جموں وکشمیر میں غزل گوئی کے آغاز کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن یہاں کی شاعرات کے حوالے سے بہت کم لکھا گیا ہے۔ یہاں کی اولین شاعرات میں لل دید،حبہ خاتون،روپا بھوانی اور ارنی مال کا ذکر بڑے ادب واحترام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔یہاں کی غزل گو شاعرات پر قلم اُٹھانے سے پہلے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ریاست کی پہلی غزل گو شاعرہ کس کوتسلیم کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ ان میں لل دید سنسکرت آمیز کشمیری، حبہ خاتون فارسی آمیز کشمیری،روپا بھوانی اردو آمیز ہندی اور ارنی مآل قدیم کشمیری زبان میں لکھتی تھیں۔پہلی غزل گو شاعرہ کی تلاش کے لیے ہمیں لگ بھگ چھ سوسال کی تاریخ کا جائزہ لینا پڑے گا اور ان چھ سو سال میں ریاست کی آٹھ شاعرات میں سے کسی ایک کو پہلی غزل گو شاعرہ کاتاج پہنانا پڑے گا۔
جموں وکشمیر کی پہلی شاعرہ اور
پہلی روحانی بزرگ خاتون لل دید چودھویں
صدی کی ایک عظیم شخصیت تھیں۔ان کا جنم
عبدالوہاب شائق نے اپنی منظوم تاریخِ کشمیر میں1334-35 لکھا ہے۔1
انھوں نے سنسکرت آمیز کشمیری
زبان میں عارفانہ، صوفیانہ اورقلندرانہ شاعری کی ہے۔ان کوبجاطور پر ریاست کی پہلی
شاعرہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ان کے دور میں دہلی اور دکن میں اردواور فارسی زبان کے
مشترکہ نمونے ریختہ کے نام سے ملتے
ہیں۔عصرِ حاضر کی متعددکشمیری شاعرات کے کلام پر لل دید کے واضح اثرات نظر آتے
ہیں۔لیکن ان کے کلام میں دور دور تک بھی اردوکا کوئی لفظ،مصرعہ یاشعر نہیں ملتا
ہے۔
لل دید کی متصوفانہ شاعری کے
دو سوسال بعد کشمیر کی سرِزمین سے دوسری بڑی شاعرہ حبہ خاتون پیدا ہوئی تھیں۔حبہ خاتون کی ولادت 1541میں ضلع
پلوامہ کے زعفرانی شہر چندہارہ میں ہوئی تھی۔ حبہ خاتوں کو کشمیر کی نور جہاں،
کشمیر ی غزل کی بانی اور بلبُل شاعرہ کے القاب سے یاد کیاجاتا ہے۔کشمیر میں رومانی
شاعری کا آغاز انہی کے سر جاتا ہے۔ان کی آواز میں قدرتی مٹھاس،چاشنی اور غم
نظرآتاہے۔وہ کشمیر کی ملکہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہزاروں لوگوں کے دل کی دھڑکن بھی
تھیں۔ان کی کشمیری شاعری میں دردوغم،بے چینی وبے قراری،تانیثی شعور،عصری آگہی اُس
دور میں ملتا ہے جب نہ غم کا شاعر میر اور عورتوں کی ہمدرد تحریک تانیثیت وجود میں
آئی تھی۔ان کے گیت آج بھی کشمیری عورتیں اہم مواقع پر گاتی رہتی ہیں۔یہ وہی دور
ہے جب اردو زبان میں باضابطہ طور پر شاعری اور نثر خصوصاً مثنویاں لکھی جانے لگی
تھیں مگر بدقسمتی سے ان کے کلام میں بھی اردو کے الفاظ نہیں کے برابر ملتے ہیں۔
حبہ
خاتون کی ولادت کے ٹھیک اسّی سال بعدروپا بھوانی کا جنم1621میں ہوتاہے ۔انھوں نے
اردو آمیز ہندی زبان میں شاعری کی ہے اور ان کی شاعری میں اردو، فارسی،سنسکرت
اورکشمیری زبان کے الفاظ ملتے ہیں۔ یہ دور دکن میں اردو شاعری کا دورِعروج تھا۔اور
اب تک درجنوں اہم مثنویاںمنظر عام پر آچکی تھیں۔کشمیر کے ہونہار شاعراور
نقادڈاکٹر نذیر آزادنے روپا بھوانی کے
چند اشعار سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کشمیر کی پہلی اردو شاعرہ
ہیں۔حالانکہ یہ بات صحیح ہے کہ ان کی شاعری میں جگہ جگہ اردو کے الفاظ ملتے
ہیں۔اور جو تجربہ امیر خسروؒ نے اردو اور فارسی کے میل جول سے چودھویں صدی میں کیا
تھا،وہی تجربہ روپا بھوانی نے ہندی اور اردو کے میل جول سے سترھویں صدی میں کرکے
دکھا یا ہے۔ ملاحظہ فرمائیںاردو نما چند
اشعار ؎
اپنے گھر آیا آپ سائیں
جو کچھ میں
تھا سو اب نائیں
وہ بودھ آیا گرو کی بڑھائی
جن گرو نے دیانت کا تتو
بتائی 2
مگر ان کی شاعری کو اردو شاعری کہنا اور پھر اردو
کی پہلی غزل گو شاعرہ قرار دینا بعید از قیاس ہے۔لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں
کیا جاسکتا ہے کہ ان دو اشعار میں اپنے، گھر، آیا، آپ، جو، کچھ، میں، تھا، سو،
اب، وہ، بڑھائی، جن،کا وغیرہ خالص اردو الفاظ ہیں۔ان کے کلام کا بغور جائزہ لینے
کے بعد صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تجربے کے طور اس نئی زبان کے الفاظ استعمال کرتی
تھیں اوران کے کلام کو خالصتاً اردو کلام کہنا مناسب نہیں لگتا ہے۔ان کے بعد کشمیرکے
ادبی منظر نامے پر 1621 میں ارنی مآل نام کی کشمیری شاعرہ آتی ہیں۔انھوں نے
کشمیری شاعری میں نسائی لب ولہجے کو کافی فروغ دیا ہے۔لیکن ان کے کلام میں اردو
الفاظ کا کوئی عمل دخل نہیں ملتا ہے۔ ان کے دستیاب شدہ کلام میں اِکادُکا الفاظ ہی
مترادفات کے طور پر ملتے ہیں۔اورروپابھوانی کے مقابلے میں بہت کم بلکہ ناکے برابر
اردو الفاظ ومحاورات استعمال کیے ہیں۔ گویا ان چاروں شاعرات میں سے کسی کوبھی اردو
غزل گوئی کے حوالے سے اولیت کا تاج پہنانا مشکل ہے۔
جموں
وکشمیرمیں اردوکی پہلی غزل گو شاعرہ کی تلاش میں بابائے جمالیات پروفیسر شکیل
الرحمان صاحب نے 1928 میں پیدا ہونے والی شہزادی کلثوم کو ریاست کی پہلی غزل گو
شاعرہ قرار دیا ہے۔3
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ
1877 میں شائع ہونے والے نعتیہ مجموعہ’گلبن نعت‘ کی شاعرہ زینب بی بی محجوب کو
کیوں ریاست کی پہلی غزل گو شاعرہ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ان کے مجموعہ کلام میں29
نعتیہ غزلیں ملتی ہیں۔محجوب کی حیات اور کلام پر مختصراً روشنی ڈالتے ہیں اور کچھ
اہم نکتے اُبھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
محجوب کا تعلق اننت ناگ کے
بجبہارہ علاقے سے تھا۔ ان کا انتقال سترہ یا بیس سال کی عمر میں 1869 کے آس پاس
ہواتھا۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ 1948 کے آس پاس پیدا ہوئی تھیں۔حالانکہ یہ ایک
قیاس آرائی ہے۔کیونکہ ان کے حالات زندگی کے بارے میں مختلف گوشے آج بھی پوشیدہ
ہیں۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کا سلسلہ نسب محجوب کے پردادا سید میر جمال الدین قادری،دادا
میر محمد اسمٰعیل قادری اور والد مولوی انور شاہ قادری کے ذریعے سے حضرت شاہ
عبدالقادر جیلانی ؒ سے ملتا ہے۔4
پروفیسر عبدالقادر سروری نے
یہاں تک لکھا ہے کہ ان کے والد بجبہاڑاہ (اننت ناگ)میں حضرت بابا نصیب الدین غازیؒ
کی زیارت کے ساتھ وابستہ تھے اوریہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ ملازمت کے سلسلے میں
رامپور گئے تھے اور محجوب کچھ دیر پنجاب میں رہی تھیں۔ محجوب نے اپنے مجموعہ کلام
میں ایک غزل والیٔ رام پور کی مدح میں لکھی ہے جس میں نواب کلب علی خان کی مدح کے
ساتھ،انہوں نے اپنے والدکی شعرگوئی کا بھی ذکر کیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان
کے والد بھی اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پرہیزگار اوردیندار انسان تھے۔یہ بھی
ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے والد نواب کلب علی خان کے دربار سے وابستہ تھے اور وہ ان کے
والد پرکافی مہربان تھے۔اپنے والد اور نواب کلب علی خان کی مدح میں لکھی گئی غزلوں
سے چنداشعار ملا حظہ فرمائیں ؎
ہمیشہ عزت دنیا
ہو میری والد کو
کہ ہین وہ
فنِ سُخن مین یگانہ واستاد
انہی کی فیضِ سُخن سی ہوئی ہوں میں ممتاز
انھوں نے
شعروسُخن کا مجھی دیا ارشاد
جناب کلب علیخان
محیط بخشش وداد
ہو سر پہ
اس کی سدا سایہ شہ بغداد
کہ ہین وہ والی وممدوح
میری والد کے
کی جس کے فیض وکرم نے ہی اکِ
جہاں آباد
ان کے کلام میں فارسی اور اردو
کے درجنوں مرکبات، مذہبی، سماجی، تاریخی، نسائی، لسانی، عشقیہ، جذباتی، اعتقادی
اور نفسیاتی انداز کی ملتے ہیں۔جن میں ظلماتِ عصیان، فکرِدین ذکرِ دین، فضلِ
ایزدی،ظلِ الطافِ نبیؐ، غم گردشِ ایام،دولتِ مہرِ محمدؐ،الہامِ حق،عاشقانِ احمدی،
آتشِ غم،تڑپِ فُرقت، محرمِ اسرار،عارضِ تابان،صورتِ سیماب،غیرتِ عرشِ معلیٰ،چرخِ
ستمگر،داغِ لولاک،قُلزمِ الطاف، خاطرِ غمگین، شقِ القمر، افسرِ لولاک، غیرتِ
خورشید، مشکِ ناب،ایامِ بہاری،مثالِ زلفِ محبوبان، پردہ پوشِ عاصیان وغیرہ خاص
اہمیت کی حامل ہیں۔ ماہنامہ’الحیات‘ اور سالنامہ’حمد ونعت‘ کے مدیرڈاکٹر جوہر
قدوسی نے ان کے بارے میں لکھا ہے:
’’اس شاعرہ کا تعلق کشمیر سے ہے۔سید محمد انور شاہ (ساکنہ
بجبہاڑہ کشمیر) کی صاحبزادی زینب بی بی محجوب نے ’گلبن نعت‘ کے نا م سے اپنا
مجموعہ مرتب کیا ہے۔ محجوب نے یہ مجموعہ صرف پندرہ روز میں مکمل کیا۔اس سے قبل وہ
خواب میں نبی برحقؐ کی زیارت سے مشرف ہوچکی تھی۔ ’گلبن نعت‘ جس کا مخطوطہ کشمیر کے
محکمہ آرکائیوز میں محفوظ ہے‘ میں قرآنی الفاظ واصطلاحات کا استعمال عام ملتا
ہے...شاعرہ استغاثہ کے انداز میں اپنی خستہ حالی پر بارگاہِ رسالت پناہ میں فریاد
کناں ہے۔‘‘ 5
زینب بی بی محجوب کو جموں
وکشمیر کی پہلی اردو غزل گوشاعرہ ثابت کرنے کے لیے کچھ دلائل اور شواہد کی ضرورت
پڑے گی۔اس ضمن میں غزل کے اجزائے ترکیبی،غزل کی اقسام اور غزل کے مضامین کے حوالے
سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نعتیہ غزل بھی غزل ہی ہوتی ہے۔غزل ایک ایسی
صنف کا نام ہے جس کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ یا ہم قافیہ وہم ردیف ہوں
اور باقی تمام اشعار کا دوسرا مصرعہ پہلے شعر کا ہم قافیہ ہو۔غزل میں موضوعات اور
اشعار کی کوئی قید نہیں ہوتی ہے۔یوں جب غزل کی مکمل تعریف ہیئت کے لحاظ سے ہوتی ہے
توہروہ کلام جس میں ردیف،قافیہ،بحر کے ساتھ مطلع ومقطع ہوغزل کہلاتی ہے۔یہی چیزیں
غزل کے اجزائے ترکیبی بھی کہلاتے ہیں۔اور اس تعریف کی رُو سے ریاست کی پہلی غزل گو
شاعرہ زینب بی بی محجوب ہی ہیں۔کیونکہ ان کی تمام نعتیہ غزلوں میں ردیف، قافیہ، بحر،
مطلع اور مقطع پایا جاتا ہے اور اقسام غزل کے لحاظ سے مسلسل اور غیر مسلسل،مردف
اور غیر مردف غزلیں بھی لکھی ہیں۔اس بات کو مزید تقویت دیتے ہوئے اسمٰعیل آزادکا یہ قول پیش کرتے ہیں:
’’نعتیہ غزلیں وہ شعری کا وشات ہیں جس میں مضامین
تغزل،ترنم،حسنِ سُخن وبیان،حسین ولطیف تشبیہات واستعارات کے ساتھ نعت کے روپ میں
بیان کیے جائیں۔نعتیہ غزلوں میں سلمیٰ ولیلیٰ،ساقی و میخانہ،صراحی وپیمانہ اور جام
وسبو،مجازی معنوں میں استعمال کیے گئے ہیں۔اور جہاں کہیں شراب کی تعریف کی گئی
ہے...میخانہ خلد برین کی شراب ہے۔‘‘ 6
اس تعریف کو ذہن میں رکھتے
ہوئے جب’گلبن نعت‘ کی نعتیہ غزلوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو کچھ ایسی ہی بلکہ اس سے
بھی زیادہ خوبیاں نظر آتی ہیں۔لگ بھگ تمام غزلوں میں مطلع اور مقطع نظر آتا
ہے۔اس مجموعہ کلام کو اردو ادب میں شاعرات کی طرف سے پہلے مطبوعہ نعتیہ مجموعے کا
شرف بھی حاصل ہے۔اس ضمن میں محمد جمیل احمد لکھتے ہیں:
’’کسی خاتون کی طرف سے اردو نعت کا غالباً پہلا
مجموعہ’گلبن نعت‘ ہے جس کی مصنفہ زینت بی بی محجوب ہیں۔یہ مجموعہ جیسا کہ انہوں نے
خود ذکر کیا ہے خواب میں زیارتِ رسولؐ اکرم کے بعد پندرہ دنوں میں مکمل کیا۔یہ
مجموعہ نعت 1302ھ میں شائع ہوا۔محجوب کا تعلق ایک دیندار گھرانے سے تھا۔ان کی
نعتوں میں تغزل کے رنگ واسلوب کا پرتو جھلکتا ہے،گلبن نعت میں غزلیں اور کچھ قطعہ
ہائے منقبت وتاریخ ہیں۔‘‘ 7
محجوب
کی تمام نعتیہ غزلوں میں تلمیحات کی کہکشاںنظر آتی ہے۔جن میں نکیر منکر، دارالشفا،
حوضِ کوثر، تصویرِ یوسف، شبِ معراج، یوسف زلیخا، شیریں فرہاد، نارِ نمرود،
ابراہیم، عصمتِ فاطمہ، حضرت عیسیٰ، حضرت موسیٰ، حضرت آدم، ملکِ سکندر، حضرت
ابوبکر صدیق، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت فاروق اعظم، حضرت سلیمان، روح
الامین،حضرت نوح وغیرہ کی تلمیحات کا بیش بہا خزانہ ملتا ہے۔ان تلمیحات سے واضح
ہوجاتا ہے کہ ان کا مذہبی مطالعہ ومشاہدہ کتنا وسیع تھا۔
اس جوان مرگ شاعرہ نے کچھ
غزلیں دیگر موضوعات پر بھی لکھی تھیں مگر ان کا نمونہ دستیاب نہیں ہے۔اس بات کا
ذکر انہوں نے خود بھی کیا ہے کہ دیدارِ حضورؐ سے پہلے وہ باقاعدہ طور پر غزلیں
لکھتی تھیں مگر والد کے ڈر سے چھپاتی تھیں۔ہوسکتا ہے کہ اسی ڈر کے سبب انہوں نے
اپنی دیگر غزلوں کو ضائع کیا ہو۔ محجوب نے
اس مجموعہ کلام میں اپنی غزل گوئی،حضورؐ کے دیدار،اپنی بیماری اور اپنے مجموعہ کلام
کے حوالے سے خود ہی اہم معلومات فراہم کی ہے۔انھوں نے ’گلبن نعت‘ کے آخری صفحات پر اپنی مصروفیات کا
ذکر یوں کیا ہے:
’’...فن شاعری منصب عالی ہے۔میری طبیعتِ ناقص اسِ منصب سے
بباعث رنجوری ومعانی خالی ہے۔یہ عاجزہ تیران(تیرہ) سال کی عمر سی ایسی مرض مہلک
مین مُبتلا ہی کہ یہان جسکا ذکر تکالیف وتشریح تعب نامناسب وبیجاھی (ہے)۔اگرچہ
طبیعت پہلے سے غزلیات واشعار کی سبدع تہی(تھی) لاکن(لیکن) اُنکی تشہیر کرنیے(کرنے
سے) بباعث امتناع والد ماجد کے مجبور اور روکی رہی۔اسی اثنا میں خواب میں دیکہتی
(دیکھتی) ہون کہ حضرت سید الابرار علیہ الصلواۃ السلام مع دیگر انبیاء نامدار مثل
حضرت ادمؑ و حضرت موسیٰ ؑوعیسیٰ ؑ شریف فرماہین جناب رسالتماب صلعم نی
(نے)ارشاد فرمایا کہ ای محجوب کچہہ(کچھ) سُنا۔ایک نعت رورو کر سنائی،حضرت سرور
کائنات صلعمؐ نے محظوظ اور مبضط ہوکر مجہی(مجھے) پیار کیا۔دیدار حضرت محمدؐ کے بعد
صرف نعت گوئی کی اور صرف پندرہ دن میں یہ گلدستہ مکمل ہوا ہے۔‘‘ 8
ان کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا
ہے کہ انھوں نے نعتیہ غزلوں کے ساتھ ساتھ دیگر موضوعات پر بھی غزلیں موزوں کی ہیں
اور حضرت محمدؐ کا دیدار کرنے والی خاتون جھوٹ بولنے کی مرتکب نہیں ہوسکتی ہے۔
یوں تو غزل کے موضوعات کی قید
نہیں ہوتی ہے اور نعت یعنی حضرت محمدؐ کی تعریف بھی غزل کا ایک موضوع مانا جاتا
ہے۔لیکن جب ہم نعتیہ غزلوں کا موضوعاتی مطالعہ کرتے ہیں تواس میں بھی موضوعات کی
بہتات نظر آتی ہے اور ماہرین یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ نعتیہ غزلوں کے
مضامین کی بھی کوئی قید نہیں ہے۔ محجوب کی نعتیہ غزلوں میں سراپائے حضرت محمدؐ،
صفات واوصاف ِ حضورؐ، اہلِ بیت رسولؐ اور صحابہ رسولؐ،ذاتی خیر وبرکت اور اجتماعی
خیر برکت کے لیے وسالت،اتحادِ اُمت،حضورؐ کادیگر پیغمبرانِ اسلام کے ساتھ موازنہ،
صنائع لفظی ومعنوی، تلمیحات وغیرہ بے شمار موضوعات ملتے ہیں۔ ان کی نعتیہ غزلوں سے
مطلع اور مقطع کی برجستگی،خوبصورتی اورآہنگ وآورد ملا حظہ فرمائیں ؎
دین ودنیا کا شہناہ احمدِ
مختار ہے
ہوں تصدیق نام پر اُن کے وہ
میرا یار ہے
مدینہ میں
مجھ کوبُلا یا محمدؐ
مجھے چاند سا
مُنہ دکہا یا محمدؐ
فلک تو جانتا ہوگا کہ یھ محجوب
کے سر ہے
حبیب ِحق محمدؐ مصطفیٰ
میر ا پیمبر ہے
میرے
شعر وسخن کو کر عطا ایسی قبولیت
کہے عالم کہ ہو محجوب برخوردار
یااللہ
سُنے کون
محجوب کی التجا
کو
تو بن کر
میرا مُشکل کشا یا محمدؐ
بجا لاشکر اے محجوب حضرت کی تصدیق
سے
سراسررشک سحر سامری گفتار ہے
میرا9
ان کی نعتیہ غزلوں کا لسانیاتی
مطالعہ کرنے کے بعد کچھ ایسی باتیں سامنے آتی ہے کہ وہ دو الفاظ کو جوڑ کر لکھتی
ہیں جیسے مجہکو(مجھ کو)،غمخوار(غم خوار)،کرنیسے(کرنے سے) وغیرہ اوروہ ’ھ‘ کی
جگہ’ہ‘ اور ’ہ‘ کی جگہ’ھ‘ کا استعمال کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں املا
کی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ہوسکتا ہے پنجاب میں رہنے کے سبب ان
کی اردو زبان پر پنجابی کے اثرات پڑے ہوں اورویسے بھی اس زمانے کی زبان میں ایسا
اکثر دیکھا گیا ہے۔ان کی نعتیہ غزلوں میں ’ں‘ نون غنہ کی جگہ اکثر’ن‘ کا استعمال
بھی ملتا ہے۔ لسانیات، ساختیات اور پس ساختیات کی رو سے ان کے کلام کا مطالعہ کافی
اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے۔ان کے کلام کو آسانی سے پڑھا جاتا ہے لیکن کچھ الفاظ کی
شکلیں بدلی سی نظرآتی ہیں۔
حالانکہ ان کے کلام میں سہل
ممتنع کی بھی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ان کے چند عام فہم اشعار ملا حظہ فرمائیں ؎
مین تمھاری
شرابِ اُلفت سے
مست و
سرشار ہون خبر
لیجیے
وہی اپنا
شفیع و رہنما
ہے ہر دو عالم میں
کہ جس کایار بوبکرؑ وعمرؑ
عثمان ؑوحیدرؑ ہے
تیرا وصفِ مُقدس ہے الم نشرح لک
صدرک
تیری مدح وثنا میں سورہ والنجم
وکوثر ہے
اے میرے یوسف زلیخا کی طرح
تیرے لیے
میں کھڑی ہوں نقدِ جان لے کر
سرِ بازار آ
یوں محجوب کی نعتیہ غزلوں کا
فنی وموضوعات،لسانی ونسائی مطالعہ کرنے اور ان کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر ڈالنے
کے بعد کوئی چارہ نہیں ہے کہ ان کو ریاست کی پہلی غزل گو شاعرہ نہ مانا جائے اور
اتنا سب ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی نہیں مانتا ہے کہ محجوب ریاست کی پہلی غزل گو
شاعرہ ہے،تو ایک نئی صورت بھی نکلتی ہے کہ محجوب اور کلثوم کے درمیانی دور میں
ریاست کی کچھ پنڈت غزل گو شاعرات کا ذکر ملتا ہے۔
ان میںپہلا نام1852 میں کشمیری
پنڈت بشمبھر ناتھ رینہ کے گھر دہلی میں پیدا ہونے والی ان کی بیٹی پران کشور ی
کچلو کا آتا ہے۔اگرچہ وہ انیسویں صدی کی شاعرہ تھیں لیکن ان کے کلام میں دکنی
اردو کے الفاظ بھی ملتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں مطلع،مقطع،ردیف،قافیہ،بحر اور موضوع
کے لحاظ سے کسی قسم کی کوئی خامی نظر نہیں آتی ہے۔گویا وہ غزل کے عروضی نظام اور
غزل کے اجزائے ترکیبی سے بخوبی واقف تھیں۔ انھوں نے مسلسل غزلیں بھی لکھی
ہیں۔ملاحظہ فرمائیں ان کی غزل سے چند اشعار
؎
اس جہاں
میں کوئی بھی اپنا نہیں
غمخوارہے
جھوٹی مایا موہ میں پھنسنا یونہی بیکار ہے
تن سے من سے جان سے دل سے
تمھاری یاد ہے
تو مر ا
سوامی نرنجن تو ہی نرآکار ہے
غور سے
دیکھا جو میں نے
ہرجگہ پایا تجھے پھر نہ کیوں اُمید رکھوں تو ہی تارن ہارہے
پران ہے چرنوں کی داسی عرض اُس کی ہے یہی
مجھ کو بھگتی اور
مُکتی دے تو بیڑا پار ہے10
ایسی پُر اثر اور پُرکیف،ترنم
اورتہذیب میں ڈوبی غزلوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ان کے بعد1898 میں الہ
آبادمیں جنمی شری متی سوشیلا تکو،عرف برج کشوری کا نام آتاہے۔سوشیلا کی زبان
صاف،سلیس اور شستہ تھی۔ان کے کلام میں عام فہم الفاظ ملتے ہیں۔اگرچہ وہ ہندی زبان
سے بھی واقفیت رکھتی تھیں لیکن ان کے اردو کلام میں بہت کم ہندی الفاظ ملتے ہیں۔
ان کے کلام سے چند عام فہم اور سلیس اردو زبان کے اشعار پیش کرتے ہیں ؎
یہ فصاحت،یہ بلاغت،یہ سلاست آپ کی
اس پہ
سونے پر سہاگا اکبر آبادی زباں
چشم بددور ہیں
دور، مطلع،مطلعِ انوار ہے
جوہرِ پاکیزگی ہے دونوں مصرعوں
سے عیاں
آپ کے دم سے شجاعت میں ہے دم
باقی ضرور
ہم نہ
ہوئیں گو تو مٹ جاتا محبت کا
نشاں11
یوں پران کشوری اور برج کشوری
کو بھی ریاست کی پہلی غزل گو شاعرہ کہا جاسکتا ہے۔اگرنعتیہ غزلوں کی وجہ سے محجوب
کو پہلی غزل گو شاعرہ کی دوڑ سے الگ کیا جائے تو پھربھی کلثوم سے پہلے ان دونوں
میں سے ایک کو بلکہ پران کشوری کو جموں وکشمیر کی پہلی غزل گو شاعرہ کا شرف حاصل
ہوتا ہے۔پروفیسر شکیل الرحمان نے ریاست کی
ان تینوں شاعرات کو چھوڑکر کس بنیاد پر شہزادی کلثوم کو پہلی غزل گو شاعرہ
قرار دیا ہے۔ہوسکتا ہے کہ پروفیسر شکیل الرحمان صاحب کے دور میں ان تینوں کے بارے
میں کوئی مواد اور معلومات دستیاب ہی نہ ہو۔’گلبن نعت‘ اور ’بہارِ کشمیر‘ نامی
کتابیں کچھ سال پہلے ہی دستیاب ہوئی ہیں اور ایسا ممکن ہے کہ شکیل صاحب نے اسی وجہ
سے ان تینوں کو نظر انداز کرکے شہزادی کلثوم کو پہلی غزل گو شاعرہ قرار دیا ہو۔اس
صورت میںمزید دوتین باتیں ہوسکتی ہیں پہلا محجوب کی نعتیہ غزلوں کو وہ غزلیں نہیں
مانتے ہوں گے، دوم کشمیری پنڈتائن کووہ کشمیری نہیں مانتے ہوں گے اور سوم ان تینوں
شاعرات کی ولادت،پرورش اور موت کشمیر کے باہر ہوئی ہے۔محجوب پنجاب میں،پران کشوری
دہلی میں اوربرج کشوری الہ آباد میں سکونت پذیر تھیں لیکن ایک بات صاف ہے کہ جس
طرح دیگر موضوعات پر لکھی جانے والی غزلیں، غزل ہیں، ٹھیک اسی طرح نعتیہ غزلیں بھی
غزل ہیں اور بہترین غزلیں ہیں۔دوم جو حیثیت جموں وکشمیر میںرہنے والی ہندواورمسلم
شاعرات کو دی جاتی ہیں وہی رتبہ واعزاز اُ ن کشمیری پنڈتوں اور پنڈتاین کو بھی دیا
جاناچاہیے۔جو کسی وجہ سے مختلف اوقات میں کشمیر سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
شہزادی کلثوم کی ولادت 1928
میں ہوئی تھی اور محض اکیس سال کی عمر میں1949 میں ان کا انتقال ہواتھا۔اور
پروفیسر شکیل الرحمان کے مطابق کلثوم نے صرف پانچ سال تک شاعری کی ہے۔یہی وجہ ہے
کہ ان کی شاعری کو ’ ایک اشارہ،ایک ادا اور ایک پیکر‘ کا نام دیا ہے۔ان کی غزلوں میں
وہ تمام فنی وفکری لوازمات نظر آتے ہیں جن کا ایک کامیاب غزل گوسے توقع کی جاتی
ہے۔ ان کی غزلوں میں الہام،فلسفہ، آورد اورتصوف کا احساس ملتا ہے۔انھوں نے اپنے
ذاتی درد وکرب، موت، تقدیر، قسمت،پریشانی،بے بسی،عشق وعاشقی پر دل کھول کر غزلیں
موزوں کی ہیں۔ان کے یہاں صنائع بدائع کا ایک سمندر رقص کرتا نظر آرہا ہے۔انہوںنے
جس کثرت سے کوہِ طور اور حضرت موسیٰ کی تلمیحات استعمال کی ہیں،ریاست کے کسی بھی غزل گو شاعرکے یہاں ایسا
کارنامہ نہیں ملتا ہے۔ان کی شاعری کے بارے میں جہاں سیدہ اختر کا کہنا ہے کہ ’ان
کے کلام میں حال بہت زیادہ اور کال بہت کم ملتا ہے‘۔12وہیں پروفیسر سیدہ جعفر کا
کہنا ہے کہ’ ان کی شاعری کا زمانہ بہت مختصر ہے اور اس عرصے میں زندگی،شاعری اور
موت کی منزلیں طے ہوگئیں‘۔13 محترمہ بلقیس زیدہ نے ان کی غزل گوئی کے حوالے سے
لکھا ہے:
’’غزل میں اُ ن کا انداز بڑا نکھرا نکھرا ہے۔زبان کے
معاملے میں وہ بیحد سادگی پسند ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اُن کی غزل اُن کے
اپنے مسائل کی ترجمان ہے۔ انھوں نے شعر کہا ہے مگر دل کی زبان سے۔فکر کی ہے مگر
حقیقی بصیرت کی روشنی میں۔‘‘ 14
کلثوم ایک خوش فکر اور خوش گو
شاعرہ تھیں اور انھوں نے تصوف کے مسائل کو بھی اپنی غزلوں میں پیش کیا ہے۔ ان کی
غزلوں میں فکر وفن کی بلندی،جذبے کی شدت، اظہار کا جوش،افکار واحساسات میں
پختگی،تخیل کی بلندی، احساس کی پاکیزگی،شوکتِ الفاظ،الفاظ کی خوبصورت نشست اور
سادہ وسہل زبان ملتی ہے۔
انھوں نے جتنا کم کلام یادگار
چھوڑا ہے اس سے کہی زیادہ مشاہیر ادب نے ان کے کلام کی تعریف کی ہے۔
ڈاکٹر گلزار احمد وانی کو ان
کی شاعری میں سودا، اقبال اور فیض کی سی نیر نگیاں نظر آتی ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ انھوں نے میر، آتش، غالب
جیسے بڑے شعراکے تتبع میں زبردست قسم کے اشعار موزوں کیے ہیں۔ سودا اور آتش کی
غزلوں کی زمین میں لکھے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
جان دیدی یہ کہہ کے عاشق نے
تو نے
دی ہے، تیری
امانت ہے
آج کل کچھ ایسا برگشتہ مقدر
ہوگیا
لعل چھوتے ہی مری قسمت سے پتھر
ہوگیا
ڈاکٹر
فرید پربتی کو ان کی غزلوں میں فنی ارتقا،بندش کی چستی،زبان اور محاورے کا برمحل
استعمال ملتا ہے۔15
ان کی غزلوں سے مختلف موضوعات
پر ایک ایک شعر پیش کرتے ہیں ؎
جب اہلِ دل کو عشق کا عرفان ہوگیا
حسنِ فریب کار
پشیمان ہو گیا
کہہ
گیا دو ہچکیوں میں عمر بھر کی داستان
مرنے والے واہ! کیا کہنا تری تقریر کا
کرو تم
لاکھ تدبیریں تو کیا ہے
وہی ہوگا
جو قسمت کا
لکھا ہے
طور سے
پوچھ اہلِ طور سے پوچھ
طالبِ دید کی
سزا کیا ہے؟
یہ بات سچ ہے کہ شہزادی کلثوم
کی غزلوں میں محجوب،پران کشوری اوربرج کشوری کے مقابلے میں موضوع کا تنوع، زبان
وبیان کی لطافت اور دیگر معاملات میں فوقیت نظرآتی ہے۔ان کی غزلوںمیں متنوع
موضوعات ملتے ہیں اور ان کی زبان خالص اردو زبان نظر آتی ہے۔ انہوں نے باقاعدگی سے غزل کے فن کو سمجھا
اورغزل کے مختلف ومتنوع موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے۔اس بنیاد پر ان کو پہلی
باقاعدہ غزل گو شاعرہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں ہے البتہ پہلی غزل گو شاعرہ محجوب ہی
ہے۔
اس بحث و مباحث کو پیش کرنے کا
خاص مقصد یہی ہے کہ جموں وکشمیر میں لل دید کو پہلی شاعرہ ہونے کا شرف حاصل ہے اور
زینب بی بی محجوب کو اردو کی پہلی غزل گو شاعرہ اور نعت گو شاعرہ کا شرف حاصل
ہے۔اورشہزادی کلثومؔ اردو کی پہلی باقاعدہ غزل گو شاعرہ کہلانے کی حق دار ہیں۔ ان
چاروں شاعرات میں تمام کا آبائی وطن کشمیر ہے لیکن چاروں کی ولادت اورپرورش کشمیر
سے باہر ہوئی ہے۔ بہرحال یہ بات آئینے کی طرح صاف ہوجاتی ہے کہ زینب بی بی محجوب
نے ہی جموں وکشمیر میں اردو غزل کا آغاز اپنی نعتیہ غزلوں سے کیا ہے۔تحقیق میں
کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں زینب بی بی محجوب سے
پہلے دور کی کسی دوسری شاعرہ کا سراغ مل جائے یا پھر محجوب ہی اس منصب پر فائز
رہیں۔
حواشی:
1 لل دید: کشمیر کی مشہور ومعروف شاعرہ،جے لال کول،ترجمہ
موتی لال ساقی،ساہتیہ اکادمی،نئی دہلی،1985،ص16
2 کشمیری پر اُردو کے اثرات،ڈاکٹر نذیر آزاد، 2012،ص25
3 یادگار کلثوم،ترتیب اکبر جے پوری،ناشر نامعلوم، 1962،
ص:16
4 گلبن نعت،زینب بی بی محجوب،ماص ہند امرتسر اہتمام شیخ
نور احمد، 1297ھ،،ص:69
5 کتابی سلسلہ جہان ِ حمد ونعت،مدیر ڈاکٹر جوہر قدوسی،نعت
اکادمی سرینگر،کشمیر،مئی۔جون
2019،ص241-242)
6 اردو شاعری میں نعت،(جلد دوم)،ابتداء سے محسن تک،ڈاکٹر
اسمٰعیل آزاد فتح پوری،مطبع نسیم بک ڈپو لکھنو، 1992، ص296
7 اردو میں نعت گوئی،ڈاکٹر ریاض مجید،اقبال اکادمی
پاکستان، 1990، ص577
8 گلبن نعت،زینب بی بی محجوب، ماص ہند امرتسر اہتمام شیخ
نور احمد، 1297ھ،ص49
9 ایضاً،ص4،
10 بہار گلشن کشمیر،جلد سوم،پنڈت برج کرشن کول اور پنڈت جگ موہن ناتھ رینہ،
انڈین پریس لمیٹیڈ،الہ آباد، 1932، ص868
11 کشمیر میں اردو، حصہ سوم،پروفیسرعبدالقادر سروری،کلچرل
اکیڈمی، سرینگر،ص:222
12 یادگار کلثوم،مرتب اکبر جے پوری،1962،ص22
13 ایضاً،ص23
14 ایضاً،ص7-8
15 سالانہ تحقیقی مجلہ ترسیل،نظامت فاصلاتی تعلیم کشمیر یونیورسٹی، شمارہ 9،
2010،ص135
Mohd Yaseen Ganie
Pulwama Kashmir
Post Office:Tiken Batpora - 192306 (J&K)
Mob.:7006108572
Email:myganie123@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں