اردو
شعروادب کا دامن کافی وسیع ہے اردوشعری و نثری اصناف کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا
ہے۔ حصہ نظم اور حصہ نثر اورحصہ نثر کو بھی افسانوی اور غیر افسانوی ادب میں تقسیم
کیا گیا ہے۔حصہ نظم میں نظم، غزل، رباعی، مرثیہ، قصیدہ، مثنوی، قطعہ، گیت، ہائیکو،
دوہا، ترائیلے، ماہیا، سانیٹ وغیرہ شامل ہیں۔ حصہ نظم سے سانیٹ بھی ایک صنف ہے یہ اطالوی،
مغربی صنفِ سخن ہے جو چودہ مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اطالوی شاعر پیٹراک
نے اس صنف کو تکمیل بخشی اور رواج دیا۔ اردو میں سانیٹ کو اختر شیرانی نے متعارف کروایا۔
ن م راشد، عظمت اللہ خاںنے بھی پہلے پہل سانیٹ لکھے تھے۔
سانیٹ
کی تعریف اور اس صنف کی ہیئت کے متعلق پروفیسر احتشام حسین نے لکھا ہے
’’سانیٹ،
غنائی داخلی شاعری کی ایک قدیم صنف ہے جس کی روایت قدیم اطالوی شعرا تک پہنچتی ہے اور
غنائی شاعری، شاعری کی ان بنیادی قسموں میں سے ہے جس کی کوئی تاریخ نہیں۔ غالباً یہ
انسانی جذبے کی وہ فطری پکار ہوگی جس کے لیے لفظ و حرف بھی بعد میں وضع کیے گئے ہوں
گے۔ سانیٹ چودہ مصرعوں کی ایک ایسی نظم ہے جس میں ایک بنیادی جذبہ یا خیال دو ٹکڑوں
میں پیش کیا جاتا ہے اس کا ہیئتی تصور مختلف اوقات میں تبدیل بھی ہوتا رہاہے لیکن کسی
نہ کسی شکل میں اس کی یہ بنیادی خصوصیت برقرار رہی ہے کہ اس میں محض داخلی جذبے کو
ایک مکمل خیال بناکر پیش کیا جائے اور چودہ مصرعوں کو ایسے دو بندوں میں تقسیم کیا
جائے کہ اس کے پہلے آٹھ مصرعوں میں خیال کا پھیلاؤ ہو اور بعد کے چھ مصرعوں میں اس
کی تکمیل۔ اس کا رواج پندرہویں صدی سے فرانس اور انگلستان میں ہوا۔‘‘1
سانیٹ
اطالوی لفظ سانیٹ سے بنا ہے جس کے معنی مختصر آواز یا راگ کے ہوتے ہیں، سانیٹ دراصل
ایک قسم کا راگ(نغمہ) ہے جو وحدت خیال کا مکمل ترین اظہار ہے۔ سانیٹ میں خیال کے تسلسل،
زبان کی شیرینی، اظہار کی روانی کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔ سانیٹوں کی بحریںمخصوص
ہیں۔ سانیٹ میں مصرعوں کی تعداد اور قافیوںکا اہتمام ہوتا ہے۔
سانیٹ
کے فن کی خصوصیت، اسلوب نگاری، نظم اور غزل کے فرق کو واضح کرتے ہوئے عزیز تمنائی رقمطراز
ہیں
’’سانیٹ
کا فن اتنا ہی دشوار ہے جتنا کہ ایک گوہر تراش کی نفیس و نازک کاریگری، بڑے سے بڑے
خیال کو ایک مختصر نظم میں سمودینا گویا سمندر کو صراحی میں بند کرنا ہے۔ کم سے کم
الفاظ کا چناؤ، طریقہ اظہار میں ایجاز اور اسلوب بیان میں ارتقا کو مدنظر رکھنا یہ
ساری باتیں سانیٹ کے شاعر کے لیے ضروری ہیں۔اردو زبان میں سانیٹ ایک پل ہے جو غزل اور
نظم کی درمیانی خلیج کو پاٹتا ہے۔ اس میں غزل کی اشاریت،اس کا رچاؤ، اس کی گہرائی،
اس کی پنہائی بھی موجود ہے اور نظم کا تسلسل، اس کی ہم آہنگی، اس کا داخلی و خارجی
تناسب، اس کا محاکاتی انداز بھی۔ غزل اور نظم کی تمام اہم خصوصیات کا یہ حسین امتزاج
سانیٹ کو ایک انوکھی خوبی عطا کرتاہے۔‘‘2
انگریزی
ادب میں سانیٹ کو ایک خاص مقام حاصل ہے، انگریزی ادب میں سانیٹ کی تین اقسام ہیں، پٹراری
سانیٹ، شیکسپی سانیٹ اور اسپنری سانیٹ۔ سانیٹ کے لیے بحر کا انتخاب ضروری ہے، بحریں
طویل نہ ہوں۔ عزیز تمنائی کی سانیٹ میں درمیانی بحروں کا استعمال نظر آتا ہے،ان کی
سانیٹوں میں انگریزی اد ب کی ان اقسام کی درجہ بندی نظر نہیںآتی۔
یہ
صنف یوروپ میں کافی مقبول ہوئی۔ اردو ادب میں سانیٹ نئی صنف ہے، اس صنف پر کم ہی شعرا
نے طبع آزمائی کی ہے۔ جن شعرا نے اس فن میں طبع آزمائی کی ہے ان میں عزیز تمنائی
کانام نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے اس صنف کو اردو میں بام عروج پر پہنچایا
ہے۔ اردوزبان وادب میں اردو سانیٹ کا پہلا مجموعہ بھی عزیز تمنائی نے ہی لکھا تھا جو’
برگ ِنو خیز‘کے نام سے جولائی 1963 میںدار التصنیف مدراس نے نوری پریس۔ مدراس سے شائع
کیا تھا۔عزیز تمنانی نے اردو سانیٹ کے اس پہلے مجموعے کو’ برگ سبز‘ کے نام سے شائع
کرنے کا ارداہ کیا تھا اس کے کچھ صفحات شائع بھی ہوگئے تھے لیکن ان کو اطلاع ملی کہ
حیدرآباد سے اس نام سے کوئی شعری مجموعہ شائع ہوچکا ہے تب ہی انھوں نے اپنے مجموعے
کانام تبدیل کردیا اور ’برگ ِنو خیز‘ کے نام سے شائع کیا۔
عزیز
تمنائی کا مکمل نام عزیز الرحمن تھا اور تخلص تمنائی 19جنوری 1926 کو ولتور، مدراس(ٹاملناڈو)
میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد عزیز تمنائی نے مدراس یونیورسٹی سے ایم
بی بی ایس میں امتیازی کامیابی حاصل کی اور شعبہ طب میں اپنی خدمات کا آغاز کردیا۔
ان کو بچپن سے ہی شعر و ادب سے دلچسپی تھی،کم عمری یعنی 13سال کی عمر 1938 سے ہی شاعری
کا آغاز کردیا تھا۔ ابتدا میں انھوں نے غزلیں لکھی اورمشاعروں میں پڑھی، بعد میں نظم
گوئی کی طرف متوجہ ہوئے وہ علامہ اقبال کی شاعری سے متاثر تھے، ان کے ہم عصر شعرا میں
ن م راشد، میراجی،اختر شیرانی کا شمار ہوتا ہے۔
عزیز
تمنائی کو مطالعے کا بے حد شوق تھا وہ بڑی گہرائی سے ادب کا مطالعہ کرتے تھے۔ انھوں
نے انگریزی اور یوروپی ادب کا بھی خوب مطالعہ کیااور قدیم و جدید شاعری کی اصناف کو
بھی خوب پڑھا اور متاثر ہوکر اردو میں سانیٹ لکھنے لگے۔ اردو میں سانیٹ کو وہ مقبولیت
حاصل نہیں ہوئی جو یوروپ میں اس کو حاصل ہے۔ انھوں نے کچھ عرصے کے لیے سانیٹ لکھنا
ترک کردیاتھا۔پھر دوبارہ سانیٹ کی طرف متوجہ ہوئے انھیں یہ صنف داخلی کیفیات کے اظہارکے
لیے بہت مناسب نظر آئی اور انھوں نے اس صنف میں خوب طبع آزمائی کی اور ان کے قلم
سے اردو سانیٹ کا پہلا مجموعہ ’برگ ِنو خیز‘ سابق نام ’برگ سبز‘ کو وجود حاصل ہوا۔
ڈاکٹر
وزیر آغا نے اردومیں سانیٹ کے عنوان سے عزیز تمنائی کے فن سے متعلق لکھا ہے کہ
’’اردو
میں سانیٹ کو اختر شیرانی اور ن، م، راشد نے رواج دیا تھا لیکن اس صنف کی مقبولیت جناب
عزیز تمنائی کی مساعی کا نتیجہ ہے۔ فی الواقعہ آج اس صنف کے نام لیواؤں میں عزیز تمنائی
کا نام سر فہرست ہے۔ ان کے سانیٹ فنی لحاظ سے کامیاب اور شعری کیفیات کی تازگی اور
ندرت کے اعتبار سے بہت خوبصورت ہیں۔‘‘3
اردو
میں سانیٹ کو متعارف کرنے کا سہرا اختر شیرانی کو حاصل ہے ان کے ساتھ ن م راشد کا نام
بھی لیا جاتا ہے۔علیم صبا نویدی نے اپنی کتاب ٹمل ناڈو کے مشاہیر ادب میں لکھا ہے کہ
’’یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سانیٹ کا اولین نمونہ پیش کرنے والے عظیم الدین احمدہیں،ان
کا سانیٹ فریاد عظیم اردو کا پہلا سانیٹ ہے جو رسالہ نگار بزم کلکتہ شمارہ ما ہ اکتوبر1913
میں شائع ہوا۔
عزیز تمنائی کی سانیٹ میں معنویت، اشاریت اور رمزیت
بھی پائی جاتی ہے اس صنف میں انھوں نے استعارہ و تشبیہات کا خوب اور بہتر استعمال کیا
ہے ان کی شاعری میں جدید میلانات اور اسالیب بیان اعتدال و توازن سے نظر آتے ہیں۔
عزیز
تمنائی کی شاعری اور میلانات سے متعلق محمود ایازنے لکھا ہے
’’عزیز تمنائی کی شاعری کی عمر چالیس برس سے زیادہ
ہی ہوگی۔ اس عرصے میں فکر و اظہار کی کئی تبدیلیاں اردو شاعری میں آئیں اور عزیز تمنائی
ان تبدیلیوں سے غافل یا نا آشنا نہیں رہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور بے
حد مقبول اور ہر دل عزیز ڈاکٹر۔ اس پیشے کی مصروفیات سے جتنا کچھ وقت مل سکتا تھا وہ
انھوں نے شعرو ادب کی نذر کیا، اور اس طرح شاعری کے نئے میلانات اور اسالیب بیان سے
وہ اجنبی نہیں رہے۔ آزاد نظمیں بھی انھوں نے لکھی ہیں، لیکن سانیٹ کو انھوں نے بطور
خاص اپنے اظہار کے لیے منتخب کیا اور اس وفاداری کو پوری استواری سے آج تک نبا ہے
جار ہے ہیں۔ ان کے سانیٹوں کا ایک مجموعہ برگ ِنو خیز کے نام سے آج سے کوئی تیس سال
پہلے شائع ہوا تھا۔ اور ہندو پاک کے ادبی حلقوں میں اس کی اچھی پذیرائی ہوئی تھی۔‘‘4
عزیز
تمنائی کے سانیٹوں میں جذبات اور احساسات کا برمحل اظہار ہوتا ہے،ان کے خیالات و افکار
کی آمیزش کا اظہار بھی نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان کے سانیٹوں میں علامات
و اشارے، استعارے، تشبیہات اور تمثیلوں کو خوب محسوس کیا جاسکتا ہے۔برگ نوخیز سانیٹوں
کے مجموعے میں مختلف عنوانات پر کل 109 سانیٹ شامل ہیں جو عزیز تمنائی کے فن کا بھرپور
اظہار ہے۔
عزیز
تمنائی کے سانیٹ سے متعلق پروفیسر احتشام حسین نے لکھا ہے
’’دسمبر
سنہ 1959 میں مدراس جانے اور تقریباً ایک ہفتہ قیام کرنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ڈاکٹر
عزیز الرحمن عزیز تمنائی سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کی ذہانت، ادب نوازی اور خوش اخلاقی
ہی نے اس قدر متاثر کیا کہ میں ان کی شاعری سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کا وقت ہی نہ
نکال سکا۔ اب یہ خواہش اس طرح پوری کررہاہوں کہ میرے سامنے ان کے سانیٹوں کا پہلا مجموعہ
برگ سبز ہے، پڑھتا اور داد دیتا ہوں۔ ڈاکٹری کے مشغول پیشے کے ساتھ انھوں نے ذوق کی
اس کلی کو بھی تازہ و شاداب رکھاہے، یہ بڑی بات ہے۔‘‘5
عزیز
تمنائی نے صنف غزل سے پرے ہٹ کر سانیٹ لکھنے کی طرف توجہ کی سانیٹ کے میدان میں طبع
آزمائی کے ذریعے انھوں نے ثابت کیا کہ اردو شاعری کامیدان محدود نہیں ہے سانیٹ میں
بھی کھل کر اپنے خیالات و احساسات کا بھر پور اظہار کیا جاسکتا ہے یہ الگ بات ہے کہ
یہ فن تھوڑا دشوار ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے بڑے خیال کو ایک چودہ سطری نظم میں
پیش کرنا کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔
عزیز
تمنائی کے فن پر اظہار خیال کرتے ہوئے علیم صبا نویدی رقمطراز ہیں
’’عزیز
تمنائی صاحب نے سانٹیوں میں بھی آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ہوئے اپنے طور پر کچھ کر
گزرنے کی ہمت کی ہے اور بڑی حد تک کامیاب ہیں۔ ان کی سانیٹوں میں تغزل کی چاشنی بھی
ہے اور غزل کا مزاج بھی۔ وہ سانیٹ کی تخلیق میں اس مقام عروج پر پہنچ گئے ہیں جہاں
تک اچھے اچھوں کی رسائی اب تقریباً محال نہ سہی دشوار ضرور ہے۔ ان کے ہاں طویل بحروں
کی زیادہ سانیٹں ملتی ہیں جو عزیز تمنائی کے مزاج کی پوری طرح متحمل ہیں۔ اوسط طوالت
کی بحروں میں بھی کافی نکھار قائم رکھا ہے اور سانیٹ کے مزاج کو مجروح ہونے نہیں دیا
ہے‘‘ برگ نوخیز کا پہلا سانیٹ نعتیہ ہے جو اعلیٰ اظہار کی شان لیے ہوئے ہے۔ 6
اپنے
شعری مجموعے ’سرہانے کا چراغ ہے‘ میں عزیز تمنائی نے علامہ جمیل مظہری کے مکتوب سے
اقتباس کو شامل کیا ہے جس میں علامہ جمیل مظہری نے عزیز تمنائی کے فن کا اعتراف کیا
ہے اور لکھا ہے
’’آپ
کا ہرا بھرا ارمغان محبت ’برگ نوخیز‘ کی صورت میں موصول ہوا، لیکن یہ دیکھ کر کہ یہ
مجموعہ ہے سانیٹوں کا، پہلی نظر میں ایک وحشت سی پیدا ہوئی۔ اس لیے کہ میں ان لوگوں
میں ہوں جو فن اور ادب میں یوروپ کی اندھی تقلید کو ذہنی غلامی سمجھتے ہیں۔ بہرحال
بہ استکراہ تمام اس کی ورق گردانی شروع کی۔ لیکن جوں جوں ورق الٹتا گیا میری وحشت رغبت
سے بدلتی گئی۔ تقریباً ہر صفحہ ر نگین نے میری نگاہوں کو کچھ دیر ٹھہرائے رکھا اور
آخر میں یہ اعتراف کرنا ہی پڑا کہ تخیل کی ندرت اور فکر کی رعنائی ہر صنف میں اپنی
دُنیا آپ بنا سکتی ہے۔ آپ کا دائرہ فکر جو بھی ہو، لیکن آپ ایک عظیم فنکار ہیں۔
فطرت نے آپ کے ذہن کو وہ غیر معمولی روشنی دی ہے جس کی تابش نے جگہ جگہ میری آنکھوں
کو چوندھیا دیا۔ رنگ سازی اور معنی آفرینی کا ایسا حسین امتزاج دور جدید کے فن پاروں
میں میری نظر سے کہیں نہیں گزرا لیکن آپ کی کہی ہوئی ہر بات سمجھ میں آگئی۔‘‘7
بہرحال
اردو کی روایتی شاعری سے ہٹ کر عزیز تمنائی نے سانیٹ صنف میں بھر پور طبع آزمائی کے
ذریعے یہ بات ثابت کی ہے کہ دیگر اصناف سخن میں بھی مختلف موضوعات پر آزادانہ طور
پر اظہار کیا جاسکتا ہے۔انھوں نے اس صنف میں خیالات کے تسلسل اور زبان کی شرینی کو
ملحوظ رکھتے ہوئے سانیٹ لکھے ہیں،عزیز تمنائی کا شمار اردو کے بہترین سانیٹ نگاروں
میں ہوتا ہے سانیٹ کے حوالے سے وہ ایک مستند نام ہے۔
عزیز
تمنائی کے مجموعے میں سب سے پہلے نعتیہ سانیٹ کو شامل کیا گیا ہے جو ’اعتراف‘ کے عنوان
سے برگ نوخیزمیں شامل ہے ملاحظہ فرمائیں۔
تیرے دربار میں پہنچا ہوں بڑی دیر کے بعد
آستاں
دیکھے بہت اونچے، بہت پاکیزہ
کھینچ
کر لے گئی مجھ کو کشش حسن و جمال
محو نظارہ رہے قلب و نظر، خواب و خیال
میکدہ،بت کدہ، آتش کدہ، گھوم آیا ہوں
سرحد ارض و سماوات کو چوم آیاہوں
تیرے در لوٹ کے آیاہوں بڑی دیر کے بعد
میری پیشانی تاباں ہے ابھی دوشیزہ
نغمہ
و نور نے نکہت نے مجھے کھینچا تھا
فکر نے فن نے فراست نے مجھے سینچا تھا
عصر حاضر کے تقاضوں نے مجھے دی ترغیب
پھربھی ہر لمحہ رہا میں تری یادوں کے قریب
تیری رحمت کی جو ہو جائے نظر دیر نہیں
کہتے ہیں تیرے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں
عزیزتمنائی
کے اس نعتیہ سانیٹ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں کس طرح سے اعلی اظہار کو اس
صنف میں ڈھالاہے ان کی سانیٹوں میں شعری کیفیت اور فکری صلاحیت کا بھرپور اظہا ر ہوتا
ہے۔
عزیز
تمنائی کے سانیٹ ’ابن آدم ‘ کے عنوان سے ملاحظہ فرمائیے ؎
صاحبو! میں کوئی درویش نہیں پیر نہیں
کس
لیے کشف و کرامات کی امید فضول
نہ ملا میری دعاؤں کو ابھی رنگ قبول
میری باتوں میں ابھی لذت تاثیر نہیں
آہی جاتے ہیں جو کلمات حقائق لب پر
کیف و مستی میں کبھی حالت ہشیاری میں
عالم خواب میں یا عالم بیداری میں
یہ
نہ سمجھو کہ ہوں اک ہستی بالائے بشر
ابن
آد م ہوں اسی خاک کا پروردہ ہوں
جسکی عظمت سے ہوئے طور بھی فاراں بھی بلند
جس نے پھیلائی سوئے کاہکشاں اپنی کمند
میں اسی خاک کا اک ذرہ آوارہ ہوں
صاحبو! واسطہ سبحہ و زنار نہ دو
ذوق تقدیس کا مارا ہوا انسان سمجھو
عزیز
تمنائی کے سانیٹ کے موضوعات کافی دلچسپ ہیں انھوں نے بڑی محنت کے ساتھ انگریزی ادب
کی اس صنف کو پورے اہتمام سے اردو میں برتا ہے اور اپنے فن کے وہ نمونے پیش کیے ہیں
جس سے ان کے تخلیقی ذہن،جذبات و احساسات کا بھر پور اظہار ملتا ہے۔اس فن کی بدولت عزیز
تمنائی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
حواشی
- پروفیسرسید احتشام حسین،پیش لفظ،برگ نوخیز،1963
- عزیز تمنائی،سانیٹ کا تعارف،برگ نوخیز،1963
- ڈاکٹر وزیر آغا، شریک مدیر ادبی دنیا،لاہور،اردو میں سانیٹ، برگ ِنو خیز،1963
- محمود ایاز،حرفے چند،سرہا نے کا چراغ،ص۹
- پروفیسرسید احتشام حسین،پیش لفظ،برگ نوخیز،1963
- علیم صبا نویدی،مرتب جاوید حبیب،ٹمل ناڈو کے مشاہیر ادب،ص512
- اقتباس از مکتوب علامہ جمیل مظہری، پٹنہ،22 اگست1963
Dr.M A Azeez Sohail
TMRS Yakuthpura Boys1
Awaise Function Hall, Mughal Pura
Hyderabad- 500002 (Telanagana)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں