9/4/21

شہر آگرہ کا ادبی تعارف - مضمون نگار: محمودہ قریشی

 



آگرہ ملک ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کا ایک شہر ہے۔ اس کا قدیم نام اکبرآباد ہے۔مغلیہ سلطنت میں آگرہ شہر بالخصوص بادشاہ اکبر کے زمانے میں دارالسطنت رہا ہے جس کو سکندر لودی نے بسایا تھا۔ سکندر لودی نے دہلی سے صفدر خاں کو آگرے کا حاکم بنا کر بھیجا۔

لیکن سیف الدولہ محمود پسر ابراہیم غزنوی کے آگرہ  قلعہ فتح پر ’مسعودسعد سلیمان‘  نے دو قصیدے  فارسی میں سیف الدولہ اور قلعہ کی شان میں لکھ کر بھیجے تھے جس میں آگرہ اور آگرہ قلعے کا ذکر ملتا ہے۔ملاحظہ فرمائیں          ؎

حصار آگرہ شد از میانہ گرد

بسان کدہ برد بادہ ہائی چون کہسار

امیر آگرہ جیسپال از گنبد

فرد دوید بہ پست آمد از سر بلند حصار

’’اس گرد غبار کے درمیان آگرہ۔کا قلعہ دکھائی پڑا، قلعہ کیا تھا ایک پہاڑ تھا۔ اس پیڑ جو بارے تھے وہ اپنی اپنی چھوٹے پہاڑ تھے۔‘‘

ماہ نو روز دگر بارہ بما روی نمود

قلعہ آگرہ در آورد ملک زادہ بچنگ

تاریخ کے واقعات سے نہیں بلکہ شاعر کے دیوان سے معلوم ہوتا ہے کہ۔آگرہ اور آگرہ کا قلعہ سکندر لودی سے پہلے موجود تھا۔چونکہ سکندر لودی کا عہد سیف الدولہ کے عہد سے چار سو سال سے زیادہ قبل کا ہے۔

شہر آگرہ تہذیب و تاریخ کامرکز شروع سے ہی رہا ہے۔  آگرہ شہر اپنی خصوصیات کی بنا پر پوری دنیا میں قبولیت کی سند رکھتا ہے۔

یوں تو آگرہ شہر پوری دنیا میں اپنی عمارتوں کے سبب مشہور ہے۔

اس کے بعد مغلوں کا دور آتا ہے۔مغل دور میں تقریباً سب ہی بادشاہوں نے آگرہ شہر میں عمارتیں تعمیر کرائی ہیں۔

بابر نے آگرہ میں’ آرام باغ‘ جو آج ’رام باغ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں آج گھنی آبادی ہے۔ بابر کے بعد شیر شاہ سوری اور اس کے بیٹے نے آگرہ فتح کیا۔ لیکن آگرہ کو عروج اکبر کے زمانے میں ہوا جس میں باد شاہ اکبر نے آگرہ کا لال قلعہ، فتح پور سیکری اور سکندرہ ہمایوں کا مقبرہ۔ موتی مسجد  وغیرہ کی تعمیر کرائی اور شاہ جہاں بادشاہ نے اپنی بیگم ممتاز کی یاد میں گنبدومحراب کی شکل میں’ تاج محل‘ بنوایا۔ جس نے پوری دنیا میں صرف آگرہ ہی نہیں بلکہ  ہندوستان کو زینت بخشی۔ تاج محل دنیا کا ایک عجوبہ ہے۔جس کو پوری دنیا سے لوگ  دیکھنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ اس کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کا باشندہ ملک ہندوستان آئے اور تاج محل کی خوبصورتی کو دیکھے بغیر رہ جائے۔ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔

میرزا ابو طالب کلیم ہمدانی، شاہ جہاں کا ملک الشعرا   تھا۔اس نے’ شہنشاہ نامہ‘نظم کیا ہے۔ وہ اس میں آگرہ کی تعریف کرتے ہیں۔ (ص98)

’’اکبرآباد میں دل ودماغ کو مطمئن رکھنے، ساز و سامان ارزاں ہے۔ ہزار شہر اس کے کوچوں میں گم ہیں۔ یہاں بہتا دریا، دریائے نیل کا ثانی ہے۔ اس شہر کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی اپنے دوست کی خبر گیری کے لیے قاصد بھیجے،  تو واپس آتے آتے وہ قاصد بوڑھا ہو جائے۔ایسا شہر دنیا میں موجود نہیں ہر  ملک کے لوگ یہاں بستے ہیں ظلم و ستم کا یہاں گزر نہیں، کوئی باجہ،تمغا اور دیوانی پریشانیاں لاحق نہیں۔ ہاں یہاں کے پری چہرہ دل ضرور احک لیتے ہیں ۔‘‘

سب  سے پہلے شاہ جہاں نے ہی آگرہ کو اکبرآباد کے نام سے پکارا ہے۔

 اس کو بڑے بڑے نامور شعرا اساتذہ کرام اور دانشوروں نے اپنے نام وکام دونوں سے سینچا ہے۔  ادب میں دبستان اکبرآباد بن کر ابھرا ہے۔ہمارے اردو ادب کی یہ خوش قسمتی کہوں یا ادب کا اس سے لگاؤ کہ بڑے بڑے نامور شعراء اکرام اس سر زمین  آگرہ سے ہی نکلے ہیں  جس نے ادب کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔اردو ادب کا نام لیا جائے اور دبستان اکبرآباد کو فراموش کر دیا جائے، ایسا  ہو ہی نہیں سکتا۔

ادب کی تاریخ  اکبرآباد کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔

 آگرہ شہر نے ہی اردو غزل کے بادشاہ میر تقی میر جیسا قادر الکلام شاعر اردو ادب کو دیا۔ اور مغلیہ دور کی اَخری کڑی اور جدید دور کی پہلی کڑی سمجھے جانے والے مرزا اسد اللہ خاں غالب بھی اسی شہر آگرہ کی دین ہیں۔  نظیر آکبرآبادی تو خود کہتے ہیں کہ    ؎

عاشق کہو، اسیر کہو، آگرے کا ہے

ملا کہو، دبیر کہو آگرے کا ہے

مفلس کہو، فقیر کہو آگرے کا ہے

شاعر کہو، نظیر کہو، آگرے کا ہے

اردو ادب کا سب سے بڑا عوامی شاعر نظیر اکبرآبادی جو دہلی میں 1835میں پیدا ہوئے لیکن آگرہ ایسے آئے کہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔  نظیر اکبرآبادی نے اپنے کلام میں جابجا آگرہ شہر کی تعریف کی ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں صرف آگرہ کے ہی رسم و رواج، آگرہ کے تہوار،  آگرہ کی ککڑی، آگرہ کے میلے تیرا کی، بلدیو جی،کمال خاں اور دیگر  میلوں، تہوارں، ہولی، دیوالی اور موسم کا ذکر اس طرح ادب میں پیش کیاہے کہ اکبرآبادی ہونے کا حق ادا کر جاتے ہیں۔

میاں نظیر اپنی ایک مسلسل بردیف نظم ’آگرہ ‘میں اس شہر کے شاندار ماضی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں       ؎

شداد زر لگا نہ بناتا بہشت کو

گر جانتا کہ ہووے گا آباد آگرہ

آگرہ کی جتنی خوبصورت منظر کشی نظیر اکبرآبادی نے کی ہے۔ اتنی شاید ہی کسی شاعر نے کی ہو۔ نظیر اکبرآبادی صاحب آگرہ میں موجودہ تاج گنج محلہ  نوری دروازہ میں کر ائے کے مکان میں رہا کرتے تھے۔ تاج گنج سے  لڑکوں کو درس دینے کے لیے آیا کرتے تھے۔ راستے میں آگرہ بازار سے روبہ رو ہونے کا موقع ملتا تھا۔ آگرہ بازار کی وہ منظر کشی کرتے ہیں کہ آگرہ کی ہو بہ ہو تصویر کھینچ دیتے ہیں اور’ہولی‘ تو ان کی مشہور نظم ہے۔ تقریباً گیارہ نظمیں کلیات میں’ہولی‘ پر موجود ہیں۔ نظم’ہولی‘ میں اس کی بہاروں کے ساتھ ساتھ وہ زندگی کی تلخ سچائیوں کو بھی پیش کرتے ہیں۔

بقول کلیم الدین احمد :

’’نظیر کا وجود ہی اردو شاعری کی بے نظیر تنقید ہے۔‘‘

نظیر کی شاعری سماجی شاعری ہے۔ اس میں سماج سے رو بہ رو ہونے کا موقع ملتا ہے جس میں آگرہ تہذیب کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ زندگی  کی تلخ حقیقتوں کو بھی پیش کرتے ہیں۔ اپنی نظم’ مفلسی‘ میں لکھتے ہیں:

جب مفلسی ہوئی تو شرافت کہاں رہی

وہ قدر ذات کی وہ نجابت کہاں رہی

کپڑے پھٹے تو لوگوں میں عزت کہاں رہی

تعظیم اور تواضع کی بابت کہاں رہی

مجلس کی جوتیوں پہ بٹھاتی ہے مفلسی

وہ اپنی نظموں کے ذریعے معاشرے میں پھیلی گندگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انسان چھوٹا بڑا خود نہیں ہوتا۔اس کو حالات صحیح اور غلط کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ اپنی نظموں میں مفلس ( غریب )آدمی کی حیثیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔جو صرف آگرہ کی ہی نہیں ملک ہندوستان کے ساتھ پوری انسانی حیثیت کو بیان کرتے ہیں۔ نظم آدمی نامہ میں لکھتے ہیں:

دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی

اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

زردار  ,بے نوا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

نعمت جو کھا رہا ہے ،سو ہے وہ بھی آدمی

ٹکڑے جو مانگتا ہے،سو ہے وہ  بھی آدمی

نظیراکبرآبادی نے اپنی نظموں میں صرف زبان کے چٹخارے ہی نہیں بھرے بلکہ ان کی شاعری انسان دوستی کا درس دیتی ہے۔

آگرہ شہر ان کی محبت میں ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے ہر سال بسنت پر رگھونشی گھرانے کی جانب سے ’بزم نظیر‘کمیٹی  مشاعرے کاا نعقاد کرتی  ہے اور ان کا کلام پیش کیا جاتا ہے۔ ’حبیب تنویر‘نے بھی ایک ڈراما نظیر کے حالات و شاعری پر ۔’آگرہ بازار ‘کے نام سے لکھا  ہے۔جو آج بھی ٹکنالوجی کے ذریعے  پیش کیا جاتا ہے۔

نظیر اکبرآبادی کی شاعری اردو ادب میں درخشندہ ستارے کی مانند چمکتی رہے گی اور اکبرآبادی ہونے کا حق ادا کرتی رہے گی۔

 آگرہ جسے صلح کل کی نگری کہا جاتا ہے ۔ یہ صرف میر و نظیر کی دھرتی نہیں بلکہ صلح کل کی نگری اکبرآباد یہاں آنے والے ہر شخص کو محبت کا پیغام دیتا ہے۔ یہ ہماری وراثت ہے ،جو کل بھی تھی، آج بھی ہے، اور ہمیشہ  رہے گی۔ بقول رشید احمد صدیقی:

’’مغلیہ سلطنت نے ہندوستان کو تین چیزیں دی ہیں ، تاج محل، اردو، اور غالب ۔‘‘

یہ آگرہ کی خوش قسمتی ہے کہ  غالب اور  تاج محل دونوں ہی شہر آگرہ ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی وراثت ہے  اور جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے۔اس زبان سے وابستہ ادبی روایت کی ایک خاص شکل بھی اکبرآباد میں پروان چڑھی۔

بادشاہ اکبر سے لے کر شاہ جہاں تک یہاں حکمراں ہوئے۔اس زمانے سے لے کر آج تک آگرہ شہر اردو ادب کے قابل قدر شعراوادبا پیدا کرتا رہا ہے۔ جس سے اردو ادب میں گرانقدر اضافہ ہوتا رہا ہے۔

آگرہ شہر میں اردو ادب کے قدیم وجدید شعراء کرام ایک نظر میں:

اردو شاعری کا باوا آدم تو ولی دکنی کو کہا  جاتا ہے جو کہ1807 میں دہلی آئے اور شمالی ہند میں اردو شاعری کا رواج ہوا۔ ان ہی کے دور کے ایک اہم شاعر سراج الدین علی خاں آرزو تھے جو 1687میں آگرہ میں ہی پیدا ہوئے۔  آرزو صاف سادہ آسان زبان میں شاعری کیا کرتے تھے۔ جو کچھ دل میں آتا تھا کہہ گزرتے تھے۔ 26جنوری1756 میں لکھنؤ میں ان کا انتقال ہوا۔

 اور شاہ مبارک آبرواور مظہر جانِ جاناں کی پیدائش بھی آگرہ میں ہوئی۔

اس کڑی میں دوسرا اہم نام غزل کے بادشاہ میر تقی میر کا لیا جائے گاجو کہ آگرہ کی سر زمین کے چشم وچراغ ہیں جس نے اردو ادب کو وہ زینت بخشی ہے جس کا مقابلہ آج تک کوئی نہیں کر سکتا۔شہر آگرہ میں موجودہ ہینگ کی منڈی میں ان کا اصل مکان تھا۔جو آج جوتا مارکیٹ ہے۔

میر1723 میں اکبرآباد میں پیدا ہوئے لیکن دہلی چلے گئے پھر اکبرآباد اور پھر دہلی اور دہلی اجڑنے پر لکھنؤ آصف الدولہ کے پاس چلے گئے۔ 1810 میں شہر لکھنؤ میں ہی اِنتقال ہوا۔ انھوں نے ادب کو 8 دیوان دیے ہیں۔ ان کی شاعری کودل اور دلی کا مرثیہ کہا جاتا ہے۔ عشقیہ  شاعری کرتے ہیں۔ میر کو عشق کی تعلیم ان کے والد نے دی تھی۔چونکہ عشق ہی وہ شے ہے جس سے راز ہستی کا سفر طے کیا جا سکتا ہے۔عشق میں میر کی ظاہری حالت، ان کے طور طریقے ، ان کی طرز حیات ان کی کیفیات اور اپنے معاشرے سے عشق کی نوعیت محبوب سے بے التفاتی , اس کی بے وفائیاں درد و خلوص جس نے اردو غزل میں مثالی عاشق کا معیار قائم کیا ہے۔وہ کہتے ہیں         ؎

سمجھے انداز شعر کو میرے

میر کا سا کمال رکھے

پتہ  پتہ بوٹہ بوٹہ حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

عشق  کرتے ہوئے تھے بے خود میر

ان کو اپنا ہے انتظار ہنوز

ان کی خودنوشت’ ذکر میر‘ ہے جس میں پوری تفصیلات موجود ہے۔ اردو  شعرا کا پہلا تذکرہ ’نکات الشعرا‘ کے نام سے لکھا۔ کئی عشقیہ مثنویاں لکھیں اور مثنوی در ہجو میر بھی میر کی مثنوی ہے۔

نجم الدولہ دبیرالملک خطاب،مرزا نوشہ لقب، اسد اللہ خاں نام،  پہلے اسد پھر غالب تخلص اختیار کیا۔ اور اردو شاعری کا سب سے عظیم نام اس  شہر آگرہ کی پیدائش   ہے۔ غالب آگرہ میں 1897میں موجودہ کالا محل  جہاں آج اندر بھان گرلس انٹر کالج ہے  میں پیدا ہوئے 13 برس کی عمر میں آگرہ سے کوچ کر دہلی آگئے۔

غالب کو اپنے شہر کی یاد ستاتی تھی جس کا ذکر  ایک خط میں کرتے ہیں۔

منشی شیو نرائن کو لکھتے ہیں:

’’ ہماری بڑی حویلی وہ ہے۔جو اب لکچھمی چند سیٹھ نے مول لی ہے۔ اس کے دروازے کی سنگین بارہ دری پر میری نشست تھی اور پاس اس کے ایک گٹھیا والی حویلی اور سلیم شاہ کے تکیے کے پاس دوسری حویلی اور کالاں محل سے لگی ہوئی ایک اور حویلی اس کے آگے بڑھہ کر ایک اور کٹرہ کہ وہ کشمیرن والا کہلاتا تھا۔اس کٹہرے کے ایک کوٹھے پر میں پتنگ اڑاتا تھا۔اور راجہ بلوان سنگھہ سے پتنگ لڑا کرتے تھے۔‘‘

کالے محل پیپل منڈی میں آج بھی مغلوں کے انداز کی یہ حویلی موجود ہے۔

اردو شاعری میں غالب وہ پہلے شاعر ہیں جس نے اپنے غم کو غم دوراں بنا دیا۔بقول عبادت بریلوی۔

غالب کی  غزلوں میں ان  کی زندگی کے المیہ کے ساتھ اس دور کا المیہ بھی موجود ہے۔جس نے ان کو پیدا کیا تھا اور جس کے زیر  سایہ انھوں نے اپنی زندگی کے دن گزارے تھے۔ان کی شاعری کا غم انسانیت کا غم ہے۔ فرماتے ہیں :

دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت  درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں رلائے کیوں

ان کی شاعری میں  زندگی کا مربوط فلسفہ پایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں         ؎

قید حیات وبند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

ان کے یہاں غم کی مختلف شکلیں ملتی ہیں         ؎

میری قسمت میں غم گر اتنا تھا

دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

 غالب نے شاعری کے ساتھ ساتھ 1850میں اردو میں ایک نئے طرز میں خطوط نویسی کی بنیاد ڈالی جس سے اردو نثر کو فروغ ملا۔غالب کے خطوط نے ہی، مراسلہ کو مکالمہ  بنایا ہے۔اردو میں  وہ رنگ اختیار کیا ہے جو آج تک کسی کو نصیب نہ ہو سکا ۔یعنی اردو میں ایک نئے طرز کی بنیاد ڈالی۔

کیوں  صاحب، پیر و مرشد، میاں بھائی صاحب جیسے الفاظ سے اس طرح خط کا آغاز کرتے ہیں کہ ان کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے۔ غالب  کے خط نہیں بلکہ سامنے بیٹھے باتیں کر رہے ہو ں۔غالب  بلا کے شوخ مزاج تھے نظم ہو یا نثر شوخیاں ان کے یہاں موجود ہیں۔ ایک دوست کو رمضان میں خط لکھتے ہیں۔نمونۂ کلام دیکھیں:

’’دھوپ بہت تیز ہے روزہ رکھتا ہوں۔مگر روزے کو بہلاتا رہتا ہوں۔کبھی پانی پی لیا،کبھی حقّہ پی لیا،کبھی کوئی ٹکڑا روٹی کا بھی کھا لیا،یہاں کے لوگ عجب فہم  رکھتے ہیں۔میں تو روزہ بہلاتا ہوں اور یہ صاحب فرماتے ہیں کہ تو روزہ نہیں رکھتا یہ  نہیں  سمجھتے کہ روزہ نہ رکھنا اور چیز ہے۔اور روزہ بہلانا اور بات۔‘‘

اور دہلی میں گلی قاسم جان بلی ماران میں  ہی 1869  میں غالب  اس سرائے فانی سے کوچ کر گئے۔

جہاں 1869 میں آگرہ کا ایک عظیم شاعر رخصت ہوتا ہے وہیں 1869 میں آگرہ کی سرزمین نے ثاقب لکھنوی جیسا شاعر پیدا کیا جو کہ 1869 میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ لیکن لکھنؤ ایسا بسایا جس سے لکھنوی کہلائے۔

آگرہ کی ایک اور عظیم شخصیت سیماب اکبرآباد کی شکل میں ہم سے روبرو ہوتی ہے۔سیماب اکبرآبادی بھی شہر آگرہ میں 1880میں پیدا ہوئے لیکن  ان کا اصل نام سید، عاشق حسین تھا۔ داغ صاحب کی شاگردی اختیار کی ان کا پہلا  مجموعہ کلام ’کلیم عجم‘ 1936 میں شائع ہوا۔ دوسرا مجموعہ ’سدرۃ المنتہیٰ‘ اس کے علاوہ ’ساز آہنگ‘، ’کارامروز‘ اور ’لوح محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے قرآن پاک کاترجمہ بھی کیا ہے۔اردو صحافت  میں بھی انھوں نے نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔ آپ نے آگرے میں’قصر الادب‘ کی بنیاد ڈالی جس کے زیر اثر روز نامہ ، ماہانہ، سہ ماہی ادبی صحافت کا انتظام کیا۔ان کی سب سے اہم یادگار ’شاعر‘ ہے۔ یہ رسالہ 1935سے آگرے سے تقسیم ہند تک شائع ہوا اور اس کے بعد ممبئی سے آج تک شائع ہو رہا ہے۔ سیماب اکبرآبادی صاحب  اردو  ادب میں بلند مرتبہ رکھتے ہیں جو سر زمین آگرہ کی ہی دین ہے۔

سیماب اکبرآبادی،اصغر گونڈوی، فانی بدایونی اور یاس یگانہ چنگیزی کے زمانے میں صبا اکبرآبادی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔صبا  اکبرآبادی 14 اگست 1908میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ان کے والد خواجہ علی محمد آگرہ کے ممتاز  ڈاکٹر تھے۔

صبا صاحب نے غالب کے دیوان کی تضمین کی ہے۔ آگرہ چھوڑ کر کراچی چلے گئے تھے۔انھیں اپنے اکبرآبادی ہونے پر فخر تھا۔لکھتے ہیں       ؎

زمانے نے مجھے بدلا نہیں ہے

 ہمیشہ  اکبرآبادی رہا ہوں

سیماب صاحب کے ہی ہم عصر شاعروں میں میکش اکبرآبادی کی شخصیت بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں جو سر زمیں اگرہ کی  وراثت ہے۔میکش اکبرآبادی کی پیدائش مارچ  1902میں بمقام میوہ کٹرہ آگرہ میں ہوئی اور شہر آگرہ نے ان کو  زینت بخشی ہے۔میکش اکبرآبادی کا اصل نام سید محمد علی شاہ تھا ۔ صوفی شاعر تھے۔یہ ان کی خاندانی وراثت تھی۔

ان کے بارے میں حامد حسن قادری لکھتے ہیں:

’’حلیہ دیکھو تو ٹھیٹھ اکبرآبادی۔ دل ٹٹولو تو مکی مدنی بغدادی و اجمیری۔میکش صاحب شاعری میں اس قدر صحیح مذاق اور لطیف طبیعت رکھتے ہیں کہ اس کے آگے بس اللّہ کا نام ہے۔‘‘

پروفیسر آلِ احمد سرور کے مطابق       ؎

آج میکش سے ملاقات میں محسوس ہوا

ہند میں صاحب عرفان ابھی باقی ہیں

لاکھ برباد سہی پھر بھی یہ ویران تو نہیں

اس  خرابے میں کچھ انسان ابھی باقی ہیں

 ان کے کلام میں کلاسکیت، تصوف اور تغزل کی ہم آہنگی ہے۔

ان کے شعری مجموعے ’میکدہ‘، ’داستان شب‘ ہیں۔ ان کے علاوہ ’نغمہ اور اسلام‘، ’نقد اقبال‘ اور ’مسائل تصوف‘ ہیں۔

آگرہ پر ان کی خصوصی کتاب’آگرہ اور آگرے والے‘ ہے جس میں آگرہ کی تہذیب، رہن سہن، طور طریقے۔ آگرہ کی ادبی شخصیتیں تاج محل اس کا معمار، آگرہ کے مشاعرے آگرہ کے۔ میلے، جوتے دال موٹھ دری کار چوبی وغیرہ کا ذکر اس طرح پیش کیا ہے کہ آگرہ کی چلتی پھرتی تصویر نظر آتی ہے۔

حقیقت سے فسانے تک فسانے سے نگاہوں تک

مرے پاس آتے آتے اس نے کتنے پیرہن بدلے

(میکش)

میکش صاحب آگرہ کے صوفیانہ گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں آگرہ سے ان کا دلی رشتہ ہے۔ جو آج تک’بزم میکش‘ کے نام سے آگرہ میں انعقاد کی جاتی ہے جس کے سرپرست اجمل علی شاہ ہیں جو آستانہ میکش  آگرہ سے تعلق رکھتے ہیں جس میں ہر سال ادبی خدمات ’پرمیکش ایوارڈ‘تقسیم کیا جاتا ہے۔  اس کے ساتھ ہی بزم میکش کی جنرل سکریٹری موجودہ بیکھنٹی دیوی گرلس ڈگری کالج کی پروفیسر اور ہماری استاد ڈاکٹر نسرین بیگم صاحبہ اس کام کو اور شہر آگرہ کو  اس کی خصوصیات کی بنا پر میکش اکبرآبادی صاحب کو عروج عطا کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پورے ملک میں شہر آگرہ کی نمائندگی کرتی ہیں۔  انھوں نے ’جوش ملیح آبادی کی نثری خدمات‘ پر تحقیقی کام انجام دے کر اردو ادب میں اس کمی کو پورا کیا ہے۔جس کا پہلا ایڈیشن 2002میں شائع ہوا۔اس کے علاوہ آپ کے کئی مضامین رسائل و جرائد میں دیکھنے کو ملتے رہتے  ہیں۔ آپ کئی نیشنل انٹرنیشنل سمینار میں اپنے مقالات پڑھ کر داد تحسین حاصل کر چکی ہیں۔

آگرہ کی مشہور ومعروف شخصیت ہمارے استاد محترم ڈاکٹر سید شفیق اشرفی نے آگرہ کا ادبی ماحول، موجوہ وقت میں کافی گرمایا ہے۔ استاد محترم سینٹ جانس کالج میں مولانا حامد حسن قادری صاحب کے بعد شعبہ اردو کے صدر رہے ہیں۔  تاریخی سینٹ جانس کالج میں پی جی اردو کلاسز کی شروعات آپ کی ہی محنت کا ثمرہ ہے جس سے طلبہ کی راہ ِ  روشن ہوئی۔ آپ نے  شہر آگرہ کی  ادبی سرگرمیوں کو کافی  ہوا دی  استاد محترم نے   پچھلے 25-26 سالوں سے آگرہ کے ادبی حلقوں  میں  جو محنت صرف کی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر مشاعروں سمیناروں وغیرہ کا انعقاد کرنا اس کو عملی جامہ پہنانے میں اپنی ادبی نوازش کا ثبوت پیش کر آگرہ کے ادبی حلقوں کووہ وقار عطا کیا ہے کہ جس سے آگرہ شہر آج بھی اپنے ادبی معیار کو قائم کیا ہوا ہے۔ آج بھی آگرہ سے استاد محترم کی محبت اسی آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے۔ان  کی نگرانی میں آگرہ شہر کے ادبی حلقوں  نے ادب میں گرنقدر اضافہ کر ادب میں  اپنا وقار اونچا کیا ہے۔استاد محترم کا ادب سے لگاؤ اور دلچسپی ہے کہ آپ کی کئی کتابیں منظر عام پر آکر داد تحسین حاصل کر چکی ہیں۔

اس کے علاوہ ادب کے گیسو صرف شعراء کرام حضرات ہی نہیں سنوارتے بلکہ ہمارے اہل قلم  ادیب و دانشور بھی اس ساز گار فضا میں اپنی سر زمین آگرہ کو اپنی تخلیقات سے ادب میں  بلند مقام عطا کرتے ہیں۔ جن میں عظیم بیگ چغتائی ،ل احمد اکبرآبادی، لطیف الدین احمد، انجم آفندی، مفتی انتظام  اللہ شہابی، مرزا حاتم علی بیگ، بلوان سنگھ راجہ، رجب علی بیگ سرور، آل احمد سرور وغیرہ کے نام لیے سکتے ہیں۔

حامد حسن قادری صاحب  تاریخی سینٹ جانس کالج  آگرہ  میں طالب علم اور پھر پروفیسر رہے ہیں۔

مختلف صنف میں انھوں نے اپنی یادیں چھوڑی ہیں۔ تاریخ گوئی میں ان کو امتیاز حاصل ہے۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ ضخیم تصنیف ’داستان تاریخ اردو‘ ہے جو 1938  میں لکھی گئی۔ داستان کی صورت میں اردو کی پیدایش سے لے کر عہد جدید تک کا منظر نامہ پیش کیا ہے۔اس سے کوئی بھی محب اردو استاد اور طالب علم بے نیاز نہیں رہ سکتا۔

اس رومان اَنگیز ادبی فضا میں اردو کے ایک ممتاز انشاپرداز شاہ نظام الدین دلگیر  اکبرآبادی  نے بھی آگرہ سے ’نقاد‘ کا پہلا پرچہ جنوری 1913 میں شائع کیا۔

1930میں سیماب اکبرآبادی صاحب کا رسالہ ’شاعر’ بھی آگرہ کی دین ہے۔

مرزا غالب ریسرچ اکادمی آگرہ سے سید اختیار جعفری صاحب نے 2014 میں’آگرہ میں اردو صحافت‘  کے حوالے سے گیارہ ابواب پر مشتمل کتاب تحریر کی جس میں جعفری صاحب نے کافی تحقیق کے بعد 182اردو رسالوں اور دیگر زبانوں کے رسائل کا ذکر کتاب میں کیا  ہے جو آگرہ میں اردو صحافت کی کمی کو پورا کرنے میں ایک مثال قائم کرتی ہے۔

 اردو کے ارتقا میں آگرے کے اہل علم وہنر نے ہر دور میں نہایت اہم حصہ لیا ہے۔اور لے رہے ہیں۔

یعنی شہر آگرہ اردو ادب کے ہر شعبے میں آگے ہے۔ ہر دور میں بلند پایا شعراء اکرام کے ساتھ ساتھ علم دوست انسان پیدا کرتا رہا ہے۔ جس سے ملک وادب کا وقار اونچا ہوتا ہے۔ ہمارے اہل قلم دوست آج بھی اسی آب وتاب کے ساتھ اردو ادب کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اور ان شاء  اللہ دیتے رہے گے۔ یہ علم و ہنر کا مرکز اور صلح کل کی نگری   ادب  میں یوں  ہی اپنے قلم کے ذریعے ،اپنی تخلیقات کے ذریعے  ملک وادب میں  محبت کا پیغام دیتی رہے گی۔

 ’’  اکبر  کے نام سے ہوا آباد آگرہ ۔‘‘

حوالہ جات کتابیات

1          غالب اور آگرہ، مرتب: شاہد ماہلی، غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی

2          آگرہ اور آگرہ والے: میکش اکبرآبادی، مرتب: سید حیدر علی شاہ رند

3          یادگار غالب: الطاف حسین حالی

4          غالب نامہ: پروفیسر نذیر احمد، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی

5          ماہنامہ ’شاعر‘ آگرہ نمبر، اعجاز صدیقی اکبرآبادی، مکتبہ الادب آگرہ

6          غالب ایک مطالعہ: ممتاز حسین

7          کلیات نظیر: نظیراکبرآبادی

8          نظیر کی شاعری میں قومی یکجہتی: پروفیسر آل ظفر

9          آبِ حیات: محمد حسین آزاد

10       آگرہ میں اردو صحافت: سید اختیار جعفری

11       جوش ملیح آبادی کی نثری خدمات: نسرین بیگم

12       ماہنامہ ’آجکل‘ فروری 2001

 

Mehmooda Qureishi

22/78, Dholi Khar Mantola Ngra Fort

Agra -  282003 (UP)

Mob.: 7417912943

 

 

 



 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں