23/4/21

حنیف کیفی کی شاعری میں درد انسانیت - مضمون نگار: اظہر ابرار

 


حنیف کیفی کی شاعری نے جہاں لوگوں کے دلوں کو منور کیا وہیں ،ان کے کلام نے انکشاف ذات کا بھی عظیم فریضہ انجام دیا ۔ آپ کی غزلیں اس بات کی غماز ہیں کہ ان میں ایک شریف انسان کا درد پنہاں ہے اور اس کی زندگی کے ان پہلوؤں کا تذکرہ کیا گیا ہے جس سے وہ ہرروز نبرد آزما ہوتا رہتا ہے۔ پھر ان اشعار میں شاعرکی ذات کے حوالے سے مفلسی میں زندگی گزارنے والوں کی کیفیت بھی بیان کی گئی ہے ۔مجموعہ کلام میں ایسے اشعار بھی نظر آتے ہیں جس میں دنیا کی سفاّکی ، لوگوں کا ایک دوسرے سے نظریں چرانا ، اپنوں کو تکلیف دینا ،خونی رشتوں میں فاصلے پیدا ہوجانا جیسے واقعات کو شعری پیکر میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے ۔

حنیف کیفی کی شاعر ی سچی ہے جو دل سے نکلتی ہے اور دل تک پہنچتی ہے ۔ اشعارمیں جگہ جگہ دلی جذبات کی کیفیت کا برملا اظہار ملتا ہے ۔ ایک ایک شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعر نے زندگی کو کتنے قریب سے پر کھاہے ۔

چراغ  نیم شب‘کی غزلوں کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ان میں سے بہت سارے اشعار خود شاعر نے اپنی زندگی کانچوڑ کی صورت میں پیش کیے ہیں ۔ مختلف غزلوں میں درد کی داستان بکھری پڑی ہے جیسے یہ شعر          ؎

اب آکر تھوڑی سی چھائوں مل بھی گئی ہے تو کیا حاصل

برستی  آگ   میں  سارا  سفر  تو  ختم  کر  آئے

اس شعر میں ایک محنت کش انسان کی زندگی کا نوحہ بیان کیا گیا ہے جو اپنے اہل وعیال کے لیے عمر بھر محنت ومزدو ری کرکے زندگی بسر کرتاہے پھر اسے آخری ایاّم میں راحت نصیب ہونے کی امید نظر آتی ہے لیکن جب تک اس کی زندگی کے تھوڑے ہی دن رہ جاتے ہیں اور وہ کچھ وقت کے لیے سکون کی سانس لیتا ہے ۔

 حنیف کیفی نے زندگی کے حالات اور ان رشتوں کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے جب قریبی رشتوں ہی سے دکھ اٹھانا پڑتاہے۔ کچھ لوگ بظاہر بڑے ہم خیال نظر آتے ہیں لیکن ان کے دل ودماغ میں کسی قسم کی سازش پل رہی ہوتی ہے ۔

جیسے اس شعرمیں          ؎

ہر ایک شخص مرا  ہم  خیال  لگتا  ہے

یہ  آدمی  تو  بڑ ا  باکمال  لگتا ہے

شعور وقت نے کیفی بدل دیا ہے مزاج

ہر انقلاب ہمیں حسب حال لگتا ہے

حنیف کیفی نے نہ کسی ادبی گروہ میں شامل ہونا پسند کیا نا کسی تحریک سے وابستگی کا اظہار کیا بلکہ انھوں نے اپنی ایک الگ ہی راہ نکالی اور اپنے تجربوں کو غزل کی زبان سے ادا کیا ۔ شاعر نے ان لوگوں کوبہت قریب سے دیکھا ہے جو مصیبت میں رہتے ہیں اور ان پر کیا کچھ گزرتا ہے     ؎

تلخیاں مرا حاصل خواب میر ا سرمایہ

ایک ہاتھ میں پتھر ایک میں ستارے ہیں

ایک جگہ حنیف کیفی لکھتے ہیں’’ میں شاعری کو ایک فن شریف سمجھتا ہوںاور اسے کسی بھی طرح کی آلودگی سے ملوث کرنا گناہ تصور کرتا ہوں یہی  وجہ ہے کہ میں نہ تو،کبھی کسی مخصوص سماجی، سیاسی یا اسی قسم کے کسی بھی ادبی نظریے یا ازم کا پابند رہا ہوںاور نہ کسی ادبی گروہ بازی اور جکڑ بندی یا فیشن پرستی کا شکار ہوا ہوں۔نہ کھوکھلی روایت پرستی کا قائل ہوں۔نہ بے تکی جدت پسندی کا۔زمانے کا ہم قدم ہونا تقاضائے حیات سمجھتا ہوں۔لیکن اسی حد تک کہ اپنی چال نہ بگڑ نے پائے۔میرے نزدیک شاعری اپنی تلاش کا نام ہے ۔میرے لیے یہ عرفان ذات کا راستہ بھی ہے اور انکشاف ذات کا وسیلہ بھی ۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اپنی ذات میں محصور رہا ہوںاور اپنے داخل میں گم ہوکر خارج کی طرف سے آنکھیں بند کرلی ہیں ۔‘‘  

یقینا حنیف کیفی کی شاعری انکشاف ذات ہے جس میں قاری شاعر کی زندگی کے الگ الگ عکس دیکھتا ہے اور شاعر نے اپنی شاعری کے ذریعے خود کو پہچاننے کی کوشش کی ہے ۔ مجموعہ’ چراغ نیم شب‘میں ایسے بہت سے اشعار نکل آتے ہیں جو زندگی کے سچے ترجمان ثابت ہوتے ہیں جیسے یہ اشعار        ؎

سب کے چہرے ایک سے ہیںایک آئینا بہت

ساری  دنیا  دیکھنے کو اپنا  ہی  چہرا  بہت

اب  اپنا  خون کہاں  تک  جلائو  گے کیفی

چلو یہاں سے یہ محسن کشوں کی دنیا  ہے

خیرہ   ہوئی   نگاہ  کہ   بے   نور    ہوگئی

وہ  سیل  روشنی  تھا کہ  بینائی کھوگئی 

خواہشوں کا کوئی حساب نہیں ہوتا ایک پوری ہوتی ہے تو دوسری سر اٹھاتی ہے زندگی کا وقفہ مختصر ہے اور اس کم وقت میں انسان لازوال خواہشوں کے دھاگوں میں الجھا ہوا رہتا ہے اور پھر اس کے سامنے بڑے بڑے سوال پیدا ہوجاتے ہیں ۔

آرزوئیں کمال آمادہ

زندگانی زوال آمدہ

زندگی نشئہ مجال جواب

لمحہ لمحہ سوال آمادہ

حنیف کیفی ایک درد مند دل رکھنے والے انسان تھے جو دوسروں کے کرب واذیت کو دیکھ کر تڑپ ہو اٹھتے تھے اور ایسے لوگوں کو دیکھ کر بڑے غمگین ہوجاتے تھے        ؎

کل پھولوں کی سیج سجی تھی آج رچا شعلوں کاناچ

اک  دلہن  کی ارتھی دیکھی یاد آئی بارات بہت

پتھر بھی پانی ہوجاتا  میں  تو  پھر بھی انسان ہوں

تھوڑی سی اس عمر میں دل پر جھیلے ہیں صدمات بہت

 حنیف کیفی نے اپنے مجموعہ’چراغ نیم شب ‘میں جگہ جگہ انسانیت کی ایک درد بھری داستان بکھیردی ہے۔

مجموعہ’سحر سے پہلے‘ حنیف کیفی نے 2004 میں لکھا جس میں بلراج کومل نے ’حنیف کیفی کی شاعری ایک مطالعہ ‘ مضمون میں ان کے بارے میں لکھا تھاکہ ’’ حنیف کیفی کی شاعری میں تہذیبی روایتوں کا گہرا شعور ہے ۔وہ سماج کی صالح قدروں کی تعظیم کرتے ہیں۔قومی یکجہتی ، گنگا جمنی ثقافت،محبت ،رفاقت ،یگانگت کے نغمہ خواں ہیں۔ سماجی مسائل کے بارے میں سوچنے،غربت، افلاس، عصمت فروشی، بیوہ کی صورت حال،  فسادات اور سماجی ناانصافیوں جیسے مسائل کے درمیان راہ نجات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اظہار کی سطح پر و ہ سانیٹ اور ترائیلے جیسی دیگر زبانوں کی اصناف میں طبع آزمائی کرنے کے علاوہ کسی انقلابی تجربہ کاری کے گنہگار نہیں ہیں۔ تجرید،  ابہام علامت پسندی ،علامت سازی ،بے معنویت، وجودیت، مابعدالطبیعات، جدیدیت، مابعداز جدیدیت جیسے دور حاضر کے تصورات،  نظریے اور رائج الوقت سکے اپنی جگہ اہم ہونے کے باوجود ان کے دائرے کار پر ممکن ہے کہیں کہیں اثر انداز ہوئے ہوںلیکن حق بات یہ ہے کہ انھوں نے اردو کی ادبی روایت اور دیگر زبانوں کے ادب کے مطالعے سے آزادانہ طور پر اپنی جمالیاتی حسیت ذہنی ردعمل اورطریق کار کی ترتیب وتہذیب کی ہے اور روایت کے شعور اور مطالعے کے فیض سے اپنے لیے اظہار کی قابل توجہ صورتیں وضع کی ہیں ۔وہ رشتوں اور ترسیل کے بحران کی فضا میں اپنے تمام تر انسانی اور سماجی سروکاروں کے ساتھ سر گرم کار ہیں ۔اس لحاظ سے ہم ان کے اس تخلیقی روپ کو مابعد از جدید رویہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ کچھ رات گزر چکی ہے ،کچھ باقی ہے ، وہ عرض ہنر کے لیے باقی رات کی مہلت کو غنیمت سمجھ کر مصروف تخلیق ہیں ۔ وہ سحر ہونے سے پہلے اپنی وہ سب باتیں کہہ ڈالنا چاہتے ہیں جو انھیں عزیز ہیں کیونکہ سحر ہوتے ہی وہ ایک نئے سفر پر نکلنے والے ہیں ۔‘‘

کچھ رات جو باقی ہے سفر سے پہلے

گزرے نہ کہیں عرض ہنر سے پہلے

یہ تھوڑی سی مہلت ہے غنیمت کیفی

کہہ ڈالو جو کہنا ہے سحر سے پہلے 

انسانی رشتے بڑے نازک ہوتے ہیں۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ایک انسان مختلف رشتوں سے بندھا چلا جاتا ہے  اور کبھی کبھی ان رشتوں کی دوریاں بھی بڑ ھ جاتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس گھر میں اجنبی انسان رہتے ہیں ایسے ہی موقعوں کے لیے حنیف کیفی نے کیا خوب کہا ہے 

مجموعہ کلام  ’سحر سے پہلے‘  کے یہ اشعار دیکھیے     ؎

مکاں بھی معتبر ہوتے مکیں بھی معتبر ہوتے

درودیوار والے یہ مکاں اے کاش گھر ہوتے

گھروں کی یہ ہوا بندی بکھر جاتی تو اچھا تھا

کوئی ایسی ہوا چلتی کہ دیواروں میں در ہوتے

انسان کو اپنوں سے جو دکھ ملتا ہے وہ اس کی تاب نہیں لا سکتا اور اس کے دل میں ایک خلا سا پیدا ہوجاتاہے ۔ وہ اپنا درد کسی اور سے کہہ نہیں سکتا مجموعہ ’سحر سے پہلے ‘ میں ایسے بہت سارے اشعار موجود ہیں جن میں گھر میں نااتفاقی پیدا ہونے والے حالات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور حنیف کیفی نے بڑے ہی فنکارانہ انداز میں ان معاملات کو پیش کیا ہے جب ایک انسان اپنوں سے ہی رنج اٹھاتاہے ۔

گھر ٹکڑے ٹکڑے ہونا ہی کیا کم تھا حادثہ

دل ہوگئے مزید جدا کچھ نہ کرسکے

گھر میں ہمارا سایہ بھی سب پر ہوا گراں

گھر ہم نے تھک کے چھوڑ دیا کچھ نہ کرسکے

ایک ہی چھت کے تلے دوریاں اتنی یارب

گھر جسے کہہ سکوں ایسا مرا گھر ہوجائے

انگریزی ادب میں جس طرح سانیٹ لکھے جاتے ہیں حنیف کیفی نے بھی اردو میں اسی طرز پر سانیٹ لکھے ہیں ۔

جومجموعہ’سحرسے پہلے‘ میں شامل ہے جن میں سے ایک سانیٹ ’گریز ‘ بھی ہے ۔ اس میں انھوں نے بڑے ہی موثر انداز میں ایک ایسے نامراد انسان کی کہانی بیان کی ہے جو اپنی محبوبہ کی یاد میں تڑپتا رہتا ہے۔ اس کے سراپا میں ڈوب کر اپنے ماضی کو یاد کرتاہے ان رفاقتوں کے دنوں کو جب وہ اپنے محبوب سے ملاقات کیا کرتا تھا ۔ اس حادثہ کواب ایک عرصہ بیت گیا لیکن آج پھر اچانک اسے اپنے معشوق کی یاد آئی ہے ۔حنیف کیفی نے بڑے ہی موثر اندا زمیں ایک نامراد عاشق کا سراپا کھینچا ہے جس میں وہ اپنے آپ کو ماضی کی یادوں سے دور رکھتا ہے اور اپنے محبوب سے پرہیز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تیری دنیا تو بہت رنگین ہے لیکن میں اس میں ہر گز لوٹ نہیں سکتا ہوں۔

گریز

دل کے ویرانے میں پھر آج تری یاد آئی

پھر معطرہے تری زلف  کی خوشبو سے  دماغ

پھر ہیں مہکے ہوئے تیرے لب ورخسار کے باغ

پھر خیالوں پہ  ترے قرب کی حسرت  چھائی

آج  پھر دشمن  ایماں  ہے  تری  انگڑائی

گل  کھلانے  لگے  پھر مردہ تمنائوں  کے  داغ

پھر سے لو دینے لگے گل تھے  جو مدت سے  چراغ

پھر ترے لمس کی  خواہش نے  قیامت  ڈھائی

 

آج  ہلچل سی  مچی  ہے  مری  دنیا  میں مگر

ضبط دل  سے کوئی  طوفاں نہیں ٹکر ا سکتا

راکھ  میں غم کی  دبی ہیں  جو تمنا  کے شرر

تیری  دنیا  بڑی  رنگین  ہے  مری  جان مگر

لوٹ  ر میں تری  دنیا میں نہیں آسکتا

مجموعہ’سحر سے پہلے‘ میں اگر رباعیات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کے ان میں حنیف کیفی نے اپنے فکر وفن کے دریا بہا دیے ہیں ۔وقت کیاشے ہے اس کا استعمال کیسے کیا جائے یہ بتایا ہے ۔ زندگی کیا شے ہے کیسے جیا جائے اور اتنی کم مدت میں اپنے فن کو اپنی صلاحیت کو اور اپنی ان امیدوں کو پورا کرلیا جائے        ؎

کچھ رات جو باقی ہے سفر سے پہلے

گزرے نہ کہیں عرض ہنر سے پہلے

یہ تھوڑی سی مہلت ہے غنیمت کیفی

کہہ ڈالو جو کہنا ہے سحر سے پہلے

اس مجموعے میں قطعات بھی موجود ہیں جس میں سے ایک قطعہ میں وہ زندگی میں کوشش کرنے کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ہر حال میں مصیبتوں سے لڑنے کے لیے اکساتے ہیں         ؎

میں زیست کے ہر موڑ پہ گر گر کے اٹھا ہوں

مٹ مٹ کے جو ابھرا ہووہ نقش کف پا ہوں

مشعل   مری  پامالی   پہیم  کو  بنالے

بھٹکے  ہوئے  راہی  میں  ترا راہ نما  ہوں

حنیف کیفی اپنے مضمون ’کار لا حاصل کا دوسرا قدم‘ میں لکھتے ہیں ’’میرا یہ دوسرا شعری مجموعہ جو پہلے مجموعے کی اشاعت کے ٹھیک اٹھارہ سال کے سن بلوغ کے بعد میری عمرکی ایک ایسی منزل میں منظر عام پر آرہا ہے جسے چل چلائو کا دور کہا جاتاہے ،اسے میرا آخری مجموعہ بھی تصورکرنا چاہیے۔یہ احساس کہ اب زندگی کے بہت کم دن باقی ہیں استقبال موت کی میری ان نظموں سے بھی ظاہر ہے جنھیں’سر راہ عدم‘کے عنوانات کے تحت ترتیب دیا گیا ہے اور غزلوں کے متعدد اشعار سے بھی۔موت جو برحق ہے اس کا احساس(خوف یا خواہش نہیں)مجھے یوں تو بہت پہلے سے رہا ہے مگر اس میں شدت ادھر آکر آئی ہے ۔میری اکلوتی بیٹی کی موت نے اس احساس کو شدید تر کردیا ہے۔ بہرحال یہ کبر سنی اور اس پرمستزاد میری کم سخنی،زندگی کے بچے کھچے دنوں میں کسی نئے مجموعے کے وجود میں آنے کے امکانات معدوم! کیونکہ دوسروں کی طرح سال بہ سال ایک شعری مجموعہ پیدا کرنے یا کتاب نام کی کوئی چیز تیار کرنے کی نہ مجھ میں قدرت ہے اور نہ یہ میری عادت ہے ۔ پہلے شعری مجموعہ کے پیش نظرزیر نظر مجموعہ میرے کلام کی باقیات ہے ، لیکن یہ باقیات اس اعتبار سے کلیات بھی ہے کہ میں نے جن جن اصناف میں بھلی بری طبع آزمائی کی ہے وہ سب اس میں شامل ہیں۔تفصیل مشمولات کی فہرست سے واضح ہے ۔غزلیں ’چراغ نیم شب ‘ کے بعد کی ہیں ۔نظموں اوررباعیات و قطعات کاانتخاب ، ابتدائی دس برسوں کے کلام کے اخراج کے بعد،دو قطعوں کو چھو ڑ کر جو 1960کی تخلیق ہے، 1961 سے کیا گیا ہے ۔1966سے میں نے سانٹ نگار ی شروع کی ،اس وقت سے ابھی تک کے تمام سانٹ اس مجموعے میں شامل ہیں۔‘‘

n

Dr. Azhar Abrar Ahmad

Assistant Professor & Head,

Department of Urdu,

Seth Kesarimal Porwal College,

Kamptee, Nagpur - 441 002

Mob.: 9970284175       

mail:azhar_abrar@rediffmail.com   

               

  


 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ظفر گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری میں مٹی کی مہک، مضمون نگار: اشتیاق سعید

  اردو دنیا، نومبر 2024 ظفر گورکھپوری... درمیانہ قد، دھان پان جسم، کُشادہ پیشانی، سوچتی آنکھیں، بے لوث دِل، خوش مزاج طبیعت اور مکر و فریب...