28/4/21

حنیف نقوی کی بعد از وفات مطبوعہ نئی تصانیف - مضمون نگار: سنجیدہ خاتون

 




پروفیسر حنیف نقوی (1936-2012) کا شمار عصر حاضر کے نامور محققین میں ہوتا ہے۔ مولانا امتیاز علی خاں عرشی، مالک رام، پروفیسر گیان چند، ڈاکٹر ابومحمد سحر اور رشید حسن خاں جیسے ممتاز اور معروف اہل قلم اور ارباب تحقیق نے ان کی تحقیقی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔

پروفیسر نقوی نے اپنی تحقیق کا آغاز شعرائے اردو کے تذکروں کے گہرے مطالعے اور ان کی قدر و قیمت کے تعین سے کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ’کربل کتھا‘، رجب علی بیگ سرور اور رائے بینی نرائن دہلوی سے متعلق بھی اعلا درجے کی تحقیقات پیش کی ہیں۔ ان سب کے ساتھ ساتھ انھوں نے غالب کی سیرت و شخصیت، تلامذہ و احباب،ان کی اردو و فارسی تصانیف اور خطوط وغیرہ سے متعلق بھی درجنوں مضامین و مقالات لکھے ہیں، جن کی بنا پر ان کا شمار ممتاز غالب شناسوں میں کیا جاتا ہے۔ان کے دورِ اوّل کی تصانیف کے نام درج ذیل ہیں:

.1      شعراے اردو کے تذکرے، طبع اول 1976، طبع دوم 1998

.2      انتخاب کربل کتھا مع مقدمہ و فرہنگ، طبع اول 1983، طبع دوم 1991

.3      تلاش و تعارف1987

.4      انتخاب کلام رجب علی بیگ سرور، 1988

.5      رجب علی بیگ سرور: چند تحقیقی مباحث، 1991

.6      مرزا غالب کے پنج آہنگ کا قدیم ترین خطی نسخہ (عکسی ایڈیشن) 1997

.7      رائے بینی نرائن دہلوی، 1997

پروفیسر نقوی کی یہ تمام کتابیں بیسویں صدی کے ربع آخر میں شائع ہوئی ہیں۔ اس فہرست میں دو کتابیں اور بھی شامل کی جاسکتی ہیں۔

.1  غالب-احوال و آثار، کیونکہ اس کی پہلی اشاعت 1990 میں منظر عام پر آئی، لیکن اس کا اضافہ شدہ ایڈیشن 2007 میں شائع ہوا۔

.2      مآثر غالب   (تصحیح و ترتیب جدید) 1995، اس کا بھی دوسرا یڈیشن 2000 میں شائع ہوا۔ اس لیے ان دونوں کتابوں کا ذکر میں نے آخر میں کیا ہے۔

اب پروفیسر نقوی کی ان تصانیف کے نام درج کیے جاتے ہیں جو اکیسویں صدی میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوئیں، انھیں ان کے دورِ دوم کی تصانیف کہا جاسکتاہے۔

.1      میر و مصحفی، 2003

.2      غالب کی چند فارسی تصانیف، 2005

.3      تذکرہ شعراے سہسوان، (ترتیب و تدوین) 2010

.4      تذکرۃ العلما (ترتیب و تدوین جدید) 2010

.5      غالب اور جہانِ غالب، 2012

پروفیسر نقوی کی یہ تمام تصانیف یا مرتبہ کتابیں اکیسویں صدی میں شائع ہو کر منظر عام پر آئی ہیں۔ لیکن میں یہاں خاص طور پر پروفیسر نقوی کی ان تین کتابوں کاذکر کرنا چاہتی ہوں جو ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی کتاب کا نام ہے:

.1  تحقیق و تعارف:

اس کتاب کو پروفیسر حنیف نقوی نے اپنی حیات ہی میں مرتب کردیا تھا اور اس کی کتابت بھی ان کے سامنے ہوچکی تھی۔ اس پر وہ مقدمہ بھی تحریر کرچکے تھے، لیکن اس کی اشاعت سے قبل ہی ان کی وفات ہوگئی۔ بعد ازاں قومی کونسل براے فروغ اردو زبان نے 2013 میں اسے شائع کیا۔ یہ کتاب ان کے 20؍ مقالات کا مجموعہ ہے، جن کے عنوانات درج ذیل ہیں:

(1)  بیاض آبرو  (2) سودا کا سالِ ولادت  (3)  میر کا دیوانِ چہارم  (4) مثنوی ہدایت در تعریف بنارس   (5) منظوماتِ آگاہ کے نثری دیباچے  (6) فسانۂ عجائب کا حق اشاعت  (7) شبستانِ سرور کا ماخذ (8) غالب اور عیوب قوافی  (9) مرزا دبیر شعراے اردو کے تذکروں میں  (10) منشی انوار حسین تسلیم(11) محاکمۂ تسلیم بہ مقدمۂ دبیر و انیس (12) منشی عبدالعزیز اعجاز (13) مکاتیب حالی (14) منشی بنواری لال شعلہ(15) اودھ اخبار کی ادبی قدر وقیمت (16) مولانا محمد علی جوہر کے خاندان کا رامپور سے تعلق(17) اقبال سے منسوب ایک غزل (18) اقبال کے ایک فارسی قطعے کی تضمین (19)کچھ کالڑا صاحب کے بارے میں (20) پروفیسر مختار الدین احمد

پروفیسر نقوی کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ کسی موضوع پر اسی وقت قلم اٹھاتے ہیں جب اِس پر مدتوں تلاش و تحقیق اور غور و فکر کرکے انھیں نئی معلومات یا اہم نکات فراہم ہوگئے ہوں۔ اس کتاب میں شامل تمام مضامین کے عنوانات خود بتا رہے ہیں کہ ان میں تحقیق و جستجو کی شان جلوہ گر ہے۔ مقدمۂ کتاب میں نقوی صاحب لکھتے ہیں:

’’راقم کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اس کے معروضات صرف پیش پا افتادہ معلومات کا مجموعہ نہ ہوں۔ ان میں کسی نہ کسی حد تک پڑھنے والوں کی ضیافتِ علمی کا سامان بھی موجود ہو۔ (تحقیق و تعارف،ص8)

اس کتاب کا پہلا مضمون ’بیاضِ آبرو‘ ہے۔ اس میں انھوں نے ایک قد یم بیاض کا تعارف کرایا ہے جس میں ولی، شاہ مبارک آبرو اور ان کے معاصر 18قدیم شعرا کے اشعار درج کیے گئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر ایسے شعرا ہیں جن کا کلام کہیں اور دستیاب نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ بیشتر شعرا گم نام اور غیر معروف ہیں۔مثلاً مدن، اشرف، عمر، مسکین، نقشبندی وغیرہ۔ اس سے اس بیاض کی قدر و قیمت کا اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ جس بیاض کا وہ تعارف پیش کررہے ہیں وہ آبرو کی اصل بیاض نہیں بلکہ اس کی نقل ہے ۔ اس کے ساتھ ہی کاتب بیاض کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ بہت عجلت پسند اور غلط نویس ہے۔ اس لیے اس کے نقل کیے ہوئے اشعار کا صحیح طرح سے پڑھنا بہت مشکل ہے۔ پھر بھی انھوں نے خاص طور پر غیر معروف شعرا کا کلام قیاسی تصحیح کے بعد نقل کردیا ہے۔یہ ان کا بڑا کارنامہ ہے۔

اس کتاب کا دوسرا مضمون ’سودا کا سالِ ولادت‘ ہے۔ اس مضمون میں نقوی صاحب نے سودا کے سالِ ولادت سے متعلق مختلف بیانات کا محققانہ جائزہ لینے کے بعد حاصل گفتگو کے طور پر یہ لکھا ہے:

’’میر حسن  کے اندازے کے مطابق سودا اور میر کی عمروں میں تقریباً 10 سال کا فرق تھا، یعنی سودا میر سے دس سال بڑے تھے... میر کے متعلق یہ بات طے ہوچکی ہے کہ وہ 1135ھ کے اواخر (1723) میں پیدا ہوئے تھے۔ اسی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سودا ان سے دس سال پہلے1125ھ (1713) میں پیدا ہوئے ہوں گے۔‘‘ (ایضاً،ص41)

اس کتاب کا تیسرا مضمون ’میر کا دیوان چہارم‘ ہے۔ میر کے دیوان کا یہ بہت اہم قلمی نسخہ ہے۔ اس سے متعلق نقوی صاحب کا یہ مضمون نہایت محققانہ ہے۔ اس میں نقوی صاحب نے اس قلمی نسخے کا تعارف بھی کرایا ہے۔اور اس سے متعلق پروفیسر اکبر حیدری کی بعض غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیا ہے۔

ان تفصیلات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں شامل تمام مضامین بیش قیمت تحقیقی معلومات پر مشتمل ہیں۔ ان کے مطالعے سے ادب کے طالب علم میں تحقیق کا ذوق بھی پیدا ہوسکتا ہے اور وہ تحقیق کے صحیح طریق کار سے واقف بھی ہوسکتا ہے۔

.2      غالب کے فارسی خطوط:  پروفیسر حنیف نقوی کی دوسری کتاب ہے۔یہ کتاب بھی نقوی صاحب کی وفات کے بعد 2015 میںغالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ نقوی صاحب کے شاگرد پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے ’تقریب‘ کے عنوان سے اس پر ایک مقدمہ لکھا ہے۔ اس میں اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’نقوی صاحب مرحوم کا ارادہ تھا کہ ’غالب کے فارسی خطوط‘ کے عنوان سے بھی ایک مجموعۂ مضامین شائع کریں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک فولڈر میں متعلقہ مضامین کی کتابت شدہ کاپیاں یکجا کرکے رکھ دی تھیں ا ور فولڈر کے اوپر کتاب کا نام لکھ کر نیچے کی سطروں میں مضامین کے عنوانات بھی ترتیب وار لکھ دیے تھے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر سید رضا حیدر سے میں نے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے اس کی  اشاعت کے لیے نہ صرف آمادگی بلکہ اشتیاق کا اظہار کیا ۔ اب یہ کتاب انھیں کے زیر اہتمام شائع ہورہی ہے۔‘‘

یہ کتاب نقوی صاحب کے آٹھ مضامین پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر مضمون کسی نہ کسی پہلو سے غالب کے فارسی خطوط سے تعلق رکھتا ہے۔کتاب کے عنوانات درج ذیل ہیں:

(1)غالب کی فارسی مکتوب نگاری  (2)نامہ ہائے فارسیِ غالب (3) تفہیم غالب کی دشواریاں، فارسی خطوط کے حوالے سے (4) غالب کے چار غیر مطبوعہ فارسی خط (5) غالب کا ایک نو دریافت فارسی خط (6) غالب کا ایک فارسی خط (7) غالب کے تین فارسی خطوط (8) جنون بریلوی سے منسوب دو فارسی خط۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، اس کتا ب کے پہلے مضمون کا عنوان ہے ’’غالب کی فارسی مکتوب نگاری‘‘ یہ  اس کتاب کا سب سے مفصل مضمون ہے جو 34 صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ در اصل ایک طویل خطبہ ہے جو2008 میں شعبۂ اردو،دہلی میں نظام اردو خطبات کے تحت پیش کیا گیا تھا۔اس میں نقوی صاحب نے غالب کے فارسی خطوط کا بہت گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ بتایا ہے کہ غالب کے فارسی خطوط مختلف پہلوؤں سے ہماری ا دبی تاریخ کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ ان میں سے بعض پہلوؤں کا بیان مختصراً ذیل میں کیا جاتا ہے:

.1      غالب کے اردو خطوط سے ان کی زندگی کے صرف آخری بیس بائیس برسوں کے حالات و واقعات کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے برخلاف ان کے فارسی خطوط ان کی نوجوانی کے زمانے سے لے کر پچاس سال کی عمر تک کے واقعات اور حالات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ کیونکہ غالب اس زمانے میں زیادہ تر فارسی ہی میں خطوط لکھتے تھے۔ البتہ پچاس سال کی عمر کے بعد وہ زیادہ تر اردو میں خط لکھنے لگے تھے۔

.2      ان کے فارسی خطوط سے ان کی سیرت و شخصیت اور ان کی بعض عادتوں اور طور طریقوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔ مثلاً اپنی نوجوانی کے زمانے ہی میں وہ رات کا کھانا چھوڑ چکے تھے، لیکن دن کا کھانا ہر حال میں ضرور کھاتے تھے۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اتوار کے دن گوشت کھانے سے پرہیز کرتے تھے۔

.3      غالب کے سفر کلکتہ، وہاں کے قیام کے  دوران پیش آنے والے مختلف واقعات اور وہاں کے ادبی معرکوں سے متعلق زیادہ تر تفصیلات کے جاننے کا اصل ذریعہ ان کے فارسی خطوط ہی ہیں۔

.4      ان کے فارسی خطوط سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اپنے زمانے کے کن کن امیروں اور نوابوں کو انھوں نے فارسی میں خطوط لکھے اور ان کی شان میں فارسی قصیدے لکھ کر انعام حاصل کرنے کے لیے بھیجے۔ ا س طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں انھیں کہاں کہاں کامیابی ملی اور کب کب انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ نقوی صاحب کا یہ طویل مضمون اس کے علاوہ بھی بہت سی اہم اور نادر معلومات پر مشتمل ہے جس سے استفادے کے لیے اس مضمون کا اول سے آخر تک توجہ کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔

اس کتاب کا دوسرا مضمون ’نامہ ہائے فارسیِ غالب‘ ہے۔ اس میں نقوی صاحب نے پہلے یہ بتایا ہے کہ ’نامہ ہائے فارسیِ غالب‘ غالب کے 31 فارسی خطوط اور پانچ متفرق تحریروں کا مجموعہ ہے جسے سید اکبر علی ترمذی نے غالب کی صدسالہ تقریب کے موقع پر ترتیب و تدوین کے بعد فروری 1969 میں غالب اکیڈمی، نئی دہلی سے شائع کیا۔ اس کے بعد اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ترمذی صاحب نے اس مجموعے کی ترتیب و تدوین کا کام ساڑھے چار مہینے سے بھی کچھ کم مدت میںمکمل کرلیا۔ کچھ اس عجلت کی وجہ سے اور کچھ ترتیب و تدوین کے کاموں میں مہارت نہ ہونے کی وجہ سے ان کا مرتب کیا ہوا غالب کے فارسی خطوط کا یہ مجموعہ بہت سی کمیوں اور غلطیوں کا شکار ہوگیا۔ اس کے بعد نقوی صاحب نے ترتیب و تدوین کے اصولوں کی روشنی میں نہایت دیدہ ریزی اور تحقیقی دیانت داری کے ساتھ اس مجموعے میں پائی جانے والی غلطیوں اور کمیوں کی نشان دہی کی ہے۔پہلے مضمون کی طرح یہ مضمون بھی نہایت مفصل ہے اور 32 صفحات پر پھیلا ہواہے۔

اس کتاب کا تیسرا مضمون ہے ’تفہیم غالب کی دشواریاں: فارسی خطوط کے حوالے سے‘۔ پروفیسر نقوی کا یہ مضمون بھی نہایت محققانہ ہے۔ اور 23 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے یہ بتایا ہے کہ غالب کے فارسی خطوط کو پڑھنے، سمجھنے اور اس سے نتائج نکالنے کے لیے بہت احتیاط، توجہ اور غور و فکر کی ضرورت ہے۔ پھر بہت سی مثالوں کے ذریعے انھوں نے غالب کے محققین اور مترجمین کی غلطیوں اور غلط فہمیوںکی نشان دہی کی ہے۔ مثلاً مآثر ِغالب، مرتبہ قاضی عبدالودود میں شامل غالب کے چوبیسویں فارسی خط کے بارے میں انھوں نے بتایا ہے کہ قاضی عبدالودود صاحب نے اس خط کا مکتوب الیہ مرزا احمد بیگ تپاں کو قرار دیا ہے۔ لیکن اس خط کو بہ غور پڑھنے اور اس کے داخلی شواہد پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ غالب نے یہ خط تپاں کے نام نہیں بلکہ مرزا افضل بیگ کے نام لکھا تھا۔ تپاں غالب کے دوستوں میں تھے اور افضل بیگ ا ن کے شدید مخالفین میں تھے۔ خط کی عبارت بتا رہی ہے کہ خط مخالف کے نام لکھا گیا ہے، نہ کہ کسی دوست کے نام۔ نقوی صاحب کا یہ پورا مضمون ایسے ہی تحقیقی مباحث پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے تعارف کو یہیں پر ختم کیا جاتا ہے۔

.3      تذکرے اور تبصرے:

پروفیسر نقوی کی یہ کتاب بھی ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی ہے۔ اسے رضا لائبریر ی، رامپور نے مئی 2018میں شائع کیا ہے۔ اس کتا ب کے مضامین بھی انھوں نے ایک فولڈر میں خود ہی یکجا کردیے تھے۔ اور فولڈر کے اوپر کتاب کا نام لکھ کر مضامین کی ترتیب بھی خود ہی قائم کردی تھی۔ ان کی اس تحریر کا عکس کتا ب کے آخر میں ص 336 پر موجود ہے۔ یہ کتاب دو حصوں میں منقسم ہے ۔ پہلے حصے میں نو مضامین ہیں اور یہ سب تذکرں سے متعلق ہیں۔ ان کے عنوانات اس طرح ہیں:

(1) عقد ثریا (2) کچھ مخزن نکات کے بارے میں (3) سروِ آزاد اور شعراے اردو (4) دستور الفصاحت اور شعراے اردو (5)تذکرۂ مسرور (6) تذکرہ شعراے سہسوان (7) تذکرۂ بے جگر کا مؤلف (8) خم خانۂ جاوید (9) طبقات شعراے ہند

دوسرا حصہ چھے مضامین پر مشتمل ہے۔ اس کے عنوانات حسب ذیل ہیں:

(1)فضلی اور کربل کتھا (2)حکیم احسن اللہ خاں: چند معروضات (3) اردو مثنوی شما لی ہند میں (4)ماہ نامہ شاعر کا اقبال نمبر (5) اردو ادب کا اولین نقاد باقر آگاہ  (6) اردو کی ترقی میں نماڑ کا حصہ۔

پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ پروفیسر نقوی نے اپنی تحقیق کا آغاز شعراے اردو کے تذکروں سے کیا تھا۔ چنانچہ اسی موضوع پر کام کرکے انھوں نے Ph.Dکی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد وہ مختلف موضوعات پر تحقیقی خدمات انجام دیتے رہے، جن کی تفصیلات گذشتہ صفحات میں پیش کی جاچکی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ تذکروں سے بھی ان کی دلچسپی برقرار رہی ہے۔ اس لیے وہ تذکروں سے متعلق مضامین بھی برابر لکھتے رہے۔ تذکروں سے متعلق اس کتاب میں شامل ان کا ہر مضمون تذکرہ شناسی کے فن میں ان کی مہارت کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ ان مضامین پر الگ الگ گفتگو کے بجائے یہاں پر پروفیسر ظفر احمدصدیقی کا ایک اقتباس پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ انھوں نے نقوی صاحب کی اس کتاب پر حرفے چند کے عنوان سے ایک مقدمہ تحریر کیا ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں:

’’ نقوی صاحب کا نشانِ امتیاز یہ تھا کہ وہ کسی بھی کتاب کا بہ نظر غائر اور بالاستیعاب مطالعہ کرتے تھے۔ تذکروں کے سلسلے میں بھی وہ اسی روش پر قائم رہے، چنانچہ جن تذکروں پر  انھوں نے قلم  اٹھایا ہے، وہ قلمی ہوں یا مطبوعہ، انھیں لفظ بہ لفظ بلکہ حرف بہ حرف پڑھ کر ہی اس کی قدر وقیمت سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ اسی لیے موضوعِ زیر بحث سے متعلق ان کی آرا نہایت وقیع اور اہمیت کی حامل ہیں۔‘‘ (ص12)

اسی طرح ڈاکٹر حسن عباس اس کتاب پر اپنے پیش نامہ میں تحریر کرتے ہیں:

’’نقوی صاحب نے عقد ثریا، مخزنِ نکات، دستور الفصاحت پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال فرمایا ہے اور ا یک بالکل نامعلوم تذکرے ، تذکرۂ مسرور (تالیف شرف الدین احمد مسرور) کے چند اوراق جو اورینٹل کالج لاہور کے فروری 1933 کے شمارے میں شائع ہوئے تھے، ان کی اساس پر یہ مقالہ سپردِ قلم کیا ہے۔ یہ مقالہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ چند اوراق سے کتنی قیمتی باتیں حاصل کی گئی ہیں۔‘‘(ص،8)

اس کتاب کا دوسرا حصہ نقوی صاحب کے تحریر کردہ چند تبصروں پر مشتمل ہے۔ ان تبصروںکے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سرسری اور روایتی تبصرے نہیں ہیں، بلکہ ان میں تحقیق کا حق ادا کیا گیا ہے۔ اس طرح ان کو مستقل مقالے یا مضمون کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ چنانچہ مالک رام اور مختار الدین احمد کی مرتبہ کربل کتھا پر ان کا مضمون یا تبصرہ 107 صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔اسے ایک مختصر کتاب یا کتابچہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ کربل کتھا کے مصنف فضل علی فضلی کے بارے میں ایک قیا س یہ تھا کہ وہ پنجاب کے باشندے تھے۔ دوسرا قیاس یہ تھا کہ وہ دکن کے رہنے والے تھے۔ نقوی صاحب نے ان دونوں قیاسات کی تردید کرتے ہوئے پختہ دلائل اور تحریری شواہد پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ فضلی بنارس کے قریب مرزاپور کے اطراف کے باشندے تھے۔ اسی طرح انھوںنے اس مضمون میں بہت سے لسانی مباحث بھی اٹھا ئے ہیں۔ اس کے علاوہ کربل کتھا میں مستعمل بہت سے نامانوس الفا ظ کی اصل سے بھی بحث کی ہے۔ اور اس ضمن میں دکن اور شمالی ہند کے قدیم شعرا کے کلام سے مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ اس مضمون کو پڑھ کر نقوی صاحب کے مطالعے کی وسعت اور نگاہ کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔

کتاب کے اس حصے میں شامل ان کے دوسرے مضامین بھی اسی طرح نہایت محققانہ اور عالمانہ ہیں۔ حکیم احسن اللہ خاں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے طبیب خاص اور وزیر اعظم تھے۔ پروفیسر حکیم ظل الرحمن نے ان پر مقالہ لکھا تھا۔ نقوی صاحب نے ان کے مقالے پر بہت سی معلومات کا ا ضافہ کیا ہے۔ ’اردو مثنوی شمالی ہند میں‘ پروفیسر گیان چند کی تصنیف ہے، جو نقوی صاحب کے استاد تھے۔ نقوی صاحب نے اس کتا ب پر مفصل تبصرہ لکھا اور بہت سی نئی معلومات پیش کیں، جنھیں پڑھ کر پروفیسر گیان چند بہت خوش ہوئے اور شاگرد کی حوصلہ افزائی کی۔ شاعر کے اقبال نمبر پر بھی نقوی صاحب کا تبصرہ بہت جامع ہے۔ اخیر کے دونوںتبصروں (اردو ادب کا اولین نقاد: باقر آگاہ از علیم صبا نویدی)اور (اردو کی ترقی میں نماڑ کا حصہ از ڈاکٹر سید صفدر رضا) کے بارے میں ڈاکٹر سید حسن عباس کا یہ بیان نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’یہ دونوں تبصرے ایسے محققین و مصنّفین کو ضرور پڑھنے چاہئیں جنھیں اپنی تحقیقات پر کچھ زیادہ ہی ناز ہو۔‘‘ (ص9-10)

نقوی صا حب کی تین بعد از وفات مطبوعات کے بارے میں گذشتہ صفحات میں جو کچھ لکھا گیاہے اس سے ان کی کتب کی قدر و قیمت کا اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ نقوی صاحب نے اردو تحقیق کو سمت و رفتار عطا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔یہ تسلیم کرلیاگیا ہے کہ وہ محققوں کے محقق ہیں۔

آخر میں نقوی صاحب کی ایک  اور کتاب کا ذکر کردینا بھی مناسب ہوگا جو ان کی وفات کے بعد منظر عام پر آئی لیکن اس کے مرتب ڈاکٹر شمس بدایونی ہیں۔ یہ کتاب بہ اسم ’حنیف نقوی کی ابتدائی تحریریں‘ مرکز تحقیقات اردو فارسی گوپال پور، سیوان ، بہار سے 2016 میں شائع ہوئی تھی۔ اس میںحنیف نقوی کے 16؍ مضامین اور ایک ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔ ان مضامین کا زمانہ تصنیف و اشاعت 1955 تا 1961 ہے، جو حنیف نقوی کا دورِ طالب علمی ہے جسے مرتب نے حنیف نقوی کے ادبی سفر کا دورِ اول کہا ہے۔ مرتب کے بہ قول ان کا پہلا مضمون مثنوی گلزار نسیم تھا جو ماہنامہ ’مومن‘ بدایوں کے جنوری 1956 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔اس مجموعے میںشامل چھے مضامین تنقیدی ہیں۔ پانچ تحقیقی موضوعات کے تحت آتے ہیں۔ چار مضامین کو شخصی تحقیق کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

اس طرح یہ کتاب نقوی صاحب کے ادبی سفر کے دورِ اول کے ان کے اسلوب اور تلاش و تحقیق کے طریقہ کار پر روشنی ڈالتی ہے۔ مضامین کے عنوانات حسب ذیل ہیں:

(1)نسیم اور ان کی مثنوی  (2)  غالب کے خطوط کی نفسیات (3)  اردو زبان و ادب اور حالی  (4)  مومن اردو کا بے نظیر غزل گو  (5)  مثنوی کید فرنگ  (6) لکھنؤ اور غزل کی روایات  (7)  چند قدیم خطوط  (8)  بعض روایات کا غلط انتساب مزیدچار قسطیں (9,10,11,12,13) یادِ رفتگاں،  تسلیم سہسوانی (14) صابر حسین صبا  (15) اعجاز احمد معجز  (16) منشی عبدالعزیز اعجاز  (17) بہادر شاہ ظفر۔

شمس بدایونی نے کتاب کے آغاز میں ایک مقدمہ لکھا ہے اور مضامین پر جگہ جگہ حواشی بھی دیے ہیں۔ آخر میں حنیف نقوی کے جملہ کام کا اشاریہ بھی شامل ہے جو 2014میں مرتب کیا گیا تھا۔

کتاب کے آخر میں حنیف نقوی کے پہلے اور دوسرے مضمون کا ابتدائی متن (اصلاح استاد سے پیشتر) بھی دیا گیا ہے۔ مرتب نے اس کتاب کا انتساب اپنے تین ادبی دوستوں کے نام کیا ہے جن میں سرفہرست نام ظفر احمد صدیقی مرحوم کا ہے۔

حرف آخر کے طور پر یہ لکھنا مناسب ہوگا کہ حنیف نقوی کی وفات کے بعد ان کی تین کتب تحقیق و تعارف (2013)، غالب کے فارسی خطوط (2015)، تذکرے اور تبصرے (2018)، میرے رفیق سفر پروفیسر ظفر احمد صدیقی (متوفی 2020) کی کوششوں سے ترتیب و اشاعت کے مراحل سے گزر کر نقوی صاحب کی مطبوعات میں اضافے کا موجب بنیں۔ 2016میں ایک کتاب حنیف نقوی کی ابتدائی تحریریں ظفر صاحب کے دوست ڈ اکٹر شمس بدایونی کی کوشش سے منظرِ عام پر آئی۔ کسی محقق کی ابتدائی تحریروں کی تدوین کی غالباً یہ پہلی روایت ہے۔ اپنے بزرگوں کی تحریروں کو محفوظ کرنے اور آنے والی نسلوں تک پہنچانے کا یہ عمل بہرحال قابل ستائش ہے۔

 

Dr. Sanjeeda Khatoon

Asst. Prof. Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh - 202001 (UP)

 

ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2021

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں