھر بکا و بین، گریہ و زاری، اشک باری، جم غفیر، مجمع کثیر، ۔۔۔ مجالس عزا کی دھوم دھام ہے۔ لکھنؤ کا محرم الحرام ہے۔ لکھنؤ کی سوز خوانی، لکھنؤ کی خوش بیانی، لکھنؤ کی عزاداری، لکھنؤ کی سوگواری، از شام تا روم، مشہور ۔۔۔ ہے۔ تعزیہ خانوں میں دھوم، امام باڑوں میں ہجوم ہے اور ان سب میں حسین آباد مبارک کا بدر فی النجوم ہے۔‘‘ 8

طرز معاشرت

مثال نمبر1

حسن آرا جو بنیادی طور پر لکھنؤ میں پلی بڑھی اور ایک مہذب خاندان سے تعلق رکھتی ہے، آزاد کے ساتھ نکاح کی خواہش مند ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آزاد کے کسی رشتے دار کا پتہ نہ خاندان والوں کا۔ لہٰذا حسن آرا، آزاد کو درج ذیل باتوں کی پابندی کرنے کا مشورہ دیتی ہے تاکہ وہ لکھنوی معاشرت کا حصہ معلوم ہو اور کسی غیر کو حرف گیری کا موقع نہ ملے۔

1       پندرھویں دن آپ کے یہاں مشاعرہ ہو، تاکہ اس صحبت سے آپ کا نام ہو اور لوگ آپ کو جانیں کہ آپ کوئی ہیں۔

2       کوئی عمدہ اور خوشنما بنگلہ یا کوئی کوٹھی کرایے پر لیجیے مگر سرراہ اور اس کو نفاست سے آراستہ کیجیے تاکہ لوگ سمجھیں کہ خوش سلیقہ آدمی ہے اور روٹیوں کو محتاج نہیں۔

3       شریف زادوں ، رئیس زادوں اور علما و فضلا کے سوائے اور کسی ایسے ویسے سے صحبت نہ گرمائیے۔ شہدوں، اوباشوں اور بدمعاشوں کو نہ آنے دیجیے۔

4       نماز جمعہ پڑھنے کے لیے ہر بار مسجد جایا کیجیے جس سے مسلمان یہ نہ کہیں کہ پابند صوم  وصلواۃ نہیں ہے۔ لامذہب آدمی کو کوئی اچھا نہیں سمجھتا۔ خیالات چاہے جو ہوں ، لیکن دنیا پرستی اور ظاہر پرستی بھی کسی قدر ضروری ہے۔

5       ایک سواری رکھیے اور صبح شام ہوا کھانے جایا کیجیے۔

6       اماں جان سے کبھی کبھی ملا کیجیے۔ اگر ان باتوں کو آپ پسند کریں اور میرا کہا مانیں تو مجھے شادی کرنے میں اصلاً عذر نہیں۔‘‘  9

مثال نمبر2’’عدالت کے قریب ۔۔۔ وہ چہل پہل کا میلا لگا ہوا ہے۔ خوانچے والے پکار رہے ہیں۔ گلاب، ریوڑیاں، دہی بڑے مصالحے کے، مٹر ٹٹر ایک طرف، ساقی چلمیں بھر بھر کر مشکبور دھواں دھار پلا رہا ہے۔ سامنے ککڑ والا مداریے حقے جمائے ایک ایک کے دو دو کر رہا ہے۔ کوئی دُکڑی پر سے اترا اور دن سے کمرے میں داخل۔ کسی نے بگھی روکی اور غڑاپ گواہ گھر میں موجود۔ ۔۔۔ کوئی سبزہ بیگانہ کو اپنا مسکن بنائے بیٹھا چبینا چبا رہا ہے۔ گواہ سر بجیب تفکر یوں جھوٹ بولیں گے، یوں بات بنائیں گے۔ وکیل ہم سے کڑے کڑے سوال کرے گا تو ہم کہہ دیں گے کہ ہمیں یاد نہیں۔ ہم نہیں جانتے۔‘‘  10

اس کی طرح کی سیکڑوں مثالیں ’فسانۂ آزاد‘ سے پیش کی جاسکتی ہیں جو لکھنوی تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرتی ہیں۔ درج بالا یا اس جیسے دیگر اقتباسات جو ’فسانۂ آزاد‘ میں مذکور ہیں، سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اٹھارہویں یا انیسویں صدی عیسوی میں لکھنؤ ی تہذیب و ثقافت کا رنگ یا اس کا معیار کیسا تھا؟ درج ذیل میں ایک لطیفہ جو ’فسانۂ آزاد‘ میں مذکور ہے نقل کیا جاتا ہے۔ اس لطیفے میں دراصل لکھنوی ثقافت کی گہری جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں

’’۔۔۔ ایک صاحب نے اپنے غلام کو، کہ صاحب طبع لطیف، بذلہ سنج تھا۔ حکم دیاجاکر بازار میں تاک لگائے۔ اگر انگور ہاتھ آئے تو فوراً خرید لائے۔ غلام نے ۔۔۔ کئی خوشے خریدے اور مٹر گشتی کرتے ہوئے خراماں خراماں آقا کے پاس لے گیا۔ وہ نہایت بددماغ ہوئے۔ فرمایا کہ ذرا سا کام اور یہ تاخیر اتنی دیر میں تو میں لندن ہو آتا۔ ایسا کاہل دیکھا نہ سنا۔ خبردار آج سے اگر ایک کام کو بھیجوں تو ہاتھوں ہاتھ چار کام انجام دے لانا۔ غلام نے دست بستہ عرض کیا کہ پیرو مرشد! اس مرتبہ معاف فرمائیں۔۔۔ دوسرے دن خواجہ کسی زبان دراز، اور گستاخ ، کنیزکے عشوہ پرواز پر ایسے گرمائے کہ تَپ چڑھ آئی۔ غلام کو حکم دیا کہ کسی طبیب لبیب کو بلائو۔ وہ فوراً گیا اور طبیب کے علاوہ اور چند آدمیوں کو بھی ساتھ لایا۔ خواجہ نے پوچھا کہ یہ جماعت کیسی ہے۔۔۔ غلام نے بصد ادب عرض کی کہ خداوند! حضور تو بھول بھول جاتے ہیں۔ ابھی تو کل ہی تاکید اِکید کی تھی کہ اگر ایک کام کا ارشاد کروں تو کئی کام بعجلت تمام سر انجام دے لانا۔ الامرفوق الادب۔۔۔۔ حکیم جی کو حسب الحکم بلا لایا کہ تشخیص مرض کر کے معالجہ کریں اور اُدھر ہی سے لپکا ہوا گیا ، مطرب خوش الحان کو ساتھ لایا کہ اگر خدا وند عروس صحت سے ہم آغوش ہوں تو قول کی خوش آوازی اور ناخن بازی، سے بزم طرب آراستہ ہو۔ غسّال کو بھی لیتا آیا کہ زندگی کا کیا بھروسہ، اگر پیک اجل حضور کو خلد علیین کی سیر دکھائے تو غسّال جھٹ پٹ غسل دے دے۔ اُدھر سے ایک شاعر جادو بیان اور طلیق اللسان کو ہمراہ لیا کہ مرثیہ موزوں کرے۔ اب باقی کون رہا۔ گورکن۔ وہ بھی بات کی بات میں آن موجود ہوگا۔ مطمئن رہیے۔‘‘  11

مقالے کی طوالت کے باعث رہن سہن، فنون لطیفہ، شادی بیاہ وغیرہ کے اقتباسات نہیں پیش کیے جاسکے، لیکن ’فسانۂ آزاد‘ کے مطالعے کے بعد بلاجھجھک یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس میں لکھنوی ثقافت اپنی تمام جلوہ سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ مثال کے طور پر بامحاورہ بات چیت، وضع قطع، لباس، عقیدہ، ضعیف الاعتقادی، محرم، چہلم، میلے ٹھیلے کے مناظر، چوک، بازار، مشاعرہ، سواری، مکانات، راگ و رنگ کی مجلسیں وغیرہ۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ اگر قارئین لکھنوی ثقافت کا نقشہ دیکھنا چاہتے ہوں یا اسے سمجھنا چاہتے ہوں بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اسے محسوس کرنا چاہتے ہوں تو انھیں ’فسانۂ آزاد‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

حواشی

  •        بحوالہ ہندی ادب کے بھگتی کال پر مسلم ثقافت کے اثرات، ڈاکٹر سید اسد علی، مترجم ڈاکٹر ماجدہ اسد، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، 1991، ص20
  •        ایضاً، ص 21
  •        ہندوستانی تہذیب اور اردو ، شبنم سبحانی ، سرسید بک ڈپو، علی گڑھ، 1972، ص 11
  •        ہندوستان میں مشرقی تمدن کا آخری نمونہ یعنی گذشتہ لکھنؤ، عبدالحلیم شرر، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی، 2011، ص 13
  •        فسانۂ آزاد، پنڈت رتن ناتھ سرشار، جلد اول، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، 2002، ص 14
  •        ایضاً، ص 24     7       ایضاً، ص81-82
  •        ایضاً، ص66      9       ایضاً، ص 507-508
  •      ایضاً، ص 775  11     ایضاً، ص 36-37

Dr. Sajid Zaki Fahmi

Guest Faculty, Dept of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

Mob.: 8527007231

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں