8/4/21

اسماعیل میرٹھی کی مثنوی’ پن چکی‘ کا جائزہ - مضمون نگار: محمد مستمر


اسماعیل میر ٹھی فقط اپنے عہد کے ہی بڑے شاعر نہیں تھے بلکہ وہ ہر دور کے بڑے شاعر رہیں گے۔ انھوں نے جہاں بچوں کے لیے لکھا وہیں بڑوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا۔یہ الگ بات ہے کہ ان کی شہرت و مقبولیت بطور ادبِ اطفال مسلم و مستحکم ہے۔ ابتدا میں انھوں نے غزلیں کہیں لیکن بعد ازاں وہ منشی ذکاء اﷲاور محمد حسین آزاد سے وابستگی کے سبب مکمل طور پر نظموں کی طرف متوجہ ہوگئے اور جلد ہی پوری اردو دنیا میں ان کی نظموں کا ڈنکا بجنے لگا۔ لہٰذا ان کی شناخت بطور ادبِ اطفال افقِ ادب پر نقش ہوگئی۔

 انھوں نے طبع زاد نظمیں بھی سپرد ِقلم کیں اور انگریزی نظموں کا بھی ترجمہ کیا لیکن ان کے ترجموں پر بھی اصل کا گماں ہوتا ہے۔ ترجمہ شدہ نظموں میں بھی وہی تاثیر و توانائی، نفسیاتی پہلو، بچوں کی زندگی سے متعلق لوازمات نیز شگفتگی و شائستگی، سنجیدگی و متانت اور تخلیقی رویے موجود ہوتے ہیں جو ایک طبع زاد تخلیق میں نہاں و نمایاں ہوتے ہیں۔ اسماعیل میرٹھی نے بے شمار نظمیں بچوں کے لیے لکھی ہیں جو مقبولیت و بلندی اور سروری و سرتاجی ادبِ اطفال کے حوالے سے ان کو حاصل ہے شاید ہی وہ کسی شاعر کے حصے میں آئے ہو۔ ہماری گائے، اسلم کی بلی، تاروں بھری رات، پن چکی، برسات کی بہاریں،ایک جگنو اور بچہ، چھوٹی چیونٹی، ایک گھوڑا اور سایہ، برسات، نصیحت، بارش کا پہلا قطرہ، رات، کچھوا اور خرگوش، سچ کہو، گرمی کا موسم، ہوا اور سورج کا مقابلہ، دال کی فریاد، چھوٹے کام کا بڑا نتیجہ، ایک پودا اور گھاس، قوسِ قزح، ملمع کی انگوٹھی، تھوڑا تھوڑا مل کر بہت ہوجاتا ہے، اونٹ، شفق وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جو بچوں کی نفسیات پر رقم کی گئی ہیں۔ان میں سے زیادہ تر نظمیں مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی ہیں۔ جنھیں بچے آسانی سے سمجھ سکیں کیونکہ موصوف اپنی نظموں میں اُسی معیار کی زبان استعمال کرتے ہیں جس سے بچوں کے ذہن تک صحیح ترسیل و ابلاغ ہو سکے۔ یعنی وہ اپنی نظموں میں عام فہم اور با محاورہ زبان کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ بامحاورہ زبان بچوں کے ذہنوں پر اثر چھوڑ نے کی صلاحیت زیادہ رکھتی ہے۔ان کی نظموں کے مصرعے اور شعر آج بھی اُسی طرح مناسب، موزوں اور چست و درست ہیں جیسے کہ وہ اپنے زمانے میں تھے۔

 اگرچہ آج بہت سے تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی و سماجی بلکہ سائنسی و تکنیکی اور صنعتی و حرفتی بدلاؤ آ چکے ہیں تاہم اسماعیل میرٹھی کی نظموں کی اہمیت و افادیت اُسی طرح مسلم  ومستحکم ہے۔ اسماعیل میرٹھی اپنی نظموں میں ایک ماہرِ نفسیاتِ اطفال کے طور پر نمودار ہوتے ہیں۔ جس کا اساسی پہلو یہ ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں، مرئی اشیا، قدرتی مناظراور عام سے موضوع میں بھی نصیحت آمیز، سبق آموز اور دلچسپی سے پرباتیں بیان کر جاتے ہیں جن کے ذریعے بچوں کی اصلاح کرنا، ایک اچھی اولاد بنانااور ایک اچھا شہری بنانا ہوتا ہے۔

آج ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ ہماری روز مرہ کی زندگی سائنسی اشیا، تکنیکی کل پرزوں،انٹر نیٹ اور کمپیوٹر سے ہم آہنگ و منطبق ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ سو سالہ عرصے میں بے شمار چیزیں، الفاظ، اصطلاحات اور تراکیب متروک ہو چکی ہیں۔ اب وہ ہمارے ماضی کا حصہ اور سرمایہ ہیں۔ ہماری نئی نسل نہ ان سے واقف ہے بلکہ ان کی شکل و صورت سے بھی بے نیاز ہے۔ ’ پن چکی ‘ اکیسویں صدی کی نسل اور بچوں کے لیے ایسی ہی غیر مانوس چیز اور غیر ضروری سا لفظ ہے۔ لیکن ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم نئی نسل کو ان غیر مانوس و متروک اشیا کے بارے میں بتائیں جو کبھی انسانی زندگی کا حصہ ہو اکرتی تھیں۔ جیساکہ میں نے سبق عرض کیا ہے کہ اسماعیل میرٹھی چھوٹی چھوٹی چیزوں اور عام سے موضوع میں بھی سبق آموز اور دلچسپی سے پر باتیں بیان کر جاتے ہیںجن میں ساتھ ساتھ مقصدیت بھی ہوتی ہے۔ ’ پن چکی ‘ بھی ایساہی موضوع ہے۔

سب سے پہلے تو ہمارے بچوں کے لیے یہ جاننا لازم ہے کہ آخر ’ پن چکی ‘کیا ہے ؟’ پن چکی ‘دو لفظوں کا مرکب ہے۔ پن اور چکی یعنی پانی کی چکی یا پانی سے چلنے والی چکی۔ اس کا حساب بالکل ایسا ہی ہوتا ہے جیساکہ آج کے دور میں ٹربائن (Turbine)تکنیک سے بجلی بنائی جاتی ہے۔ یہ بغیر تیل کے چلتی تھی اور اس سے آٹا پیسا جاتا تھا۔ یہ تکنیک وہیں کامیاب تھی جہاں پر نہریں ہوا کرتی تھیں۔ آج بھی دو آبہ کے کچھ علاقوں میں ’ پن چکی ‘ کو چلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ نہال مسوری نزد ڈاسنا ضلع غازی آباد، بھولا کی جھال ضلع میرٹھ، ماکڑی نزد سیانہ ضلع بلند شہر میں ابھی بھی اس سائنسی و تکنیکی دور میں پن چکی رائج ہے۔ اسماعیل میرٹھی نے نظم ’ پن چکی ‘ کے حوالے سے بچوں کو بہت کچھ بتانے کی کوشش کی ہے۔ ’ پن چکی ‘ ایک استعارہ ہے، مسلسل کام میں لگے رہنے کا۔ کیونکہ مسلسل کام میں لگے رہنے سے ہی انسان ترقی کے زینے سر کرتا ہے۔ سماج میں اپنا مقام و مرتبہ بناتا ہے نیز اپنی ایک امیج قائم کرتا ہے، ’پن چکی‘ ایک تمثیل (Analogy) ہے، ایک  علامت  (Symbol)  ہے۔  ایسی تمثیل و علامت جو اصول و استحکام و تسلسل (Law, Strength, Continiuty) کا مرکب و معجون ہے۔  ’ پن چکی ‘ کا اطلاق اُ ن محرکات ولوازمات سے ہے جہاں بچے کی تعمیر و تشکیل ہوتی ہے۔ موصوف کا مقصد ’ پن چکّی‘ کے تعلق سے معلومات فراہم کرانا نہیں بلکہ وہ ’پن چکّی‘ کے ذریعہ اصل میں بچوں کو زندگی کی معنویت و اہمیت بتانا چاہتے ہیں۔ نیز ’پن چکی ‘انسانی زندگی سے متعلق خارجی تحریک کا وہ استعارہ اور تمثیل ہے جہاں سے بچے کے اندرونی نظام اور داخلی خلیوں میں ذاتی تحریک کا آغاز ہوتا ہے۔ جیسے         ؎

نہر پر چل رہی ہے پن چکّی

دُھن کی پوری ہے کام کی پکّی

بیٹھی تو نہیں تھک کر

تیرے پہیے کو ہے سدا چکّر

ختم تیرا سفر نہیں ہوتا

نہیں ہوتا مگر نہیں ہوتا

مینہ برستا ہو یا پانی آندھی

تونے چلنے کی ہے شرط باندھی

نہر پر چلنااور دُھن کا پورا ہونا، تھک کر نہ بیٹھنا، پہیے کو سدا چکّر، سفر کا ختم نہ ہونا، چلنے کی شرط باندھنا، یہ ایسے اعمال و افعال اور حرکات و محاورات ہیں جن میں اصول، استحکام اور تسلسل جیسے نفسی عناصر پیوست ہیں۔ ’’ دُھن کی پوری ہے کام کی پکّی ‘‘ اس مصرع میں شاعر بچوں کو بتانا چاہتا ہے کہ تم اپنے کام میں سرگرم رہواور اپنے کام کے تئیں پکے رہو، ثابت قدم رہو۔ ’ پہیے کو سدا چکّر‘ بھی ایک اشارہ ہے، مسلسل کام میں لگے رہنے کا۔ اور جس طرح ’ پن چکّی ‘ کا سفر پورا نہیں ہوتا اسی طرح زندگی کا سفر بھی پورا ہونے والا نہیں۔ اگر اس فانی دنیا کا سفر پورا بھی ہو گیا تو اگلی دنیا کا سفر شروع ہوجا تا ہے جیسا کہ بقول فانی بدایونی          ؎

مرکے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قیدِ حیات

مگر اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے

انسان کی زندگی کا سفر بھی ’ پن چکّی ‘ کی طرح پورا ہونے والا نہیں اور پھر ’’ تونے چلنے کی ہے شرط باندھی ‘‘ اس مصرع میں کلمۂ مشروط (Apodosis) بچے کی خلیات (Cells) اور اعصابی نظام(Nervous System) میں پختہ عزم و ارادہ کو جنم دیتا ہے اور پھرمصرع اولیٰ ’’ مینہ برستا ہو یا پانی آندھی ‘‘ میں مشکلوں سے مقابلہ کرنے کی بات کی ہے، مصیبتوں سے ٹکرانے کی بات کی جارہی ہے۔ اور پھریہ شعر          ؎

تو بڑے کام کی ہے اے چکّی

مجھ کو بھاتی ہے تیری لے چکّی

مذکورہ شعر میں شاعرکو ’ چکی ‘کی ’لے ‘کا بھانا‘ فعل و محاورہ حرکی عمل کی نشاندہی اور چکی کی معنویت و مقصدیت کو واضح کرتا ہے۔ لفظ ’لے ‘سے جو سماعی پیکر متشکل ہوتا ہے اس سے فن  پارہ میں ابعادِ ثلاثہ کا جنم ہوتا ہے۔ ویسے تو پوری نظم حرکی عمل کی علامت ہے نیز پوری نظم کا سماعی پیکر معنیٰ خیز ہے تبھی تو شاعر ذیل کے شعر میں ’ لے ‘ لفظ کی روشنی میں بچوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے        ؎

علم سیکھو! سبق پڑھو بچو!

اور آگے چلو، بڑھو بچو!

چنانچہ شاعر ہمہ طور پر اپنے مقصد کی طرف مراجعت کرجاتا ہے۔ اب وہ تمثیلی و استعاراتی عمل سے گزر تا ہوا براہ راست بچوں سے مخاطب ہے۔ نیز ابلقِ ایام اور تسلسلی نظام (Continuity System)کی اہمیت سے بچوں کو آگہی حاصل کرا رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ فنکار کھیلنے کودنے کے حق میں نہیں بلکہ ذیل کے شعر میں بھی وہ شرط قائم کر رہا ہے یعنی پہلے کام اور پھر کھیل کوٗد۔ اب یہ کام ظاہر سی بات ہے بچوں کے تعلق سے پڑھنے لکھنے کا ہی کام ہوگا...  نا۔  جیسے       ؎

کھیلنے کود نے کا مت لو نام

کام جب تک کہ ہو نہ جائے تمام

مذکورہ شعر دیکھیے کہ آج ضرب ا لمثل بن چکا ہے اور وقتاََ فوقتاََ ماں باپ بچوں کو بطور نصیحت و اصلاح کے سناتے بھی ہیں۔ ہلکے پھلکے انداز میں ایک اثر چھوڑ رہا ہے۔ دل و دماغ پر نقش قائم کرتا چلا جاتا ہے۔ شعر میں ایک تناسب و توازن اور گہرائی و گیرائی ضم ہوگئی ہے۔ اسماعیل میرٹھی کا سب سے خاص فنی وصف یہی ہے کہ وہ اپنی نظموں میں توازن و تعادل (Equilibrium) اور تناسب کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کیونکہ زندگی کی معنویت و مقصدیت توازن و تناسب میں ہی تو قائم ہے جیسے       ؎

جب نبڑ جائے کام، تب ہے مزا

کھیلنے کھانے اور سونے کا

مذکورہ شعر میں جہاں توازن و تناسب قائم ہے تو نفسیاتی عوامل بھی شامل ہیں کہ کیسے بچے کی دلچسپی کو بر قرار رکھا جاسکتا ہے۔ یعنی اسماعیل میرٹھی بچے کی تعلیم و تربیت کے ساتھ لہوو لعب پر بھی دھیان دیتے ہیں لیکن شعر میں پھر کلمۂ مشروط کو قائم رکھتے ہوئے بچے کی ذہن سازی کرنے کی کوشش کی ہے۔شعر میں لفظِ ’ مزا‘ سے واقعی بچوں کو بھی مزا آتا ہے۔ حظ و انبساط حاصل ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ ’ جب اور تب ‘ حرفِ شرط نے بالکل واضح کر دیا کہ کھیلنے کھانے، سونے وغیرہ کا موقوف کام کے نبڑ جانے پر ہے نہ کہ پہلے آپ کھیلیں کودیں اور کام کو بعد میں پورا کریں  اور اب آخری یہ دو شعربھی دیکھتے چلیں        ؎

دل سے محنت کرو خوشی کے ساتھ

نہ کہ اُکتا کے خامشی کے ساتھ

دیکھ لو چل رہی ہے پن چکی

دُھن کی پوری ہے کام کی پکی

چنانچہ ’ پن چکی ‘ ایک مثبت تسرع  (Positive Accelaration) ہے۔جہاں منفیت کا شائبہ نہیں۔ یہ ’پن چکّی ‘ ایسا تسرُّع ہے جو ’’جلدی سے دیری بھلی ‘‘ کہاوت کی تردید کرتا ہے۔ ایکسی لیریشن میں ارتقائی پہلو پیوست ہے جو انسان بالخصوص بچوں کو آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اب ان آخری دو شعروں کو دیکھیے کہ چلتے چلتے بھی اسماعیل میرٹھی شرطیہ وصف کوملحوظ رکھتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں اور شاید اسماعیل میرٹھی بھی، کہ یہ شرطیہ انداز ہی برے کاموں کا نفسیاتی امتناع ہے۔ کیونکہ ہم روز مرہ کی بول چال میں بھی بچوں کو انتباہ کرتے وقت ‘ حروفِ شرط‘ یا ’حروفِ تاکید‘ کا استعمال کرتے ہیں جس سے بچوں کے اندر وہ شعور پیدا ہوتا ہے جو انھیں اچھا شہری اور ایک مہذب انسان بناتا ہے۔ اور پھر ’’ دیکھ لو چل رہی ہے پن چکّی ‘ ‘ مصرع میں بصری پیکر کے ذریعے زور دیا جا رہا ہے۔ ’ دیکھ لو ‘ اور اس ’ دیکھ لو‘ میں شاید تمام نظم کا نچوڑ اور لب لباب شامل کر دیا ہے جو ایکسی لیریشن، نامیاتی اور حیاتیاتی ارتقا کا ضامن ہے۔ نیز اسماعیل میرٹھی کامنضبط مشاہدہ  (Controlled Observation)، نامیاتی و حیاتیاتی ارتقا (Organic Evolution) ایسے نفسی عناصر کو جنم دیتا ہے، جہاں سے بچے کی نشو و نما ہوتی ہے اور اس کا لسانی و اخلاقی سفر شروع ہوتا ہے۔ ان تمام فنی تخصیص کے ساتھ مثنوی کا جو لب و لہجہ اور آہنگ نیز نشیب و فراز ہے وہ بوریت کا حامل نہیں بلکہ نظم میں ابھر نے والا سماعی پیکر ایک نغمگی اور موسیقی کا احساس کراتا ہے۔ بہر کیف مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مثنوی ’ پن چکی ‘ اسماعیل میرٹھی کی ایک اثر انگیز، معنی خیز، حرکی توانائی سے پُر، اور با مقصد نظم ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ آج بھی بچوں کے لیے درس و نصیحت کا سامان ہے جس سے ہم رو گردانی نہیں کر سکتے۔

آخرمیں اس پہلو سے بھی نقاب کشائی کرتے چلیں کہ اسماعیل میرٹھی کی ’ اردو زبان کی دوسری ‘ کتاب میں یہ نظم چودہ اشعار پر مشتمل ہے جبکہ اس نظم میں دو شعر اور ہیں جو نظم کے درمیانی حصہ میں شامل ہیں۔ یعنی یہ نظم سولہ اشعار کا احاطہ کرتی ہے۔ وہ دو شعر بھی یہاں پیش کیے جا رہے ہیں         ؎

 پانی ہر وقت بہتا ہے دھل دھل

جو گھماتا ہے آکے تیرے کل

کیا تجھے چین ہی نہیں آتا

کام جب تک نبٹ نہیں جاتا


Dr. Mohd. Mustamir

Mohalla Ikraam, Punjabi Chowk

Tehseel: Rampur, Maniharam

District: Saharanpur - 247451 (UP)

Mob.: 9023746092

Email.: mohdmustamir@gmail.com

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...