27/4/21

اردو میں نفسیات کی ترویج و اشاعت میں سید اقبال امروہوی کی خدمات - مضمون نگار: غلام نبی مومن

 



قدیم زمانے میں علمِ نفسیات، فلسفے کی ایک شاخ کی حیثیت رکھتا تھا۔انیسویں صدی میں نفسیات پر اتنا کام ہوا کہ اس نے ایک علاحدہ علم کی حیثیت اختیار کرلی۔  یہ علم انسانی شخصیت،کردار،ذہن اور باطنی زندگی سے بحث کرتا ہے اس لیے اس علم سے واقفیت لازمی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود اردو میں نفسیات کے موضوع پر بہت کم لکھا گیا۔ تحقیق کے مطابق نفسیات پر پہلی کتاب انعام علی کی ’علم النفس‘ ہے جو 1885میں شائع ہوئی تھی اور کسی انگریزی کتاب کا ترجمہ تھی۔ مولانا عبد الماجد دریا بادی نے غالباً 1916 میں ’ فلسفۂ جذبات ‘ اور ’ہم آپ‘ لکھی۔ اس کے بعد جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد، دکن) کے دارالترجمہ نے نفسیات کی تقریباً دو درجن انگریزی کی کتابوں کے ترجمے کروائے،مثلاً احسان احمد نے ولیم جیمس کی کتاب Principles of Psychology کا ترجمہ ’اصولِ نفسیات‘ کے نام سے تین جلدوں میں کیا۔ اگرچہ یہ کتابیں درسی نوعیت کی تھیں لیکن ان کتابوں سے ایک بڑافائدہ یہ ہوا کہ مترجمین نے نفسیات کی انگریزی اصطلاحات کے اردو مترادفات وضع کر لیے جن میں سے بیشتر آج بھی رائج ہیں۔ ان کتابوں کے ذریعے نفسیات کے اصول و نظریات سے اردو داں طبقہ بھی فیضیاب ہوا۔

اردو میں نفسیات پر شائع ہونے والے بیشتر مضامین اور کتابوں کا تعلق تنقید،تعلیم اوربچوں کی نشوونما سے ہے۔ ان سے طلبہ،اساتذہ اور ادبا تو مستفیض ہوتے ہیں لیکن عام افراد فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ مشہور ادیب ابن فرید نے نفسیاتی تنقید کے علاوہ انسانوں کے نفسیاتی مسائل مثلاً ذہنی الجھن،ازدواجی زندگی کے مسائل وغیرہ پر بھی چند مضامین تحریر کیے ہیں لیکن موصوف بنیادی طور پر نقاد تھے۔

 نفسیات کو اردو میں عام کرنے کے لیے جس شخص نے مسلسل مضامین اور کتابیں تصنیف کیں، ان کا نام ہے سید اقبال امروہوی۔وہ 21؍اپریل 1938  کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ان کے والد صوفی عبدالغفار 1945 میں ممبئی آگئے تھے۔ اقبال امروہوی نے ممبئی کے احمد سیلر ہائی اسکول سے 1957 میں میٹرک کا امتحان کامیا ب کیااور معاشی مجبوری کے سبب ممبئی کارپوریشن کے محکمۂ تعلیم کے انتظامی شعبے میں ملازمت اختیار کرلی۔دورانِ ملازمت پونہ یونیورسٹی سے 1971 میں انھوںنے     بی۔اے کی سند حاصل کی اور 1994 میں ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔

اقبال امروہوی نے اپنا ادبی سفر بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے شروع کیا۔ خو ش قسمتی سے ان کی رہائش مکتبہ جامعہ کی دکان کے اوپر تھی۔ اس زمانے میں شاہد علی خان مکتبہ کے انچارج تھے۔ ان کی وساطت سے اقبال امروہوی کی کہانیاں ’پیامِ تعلیم‘ میں چھپنے لگیں۔غیر ملکی کہانیوں کے ترجمے پر مشتمل ان کی کتاب ’تین کوڑیاں ‘ بھی مکتبہ جامعہ سے 1964 میں شائع ہوئی۔

اقبال امروہوی کو نفسیات کے مضمون سے بہت دلچسپی تھی۔وہ پاکستان میں نفسیات پر چھپی ہوئی کتابیں مکتبہ سے خرید کر لے جایا کرتے تھے۔ ایک بار مکتبہ میں موصوف کی ملاقات ظ۔انصاری سے ہوگئی۔ ظ۔انصاری نے موصوف کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے انھیں نفسیاتی موضوعات پر مضامین لکھنے کی ترغیب دی۔موصوف نے ایک مضمون لکھا جسے ظ۔ انصاری نے اپنی ادارت میں شائع ہونے والے ہفت روزہ ’ دورِ حیات‘ میں شائع کیا۔ اس حوصلہ افزائی کی وجہ سے انھوں نے یکے بعد دیگرے کئی مضامین تحریر کیے جو ماہنامہ’سریتا‘ (دہلی)،’آجکل‘ (دہلی)اور ’شاعر‘ (ممبئی) میں شائع ہوتے رہے۔ چند مضامین ماہنامہ’نفسیات‘(کراچی) میں شائع ہونے کے سبب وہ پاکستان میں بھی معروف ہوگئے۔ موصوف آخری دم تک نفسیات کی ترویج و اشاعت میں مشغو ل رہے اور نفسیاتی الجھنوں سے پریشان افرادان کے مشوروں سے مستفیض ہوتے رہے۔

کسی بھی علم پر دسترس حاصل کرنے کے لیے اس علم کی اصطلاحات کی تفہیم ضروری ہوتی ہے۔ اقبال امروہوی کو انگریزی میں  Dictionary of Psychology دیکھ کر خیال آیا کہ اردو میںعلم نفسیات کو عام فہم بنانے کے لیے اس طرز کی کتاب لکھی جائے تاکہ نفسیات کی کتابیں اور رسائل پڑھنے والے اس فرہنگ کی مدد سے ان کتابوں کے مشمولات کو آسانی سے سمجھ سکیں۔ چونکہ یہ وقت طلب تحقیقی کام تھا اس لیے موصوف نے ملازمت سے سبکدوشی کے بعد اس جانب توجہ کی۔ ان کی کئی برسوں کی محنت کے بعد ’اصطلاحات ِ نفسیات ـ:تشریح و تفہیم ‘  2001میں منظرِ عام پر آئی۔

اقبال امروہوی نے انگریزی اصطلاحات کے اردو مترادفات کا تعین کرنے کے لیے جامعہ عثمانیہ کی نفسیات کی درسی کتب کوکھنگالا،ترقی ِ اردو بیورو (دہلی) کی شائع کردہ ’فرہنگِ اصطلاحات (فلسفہ،نفسیات،تعلیم) ‘اور پاکستان سے چھپی ہوئی نفسیات کی درسی کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا۔ کسی اصطلاح کی تشریح میں بعض مصنفین میں اختلاف پایا تو اس تشریح کو قبول کیا جو انگریزی کی تشریح سے میل کھاتی تھی۔مذکورہ کتاب کے آخر میں انگریزی اصطلاحات اور ان کے اردو مترادفات کی فہرست دی گئی ہے۔ اس بنا پر اس کتاب سے وہ طلبہ بھی مستفید ہوسکتے ہیں جن کی مادری زبان اردو ہے لیکن وہ انگریزی ذریعۂ تعلیم سے نفسیات کا مضمون پڑھ رہے ہیں۔یہ کتاب ان افراد کے لیے بھی مفید ہے جو اپنے ذوق کی تسکین کے لیے نفسیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔کتاب کی خاص خوبی یہ ہے کہ عام فہم زبان میں اصطلاحات کی تشریح کی گئی ہے۔اصطلاحات کو حروفِ تہجی کی ترتیب میں پیش کیا گیا ہے۔ کوئی فرد محض انگریزی اصطلاح سے واقف ہوتو وہ کتاب کے آخری حصے میں اس کا اردو مترادف تلاش کرکے اس کی تشریح آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔

یہ کتاب پاکستان میں ’نفسیات کا انسائیکلو پیڈیا‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے جو وہاں کی جامعات کے طلبہ اور اساتذہ میں کافی مقبول ہے۔

اقبال امروہوی کے نَونفسیاتی مضامین کا پہلا مجموعہ ’جدید نفسیات‘ کے نام سے 2003 میں شائع ہوا تھا۔اس کے پہلے مضمون کا عنوان ہی’جدید نفسیات‘ ہے۔ اس مضمون میں نفسیات کی تعریف، مفہوم،آغازو ارتقا کی مختصر تاریخ،نفسیاتی مطالعے کے مختلف موضوعات،مطالعے کے مختلف طریقو ں اور نفسیات کی مختلف شاخوں جیسے تعلیمی نفسیات، بچوں کی نفسیات،سماجی نفسیات وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔دوسرے مضمون میںایک پیچیدہ موضوع ’شعور و لاشعور‘ سے بحث کی گئی ہے۔مصنف نے اس مضمون میں پہلے ’ذہن‘ کے معنی ومفہوم کوواضح کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ ذہن ہی وہ بنیاد ہے جس کے تحت نفس، شعور،لاشعوروغیرہ موضوعات زیرِ بحث آتے ہیں۔ یہ مضمون اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ نفسیات کی تقریباً ہر کتاب میں مذکورہ موضوعات سے بحث کی جاتی ہے۔ مصنف نے ان تصورات کی وضاحت کرکے انسانوں کے نفسیاتی مسائل کو سمجھنا سہل بنادیا ہے۔اگلے مضمون میں جدیدنفسیات کے بانی سگمنڈ فرائڈ کی شخصیت اور نظریات کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہے۔  موجودہ دور میں ’ذہانت‘ پر بڑے زور شور سے بحث جاری ہے۔اس موضوع پرکتاب میں ایک مضمون شامل ہے جس میں ذہانت کی مختلف تعریفوں کو بیان کرنے کے بعد اس کا نچوڑ ان الفاظ میں بیان کیا گیا :

’’ایک ذہین آدمی کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ صحیح فیصلے پر جلد پہنچ جاتا ہے جس کو مسائل حل کرنے کی قابلیت بھی کہا جاتا ہے۔‘‘(ص59)

مضمون میں ذہانت کی آزمائش کے مختلف طریقوں اور انسانوں میںذہانت کی کمی بیشی کے اسباب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یورپ کے کئی ماہرین نے جڑواں بچوں کا خصوصی مطالعہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ ذہانت کادارومدار ماحول کے عناصرپرکم اور پیدائشی عوامل پر زیادہ ہوتا ہے۔اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ ایک موروثی خصوصیت ہے۔یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک ذہین شخص کی اولاد بھی ذہین ہی ہوگی۔اکثر دیکھاگیا ہے کہ معمولی ذہین افراد کی اولاد صرف ذہین ہی نہیں فطین بھی پیدا ہوتی ہے۔ماہرین ِ نفسیات نے ذہانت کے سلسلے میں بچوں پر جو تجربات کیے اس کے نتیجے میں طلبہ کی ذہانت کی جانچ کے لیے معیاری آزمائشیں تیار کی گئیں۔ ان آزمائشوں کی مددسے بچوں کی ذہنی عمر کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ذہنی عمر کے تعین کے بعد ہی مقیاسِ ذہانت (قدر ِذہانت) کا تصور سامنے آیا جسے انگریزی میں Intelligence Quotient کہتے ہیں۔راقم کے خیال میں اردو میں I.Q.  کے لیے مصنف کی تجویز کردہ اصطلاح’قدرِ ذہانت ‘ زیادہ موزوں ہے۔ یہ مضمون اساتذہ کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

کتاب کے دیگر مضامین کے عنوانات ہیں ـ: شخصیت، خوابوں کی حقیقت،نفسیاتی الجھائو، نفسیاتی امراض، سائنس سے پرے۔ ان تمام عنوانات سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سارے مضامین اپنے موضوع کے اعتبار سے بالکل اچھوتے اورمواد کے لحاظ سے انتہائی کارآمدہیں۔ یہ کتاب یقیناان لوگوں کے لیے انتہائی سودمند ہے جونفسیات کا مطالعہ کرناچاہتے ہیں۔

اقبال امروہوی کے 23 مضامین پرمشتمل دوسرا مجموعہ ’روزمرہ کی نفسیات ‘ کے نام سے 2006 میں منظرِ عام پر آیا۔کتاب کا انتساب ’ان بدنصیب لوگوں کے نام جو زندگی کو بوجھ سمجھ کر ڈھو رہے ہیں‘واقعتاً کتاب میں شامل مضامین کے موضوعات کا اشاریہ ہے۔کتاب کے پہلے مضمون ’روزمرہ کی نفسیات‘ میں مختلف مثالوں کے ذریعے واضح کیا گیا ہے کہ علم نفسیات انسانی کردار کی سائنس ہے۔روزمرہ زندگی میںہم سے جو افعال سرزد ہوتے ہیں انھیں جاننے کے لیے نفسیات کامطالعہ بہت ضروری ہے۔ نفسیات ہر قدم پر ہماری رہنمائی کرتی ہے جو اس کی افادیت کی دلیل ہے۔اسی حقیقت کو مصنف نے اگلے تمام مضامین میں واضح کیا ہے۔مثلاً مضمون ’ازدواجی زندگی‘ میں بتایا گیا ہے کہ شادی کا فیصلہ کرنے سے قبل لڑکے اور لڑکی کے لیے بعض عناصر کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔اس کے بعد مصنف نے کامیاب ازدواجی زندگی کی خصوصیات بیان کی ہیں۔موصوف کی رائے میں بہت کم لوگ مکمل کامیاب ازدواجی زندگی گزارتے ہیں۔ عموماً لوگ جوروایتی طرزکی ازدواجی زندگی جیتے ہیں، اسے ہی مصنف نے کامیاب ازدواجی زندگی قراردیا ہے۔ مصنف نے کامیاب ازدواجی زندگی کی کئی شرطیں بیان کی ہیں،جیسے شوہر اور بیوی میں ہم خیالی ہو، نظریات میں ہم آہنگی ہو، مزاج میں یکسانیت ہواوردونوں ہر حال میں ایک دوسرے کاسہارا بن کر جینے کے لیے تیار ہوں۔ مصنف نے ناکام ازدواجی زندگی کی وجوہات کاذکر بھی کیا ہے،جیسے غیر موزوں جوڑے،ایک دوسرے کی مرضی کے خلاف شادی، جذباتی ہم آہنگی کا فقدان، دونوں کی عمر، تعلیم یا معاشی حالات میں غیر معمولی تفاوت وغیرہ۔ مصنف نے میاں بیوی میں علیٰحدگی سے بچنے کا نسخہ بھی بتایا ہے۔وہ رقم طراز ہیں :  ’’اس کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ دونوں اپنا احتساب کریں اور سوچیں کہ جھگڑے کوکس طرح ٹالا جاسکتا ہے۔اپنے اوپر پوری طرح ضبط اور برداشت کے رجحان کو حاوی کرلیںاور درگزر کرنے کی عادت ڈالیں۔اگر ایک فریق خاموشی اختیار کرلے اور برداشت سے کام لے، بات کو درگزر کردے تو معاملہ بگڑنے سے بچ سکتا ہے۔جو لوگ عام طور پر نوک جھونک کرتے رہتے ہیں،انھیں چاہیے کہ اس نسخے کوآزماکر دیکھیں اور بات کو رفع دفع کرنے کی عادت ڈالیں، کیونکہ دوسرا فریق کتنا بھی نادان ہو،وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘(ص 51)

مضمون کے آخر میں چند ایسی ہدایات تحریر کی گئی ہیں جو ازدواجی زندگی کوخوشگوار بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔غرضیکہ مصنف نے ازدواجی زندگی کے تمام پہلوؤں پر اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ یہ مضمون نہ صرف ان نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ بن گیا جن کی شادی ہونے والی ہے بلکہ ان افراد کے لیے بھی سودمند ہے جو شادی شدہ ہیںاور ازدواجی زندگی کے مسائل سے دوچار ہیں۔

شادی کے بعد کا مرحلہ بچے کی پیدائش ہے۔غالباً اسی بنا پر اگلا مضمون ’بچوں کی پرورش‘ سے متعلق ہے۔اس مضمون میں سب سے پہلے بچوں کی نشوونما کے مختلف مراحل کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔بچوں کی غذا،لباس اور جسمانی نشوونما کے بارے میں معلومات دینے کے بعد عہد طفلی میں بچوں کی نفسیاتی اور جذباتی نشوونما کے سلسلے میں چند اہم نکات کی وضاحت کی گئی ہے۔ والدین کو خاص طور پر ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

بچوں کی پرورش کے بعد مصنف نے ’عالمِ پیری‘ سے بحث کی ہے۔ ملک میں معمر افراد کے موجودہ مسائل کے ساتھ ساتھ ودھواآشرموں میں بیوائوں کی دکھ بھری زندگی کوبیان کیا ہے۔ دو نسلوں کے درمیان ہونے والے تصادم پر غوروفکر کرکے مصنف اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’عدم سازگاری ہی تمام مسائل کی جڑ ہے۔معمر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد ان کے نقشِ قدم پر چلے جبکہ اولاد چاہتی ہے کہ وہ اپنا راستہ خودبنائے اور اپنی عمر کے تقاضوں کے مطابق دنیا میں اپنی زندگی گزارے۔‘‘  (ص103) مصنف نے نفسیات کے اصولوں کی روشنی میں بزرگوں کو چند بیش قیمت اور قابلِ عمل مشورے دیے ہیں۔

کتاب کے دیگر مضامین کا تعلق بھی انسانی زندگی کے مختلف مسائل اور مشاغل سے ہے۔مثلاً مریضوں کی نفسیات،غصہ پر قابورکھیے،ڈپریشن،اقدام ِ خود کشی،  کند ذہن بچوں کے مسائل وغیرہ۔مصنف نے ان مضامین میں نہ صرف ان مسائل کو اجاگر کیا ہے بلکہ ان کے نفسیاتی حل بھی پیش کیے ہیں۔ان مضامین کے مطالعے سے یہ آگہی ہوتی ہے کہ نفسیات انسان کی پہلی سانس سے لے کر دمِ آخر تک ہر قدم پراور ہر فعل میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔

مذکورہ بالا کتاب کی اشاعت کے فوری بعد اقبال امروہوی نے اپنے مضامین کاتیسرا مجموعہ ’نفسیاتِ نمو‘ کے نام سے مرتب کر لیا تھا لیکن افسوس کہ دورانِ سفر وہ مسودہ کھوگیا۔ مسودے کی گمشدگی سے یقیناً مصنف کی محنت ضائع ہوگئی لیکن اس سے اردو دنیا کا بھی نقصان ہوا۔

اقبال امروہوی اس حادثے سے دلبرداشتہ نہیں ہوئے اور ایک نئی کتاب کی تیاری میں جٹ گئے۔ موصوف کی زندگی نفسیات کے مطالعے میں گزری تھی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ نفسیات کی خدمات انجام دینے والے محض چند دانشوروں کے تذکرے اردو میں پائے جاتے ہیں جبکہ اوربھی ایسی کئی شخصیات ہیں جنھوں نے نفسیات کو عروج پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے انھوں نے اردو داں طبقے کو ان دانشوروں کے حالاتِ زندگی اور کارناموں سے روشناس کرانے کا منصوبہ بنایا۔یہ منصوبہ 2010میں’ نفسیات کے معمار‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے موصوف نے انگریزی کتابوں اور انٹرنیٹ کی مدد لی اور صرف 25 ایسے دانشوروں کے تذکرے شامل کیے جن کے حالاتِ زندگی،شخصیت،نظریات اور کارناموں کے بارے میں بہتر مواد حاصل ہواتھا۔ ان میں ارسطو، ڈیکارٹ، جان لاک،ولیم جیمس،فرائڈ،جان ڈیوی، ایڈلر، کانٹ جیسے مشہور و معروف فلسفی اور ماہرین ِنفسیات شامل ہیں۔

مذکورہ کتاب یقینا اردو میں اپنی طرز کی پہلی کتاب ہے جو نفسیات کے ان طلبہ کے لیے انتہائی کارآمد ہے جن کی مادری زبان اردو ہے اور وہ یونیورسٹیوں میں نفسیات کے مضمون کا مطالعہ کررہے ہیں۔بقول شمیم حنفی، ’’مجھے یقین ہے کہ اردو ذریعۂ تعلیم اختیار کرنے والے طلبہ کے ساتھ ساتھ اردو کے عام قاری بھی جو نفسیات سے دلچسپی رکھتے ہیں،اس کتاب کے مطالعے سے فائدہ اٹھائیں گے اور علمی حلقوں میں سید اقبال امروہوی صاحب کی یہ کوشش قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔‘‘(تعارف از شمیم حنفی،نفسیات کے معمار،ص 18)۔یہ کتاب بھی پاکستان میں 2018میں شائع ہوچکی ہے۔

مذکورہ بالا چاروں کتابوں کے مشمولات کی روشنی میں بلامبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اکیسویں صدی میں اردو میں علم النفس کی ترویج و اشاعت میں سید اقبال امروہوی کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان کتابوں کے اسلوب،زبان و بیان اور مواد سے نہ صرف طلبہ اور اساتذہ بلکہ عام قارئین بھی استفاد ہ کرسکتے ہیں۔ان کتابوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ مصنف نے علمی مسائل کو بھی انتہائی سہل انداز میں پیش کیا ہے۔ اصطلاحات کا استعمال کم سے کم کیا گیا ہے اور حسب موقع اصطلاحات کی تشریح بھی کردی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ان کی کتابیں نفسیات کے مفہوم،مبادیات اور اصولوں کو سمجھنے میں زبردست رہنمائی کرتی ہیں۔افسوس،اقبال امروہوی کے اس قابلِ قدر کارنامے کی ویسی پذیرائی نہ ہوسکی جس کے وہ مستحق ہیں۔اردو کے بڑے ادیبوں کا یہی المیہ ہے۔

کتابیات

نفسیاتی تنقید:  ڈاکٹر سلیم اختر

تین کوڑیاں:  سید اقبال امروہوی

اصطلاحاتِ نفسیات :سید اقبال امروہوی

جدید نفسیات:  سید اقبال امروہوی

روزمرہ کی نفسیات: سید اقبال امروہوی

نفسیات کے معمار:سید اقبال امروہوی

n

Momin Ghulam Nabi,

Room No. 2, Chaudhari Chawl

Chaudhari Mohalla,

Kalyan. 421301

Dist. Thane (Maharashtra)

Mobile : 09321259451

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ظفر گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری میں مٹی کی مہک، مضمون نگار: اشتیاق سعید

  اردو دنیا، نومبر 2024 ظفر گورکھپوری... درمیانہ قد، دھان پان جسم، کُشادہ پیشانی، سوچتی آنکھیں، بے لوث دِل، خوش مزاج طبیعت اور مکر و فریب...