10/12/24

اردو اساتذہ کی صلاحیت سازی، مضمون نگار: عارفہ بشریٰ

 اردو دنیا، نومبر2024


اسکولی طلبا و طالبات ملک و قوم کی امانت ہیںلیکن اس امانت کی حفاظت اور ترقی کے معاملے میں ہم اردو اساتذہ کتنی دیانت داری سے کام لے رہے ہیں؟ اور خود ہمارے اندر اپنا فرض منصبی ادا کرنے کی کتنی صلاحیت (Experties,Qualities) ہے،یہ سوال ابتدائی سے لے کر اعلی تعلیم تک سے وابستہ ہم تمام اساتذہ کے لیے ایک ’چیلنج ‘ کا حکم رکھتا ہے۔

آج کی تاریخ میں اپنی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے صرف اردو ہی نہیں بلکہ دوسری دیسی اور مغربی زبانوں میں ہونے والے ریسرچ اور زبان و ادب سے متعلق نئی اور غیر روایتی معلومات کی واقفیت بھی لازمی ہے۔اس سلسلے میں،میںیہ کہنا چاہوں گی کہ اساتذہ کی صلاحیتوں میں اسی وقت اضافہ ممکن ہوگا جب وہ مطالعے اور تدریس میں روایتی طریقہ کارکے بجائے تازہ ترین وسائل کمپیوٹر، گوگل، یوٹیوب، فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام اور دیگر سائنسی اور تکنیکی اجتہادی ذرائع اور طریقہ کار اپنائیں۔

آج کی ایک بڑی سچائی یہ بھی ہے کہ لوگ اونچی سے اونچی ڈگریاں لے کر اسکول  اورکالج میں استاد کے منصب پر فائز تو ہو جاتے ہیں لیکن ایسے اردو اساتذہ کی کمی نہیں ہے جو اپنی ’ڈگری کو Justifyکرنے کی بھی تشفی بخش صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کی کئی وجہیں ہو سکتی ہیں،کچھ تلخ بھی اور تیز بھی۔چونکہ ’’بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی‘‘ لیکن دور تک جاکر ہی ہم اردو زبان اور ادب کے حوالے سے اردو اساتذہ کی صلاحیت سازی کے لیے عملی اقدامات کر سکتے ہیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ اس موضوع کے بارے میں ہم سب مل جُل کر غور و فکر کریں۔ یہاں ایک بات سے تو ہر شخص اتفاق کرے گا کہ علم و ادب ہو یا سائنس اور ٹکنالوجی یا اور بھی کوئی شعبہ علم،کوئی بھی شخص نہ تو مکمل ہوتاہے اور نہ ہو سکتا۔ بڑے سے بڑے ماہر فن میں بھی کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی کمی رہ ہی جاتی ہے۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ     ؎         

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا

لہٰذا تعلیم کے میدان میں بھی کوئی شخص اپنے مضمون (Subject) میں کتنا بھی بے مثال کیوں نہ ہو،اسے بھی وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی معلومات اور مہارت کو ’اپ ٹو ڈیٹ (Up to Date)  کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس زاویے سے اگر دیکھا جائے تو صلاحیت سازی کی ضرورت صرف اسکول کے  اردو اساتذہ کو ہی نہیں کالج اور یونیورسٹی کے تمام موضوعات کے اساتذہ کے لیے بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ہر بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ زندگی اور زمانے کے ساتھ ساتھ علوم و فنون کے تقاضے بدل جاتے ہیں، قدریں بدل جاتی ہیں ’ڈسکورس ‘ اور آئیڈیالوجیز(Ideologies) بدل جاتی ہیں۔ مثلاً اردو زبان اور ادب کے آغاز و ارتقا کے بارے میں سر سید، حالی، شبلی اورمحمد حسین آزاد سے لے کر رام بابو سکسینہ، عبدالقادر سروری تک نے بہت کچھ لکھا ہے۔ لیکن ان کی بہت ساری معلومات پرانی ہو چکی ہیں۔ان کی جگہ جمیل جالبی، تبسم کاشمیری اور سلیم احمد سے لے کر شمس الرحمن فاروقی تک نے جو نئی اور تازہ ترین معلومات فراہم کی ہیں وہ نئی اور اضافی تحقیق پر مبنی ہیں اور ان کے مطالعے سے اردو اساتذہ اردو زبان و ادب کے بارے میں اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

اس بات کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ’زبان‘ کیا ہے ؟اس کے بارے میں ہر زمانے میں الگ الگ معنی مطلب اور وضاحتیں پیش کی گئی ہیںمثلابیسویں صدی کے وسط تک ’زبان‘‘ کے معانی بات چیت، بول چال، قول، بیان وغیرہ بتائے جاتے تھے۔ بعد میں لفظ زبان کی بناوٹ کے بارے میں کہا گیا کہ چند حروف کے بامعنی مجموعے کو ’لفظ ‘کہتے ہیں، لفظوں کے مجموعے کو جملہ اور جملوں کی ترتیب کو’ زبان‘ یا کلام کہتے ہیں۔ پھر بعد میں یہ کہا گیا کہ ’زبان ‘ انسان کے دہن یا مُنھ سے نکلنے والی بامعنی آوازوں Soundsکے مجموعے کا نام ہے یہ بھی کہا گیا کہ ہر لفظ کسی نہ کسی چیز کے بدلے میں لکھا یا بولا جانے والا ایک نشا ن ہوتا ہے اور ’زبان‘ ان نشانات کے مجموعے کا ہی نام ہے۔ ‘ یہ ساری باتیں اپنے اپنے وقت کے حساب سے اپنی جگہ درست ہیں لیکن 1960 کے بعد زبان کے بارے میں فرانسیسی ماہر لسانیات اور دانشور سوسئیر (Ferdinand De Saussure) نے ’زبان‘ کے بارے میں ایسے سارے تصورات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ زبان کوئی مستقل اورقائم بالذات (Substantive) چیز نہیں ہے۔اس کے بجائے سوسیئر نے زبان کا’نسبتی  (Relational) تصور پیش کیا جس کے مطابق کہ زبان چیزوں کو نام دینے والایعنی  (Nomenclature) کا نظام نہیں ہے بلکہ  معنی اور مطلب میں فرق (Difference) پیدا کرنے والے نظام کا نام ہے۔ سوسئیر کا یہ’ تصور زبان ‘اس کی مشہورکتاب ’عام لسانیات (A General Course In Linguistic)میں ملتا ہے جو پہلی بار 1960 میں انگریزی میں اور پھر دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو کر شائع ہوئی جن میں ہندوستانی زبانیں بھی شامل ہیں۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب ’ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ کے صفحات 59,60,61 پر اس کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اردو کے دوسرے ناقدین جن میں شمس الرحمن فاروقی، حامدی کاشمیری، وہاب اشرفی اور ناصر عباس نیر بھی شامل ہیں زبان کے اسی تصور کو اہمیت دیتے رہے ہیں۔ لیکن کیا پتہ کہ آنے والے وقت میں زبان کے اس تصور کو بھی بدل دیا جا ئے لیکن یہ بات اپنی جگہ طے ہے کہ زبان کے بارے میں صلاحیت سازی کے لیے مشرقی ماہرین لسانیات کے علاوہ مغرب کے دانشوروںسوسئیر، چامسکی،رومن جیکوبسن اور جولیا کرسٹیوا وغیرہ کے تصورات کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔

 اسی طرح ادب کیا ہے؟ اس کے بارے میں عربی،فارسی اور مغربی زبانوں میں مختلف اور متضاد، بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ادب کا تعلق ’ ادبی ذوق ‘اور وجدان (Intution) سے ہوتا ہے اس لیے دو اور دو چار کی طرح ادب کی کوئی ٹھوس،مستقل اور سب کے لیے قابل قبول تعریف بیان نہیں کی جا سکتی۔ اردو میں ان سب کا نچوڑ اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ کسی بھی بیش قیمت جذبہ یا احساس تجر بہ یا مشاہدہ کو ’ معنوی‘ اور ’صوری‘ اعتبار سے حسین اور بااثر الفاظ میں ادبی اصولوں کے مطابق بیان کیا جاتا ہے تو اس بیان کو ’ادب‘ کہا جاتا ہے۔ ادب جب بھی لکھاجائے گا وہ یاتو نظم یعنی شاعری کی شکل میں ہوگا یا نثر کی صورت میں۔ لیکن نظم اور نثر میں کیا فرق ہے ؟اس کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ ’کلامِ موزوں نظم(شعر) ہے اور کلام غیر موزوں ’نثر ‘۔ لیکن شمس الرحمن فارقی صاحب نے اپنی کتاب ’شعر غیر شعر اور نثر ‘ میں اس خیال کو رد کیا ہے اور لکھا ہے کہ شعر میں نثر کی اور نثر میں شعر کی خوبیاں ہو سکتی ہیں بلکہ ہوتی ہیں مثلاً رجب علی بیگ سرور کے نثری قصے ’فسانۂ عجائب ‘ میں اور کرشن چندر کے افسانوں میں شاعرانہ خوبیاں بھی ملتی ہیں۔ اسی طرح  میر حسن کی مثنوی ’سحرالبیان اور مرزا شوق کی مثنوی ’زہر عشق ‘میں اور علامہ اقبال کے بعض اشعار میں نثر کے عناصر ملتے ہیں۔  مثلاً         ؎

 بہانے سے جا جا کے رونے لگی

  خفا  زندگانی  سے  ہونے  لگی

 ……

مشورے ہو رہے ہیں آپس میں

 بھیجتے     ہیں     مجھے     بنارس    میں       

 اور اقبال  کے اس طرح کے شعر            ؎

جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ 

اس طرح کی مثالوں کی روشنی میںاساتذہ کو اپنی صلاحیت نکھارنے کے لیے یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ’شعر کسے کہتے ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ

 ’’شعر محض ہئیت ہے نہ تکنیک،صرف تجربہ ہے نہ مشاہدہ بلکہ ماہرانہ لسانی و عروضی ترتیب وتنظیم کے ساتھ ما فی الضمیریعنی من کی بات کے تخلیقی،با معنی اور اثر انگیز بیان کا کون سا پہلو تحریر یا کلام کو شعر بنا دے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ دوسری بات یہ کہ آپ سب کو پتہ ہے کہ اردو میں شعر و شاعری عربی اور فارسی سے ہوکر آئی، عرب میں ’دور جاہلیت‘ میں شاعری تو ہوتی تھی لیکن شاعری کی ہئیتیںیا شکلیں(Form)  مقرر نہیں تھیں۔ دوسری بات یہ کہ امرؤالقیس جیسے بڑے شعرا فحش شاعری کرتے تھے۔ دین اسلام کے عروج کے بعد شاعری میں اصلاح ہوئی،ایسی شاعری کی رسول اللہؐ نے مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ ایسے شعر کہنے سے بہترہے کہ آدمی ’قے‘ سے اپنا پیٹ بھرے۔ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اخلاق بگاڑنے والی شاعری اور فحش شاعری کرنے والے شعرا جہنم میں جا ئیں گے اور امرؤ القیس جیسا شاعران کی سرداری کرے گا۔ شعر کیا ہے اس کی سب سے جامع تعریف عربی دانشور قدامہ  بن جعفر نے اپنی کتاب ’نقد الشعر ‘ میں اس طرح پیش کی ہے کہ:

’’شعر وہ کلام موزوں ومقفٰی ہے جو کسی معنی پر دلالت کرے اور بالقصد لکھا جائے ۔‘‘

قدامہ بن جعفرنے ’بالقصد‘ کی شرط اس لیے لگائی کہ قران پاک کی آیات  نثر میں تو ہیں لیکن ان میں شعریت اور غنائیت کے بھی بھرپور عناصر ہیں،لیکن قران پاک کلام ربانی ہے، قصداً کہا گیا انسانی کلام نہیںہے۔ اردو میں آج تک شعر کی اسی تعریف کو مستند مانا جاتاہے۔               

دوسری مثال یہ دیکھیے کہ شاعری کی مقبول ترین صنف ’غزل ‘ ہے۔ پہلے کہا اور پڑھایا جاتا تھا کہ ’’غزل کے معنی عورتوں سے یا عورتوں کی باتیں کرنا ہے ‘اگر آج یہ بات مان لی جائے تو علامہ اقبال،فیض شہریار فاروق نازکی اور حکیم منظور سے لے کر رفیق راز اور شفق سوپوری تک سیکڑوں شاعروں کی غزلیں، غزل کے دائرے سے باہر ہو جائیں گی۔ اسی لیے آج یہ کہا جاتا ہے کہ’’ ہر وہ شعر غزل کا شعر ہو سکتا ہے جس میں کسی بھی مضمون کو عروض و بلاغت کی شرطوں کے مطابق نفاست، لطافت اورنزاکت کے ساتھ پرکشش انداز میں پیش کیا جائے۔ اسی طرح نثر اور نثری اصناف مثلاً افسانہ ناول، انشائیہ وغیرہ کے بارے میں بہت ساری نئی کتابیں آئی ہیں اور اساتذہ ان کے مطالعے سے بھی اپنی صلاحیت سازی کر سکتے ہیں۔ اردو اسا تذہ کی صلاحیت سازی کے لیے ضروری ہے کہ انھیں بہترین اور تربیت یافتہ اساتذہ کی رہنمائی حاصل ہو اور ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم اسکول کے اساتذہ کی تربیت کے معاملے میں کھرے نہیں اتر رہے ہیں۔ اسکول کے اردو اساتذہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی صلاحیت سازی کی جائے۔ لیکن یہ فرض کون ادا کرے ؟ اس سوال کا جواب بے حد دشوار ہے،اس لیے کہ آج کی تاریخ میں اعلی تعلیم سے وابستہ ایسے اساتذہ کی بڑی کمی ہے جو واقعی اسکول کے اساتذہ کی صلاحیت سازی کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہماری تعلیمی پالیسی میں کوئی کمی ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت،یونیورسٹی یابورڈ کی جانب سے معیاری تعلیم  (Quality Education) کو بڑھاوا دینے میں کوئی کمی رکھی جاتی ہے۔ پھر بھی شہریار کی زبان میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ         ؎

گھر کی تعمیر، تصور  ہی  میں  ہو سکتی ہے    

 اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے    

 لیکن اس کے باوجود بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت اور یونیورسٹی کی جانب سے تعلیم اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی میں کوئی کمی نہیں ہے۔U.G.C اور کئی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی جانب سے کئی طرح کے تعلیمی اور تحقیقی منصوبے اور پیشکش خاص طور پر ’صلاحیت سازی کے لیے بھی موجود ہیں۔ لیکن ان سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔

 

Prof. Arifa Bushra

Dean School of Arts

Languages and Literatures &

Head, Dept of Urdu

University of Kashmir

Sringar- 190006 (J&K)

Mob.: 9469018998





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...