23/4/21

درد دل: اطبا اور ادبا کی نظر میں - مضمون نگار: اشرف آثاری


 


الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

 دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

میر تقی میر

’’.....میرے دونوں شانوں کے درمیان جو درد تھا اس میں فائدہ نہیں ہوا، بعض دفعہ میں رات کو اس کی وجہ سے سو نہیں سکتا۔اٹھ کر سیدھا بیٹھ جاتا ہوں تو قدرے ریلیف ہوتا ہے۔اگر علی بخش دونوں ہاتھ سے ذرا مل دے تو پھرتھوڑی دیر کے لیے آرام ہو جاتا ہے۔شاید دورانِ خون کی وجہ سے ہے۔‘‘

علامہ اقبال نے اینجائینا یا دردِ دل کا ذکر اپنے ایک خط میں اس طرح کیا ہے۔یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ علامہ اقبال نے اس قیاس سے کہ شاید یہ تکلیف دورانِ خون کی وجہ سے ہے اپنی ژرف نگاہی کا ثبوت بھی فراہم کیا ہے۔حقیقت میں بھی بالکل ایسا ہی ہوتاہے۔

یہ مرض ایک پرانا مرض ہے اور اس کے متعلق جانکاری قدیم طبی دستاویزات میں بھی ملتی ہے۔ دنیا بھر میں آثارِقدیمہ کے ماہرین نے جو قدیم مزارات دریافت کیے ہیں جن میں اکثر چین و مصر میں موجود ہیں ان مزارات میں محفوظ کیے گئے انسانی ڈھانچوں کے سائنسی تجزیے سے اس بات کے شواہد ملے ہیںکہ قدیم چین اورمصر کے باشندوں کو دل سے نکلنے والی باریک لال رگوں یا عروقِ شعریہ کے متعلق جانکاری حاصل تھی۔لگ بھگ تین ہزار برس پرانے چینی طبی صحیفوں میں، اس بات کے متعلق آگاہی ملتی ہے کہ چینیوں کویہ علم تھا کہ دل سے لہوکا دھارا چلتا رہتاہے جو انسانی جسم میں رواں دواں ہے اور اسی سے ہر جاندار زندہ اور متحرک ہے اور اس کا رکنا ہی موت ہے۔جسمِ انسانی میں دورانِ خون کا سارا دارومدار قلب کی انقباضی اور انبساطی حالت و کیفیت پر منحصر ہے اوردل کے اسی سکڑنے اور پھیلنے پر انسانی بقاء و دوام کا انحصار ہے۔دل کے ظاہری افعال و خواص یا پھر طبی،معالجاتی یاخلقی نظام کی جانکاری یہیں سے شروع ہوجاتی ہے اور دل کے سکڑنے، پھیلنے، تنگ ہوجانے یا پھر وسیع ہوجانے پر ہی،سارا کاروبار زندگی منحصر ہے لیکن دل کی ان سب طبعی خصوصیات کے علامتی مفاہیم بھی ہیں جنھیں ہر دور کے شعرا و ادبا نے اپنے فن پاروں میں استعمال کیا ہے مثالیں لاتعداد ہیں یہاں مرزا غالب کے ان چند اشعار پر ہی اکتفا ممکن ہے جن میں دل کی تنگی یا پھر وسعت کا ذکر کیا گیا ہے،فرماتے  ہیںکہ :

تنگیِ دل کا گلہ کیا؟ یہ وہ کافر دل ہے

کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا

 شرحِ اسباب گرفتاریِ خاطر مت پوچھ

اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا  

 نہ بندھے تشنگیِ شوق کے مضموں غالب

گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا

 دکھ جی کے پسند ہوگیا غالب

 دل رک رک کے بند ہوگیا غالب

درد اور دل کا قصہ آج کا بھی ہے اور بہت پرانا بھی۔ ایک قدیم طبیب کا کہنا ہے:

’’اس کا حملہ بالکل طوفان کی طرح ہوتا ہے، باقی بیماریوں میں تو صرف بیمار ہونے کا احساس ہوتا ہے، لیکن حملہ قلب میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آخری وقت آپہنچا ہے۔‘‘ (لوسیس سنیکا)( قبل مسیح)

یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ بیماری شاید اتنی ہی قدیم ہے جتنا خود حضرت انسان۔ اوپر مذکورہ عبارت آج سے ہزاروں برس، قبل مسیح کے کسی مفکر یا طبیب کی بتائی جارہی ہے آج بھی حملۂ قلب، بیماری کے ضمن میں اسے بالکل درست اور ناقابل تردید مانا جاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی اور نہ شاید آئندہ کبھی آئے گی:

’’درد کے دوران جب میری نظر آئینہ پر پڑی تو میرا چہرہ زرد تھا، ہونٹ سفید اور شکل مردہ آدمی کی طرح معلوم ہوتی تھی۔‘‘ (جان ہنٹر 1700)

عام طور پر اس طرح کا درد جسمانی محنت سے پیدا ہوتا ہے خواہ وہ چلنا پھرنایا سیڑھیاں چڑھنا یا اترنا وغیرہ جیسی جسمانی محنت یا اور کوئی جفاکشی ہو، اور جب ٹھہر کر آرام کیا جائے تو فوراً افاقہ بھی ہوجاتا ہے۔یہ درد سینے یا چھاتی پر سامنے کی ہڈی کے مقام پر اٹھتا ہے،یہاں سے پھیل کر بائیں کندھے یا بازو یاہاتھ میں یا پھر بعض دفعہ دونوں بازوئوں یا کلائی یا پھر انگلیوں تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ ان اعضا کے علاوہ جسم کے دیگر اعضاء تک بھی دور دور تک پھیل سکتا ہے۔یہاں تک کہ گردن،نچلے جبڑے، پیٹھ، عقب میں دونوں کندھوں کے درمیان یا پھر فم معدہ تک بھی۔

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اینجائینا کا درد ہلکا بھی ہوسکتا ہے۔اور ہلکا ہونے کے باوجود بھی خطرناک ہوسکتا ہے دراصل یہ دل سے متعلق باریک لال رگوں کے تنگ  ہوجانے سے لاحق ہوجاتا ہے اور اگر یہ رگیں پچھتر فیصدی تنگ ہوچکی ہوں تو درد حرکت کرنے سے ہوجاتا ہے اور اگر یہ نوے فیصدی تک تنگ ہوگئی ہوںتو بغیر کچھ کیے بھی درد ہوسکتا ہے۔

اردو ادب میں سید عابدعلی عابد نے اینجائینا کا ذکر ادبی چاشنی کے ساتھ یوں کیا ہے:

’’اواخر عمر میں حافظ محمود شیرانی، اقبال مرحوم کی طرح،تاثیر کی طرح،تاجور کی طرح،حسرت کی طرح اور اب یہ کہہ دینا چاہیے کہ میری طرح،مرض قلب (اینجائینا)

میں مبتلا ہوگئے تھے،ان کے جو خطوط شائع ہوئے ہیں،ان سے پتہ چلتا ہے،کہ ان کو وجع القلب تھایعنی دردِ دل۔اس موذی مرض کا جب دورہ پڑتا ہے اورمجھ پر یہ کیفیت گزر چکی ہے تو مریض کو یوںمعلوم ہوتا ہے گویا اس حملے سے جانبر نہیں ہوگا۔پھر یکایک درد رفع ہوجاتا ہے اور کچھ عرصے کے بعد طبیعت بحال  ہوجاتی ہے، تو مریض کو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے درد کبھی تھا ہی نہیں۔‘‘

ان تاریخی واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اینجائینا کی علامات بالکل واضح ہوتی ہیں اور ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔یہاں یہ باتیں بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ اینجائینا کو یہ نام 1868 میں ایک انگریز طبیب نے دیا جس نے اس کی تشخیص کے لیے چار اہم علامات کا موجود ہونا لازمی قرار دیا ہے۔

(1) درد سینے کے درمیاں سے اٹھے (2) درد بائیں ہاتھ کی طرف پھیلے (3) درد حرکت کرنے سے شروع ہو جائے۔(4) درد تیس سیکنڈسے زیادہ اور تیس منٹ سے کم وقفے تک رہے۔موجودہ دور میں پانچویں اہم بات یہ جوڑ دی گئی ہے کہ یہ درد نائٹروگلسرین کی گولی کو منہ میں ، زبان کے نیچے رکھنے سے فوراً رفع ہو جائے۔دراصل اس زمانے میں یہ دوائی ابھی دریافت نہیں ہوئی تھی اس کے سو سال بعد دریافت ہوگئی۔

جسمِ انسانی میں موجود پانچ اہم اعضاء،جنہیں اعضائے رئیسہ بھی کہا جاتا ہے،میں دل کو انتہائی اہمیت حاصل ہے جو قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہے۔پانچ ہزار سال قبل بھی انسانی قلب کے بارے میں یہ معلومات تھیں کہ قلب سر چشمہ حیات ہے اور دل کا مختلف اعضائے بدن کے ساتھ ایک قریبی اوراہم تعلق اور رشتہ ہے اوراس تعلق اور رشتے کو انسانی ارتقا کے ابتدائی دور سے ہی محسوس کیا گیا ہے انسانی عقل و خرد کے موجودہ ارتقائی دور میں، ہر روز اس پر نئی نئی تحقیق منظرِعام پر لائی جارہی ہے۔

ہر انسان کا دل مسرت و شادمانی سے خوش ہوتاہے اور حزن وغم و ملال سے رنجیدہ اور ملول ہوتا ہے انبساط وخوشی سے اس کے ہونٹوں پرتبسم بکھر جاتا ہے اور غم و اندہ،درد وکرب سے وہ چیختا اور چلاتا ہے اور اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔مسرت و انبساط اور رنج و غم سے، اس کے جسم کا جو عضو سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے،وہ اس کا دل ہے۔کسی بھی شاعر کا کلام زیادہ تر دل کی ان ہی دو کیفیات کا اظہار ہوتا ہے۔ ہاں البتہ آہنگ و اسلوب ہر شاعر کا الگ الگ اور منفرد ہوتا ہے خوشی اور غم کے پیمانے بھی الگ الگ ہیں۔

      ا ردو زبان وادب کے صفِ اول کے ادبا اور شعرا بھی عصرِحاضر میں تخلیق ہونے والے ادب میں،دل سے متعلق نئے نئے اور اچھوتے موضوعات کو زیر بحث لاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اردو شاعری میںدل و دماغ اور جگر کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے یہ شاعری بطورِ خاص دل کے تذکرے سے بھری پڑی ہے۔اگر ہم صفِ اول کے شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب کے کلام کو ہی لیںتو اس میں جابجا مختلف اور منفرد انداز و اسلوب میں، دل کا تذکرہ ملتا ہے اور حسرتِ دل،وحشتِ دل،جراحتِ دل، مرہمِ دل، زخمِ دل،داغ دل،دشمنِ دل،سوزش ِدل،جوشِ دلِ،گوشئہ دل،راحتِ دل،خونِ دل،نالئہ دل،چاکِ دل تنگیِ دل اور دلِ ناشاد،د لِ افسردہ،دلِ حزیں،دلِ خستہ، دلِ بیتاب،دلِ ناداں،دلِ مجروح اور اس طرح کے لاتعداد الفاظ وتراکیب و استعارے ملتے ہیں جو نہ صرف میرومومن، غالب و اقبال اور فراق و فیض کی شاعری میں بھی جابجاملتے ہیں بلکہ معاصرشعرا کی شاعری میں بھی منفرد و مخصوص معانی و مفہوم کے ضمن میں مستعمل ہیں۔ جس سے اردو شاعری میں انسانی اعضائے رئیسہ میں دماغ و جگر کے ساتھ ساتھ بطورِ خاص اہمیتِ دل کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔اس سلسلے میں مرزا غالب کے ان چند اشعار کی مثال دی جاسکتی ہے۔

آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد

مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ

دیدئہ خونبار ہے مدت سے ولے آج ندیم

دل کے ٹکڑے بھی کئی خون کے شامل آئے

گوشِ مہجورپیام وچشم محرومِ جمال

ایک دل،تس پریہ نا امید واری ہائے ہائے

واقعی دل پر بھلا لگتا تھا داغ

زخم لیکن داغ سے بہتر کھلا

لاتعداد اشعار ہیں، وہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک،سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کو لکھا جائے اور کسے چھوڑا جائے۔

شاعروں، ادیبوں، مفکروں، عالموں، تاجروں، سیاست دانوں، غرض انسانی معاشرے سے جڑے ہر طبقے اور مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے ہر فردوبشر کو، اپنے سینے میںرکھے ہوئے گوشت کے اس ایک لوتھڑے کی،جو قدرت کے عجائبات میں سے ایک بہت بڑا عجوبہ ہے، اہمیت و افادیت کا بھرپور احساس و اندازہ ہے کہ جو اگر ستر سال بھی زندہ رہا تو چار کھرب دفعہ دھڑکے گا اور اس دوران دس کروڑ گیلن خون کا اخراج کرے گا۔ اس حساب سے دل اپنی تین دھڑکنوں میں ایک پیالی خون خارج کرے گا اور سخت محنت کی جائے تو فی گھنٹہ 14 بیرل خارج کرے گا۔ دل بظاہر ایک چھوٹا سا عضو ہے لیکن اس کو جس قدر اور جس نوعیت کا کام کرنا پڑتا ہے وہ ہر لحاظ سے نہ صرف تعجب خیز ہے بلکہ حیران کن بھی ہے۔ آج کل کے اس کمپیوٹر ایج میں بھی کیا کوئی ایسی منظم، مستحکم، مربوط وپائیدار مشین ہے؟جو اس کا مقابلہ کرسکے؟ اس میں انسانی جسم میں ہنگامی حالت سے پیدا شدہ ہرصورت حال سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت وصفت بھی ہے۔جسم کے تمام اعضا کو خون کی رسد پہنچانا اس کی ذمے داری ہے ہی اور ساتھ ساتھ اپنی نشوو نما کے لیے خوراک حاصل کرنا بھی نہیں بھولتا۔

دل کے ہزار پہلو سہی، طبی، طبعی، ادبی یا شاعرانہ پہلوکا تذکرہ تو ٹھیک ہے،اشرف المخلوقات کے قلبِ سلیم کا،انِ سب سے بڑھ کر ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ ہے اس کا روحانی پہلو،بخاری شریف کی حدیثِ مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ          

’’یاد رکھو تمھارے جسم کے اندرایک لوتھڑا ہے جب وہ صحیح ہو گا تو سمجھ لو تمھارا سارا جسم صحیح ہے اور اگر اس میں کوئی بگاڑ آگیا تو سمجھ لو تمھارے سارے جسم میں بگاڑ آگیا۔یاد رکھو وہ لوتھڑا قلب ہے۔‘‘

اس مضمون کو ایک شاعر نے اپنے شعر میں کس خوبصورتی اور چابکدستی سے یوں باندھا ہے          ؎

دل کے بگاڑسے ہی بگڑتا ہے آدمی

جس نے اسے سنبھال لیا وہ سنبھل گیا


Dr. Ashraf Asari

Sidra Bal, Hazrat Bal

Srinagar - 190006 (J&K)

Mob.: 9419017246

Email.: dr.ashraf.asari@gmail.com







کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ظفر گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری میں مٹی کی مہک، مضمون نگار: اشتیاق سعید

  اردو دنیا، نومبر 2024 ظفر گورکھپوری... درمیانہ قد، دھان پان جسم، کُشادہ پیشانی، سوچتی آنکھیں، بے لوث دِل، خوش مزاج طبیعت اور مکر و فریب...