8/4/21

مجروح سلطانپوری کا ابتدائی ادبی سفر - مضمون نگار: امین احسن



مجروح سلطانپوری نے جس دور میں شاعری کا آغاز کیا وہ دور غلامی سے نجات کی عظیم الشان تحریک کازمانہ تھا۔اس زمانے میں جذبۂ قوم پرستی بین  الاقوامیت میں اور ذاتی مسائل اورغم ومسرت اجتماعیت میں تبدیل ہورہے تھے۔غزل کی تہذیبی وثقافتی اورجمالیاتی قدروں پر ہر چہار جانب سے نہ صرف یلغار ہورہی تھی بلکہ عہدِ رفتہ کی تغزلانہ شان،اشاریت،رمزیت اورایمائیت کی شگفتگی وشادابی پر بھی سوالیہ نشان لگ رہے تھے۔پرانی قدروں اورہئیتوں پرنئی حقیقتوں اورمماثلتوںکے مابین مکالماتی اورتحریری بحث ومباحثے،تنقید وتبصروں کی زورآزمائی اورکشمکش روزوشب جاری تھی اوراس بات پر خصوصی توجہ دی جارہی تھی کہ شاعری محض قافیہ پیمائی نہیں بلکہ معنی آفرینی اور اس سے بھی آگے زندگی کی حقیقتوں وسچائیوں کوناقدانہ شعور کے ساتھ برتنے اورپیش کرنے جیسی کوئی چیز ہے یانئی معنویت وانفرادیت، انداز و آہنگ، لب ولہجہ اوراسالیبِ نو کی آمیزش سے ادبی لغت کونئے تقاضوں سے ہم آہنگ وہم آمیز کرنے کادوسرانام ہے۔ایسے تجرباتی دور میں مجروح نے نہایت خاموشی اور خوبصورتی سے نہ صرف عہدِ رفتہ کی روایتوں اورقدروں کوشگفتہ وشاداب کیابلکہ ادب کی نئی امکانی وسعتوں اوربلاغتوں کے حسین امتزاج سے عہدِ حاضر کی دھڑکنوں وترقی پسندی کے مفاہیم اوراپنی انانیت اور خوداری کے جواہرِ بیش بہا سے لیلائے شاعری یعنی اردو غزل کے دامن کو مزید وسعت بخشی۔اسی لیے ان کی شاعری زیادہ بلیغ اور زیادہ وسیع ہوگئی ہے۔ان کے بارے میں یہ بات یقینی طورپر کہی جاسکتی ہے کہ انھوں نے ’پرآشوب معرکۂ ادب‘ میں غزل کو سرفرازی بھی عطاکی اور اسے مجروح ہونے سے بچایا بھی۔ اس کی سخت جانی کو ثا بت بھی کیا اورفنی لطافتوں کوخاص تیوروں سے آشنا بھی کیا۔

عام طورپرشخص سے شخصیت بننے کا سفر نہایت دشوارکن اور کٹھن ہوتاہے اور دیکھاجائے توقطرے کے گہر بننے کے مترادف ہوتاہے۔ان کااسرارالحسن سے مجروح بننے تک کاسفر خاصا طویل اور دلچسپ ہے۔یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کی ابتدائی تعلیم سلطانپور میں ہوئی۔ان کے والد محکمۂ پولیس میں ملازمت سے وابستہ تھے۔تبادلے،ہجرت اورنقل مکانی توپیشۂ ملازمت کے جزوِ لاینفک ہوتے ہیں۔کبھی یہاں توکبھی وہاں کا سفر جاری رہتاہے۔جب ان کے والد کاتبادلہ ٹانڈہ فیض آباد(امبیڈ کرنگر) میں ہواتو اس وقت ان کی عمر تقریباً بارہ سال تھی۔ان کی تاریخِ پیدائش اورابتدائی دور میں شاعری سے وابستگی کے سلسلے میں ادبا وشعرا کی آرا  الگ الگ ہیں۔ خود مجروح کے بیانات بھی مختلف اور متضاد ہیں۔ مجروح شناسی کے لیے ان آرا پر نظر ڈالنا ضروری معلوم ہوتاہے۔پروفیسر علی احمد فاطمی(الہ آباد یونیورسٹی) اپنے مضمون ’تین ترقی پسند شاعر۔ سردار، مجروح اورکیفی‘ میں رقم طراز ہیں:

 ’’اردو کے ممتازترقی پسند شاعرمجروح سلطانپوری کا اصل نام اسرارالحسن خاں تھا۔ وہ 1921 میں پیدا ہوئے۔‘‘

ڈاکٹر سیمارضوی(لکھنؤ یونیورسٹی) ’ترقی پسند غزل گوئی کی ایک معتبر آواز( مجروح سلطانپوری)ــ‘ میں ان کاذکر کچھ ا س طرح کرتی ہیںـ:

’’اسرارالحسن خاں مجروح سلطانپوری: پیدائش18؍ جون 1920  وفات 24/مئی2000‘‘

اس سلسلے میں ڈاکٹر بشریٰ بانو صدرشعبۂ اردو میرٹھ کالج کی رائے درج ذیل ہے:

’’مجروح سلطانپوری کی پیدائش 1919میں اعظم گڑھ میں ہوئی۔‘‘

 (بحوالہ مضمون۔مجروح سلطانپوری کی شاعرانہ عظمت)

درسی کتاب ’تاریخِ ادب اردو‘ کے مصنف پروفیسر نورالحسن نقوی نے بھی مجروح کی پیدائش 1919 پر ہی اتفاق کیاہے  اورپروفیسر خلیق انجم ’گل کاریِ وحشت کاشاعر:مجروح ‘کے سوانحی خاکے میں ذکر کرتے ہیں:

’’ایک دفعہ میں نے مجروح صاحب سے ان کاسنہ ولادت دریافت کیاتوانھوں نے بتایا کہ وہ یقین کے ساتھ کچھ کہہ نہیں سکتے لیکن کچھ شواہد ایسے ہیں جن سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ 1915یا1916 میں اتر پردیش کے ضلع سلطانپور میں قصبہ گنجہڑ ی میں  پیداہوئے تھے۔لیکن مجروح کی وفات کے بعد ان کے صا حبزادے  نے انگریزی  میں مجروح صاحب کاجو خاکہ مرتب کیاہے اس کے مطابق وہ پہلی اکتوبر 1919 کوپیداہوئے تھے۔‘‘                 

مرزاسلیم بیگ کاانٹرویوبعنوان’مجروح سلطانپوری سے تفصیلی گفتگو‘ جومقام اورکلام نامی کتاب میں شامل ہے۔ جسے فیروزاحمد دہلوی نے مرتب کیاہے۔جس میں مجروح خودفرماتے ہیں:

’’اب والدہ سے پوچھا کہ ہم کب پیداہوئے تھے۔ کہنے لگیں جمعہ کادن رہا۔تیسرے دن عید تھی۔اب ہم نے اپنی بہن سے پوچھاتویہ ہماری بہن جوہیں وہ ہم سے ڈھائی سال بڑی ہیں۔ اب ڈھائی سال کم جولگاتے ہیں اس کے حساب سے 1921 ہوناچاہیے لیکن اندازہ کرکے ہم نے1919 مشہور کردیااورہمارے جتنے انٹرویو اب تک ہوئے ہیں سب میں سنہ19 ہی بتایاہے۔‘‘

مذکورہ بالااقتباسات اوربیانات میں کافی تضاد بھی ہے اورزمانی فرق بھی۔اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ اب تک ان کی تاریخ پیدائش تحقیقی بنیاد پر نہیں پیش کی گئی ہے۔جہاں تک ہماری تحقیق وجستجو ہے، اس میں کسی شک اور شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ مجروح  کا داخلہ مدرسہ کنزالعلوم ٹانڈہ ضلع فیض آباد (امبیڈکرنگر) شعبۂ عربی وفارسی میںدرجۂ نظامیہ میں یکم /جولائی1928 کو ہوا تھا۔ مدرسے کے داخلہ رجسٹر میں  ان کی تاریخ، پیدائش یکم جولائی 1916اور پتا وسکونت موضع گنجہڑی ضلع سلطانپور درج ہے۔لیکن مسلسل غیر حاضری کی بنیاد پر 31مارچ 1929کونام خارج کردیاگیاہے۔ان کادوبارہ داخلہ  14؍اکتوبر 1929 کوکیا گیاہے اوراندراج رجسٹر میں1931میں مولوی امتحان میں کامیابی درج کی گئی ہے۔ ایک بار پھر مسلسل غیر حاضری کی بنیاد پران کانام 29؍فروری 1931کوخارج کیاگیاہے۔تیسری اور آخری مرتبہ ان کا داخلہ یکم مارچ 1934میںدرسِ نظامیہ میں درج کیا گیاہے اورمسلسل غیر حاضری کی بنیاد پر ان کانام 1935 میں خارج کیاگیاہے۔

اس طرح مجروح کی مدرسے میں داخلے کے وقت عمربارہ سال تھی۔ انھوں نے ٹانڈہ میں بحیثیت ایک طالب علم کے تقریباََ سات سال گذارے اورسن بلوغیت وایامِ جوانی کی دہلیز پر پہنچے۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کی پرورش وپرواخت ٹانڈہ میں ہی ہوئی۔ مدرسے سے مسلسل غیر حاضر رہنا اور کئی مرتبہ نام خارج ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ ان کارجحان یاتو مذہبی تعلیم کی طرف نہیں تھایاان کا وقت کسی اور مصروفیت میں گذرتاتھا۔اس کااعتراف انھوں نے ایک انٹرویو میں کیاہے:

’’فیض آباد میں ایک مشہورقصبہ تھا۔ ’ٹانڈہ‘وہاں کی کام دانی بہت مشہورتھی۔بالکل اسی طرح جیسے ڈھاکہ کی ململ کسی زمانے میں بہت مشہور تھی۔توٹانڈہ سے تین میل دور ایک زمینداروں کی بستی تھی۔وہاں ہماری بہن بیاہی گئی تھیں اور ٹانڈہ میں مدرسہ بہت اچھاتھا اور وہاں عربی کی تعلیم بہت عمدہ دی جاتی تھی۔پھر جوکچھ تعلیم میں نے حاصل کی،وہیں سے حاصل کی۔‘‘

(بحوالہ ’مجروح سلطانپوری: مقام اورکلام‘، مرتبہ: ڈاکٹر فیروزاحمد 2008، ص 262)

مدرسے کے اندراجات اور ان کے خود کے بیانات سے یہ صاف ظاہر ہوتاہے کہ ان کی تعلیم وتربیت اور ذ ہنی پرورش وپرواخت میں سرزمینِ ٹانڈہ کا نہایت اہم اور کلیدی رول رہاہے۔ مجروح سے وابستہ بہت سی باتیں مثلاََ شعر وشاعری سے شغف،عشق وہجرت،ڈرامہ وآرٹ سے لگاؤ وغیرہ کاذکر اکثر بزرگوں سے سنا ہے۔ راقم الحروف کے محلّے میں قائم ’مومن لائبریری‘ میں ان کے قریبی دوست رفیق احمد صبّاغ صاحب اکثر کتابوں کے سلسلے میں آیاکرتے تھے۔وہ مجروح کاکلام نہایت مترنم آواز میں (دیکھ زنداں سے پرے  اور دیگر کلام) سناتے تھے۔ ان سے وابستہ کچھ باتیں بھی بتاتے تھے۔ انھوں نے ہی بتایا:

’’مجروح کوموسیقی،آرٹ اور شاعری سے دیوانگی کی حدتک لگاؤ تھا۔قرب وجوار اور اطرافِ ٹانڈہ میں شادی بیاہ اورتیو ہاروں پرہونے والی تقاریب جیسے مشاعرے، قوالی، ڈرامہ اور نوٹنکی وغیرہ میں شرکت کا جنون  اس قدر تھا کہ وہ مدرسے کے اصول وضوابط سے روگردانی کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔اکثر راتوں کومدرسے کی چھت پر چڑھ کر عمارت کے باہری حصے میں بنے کھانچے دار ستونوں کے سہارے اُتر کرباہر نکل جایا کرتے تھے۔ یہ نہایت جوکھم بھرااور جان لیواقدم ہوتا تھا۔ آج بھی ان ستونوں کودیکھ کر دل ودماغ پر لرزہ طاری ہوجاتاہے۔لیکن اکثر شوق اورجنون کی کارفرمائی خطرات اور حادثات کوپسِ پشت کردیاکرتی ہے۔‘‘

انھوں نے شاعری کاآغاز کب کیا؟یہ سوال تحقیق طلب ہے۔ اس سلسلے میں لوگوں کی مختلف رائے ہے۔ ان کے بچپن کے دوست حکیم ابّن صاحب کے مطابق’’انھوں نے سلطانپور میں پہلی غزل کہی۔‘‘(بحوالہ ماہنامہ ’چراغ‘ بمبئی)

گل کاریِ وحشت کاشاعر‘ (مرتبہ:پروفیسر خلیق انجم)  میں شامل انٹرویو میں مجروح خود کہتے ہیں:

’’دیکھیے موزوں طبیعت شاید بچپن سے ہی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں تیسرے درجے میں پڑھتاتھا۔تو ٹیکسٹ بک میں ایک نظم پڑھائی جارہی تھی۔تو پرائمری اسکول کے ٹیچر کی تعلیم ہی کیاہوتی ہے؟ تو وہ شعر کوغیر موزوں پڑھ رہے تھے۔میں نے ان سے کہا ’’نہیں ماسٹر صاحب، ایسے نہیں، ایسے ہوناچاہیے۔‘‘ وہ کوئی نظم تھی۔ ’جگنو‘ کے متعلق اب یاد نہیں ہے۔‘‘

 (گل کاریِ وحشت کاشاعر صـ263)

 یہ اقتباس دلالت کرتاہے کہ مجروح کو زمانۂ طالب علمی سے ہی شعر وشاعری سے فطری لگاؤ تھا۔ظاہر ہے درجہ سوم کایہ طالب علم غیر معمولی اور خداداد صلاحیت کامالک تھا جسے اتنی کم عمری میں شاعری کااتناادراکی شعور تھا کہ وہ اپنے اُستاد کوصحتِ الفاظ اور موزونیت کے ساتھ شعر پڑھنے کے لیے نشاندہی کرتاہے اور ایساطالب علم یقینا شعر کہنے کی صلاحیت سے متصف ہوگا۔بس اسے تھوڑا سا مناسب اور موافق ماحول فراہم کرنے کی ضرورت تھی۔جس زمانے میں ان کاداخلہ مدرسہ کنزالعلوم ٹانڈہ میں ہوا۔اس وقت وہاں کاعلمی اور ادبی ماحول کافی ساز گار تھا۔

یہ حسنِ اتفاق ہی تھا کہ ٹانڈہ میں انھیں بزرگ طبیب و شاعرحکیم خلیل الرحمن(تلمیذ حکیم اجمل خاں)، اُستاد الشعرا ڈاکٹر محمد ایوب ذوقی،حکیم عبد الجلیل،نورالحق فگار، محمد مدنی بیکس،ہندی گورکھپوری،منشی افضال اللہ، مجاہدِ آزادی منشی احمد کریم کامل اورسہراب آزاد جیسے شعرا کا ساتھ ملا۔جس میں ہر کوئی جداگانہ صلاحیت کامالک تھا۔ پروفیسر محمود الٰہی زخمی صاحب کی راقم الحروف سے ذاتی گفتگو کا حوالہ کافی اہمیت رکھتاہے۔وہ کہتے تھے کہ:

’’ڈاکٹرذوقی، فگار، مجروح، مدنی بیکس، اور مجاہدِ آزادی منشی احمد کریم کامل وغیرہ زودگو شاعر تھے اور فی البدیہہ شعر کہنے میں حددرجہ مہارت رکھتے تھے۔‘‘

منشی افضال اللہ اور سہراب آزاد وغیرہ کاتعلق قصبے کے رئیس خاندانوں سے تھا۔ان حضرات سے ان کے بہت قریبی اور دوستانہ تعلقات تھے۔ڈاکٹرذوقی کامطب شیخ پورہ(چھوٹی بازار) کی مسجد کی دوکان میں تھا جہاں اکثر وبیشتر ان حضرات کی ملاقاتیں ہواکرتی تھیں۔سڑک  کی دوسری جانب مقصود خاں کاکھانے کاہوٹل تھا۔ان سے بھی ان کے بہتر تعلقات تھے۔جہاں کبھی کبھی وہ طعام بھی کرلیتے تھے۔ان کامکان راقم الحروف کے مکان سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔اسی سے منسلک قصبے کی علم دوست شخصیت حافظ بدرالدین صاحب کامکان بھی ہے جہاں وہ اکثر تشریف لاتے تھے۔مجروح نے ان کی علمیت سے کافی فیض حاصل کیا۔چونکہ حافظ بدرالدین صاحب سے میرے والدِ محترم کے گہرے مراسم تھے اس لیے یہ ذکرمیں اپنے والدِ محترم کی گفتگو کے حوالے سے کررہاہوں۔ان احوال سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ وہ جس ادبی ماحول اور فضامیں سانس لے رہے تھے وہ نہایت ساز گار تھی۔اور ایسے میں ان کی فطری صلا حیتوں میں نکھار آنایقینی تھا۔اسیریِ زلفِ گرہ گیری اور معاملۂ عشق وشعروشاعری سے شغف ہی مدرسے سے اخراج کا آخری سبب بنا۔جس کااعتراف انھوں نے خود مرزاسلیم کو دیے گئے انٹرویومیں کیا ہے۔

’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد میں نے طب کی تعلیم کاسلسلہ شروع کیا۔1936میں لکھنؤ کے طبّیہ کالج (جھوائی ٹولہ) میں داخلہ لیا۔‘‘

 اس طرح لگ بھگ دوسال کاعرصہ انھوں نے لکھنؤ میں گزارا اور طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1938میں ایک بار پھر ٹانڈہ کارخ کیااور یہیں پر اپنا مطب کھول کر علاج ومعالجے کا سلسلہ شروع کیا۔اس سے ان کے ٹاندہ میں دوبارہ قیام کی تصدیق ہوتی ہے۔ اسی انٹرویو میںشاعری کے حوالے سے  انھوں نے مبہم انداز میںٹانڈہ کاذکر کیاہے۔

’’۔۔۔۔۔۔۔۔صرف یہ کہ کوئی مضمون اچھا ساآ جائے۔ جمالیاتی آجائے۔عشقیہ آجائے۔اچھاسیاسی بھی۔پتہ نہیں کیوں اس وقت میرارجحان تھا کہ اس وقت جوانگریز کی سیاست تھی،چھلک پڑتی تھی۔ کبھی کبھار۔غرض یہ کہ ایک ماحول تھا۔احباب تھے۔چھوٹی سی جگہ تھی اور اس چھوٹی سی جگہ میں مجھے بہت اچھامان لیاگیا۔شاید بڑی جگہ پر میں ہوتا تو رہ جاتا۔

(بحوالہ ’مجروح سلطانپوری سے تفصیلی گفتگو۔‘مرزاسلیم بیگ، ص264)

مجروح کے تخلص کے سلسلے کی کڑی فگار اور بیکس سے ہی جڑی ہوئی ہے۔ انھوں نے تو اس بات کااعتراف کیا ہے کہ وہ چھوٹی سی جگہ( ٹانڈہ)جہاں انھیں سراہا گیا، عزت سے نوازہ گیا، قدرکی گئی اور وہ مجروح سلطانپوری بن گئے۔ یہاں ایک بات اور وضاحت طلب ہے کہ انھوں نے ٹانڈہ کے ادبی ماحول اور اپنی شاعری کے پروان چڑھنے کاذکر توضرور کیاہے لیکن اپنے ہم عصر شعرا واحباب کانام لینے سے گریز کیاہے۔اور اپنے تخلص کے بارے میں نہ جانے کیوں غلط بیانی سے کام لیاہے۔وہ کہتے ہیں :

’’تووہاں سلطانپور میں بھی مشاعرے ہواکرتے تھے۔ ایک بار ہمارے جی میں آیاکہ ہم بھی مشاعرہ پڑھیں گے۔توہماری غزل بہت چل گئی صاحب۔اس کے بعد ہم نے دوبارہ غزل کہی،وہ بھی پسند کی گئی۔تویوں ہم چل نکلے۔اب ہواکہ اسرار تخلّص تونہیں چلے گا۔یہ بات ہے نومبر1939 کی۔اس وقت ہم دوتین غزلوں کے شاعر تھے۔تو اس مسئلے پر ہمارے دوستوں کابورڈ بیٹھا کہ بھئی ان کا تخلّص ڈھونڈا جائے۔اچھااس وقت میرا اُردوادب کا مطالعہ بالکل نہیں تھا۔صرف درسی کتابیں ہی پڑھی تھیں۔مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میر مہدی مجروح بھی کوئی گزرے ہیں۔اس بورڈ میں یہاں کراچی کے ایک سوز شاہجہاں پوری بھی تھے۔ اس لیے کہ ان کا سسرال بھی وہیں تھا۔توان سب نے مل کر میراتخلّص مجروح رکھا اوراس کوسب نے او۔کے کیا۔اس کے بعد میراتخلص مجروح ہوگیا اور یہ دوستوں نے رکھا،میں نے نہیں رکھا۔میں تواسرارتخلص ٹھیک سمجھتاتھا۔‘‘

(بحوالہ ’مجروح سلطانپوری سے تفصیلی گفتگو‘ مرزاسلیم بیگ،ص263)

مجروح کی شاعرانہ صلاحیت ومقبولیت اور ٹانڈہ میں قیام کے بارے میں پروفیسر محمودالٰہی رقم طراز ہیں :

’’اتفاق کی بات ہے کہ اسی زمانے میں ٹانڈے میں مشاعروں کازور خاصا بڑھا۔ان مشاعروں کی جان مجروح سلطانپوری اورہندی گورکھپوری تھے۔ٹانڈہ تو ایک طورپر مجروح صاحب کاوطن تھاہی اورہندی صاحب کی رفیقۂ حیات یہیں کی تھیں۔ا س لیے ان کابھی وطن ثانی بن گیا۔‘‘

(بحوالہ ’شعلۂ گل‘ ہندی گورکھپوری ایک تعارف۔ ازپروفیسر محمودالٰہی، ص4)

اس طرح حقائق اور شواہد اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ ان کاتخلص کچھ احباب کی مدد سے سلطانپور میں رکھاگیا۔کیونکہ نومبر1939 سے پہلے ہی وہ مجروح سلطانپوری کی حیثیت سے شہرت حاصل کرچکے تھے۔اور یہ کہ وہ شاعری کے ابتدائی دورسے ہی یہی تخلص رکھتے تھے جیساکہ ان کااور ان کے ہم عصروں کاذکر پہلے ہی کیا جاچکاہے۔اس سلسلے میں 21؍دسمبر1938 کو ہوبرٹ ہائی اسکول،ٹانڈہ،فیض آباد (امبیڈکرنگر)میں منعقدہ مشاعرے کی روداد کافی اہمیت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس مشاعرے کی صدارت مولوی زاورحسین ماہر جونپوری نے فرمائی تھی۔یہ ایک طرحی مشاعرہ تھا جس کامصرعۂ طرح تھا۔    ؎  ’’جاتاہوں تیری دید کاارماں لیے ہوئے‘‘ اس مشاعرے کی روداد گلدستۂ مشاعرہ،بزمِ ادب ہوبرٹ ہائی اسکول ٹانڈہ،یعنی ’عیارِ مشاعرہ‘ کے نام سے اواخردسمبر1938 میں ناصری پریس جونپورسے چھپ کر منظرِ عام پر آئی۔یہ 44صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ ہے۔ اس میں صفحہ 4پرصدرمجلسِ مشاعرہ کی مختصر ابتدائی تقریر کے بعدصفحہ 5پر قصبے کے مشہورطبیب حکیم خلیل الرحمن ٹانڈوی کی نعتیہ غزل درج ہے۔صفحہ6 پر حکیم عبدالجلیل ٹانڈوی،صفحہ 8 پر حکیم اسرارالحسن صاحب مجروح سلطانپوری  اور صفحہ25پرمحمد مدنی بیکس ٹانڈوی وغیرہ کی غزلیں شائع کی گئی ہیں۔اس کے علاوہ ٹانڈہ کے دیگر شعرا کے ساتھ مہمان شعرا، اسکول کے اساتذہ اورمتعلمین کے کلام  کے ساتھ  مشاعرہ میں شامل سبھی شعرا کے کلام شامل ہیں۔ مجروح کی یہ غزل جوان کے مجموعۂ کلام ’مشعلِ جاں‘ میں شامل نہیں ہے۔ (اس کاعکس دیا  جارہا ہے۔)

اس گلدستے میں مجروح کاکلام ابتدائی صفحات پر چند ایک نام کے بعد درج کیا گیاہے جوان کے ادبی مقام ومرتبے اور حیثیت کوظاہرکرتاہے۔اوریہ سب اتناکچھ اچانک یااتفاقی طور پر نہیں ہوسکتا۔ یہا ںتک پہنچنے میں کہنہ مشقی،مشّاقی وفنی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مجروح کی طالب علمی کا سات سالہ دور ٹانڈہ میں اور دوسال لکھنؤ میں گزرا۔ حکمت کی سند حاصل کرنے کے بعد1938 میں ٹانڈہ میں مطب کاقیام وعلاج ومعالجے کی خدمات،ان کے ہم عصر شعرا ودوستوں کے احوال اور حلقۂ احباب کی محفلوں کے ذکر سے یہ نتیجہ اخذکرنا کافی آسان ہوگیاہے کہ ان کی ذہنی وادبی تربیت اورسرپرستی قصبہ ٹانڈہ میں ہی ہوئی۔


Dr.Ameen Ahsan

Mohalla Qazipura

Tanda Ambedkarnagar-  224190 (UP)

Mob.: 9839745971



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں