28/4/21

انور عظیم اور اخترالایمان - مضمون نگار: فیضان الحق

 



 اخترالایمان سے انور عظیم کی ملاقات گرچہ تاخیر سے ہوئی،لیکن جلد ہی گہری دوستی میں بدل گئی۔ انور عظیم اخترالایمان سے کئی سطحوں پر متاثر تھے۔اس کا پہلا سبب اخترالایمان کی درد انگیز شاعری تھی۔ دوسری بڑی وجہ اختر الایمان کی شگفتہ مزاجی،حسن اخلاق اور ملنسار طبیعت تھی۔یہی وجہ ہے کہ انور عظیم نے اس شاعر سوزودرد کو اپنے کالموں میں سب سے زیادہ یاد کیا ہے۔ روزنامہ ’قومی آواز‘ کے ہفتہ وار ضمیمہ میں ’باتیں ‘ کے تحت لکھے جانے والے اپنے کالم میں انور عظیم نے قریب13 کالمس اختر الایمان کے متعلق رقم کیے ہیں۔ یہ کالمس مواد کے اعتبار سے مختلف نوعیت کے ہیں، اور مختلف اوقات میں لکھے گئے ہیں۔ انور عظیم نے اخترالایمان کے ساتھ ممبئی کی کئی خوبصورت شامیں گزاری تھیں، اور ان کی کار میں بیٹھ کر سیر وسیاحت کا مزہ لیا تھا۔اس سیر و سیاحت میں ان کے ساتھ کبھی کرشن چندر ہوتے تو کبھی کوئی اور، اپنے کالموں میں وہ ان ملاقاتوں کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں۔ اخترالایمان پر لکھی گئی ا ن تحریروں میں عقیدت اور جذباتیت کے ساتھ تنقیدی نظر بھی ہے۔ تحریروں کو پڑھتے ہوئے قاری کا رشتہ شاعر اور کالم نگارسے جڑتا محسوس ہوتا ہے۔اس مضمون کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ اختر الایمان کی شخصیت اور شاعری سے متعلق ہے، دوسرے حصے میں خودنوشت’اس آباد خرابے میں‘‘ کی نثری اور لسانی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور تیسرا حصہ ’شکیل الرحمن‘ کی اخترالایمان شناسی کے جائزے پر مشتمل ہے۔

(1)

اخترالایمان کو انور عظیم نے پہلی بار 1993 کے ایک کالم میں یاد کیا تھا،جس کا عنوان تھا ’’اس سے پہلے بھی یہ دروازہ کھلا۔ ‘‘ اس میں انھوںنے ممبئی اور اختر الایمان سے جڑی اپنی یادوں کو موضوع گفتگو بنایا ہے اور ان کی شخصیت سے متعلق کئی اہم باتیں لکھی ہیں۔ اختر الایمان کا سراپا بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

’’سامنے وہی شخص ہے،وہی شخص،شخص، شاعر، شوہر، باپ۔ وہی آبنوسی تراش و رنگ،تبسم بدہن،اکیلا شخص، آبنوسی، بال سفید،کرتاسفید، تہمدسفید، اکیلا شاعر، جس کی ہنسی ہمیشہ کی طرح اجلی ہے اور بے ریا۔‘‘

(باتیں،قومی آواز،دہلی،ہفتہ وار ضمیمہ،12؍ستمبر،1993،ص 1)

ایک خاکہ اور ملاحظہ فرمائیں:

’’فکر سے بے نیاز اور ایک ہلکی ٹیڑھی سی مسکراہٹ جو ایک نا مکمل بت کے کچے نقوش میں ڈھل گئی ہو، اور جب جلتے جنگل کی تیز ہواؤں نے اپنی ٹھنڈی گرمی سے ان نقوش کو چھوا ہو تو وہ پتھر کی طرح سخت ہو گئی ہوں،اور آنکھوں سے تھوڑی تک آتشیں لکیریں دوڑ رہی ہوں اور ٹپک رہی ہوں ایک سینے پر جس میں سانس بھی نہ ہو، دھڑکن بھی نہ ہو۔‘‘ ( ایضاً، 31؍مارچ 1996،ص1)

یہ اس وقت کی بات ہے جب انور عظیم اپنی اہلیہ خدیجہ عظیم کے ساتھ اخترالایمان کے دولت کدے پر حاضر ہوئے تھے۔ اس وقت اخترالایمان کی طبیعت کافی ناساز رہتی تھی اور وہ کئی امراض میں مبتلا تھے۔ لیکن ان کا چہرہ دوستوں کے سامنے ہمیشہ ہشاش بشاش دکھائی دیتا تھا۔ انور عظیم کے مطابق کسی بھی بیماری یا پریشانی کا شکوہ اختر الایمان کی زبان پر نہیں آتا تھا۔ وہ اپنی بیماری اور تکلیفوں کا قصہ بھی مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع کا ذکر انور عظیم یوںکرتے ہیں:

’’پچھلی بار وہ تازہ تازہ اسپتال سے آئے تھے۔ ٹانگ کی نسوں اور رگوں کے کٹنے چھٹنے اور دل کی جراحی کا ذکر وہ یوں کر رہے تھے، جیسے وہ کسی ٹیلر ماسٹر کی بخیہ گری کا ذکر کر رہے ہوں۔‘‘  ( ایضاً، 12؍ستمبر1993،ص 1)

انور عظیم نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ’’اخترالایمان  کے منہ سے میں نے کبھی کسی کی ڈرامائی خود شکستگی کا جملہ نہیں سنا۔‘‘ان کے مطابق اخترالایمان مہمان نواز اور دوست دار ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت تواضع پسند انسان تھے۔ دوستوں کی خاطر داری میں وہ پیش پیش رہتے تھے۔  ملاقات کا ایک قصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’ اختر الایمان نے کھانا کھانے کے بعد چائے کی پیشکش کی اور کہا:

’’نہیں نہیں !چائے میں اپنے ہاتھ سے بناؤں گا۔ گھر میں اس وقت اور کوئی نہیں ہے تو کیا ہوا،میں جو ہوں۔ دیکھو کیسی چائے بناتا ہوں۔‘‘  ( ایضاً، 12؍ستمبر1993،ص 1)

اس تواضع اور خاکساری کا ذکر کرنے کے بعد انور عظیم نے ایک دلچسپ بات اورلکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک بیماری ایسی ہے جو تقریبا ہر متشاعر کو لاحق ہوتی ہے۔مگر اخترالایمان اپنی بیماری کی حالت میں بھی اس مرض سے دور رہے۔اور وہ بیماری ہے’’ دوسروں کو شعر سنانا‘‘۔ اخترالایمان نے کبھی بھی کسی پر اپنے اشعار تھوپنے کی کوشش نہیں کی۔ انور عظیم کے الفاظ ہیں:

’’اس منفرد شاعر سے میں نے کبھی نہیں سنا، دیکھو! سنو! میں کیسے شعر کہتا ہوں‘‘ ( ایضاً،12؍ستمبر1993،ص 1)

اختر الایمان کے اس رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے انور لکھتے ہیں کہ’ آفاقیت کے ڈھالے ہوئے شعر کے خالق کو کبھی یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی‘۔ اس جملے سے یہ بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ انور عظیم،اخترالایمان کی شاعری کو، آفاقی اقدار کی حامل شاعری سمجھتے تھے۔ انھوں نے اخترالایمان کی شخصیت کے ساتھ ان کی شاعری کا بھی گہرامطالعہ کیا تھا۔انور عظیم اخترالایمان کی شاعرانہ شخصیت کے متعلق لکھتے ہیں:

’’ اخترالایمان تاریخ و دانش،جذبات و تجربات کا شاعر ہے۔چھوٹے چھوٹے مشاہدوں،دکھوں، آرزوؤں اور صدف نشین تہہ داریوں کا شاعر،جس طرح اقبال حرکت و عمل اور تغیر کا شاعر تھا، مگر پرشکوہ۔اسی طرح اخترالایمان رزم و بزم، لطیف احساس غم اور ’سوکھی ببول‘ اور ویران مکانوں کا شاعر ہے۔‘‘ ( ایضاً،31؍مارچ 1996،ص1)

ایک شاعر کے متعلق انور عظیم کے یہ خیالات کسی باریک بیں نقاد کے خیالات سے کمتر معلوم نہیں ہوتے۔ حالانکہ انھوں نے کبھی بھی اپنی نقادی کا دعوی نہیں کیا۔ لیکن شاعری کے متعلق ان کے خیالات گہری تفہیم،بالغ شعور اور باریک نظر کا پتہ دیتے ہیں۔ ایک ایسی نظر جو ایماندار قاری اور باشعور ادیب کے پاس ہوتی ہے۔ اسی باریک بینی کا نتیجہ ہے کہ انور عظیم اخترالایمان کی شاعری میں تجربات و جذبات کا بہاؤاور ’تاریخی شعور‘ دریافت کرلیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اخترالایمان چھوٹے چھوٹے مشاہدوں کو بڑے فن پارے میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ ان کی شاعری تہہ داریوں اور آرزوؤں کی شاعری ہے۔ یہاں تک کہ وہ اخترالایمان کی شاعری کا مطالعہ کرتے کرتے اقبال کو یاد کرنے لگتے ہیں، اور دونوں کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد ایک قسم کی ہم آہنگی کی دریافت کرتے ہیں۔ یہ ہم آہنگی اپنے آپ میں مختلف ہونے کے باوجود، تاثر کے اعتبار سے یکساں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی حرکت و عمل اور پرشکوہ انداز والی شاعری جس طرح زود اثر ثابت ہوتی ہے اسی طرح اخترالایمان کے کلام کی لطافت، حساسیت اور ایک ہلکی سی اداس و مایوس فضا دلوں کو گرما دیتی ہے۔ انور عظیم اپنے خیالات کو مزید واضح کرتے ہوئے فن مصوری کی طرف رخ کرتے ہیں، اور اخترالایمان کے کلام کے متعلق وہاں سے مثال پیش کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

 ’’اکثر مجھے اخترالایمان کے اشعار پڑھتے ہوئے ’وان گاخ‘ کی پینٹنگ یا کینوس کا خیال آتا ہے۔‘‘الفاظ اسی مصور کے رنگ اور برش ہیں اور ’سوکھی سی ببول‘وہاں دور’ویران مکانوں سے پرے‘ جہاں جھلکتا ہوا گول سا چاند ابھر رہا ہے، بے نور شعاعوں کے سفینے کے لیے۔‘‘

( ایضاً،31مارچ 1996،ص1)

Van Gogh  Vincentنیدرلینڈ کا رہنے والا ایک عظیم مصور تھا۔جس نے اپنی فن کاری سے مغربی آرٹ پر گہرا اثر ڈالا تھا، اور پھر اپنی خودآگہی یا خود فراموشی کے سبب محض 37سال کی عمر میں خودکشی کرلی تھی۔ انور عظیم کو اسی کی تصویروں کا خیال کیوں آیا؟ اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فطرت سے قربت اور ایک دبا دبا سا درد دونوں فن کاروں(وان گاخ اور اختر الایمان) کے یہاں یکساں طور پر موجود ہے۔ وان گاخ کی پینٹنگ کو دیکھنے اور اختر الایمان کے کلام کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمارے دل پر قریب ایک سی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اس طرح انور عظیم نے ایک ادبی متن کی تفہیم کو دوسرے فنون لطیفہ سے ملا دیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اپنی بات کہنے میں وہ نہ صرف کامیاب نظر آتے ہیں بلکہ رسمی اور پیشہ ور نقادوں سے کئی گنا آگے بھی ہیں۔ یہ ایک فنی تخلیق کو دوسری فنی تخلیق کے ساتھ ملا کر دیکھنے کا طریقہ ہے کیونکہ کہیں نہ کہیں تمام فنون لطیفہ کی دھارائیں آرٹ کے ایک ہی سمندر میں گرتی نظر آتی ہیں۔

انور عظیم کے نزدیک اخترالایمان کی شاعری کی ایک بڑی خوبی ان کی ’ارضیت‘ تھی۔ وہ کبھی اپنے کلام میں خدا ئی دعویٰ کرتے نظر نہیں آتے۔ ان کے کلام میں یہ خوبی ان کی شخصیت سے ہی آئی تھی،جس میں ایک کرب بھی ہے اور عام انسانوں کا درد بھی۔انور عظیم لکھتے ہیں:

’’اخترالایمان ایک انسان بھی ہے، کرۂ ارض کے باشندوں میں ایک باشندہ،سب کے ساتھ سب سے الگ، اور احساس و اظہار کا ایک انفرادی سلسلہ، اور نچوڑو تو ایک بوند، خون کی،جو اوہام کی ریت میں جذب ہو گئی۔ بس اتنی سی ہے ایک زندگی اور پہچان ایک تخلیق کار کی؟الجھے ہوئے گرہوں سے آراستہ، خارزار میں، اختر الایمان ان سوالوں کا جواب دیتا ہے اور یوں:

’’میں پیمبر نہیں/دیوتا بھی نہیں/دوسروں کے لیے جان دیتے ہیں وہ/سولی پاتے ہیں وہ/نامرادی کی راہوں سے جاتے ہیں وہ/میں تو پروردہ ایسی تہذیب کا/جس میں کہتے ہیں کچھ اور کرتے ہیں کچھ/شرپسندوں کی آماجگہ/ امن کی قمریاں جس میں کرتب دکھانے میں/ مصروف ہیں/ میں ربڑ کا بنا ایسا ببوا ہوں جو/دیکھتا،سنتا، محسوس کرتا ہے سب/ پیٹ میں جس کے سب زہر ہی زہر ہے/پیٹ میرا کبھی گر دباؤ گے تم/جس قدر زہر ہے/سب الٹ دوں گا تم سب کے چہروں پہ میں!

(ایضاً،7؍اپریل 1996،ص1)

اخترالایمان کی یہ نظم نہ صرف ان کی ذات کا بہترین تعارف پیش کرتی ہے، بلکہ شاعر کے اندرون میں بھرا کرب بھی دکھاتی ہے۔ انور عظیم لکھتے ہیں ’’اخترالایمان کی شاعری انسان کی روح کا کرب ہے، شاعر  خود مجسم کرب ہے‘‘۔ اخترالایمان کے کلام میں جسم ہی نہیں بلکہ روح بھی زخمی نظر آتی ہے۔ اسی زخم کا خون ہے جو ان کے کلام میں ایک رقت بن کر دوڑ رہا ہے۔اس کرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انور عظیم لکھتے ہیں:

’’اختر الایمان ایک ایسے شاعر ہیں جن کی تمام تر موشگافیاں بے ساختہ معلوم ہوتی ہیں۔شاعر کچھ جھیل رہا ہے،شائد لمحہ لمحہ جینے کا کرب،جس پر اس کی بصیرت کا کوئی اختیار نہیں۔‘‘ (ایضاً،24؍اپریل 1994،ص1)

انور عظیم نے اختر الایمان کی شاعری میں ’کربلا‘ کے استعارے کو ایک نئی معنویت کے ساتھ دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک کربلا ایک ایسا استعارہ ہے جو تاریخ کے جنگلوں سے چھن کر ہم تک پہنچا ہے۔اور یہ کربلا ہمارے جذبوں،آخرت کے تصورات اور رزم خواہی کی شہادت کا نام ہے۔ان کا سوال ہے :

’’کیا ہم اس استعارے کو اختر الایمان کے کلام میں دریافت کر سکتے ہیں؟‘‘  (ایضاً، 17؍ اپریل1994،ص1)

یہ سوال اٹھانے کے بعد انھوں نے اختر الایمان کی نظم’کربلا‘ بھی پیش کی ہے،جس میںکربلا کے استعارے کو نظم کے پورے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نظم کا آخری حصہ ’’تمام نالہ و شیون تھا،تشنگی تھی وہاں/ جہاں سے گزرے ہیں یہ دشت کربلا تو نہیں؟‘‘ نظم میں کربلا کی استعاراتی معنویت پیدا کر دیتا ہے۔

(2)

انور عظیم کے نزدیک اخترالایمان کی شخصیت صرف شاعری تک ہی قابل احترام نہیں تھی، بلکہ انھوں نے اخترالایمان کے نثر کی جادوگری کو بھی محسوس کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب 1996 میں اردو اکادمی،دہلی نے ’اس آباد خرابے میں‘کے عنوان سے اخترالایمان کی خودنوشت کتابی شکل میںشائع کی،تو وہ ایک بار پھر اختر الایمان کے لیے تڑپ اٹھے۔ انھوں نے پہلے تو اردو اکادمی،دہلی کا ان الفاظ میں شکریہ ادا کیا:

’’یہ دیکھ کر دل کتنا اطمینان محسوس کرتا ہے کہ اردو اکادمی،دہلی کبھی کبھی ایسا کام کر دکھاتی ہے جو اس کے اچھے اچھے کاموں سے اچھا ہوتا ہے۔‘‘

(ایضاً،9؍ مارچ 1997،ص1)

اس بار کا اچھا کام اخترالایمان کی خودنوشت کی شکل میں سامنے آیا تھا۔ کتاب کے موضوعات اور مشمولات کے متعلق انور عظیم لکھتے ہیں:

’’اخترالایمان کے ’اس آباد خرابے میں‘کیا نہیں ہے ؟کیوں، اس میں دل کا میل نہیں ہے، انسان دشمنی نہیں ہے، مغالطہ نہیں ہے، حقارت نہیں ہے، دوزخ نہیں ہے، نفرت نہیں ہے، بے دردی نہیں ہے، خارج از بدن شہوت و ابتلا نہیں ہے؟ ‘‘ (ایضاً،9؍ مارچ 1997،ص1)

انور عظیم کے یہ تاثرات بظاہر شاعرانہ معلوم ہوتے ہیں، لیکن ان الفاظ کی کوکھ میں حقائق کی کتنی روحیں پوشیدہ ہیں اس کا اندازہ وہی شخص کرسکتا ہے جس نے اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہو۔ یہ باتیں تو کتاب کے مباحث کے متعلق تھیں، لیکن انور عظیم کے نزدیک اس خود نوشت کی بنیادی خوبی کچھ اور ہے۔ ان کے مطابق یہ کتاب لسانی ارتقا اور سلیس نثر کے اعتبار سے ایک منفرد تخلیق ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ اس آباد خرابے میں‘‘نثر کی کتاب ہے،جو غالب سے لے کر عہد فراق میں اخترالایمان تک، اردو زبان و ادب کی ایک شاندار روایت کی توثیق کرتی ہے اور اس روایت کو ایک تازہ جلا بخشتی ہے۔‘‘

(ایضاً،9؍ مارچ 1997،ص1)

اس کتاب کے منظر عام پر آنے سے قبل بھی اردو ادب میں نثر کے بہترین نمونے سامنے آچکے تھے، لیکن ان سب کے باوجود کتاب کے متعلق انور عظیم کی یہ رائے قابل غورہے۔غالب نے جس سلیس نثر کی اردو ادب میں  بنیاد ڈالی تھی، وہ کئی مراحل سے دوچار ہوئی، لیکن اس کے باوجود اگر اخترالایمان جیسا شخص بیسویں صدی کی آٹھویں، نویں دہائی میں ایسی سلیس نثر لکھ رہا ہو جو بیک وقت عہد غالب کی بھی یاد دلائے اور اپنے زمانے کے تقاضوں کو بھی پورا کرے، تو اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔اسے سلیس نثر ی روایت کی توسیع کہا جا سکتاہے۔ انور عظیم نے اخترالایمان کی نثر کو غالب کی نثری روایت سے جوڑنے کے باوجود اس کی انفرادیت کا پہلو ڈھونڈ نکالا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اخترالایمان کی اپنی زبان غالب کی نثری روایت میں ڈھلی ہوئی،مگر آج کے ٹھیٹھ لب و لہجے کی زبان ہے۔جو زبان سے ٹپکے اور آنکھوں سے بھی۔‘‘ 

(ایضاً،16؍ مارچ 1997،ص1)

انور عظیم کے خیالات سے ثابت ہوتا ہے کہ’’ اس آباد خرابے میں‘‘ کی صنفی حیثیت مسلّم ہونے کے ساتھ، لسانی اہمیت بھی ہے۔ کیوں کہ میر جیسا شاعر اگر اپنی شاعری کو ’آپ بیتی‘ سے’ جگ بیتی‘ بنا دیتا ہے، تو انور عظیم کے مطابق اخترالایمان اپنی نثر کے ذریعے ’دل بیتی‘ کو’ جگ بیتی‘ بنا دیتے ہیں۔

(3)

انور عظیم کی نظر میں اخترالایمان کی حیثیت ’تشنگی کے ایک دہکتے ہوئے انگارے‘ کی تھی، جو کبھی بجھ نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے  اخترالایمان کا ہرپہلو سے جائزہ لیا ہے۔ یہاں’ اختر الایمان تنقید‘ کے حوالے سے ان کے خیالات ملاحظہ کیجیے۔ جب اخترالایمان کی جمالیات کا احاطہ کرتی ہوئی ’شکیل الرحمن‘کی تازہ تصنیف ’اخترالایمان:جمالیاتی لیجنڈ1997 میں’ اردو مرکز،عظیم آباد‘ سے چھپ کر منظر عام پر آئی،تو انور عظیم نے انہیں ایک بار پھر اپنے کالم کا موضوع بنایا۔کتاب سے دلچسپی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ ان کے پسندیدہ شاعر کو مختلف زاویۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ انور عظیم نے اس کتاب کے حوالے سے’ شکیل الرحمن کی اخترالایمان شناسی‘ کا دو کالموں میں جائزہ لیا۔ کتاب کی پہلی خوبی جوانور عظیم نے یہ محسوس کی،وہ یہ کہ:

 ’’مصنف نے، جو تنقیدی نظر رکھتا ہے اور اپنے خیالات کے اظہار میں معتبر ہے،اپنے نقطۂ نظر سے شاعر کو دیکھا ہے۔‘‘(ایضاً،29؍جون 1997،ص1)

اس ایک جملے سے کئی باتیں نکل کر سامنے آتی ہیں۔ اوّل یہ کہ شکیل الرحمٰن کے اندر تنقیدی نظر موجود ہے۔ دوم یہ کہ ان کے تنقیدی افکار کی اہمیت ہے۔ اور سوم یہ کہ انھوں نے اخترالایمان کا مطالعہ اپنے نقطۂ نظر سے کیا ہے۔ انہیں خوبیوں کی وجہ سے انور عظیم کو شکیل الرحمن کی ’اخترالایمان شناسی‘ کاطریقۂ کار پسند آیا۔انور عظیم لکھتے ہیں :

’’شکیل الرحمن نے اخترالایمان کا زہر خند پالیا ہے، ان کی شاعری کی کہکشاں بھی۔‘‘

(ایضاً،22؍جون 1997،ص1)

انور عظیم کا یہ اعتراف گویا ایک ادیب کا دوسرے ادیب کی بصیرت کا اعتراف ہے۔اخترالایمان کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے انور عظیم نے کہا تھا کہ ان کی شاعری میں ’روح کا کرب‘ موجود ہے۔ یہاں وہی کرب ’زہرخند ‘بن گیا ہے،اور اس ’زہرخند‘تک شکیل الرحمن کی رسائی ہوگئی ہے۔شکیل الرحمن،اخترالایمان کی شاعری میں کئی خوبیوں کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی لیے انور عظیم لکھتے ہیں:

’’ میرے خیال میں اختر الایمان کو سمجھنے کے لیے شکیل الرحمن کا نقطہ نظر بہت کام آسکتا ہے۔‘‘

(ایضاً،22؍جون 1997،ص1)

شکیل الرحمن کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کے لیے اختر الایمان کے چند اشعار اوران کے متعلق شکیل الرحمٰن کے خیالات ملاحظہ کیجیے      ؎  

میرے دامن پہ کئی اشک ہیں اب تک تازہ

میرے شانوں پہ وہی جنبش سر ہے اب بھی

میرے ہاتھوں کو ہے احساس انھیں ہاتھوں کا

میری نظروں میں وہی دیدۂ تر ہے اب بھی

آج آہٹ بھی نہیں  کوئی اشارہ بھی نہیں

کسی ڈھلکے ہوئے آنچل کا سہارا بھی نہیں

ان اشعار کے متعلق شکیل الرحمن لکھتے ہیں:

’’ماضی اور یادوں کے تعلق سے یہ شعری تجربے ماضی کی جمالیات کے عمدہ تجربے ہیں۔ حسرت اور غم،انبساط اور پیتھوس کے ملے جلے جذبات متاثر کرتے ہیں۔ اختر الایمان نے ماضی کی یادوں میں ڈوبنے کے باوجود اور ماضی کی تلخیوں اور بدلتے لمحوں کو محسوس کرتے ہوئے زندگی کے حسن و جمال، زندگی کے تسلسل اور ارتقا کو نظر انداز نہیں کیا۔ یہ تلاش جمال ہے۔‘‘

(ایضاً،22؍جون 1997،ص1)

شکیل الرحمن کی یہی وہ جمالیاتی نظرہے جو انور عظیم کو متاثر کرتی ہے۔انور عظیم کے مطابق یہی تنقیدی رویہ ایک بڑے فن کار کی تفہیم کا مناسب زاویہ ہے اور اسے سچا خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ انور عظیم کو یقین تھا کہ اخترالایمان احساسات و جذبات کی جمالیات کا شاعر ہے، اور شکیل الرحمن نے اپنی کتاب کے ذریعے ان کے اس یقین پر مہر ثبت کردی۔

انور عظیم صحیح معنوں میں اس شاعر کے قدر داں تھے، اور اسے پرکھنے کا ان کا اپنا زاویۂ نظر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اخترالایمان کی شخصیت،شاعری،سوانح،نثر اور تنقید کا ایک بھی گوشہ انور عظیم کی نظروں سے پوشیدہ نہیں۔ انھوں نے اپنی تاثراتی و تنقیدی تحریروں کے ذریعے اخترالایمان کی مکمل بازیافت کی ہے۔ اردو ادب میں نہ ایسے شاعر کو بھلایا جا سکتا ہے،اور نہ ہی اس کے قدر شناس کو۔

 

Faizanul Haque

Research Scholar, Dept. of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

Mob.: 8800297878

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

حیات قدیمہ اور عصر ماقبل تاریخ، ماخذ: قدیم ہندوستان کی ثقافت و تہذیب تاریخی پس منظر میں، مصنف: ڈی ڈی کوسمبی، مترجم: بالمکند عرش ملسیانی

  اردو دنیا، نومبر 2024 عہد زریں قدیم ترین اور خالص فطری زندگی کو جو ایک طرح کی حالتِ تکمیل نصیب تھی اس سے انسان کے انحطاط و محرومیت کی ...