27/3/23

اردو میں تحشیہ و تعلیق:مسائل اور حل: شاداب شمیم

 


لغت میں تحشیہ کے کئی معنی ملتے ہیں جیسے حاشیہ چڑھانا، کسی کتاب وغیرہ کا حاشیہ لکھنا،کنارہ یا حاشیہ بنانا وغیرہ اورادبی اصطلاح میں کسی شعر، شہر، لفظ،کتاب اوراشخاص وغیرہ کے مختصربیان یا وضاحت کو کہاجاتاہے، عام طور پر حاشیہ میں وہی چیزیں تحریرکی جاتی ہیں جنھیںمتن کا حصہ نہیں بنایاجاسکتا۔ اس کامادہ ح و ش ہے۔قدیم زمانے سے اس کاچلن رہاہے۔ خاص طورپر عربی کی درسی کتابوں میں اس کا رواج تو عام ہے۔اس کے ذریعے اصل ماخذ کی نشاندہی اورمختلف نکات کی تو ضیح بھی کی جاتی ہے۔ حاشیہ کومتنی حواشی،غیرمتنی حواشی،ترتیبی حواشی میں تقسیم کیاگیا ہے اوران کی کئی ذیلی اقسام بھی ہیں۔ اسی طرح تعلیق کا استعمال بھی حاشیہ کی طرح ہی ہوتاہے۔ اس کے لغوی معنی لٹکانا،کسی چیز کو دوسری چیز سے متعلق کرنا، حاشیہ، فٹ نوٹ، وضاحت وغیرہ ہیں۔ اس کے تحت متن سے متعلق اضافی معلومات تحریرکی جاتی ہیں۔ اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ استشہادی تعلیق، ارتباطی تعلیق، اضافیاتی تعلیق اور افادیاتی تعلیق وغیرہ ۔بعض محققین تحشیہ اورتعلیق کو الگ الگ استعمال کرتے ہیں اور بعض نے ان دونوں کو مترادف بتایا ہے۔  ڈاکٹر نذیر احمد تصحیح و تحقیق متن میں لکھتے ہیں

 ’’فرہنگ نامہ دہخدا سے معلوم ہواکہ حاشیہ اور تعلیقہ بہ اعتبار معنی ومفہوم یکساں ہیں،لیکن استعمال کے لحاظ سے ان میں کچھ فرق ہے،تعلیقہ معقولات اورفلسفہ کی کتابوں کے حاشیہ کو کہتے ہیں اوردوسرے فنون کی کتابوں میں تعلیقہ یا تعلیقات، حواشی یا حاشیہ کہلاتے ہیں۔‘‘

(تصحیح و تحقیق متنص53)

حواشی و تعلیقات کے استعمال کے متعلق خلیق انجم لکھتے ہیں

’’اب تک تعلیقات اور حواشی کا جو مفہوم بیان کیاگیاہے اس سے حواشی اورتعلیقات کے مفاہیم میں فرق کرنا مشکل ہوجاتاہے،اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم لغوی،فرہنگی اورادبی امو ر کی وضاحتوں کے سلسلے میں کچھ لکھیں تو ہماری تحریریں حواشی کے دائرے میں آئیں گی اوراگر متن کے تاریخی،سماجی یا ادبی واقعات کی تفصیل بیان کی جائے یا ان افراد کے حالات بیان کیے جائیں جن کا ذکر متن میں آیاہے تو وہ تعلیقات کہلائے جائیں گیــ۔‘‘(متنی تنقید ص103.104 )

ادبی تحقیق میں تحشیہ ا ور تعلیق کی بہت اہمیت ہے۔ اس کے بغیر اچھی اور معیاری تحقیق کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ آج  تحقیق کے نام پر تبصرہ، تنقید اور تجزیہ کو پیش کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ جب ہم آج کی تحقیق کو ادبی تحقیق کے معیار پر جانچتے اورپرکھتے ہیں اور یونیورسٹیز میں پی ایچ ڈی کے موضوعات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ واقعی اچھی اور معیاری تحقیق نہیں ہورہی ہے۔ہم خود نہیں چاہتے کہ عمدہ اور معیاری تحقیق سامنے آئے۔اسی لیے ہم ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جن پر یا تو پہلے سے موادبکثرت موجود ہوتا ہے یا پھر چبے چبائے لقموں کو نئے الفاظ و انداز میں پیش کردیتے ہیں، اگر آج ریسرچ کا معیار گرا ہے اور دن بہ دن ادبی ریسرچ اپنا وقار کھوتی جا رہی ہے تواس کے ذمے دارجس طرح ریسرچ اسکالرز ہیں اسی طرح اساتذہ اور نگراں حضرات بھی ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ آج ہر کوئی سہل پسند ہوگیا ہے، کتابوں کے مطالعے اور نئی نئی چیزوں کو اخذ کر نے کا ان کے پاس نہ تو جذبہ ہے اور نہ ہی وقت،اگریہی حال رہاتو وہ وقت دور نہیں جب ہماری تحقیق و ریسرچ کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں رہے گی اوراسے ردی کے حوالے کردیاجائے گا۔اس لیے ضروری ہے کہ ہر وہ طریقہ اورراستہ اختیار کیاجائے جس سے معیاری اور عمدہ تحقیق ہمارے سامنے آسکے۔

آج کے اسکالر ز حواشی وتعلیقا ت کی طرف اس لیے بھی متوجہ نہیں ہوتے کہ حواشی وتعلیقات انہی کتابوں پر لکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جوکلاسک کادرجہ رکھتی ہیں اور آج سے دوتین سوسال پہلے تصنیف یا تحریر کی گئی ہیں۔ اس وقت اردو زبان و ادب پر فارسی و عربی زبان کا غلبہ تھا، اس لیے اس وقت کی کتابوں اور تحریروں میں بھی ان زبانوں کا بکثرت استعمال ہواہے، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آج کے زیادہ تر اردو اسکالرز فارسی و عربی زبان سے ناواقف ہیں اور اگر واقف ہیں تومحض کچھ لفظوں اور جملوں سے، اور ظاہر ہے کہ ان سے تو فارسی و عربی عبارت کو سمجھ پانا کافی مشکل ہے۔مثال کے طور پر مکاتیب سر سید،غبارخاطر اوراس طرح کی دوسری کتابوں کا مطالعہ کرتے وقت یہ احساس ہواکہ ان میں بکثرت فارسی و عربی الفاظ و جملوں کا استعمال کیا گیاہے اور سرسیدکے کچھ خطوط تو ایسے ہیں جو اردو سے شروع ہوتے ہیں اور پھر بیچ میں ایک طویل پیراگراف فارسی زبان میں ہے اور پھر آخر کا پیراگراف اردو میں ہے،)خط بنام محسن الملک،مکاتیب سرسیدجلد1،ص155)تو اس سے اندازہ لگا یاجاسکتا ہے کہ جو اسکالر فارسی زبان سے ناواقف ہوگا وہ تو سر سید کے خط کو بھی کما حقہ نہیں سمجھ سکتا،اس لیے یونیورسٹیز میں حواشی وتعلیقات پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جانی چاہیے تاکہ ہم اپنی کلاسیکی اور پرانی کتابوں سے خاطر خواہ استفادہ کر سکیں اورانھیں عوام کے لیے مفید اور قابل استفادہ بناسکیں۔

 ہاں یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ حواشی و تعلیقات تحریر کرنا ایک مشکل امر ہے لیکن ناممکن نہیں،حواشی و تعلیقات تحریر کرتے وقت بہت سے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے سب سے پہلے تو یہی سمجھنے میں کافی پریشانی ہوتی ہے کہ حواشی و تعلیقات ہم معنی لفظ ہیں یا مترادف، اگر ہم معنی ہیں تو ان کا طریقہ ٔکار اور استعمال کہاں،کیسے اور کس طرح ہوتا ہے اور اگر مترادف ہیں تو پھر اس کا طریقۂ استعمال کیا ہے یا کیا ہونا چاہیے،کہاں پر اور کیسے اس کو پیش کیا جا سکتا ہے وغیرہ۔اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے یوجی سی کے ذمے داران نے کورس ورک میں حواشی وتعلیقات کو شامل کیا ہے۔طلبہ واساتذہ کو اسے بہتر طریقے سے پڑھنا اور پڑھانا چاہیے،جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اسکالرز اس موضوع سے مانوس ہوجائیں گے اوربہتر طریقے سے اس کا حق اداکرسکیں گے۔

حواشی و تعلیقات پر کام کرنا دشوار گزار اس لیے بھی ہے کہ متعلقہ موضوع پر مواد مختلف انسا ئیکلوپیڈیاز اور علوم وفنون کی کتب کے اوراق پلٹ کر جمع کرنا ہوتا ہے،اور آج اسکالرز کی سہل پسندی اس چیز کی عادی ہے کہ مواد دوچار کتابوں میں زیادہ سے زیادہ مل جائے اور تحقیق کا کام آسانی سے کم وقت میںپورا ہوجائے۔حالانکہ مختلف علوم وفنون کی کتابوں کی ورق گردانی ریسرچ اسکالر ز کے لیے بہت مفید ہے،نئی نئی چیزوں سے واقفیت ہوتی ہے، مختلف علوم و فنون کی اصطلاحات اور معلومات سے آشنائی ہوتی ہے اورریسرچ اسکالرز کی معلومات میں گراں قدر اضافہ ہوتا ہے۔

حواشی و تعلیقات تحریرکرنے کے لیے رسوم ورواج اور الفاظ و محاورات کی معلومات بھی بہت ضروری ہے، اس لیے کہ وہ کتابیں جو کلاسک کا درجہ رکھتی ہیں ان میں اردو کے ساتھ عربی و فارسی الفاظ و محاورات کا بکثرت استعمال ہواہے،محقق کے لیے ضروری ہے کہ اس کی نگاہ ان تمام چیزوں پرہو،جس سے کہ ان کے متعلق لکھنے میں اسے کوئی دشواری نہ ہو،اسی طرح پرانے زمانے میں جو علوم اور رسم ورواج رائج تھے اور اس وقت کی تہذیب اور طرز معاشرت کیا تھی اس پر بھی خاطر خواہ نگاہ ہونی چاہیے، اس لیے کہ بہت سے ایسے طریقے اور رسوم و رواج ہیں جو اس وقت تو رائج تھے لیکن آج ان کا چلن نہیں ہے،اس وقت وہ انسانی تہذیب و کلچر کا حصہ تھے آج نہیں ہیں۔ اس لیے حواشی و تعلیقات تحریرکرنے لیے مختلف علوم وفنون سے واقفیت ضروری ہے۔

اسی طرح پہلے کی کتابوں میں جو نام مندر ج ہوتے ہیں ان میں سے کچھ تو بہت مشہور و معروف ہوتے ہیں جن کی تفاصیل حاصل کرنا چنداں مشکل نہیں۔لیکن کچھ ایسے اسما بھی ہوتے ہیں جن تک رسائی بہت دشوار ہوتی ہے۔مثال کے طور پر مکاتیب سر سید کے مکتوب الیہم کچھ تو بہت مشہور ومعروف ہیں اور کچھ حضرات غیر معروف ہیں اسی طرح خط کے درمیان کچھ ایسے اصحاب کا نام آگیا ہے جو اس وقت مکتوب نگار اور مکتوب الیہم کے لیے معروف تھے لیکن آج ان کے سلسلے میں معلومات ملنا بہت مشکل ہے،اس لیے کہ امتداد زمانہ کی وجہ سے وہ لوگ پردئہ خفا میں چلے گئے،اس عدم واقفیت کی بناپر ایسی تحریروں کو پڑھتے وقت قاری متفکر رہتا ہے کہ یہ لوگ کون ہیں اور ان سے مکتوب نگار کا رشتہ یا تعلق کیا تھا۔اسی طرح کبھی کبھی صرف تخلص تحریر کیا جاتاہے اس سے بھی پریشانی ہوتی ہے کہ اگر صاحب تخلص مشہور ومعروف ہے تب تو اس کے متعلق معلومات آسانی سے مل سکتی ہیں لیکن غیر معروف ہونے کی صورت میں اس کی معلومات بہم پہنچانا کافی مشکل ہوجاتا ہے،اگر آج بھی ان شخصیات کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی گئیں تو جو چیز معلوم کرنا آج مشکل ہے آنے والے دنوں میں وہی ناممکن ہوجائے گا اور پھر کسی بھی صورت ان اشخاص کی شناخت ممکن نہ ہوگی، اس سے اردو ادب کا بڑا خسارہ ہوجائے گا اورپتا نہیں حوادث زمانے کا شکار ہوکر کتنے علوم و فنون،اشخاص و مقامات ضائع ہوجائیں گے۔

حواشی و تعلیقات کا تعلق پرانی کتب اور اخبارات و رسائل سے بھی ہے۔ بہت سی کتابوں کا ذکر پرانی کتابوں میں تو ملتا ہے لیکن آج وہ ناپید ہیں۔ اسی طرح مختلف اخبارات و رسائل جو اس وقت موجود تھے اور جن میں ادبا و شعراکی تخلیقات وغیرہ شائع ہوتی تھیں ان میں سے کچھ کے حالات و واقعات تو موجود ہیں اور کچھ کا ذکر صرف اس وقت کی کتابوں اور رسائل میں ہے،اگر ان کے سلسلے میں مزید معلومات حاصل کرناچاہیں تو پھر دوچار قدم چل کر ہی قلم خاموش ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ زیادہ تفصیل نہیں ملتی۔بہت سی اہم کتابوں کاعلم تو تذکرہ اورخطوط وغیرہ جیسی کتابوںکے مطالعے سے ہی ہوتا ہے۔

اس وقت کی تحریروں میں بہت سے حادثات، واقعات اورتحریکات کا ذکر ملتا ہے،اور ان کے متعلق بہت سے واقعات بھی مذکو ر ہیں، لیکن جب اس طرح کے واقعات وحادثات کی تحقیق کی جاتی ہے تو پھر راستے مسدود ہوجاتے ہیں اور چند قدم چل کر ہی محقق ہانپنے لگتا ہے۔ اس لیے کہ واقعات کا ذکر تو کتابوں میں ہے لیکن ان کی اصل تفصیل نہیں ملتی کہ یہ واقعہ کب، کہاں اورکیسے رونماہوا،اوراس کے اسباب وعلل کیاتھے۔اس لیے کہ جس طرح جستہ جستہ اردو زبان و ادب ترقی اور عروج کے منازل طے کر رہی تھی اسی طرح مغل حکمراں اورمغل حکومت اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہی تھی۔ انگریزوں اور مغلوں میں بہت سی ایسی جھڑپیں ہوئی ہیں جن کا تذکرہ جابہ جا ملتا ہے اسی طرح 1857 کا واقعہ بھی بہت مشہور ہے اور اس کے چشم دید تو غالب اور سر سید بھی ہیں لیکن پھر بھی ان کے مکاتیب میں کہیں کہیں کچھ ایسے اشارے ملتے ہیں جن کی تفصیل جانے بغیر مطلوب تک رسائی مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

ریسرچ اسکالر کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ وسائل کا بھی ہوتا ہے اس لیے کہ بغیر وسائل کے تحقیقی کام کیا جانا ناممکن امر ہے اور حواشی و تعلیقات ایسا موضوع ہے جس کے وسائل تک پہنچنے کے لیے تحقیق کے طالب علم کو بہت زیادہ تگ و دو اور محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے۔ ان وسائل میں سب سے پہلے ذہن مواد کی فراہمی کی طرف منتقل ہوتا ہے چاہے وہ کسی بھی نوعیت کا ہو، مواد کتابی شکل میں بھی ہوسکتا ہے اور رسائل و جرائد،اخبارات،قدیم مخطوطات،کتبے اور دیگر اشکال میں بھی۔اس لیے کہ کسی بھی کتاب پر تعلیقات یا حواشی لکھنے کے لیے بنیادی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ اس کے اصل مراجع و مصادر تک پہنچا جائے اور ان تک پہنچنے کا واحد ذریعہ مواد ہوتا ہے۔ یہاں طالب علم کو دو طرح کی دشواری ہوتی ہے پہلی تو مواد کی طرف نشاندہی کے سلسلے میں ہوتی ہے کہ ریسرچ اسکالر جس موضوع پر کام کر رہا ہے اس سے متعلق مواد تک کیسے پہنچے ؟ اور دوسری دشواری مواد تک پہنچنے کے بعدکی ہوتی ہے کہ اس مواد سے استفادہ کیسے کیا جائے ؟ کبھی تو وہ تحقیقی مواد اپنی زبان میں صاف و شفاف حالت میں مل جاتا ہے اور کبھی اس کی زبان کچھ اور ہوتی ہے یا اس کا خط کچھ اور ہوتا ہے جو اس زمانے میں رائج نہیں، اس وقت تحقیق کاطالب علم بہت سی پریشانیوں سے دوچار ہوتا ہے۔

اسی طرح وسائل میں کتابیں بھی شامل ہیں اس لیے کہ تحشیہ اور تعلیق کے لیے بہت سی کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے اور پرانی کتابوں میں ہمیں کئی زبانوں کی اصطلاحات، رسوم و رواج اور واقعات ملتے ہیں، ان کی توضیح و تشریح اس زبان کی کتابوں کو پڑھ کر ہی ممکن ہے اس لیے کتابیں بہ سہولت فراہم ہونی چاہیئیں،تحقیق میں مواد کی فراہمی ہر جگہ ضروری ہوتی ہے مگر حواشی و تعلیقات میں بغیر مواد کے ایک قدم بھی نہیں چلاجا سکتا،جس شخصیت،کتاب یاواقعے کے بارے میں لکھاجارہا ہے اس کے مستند ہونے کے لیے حوالہ و مآخذ کی اشد ضرورت ہے۔

عصر حاضر میں جب کہ کتابوں کے پڑھنے کا رواج کم ہو رہاہے،ہر چیز ڈیجیٹلائز کی جارہی ہے ایسے میں حواشی و تعلیقات کی ضرورت و اہمیت دو چند ہو گئی ہے۔ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو اس بات کی طرف دھیان دیناچاہیے کہ عربی و فارسی سے واقف طلبہ کے سامنے حواشی و تعلیقات کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کریں اور انھیں اس سلسلے میںکام کر نے پر رغبت دلائیں۔ایم فل،پی ایچ ڈی کے انٹرویو میں طالب علم سے عربی و فارسی کی واقفیت دریافت کر کے کلاسیکی ادب کے حواشی و تعلیقات پر کام کرنے کا موقع فراہم کریں اورایسے اساتذہ جو عربی و فارسی سے واقف ہوں یا جنہوں نے قدیم متون پر کام کیا ہے وہ ایسے طلبہ کی رہنمائی کریں تاکہ ہمارے شعبوں کی تحقیق افسانہ و ناول تک محدود رہ کر آنے والے وقت میں خود افسانہ نہ بن جائے اور اس میں ان متون اور کلاسیکی ادب کی کوئی جگہ نہ رہے،جو اردو زبان و ادب کا گراںقدر اور اصل سرمایہ ہے۔

حواشی وتعلیقات پر کام کرنے والے ریسرچ اسکالرز  اور محققین کے لیے مختلف اداروں کے ذریعے تیار کی جانے والی انسائیکلوپیڈیاز جیسے اردو دائر ہ معارف اسلامیہ 25 جلدیں، تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، اردو جامع انسائیکلو پیڈیا، ارد و انسائیکلو پیڈیا، جغرافیائی معلومات انسائیکلوپیڈیااوراسلامی انسائیکلوپیڈیا وغیرہ بڑی کارآمد ہوتی ہیں، لغات، تذکرے، تاریخ ادب اردو کی کتب وغیرہ بھی اس سلسلے میں اہم وسیلے ہیں،اس کے علاوہ قاموس المشاہیراورماہنامہ نقوش کا شخصیات نمبر، الاعلام للزرکلی (خیرالدین زرکلی)، اردو محاورے، اردو میں مستعمل محاورے اوردہلی میں محاورے وغیرہ اہم کتابیں ہیں جن کے ذریعے محقق حواشی وتعلیقات میں بھرپور استفادہ کر سکتا ہے،مختلف علوم و فنون کی اصطلاحات و الفاظ کے سلسلے میں اس شعبے کے اساتذہ اورماہرفن سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے، آج ہر یونیورسٹی میں مختلف شعبہ جات موجودہیں ہماری کوتاہی یہ ہے کہ ہم جس شعبے میں تحقیق کر رہے ہوتے ہیں دوسرے شعبے کے اساتذہ وماہرین کو اپنے موضوع سے غیر متعلق خیال کرتے ہیں مگر حواشی و تعلیقات میں ان سے اہم اور مفید معلومات فراہم ہو سکتی ہیں، لہٰذااس سلسلے میں ہمیں فراخدلی اور سیر چشمی سے کا م لینا چاہیے۔

مواد اور کتابوں کی دستیابی کے بعد ریسرچ اسکالر کا مرحلہ آسان ضرورہو جاتا ہے مگرمنزل ابھی بھی دور ہوتی ہے، مواد کی فراہمی کے بعد ضرورت ہوتی ہے تجربہ کار اور عالم و فاضل رہنماکی،حواشی و تعلیقات تحریرکرتے وقت ہرقدم پر نگراں کے مشورے اوران کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے کہ مواد کی تراش خراش اوراس کے انتخاب میں باریک بینی اوردقت نظری بہت اہم چیزہے۔ ان مراحل سے گزرنے کے بعد شرط ہے کہ ریسرچ اسکالر محنت اور جانفشانی سے کام کرے اور زیادہ سے زیادہ و قت تحقیقی کام کو دے،یہ ایسا موضوع ہے جسے جتنا بھی وقت دیا جائے کم ہے،عام طورپر تحقیق کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ بہت خشک ہوتاہے،اوراس کے لیے یکسوئی کی اشدضرورت ہوتی ہے۔اس کے بغیر عمدہ تحقیق کاتصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔

حواشی و تعلیقات بہت ہی قدیم فن ہے،چونکہ اردو زبان کا تعلق عربی اورفارسی سے بہت گہراہے،یہی وجہ ہے کہ اردو نے عربی اورفارسی کے بہت سے اثرات قبول کیے ہیں،الفاظ و محاورات کے علاوہ بہت سی اصناف میں اردو نے ان زبانوں کی پیروی کی ہے۔عربی اور فارسی میں اس کا رواج بہت پہلے سے رہاہے۔خاص طورپر عربی کی درسی کتابوں کے حواشی بہت مقبول ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ حدیث کی تقریباً تمام کتابوں کے حواشی تحریرکیے گئے ہیں،اوربہت سے محشی صرف حواشی تحریرکرنے کی وجہ سے علمی و ادبی دنیامیں کافی مقبول و معروف ہوئے ہیں، علم حدیث میں امام ابن حجر عسقلانی نے تحفۃ الباری،نووی نے المنہاج فی شرح صحیح مسلم،علامہ قسطلانی نے ارشاد الساری فی شرح صحیح بخاری اوربدرالدین عینی نے عمدۃ القاری اورطبقات الشعرا وغیرہ کتابیں تصنیف کی ہیں، اسماء الرجال اورسوانح میں جمال الدین مزی نے تہذیب الکمال اورامام شمس الدین ذہبی نے سیراعلام النبلاء وغیرہ جیسی اہم کتابیںیادگارچھوڑی ہیں،اورعربی ادب میں ثعالبی نے یتیمہ الدھرفی محاسن اھل العصر اوراصمعی نے الاصمعیات اورفحول الشعرا وغیرہ کے نام سے حواشی تحریرکی ہے۔اسی طرح فارسی کی بہت سی کتابوں پر بھی اس کے محققین نے بہت ہی قیمتی اورنادر حواشی تحریرکیے ہیں، محمدمعین الدین نے حاشیہ چہار مقالہ،فتح اللہ مجتبائی نے حاشیہ طوطی نامہ،قاضی سجاد حسین نے حاشیہ دیوان حافظ اورمثنوی معنوی اورمحمدعلی فروغی نے حاشیہ گلستان سعدی وغیرہ تحریرکیاہے۔ان لوگوں نے بہت ہی محنت اورتحقیق کے بعد حواشی وتعلیقات تحریرکیے ہیں،اوربہت سی ایسی معلومات کو حواشی و تعلیقات کے ذیل میں یکجا کردیاہے جسے حوادث زمانہ نے بھلادیاتھا یا پھر اس پر گذرتے وقت کی دھول جم گئی تھی۔

اردو میں کئی محقق اورمتنی نقاد گذرے ہیں جنہوں نے بہت ہی اہم اورمعلوماتی حواشی و تعلیقات تحریرکیے ہیں، امتیازعلی خاں عرشی نے دیوان غالب اورمکاتیب غالب، مالک رام نے غبار خاطر، تذکرہ، رشیدحسن خاں نے باغ وبہار، سحرالبیان، گلزارنسیم، زہرعشق، پروفیسر نذیر احمدنے دیوان سراجی خراسانی اورخلیق انجم نے مکاتیب غالب کے حواشی وتعلیقات لکھے ہیں،ان لوگوں نے قابل تقلید نمونے ہمارے سامنے پیش کیے ہیں،جس سے کہ ہم دیگر کلاسک کتابوں کے حواشی لکھ سکتے ہیں،مثال کے طورپر مکاتیب غالب( نسخہ عرشی) میں صفحہ نمبر61 پر ’’میاں انجو،جامع فرہنگ جہانگیری،شیخ رشید راقم فرہنگ رشیدی عظماء عجم میں سے نہیں‘‘لکھاہواہے،لیکن اس وقت کے قاری کے لیے انجو اوررشید نامعلوم ہیں،صرف انجو اوررشید سے شاید ہی کوئی ان کو پہچان سکے اوران کے کارنامے کو جان سکے،اس لیے ان کی تفصیل ضروری ہے، تاکہ قاری کو اندازہ ہوکہ یہ کون ہیں اور ان کی شناخت کیا ہے،اس لیے ان کے متعلق تعلیقے کے طور پر امتیاز علی خاں عرشی لکھتے ہیں

’’انجو کا نام جمال الدین حسین بن شاہ حسن انجوی شیرازی اورلقب عضدالدولہ ہے،ان کے آباو اجدادفارس کے شہرۂ آفاق شہر شیراز کے باشندے تھے، یہ وہیں پیدا ہوئے، بعد ازاںتلاش روزگار ہندوستان آئے اوربقول محمد حارثی بدخشی 1626 میں آگرے میں انتقال کیا، فرہنگ جہانگیر ی اکبر کے عہد میں شروع ہوکر نورالدین جہانگیر کی حکومت میں انجام کو پہنچی،اس لیے اس کے نام معنون کی گئی،انجو کو ازراہ تحقیر میاں لکھاہے،جیسے ایک جگہ فیضی کو لکھتے ہیں اہل ہندمیں سواخسرو دہلوی کے کوئی مسلم الثبوت نہیں، میاں فیضی کی بھی کہیں کہیں ٹھیک نکل جاتی ہے‘‘

’’رشید کانام عبدالرشید حسنی ہے،ان کے آباو اجداد مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے،یہ خود شہر ٹھٹھ میں پیدا ہوئے، منتخب اللغۃ اورفرہنگ رشیدی ان کی مصنفہ ہیں، شاعر بھی تھے اوررشیدی تخلص کرتے تھے،انھوں نے تحفۂ رشیدی کے نام سے شعراء فارسی کا ایک تذکرہ بھی لکھا ہے، اس کا ایک نسخہ ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کے کرزن کلکشن میںمحفوظ ہے،مرزاامیر بیگ بنارسی کے تذکرہ حدائق الشعرا  کا یہ ماخذہے،خزانۂ عامرہ نولکشور پریس میں ان کا سال وفات 1866 لکھاہے،غالب نے انھیں حقارت کی راہ سے شیخ لکھاہے،ورنہ وہ جانتے تھے کہ عبدالرحمن حسنی سید ہیں۔ (مکاتیب غالب،امتیاز علی خاں عرشی،ص174,175)

مالک رام کا شمار ممتاز محقق اوراہم متنی نقاد میں ہوتا ہے، انھوں نے غبار خاطر پر حاشیہ لگایاہے،غبار خاطر کے خط نمبر پانچ میں ایک جملہ ہے’’تھکاماندہ قیام گاہ پر پہنچا، توصاحب مکان کو منتظر اورکسی قدرمتفکر پایا، یہ صاحب کچھ عرصہ سے بیمار ہیں،اورایک طرح کی دماغی الجھن میں مبتلارہتے ہیں‘‘صاحب مکان کے متعلق مالک رام لکھتے ہیں

’’صاحب مکان سے مراد شری بھولا بھائی ڈیسائی ہیں،جن کے ساتھ مولاناٹھہرا کرتے تھے،ان کا 6 مئی 1946 کو دل کی حرکت بندہوجانے سے انتقال ہوا، آخری عمر میں وہ کچھ دماغی پریشانیوں کا شکار رہنے لگے تھے۔‘‘(غبارخاطر،مالک رام،ص295)

ان محققین کاذکراور ان کی کتابوں سے مثا ل دینے کا اصل مقصد یہ ہے کہ نئے لوگ جو اس موضوع پرکام کرناچاہتے ہیں وہ دیکھیں کہ کس طرح حواشی و تعلیقات تحریرکیے جاتے ہیں،اورکن چیزوں کا ذکر کرنااس میں ضروری ہوتاہے، عہدحاضر میں حواشی و تعلیقات کی اہمیت و افادیت پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے،کیوں کہ جب ہم کلاسک کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں مصنف کے معاصرین اوران کے خاندان کے دیگرافرادکا ذکر ملتا  ہے ،قدیم زمانے کی تحریروں میں بڑی تعداد میں ایسے الفاظ، محاورات، اشخاص و مقامات، قرآنی آیات، عربی و فارسی کے الفاظ و محاورات، فقہی اصطلاحات اور عقلی و منطقی دلائل و براہین کا استعمال ہو ا ہے جن کو بہ آسانی ہر طالب علم نہیں سمجھ سکتا،نیز ان کتابوں میں استعمال شدہ بہت سے الفاظ و اصطلاحات اب متروک قرار پاچکے ہیں ایسے میں حواشی وتعلیقات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے، ورنہ خدشہ ہے کہ یہ پرانی اور کلاسیکی کتابیں خود اردو والوں کے لیے ہی قصۂ پارینہ نہ بن جائیں۔نیزان کتابوں میں اس زمانے میں مستعمل کتب و رسائل، اشیا اور دیگر چیزوں کے نام ملتے ہیں جو بعد میں حوادث زمانہ کا شکار ہو کر ناپید ہو گئی ہیں۔ اسی طرح اس زمانے کے بہت سے محاورات بھی آج کے لیے ناقابل فہم ہیں، تاریخی نقطہ ٔ نظر سے ان کی تفصیل و معلومات کو حاصل کرکے حواشی و تعلیقات میں جمع کرنے سے ہم تاریخی، فنی اور معروـضی اعتبار سے مضبوط و مالامال ہو جاتے ہیں، آج جب ہم مکاتیب غالب و سرسید اوراس جیسی دیگر کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان میں موجود اسما،اماکن،کتب و حوادث کی از سر نو تفہیم کی ضرورت پڑتی ہے، کیوں کہ فی زماننا اس کی زیادہ ترچیزیںپردئہ خفامیں ہیں، جن کی عدم تفہیم کی وجہ سے ہم غالب وسرسید کی تحریروں سے خاطرخواہ استفادہ نہیں کرسکتے،ا س لیے ضرورت ہے کہ حواشی وتعلیقات کے ذریعے نسل نو کے لیے ان کی تفہیم کو آسان بنائیں۔

n

Md Shadab  Shamim

D-35, Fourth Floor

Shaheen Bagh, Jamia Nagar

New Delhi- 110025

Mob.: 9643885605

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...