27/4/21

معاصر ہندی شاعری اور ’نشنک‘ کا شعری مخاطبہ - مضمون نگار: مسرت


 

ہندی شاعری کا باقاعدہ آغاز بھارتیندو ہرش چندر سے ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کا زمانہ (1850-1900) تسلیم کیا جاتا ہے۔ انھیں جدید ہندی شاعری کا’بھیشم پتامہ‘ بھی کہا جاتاہے۔ اس دور میں شاعروں نے سماجی مسائل اور حب الوطنی جیسے موضوعات پر مبنی شاعری کی۔ بھارتیندو ہرش چندر، پرتاپ نارائن مشر، بدری نارائن چودھری ’پریم گھن‘، رادھا چرن گوسوامی، امبیکا دت ویاس اس دور کے اہم شاعر ہیں۔

بھارتیندو ہرش چندر کے بعد پنڈت مہاویر پرساد دویدی کا دور آتا ہے۔ ان کا دور(1900-1920)تک مانا جاتا ہے۔ اس دور کے شاعروں نے موضوعات سے زیادہ زبان پر توجہ صرف کی اور ایسی نظمیں پیش کیں جو ان کی حب الوطنی کو ظاہر کرتی ہیں۔ایودھیا سنگھ اپادھیائے ’ہری اودھ‘ رام چرت اپادھیائے، جگن ناتھ داس’رتناکر‘، گیا پرساد شکل اسنیہی، شری دھر پاٹھک،، رام نریش ترپاٹھی، میتھلی شرن گپت، لوچن پرساد پانڈے اور سیارام شرن گپت کے نام نامی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس دور کو دویدی دور سے موسو م کیا گیا ہے۔

رومانی دور میں بھی بہت سے شاعروں نے شاعری کے ذریعے اپنی پہچان بنائی اور ہندی شاعری میں اپنے نقوش چھوڑے۔ اس دور میں شاعری کے ساتھ ساتھ قواعد کی پابندی کو لازمی خیال کیا گیا۔رومانی دور کے شاعروں نے جذباتی شاعری پر اپنی توجہ صرف کی۔ اس دور کے اہم شاعروں میں جے شنکر پرساد، سوریہ کانت ترپاٹھی نرالا،سمترانندن پنت اور مہادیوی ورما کے نام خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ رومانیت کا دور (1920-1936) تک سمجھا جاتا ہے۔

پوسٹ کولونیل دور1936-1943تک مانا جاتا ہے۔ اس دور میں ہندی شاعری پر نئی آئیڈیولوجی اور تحریکات کااثر دیکھا جا سکتا ہے۔ ماکھن لال چترویدی، بال کرشن شرما نوین،سبھدرا کماری چوہان، رام دھاری سنگھ’دنکر‘ ہری ونش رائے ’بچن‘، بھگوتی چرن ورما، نریندر شرما، رامیشور شکل‘انچل‘، شو منگل سنگھ سمن، ناگارجن، کیدارناتھ اگروال، ترلوچن اور رانگے راگھو اس دور میں اہم سجھے جاتے ہیں۔

ترقی پسند تحریک کے دور کی شاعری 1936کے بعد سے شروع ہوتی ہے۔ترقی پسند تحریک کے شاعروں نے مارکسی نظریے کی حمایت کی۔ترقی پسند شاعروں میں ناگارجن، کیدارناتھ اگروال اور ترلوچن اہمیت کے حامل ہیں۔

(1943-1960)کے دور کی شا عری میں نئے نئے تجربات کیے گئے۔ اس دور کے شاعروں میں اگیے، گرجا کمار ماتھر، پربھاکار ماچوے، بھارت بھوشن اگروال، مکتی بودھ،، شمشیر بہادر سنگھ، دھرم ویر بھارتی، نریش مہتا، رگھو ویر سہائے، جگدیش گپت، سرویشور دیال سکسینہ، کنور نارائن اور کیدارناتھ سنگھ نے شاعری میںاہم رول ادا کیا۔

تمام تجربات کو اپناتے ہوئے ہندی کویتا نے کامیابی کے ساتھ اپنا سفرطے کیا۔ اس دور کے شاعروں نے ہندی ادب میں نئی شاعری سے عوام کو روبرو کرایا۔

جدید دور میں ہندی شاعری اپنا سفرکامیابی سے طے کر رہی ہے۔ جدید ذہن اور جدید لب ولہجے کے شاعروں کے نام بھی ہندی ادب کے حوالے سے سامنے آئے ہیں جو اپنی سنجیدہ شاعری کے ذریعے قارئین کی توجہ اپنی طرف راغب کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جدید شاعروں میںموضوعات کا تنوع بھی دکھائی دیتا ہے۔ سماجی، سیاسی،معاشی اور ثقافتی موضوعات پر جدید شعرا کے یہاں نظمیں ملتی ہیں۔

جدید شاعروں میں ارون کمل، ونود بھاردواج، دیوی پرساد مشر، ومل کمار، گگن گل، کاتیائن، کمار امبج، رمیش پوکھریال ’نشنک‘سنجے چترویدی، بدری نارائن، لالٹو، موہن رانا، راکیش رینووغیرہ نمایاں نام ہیں۔ ان تمام شاعروں کے یہاں نیا رنگ و آہنگ نظر آتا ہے۔

جدید شاعروں کے یہاں نئے اسالیب، نیا ڈکشن اور نئی اصطلاحات پر بہت زور ہے۔ نئی علامت اور نئے پیکروں کو بھی شاعری میں برتنے کی کوشش کی گئی ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں ہونے والے واقعات ان شاعروں کی نظموں کے اہم موضوعات ہیں۔ ان کی شاعری ذاتی تجربات و حادثات پر مبنی ہے لیکن اس میں ذاتی تجربات ومشاہدات کے ساتھ ساتھ عالمی مسائل پر بھی غور و فکر ہے۔ دیہی اور شہری زندگی کا نقشہ بھی فنکاری سے پیش کیا گیا ہے۔

ارون کمار کی نظموں میں نیاپن دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کی شاعری میں نئے ماحول اور نئے مسائل کی عکاسی نظر آتی ہے۔ ثبوت (1981)، نئے علاقے میں (1996)،  پتلی میں سنسار(2004) ان کے شعری مجموعے ہیں۔وہ اپنی شاعری میں ایجاز و اختصار سے کام لیتے ہیں۔ مثال دیکھیں            ؎

میں جب لوٹا تو دیکھا

پوٹلی میں بندھے ہوئے چنے نے

پھینکے ہیں انکور

 دو دنوں کے بعد لوٹا ہوں واپس

عجیب مہک ہے کمرے میں

کتابوں کپڑوں اور بے جان ہوا کی

(پھینٹی ہوئی مہک (زرخیز زمین): خورشید اکرم، جدید ہندی شاعری، تخلیق کار پبلشرز،ص:93)

ونود بھاردواج کا شمار بھی جدید شاعروں میں ہوتا ہے۔وہ واقعات کو نظم کا پیرایہ عطا کرتے ہیں۔’بارش‘ ان کی اہم نظم ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ’ہوا‘ نظم کے ذریعے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے متعدد شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ان کا تعلق صحافت سے ہے۔ونود بھاردواج کی ’ہوا‘نظم کا یہ بند دیکھیں        ؎

شیرے کی مہک میں ڈوبا

ایک گائوں

مل کا منیجر خوش ہے کہ چینی کے بوروں پر

سر رکھ کر وہ اونگھ سکتا ہے

کام پر جانے کو بھاگتے

پھٹیہل کارڈوں کو پنچنگ مشین میں پھنساتے لوگ

مل کے اس شور میں بھول جاتے ہیں

رسوئی گھر میں آنے والی ڈھیروں شکایتیں کہ برتنوں

 پر جمنے والی دھول

ان کا رنگ بدلتی ہے

شیرے کی مہک میں ڈوبے

گائوں کے لوگ سونگھ نہیں پاتے

مل منیجر کے خیال میں

یہی بہت ہے کہ وہ سن لیتے ہیں(ہوا)    

(خورشید اکرم،جدید ہندی شاعری،تخلیق کار پبلشرز،ص:101)

دیوی پرساد مشر کا شماربھی جدید ہندی شاعروں میں ہوتا ہے۔انھوں نے ہندی ادب کو کئی خوبصورت نظمیں عطا کیں۔ ان کے دوشعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ادب سے ان کو خاص لگائو ہے ساتھ ہی صحافت سے بھی ان کی وابستگی ہے۔ان کی نظم’کویتا‘ ملاحظہ کریں         ؎

ایک معمولی کویتا لکھنے کا

مزا ہی کچھ اور ہے ایک ایسی کویتا

جو انگوٹھے کے بارے میں ہو یا

اچانک شروع ہو گئی شام کے بارے میں

یا کسی اسٹیشن کے بارے میں جس سے

ہوکر آپ کبھی گزرتے تھے یا

ایک ایسے بڑے سے گیٹ کے لوہے کے بارے میں

جس کو چھو کر یہ لگتا تھا کہ

جیون میں نہیں بچی کوملتا(کویتا)

ومل کمار بھی جدید ہندی شاعری میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ان کا ایک شعری مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔ان کی زبان میں سادگی ہے۔ سادگی سے اپنی بات کہتے ہیں۔ ’سپنے میں ایک عورت سے بات چیت‘پر بھارت بھوشن اگروال انعام سے نوازے جا چکے ہیں۔ ان کی اہم نظم ’سپنے میں ایک عورت سے بات چیت‘ہے۔ ملاحظہ کریں       ؎

پہلے دروازہ کھٹکھٹایا اس عورت نے

سپنے میں

 

سپنے میں

کمرے میں گھستے ہوئے بولی کیسے ہیں میرے بچے

اب تو ہو گئے ہوں گے کافی بڑے

شادی کے لائق

اسکول کالج جاتے ہیں کہ نہیں؟

میں اس عورت سے کیا کہوں

کیسے کہوں

کہ اس کی منجھلی لڑکی بھاگ گئی ڈرائیور کے ساتھ

کیسے کہوں

کہ ان کے نام کٹ گئے

اور پتا نے گنوا دیے

جوئے اور شراب میں تمھارے زیورات

سپنے میں اس عورت کو میں نے کہا

تم بیٹھو تو سہی

کیسی ہو تم کچھ سنائو

سپنے میں وہ عورت بولی بیٹھنا کیا؟

تھوڑی دیر کے لیے آئی تھی چلتی ہوں

تم بے حد چپ ہو

کچھ بتاتے نہیں؟

تمھاری میز پر کیسے ہیں یہ بکھرے ہوئے کاغذ

بکسے میں کیا رکھا ہے تم نے

کمرے میں کچھ عجیب سی گندھ ہے

اچھا تمھاری نوکری کا کیا ہوا(سپنے میں ایک عورت سے بات چیت)

(خورشید اکرم،جدید ہندی شاعری،تخلیق کار پبلشرز،ص:124)

گگن گل کا شمار بھی جدید ہندی شاعروں کی صف میں ہوتا ہے۔ان کے یہاں گہرا تانیثی شعور نظر آتا ہے اور اپنے تانیثی لب ولہجے کی وجہ سے معروف ہیں۔ ان کا ایک شعری مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ان کی نظم ’ایک دن لوٹے گی لڑکی‘پر بھارت بھوشن اگروال انعام بھی ملا۔ فی الحال وہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان کی یہ نظم ملاحظہ کریں       ؎

وہ اسے پاپ کی طرح چاہے گی

وہ اسے پنیہ کی طرح چاہے گی

کسی انجان جگہ کے

انجان کمرے میں

وہ کرے گی اس سے پیار اپنے خیال میں

کہ جیسے نیند میں چلتے چلتے

پہنچ گئی ہو وہاں

بے وجہ، بنا بلائے (وہ اپنے بدن میں لوٹ آئے گی)

کمار امببج نئی نسل کی نمائندگی کرنے والے شاعر ہیں۔ ایک شعری مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔’یہ صرف کواڑ نہیں ہیں‘ان کی مشہور ومعروف نظم ہے۔اس نظم کے لیے ان کو بھارت بھوشن اگروال انعام سے نوازا گیا۔نظم’ایک استری پر کیجیے وشواس‘ ملاحظہ کریں         ؎

جب ڈہہ رہی ہوں آستھائیں

جب بھٹک رہے ہوں راستہ

تو اس سنسار میں ایک استری پر کیجیے وشواس

وہ بتائے گی سب سے چھپا کر رکھا گیا انوبھو

اپنے اندھیروں میں سے نکال کر دے گی وہی ایک قندیل

( ایک استری پر کیجیے وشواس)

سنجے چترویدی پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ان کی نظموں میں طنز اور ظرافت موجود ہے۔ ان کی نظموں کی اہم خوبی یہ ہے کہ وہ طویل بیانیہ پر مبنی ہوتی ہیں۔ دوشعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ’پتنگ‘نظم پر بھارت بھوشن اگروال بھی ملا       ؎

تین ترچھی پٹیوں والی پتنگ

مئی کی شام کے آکاش میں

اوپر جامنی

بیچ میں بسنتی

اور نیچے آسمان کی بسیط نیلاہٹوں میں

جادوئی فیروزہ

خلا میں زاویے کو بدلتی

ہوا کے ہنڈولے

اور برنولی کی تھیورم پر سوار

ہچکولے کھا کے ناؤ سی اترتی ہے لمحۂ موجود میں

جیسے اترتا ہوا آکاش دیپ

افق کی کومل اور اندھیری ریکھائوں میں(پتنگ)

(خورشید اکرم،جدید ہندی شاعری،تخلیق کار پبلشرز،ص:118)

بدری نارائن کے یہاں بھی نیا لب ولہجہ نظر آتا ہے۔وہ اپنی نظموں میں اختصار اور تجربے سے کام لیتے ہیں۔’پریم پتر‘ان کا شعری مجموعہ ہے۔ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔اپنی شاعری کے لیے بھارت بھوشن اگروال انعام سے نوازے جا چکے ہیں۔’پریم پتر‘نظم دیکھیں        ؎

پریت آئے گا

کتابوں سے نکال لے جائے گا پریم پتر

گدھ اسے پہاڑ پر نوچ نوچ کھائے گا

چور آئے گا تو پریم پتر ہی چرائے گا

جواری پریم پتر ہی دائو لگائے گا

رشی آئیں گے تو دان میں مانگیں گے پریم پتر

بارش آئے گی تو پریم پتر بہت گلائے گی

آگ آئے گی تو جلائے گی پریم پتر

بندشیں پریم پتر پر ہی لگائی جائیں گی

سانپ آئے گاتو ڈسے گا پریم پتر

جھینگر آئیں گے تو چاٹیں گے پریم پتر

کیڑے پریم پتر ہی کاٹیں گے

قیامت میں ساتوں رشی مچھلی

اور منوسب وید بچائیں گے

کوئی نہیں بچائے گاپریم پتر

کوئی روم بچائے گا کوئی مدینہ

کوئی چاندی بچائے گا کوئی سونا

میں نپٹ اکیلا کیسے بچائوں گاتمھارا پریم پتر(پریم پتر)

(خورشید اکرم،جدید ہندی شاعری،تخلیق کار پبلشرز،ص:129)

ان کے علاوہ راکیش رینو بھی ہندی شاعری کے حوالے سے نمایاں نام ہے۔’روزنامچہ ‘ اور ’اسی سے بچا جیون‘ان کے شعری مجموعے ہیں۔ موہن رانا بھی ہندی شاعری کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔

ان تمام شاعروں کے یہاں موضوعات کا تنوع ہے۔ان کی نظمیں اہم موضوعات پر مبنی ہوتی ہیں جو قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ہندی شاعری سے محبت کرنے والی نئی نسل میں ان کی نظمیں کافی پسند کی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر رمیش پوکھریال ’نشنک‘ بھی ایسے شاعر ہیں جو ’نشنک‘ہندی ادب میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ انھوں نے مختلف اصناف ادب پر طبع آزمائی کی ہے اور ہر صنف میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ شاعری، افسانہ، ناول، سفرنامہ وغیرہ میں انھوں نے اپنی تخلیقیت کے جوہر دکھائے ہیں۔

ڈاکٹر رمیش پوکھریال’نشنک‘کا شعری مجموعہ’بھول پاتا نہیں‘ اس معنی میں اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں انسانی دکھ درد کے ساتھ ساتھ عام انسان کی محرومیوں اور ناکامیوں کو خوبصورت شعری پیکر میں ڈھالا گیا ہے۔اپنی شاعری کے ذریعے انھوں نے عالمی مسائل کے ساتھ ساتھ معمولات زندگی میں پیش آنے والے ہر چھوٹے بڑے واقعات کو زبان دینے کی کوشش کی ہے۔وہ ادب کو انسانی فلاح وبہبود کے میڈیم کے طور پر منتخب کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ادب عام آدمی کے دکھ درد کو بیان کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔سیدھے اور عام فہم الفاظ میں ان کی نظم کو پڑھتے ہوئے ہم نئی کیفیت اور نئے احساس سے روبہ رو ہوتے ہیں۔نظم دیکھیں           ؎

میں نے ویدنا کو اپنی

گیتوں میں گنگنایا

اس کے سروں کو اپنی

آواز ہے بنایا

رم جھم یہ ساون ہے

میرے پاس میرا من ہے

انمول یہ رتن ہے

ان کی شاعری میں عصری دور کی سفاک حقیقتوں کو فنکارانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔اپنی نظموں میں انھوں نے بدلتے عہد اور وقت کا المیہ بیان کیا ہے۔ان کی شاعری میں احساس اور جذبات کی شدت نظر آتی ہے۔اقدار کی شکست کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے المیوں کی نشان دہی بھی ہوئی ہے جو ان کے شعری ذوق کو جلا بخشتی ہیں۔وہ زندگی کی تلخ سچائیوں کو بھی پیش کرتے ہیں اور اپنے مقصد حیات پر بھی نظر رکھتے ہیں۔

نشنک‘ جی کی زندگی بھی بہت سے نشیب و فرازسے گزری ہے لیکن وہ زندگی سے مایوس نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کی نظمیں نئے سیاق اور نئے معنی اخذ کرتی ہیں۔ان کی شاعری کا اسلوب سادہ اور سلیس ہے جسے پڑھتے ہوئے قاری کو کوئی مشکل نہیں پیش آتی۔ان کا ماننا ہے کہ نئی توانائی اور طاقت زندگی کے تلخ تجربات سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے        ؎

ابھی بھی ہے جنگ جاری

ویدنا سوئی نہیں ہے

منجتا ہوگی دھرا پر

سمویدنا کھوئی نہیں ہے

کیا ہے بلیدان جیون

نربلتا ڈھوئی نہیں ہے

ڈاکٹر رمیش پوکھریال’نشنک‘جی کی شاعری ہم عصر مسائل کے ارد گرد گھومتی ہے۔ ان کے خیالات اور موضوعات تخیلاتی نہیں ہیں بلکہ عام انسان کی زندگی کے بہت قریب ہیں۔ان کے خیالات میں ندرت ہے۔شاعری کا ذوق ان کے اندر فطری طور پر موجود ہے۔ وہ زندگی کے بہت سے تلخ تجربات سے گزرے ہیں اسی وجہ سے ان کی شاعری میں لہجے کی تلخی موجود ہے۔انھوں نے عوام کو اپنے ملک کے تئیں ہمیشہ پیار اور محبت سے رہنے کی تلقین کی ہے۔ وہ دنیا کے ہر شخص کو محبت اور پریم کے دھاگے میں باندھنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں اور محبت واخوت پر زور دیتے ہیں۔

نشنک‘ جی عملی زندگی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ان کی شاعری حقیقی تجربات و مشاہدات سے عبارت ہے۔شاعر نے جگہ جگہ استعارات و تشبیہات سے کام لے کر اپنی نظموں میں ندرت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

ان کا شعری مجموعہ ’بھول پاتا نہیں‘ معیاری اور معتبر شاعری کا مجموعہ ہے۔انھوں نے اپنی نظموں میں سماجی زندگی کے ساتھ ساتھ تاریک گوشوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کی تمام شاعری انسانی دکھ درد کی شاعری ہے۔ہر بڑے فنکار کی طرح نشنک جی نے بھی اپنے ارد گرد کے ماحول سے اثر قبول کیا ہے لیکن پھر بھی ان کی نظمیں قنوطیت میں ڈوبی ہوئی نہیں ہیں بلکہ مثبت طرز فکر اپنانے پر زور دیتی ہیں۔

 ان کی نظموں میں ذہنی کرب بھی نمایاں ہوا ہے۔ سماجی رشتوں کا انہدام، انسان سے محبت ایسے موضوعات ہیں جو ان کی شاعری میں جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔انسانی رشتوں میں تصادم اور ذہنی انتشار سے آج ہر انسان دو چار ہے۔انھوں نے اس طرف بھی قاری کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ملاحظہ کیجیے        ؎

تیرے لیے میں نے

 نج کو مٹایا

تیرے لیے نج کو،

دردوں میں پایا

پھر بھی تو میں، ہر شن مسکرایا

بہت سمجھایا تجھے، بہت سمجھایا

پر کیا کروں، تو سمجھ نہ پایا

زبان پر ان کو مکمل دسترس حاصل ہے۔اپنی نظموں میں انھوں نے عالمی سطح پر ہونے والے مسائل کی طرف بھی توجہ کی ہے۔ ذاتی تجربات و مشاہدات و احساسات سے انھوں نے اپنی نظموں میں نیاپن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔زندگی میں پیش آنے والے حادثات، انسان کے دکھ اور بے بسی اور لاچاری کو شاعر نے بڑی فنکاری کے ساتھ اپنی شاعری میں ابھارنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اپنی شاعری میں یہ پیغام دیا ہے کہ وہی انسان زندگی میں کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوتا ہے جو اپنی محنت کے ذریعے زندگی کے تمام میدانوں کو سر کرتا ہے اور اپنی منزل مقصود حاصل کرتا ہے۔

 ڈاکٹر رمیش پوکھریال ’نشنک‘جی نے اپنی شاعری میں عام انسان کے دکھ درد کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مسائل تخیلاتی دنیا سے بالکل الگ ہیں۔ انسان کے دکھ درد اور ان کی تکلیف کا بیان ان کی نظموں میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔ انھیں انسان کے دکھ درد اور ان کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے اسی لیے وہ ان سے نظریں نہیں چرا پاتے۔ انھیں جو بھی مسائل نظرآتے ہیں ان کا بیان وہ اپنی شاعری میںکرتے ہیں۔ وہ معاشرے میں پھیلی بے راہ روی کو بھی طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔

نشنک‘ جی نے انسانوں کے بیچ بڑھتی نفرت، ایک دوسرے کے تئیں بے رخی کا رویہ اور انسانیت کا خون جیسے موضوعات پر نظمیں تخلیق کی ہیں۔موجودہ وقت میں ہر انسان میں ایک بے چینی کی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ زمانہ کی بے راہ روی اور ذہنی کشیدگی سے بھی وہ بہت پریشان نظر آتے ہیں          ؎

لکشیہ اس کا کیا نہت، گنتویہ اس کا ہے کہاں

آج ڈھونڈو ویکتی کو یہ بھٹکتا کیوں ہے جہاں

ان کی ملک سے محبت اور سرشاری کا جذبہ بھی بہت واضح ہے۔ وہ وطن پر مر مٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کی نظموں میں بھائی چارگی کا پیغام بھی دیا گیا ہے       ؎

ہر قدم اتیہاس سورنم

ہم اسے گلنے نہ دیں گے

ہم سویم جل جائیں گے پر

دیش ہم جلنے نہ دیں گے

انھوں نے اپنی شاعری میںنوجوانوں سے بھی خطاب کیا ہے۔ وہ ان میں جوش، ولولہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک شاعری صرف اظہار ذات نہیں ہے بلکہ اس سے معاشرے میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ مسائل کا حل بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔

وہ ہندوستان کے عوام کو محبت و اتحاد سے رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور ایسی دنیاکی تعمیرپر زور دیتے ہیں جہاں ہر مذہب وملت کے لوگ آپسی رواداری اور بھائی چارگی کے ساتھ رہتے ہوں۔ مثلاً        ؎

نفرت پھیلی قدم قدم پر اس کو آج مٹائو،

پریم کا دیپ جلائو، جگ میں پریم کا دیپ جلائو

نشنک جی پریم اور شانتی کی طرف عوام کا ذہن راغب کرنا چاہتے ہیں۔ وہ محبت اور یقین کے ساتھ ساتھ ملک کے عوام کو بھائی چارگی اور اتحاد کے ساتھ رہنے پر زور دیتے ہیں۔  نفرت اور بغض کو مٹا کر شانتی اور پریم کی بات کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک دنیا کی ترقی کا راز سکھ اور شانتی اور آپسی بھائی چارے کے ساتھ سب کو ساتھ لے کر چلنے میں ہے         ؎

بانٹا ہے کچھ لوگوں نے، دیش کو ذاتی بھاشا میں،

اندھکار میں بھٹکے پھرتے، صبح صبح کی آشا میں

بھٹکے کبھی نہ کوئی جگ میں، ایسی راہ بنائو،

پریم کا دیپ جلائو، جگ میں پریم کا دیپ جلائو

نشنک‘ جی نے اپنے تجربات وحوادث کو شاعری کی شکل عطا کی ہے۔ان کی شاعری ان کے ذاتی المیے کے ساتھ عوامی دکھ دردکی ترجمان بھی ہے۔

ان کی نظموں کے مطالعے کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کی شاعری اہمیت کی حامل ہے اور قارئین کے لیے سوچ کے نئے در وا کرنے میں بھی کامیاب ہے۔ ادب کے طالب علم کو ان کی شاعری سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ اس کو پڑھ کر ایک نئے عزم اور حوصلے کی تحریک ملتی ہے۔

 

Musarrat

New Delhi-110025

 

 

ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2021

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں