اردو زبان و ادب کے متعلق پروفیسر آل احمد سرور کا یہ بیان حیاتِ جاوداں کی حیثیت رکھتا ہے کہ:
’’اردو ادب کا لہلہاتا ہوا باغ تنہا ایک باغبان کی محنت کا
ثمرہ نہیں اس کی آبیاری مختلف جماعتوں، مذاہب اور ممالک نے مل کر کی ہے اس کی تعمیر
میں بہتوں نے اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے۔ فقیروں اور درویشوں نے اس پر برکت کا ہاتھ
رکھا ہے۔ بادشاہوں نے اسے منھ لگایا ہے۔ سپاہیوں نے زبانِ تیغ اور تیغ زبان دونوں کے
جوہر دکھائے ہیں پھر بھی یہ جمہورکی زبان اور جمہور کا ادب ہے۔‘‘
(بحوالہ’ اُردوزبان و قواعد ‘(حصہ دوم) از شفیع صدیقی مکتبہ
جامعہ نئی دہلی، 2008،ص 1
ان کا یہ مقولہ جس وقت میں نے پڑھا تھا وہ میری طالب علمی
کا زمانہ تھا اس وقت نہ تو مجھے جمہوریت کا مطلب معلوم تھا اور نہ ہی میں اردو زبان
و ادب کی تاریخ سے پوری طرح واقف تھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے اس زبان سے
میری رغبت بڑھی مجھے پروفیسر آل احمد سرور کے اس بیان کی معنویت کا احساس بھی ہوا
اور اردو زبان کی اہمیت اور قدرو قیمت معلوم ہوئی۔ رفتہ رفتہ میں بھی اس خوبصورت زبان
کی زلفِ گرہ گیر کی اسیر ہوگئی اور اب میں بھی آنند نرائن ملاکے لفظوں میں دعوے کے
ساتھ یہ کہہ سکتی ہوں کہ ؎
بزمِ ادب ہند کے ہر گل میں ہے خوشبو
ملا گل اردو کی مہک اور ہی کچھ ہے
یہ وہ زبان ہے کہ جو ہمیں تہذیب یافتہ بھی بناتی ہے اور شائستگی
کا ہنر بھی سکھاتی ہے فراق گورکھپوری جو اس زبان کے عاشقوں میں سے تھے اکثر کہا کرتے
تھے کہ ’’ اردو اس لیے بھی پڑھو کہ افسر بننے کے بعد افسر دکھائی دو ‘‘
(ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2004، ص 5)
اردو کا اپنا ایک شاندار ماضی بھی ہے یہی وہ زبان ہے جس نے
ہندوستان کی پوری جنگ آزادی کی تاریخ اپنے آپ میں سمو کر رکھا ہے۔ یہ زبان تحریکِ
آزادی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلی ہے ملک کے سیاسی افق پر ابھرنے والی ہر تحریک
کی موا فقت میں نظمیںکہہ کر اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اپنا تعاون دیا ہے۔ آزادی
کے متوالوں کو ’انقلاب زندہ باد‘ کا ولولہ انگیز نعرہ اسی زبان نے دیا ہے ؎
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
(بسمل عظیم آبادی)
نہیں پالا پڑا قاتل تجھے ہم سخت جانوں سے
ذرا ہم بھی تو دیکھیں تیری جلاّدی کہاں تک ہے
(محمد علی جوہر)
جیسے اشعار سے سرفروشانِ وطن کے حوصلوں کو توانائی اسی زبان
نے بخشی ہے۔ عباس بیگ بریلوی عباس اسی زبان کے شاعر تھے جن کے شعر ؎
اختر جھپک گئے ترے خالوں کے سامنے
گوروں کے پاؤں اٹھ گئے کالوں کے سامنے
کو انگریزوں نے بغاوت پر محمول کیا تھا اور انھیں پھانسی
دے دی تھی۔
(1857 کے مجاہد شعرا از مولانا امداد صابری، مکتبہ شاہراہ
دہلی، لکھنؤ 1959، ص 304)
بدرالاسلام بدایونی مشہور بھی اسی زبان کا شاعر تھا جسے ایک
نظم کے کہنے پر سزائے موت دے دی گئی جس کا ایک مصرعہ تھا ع
سر کمپنی کا کٹ کے پکاؤ آنے آنے میں
انھیں انگریزوں نے گولی مار کر شہید کیا تھا۔
(1857کے مجاہد شعرا از مولانا امداد صابری ص 337)
اسی زبان کے صحافی مولوی محمد باقر بھی تھے، جنھیں 1857 کی
جنگِ آزادی میں انگریزوں کی مخالفت میں خبریں شائع کرنے کے جرم میں جامِ شہادت نوش
کرنا پڑا تھا اور اپنی ساری جائداد سے ہاتھ دھونا پڑاتھا۔
(تحریکِ آزادی میں اردو کا حصہ از ڈاکٹر معین الدین عقیل
ترقی اُردو کراچی 1976، ص 80)
بہادری پریس قائم کرنے والے سید قطب شاہ بریلوی بھی اسی زبان
کے صحافی تھے جن کے پریس سے ہندوستا ن کی پہلی جنگ آزادی کو فروغ دینے کے لیے بڑی
تعداد میں لٹریچر شائع ہوتا تھا انگریزوں نے ان کی بھی ساری جائداد ضبط کر لی تھی اور
انھیں بہ عبور دریائے شور کی سزا دی تھی۔
(’اوراقِ زرّیں از ڈاکٹر درخشاں تاجور ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی
دہلی 2017، ص75 تا 80)
یہ تو فقط چند ادبا و شعرا تھے جنھوں نے ہندوستانیوں کے ذہن
ودل میں انگریزوں کے خلاف نفرت و عداوت کی چنگاریاں بھڑکا کر انھیں غیر ملکی غاصبوں
کے خلاف سینہ سپر کرنے میں نہ صرف اپنا تعاون دیا بلکہ اپنا تن من دھن سب کچھ اس ملک
پر خندہ پیشانی سے نچھاور کردیا۔۔ انگریز اردو کے قلمکاروں سے جو ملک میں ان کے خلاف
بے اطمینانی کے جذبات بھڑکا رہے تھے حد درجہ خائف تھے اور سراسیمگی کی حالت میں انھوں
نے اس زبان کا بہت سا شعری و ادبی سرمایہ ضبط بھی کیا آج بھی بہت سا مواد نیشنل اوراسٹیٹ
آرکائیوز میں محفوظ ہے اور جو ہندوستان کی جنگِ آزادی میں دیے گئے اردو کے شاندار
اور مثالی کردار کی گواہی دے رہا ہے۔
یہ زبان ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی امین ہے سیکولر
زم اس زبان کی خمیر میں ہے۔ یہ زبان صوفیوں اور درویشوں کی گود میں کھیلی ہے۔ خانقاہوں
میں اس نے پرورش پائی ہے لہٰذا مذہبی رواداری تو اس کی روح میں سرایت کی ہوئی ہے۔ اس
زبان نے ہر دور میں دلوں میں محبت کے دیپ اور اتحاد و یکجہتی کی قندیلیں جلانے کا مقدس
فریضہ بھی بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔ غلام ہندوستا ن رہا ہو یا آزاد ہندوستان
اس زبان نے اقبال کے لفظوں میں اہل وطن کو یہی پیغام دیا ہے کہ ؎
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زبان
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دُکھ جائے تری تحریر سے
ہندو مسلم اتحاد کے جذبات کو توانائی بخشنے کے لیے اردو میں
دیے گئے سرسید احمد خاں کے اس بیان کا کیا کوئی مول ہے جس میں انھوں نے اہل وطن کو
مخاطب کر کے یہ کہا تھا کہ
’’اے میرے دوستو! میں نے بار بار کہا ہے اور پھر کہتا ہوں
کہ ہندوستان ایک دولہن کی مانند ہے اگر وہ دونوں آپس میں نفاق رکھیں گے تو وہ پیاری
دولہن بھینگی ہو جاوے گی اور ایک دوسرے کو برباد کردیں گے تو وہ کانڑ ی ہو جاوے گی...
اب تم کو اختیار ہے کہ اس دولہن کو بھینگا بناؤ کہ کانڑا۔‘‘
(مکمل مجموعہ لکچرو اسپیچنر ، مرتبہ جناب مولانا محمد امام
الدین گجراتی مصطفائی پریس لاہور 1900، ص270)
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہماری مشترکہ تہذیب کی علامت اس
زبان کو صرف مسلمانوں سے جوڑ کر اس کی توہین کی جاتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مختلف
مذاہب کے ماننے والوں نے اسے اپناکر اسے سیکولر سانچے میں ڈھالنے میں معاونت کی ہے۔
فراخ حوصلگی اس زبان کی پہچان ہے تو دوسرے مذاہب کے عقائد کا احترام اس کا سرمایۂ
افتخار۔ مذہبی رواداری کی جو مثالیں اس زبان نے پیش کی ہیں اس کی نظیر شاید ہی دنیا
کی کوئی دوسری زبان پیش کر سکے اس کے ہندو شعرانے اگر عید، محرم، پیغمبرانِ اسلام اور
شہیدانِ کربلا پر عقید ت مندانہ نظمیں کہی ہیں تو اس کے مسلم شعرا نے ہولی، دیوالی
مذہبی کتابوں اور دیوی دیوتاؤں پر نظمیں کہہ کر اپنی وسیع المشربی کا ثبوت پیش کیا
ہے۔ اس کے گیسوئے سخن کو سنوارنے میں جتنا حصّہ مسلمانوں نے لیا ہے اس سے کہیں زیادہ
حصہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں نے لیاہے۔ رام نرائن موزوں، دیا شنکر نسیم، رتن ناتھ
سرشار، درگاسہائے سرورجہاں آبادی،برج نرائن چکبست، تلوک چند محروم‘ پنڈت دتا تریہ کیفی بالمکند عرش ملسیانی، لبھورام
جوش ملسیانی، آنند نرائن ملاّ، فراق گورکھپوری، منشی پریم چند، جگن ناتھ آزاد، نریش
کمار شاد، کرشن چندر، راجندرسنگھ بیدی، پروفیسر گوپی چند نارنگ، مہندر پرتاپ چاند جیسی
قدآور شخصیات نے اردو زبان و ادب کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں وہ اس زبان کا ایسا
روشن باب ہے جسے اردو زبان کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
یہ اس زبان کی خوش نصیبی ہے کہ اردو کو صرف ایک طبقے سے جوڑنے
کے خلاف غیر مسلم ادبا اورشعرا نے زبردست احتجاج کیا ہے آنند نرائن ملاّ نے اپنے کرب
کو اپنے ایک شعر میں ان الفاظ میں ڈھالا
؎
لب مادر نے ملاّ لوریاں جس میں سنائی تھیں
وہ دن آیا اب اس کو بھی غیروں کی زباں سمجھ
پروفیسر کنہیا لال کپور نے اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان
کہنے والوں کی مذمت کچھ اس انداز میں کی ہے
’’ ایک وہ زمانہ تھا کہ اردو کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا
تھا۔ پھر نہ جانے کس کی نظر کھا گئی کہ اس سے نظر بچا کر نکل جانے میں ہی خیریت سمجھی
جانے لگی۔ ان دنوں ارباب وطن اس سے یو ں بدکتے ہیں جیسے یہ کوئی خطرناک چیز ہو۔ ہندوستان
میں اردو کی یہ حالت اس لیے ہوئی کہ اردو کے دشمنوں اور نادان دوستوں نے اسے مسلمانوں
کی زبان بنا دیا۔یہ خوبصورت زبان ہندوستانی اور اسلامی تہذیب کے امتزاج سے وجود میں
آئی یہ مشترکہ تہذیب کی نشانی تھی اس کی سرپرستی ہر مذہب کے لوگوں نے کی آزادی کے
بعد یہ فرقہ پرستوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔‘‘
(ماہنامہ ’’اردو دنیا‘‘ نئی دہلی، اگست 2004 ،ص 16)
اقبال اشہر نے اپنے اشعار میں ایسے لوگوں کو کچھ اس انداز
میں مخاطب کیا کہ ؎
کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ
اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی
خوش آئند بات یہ ہے کہ اب لوگوں کو یہ احساس ہونے بھی لگا
ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ 14 فروری 2004 کو قومی اردو کونسل کے سنگ
بنیاد کی تقریب میں مرلی منوہر جوشی کے اس بیان کی پذیرائی اردو داں حلقے میں خوب ہوئی
جس میں انھوں نے کہا تھا کہ
’’اردو مسلمانوں کی نہیں ہندوستان کی زبان ہے۔ کوئی بھی زبان
کسی خاص مذہبی فرقے کی نہیں ہو سکتی۔ اردو زبان ہندوستانی تہذیب اور اس کی تاریخ کا
ایک اہم حصہ ہے۔‘‘ (بحوالہ ماہنامہ اردو دنیا،
نئی دہلی اپریل 2004، ص7)
یہ سوچ ہی غلط ہے کہ زبان کسی مذہب یا فرقے کی ہوتی ہے زبان
اس کی ہوتی ہے جو اسے سیکھتا ہے۔ نازش پرتاپ گڈھی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہر اک زبان کو یارو سلام کرتے چلو
گروہ کی ہے نہ فرقے کی اور نہ مذہب کی
اس صداقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اردو کے غیر مسلم شعرا
و ادبا نے نہ صرف اس زبان پر ناز کیا ہے بلکہ انھوں نے اس زبان کی محبت میں اپنی جان
کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے۔ گوپال متل نے اگر یہ دعویٰ کیا کہ ؎
ہم بھی اردو پہ ناز کرتے ہیں
یہ ہماری زبان ہے پیارے
تو پنڈت نرائن پانڈے اور جے بہادر سنگھ نے اس زبان کی محبت
میں اپنی جانیں قربان کردیں۔ پنڈت نرائن پانڈے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دلانے
کے لیے بھوک ہڑتال پر کانپور کے کلکٹر کے روبرو بیٹھے تھے جہاں 20 مارچ 1967 کو ان
کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ اس کے کچھ ہی دن بعد اردو کا ایک اور عاشق جے بہادر
سنگھ 31مارچ کو لکھنؤ میں قانون ساز اسمبلی کے سامنے جاں بحق ہو گیا۔ اردو کے ان بے
لوث عاشقوں نے اردو زبان کے لیے جو قربانی دی اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
ناانصافیوں کے باوجود اردو مٹنے کے آثار نہیں۔ اس کا مستقبل
تاریک نہیں بلکہ روشن ہے۔ انٹرنیٹ اور ٹکنالوجی نے اس زبان کی ترویج و اشاعت میں اہم
رول ادا کیا ہے۔ اردو کی نئی بستیاں بھی ا ٓباد ہورہی ہیں بیرونِ ممالک میں بھی بڑے
پیمانے پر اردو اخبار اور رسالے نکل رہے ہیں اور کالجوں یونیورسٹیوں میں اردو بہ حیثیت
مضمون پڑھائی بھی جارہی ہے۔ سمینار اور مشاعرے کا انعقاد بھی ہورہا ہے جو زبان کے فروغ
میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ مختلف اکادمیاں اور این سی یوپی ایل بھی اردو کے فروغ
کے لیے کام کررہی ہیں اردو سیکھنے کے لیے کتابیں شائع ہورہی ہیں۔کسی شاعر نے کہا ہے ؎
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
فضاؤں کو اردو کی خوشبو سے معطر کرنے کے لیے اردو کے چاہنے
والوں کو آگے آنا ہوگا۔انھیں انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اس کی بقا
کے لیے کوشش کرنی ہوگی جس سے تہذیب و ثقافت کی یہ زبان رہ سکے اور ہمارے اسلاف کی یہ
امانت نئی نسلوں تک پہنچ سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سمینار اور مذاکرے اہم کردار
ادا کر سکتے ہیں۔ بچوں کو اردو سے قریب لانے کے لیے ان کے لیے تحریری اور تقریری مقابلوں
کا انعقاد کرنا بھی اردو کے فروغ کی سمت میں ایک مثبت قدم ہوگا۔ اردو کو سادہ اور عام
فہم بنا کر بھی اسے مقبولِ عام بنایا جا سکتا ہے۔ ابتدائی اور ثانوی اسکولوں میں اردو
کی تعلیم کا انتظام کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔ مختلف بورڈ میں اردو ایک مضمون کی حیثیت
سے تو شامل ہے لیکن اردو پڑھانے کا انتظام کہیں نہیں ہے۔ ابتدائی درجات میں اس زبان
کی تعلیم کا نظم نہ ہونے کی وجہ سے ایک پوری نسل اردو رسم الخط کی شناخت سے محروم ہو
چکی ہے۔ اس سلسلے میں بھی کارگر اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے
کہ ہم امید کی شمع روشن رکھیں اور آشا کے دیے کو بجھنے نہ دیں۔ مسلسل کوشش اور جدو
جہد ہی اس زبان کو پھلنے اور پھولنے کے مواقع فراہم کر سکتی ہے بقول منظور ہاشمی ؎
یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے
ہوا کی اوٹ بھی لے کر چراغ جلتا ہے
اردو کے چراغ کی لومدھم ضرور ہوئی ہے لیکن ابھی بجھی نہیں
ہے۔ اس تھرتھراتی ہوئی لو کو جلا بخشنا ہماری اور آپ کی ذمے داری ہے۔ شکیل اعظمی کے
اس شعر کے ساتھ اپنی بات ختم کرنا چاہوں گی ؎
ہار ہو جاتی ہے جب مان لیا جاتا ہے
جیت تب ہوتی ہے جب ٹھان لیا جاتا ہے
n
Dr.
Darakhshan Tajwar
Kainat,
B/34, Tewari Pur
Aawas
Vikas Colony
Gorakhpur-
273001 (UP)
Mob.:
7007281376
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں