19/4/21

خواجہ حسن ثانی نظامی کی انفرادیت - مضمون نگار: زاہد احسن

 



خواجہ حسن ثانی نظامی کی پیدائش 15؍مئی 1931کو دہلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیا سے متصل ان کے پشتینی مکان میں ہوئی۔ تعلیم ان کو وراثت میں ملی تھی۔ حضرت خواجہ حسن نظامی کی طرح ان کی اہلیہ بھی قلم کار تھیں۔ موصوفہ کی علمی لیاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ خواتین کے کئی رسالو ں کی ادارت کی ذمہ دار بھی تھیںاور اسی طرح سے بچوں کی تعلیم وتربیت پر بہت ساری کتابیں لکھیں۔

خواجہ حسن ثانی نظامی اپنے دادا حافظ عاشق علی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ درگاہ عالیہ کے مہتمم اور صاحب سجادہ اور مسجد کے امام بھی تھے۔ زندگی کے آخری مرحلے میں اپنے بیٹے خواجہ حسن نظامی سے فرمایا کہ درگاہ میں جو نذرانہ آتا ہے وہ پہلے وقتوں میں اس لیے نذرانہ تھا کہ لوگ اپنی عقیدت سے نذر کیا کرتے تھے۔ لیکن اب یہ رسم ہے کہ صندوق وغیرہ رکھ کر ایک طرح سے نذرانہ طلب کیا جاتا ہے، یہ نذرانہ نہیں ہے۔ میں نے تمام عمر قرآن کریم کی خدمت اور محنت سے روزی حاصل کی ہے۔ تم بھی محنت کرو اور حلال روزی کماؤ۔ حسن نظامی کم سن تھے، بات سمجھ میں نہیں آئی، کیا محنت کریں، سوچا درگاہ میں آنے والوں کی جوتیوںکی حفاظت کر کے جو معاوضہ ملے گا وہ حلال روزی ہوگی۔یہ کام تین دن تک کیا کہ دیبہ کے ایک پنڈت جی درگاہ سے عقیدت رکھتے تھے ان کا صرافے اور کتابوں کا کاروبار تھا۔ انھوں نے صاحب زادے کو یہ کام کرتے دیکھا تو آب دیدہ ہوگئے کہ یہ کام اب میں نہیں کرنے دوں گا۔ اپنے ساتھ لے گئے اور کتابوں کے کام پر لگا دیا۔ ان دنوں خواجہ صاحب مدرسہ حسین بخش میں پڑھتے تھے۔ روز جامع مسجد سے بستی حضرت نظام الدین پیدل آتے تھے۔ ایک دن ببر کا تکیہ (بعد میں ہارڈنگ برج ) کتابوں کا بنڈل کندھے پر لاد کر جارہے تھے،ادھر سے شیخ پورہ برنادہ کے رئیس نواب بدھن خاں صاحب اپنے ہاتھی پر گزر رہے تھے انھوں نے اس خوبصورت بچے کو روک کر نام وپتہ پوچھا، جب معلوم ہوا کہ یہ صاحب زادے ہیں تو ہاتھی پر سوار کر لیا، داڑھی سے پیر صاف کیا اور اپنے محل سرا (محلہ چتلی قبر دہلی) لے گئے، ہاتھی درگاہ کی نذر کردیا۔ نواب بدھن صاحب جب زندہ رہے، خواجہ سے پدرانہ محبت کا رشتہ رکھا، نواب صاحب کے انتقال کے بعد خواجہ صاحب نے انھیں اس خاندانی قبرستان میں سپرد خاک کیا جو غالب اکیڈمی کے سامنے چبوترے پر واقع ہے۔

یہ واقعہ حضرت خواجہ حسن ثانی نظامی نے فاروق ارگلی سے بیان کیا کہ بعد میں جب پتا چلا کہ خواجہ کی نواسی مل والے سراج الدین صاحب کی بیٹی میری اہلیہ ہیں، تو خواجہ صاحب نے مجھ سے بے حد محبت کا اظہار کیا۔

خواجہ حسن ثانی نظامی اپنے والد کی روحانی اور علمی شخصیت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ دریبے والے پنڈت جی کے مشور ے پر خواجہ صاحب نے ویدانت کی تعلیم بھی حاصل کی، برسوں تک رشی کیس اور ہمالیہ کے جنگلوں میں سادھو سنتوں سے ویدانت کا فلسفہ سیکھا، ہندی اور سنسکرت زبانوں کی آگہی حاصل کی اور یہ پنڈت جی بعد میں اسلام قبول کیے، اور انتقال کے بعد درگاہ شریف کے جوار میں دفن ہوئے۔ طویل بن باس کے بعد خواجہ صاحب نے قرآن کریم کا ہندی ترجمہ کیا۔ کرشن جی اور گرونانک اور رام جی پر کتابیں تصنیف کیں۔

ایسے باپ کے زیر سایہ خواجہ حسن ثانی نظامی کی پرورش وپرداخت ہوئی۔ یہ بات فطری ہے کہ مذہبی رواداری اور احترام آدمیت کا اثر ان کی شخصیت پر پڑا اور انسانی قدروں کا جذبہ اور خلق اللہ کی محبت ہی تصوف کی روح ہے۔

خواجہ حسن ثانی نظامی کی تعلیم کچھ اس طرح سے ہوئی۔ حرف شناسی سے پہلے قرآن مجید کی چند صورتیں مع ترجمہ حفظ کرائی گئیں، عربی فارسی کی تعلیم والدین سے سیکھی۔ انگریزی ادب کے لیے ایک یورپین گورننس مقرر تھیں، خواجہ صاحب کو اسی لیے انگریزی ادب پر بھی عبور حاصل تھا، کیونکہ انھوں نے خورد سالی ہی میں انگریزی کی بنیادی تعلیم حاصل کی تھی، اور ماڈرن عربک کا درس تو انھوں نے ایک عربی زبان کے ماہر انڈین فارن سروس کے ایک افسر سے لیا تھا۔

خواجہ حسن ثانی نظامی نے اسلامیات میں گریجویشن کی تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ سے حاصل کی اور ہمیشہ امتیازی حیثیت سے کامیاب ہوتے رہے، اور خواجہ صاحب کو اس بات پر فخر حاصل تھا کہ ان کی تعلیم وتربیت قابل قدر اساتذہ سے ہوئی۔ چند اساتذہ کے نام پروفیسر مجیب، مولانا اسلم جیراج پوری، ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر اے جے کیلاٹ، ڈاکٹر سید عابد حسین اور پروفیسر عاقل وغیرہ۔ خواجہ صاحب ہمیشہ اپنے اساتذہ کا بڑی عقیدت ومحبت اوراحترام سے نام لیتے۔ یہ ان کا طرّۂ امتیاز تھا۔

خواجہ حسن ثانی نظامی کی انفرادیت اس بات سے عیاں ہے کہ وہ عمدہ مترجم کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ ان کے تراجم و طبع زاد تحریروں میں روانی اور شگفتگی ہوتی تھی اور خواجہ صاحب بڑے فخر سے کہتے بھی تھے کہ ہمیں یہ ترجمے کا فن ڈاکٹر سید عابد حسین سے ملا، انھیں کی وجہ سے ہمیں غالب اور شیکسپیئر کو سمجھنے کا موقع ملا۔

خواجہ حسن ثانی نظامی کے سب سے اہم علمی کارناموں میں حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی کا متبرک مجموعہ ملفوظات فوائد الفواد کا تحقیق شدہ اردو ترجمہ ہے، خاص بات اس ترجمے کی یہ ہے کہ ساتھ ساتھ فارسی کا متن بھی درج کیا ہے اور علمی وادبی حلقوں میں یہ کاوش لاثانی قراردی گئی ہے، اسی طرح دوسرا اہم کارنامہ علمی میدان کا حضرت مولانا فخرالدین کی حیات وکارنامے پر تحقیقی کتاب تصنیف کی ہے، یہ کتاب قابل قدر سمجھی گئی ہے، دلّی درسگاہ کا نام مدرسہ غازی الدین حیدر اسی لیے پڑا کہ نواب غازی الدین حیدر، مولانا فخرالدین کے مرید تھے۔

الزام کی وجہ سے جب فخرالدین نظامی پر گرفتاری کا حکم جاری ہوا تو آپ مدرسے میں روپوش رہے جب الزام سے بری ہوئے تو غازی الدین حیدر نے شکرانہ کے طور پر مدرسے کی عالی شان تعمیر کروائی جو انھیں کے نام سے منسوب ہو گئی۔ یہ عمارت اجمیری دروازے کے قریب دہلی کالج کے نام سے مشہور ہے۔

خواجہ حسن ثانی نظامی کی اہم کتابوںمیں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے حالات اور سیرت پر’تذکرہ نظامی‘ اور امیر خسرو کی سوانح اور علمی شعری کارناموں پر ’تذکرۂ خسروی‘ مقبول ترین تحقیقی کاوشیں ہیں۔ خواجہ حسن ثانی نظامی کی تصوف پر مبنی کتاب غیر معمولی تحقیقی کارنامہ ہے۔ اس کتاب میں خواجہ صاحب نے اپنے مضامین کے ذریعے تاریخ، تصوف، سماجی بصیرت، تعلیم وتربیت کی اہمیت اور صوفی سلسلے، تصوف اور اخلاق، اجمیرکا عرس، ہندوستانی رسم و رواج اور بھگتی کے اثرات، موڈرن، صوفی حکیم ہمدرد یعنی ہر گوشے پر روشنی ڈالی ہے۔

خواجہ حسن ثانی نظامی نے حکیم عبد الحمید دہلوی کا قلمی خاکہ لکھ کراپنا نام روشن کیا۔خواجہ حسن ثانی نظامی کی ادبی وفنی خصوصیات ان کے خطیبانہ مقالات اور موضوعاتی مضامین سے زیادہ ان کے تحریر کردہ قلمی چہروں سے نمایاں ہیں۔ خواجہ صاحب نے اپنے ہم عصروں کے بھی قلمی چہرے لکھے ہیں۔

خواجہ حسن ثانی نظامی شکار کے بے حد شوقین تھے اس لیے ان کی تحریریں بھی شکاریات کے موضوع پر دلچسپ انداز میں ہیں، خواجہ لکھتے ہیں کہ ہمیں یہ شوق اپنے ساتھیوں سے ملا اور قریبی ساتھیوں میں پروفیسر محمد علی خسرو، پروفیسر نثار احمد فاروقی، جس کا ذکر خواجہ صاحب دلچسپ انداز میں کرتے ہیں۔خواجہ حسن ثانی نظامی نے، مقالات کو مرتب کیا جو کہ’’خواجہ حسن نظامی پر‘ اردو اکیڈمی نے کرایا یہ سیمنارخواجہ حسن نظامی حیات وخدمات پر مبنی تھا۔

خواجہ حسن ثانی نظامی کی انفرادیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ ان کی نگاہ دہلی کی تاریخ وتہذیب پر گہری تھی۔ کیوں کہ ان کو دہلی کے بارے میں واقفیت بھی زیادہ تھی، اس بات کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ مزار ذوق کی واگزاری کا مقدمہ شروع ہوا تو خواجہ صاحب نے وہاں مزارکی موجودگی ثابت کی تھی، خواجہ صاحب دہلوی کی حیثیت ہندوستانی تہذیب وتمدن کے آئینے میں اور صوفی اسکالر کی حیثیت سے بین الاقوامی سطح کی تھی، کیوںکہ ان کے لیکچر، کشمیر یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، ذاکر حسین کالج، لیڈی سری رام کالج، کروڑی مل کالج، گروتیغ بہادر یونیورسٹی وغیرہ میں تصوف اور دوسرے علمی موضوعات پر ہوتے رہتے تھے۔

خواجہ حسن ثانی نظامی کی انفرادیت اس وجہ سے بھی تھی کہ اکثر اداروں کی طرف سے ہوٹل مینجمنٹ کے طلباکی تربیت کے لیے دہلوی دسترخوان، کھان پکوان، یا نشست وبرخاست کے موضوع پر ان سے لکچر دلوائے جاتے تھے۔

خواجہ حسن ثانی نظامی بین الاقوامی سطح کی کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی کر چکے تھے۔ انقلاب اسلامی کے بعد ایران حکومت نے آپ کو تین دفعہ مدعو کیا اور وہاں پر اسلامی تاریخ تمدن کے موضوع پر ان کے خطبات مقبول ہوئے تھے اسی طرح سے آپ دوسرے ممالک کی مقبول یونیورسٹیوں میں بھی تعلیم وتربیت وتصوف کے موضوع پر لکچر دے چکے تھے، وہ یونیورسٹیز یہ ہیں (لندن یونیورسٹی،  اسکول آف اورینٹل اور افریکن اسٹڈیز، امریکہ میں نیو جر سی کے امریکن انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز، ماریشس کے مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ، جنوبی افریقہ کے کیپ ٹاون، ڈربن، اور جوہانسبرگ کے علمی وتہذیبی اداروں میں لکچر دے چکے تھے، آپ کے خطبات مادری اور اردو کی طرح انگریزی زبان میں بھی رواں دواں تھے۔

خواجہ حسن ثانی نظامی کی انفرادیت ایک محب وطن کی حیثیت سے بھی نمایاں تھی۔خواجہ حسن ثانی نظامی کو سماجی اور تہذیبی اور قومی درد، اور لوگوں کی خدمات کی وجہ سے دہلی حکومت نے دہلی گرو، (فخر دہلی) کے اعزاز سے نوازا۔

خواجہ حسن ثانی نظامی کی انفرادیت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو خادم کہتے تھے، گرچہ آپ آستانہ محبوب الٰہی کے مہتمم اعلی تھے اور صاحب سجادہ نشین بھی۔ خواجہ صاحب محنت کرنے اور روزی کمانے کا درس اپنے والدین سے سیکھا تھا اور یہ چیز گویا ان کو وراثت میں ملی تھی کیونکہ انھوں نے اپنے والد خواجہ حسن نظامی( مصور فطرت) کو ہمیشہ دن رات پڑھتے لکھتے دیکھا۔ نظام المشائخ اور منادی کے بنڈل خود ڈھوتے دیکھا تھا اسی وجہ سے خواجہ حسن ثانی نظامی میں یہ صفت مزاج کا حصہ بنی رہی اور خوب محنت ولگن سے ایک پبلشنگ ہاؤس قائم کیا۔ خواجہ حسن ثانی نظامی کی انفرادیت اس بات سے واضح ہوتی ہے بقول شمس الرحمن فاروقی۔

’’آپ کی مسکراہٹ منہ پر کھلتی رہتی تھی کبھی آپ کھل کر نہیں ہنستے تھے۔ آپ کے دانت بہت ہموار اور صاف تھے، اس باب میں ان کے بھتیجے، سید محمد نظامی سلمہ اللہ تعالی کا بیان ہے کہ ایک صاحب نے ان سے کہا کہ باوجود اس کے کہ آپ ذیابیطس کے مریض ہیں آپ کے دانت اس قدر روشن اور مضبوط ہیں تو آپ ان کے لیے کوئی دعا پڑھتے ہوں گے، خواجہ حسن ثانی نظامی مرحوم نے فرمایا کہ مجھے دوسروں کے لیے دعا کرنے سے فرصت نہیں ملتی، کہ اپنے لیے کچھ دعا کروں۔‘‘

خواجہ صاحب کی انفرادیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ جب وہ اسپتال میں جاتے عیادت کے لیے تو ضرور کوئی نہ کوئی ایک حدیث سناتے،بقول شمس الرحمن فاروقی:

’’میں خود اسپتال میں تھا اور آپ میری عیادت کے لیے آئے اور ایک حدیث سنائی اور کہا کہ رسول ؐ کا ارشاد ہے کہ کسی کی عیادت کے لیے جاؤ تو اسے میری کوئی حدیث سناؤ۔‘‘

خواجہ حسن ثانی نظامی کی ایک اہم خوبی یہ تھی کہ وہ محبت واخلاق والے انسان تھے دوسروں کی عزت کرنا اور چھوٹوں کو عزت دینا ان کی پہچان تھی ان کی یہ سادگی، عاجزی چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی حد درجہ عزت کرنا یہ وہ باتیں ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ ان کو رسول ؐ کی سیرت سے کس قدر محبت تھی۔خواجہ حسن ثانی نظامی کی ایک خوبی یہ بھی تھی وہ ایک سخی اور رحم دل انسان تھے۔خواجہ حسن نظامی نے ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرتے رہے، اور اپنے اسلاف کی سنتوں کو زندہ کرتے ہوئے خانقاہ کی عظمت کو قائم رکھا        ؎

ایسے ملا کرو کہ کریں لوگ آرزو

ایسے رہا کرو کہ زمانہ مثال دے

n

Dr. Zahid Ahsan

46/A, Thokar No6, Gali No 5

Shaheen Bagh, Jamia Nagar

New Delhi - 110025

 

 


 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ظفر گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری میں مٹی کی مہک، مضمون نگار: اشتیاق سعید

  اردو دنیا، نومبر 2024 ظفر گورکھپوری... درمیانہ قد، دھان پان جسم، کُشادہ پیشانی، سوچتی آنکھیں، بے لوث دِل، خوش مزاج طبیعت اور مکر و فریب...