اردو دنیا، نومبر 2024
بنی نوع انسان
کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے
ہر پہلو پر تخلیقی عمل کا اثر بہت کارگر
ہوتا ہے، جدت پسندی میں وہ قوت ہے جو ہر انسان کی توجہ کا مرکز بنتی ہے ،
انوکھاپن انسان کو محظوظ کرتا
ہے، فطرتاً ہر انسان،شعوری یا غیر شعوری طور پراسی
کا طلب گا ر ہوتا ہے، عربی کا بہت مشہور مقولہ ہے ’کل جدید لذیذ‘ ہر نئی چیز لذت بخش ہوتی ہے۔ نیا پن ہر میدان پر راج کرتا ہے، چا ہے ادب ہو یا
سیاست یا مختلف ایجادات واختراعات، نئی چیز
کا پتہ لگتے ہی لوگ اسے دیکھنے اور اپنانے
کے در پے ہو جاتے ہیں۔ ایک عظیم انسان کی عظمت کا دار و مدار اس کی تخلیقات ہیں،
جو اس کو بلندیوں تک پہنچا تی ہیں۔ انسان کی بڑھتی ہو ئی آبادی نے ضروریا ت
زندگی کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کر دیا ہے، انھیں ضروریات نے ایجادات و تخلیقات
کا احاطہ کشادہ کردیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی
ایک طرف تخلیقات میں مدد کرتی ہے تو دوسری طرف عوام تک ان تخلیقات کی ترسیل میں برق رفتاری سے کام لیتی ہے، نتیجتاً
ہر میدان میں دن رات جدید مواد عوام کے حوالے ہورہے ہیں، تخلیقات، نئے نئے طریقے
اور جدید ٹیکنا لو جی کے پر
اثر استعمال نے درس و تدریس کو بھی کہیں سے کہیں پہنچا دیا
ہے۔ وہ اساتذہ جن کے پاس تخلیقی صلاحیت ہے
وہ آفاقی شہرت کے مالک ہوتے ہیں۔ ادب کا
مقصد ہی انسان کی روحانی اور ذہنی صلا حیت کو ابھارنا ہے ، بر ایں سبب ادب
کی تدریس سے بھی اس صلاحیت کو جلا ملنی چا
ہیے۔
تخلیق کیا ہے؟
تخلیق کا اطلاق وسیع طور پر انسان کی خود ساختہ صلاحیتوں
پر ہوتا ہے، اس کے دائرہ اثر گوناگوں ہیں۔ جیسے موسیقی، ڈرامہ، ادب، سائنس، ٹیکنالوجی،
یہاں تک کہ تجارت وحرفت اور معاشرت بھی اس میں شامل ہیں۔( ٹوملنسن)1
درس وتدریس
کااصل مقصد انسان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں
کو اجاگر کرنا ہے۔ بنی نوع انساں کو جن صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے ان میں سب سے اعلیٰ
تخلیقی صلاحیت ہی ہے، یہ ایک فطری صلاحیت
ہے اور ہر ایک کے اندر ودیعت کی گئی
ہے۔تخلیقی صلاحیت کے مالک نسبتا ً اعلی ٰیا ادنیٰ ہو سکتے ہیں، استاد درس و تدریس کے ذریعے ادنیٰ صلاحیتوں کے مالک کو اعلیٰ اور اعلیٰ تر بنانے کی سعی
کرتے ہیں ہے۔
ذیل میں تخلیق کی مختلف جہات کا جائزہ لیا جا رہا ہے:
• نیا
پن ، اصلیت، اختراع، جدت، ابداع، ایجاد،
انوکھاپن، غیرمعمولی، نرالاپن۔
• ماضی
کے واقعات سے مستقبل کے لیے ایک نیا نقش تیار کرنے کا نام تخلیق ہے۔( ٹوملنسن )
• فوراً،
بلا تاخیر، اضطراری، غیر ارادی، ازخود، بیرونی تحریک کے بغیر۔
• تخلیق
کار کہتے ہیں کہ ان کے اندر بصیرت اچانک آتی ہے( ٹوملنسن )
• تلاش، جستجو، تفتیش، تجسس، باطنی قوت۔
• ناقابل
تصور کو تصور میں لانے کی صلاحیت تخلیق ہے۔( ٹوملنسن )
• خداداد، القا، وجدان، کشف، بصیرت، وہبی تحریک، زندہ دلی۔(
ٹوملنسن )
تخلیق
کو خداداد صلاحیت مان لینے سے ذہن صرف اور صرف چند مخصوص لوگوں کی طرف مائل ہوتا
ہے، حالانکہ یہ صلاحیت ہر ایک کے اندر موجود ہوتی ہے، کسی کے اندر کم اور کسی کے
اندر زیادہ۔
دو الگ الگ چیزوں کے درمیان تعلق قائم کرنے کا نام تخلیق
ہے، ایک اچھا فن کار دو بعید اشیاکو اپنی
تخلیقی قوت سے منسلک کر دیتا ہے۔( ٹوملنسن )
استبصار (Visualization)
آئندہ ہونے والے واقعات کو ایک طالب علم پہلے ہی سے
متصور کر سکتا ہے، ایک اچھا مقرر تقریر
کرنے سے پہلے ہی تمام چیزیں متصور کر لیتا
ہے، جن سے وہ عملی طور پر تقریر کرتے وقت روبرو ہونے والے ہیں۔
منوج واسودیو ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:
’’میں آئندہ واقع ہونے والے ایک ایک فعل کا استبصار کرنے لگا ، میں جیت حاصل کرنے کا استبصار کرنے لگا، میری تقریر کو لوگ کس قدر توجہ سے سنیں گے، لوگ
میرے بارے میں کیا بات کریں گے، لوگوں کی
تالیوں سے گونج اٹھنے کا استبصار کرنے لگا،
میں اپنے ہاتھ میں ٹرافی (انعام)
کو کس طرح پکڑوں گا، یہاں تک کہ ٹرافی کے وزن کو بھی محسوس کرنے لگا۔‘‘
ایک ا چھامقرر عملی طور پر تقریر کرنے سے پہلے ہی اپنے
ذہن میں پوری محفل سجالیتا ہے، جیسے سامعین
کی تعداد، نشست و برخاست، ان کے اندر پنپنے والے جذبات کو بر انگیختہ کرنے والے طریقے
وغیرہ۔ وہ عملی تقریر کرنے سے پہلے ہزاروں بار تصوری تقریر کر چکا ہوتا ہے، ایسے
لوگوں کو مقابلے میں کامیاب ہونے سے کون روک سکتا ہے۔اسی طرح عظیم مصنف و شاعر، صدیوں بعد ہونے والے ممکنہ واقعات کو اپنی بصیرت سے محسوس کرکے ان کا
انکشاف کرلیتے ہیں ؎
سبک اس کے ہاتھوں میں سنگ گراں
پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگ رواں
علامہ اقبال نے مرد مومن یعنی Super man کے پاور کا تصور کر کے اس کی تصویر کشی کی تھی اور بعد میں بعینہٖ
ایسا ہی واقع ہوا ۔اس شعر میں کہا گیاہے
کہ بڑے بڑے بھاری پتھر اس کے ہاتھوں آسانی سے ٹوٹ جاتے ہیں اور اس کی ضرب کاری سے
پہاڑبالو کی طرح باریک ہو کر بکھر جاتے ہیں۔
ایسا کس نے کیا؟ چھینی اور ہتھوڑے سے پہاڑ کاٹ کر راستہ کس نے بنایا؟ علامہ اقبال
نے تصویر کشی کی اور دشرتھ مانجھی (The mountain man) نے
سچ کر دکھایا۔
کلاس
روم میں اس طرح کے باریک مسائل کو پیش کر کے طلبہ
کے اندر استبصار کے متعلق باریک بینی پیدا کی جا سکتی ہے نیز ا ن کو عملی
طور پر آس پاس ہونے والی اشیا کی عکاسی
کرنے کی تلقین کی جا سکتی ہے۔ ان کو فرضی طور پر کبھی پبلک اسپیکر، تو کبھی وزیر اعظم، کبھی ٹیچر، اورکبھی سماجی
کارکن بنایا جائے، اور پھر ان سے تقریر کرائی جائے۔ سماج کو اچھے اسا تذہ، سیاست داں، مصنف، مقرر اور سماجی کارکن، ہر ایک
کی ضرورت ہے۔ عملی طور پر یہ سب بننے سے پہلے کلاس روم میں ذہنی طور پر قابلیت کے
لحاظ سے اس طرح کی شخصیت سازی ضروری ہے۔
تصوراتی نظام قائم کرنے کا دلچسپ طریقہ
خدائے سخن میر تقی میر ایک طرف عوام وخواص کے شاعر ہیں
اور دوسری طرف شاعروں کے شاعر ہیں، ان کے والد نے ان کو عشق کرنے کی تلقین کی تھی،
ان کے یہاں تجربات عشق کی ایک دنیا آباد ہے،
وہ عشق کو دنیا کے معاملات سے الگ دیکھتے، بلکہ ان میں سمو دینا چاہتے ہیں:
’’اے
بیٹے عشق اختیار کر کہ (دنیا کے) اس کارخانے میں اسی کا تصرف ہے، اگر عشق نہ ہو، تو نظم کل کی صورت نہیں پیدا ہو سکتی، عشق کے
بغیر زندگی وبال ہے۔ دل باختۂ عشق ہونا
کما ل کی علامت ہے، سوز وساز دونوں عشق سے ہیں، عالم میں جو کچھ ہے، وہ عشق ہی کا ظہور ہے۔‘‘ (تاریخ ادب اردو (جلد دوم)، ڈاکٹر جمیل جالبی)
میر تقی میر کو یہ سکھایا گیا کہ دل باختۂ عشق
ہونا کمال کی علامت ہے۔ دنیا کے اس
کارخانے میں اسی کا تصرف ہے، جو کچھ بھی ہے وہ عشق ہی کا ظہور ہے۔ جب کوئی عشق
کرتا ہے، چاہے عشق حقیقی یا عشق مجازی
دونوں صورتوں میں معشوق سے متعلق خیالات کا ایک نظام قائم کرتا ہے، تصوراتی طور پر
معشوق سے باتیں، سیر وتفریح کرنا، اٹھنا بیٹھنا، ناراض کرنا، منانا اور خیالوں میں
گم ہو کر ایک نئی دنیا قائم کرتا ہے، یہ
تضییع اوقات نہیں ہے، یہ وقت کا صحیح
استعمال ہے، اس کے ذریعے ذہنی گوشے وسیع
سے وسیع تر ہوتے جاتے ہیں، نتیجتاً عاشق کسی
بھی مسئلے پر غور وفکر کرتا ہے، تو ایک
جہاں آباد کر دیتا ہے ؎
جب عشق سکھاتاہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
علامہ اقبال کا یہ شعر بھی اسی طرح کے نکتے کی غمازی
کرتا ہے۔ یہ بات بھی زیر غور ہے کہ جب کوئی انسان رومانس کی دنیا میں کچھ دیر تک سیر
نہیں کر سکتا، تو پھر کسی پیچیدہ مسئلے پر غور وفکر اور اس کے تمام پہلوؤں کو کیسے
حل کر سکتا ہے۔
مسائل کا حل
ہمارے نظام تعلیم میں جس طرح کے مسائل کو حل کرنے کی
کوشش کی جاتی ہے، وہ محض نمبرات و الفاظ کے ہیر پھیر ہیں۔ جن کا حقیقی
زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ملک میں ایک
اچھی خاصی تعداد ان طلبہ کی ہے، جو مختلف
مقابلہ جاتی امتحانات میں اسی طرح کے مسائل کو حل کرنے میں اپنی عمر ضائع کر
رہے ہیں۔ اب تو ان مسائل کو حل کرنا بھی
خود اپنے آپ میں ایک مسئلہ ہے۔
اصل مسائل تو حقیقی زندگی کے مسائل ہیں، جن پر مہارت حاصل کر کے خود اپنی اور ملک وملت
کی ترقی ہو سکتی ہے، مثلا دست کاری، فنون لطیفہ پر مہارت، سماج کے مختلف مسائل پر
غور وفکر کرنے کے بعد بولنے، لکھنے اور انھیں حل کرنے کی مہارتیں اس میں شامل ہیں۔
لیکن
حقیقی مسائل تو وہ تصوراتی مسائل ہیں، جو بظاہر کوئی مسئلہ ہی نہیں مثلا بڑھتی ہوئی آبادی کو دیکھتے ہوئے، کوئی یہ
کہے کہ فضا میں گھر ہونا چاہیے اور اس
مسئلے کو جو بظاہر کوئی مسئلہ ہی نہیں،
غور کریں تو بہت سارے امکانات نظر آتے ہیں، مثلا یہ کہ بادل لاکھوں ٹن وزنی ہو نے کے با و جود فضا میں معلق ہے، تو سوکلو
کا انسان ایک گھر بنا کر کیوں نہیں رہ سکتا۔ نیز بادل میں بغیر کسی پائپ کے اتنا پانی جمع ہوتا ہے، اور
ہوائی جہاز بادل کے کلیجے کو چیر تے ہوئے نکل جاتا ہے، پھر بھی ایک قطرہ تک نہیں گرتا، لیکن جب بارش
ہونی ہوتی ہے اور جہاں ہونی ہوتی ہے، ہو
جاتی ہے، تو جب فضا میں اتنے سارے عوامل سرگرم عمل ہیں تو پھر وہاں انسان کے بسنے
کے امکا نا ت کیوں نہیں؟۔ ان مسائل پر بات کرنا
ایک ادیب کا کام ہے اور سائنس داں کی ذمے داری حقیقت میں عمل کر دکھانا ہے۔
اشکال ستہ کی مشق
ق،م،ر،ایک مادہ ہے اب اگر اسے ہیئت ممکنہ کی طرف تبدیل
کرتے جائیں تو چھ صورتیں بنتی ہیں:
ان چھ الفاظ میں سے ہر لفظ با معنی ہے اور ساتویں ہیئت کا کوئی امکان نہیں
ہے، اسی کے ساتھ اگر گہری نظر سے معانی
ستہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ الفاظ ستہ کے عام معانی ایسے قرار دیے جا سکتے ہیں،
جو ہر ایک میں قدر مشترک کا حکم رکھتے ہوں، مثلا ً بہ آہستگی ظاہر ہونا ۔
اسی طرح نالج
کے لیے اردو میں علم کا استعمال ہوتا ہے،
اسے اگر ہیئت ممکنہ کی طرف تبدیل کرتے جائیں تو۔
علم :جاننا
عمل:کام کرنا
لعم:لعاب دہن
لمع:چمکنایا روشن ہونا
ملع:تیز وسبک چلنا
معل:کام میں جلدی کرنا
اس عمل سے کلاس میں کھیل کھیل میں بچے الفاظ کی ذخیرہ
اندوزی کر سکتے ہیں، نیز باریک بینی سے
معانی کے درمیان تعلقات قائم کر سکتے ہیں،
ظاہری معانی کے ساتھ ساتھ باطنی معانی پر بھی غور و فکر کر سکتے ہیں۔ (المبین:
علامہ سلیمان اشرف بہاری)
مزاحیہ عنصر
آج کل بیشتر لوگ جذباتی، ذہنی تناؤ اور مشقتوں سے
دوچار ہیں، ان کے اضمحلال کو دور کرنے کے لیے
ملک کے مختلف مقامات پر لافٹر تھریپی
کلب کا انتظام ہے، جہاں ہنسنے کی
تربیت دی جاتی ہے، اس کے علاوہ تفریح کے ذرائع فلم، ڈرامے ،موسیقی،سونگ،مختلف ریڈیو
پروگرام، سوشل میڈیا وغیرہ اسی نوعیت کے ہیں،
لیکن ان سب سے وقتی خوشی کی حصولیابی کے بعدانسان مغموم ہو جاتا ہے، یہ Allopathy دوا کی طرح ہے جس کا سائڈ افیکٹ بہت زیادہ ہے، اس لیے اس طرح کی
محفل میں شامل ہونے کے بجائے اپنے کام کو ہنسی کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ہر کام کو کھیل
کھیل میں کیا جا سکتا ہے اور ہر کوئی کر سکتا ہے۔
’’ہنسی آنے کا سبب دومتضاد اشیاکا ایک جگہ
جمع ہونا ہے، جوتوقع اور امر واقع کے درمیان ہو اور اچانک
نظر کے سامنے آجائے۔‘‘
’’مزاح زندگی کی ناہمواریوں پر ہمدردانہ غور
وفکر کرنے اور ان کے فنکارانہ اظہار کا نام ہے۔‘‘
’’انسان جس نہج سے سوچ رہا ہے اسے بار بار
پلٹا دینا، اسے تعجب میں ڈال دینا اور نتیجتاً بار بار ہنسا دینایقینا ایک تخلیقی
عمل ہے۔‘‘
(اردو کی مزاحیہ صحافت: ڈاکٹر فوزیہ چودھری)
ماں کا خواب
میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے میرا اضطراب
یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں
لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال
قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال
جو کچھ حوصلہ پاکے آگے بڑھی
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی
زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے
دیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے
وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں
خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں
اسی سوچ میں تھی کہ میرا پسر
مجھے اس جماعت میں آیا نظر
وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
دیا اس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا
کہا میں نے پہچان کر میری جاں
مجھے چھوڑ کر آگئے تم کہاں
جدائی میں رہتی ہوں میں بیقرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کا ہار
نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی
گئے چھوڑ اچھی وفا تم نے کی
جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب
دیا اس نے منھ پھیر کر یوں جواب
رلاتی ہے تجھ کو جدائی میری
نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی میری
یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چپ رہا
دیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا
سمجھتی ہے تو ہو گیا کیا اسے ؟
تیرے آنسوؤں نے بجھایا اسے !
طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے مذکورہ
بالا نظم کی تدریس میں بہت ساری سرگرمیاں ہو سکتی ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں:
بلند خوانی
• نظم
عورت کی آواز میں پڑھی جائے ۔
• مختلف
اوقات اور مختلف اشیا کی وجہ سے آواز ہونی چاہیے۔
تصویر کشی
• منفرد
تصاویر،مثلا پسر اور قدم وغیرہ کی تصاویر ۔
• متحرک
تصاویر مثلا چلنا،دیا جلنا،اشک بہانا
،کہنا،رونا،لرزنا ۔
• اجتماعی
تصاویر مثلا جماعت، لڑکوں کی قطار ۔
ڈرامائی کیفیت
نظم کا پلاٹ کلاس روم میں عملی طور پر ڈرامائی انداز میں
پیش کیا جائے۔مثلا خواب سنانا، لڑکوں کو
قطار میں کھڑا کرنا، سب کے ہاتھوں میں دیا جلتا ہوا دکھانا،
لڑکے کا جماعت میں سب سے پیچھے ہونا اور ہاتھ میں دیا کا نہ جلنا۔
فکری عنصر
اس نظم میں دیا
نہ جلنے کی وجہ ماں کے آنسو کو کیوں
بتایا گیا ہے ؟
احساسات
کلاس روم کا
ماحول ایسا ہوناچاہیے کہ نظم میں جو کچھ کہا گیا ہے، بچے
اسے خود اپنی ذات میں محسوس کریں۔مثلا اضطراب کی کیفیت ، دہشت، اندھیری رات
اور راستہ بھی نہیں معلوم ، اچانک پسر کی
تمثیل کر رہے لڑکے کا نظر آ جانا ،جدائی کی وجہ سے رونے کی کیفیت۔
Mohd Noor Islam
Research Scholar, Dept of Educational
Studies
Jamia Millia Islamia
New Delhi- 110025
Cell.: 8802933134
nooremisbahi786@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں