26/4/21

 



ہر چرن داس چاؤلہ ناروے میں اردو کے مشہور و معروف  افسانہ نگار ہیں۔ آپ کا اصل نام ہرچرن داس ہے۔  3نومبر 1925ء کو داؤد خیل ضلع میانوالی (مغربی پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ کے آر ایس ہائی اسکول پھیرہ سے 1943ء میں میٹرک اور منروا کالج راولپنڈی سے 1945ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔ پنجابی یونیورسٹی (چنڈی گڑھ) سے بی اے اور پی ٹی کالج دہلی میں 1956ء میں داخلہ لیا ، وہیں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد تقریباً بیس سال تک پوسٹ آفس (دہلی) فلمی دنیا  (مدھوکر فلمز، ممبئی) اور ریلوے (ناردرن ریلوے، بیکانیر) میں ملازمتیں کرنے کے بعد اوسلو (ناروے) کی لائبریری میں اردو، ہندی اور پنجاب زبانوں کے صلاح کار مقرر ہوئے۔ تازندگی ناروے میں ہی مقیم رہے، گرچہ سیاحت کا شوق ہمیشہ رہا اور اس حوالے سے کئی بار ہندوستان اور ایک بار بہار بھی آئے۔ دسمبر 2001ء میں ناورے میں ہی ان کا انتقال ہوگیا۔

ہرچرن چائولہ کی ادبی زندگی کا آغاز 1948ء میں ہوا۔ ان کا پہلا افسانہ رسالہ ’’ریاست‘‘ (دہلی) میں شائع ہوا جس کے ایڈیٹر دیوان سنگھ مفتون تھے۔ اس کے بعد ہندو پاک نیز یورپ کے تمام اردو رسائل و جرائد میں جن کی فہرست سازی مشکل ہے، افسانے شائع ہوتے رہے۔ اردو کے علاوہ ہندی، پنجابی، انگریزی، روسی اور نارویجین زبانوں میں بھی ان کی کہانیاں شائع ہوتی رہی ہیں۔ انھوں نے افسانوں کے علاوہ ناول، خاکے،یادداشتیں اور مضامین بھی لکھے ہیں۔ نیز دوسری زبانوں سے کہانیوں اور مضامین کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کی تصنیفات و تالیفات کی مکمل فہرست تیار کرنا بہت مشکل ہے چونکہ وہ زندگی کے آخری دنوں تک لکھتے رہے۔ بہرحال ان کی افسانہ نگاری کے حوالے سے ان کی درج ذیل تصنیفات اہم کہی جاسکتی ہیں۔ دیگر تصنیفات میں ناول اور بچوں کے لیے تحریر کردہ کتابیں شامل ہیں۔

1       :        عکس اور آئینے (افسانوی مجموعہ)، مطبوعہ 1975ء

2       :        ریت، سمندر اور جھاگ (افسانوی مجموعہ) مطبوعہ 1980ء

3       :        آتے جاتے موسموں کا سچ (افسانوی مجموعہ) مطبوعہ 1989ء

4       :        البم (افسانے زندگی کے) مطبوعہ1990ء

(اوراق لاہور میں 1977ء تا 1987ء شائع شدہ)

5       :        دل، داغ اور دنیا (افسانوی مجموعہ) تاریخ اشاعت درج نہیں

6       :        ہرچرن چاؤلہ کے منتخب افسانے 1992ء

ان کتابوں کے علاوہ درج ذیل تصنیفات بھی اہم قرار دی جاسکتی ہیں

1       :The Broken Horzon (چاؤلہ کے افسانوں کا انگریزی ترجمہ)، مطبوعہ1974ء

2       :آخری قدم سے پہلے (چاؤلہ کے افسانوں کا ہندی میں ترجمہ) مطبوعہ 1983ء

3       :پانڈی دی عورت (پنجابی اور گورمکھی میں ترجمہ شدہ چاؤلہ کے افسانے) مطبوعہ1985ء

4       :        ناروے کے بہترین افسانے، مطبوعہ1989ء

(سترہ نارویجین کہانیوں کا اردو ترجمہ)

5       :        Anguish of Horse & Stories مطبوعہ 1990ء

(چاؤلہ کی کہانیوں کا انگریزی ترجمہ)

6       :        چاؤلہ کی ادارت میں چنے گئے ہندوستانی افسانے نارویجین زبان میں

ہرچرن چاؤلہ کی زندگی کا مطالعہ کیجیے تو ہجرت در ہجرت، سیاحت اور بدلتے ہوئے حالات سے مطابقت کے پہلو صاف نظر آتے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ ضلع میانوالی (پنجاب) سے لے کر ناروے تک ہی انھوں نے مختلف معاشرتی، تہذیبی اور ثقافتی حالات کا سامنا کیا ہے۔ پھر سیاحت کا شوق انھیں ملکوں ملکوں کے سفر اور وہاں کے طرز زندگی سے واقفیت پر مائل کرتا رہا ہے۔ دوسری طرف اپنے وطن کی محبت بھی دل میں جاگزیں رہی ہے۔ گویا ملکوں، ملکوں سفر کرتے ہوئے جسم کے اندر روح ہمیشہ ہندوستانی رہی ہے۔ سفر نے دنیا داری بھی سکھائی ہے اور دوست داری بھی۔ انسانی رشتوں کا احترام بھی اور موقع بہ موقع کبھی نرم گفتاری اور کبھی تیز گفتاری بھی۔ وہ طرح طرح کے لوگوں سے ملتے رہے ہیں جس کے سبب ان کے افسانوں میں نت نئے موضوعات و کردار بھی ملتے ہیں۔ ان کے جذبات کی پاسداری بھی۔ عصری حسیت کے ساتھ ساتھ روایت کا حسن بھی موجود ہے۔ ان کی افسانہ نگاری سے متعلق مشہور ناقد فضیل جعفری نے ایک خاصا تفصیلی اور تجزیاتی مضمون برسوں قبل لکھا تھا جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

(الف) ’’ان کا تھیسس یہ ہے کہ کسی غیر ملک کو اپنا لینے کے بعد وہاں کے طور طریقوں، رسم و رواج اور لوگوں کو بھی پوری طرح اپنا لینا چاہئے… لیکن اس کام چلائو سمجھوتے Working Compromise کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک فرد اور ایک فنکار کی حیثیت سے چاؤلہ اپنی ثقافتی شناخت کھو بیٹھے ہیں یا اپنی جڑوں سے ان کا رشتہ کمزور پڑ گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔‘‘

(ب)’’میری ناچیز رائے میں اگرچہ کہ چاؤلہ نے کسی بھی بزرگ اور محترم پیش رو کی نقالی کی بجائے اپنا راستہ آپ بنانے کی کوشش کی ہے لیکن بنیادی طور پر وہ کرشن چندر کی روایت کے فنکار ہیں۔ اس روایت کا منفی پہلو یہ ہے کہ کرشن کی طرح وہ بھی اپنے ہر چھوٹے بڑے تجربے اور مشاہدے کے تعلق سے فوری ردعمل کا اظہار کرنے اور اسے افسانوی شکل عطا کردینے کے قائل ہیں۔ چنانچہ کرشن کی طرح ان کے یہاں بھی اچھے اور طاقتور انسانوں کے ساتھ خاصی تعداد میں کمزور اور فارمولا ٹائپ افسانے بھی مل جاتے ہیں۔ جہاں تک مثبت پہلو یا پہلوؤں کا معاملہ ہے چاؤلہ نے بھی زندگی اور شخصیت کے بے حد نجی Personalised اور پراسرار حد تک ذاتی تجربات سے گریز کرکے (دو ایک مستثنیات کے علاوہ) خود کو زندگی کے عمومی مظاہرہ اور روز مرہ کے اچھے برے، سبک اور کھردرے تجربات و مشاہدات سے جوڑے رکھا ہے۔ وہ افسانے میں ہیئتی و لسانی تجربات اور باریکیوں پر پلاٹ، موضوع اور کردار کو ترجیح دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے اپنی کہانیوں میں موڈ اور ماحول کو بھی اہمیت دی ہے۔ عام انسانوں کے مسائل، انسانی دکھ درد، ایک دوسرے کے دکھ سکھ کو سمجھنے اور بانٹنے کی خواہش، قومی اور بین الاقوامی مسائل کے تعلق سے افسانوی ردعمل، افراد کی نفسیاتی الجھنیں، جنسی ہوس پرستی، سماجی، تہذیبی اور اخلاقی اقدار سے لگاؤ اور ان کی بے حرمتی پر اظہار افسوس، سچائی اور جھوٹ کی آپسی کشمکش، معاشرتی ٹکراؤ ہوس اور معصومیت کے تصادم سے پیدا ہونے والے مسائل وغیرہ وہ عناصر ہیں جنھوں نے چاؤلہ کے افسانوی کینوس کو کافی کشادہ بنادیا ہے۔ افسانوی کینوس کی کشادگی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ انھوں نے مختلف ممالک کا سفر کیا ہے، وہاں کے لوگوں سے ملے ہیں اور وہاں کی زندگی کو بھگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں پنجاب کے دیہاتوں کی زندگی غریب ہندوستانیوں کے گھریلو اور سماجی مسائل سے لے کر جرمنی، لندن اور ناروے کی بھڑکیلی اور چمکدار مادی تہذیب تک کی تصویر کشی ملتی ہے۔ دراصل چاؤلہ ملکوں کی انفرادی ثقافتی خصوصیات کے تو قائل ہیں لیکن جغرافیائی تقسیم کے قائل نہیں ہیں۔‘‘

(ج) ’’چاؤلہ کے افسانے پلاٹ، موضوع اور کردار کے افسانے ہیں۔ ان تینوں بنیادی افسانوی عناصر میں بھی انھوں نے کردار نگاری کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ وہ پلاٹ کی ساخت و یافت اور واقعات کے پیش کش کے مقابلے میں اپنے کرداروں کے ذریعے انسانی شخصیت کے مختلف ظاہری اور باطنی پہلوؤں کی نشاندہی اور ان کے تجربے کو ترجیح دیتے ہیں۔ چونکہ چاؤلہ عرصے سے ناروے میں مقیم ہیں اس لیے بعض لوگ ان کے افسانوں کو برصغیر سے مغرب میں جاکر آباد ہونے والوں کی داستان سمجھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ مجھے اس نظریے سے صرف جزوی طور پر اتفاق ہے۔ ان کے افسانوں میں ایسے کردار ضرور ملتے ہیں جنھیں معاشی مجبوریوں کے سبب یا پھر کسی اور وجہ سے ترک وطن کرنا پڑا، یہ کردار مشرق ومغرب سے وابستہ سب نہیں تو کم از کم کچھ روایات و اقدارکے تعلق سے کبھی نرم اور سرسری تو کبھی گہرے اور شدید ردعمل کا اظہار بھی کرتے ہیں، لیکن میری رائے میں ان کرداروں کا بنیادی مسئلہ محض بے زمینی یا جلاوطنی نہیں ہے۔ دراصل ان کے یہ کردار عمومی طور پر زندہ رہنے اور اپنی زندگی کا ثبوت فراہم کرنے کی جدوجہد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ کردار خواہ ایماندار ہوں یا دھوکے باز، مخلص ہوں یا منافق۔ جزوی طور پر مکمل ہوں یا نامکمل، بہرحال نہ صرف ایسے عام آدمی رہتے ہیں جن سے آئے دن ہمارا سابقہ پڑتا ہے، بلکہ جن میں ہم میں سے بہت سے لوگ خود اپنی جھلک بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ (عمومی طور پر) ان کرداروں میں ایسی داخلی پیچیدگی کم ہوتی ہے جو کسی گہرے تجزیاتی مطالعے کی متقاضی ہو لیکن وہ ان کے ذریعے جو کہانی بیان کرتے ہیں، اس کی وجہ سے بیانیہ میں قاری کی دلچسپی شروع سے آخر تک نہ صرف برقرار رہتی ہے بلکہ کرداروں کے ساتھ ساتھ ان سے منسلک واقعات اور تجربات بھی اس کی سوچ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایسے افسانوں کو اجتماعی حقائق والے افسانوں سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس معنی میں کیا چاؤلہ بظاہر تو کرداروں کے ذاتی احساسات و جذبات کی عکاسی کرتے ہیں لیکن درحقیقت اس طرح کے افسانوں میں وہ مسائل سے الجھتے ہیں اور انھیں افسانوی شکل عطا کردیتے ہیں۔‘‘

درج بالا نکات میں سے دوہر چرن چاؤلہ کے افسانوں کا موضوعاتی تنوع واضح کرتے ہیں جب کہ پہلا نکتہ مغربی تہذیب سے متعلق ان کے نقطۂ نظر پر روشنی ڈالتا ہے جو ظاہر ہے براہ راست مشاہدہ اور تقابلی کا نتیجہ ہے۔ میں ان نکات میں چند اور باتوں کا اضافہ کرسکتی ہوں مگر فی الحال اس کی ضرورت ہے، نہ موقع پھر بھی اتنا کہہ سکتی ہوں کہ جس Working Compromise یا کام چلاؤ مفاہمت کا فضیل جعفری نے تذکرہ کیا ہے، وہ مغرب کے بعض اور افسانہ نگاروں کے یہاں بھی موجود ہے۔ دراصل یہ چیزوں کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھنے سے متعلق رویہ ہے جو حقیقت پسندی نہ سہی مگر اس سے قریب تر ہے۔ یہاں صرف دو افسانوں کے حوالے سے ہر چرن چاؤلہ کے طرز فکر کی طرف اشارہ کرنا چاہتی ہوں۔

پہلا افسانہ ’’زمین‘‘ ہے جس میں مغرب میں آباد افسانہ نگاروں کے عام نظریہ کے مقابلے میں ایک الگ نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے۔ عام طور پر جن افسانہ نگاروں نے مشرق ومغرب کے طرز معاشرت کا فرق واضح کیا ہے ان کی تمام تر ہمدردیاں بالکل حمایت مشرق کے ساتھ ہیں مگر ہر چرن چاؤلہ حالات سے مطابقت پیدا کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔ ’’زمین‘‘ میں ان کا نقطۂ نظر یہ رہا ہے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں خواہ کسی ضرورت کے تحت، وہاں کے رسم و رواج کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنا لینا چاہئے چونکہ یہی فطرت کا تقاضہ ہے۔ اس کہانی میں پریم اور اس کی بیوی سنیتا کا بنیادی کردار ہے جو ظاہر ہے مشرق کے کسی ملک سے ہجرت کرکے ناروے میں آباد ہوئے ہیں۔ جب ان کی بیٹی ریٹا ایک ناروے کے لڑکے سے شاری کرلیتی ہے تو ماں کو سخت اعتراض ہوتا ہے اور وہ طے کرتی ہے کہ اپنے بیٹے آکاش کی شادی وہ کسی ہندوستانی لڑکی کے ساتھ مشرقی رسم ورواج سے کرے گی مگر کچھ ہی دنوں بعد اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا بیٹا بھی ناروے کی ہی ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور تب وہ مان لیتی ہے کہ ناروے کے سیب بھی اتنے ہی میٹھے ہوتے ہیں جتنے ہندوستانی سیب۔ پھر وہ اپنے بیٹے کی شادی نارویجین لڑکی سے کردیتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس نے اپنی انفرادی پہچان ترک کردی ہے۔ دراصل یہ فیصلہ وقت اور حالات کا تقاضہ ہے جسے پورا کرنا ہی دانش مندی ہے۔

دوسرا افسانہ ’’گنگا کی واپسی‘‘ ہے اس میں ایک بوڑھا باپ جو اپنے بیٹے کے یورپ چلے جانے کے باوجود حالات سے سمجھوتہ کرکے اپنے گاؤں میں ہی خوش تھا محض بیٹے اور بہو کی دلجوئی کی خاطر نہ صرف پردیس جانا گوارا کرلیتاہے بلکہ اپنے منصب سے گر کر زندگی سے سمجھوتہ کرتا ہے اور بیٹا صفائی کا جو کام کررہا ہے اس میں اس کی مدد کرتا ہے، گرچہ وہ پھر بھی وہاں کے ماحول میں Adjust نہیں کرپاتا۔ غور کیجیے تو ’’ریت، سمندر اور جھاگ‘‘ میں یہ مسئلہ ایک نئے انداز سے پیش ہوا ہے۔

جہاں تک مغربی اقدار کی آئینہ داری کا سوال ہے، ہرچرن چائولہ اپنے ہم عصروں سے کسی طرح پیچھے نہیں ہیں۔ ایک طرف تو ان حالات کا بیان ہے جن سے ہجرت کرکے مغرب میں آباد ہونے والے ہندوستانی دو چار ہیں۔ روحانی تکلیف یا تہذیبی کشمکش کو الگ رکھیے تو صرف یہ حقیقت بھی کم دل شکن نہیں ہے کہ مغربی ممالک میں جاکر آباد ہوجانے والے ایشیائی کس طرح کی ابتر اور بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یعنی مادی آسائش جس کی تلاش میں وہ مغرب کی طرف گئے تھے وہ بھی پوری طرح ان کی دسترس میں نہیں ہے۔ مغرب کی آئینہ داری کی دوسری سطح خود وہاں کے تہذیبی زوال کا منظر نامہ ہے۔ یہاں صرف مغربی معاشرے کے اس پہلو کو دیکھئے جس کا تعلق جنسی بے راہ روی سے ہے، تو چاؤلہ کے کتنے ہی افسانے اس کی آئینہ داری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ’’پانی کی عورت‘‘ جیسی مغربی ماحول کی پروردہ عورت تو خیر دوسری ہی شئے ہے، عورتوں اور مردوں کے آزادانہ جنسی تعلقات کی طرف یا جنسی فرسٹریشن اور ہوس نا کی کی طرف ’’پوری بات ادھوری کہانی‘‘، ’’پیچ کی بات‘‘ یا ’’بے باک بات‘‘ میں بھی اشارہ ملتا ہے مگر ’’ٹھرکی‘‘ اس موضوع پر لکھا گیا ایسا افسانہ ہے جس کی مثال ملنی محال ہے۔ ایک کردار جو ابتدا سے ہی Sexual Perversion کا شکار ہے، آخرکار اس نقطۂ عروج تک پہنچ جاتا ہے کہ ایک لڑکی سے شادی کرکے اسے محض نمائش کے طور پر اپنی بیوی قرار دیتا ہے مگر اسے دوسرے مرد کے ساتھ جنسی رابطہ کرنے کا خود ہی موقع دے کر محض لذت کا سامان فراہم کرتا ہے۔ یہ عجیب و غریب صورتحال ہے جس کا بیان کہانی میں کچھ اس طرح ہوتا ہے:

’’اب رانی اور راج کمار دونوں روپا کے گھر میں اور اس کے اپنے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت یکجا رہنے لگے تھے۔ دن بھر اور رات کے پچھلے پہر تک رانی روپا کی بیوی رہتی، پھر جب روپا بظاہر سو جاتا تو وہ راج کمار کی بیوی بن جاتی۔ سونے کی اداکاری کرنے والا روپا، خاموشی سے اور ایک چور دراوزے سے ملحقہ کمرے میں ہونے والے سارا ڈرامہ دیکھتا اور لطف اندوز ہوتا۔‘‘

معاملہ یہاں تک بھی سخت عبرت خیز اور نفرت انگیز ہے، مگر روپا کی بے غیرتی تو واقعی قابل ملامت ہے۔اس کا ڈھیٹ انداز ملاحظہ ہو:

’’یہ ساری کہانی سن کر راوی کے اندر موجود ایک غیرت مند مرد روپا سے پوچھتا ہے:

اپنی بیوی کو دوسرے کے پاس جاتے دیکھ کر تمھیں برا نہیں لگتا۔‘‘ نہیں کسی دوسرے کی بیوی کے پاس جانے کا جو مزہ ہے وہ میں اسے بھی دیتا ہوں اور خود بھی حاصل کرتا ہوں۔‘‘

کہہ سکتے ہیں کہ یہ ساری کہانی شروع تو ہندوستانی پس منظر میں ہوئی تھی۔ یعنی روپا ابتدا سے ہی جنسی بھوک میں مبتلا تھا۔ بات درست ہے مگر جنس کے حوالے سے جو بے راہ روی کے مناظر چائولہ نے بیان کیے ہیں وہ مغربی معاشرے کے مشاہدے پر ہی مبنی ہیں۔ ہندوستان میں آباد کوئی افسانہ نگار نہ تو اس طرح کی افسانہ نگاری کے بارے میں سوچ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے۔

یہاں چاؤلہ کی بعض اور کہانیوں کے Dimensions کی طرف اشارہ کرنا چاہتی ہوں۔ مثال کے طور پر ان کی کہانی ’’تمنا کے سُر‘‘ کو دیکھا جاسکتا ہے، جس میں ایک طرح سے ان مرحلوں یا محرکات کی تصویر کشی ملتی ہے جو چند برسوں کے لئے مشرق سے مغرب آنے اور پھر یہاں مستقل طور پر آباد ہوجانے والے جوڑوں کی کہانی سے عبارت ہیں۔

’’ایک لڑکا ہے اور ایک لڑکی‘‘ دونوں نوعمر ہیں اور جب راوی (ہرچرن چاؤلہ کہہ لیجیے) سے ان کی ملاقات ہوتی ہے تو بس چند برس یہاں رہنے کے بعد لوٹ جانے کے موڈ میں ہیں یعنی ع  یہ دنیا یہ محفل مرے کام کی نہیں۔ کم وبیش دس سال کے بعد ان سے راوی کی دوبارہ ملاقات ہوتی ہے تو کہتے ہیں:

’’ادھر بچوں نے تعلیم ختم کی ادھر ہم نے بستر باندھا۔ یہاں پیسے کے سوا ہے ہی کیا۔ بس چند لاکھ بن گئے تو ہم واپس وطن کوچ کرجائیں گے اور وہاں کوئی اپنا کام دھندا شروع کردیں گے، تقریباً دس برسوں کے بعد اس جوڑے سے تیسرے ملاقات ہوئی تو وہ صاحب کہنے لگے: بس دس ایک سال اور نکل جائیں پنشن ملے تو وطن کو سدھاریں۔ ریٹائرڈ لائف وطن میں گزارنے کا ارادہ ہے۔ بڈھوں کی کیا حالت ہے یہاں کوئی رہنے کا ڈھنگ ہے بھلا۔‘‘

اور زندگی کے آخری دس سال گزرتے ہوئے جب راوی سے ان کی ملاقات ہوئی تو ان کا بیان تھا:

’’کہاں جائیں، بچے سیٹل ہوگئے ہیں۔ ہم اس بڑھاپے میں ان کو چھوڑ کر اور کہاں جاسکتے ہیں اب ہمارا وہاں ہے ہی کون۔‘‘

اور پھر افسانہ نگار کا وہ آخری نوٹ:

’’ارے یہ تو اپنا ہی گھر تھا اور اپنا ہی شیشہ اور شیشے نے ذرا بھی جھوٹ نہیں بولا تھا، وہ چاروں روپ میرے اپنے ہی تھے۔‘‘

گویا یہ گھر گھر کی کہانی تھی جو ہر چرن چاؤلہ کی زبانی بیان ہوئی۔ یہ سہل بیانی بھی قابل تعریف ہے اور طرز ادا بھی۔

یہیں پر چند باتیں میں ہر چرن چاؤلہ کے افسانوں کی تکنیک سے متعلق بھی عرض کرنا چاہتی ہوں۔ فضیل جعفری نے ان کے افسانے ’’گھوڑے کا کرب‘‘ کے حوالے سے یہ کہا ہے کہ انھوں نے گھوڑے کو انسانی استعارے کے طور پر برتا ہے۔ فرخندہ لودھی نے جو خود بھی ایک افسانہ نگار ہیں اسے علامتی کہانی قرار دیا ہے۔میں سمجھتی ہوں کے علامت اور استعارے میں بہرحال یہ فرق تو ضرور موجود ہے کہ استعارہ میں معنی ایک حد تک Fixہو جاتے ہیں جب کہ علامتوں میں معنی Fixنہیں ہوتے۔ اب اس افسانے کے حوالے سے دیکھئے تو فضیل جعفری نے اپنے طور پر ایک معنی متعین کرکے اسے استعاراتی افسانوں کے زمرے میں رکھ دیا ہے اور یہ طے شدہ معنی بلاشبہ سب سے بہتر بھی ہے۔ مگر غور کیجیے تو افسانے کے اور بھی مفاہیم متعین کیے جاسکتے ہیں اور ایسے میں علامت سے اس کی قربت واضح ہو جاتی ہے۔ ان مباحث سے قطع نظر اگر یہ غور کیا جائے کہ آخر اس افسانے کی تکنیک ہے کیا، تو اندازہ ہوتا ہے کہ چاؤلہ نے اس افسانے میں گھوڑے کو ان تمام محنت کشوں یا مزدوروں کی مثال بناکر پیش کیا ہے جن سے ان کے مالک نہ صرف یہ کہ زیادہ کام لے کر بہت واجبی اجرت دیتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ عام ہمدردی کا سلوک بھی اختیار نہیں کرتے۔ مگر یہ صرف ایک مفہوم ہے۔ افسانے میں مفاہیم کی اور سطحیں بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ’’گھوڑا‘‘ کسی فرد کا نہیں پوری قوم یا کسی پورے علاقے کا استعارہ ہے۔ یہ وہ قوم، علاقہ یا طبقہ ہے جو مسلسل استحصال کا شکار ہے اور کوئی دوسرا ملک یا علاقہ اس کو نہ صرف ذلیل کرتا ہے بلکہ اس کا حق بھی نہیں دیتا۔ اب یہ دیکھئے کہ جب یہ مہاجر گھوڑا ایک دوڑ جیت جاتا ہے تب بھی اس کی محنت کا پھل اسے نہیں ملتا، جب اس کے سیاہ فام ہونے کا احساس ہوتا ہے تو اسے دوڑنے والوں کی صف میں آخری نمبر پر رکھ دیا جاتا ہے۔ وہ گھوڑا جو دوڑ جیت چکا ہے مگر اپنے انعام یا بہ الفاظ دیگر اپنی محنت کی اجرت سے محروم ہے، اپنا قصہ خود ہی سنا رہا ہے:

’’جج لوگ فیصلہ سنارہے ہیں، جو سکینڈ آیا ہے اسے فرسٹ کردیا جائے جو تھرڈ آیا ہے اسے سکینڈ اور اسی طرح آگے…میں سب سے پیچھے ڈھکیل دیا گیا ہوں۔‘‘

واقعہ یہ ہے کہ ’’گھوڑے کا کرب‘‘ ایک نئی تکنیک میں لکھی گئی کہانی ہے جس کو استعاراتی تو خیر ماننا ہی پڑتا ہے مگر علامتی بھی قرار دیا جاسکتا ہے، چونکہ استعارہ بہت واضح نہیں ہوتا۔

یہاں اسی طرح کی ایک اور کہانی ’’بلاعنوان‘‘ کا تذکرہ کرنا مناسب ہوگا۔ بجو ایک بندر ہے جس کی اصلیت بھی افسانے میں فوری طور پر واضح نہیں ہوتی۔ بہرحال کچھ آگے چل کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بندر ہے جسے اس کے بزرگوں نے تین سمتوں کی سیر کی اجازت دے رکھی ہے مگر چوتھی طرف جانے سے منع کیا ہے۔ اب یہ تجسس کا تقاضہ ہے یا اتفاق کہ بجو ایک دن چوتھی کھونٹ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ ادھر رہنے والے ایک انسان کے حسن اخلاق کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ آدمی اسے پہلے تو اپنا دوست بناتا ہے، پھر خود مداری بن کر اسے ناچنے اور پیسہ کمانے کے دھندے میں لگا دیتا ہے۔ یہاں تک تو خیرغنیمت تھا مگر ایک دن وہ غیر ملک میں رہنے والے کسی شخص کے ہاتھوں بجو کو بیچ دیتا ہے جو یورپ جاکر بھی اس کے ذریعہ کمائی کرنے لگتا ہے مگر یہ سلسلہ زیادہ دن نہیں چلتا۔ ایک دن پولیس والے اسے پکڑ لیتے ہیں اور بجو کو واپس وطن بھیجنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ یہاں جو گفتگو ہوتی ہے وہ قابل لحاظ ہے:

’’مجبوراً اسے شو بند کرنا پڑا، دوسرے دن پھر اس نے مجمع لگایا تو اسے دھر لیا گیا اور تھانے لے جاکر اس شرط پر چھوڑا گیا کہ وہ ہفتے کے اندر اندر بجو کو اپنے وطن واپس بھیج دے گا۔ وہ رویا پیٹا تو بہت، اپنی غریبی، روزگار اور مجبوریوں کا واسطہ دیا۔ کہا کہ حضور یہی تماشے دیکھنے ہزاروں کی رقمیں خرچ کرکے آپ کے شہری ہمارے ملکوں کو جاتے ہیں۔ میں تو خدمتِ خلق کے جذبے سے آپ کے من بھاتے تماشے کو آپ کے دروازے پر لے آیا ہوں۔ مجھے تو حضور سرکار دربار سے انعامات سے نوازا جانا چاہئے اور آپ الٹا…کہتے کہتے اس کا گلا بھر آیا مگر ادھر سے ایک ہی رٹ لگی رہی کہ یہاں دوسرے ملک کے جانور رکھنے کی اجازت نہیں۔‘‘(افسانہ بلاعنوان، ہرچرن چاؤلہ)

اس اقتباس کا آخری جملہ مغرب میں نسلی تفریق کی اس صورتحال کو اجاگر کرتا ہے، جس کا ’’گھوڑے کا کرب‘‘ کے حوالے سے ذکر ہوچکا ہے۔ یہاں ان امور کی تکرار ضروری نہیں۔ بس یہ اشارہ کرنا ضروری ہے کہ یہ افسانہ بھی اپنے اسلوب بیان کے سبب نیم علامتی یقینا کہا جاسکتا ہے۔ وہ بھی ایسی صورت میں جب بجو (اسے آپ فرد سمجھیں یا پوری جماعت) واپس اپنے علاقے کو لوٹا دیا جاتا ہے اور جب وہ دوبارہ اپنے جھنڈ کے ساتھ قلانچیں بھرتا ہے تو مادی آسودگی بھلے ہی نصیب نہ ہو مگر آزادی کا ایک عجیب و غریب احساس اسے خوشی سے لبریز کردیتا ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بجو کو مختلف معنیٰ عطا کیے جاسکتے ہیں، جس میں کم از کم ایک مفہوم یعنی مشرق کا آدمی تو بالکل نمایاں ہے۔

یہاں بس ایک افسانے کا اور تذکرہ کرنا چاہتی ہوں۔ ’’اتصالی نقطے کا موڑ‘‘ نامی افسانے میں نہ صرف کردار بلکہ اس کے پس منطر کو بھی ہم ماضی کا استعارہ سمجھ سکتے ہیں مگر جس طرح واپسی پر در و دیوار اس کا استقبال کرتے ہیں اس کے پس منظر میں راوی خود ہی ایک استعارہ کی شکل میں ابھرتا ہے۔

بہرحال ان امور کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر چرن چائولہ نے Multi Dimensional افسانے لکھے ہیں۔ یہ صورت موضوع اور طرز بیان دونوں سطح پر دیکھی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا ہے، انھوں نے کئی طرح کے موضوعات اپنے افسانوں میں برتے ہیں۔ یہ موضوعات مقامی مسائل سے بھی متعلق ہیں اور بین الاقوامی یا ملکی صورتحال سے بھی رابطہ رکھتے ہیں۔ دراصل ہر چرن چاؤلہ نے جس طرح ملکوں کی سیر کی ہے اس کے سبب مغرب کے بھی مختلف ممالک ان کی نگاہوں میں اپنے تمام تر انفرادی پہلوؤں کے ساتھ ابھرے ہیں۔ ایک ملک کی طرز معاشرت یا تہذیبی روایت دوسرے سے خاصی الگ رہی ہے حالانکہ سبھوں کا تعلق پورپ سے ہی ہے۔ مشرق سے جو فرق ہے وہ تو ظاہر ہے۔ ایسے میں وہ صرف تارکین وطن کے سماجی اور جذباتی مسائل کی آئینہ داری تک محدود نہیں رہے ہیں بلکہ انھوں نے مختلف علاقوں کی ظاہری منظر کشی بھی کی ہے اور داخلی مشاہدہ کی تصویریں بھی پیش کی ہیں۔ جہاں تک اسلوب بیان کا سوال ہے، بعض کہانیاں تو انھوں نے خالص بیانیہ انداز میں لکھی ہیں اور کچھ استعاراتی یا نیم علامتی انداز میں جیسا کہ میں نے اوپر مثالوں سے واضح کیا ہے مگر کچھ ایسی بھی کہانیاں ہیں جو خود کلامی (Mondogne) کی یا خطوط کی تکنیک میں تحریر کی گئی ہیں۔ زیادہ تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ وہ اپنی تخلیقی قوت، مشاہدے کی وسعت اور نقطۂ نظر کی صلاحیت کے سبب ہر چرن چاؤلہ کا شمار اردو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں کیا جاسکتا ہے۔

مظہر امام نے درست لکھا ہے:

’’ایسے کئی لکھنے والے تھے اور ہیں جن کی پہچان کسی تحریک یا رجحان کے حوالے سے نہیں، ہرچرن چاؤلہ بھی ان میں سے ایک ہیں اور یہ خوشی کی بات ہے کہ جو کچھ بھی وہ ہیں اپنی تحریروں کے بل بوتے پر ہیں، کسی خارجی سہارے کی بناء پر نہیں۔‘‘ (۳)

 

 

حاشیہ:

(۱)بیسوی صدی کے اردو نثر نگار مغربی دنیا میں سید عاشور کاظمی ، صفحہ:108

(۲) مقالہ ہر چرن چاؤلہ کی افسانہ نگاری، مطبوعہ رسالہ شاعر بمبئی، شمار:11-12، 1989ء

(۳)عالمی اردو ادب از نند کشور وکرم ، 2003، صفحہ:334


ماہنامہ اردو دنیا ، مارچ 2021

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں