9/4/21

بچوں میں تحصیل زبان سے متعلق نفسیاتی نظریات -مضمون نگار: آفاق ندیم خان


 

تعارف:

بچوں میں زبان کی تحصیل اور نشوونما کیسے ہوتی ہے؟  اس تعلق سے علم نفسیات کے شعبے میں مختلف ماہرین نفسیات نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔نفسیات کے شعبے میں بچوں میں تحصیلِ زبان کے تعلق سے چار نظریات بہت اہمیت کے حامل مانے جاتے ہیں۔ یہ نظریات بالترتیب وقوفی (Cognitivist)، برتاوی(Behaviourist)،تعاملی (Interactionist) اور مقامی (Nativist)نظریات ہیں۔  ان نظریات میں نوم چومسکی کا مقامی نظریہ شعبہء نفسیات میں سب سے زیادہ مقبول اور معروف ہے۔نوم چومسکی سے پہلے مختلف ماہرین نفسیات جس میں جین پیاجے،وائیگوٹسکی، اسکینر، بینڈور ااور برونر کانام کافی اہمیت کا حامل ہے،انھوں نے بچوں میں زبان کی تحصیل اور نشوونما کے تعلق سے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔اس مضمون میں جین پیاجے، وائیگوٹسکی اور اسکینر کے نظریات کا عمومی جائزہ پیش کرتے ہوئے نوم چومسکی کے نظریے کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مضمون کا مقصد والدین،سرپرست بشمول زبان کے معلم اور بچوں کی تعلیم وتربیت سے منسلک افراد کو تحصیلِ زبان کے مختلف عوامل کا ادراک کرانا ہے جس سے کہ وہ بچوں کی زبان کی تحصیل اور نشوونما میں اپنا کلیدی کردار ادا کرسکیں۔

جین پیاجے کا نظریہ:

جین پیاجے (1896-1980) ایک مشہور ماہر نفسیات تھے جن کا تعلق سوئٹزرلینڈ سے تھا۔وہ علم الحیوانات میں تربیت یافتہ تھے۔ جب وہ الفرڈ بنے کی تجربہ گاہ میں ذہانتی آزمائش پر کام کر رہے تھے اس وقت ہی انھوں نے بچوں کی وقوفی نشوونما پر بھی کام کرنا شروع کردیا تھا۔یہ 1922-23 کا زمانہ تھا۔ انھوں نے 1923 سے1932  کے درمیان پانچ کتابیں شائع کیں جس میں انھوں نے وقوفی نشوونما کے نظریات کو پیش کیا۔وقوفی نشوو نما سے مراد ایسے عوامل سے ہے جس میں غور وفکر، ادراک اور مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت شامل ہوتی ہے۔ عام زبان میں وقوفی عمل کو ذہنی عمل کہتے ہیں۔ وقوفی نشوو نما سے مراد قوت تفہیم، قوت حافظہ، قوت استدلال اور ذہانت وغیرہ کی نشوو نما سے ہے۔وقوف وہ ذہنی شے ہے جس کے ذریعے کسی چیز، امر واقع یا حالات کی تفہیم ہوتی ہے یا علم حاصل ہوتاہے۔اس زمرے میں ادراک،استدلال، تصورات اور قوت فیصلہ جیسے ذہنی عوامل شامل ہوتے ہیں۔پیاجے کا نظریہ تھا کہ  زبان کی نشوونما کا براہ راست تعلق انسان کی وقوفی نشوونما سے ہے۔پہلے خیالات کی تشکیل ہوتی ہے اس کے بعد زبان کی تحصیل ہوتی ہے۔یعنی بچے کے آس پاس جو بھی افراد،اشیا  یا چیزیں ہوتی ہیں ان کے بارے میں اس کا خیال اس کے ذہن میں تشکیل پا چکا ہوتاہے، لفظوں کا استعمال کرکے اپنے خیالات کا اظہار بچہ بعد میں سیکھتا ہے۔جیسے بچہ گلاس کو منھ سے لگاتا ہے، فون کو کان سے لگاتا ہے، ٹوپی کو سر سے لگاتا ہے،جوتے میںپیر ڈالنے کی کوشش کر تاہے،وغیرہ۔یعنی اس کے عمل سے اس کے خیالات کا ظہور ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کی زبان کی نشوونما ابھی ناپختہ ہے اس لیے وہ اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنانے سے قاصر ہوتا ہے۔پیاجے کے مطابق زبان کی نشوونما وقوفی نشوونما سے بالکل منفرد اور آزاد ہے۔یعنی زبان کی نشوونما کا اثر وقوفی نشوونما پر نہیں ہوتا ہے بلکہ وقوفی نشوونما کا اثر زبان کی نشوونماپر مرتب ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم بچوں کی زبان کی نشوونما کو رفتار فراہم کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اس کی وقوفی نشوونما کرنی ہوگی۔

وائیگوٹسکی کا نظریہ:

وائیگوٹسکی(1896-1934) کا شمار شعبہ نفسیات میں ایک تشکیلی مفکر کے طور پر کیا جاتا ہے۔ان کا تعلق روس سے تھا۔ انھوں نے انسانی ثقافت اور حیاتی سماجی نشوو نما کا نظریہ پیش کیا۔ وائیگوٹسکی بچوں کی وقوفی نشوونما میں سماج اور اس کے ثقافتی تعلقات کے درمیان تعامل کو بہت اہم مانتے ہیں۔پیاجے کی طرح وائیگوٹسکی یہ مانتے تھے کہ بچے علم کی تخلیق خود کرتے ہیں لیکن ان کے مطابق وقوفی نشوونما علیحدہ طور پر نہیں ہو سکتی ہے بلکہ یہ زبان کی نشوونما، سماجی نشو و نماحتیٰ کہ جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ سماجی-ثقافتی ماحول کے ضمن میں ہوتی ہے۔ان کا نظریہ تھا کہ عمر کے ابتدائی دو سال میں خیالات اور زبان بالکل علیحدہ ہوتے ہیں، دونوں کا ایک دوسرے سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا ہے۔ یعنی خیا لات اور زبان ایک دوسرے سے آزاد ہوتے ہیں۔دوسال کے بعد دونوں کا ایک دوسرے میں انضمام ہوجاتا ہے۔ ایسا ہونے پر زبان کی نشوونما کا اثر انسان کی وقوفی نشوونما کو متأثر کرتا ہے۔ وائیگوٹسکی نے خود کلامی کو بہت اہمیت کا حامل بتایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بچہ خود کلامی کر کے خود کو ہدایت دیتا ہے۔وہ خودد ہی اپنی سرگرمیوں کی ہدایت کاری کرتا ہے۔ کھیلتے وقت، پڑھتے وقت، کھانا کھاتے وقت خود سے بات کر کے اپنے عمل کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وائیگوٹسکی نے پیاجے کی اس بات کی تائید کی کہ وقوفی نشوونما کے لیے زبان کی نشوونما ناگزیر ہے۔لیکن اس بات سے انکار کیا کہ زبان کی نشو ونما وقوفی نشوونماپر منحصر ہوتی ہے۔ وائیگوٹسکی کے مطابق زبان کی نشوونما وقوفی نشوونما پر منحصر نہیں ہوتی ہے بلکہ وقوفی نشوونما زبان کی نشوونما پر منحصر ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے اگر ہم بچوں کی وقوفی نشوونما کو رفتار فراہم کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اس کی زبان کی نشوونما کرنی ہوگی۔زبان کی نشوونما کے لیے بچے کو یہ موقع فراہم کرنا چاہئے کہ وہ سماج اور اس کے ثقافتی تعلقات کے درمیان تعامل میں سرگرم ہو کر شریک ہو۔ایسے بچے جنھیں مثبت سماجی اور ثقافتی مواقع حاصل ہوتے ہیں ان میں زبان کی نشوونما کی رفتار زیادہ ہوتی ہے۔

اسکینر کا نظریہ:

اسکینر (1902-1990) ایک امریکی ماہر نفسیات تھے، انھوں نے اکتساب کا عملی مشروط نظریہ پیش کیا۔اس نظریے کے مطابق جب کسی عمل کے بعد کوئی تقویت فراہم کرنے والا محرکہ ملتا ہے تو اُس عمل کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ان کے مطابق زبان کی نشوونما میں بھی تقویت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ جب بچہ زبان کا استعمال کرنا سیکھتا ہے اس وقت اگر اسے تقویت فراہم کی جائے تو زبان سیکھنے کی رفتار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اسکینرنے بتایا کہ بچے چیزوں کو اس کے مفہوم کے ساتھ مربوط کرتے ہیں۔ انھوں نے زبان کی نشوونما کے تعلق سے اپنی کتاب 'Verbal Behaviour' میں اپنا نظریہ پیش کیا۔اسکینر کے مطابق عمل کرنا مخلوق کی حیاتیاتی جبلت ہے۔ جب اسے کوئی حیاتیاتی یا ماحولیاتی ضرورت، جسے نفسیات کی زبان میں محرکہ یا تحریک کہتے ہیں، محسوس ہوتی ہے تو وہ خود بہ خود سرگرم ہوجاتا ہے۔عمل کے نتیجے کے طور پر حاصل کامیابی سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔تقویت سے سیکھنے کا عمل تیز ہوتا ہے اور سیکھنے والا بہت جلد سیکھ جاتا ہے۔مختلف تجربات سے حاصل حقائق کی بنیاد پر اسکینر نے تحصیل زبان سے متعلق اپنا نظریہ پیش کیا۔ یہ نظریہ زبان سیکھنے کے لیے محرکہ(Stimulus)کی جگہ تحریک (Motivation) کو ضروری مانتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے بچوں کوبولنے، پڑھنے اورلکھنے کے لیے متحرک کرنا چاہیے۔ ان کے سامنے محرکہ کی صورت میں واضح مقصدرکھنا چاہیے۔جب بچے کو زبان کا استعمال کرنے سے تسلی بخش نتائج حاصل ہوتے ہیں تو وہ اپنے اس عمل کو بار بار دہراتے ہیں اور بالآخر زبان سیکھ جاتے ہیں۔ اسکینر نے اس نظریے کی بنیاد پرسلسلہ وار تدریس  (Programmed Instruction) کو فروغ دیا جو زبان سیکھنے میں بہت معاون ہے۔ اس طرح کی تدریس میں سکھائے جانے والے مواد کو چھوٹے چھوٹے مراحل میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ صحیح جواب بچوں کے لیے تقویت کا کام کرتے ہیں اور وہ چھوٹے چھوٹے مراحل کو یکے بعد دیگر ے سیکھتے ہوئے مکمل مواد کو سیکھ جاتے ہیں۔متحرک مشروطیت سے بچوں کے طرز عمل میں مطلوبہ تبدیلی لائی جاسکتی ہے، شرمیلے بچوں کی جھجھک کو دور کیا جاسکتا ہے اور کند ذہن بچوں کو پڑھایا اور سکھایا جاسکتا ہے۔

نوم چومسکی کا نظریہ:

ابراہم نوم چومسکی 7 دسمبر 1928 کو امریکہ میں پیدا ہوئے۔مغربی دنیا میں وہ موجودہ زمانے کے ماہر لسانیات،فلسفی،مورخ،سیاسی مصنف کی حیثیت سے کافی مقبول ہیں۔ 92سالہ نوم چومسکی،مینا چوسٹن انسٹی ٹیو ٹ آف ٹیکنا لوجی کے شعبہ لسانیات کے سبکدوش پروفیسر ہیں۔ اس ادارے سے تقریباً 50سالوں تک وابستہ رہتے ہوئے اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ چومسکی کو لسانیات میں تو لیدی قواعد کے اصولPrinciple of Generative Grammer)) اور بیسوی صدی کی لسانیات ( Linguistics) کابانی کہا جاتاہے۔ 1967میں انھوں نے نفسیات کے شہرت یافتہ ماہر نفسیات بی۔ایف اسکینر کی کتاب Verbal Behaviours کی تنقید لکھی جس نے1950 کی دہائی میں وسیع طور پر قبول کیے جا چکے برتاوی نظریہ کو چیلنج کیا۔اس سے انھیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔چومسکی کے نظریے کے بعد نفسیات کے شعبے میں وقوفی نظریے میں ایک انقلاب برپا ہوگیا۔اس سے نہ صرف نفسیات کا مطالعہ اورتحقیق متاثر ہوئی بلکہ لسانیات، عمرانیات اور مطالعہ انسانیات میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

چومسکی نے تحقیق کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ زبان انسان کی خداد اد(Innate)  صلاحیت ہے۔ ان کی مشہور تصنیف زبان اورذہن (Language & Mind)  1972  میں شائع ہوئی۔اس کتاب کے ذریعے چومسکی نے زبان سیکھنے کے نظریے پر روشنی ڈالی۔ انھوںنے اپنی کتاب میں تحریر کیاکہ جب ہم انسانی زبان کا مطالعہ کرتے ہیں تو دراصل ہم انسانی جوہر (Human essence)  کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ انسانی جوہر دماغ کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک ہے جنھیں تا حال ہم جان سکے ہیں اور یہ امتیازی خصوصیت انسانوں کودوسروں سے جدا کرتی ہے۔ یعنی انسان اس بے مثل خصوصیت کاتنہا حامل ہے۔ چومسکی کے مطابق تمام چیزوں میں زبان کی امتیازی خصوصیت ہے جو صرف انسانوں تک ہی محدود ہے۔چومسکی کے نظریے کے مطابق تما م زبانوں کی بنیاد ایک ہی ہے۔ ان کے مطابق بچوں کا لفظ یا زبان سیکھنا تقلید اور تحریک پر محیط ضرور ہے لیکن تقلید اور تحریک دونوں ہی بچوں کے ذریعے لفظوں کو سیکھنے کے عمل کو بہتر طریقے سے وضاحت نہیں کرتے ہیں۔ چومسکی اپنے نظریہ کی وضاحت ایک عددی ماڈل کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔

چومسکی کاخیال ہے کہ ہر بچے میں ایک تعمیر شدہ نظام (Built- In System) ہوتاہے جسے لسا نی تحصیلی آلہ (LAD- Language Acquisition Device)  کہتے ہیں۔ اس کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ بچہ زبان کا ترتیبی عمل کر سکتا ہے،گفتگو کو سمجھ سکتاہے اور اسے بول بھی سکتاہے۔چومسکی نے اپنے نظریے کی وضاحت کے لیے ایک ماڈل پیش کیا۔ماڈل کے مطابق LAD کوئی جسمانی اعضا نہیں ہے بلکہ ایک قیاس (Analogy) ہے۔ بچہ جو کچھ بھی سنتاہے اسے LAD  کے ذریعے سمجھتا ہے، اسے دوبارہ بول سکتاہے اور نئے الفاظ بھی بو ل سکتاہے۔ دراصل  LAD ایک مفروضاتی تصور ہے۔ انسان کے دماغ میں کوئی ایسا گوشہ یا آلہ (Device) نہیں ہوتا جس کے استعمال سے زبان سیکھی جا سکے بلکہ یہ ان لاکھوں کروڑوں عملیات کی تشریح وتوضیح میں مدد گار ہے جو انسان کے دماغ میں ہوتے ہیں اور جو انسان میں زبان کے سیکھنے اورسمجھنے کی قوت پیدا کرنے میں معاون ہیں۔چومسکی نے اپنایہ نظریہ 1950 کی دہائی میں پیش کیا۔ انھوںنے ایک وسیع نظریہ مرتب کیا جسے آفاقی قواعد  (Universal Grammer)کہاجاتاہے۔یہ نظریہ انسان میں زبان سیکھنے کے عمل کی وضاحت پیش کرتا ہے۔

چومسکی کے مطابق ہر بچے میں لسانی تحصیلی آلہ (LAD )  کی خدا داد قوت پیدائش کے ساتھ ہی وجود میں آتی ہے اور اس میں زبان کے بنیادی اصول پائے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں بچے زبان کے اصول و ضوابط کی استعداد کے ساتھ پیدا ہو تے ہیں انھیں صرف الفاظ کا ذخیرہ حاصل کرنے کی ضرورت رہ جاتی ہے۔اس نظریے کی وکالت کرتے ہوئے چومسکی نے کچھ ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ انھوںنے بتایا کہ بنی نوع انسان کی زبان بنیادی طورپر ایک جیسی ہے۔ مثلاً ہر زبان میں فاعل،فعل،مفعول (Subject, Verb, Object)  ہی ہوتے ہیں اور ہر ایک زبان میں چیزوں کومنفی یا مثبت میں پیش کرنے کی خوبی ہوتی ہے۔ چومسکی نے یہ بھی دریافت کیا کہ جب بچے بولنا سیکھ رہے ہوتے ہیں تو وہ غلطیاں نہیں کرتے جیسا کہ عام طورپر سمجھا جاتا ہے۔انھوںنے مثال کے ذریعے بتایا کہ بچے یہ سمجھ رکھتے ہیں کہ سبھی جملوں کی ایک ساخت ہوتی ہے جس میں فاعل، فعل،اور مفعول ہوتے ہیں اوربچے یہ اس وقت بھی سمجھتے ہیں جب وہ مکمل جملے نہیں بول پاتے ہے۔اپنے تجربات کی بنیاد پر چومسکی نے یہ بتایا کہ روانی کے ساتھ زبان کا استعمال کرنے کی سطح سے پہلے ہی بچے اپنے ماحول کے لوگوں کی زبان میں قواعد سے متعلق غلطیوں کی نشاند ہی کرلیتے ہیں۔ انھوںنے یہ بتایا کہ بچے ان الفاظ میں بھی قواعد کے اصول کو نافذ کرتے ہیں جن کے سلسلے میں قواعد کے اصول مستثنیٰ (Exception) ہیں۔ مثال کے طورپر ہر بچہ ملک کی جمع ملکوں اور کتا ب کی جمع کتابیں بتاتاہے۔جب کہ قواعد کے اصول کے تحت یہ غلط ہے(اصولاً ملک کی جمع ممالک اور کتاب کی جمع کتب ہے۔) لیکن بچے کایہ بتانا آفاقی قواعد کے مطابق ہے۔

چومسکی کے نظریہ کی اہم باتیں:

چومسکی کے تحصیل زبان نظریہ کی ابتداسنہ 1957 میں شائع ہونے والی ان کی کتاب 'Syntactic Structures'سے ہوئی مانی جا سکتی ہے۔اس کتاب کے ذریعے چومسکی نے سابقہ تشکیل شدہ ساختی ماہرین لسانیات کے نظریات کو چیلنج کر کے قابل تغیر قواعدکی بنیاد رکھی۔ اس قواعد نے یہ مفروضہ قائم کیا کہ لفظوں کے مجموعے کا اپنا قاعدہ ہوتا ہے  جسے رسمی قواعد کے طور پر موسوم کیا جا سکتا ہے۔چومسکی کے نظریات کی مدد سے زبانوں کی تحصیل اور نشوونما کوسمجھنا نہایت آسان ہوگیا ہے۔ان کے نظریے کی خاص باتیں درج ذیل ہیں:

-1        اس نظرے میںتین چیزوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے:

.i          ؒٓلسانی تحصیلی آلہ  (LAD-Language Acquisition Device)

.ii        عالم گیر قواعد(UG-Universal Grammer) اور

.iii       تو لیدی قواعد کے اصول (Principle of Generative Grammer)

2          لسانی تحصیلی آلہ انسان کے دماغ میں ایک اعصابی نظام کی صورت میں ہوتا ہے جو زبان کی تحصیل میں معاون ہوتا۔یہ آلہ مقرون صورت میں نہیں بلکہ مفروضاتی اور مجرد صورت میں ہوتا ہے۔

3          مفروضاتی لسانی تحصیلی آلہ انسان کے دماغ کے بائیں حصے میں منطق، ذخیرہ الفاظ،علامات اوراستددلال کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔

4          لسانی تحصیلی آلہ کی بنا پر انسان لا شعوری، خود کار اور فطری طور پر زبان کو سیکھ جاتا ہے۔

5          تمام انسانوں کے اندر ایک عالم گیر قاعدہ ہوتا ہے،سبھی زبانوں میں ایک عالم گیر قواعد موجود ہے اورتمام زبان کی ساخت تقریباً مساوی ہوتی ہے جس میں فعل، فاعل اور مفعول ہوتے ہیں۔

6          سبھی زبانوں میں قواعد موجود ہیں اور یہ قواعد زبان کے عالم گیر قواعد سے باہم مربوط ہیں۔تمام زبانوں کے بنیادی نحو(Syntax)تقریباً مساوی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کسی زبان میں اگر انسان کو عبور حاصل ہو جائے تو اس کے لیے دوسری زبان سیکھنا آسان ہوجاتا ہے۔

7          زبان کے قواعد کے بنیادی اصول بچے کا دماغ لاشعوری طور پر سیکھ جاتا ہے۔دقیق اور مشکل جملوں کا استعما ل بچے اکثر و بیشتر بغیر کسی لسانی خطا کے کرتے ہیں۔اگر کو ئی جملہ زبان سے غلط نکل جاتا ہے تو فوراً دماغ کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ غلطی سرزد ہو چکی ہے۔آئندہ خودکار طور پر بچہ اس غلطی کی اصلاح کر لیتا ہے۔

8          تمام ثقافتوں میں بچوں میں زبان کی نشوونما کاایک بالترتیب مرحلہ ہوتا ہے اوردنیا کے تما م خطّے میں زبان کی نشوونما کا یہ مرحلہ تقریباً یکساں ہوتا ہے۔

9          بچے لا تعداد اطلاعات،اشیا،حقائق اور معطیات سے روبرو ہوتے ہیںانسان کے دماغ میں اعصابی صورت میں موجود لسانی تحصیلی آلہ ان معطیات کو قواعد کے اصولوں کے مطابق ایک لسانی مجموعے کی صورت میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

10       انسان میں زبان سیکھنے کی پیدائشی خصلت ہوتی ہے۔انسان کو زبان سکھائی نہیں جاتی ہے بلکہ تحصیلِ زبان کی پیدائشی خصلت ماحول ملنے پر انھیں خود بہ خود زبان سکھا دیتی ہے۔یہ پیدائشی خصلت صرف انسانوں میں ہی پائی جاتی ہے۔

.11      بچے نئی زبان سیکھتے نہیں ہیں بلکہ اس کی تحصیل خداداد لسانی آلات کے ذریعے فطری طور پر کرتے ہیں۔

.12      انسان کی عمر کے ابتدائی پانچ سالوں میں لسانی تحصیلی آلہ بہت زیادہ سرگرم ہوتا ہے اس کے بعد اس کی قوت میں کمی آنے لگتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ نئی زبان سیکھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔

.13      یہ نظریہ اس بات کی مخالفت کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بچہ سادہ سلیٹ کی طرح ہوتا ہے وہ جو کچھ بھی سیکھتا ہے اپنے ماحول کے تعامل سے یا ماحول سے متحرک ہوکر سیکھتا ہے۔

.14      انسان پیدائشی طور پر زبان سیکھنے کی استعداد کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان کی تحصیل توارثی طور پر ہوتی ہے بلکہ چومسکی کا نظریہ ہے کہ انسان زبان سیکھنے کی استعدادکے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور اس استعداد کی معاونت سے وہ ماحول میں رہ کر زبان کو سیکھتا ہے۔

.15      بچوں میں زبان سیکھنے کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے بغیر کسی شعوری کوشش کے یہ فطری طور پرزبان سیکھ جاتے ہیں۔زبان کی قواعد بھی بچے لاشعوری طور پر سیکھ جاتے ہیں۔ فطری تعاملی ماحول میں زبان کا استعمال کرنے سے زبان کی تحصیل ہوتی ہے۔

خلاصہ:

بچوں میں زبان کی تحصیل اور نشوونماسے متعلق نفسیات کے شعبے میں مختلف ماہرین نفسیات نے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ تحصیل زبان کے تعلق سے چار نظریات بالترتیب وقوفی برتاوی،تعاملی اور مقامی کافی اہمیت کے حامل ہیں۔وقوفی نظریے میں جین پیاجے کا نظریہ کافی اہم ہے ان کے مطابق زبان کی نشوونما وقوفی نشوونما پر منحصر ہوتی ہے۔برتاوی نظریہ میں اسکینر کا نظریہ ہے کہ زبان کی نشوونما میں تقویت کا دخل سب سے زیادہ ہے۔تعاملی نظریے میں خصوصاً بینڈورا اور برونر کا ذکر کیا جاتا ہے،ان کے مطابق زبان کی نشوونما بچوں کی خداداد استعداد اور ماحول دونوں کے تعامل پر منحصر ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ اس میں سماجی تناظر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔نوم چومسکی کا مقامی نظریہ شعبہء نفسیات کا سب سے جدید، سب سے مقبول اور سب سے زیادہ سائنسی نظریہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

منجملہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے مندرجہ بالا نظریات کی روشنی میں تحصیلِ زبان کو متائثر کرنے والے عوامل، تحصیل زبان کی رفتار میں اضافہ کرنے والی تدابیر اور تحصیل زبان کے لیے موزوں عمر سے متعلق حقائق کو سمجھ کروالدین سرپرست بشمول زبان کے معلم اور بچوں کی تعلیم وتربیت سے منسلک افراد بچوں کی زبان کی تحصیل اور نشوونما میں اپنا کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

حوالے:

.1        نجم السحر، صابرہ سعید، تدریس اردو، پریمئر پبلشنگ ہائوس، حیدرآباد، 2006

.2         محی الدین قادر ی زور، تدریس اردو، یونیک بک میڈیا، شرینگر، 2006

3.            Piaget, Jean. The Groeth of logical Thinking from Childhood to Adolescence. N.Y.: Basic Books, 1958.,

4.            Singh, A.K. (2010). Educational Psychology. Patna: Bharti Bhawan Publishers and Distributors.

5.            Kapil, H.K. (1991). Youth! Abnormal Psychology. Agra: Bhargava Publications.

6.            Khan, N.A. & Husain S.M.(2019). Aspects of Educational Psychology: Aligarh. Educational Book House


Dr. Afaque Nadeem Khan

Assistant Professor

Maulana Azad National Urdu University

College of Teacher Education

Bhopal - 462001 (UP)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں