29/4/21

علامہ اقبا ل کے دو ممدوح: مرزا غالب اور سوامی رام تیرتھ - مضمون نگار: شمیم طارق


 


علامہ اقبال نے مرزا غالب کو بھی منظوم خراجِ تحسین پیش کیا ہے جن کا انتقال ان کی پیدائش سے 8 سال قبل ہوچکا تھا اور سوامی رام تیرتھ کو بھی جن کی پیدائش ان کی پیدائش سے 4 سال قبل ہوئی تھی۔ دونوں نظمیں ’بانگ درا ‘ میں شامل ہیں۔ غالب نے اگرچہ دعویٰ کیا تھا کہ          ؎

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب

اور بیعت بھی ہوئے تھے مگر ان پر تصوف تو کیا اسلام کی قبا بھی پوری طرح جچتی نہیں ہے۔ مگر سوامی رام تیرتھ کی زندگی ہی نہیں موت بھی ’ ویدانتی ‘ کی حیثیت سے جذب و مستی میںگزری تھی۔ ان دونوں نظموں کی مختصر تفہیم و تشریح پیش کی جارہی ہے۔

مرزا غالب

غالب اور اقبال دونوں نے فارسی میں بھی اشعار کہے ہیں اور اردو میں بھی۔ شاعروں کی مختصر سے مختصر فہرست بھی ترتیب دی جائے گی تو اس میں غالب اور اقبال دونوں کے نام شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ اردو کی مملکت شاعری پرغالب کے غلبے کے باوجود غالب کے رنگ میں شعر کہنے والے تو کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں یعنی چند ہی شعر میں سہی مگر انہوں نے غالب کی یاد تازہ کر دی ہے مگر اقبال کا امتیاز یہ ہے کہ ان کے رنگ میں کسی نے شعر کہنے کی جسارت کی تو اپنا رنگ بھی برقرار نہیں رکھ سکا۔ اس کے باوجود اقبال نے نہ صرف غالب کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا ہے بلکہ شعروں کے ان محاسن کی بھی نشاندہی کر دی ہے جو شاعری کو عظیم یا بڑی بناتے ہیں۔ اقبال نے اپنی نظم مرزا غالب میں غالب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ         ؎

لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں

ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں

اس شعر میں چار لفظ خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ پہلا لفظ ’لطف‘ مذکر ہے اور ’مزہ‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے  جیسے خود اقبال نے اپنی نظم ’صدائے درد‘میں استعمال کیا ہے       ؎

اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں

اور عنایت و مہربانی کے معنی میں بھی جیسے اقبال کی نظم ’وطنیت‘ کا مصرع ہے        ؎

ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور

دوسرا لفظ گویائی مونث ہے اور خود اقبال نے اس لفظ کو کئی طرح سے استعمال کیا ہے مثلا صدائے درد (بانگ درا) کا ایک مصرع ہے       ؎

ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں

زیرتبصرہ نظم ’مرزا غالب‘ میں یہ لفظ بولنے کی کیفیت یا عمل کے طور پر بھی استعمال ہوا ہے مثلاً      ؎

تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں 

اور فصاحت یا شعر گوئی کے معنی میں بھی مثلاً       ؎

لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں

اقبال کی شاعری میں ایسی کئی تراکیب  استعمال ہوئی ہیں جو دو لفظوں کے امتزاج یا ملاپ کا نتیجہ ہیں۔ مثلاً اپنی نظم عہد طفلی (بانگ درا) میں ’لطف جاں‘ استعمال کیا ہے۔ جو اس روحانی کیفیت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس سے روح لطف اندوز ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں        ؎

تھی ہر اک جنبش نشان لطف جاں میرے لیے

یہاں لطف گویائی سے شعر گوئی کا وہ ملکہ یا قدرت مراد ہے جو غالب کے لیے خاص تھی اور جس کے سبب غالب کا کوئی متبادل پیدا ہو سکا نہ مقابل۔

مصرع ثانی میں تخیل اور فکر یا فکر کامل کا استعمال  اقبال جیسا قادرالکلام شاعر ہی کر سکتا تھا جس کے استعمال کیے ہوئے لفظوں، وضع کی ہوئی ترکیبوں اور تخلیق کیے ہوئے مصرعوں میں پوری معنیاتی کائنات سمٹ آئی ہے۔ غالب کا یہ دعویٰ غلط نہیں ہے کہ        ؎

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو  سمجھیے

جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے

مذکورہ شعر بھی غالب کے اس دعوے کی دلیل ہے۔ 

تخیل سے مراد وہ قوت ہے جو خیالات کی صورت گری کرکے ان کو فہم کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے جبکہ منطق کی اصطلاح میں تخیل سے مراد وہ کیفیت ادراک ہے جو حواس خمسہ کے ذریعے خیالات میں جمع ہو جاتی ہے۔ انسان اندازہ نہیں کر پاتا کہ اس کا تخیل کہاں تک پرواز کرسکتا ہے اقبال نے اسی نظم میں غالب کے تخیل کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے       ؎

ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا

فکر کا استعمال سوچ بچار، تردد، تدبر اور اندیشے کے معنی میں بھی  ہوتا ہے اور فکر کرنا، شعر گوئی کے لیے بھی مستعمل ہے۔ فلسفے کی اصطلاح میں فکر جدید یا جدید ترمعنی کے حصول یا جو معلوم ہے اس سے نا معلوم کی دریافت کو کہتے ہیں۔ اقبال نے اسی نظم میں کہا ہے        ؎

فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا

تخیل تذکیر ہے اور فکر تذکیروتانیث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ ان دونوں لفظوں یعنی تخیل اور فکر کے استعمال سے اقبال نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ غالب کی عظمت کا راز یہ ہے کہ وہ تخیل یعنی محسوسات کے ذریعے جمالیاتی تشکیل اور فکر کامل یعنی معقولات کے ذریعے حاصل کیے گئے معنی کو وہ خوبصورت پیرایۂ بیان عطا کرنے پر قادر ہے جس میں ان کی ہمسری کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ نظم میں پانچ بند ہیں اور ہر بند میں مختلف انداز اور پیرائے میں اسی حقیقت کی ترسیل کی گئی ہے۔ 

پہلے بند میں اقبال نے غالب سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار اور ان کی شاعرانہ قدرت کا اعتراف کرتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ غالب اس حسن کا متلاشی ہے جو سوز کائنات بن کر کائنات کی ہر شے میں پوشیدہ ہے۔ مگر جس طرح حسن ازلی پردے میں بھی ہے اور بے پردہ بھی اسی طرح غالب کی شاعری کا حسن یا جوہر پنہاں بھی ہے اور عیاں بھی۔ بہت کم لوگ ان کی شاعری کے محاسن کا ادراک کر سکے ہیں         ؎

زیب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا

بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے

یہاں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ غالب کے کلام کے حقیقی محاسن ذکروفکر کو جلا دینے کے باوجود ہمارے ادراک اور قوت اظہار کے لیے آزمائش کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔

غالب بہت بڑے شاعر ہیں اور انہوں نے یہ عظمت اپنے کلام میں واردات عشق کی ہو بہو تصویر بنانے کے ساتھ ساتھ وہ شوخی پیدا کرکے حاصل کی ہے جو لب تصویر پر جنبش پیدا ہونے کے نادر تصور یا تخیل سے ظاہر ہوتی ہے۔ یعنی انداز بیان نہایت شوخ، دل کش اور نادر ہے        ؎

زندگی مضمر ہے  تیری  شوخی  تحریر  میں

تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں

تیسرے بند کا آغاز        ؎

نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر

جیسے شاہکار مصرع سے ہوتا ہے۔ نطق مجموعہ ہے اس ادراک کا جو عقل اور احساس سے حاصل ہوتا ہے۔ یہاں اقبال نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ غالب کی فکر یا ان کے اختیار کیے ہوئے پیرایئہ بیان میں یہ کائنات اپنی اصل سے زیادہ بڑی نظر آتی ہے اور یہی نہیں کہ غالب اپنے ذہن، اپنی شخصیت اور شاعری کے سبب بہت بڑے ہیں بلکہ وہ دہلی بھی جہاں غالب آسودہ خاک ہیں غالب سے نسبت کے سبب ’شیراز‘کے لیے قابل رشک بن گئی ہے۔ اس بند میں انھوں نے اس شہر کا بھی ذکر کیا ہے جہاں جرمنی کا شاعر گوئٹے دفن ہے۔  

چوتھے بند میں اقبال نے جو بات کہی ہے وہ غالب کا قصیدہ بھی ہے اور دلی کے ساتھ اس زبان اور شعری روایت کا مرثیہ بھی جس میں غالب نے اپنی عظمت کے نقوش چھوڑے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اردو زبان اور شاعری ابھی کمال کو نہیں پہنچی ہے دونوں کی ترقی کے امکانات باقی ہیں اس کے باوجود یہ ممکن نہیں ہے کہ مستقبل میں کوئی دوسرا غالب یا غالب کی ہمسری کرنے والا کوئی دوسرا شاعر پیدا ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ تخیل اور فکر، غالب جیسے نابغئہ روزگار میں ہی یکجا ہو سکتے تھے۔ یہ خصوصیت سب کا مقدر نہیں اور پھر ہندوستان کے حالات بھی بدل گئے ہیں۔ 

پانچویں بند میں دہلی کو گہوارہ علم و ہنر قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا گیا ہے کہ اس سرزمین میں ایک سے ایک صاحبان علم آرام فرما ہیں مگر ان میں غالب جیسا فخر روزگار کوئی دوسرا نہیں ہے۔ 

اس شاہکار نظم میں غالب کی شاعری کا جو جوہر سامنے آتا ہے اور لفظوں کو جمالیاتی تناظر میں دیکھنے، لفظوں کے بنائے ہوئے Images سے نئے معانی برآمد کرنے اور ماورائی تصورات و کیفیات کو خالص انسانی نقطہ نظر سے دیکھنے کی راہ استوار کرتا ہے۔ یہ وہ راہ ہے جہاں شاعر کی شوخی یعنی زندہ دلی اور جادوبیانی کے سبب زندگی کے پیچیدہ سے پیچیدہ خیالوں کی تصویر بھی زندگی کے زندہ مظاہر کی صورت اختیار کر لیتی ہے جس سے مایوسی و پژمردگی کی کیفیت میں کہا ہوا شعر بھی زندگی بخش بن جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ اقبال کی فکر میں غالب کے شعروں میں لفظ و معنی کی یکجائی جمالیاتی تناظر فراہم کرتی اور انسانی قدروں کا احترام کرنا سکھاتی ہے اس لیے انھوں نے کہا ہے        ؎

زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں

تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں

سوامی رام تیرتھ

علامہ اقبال اور سوامی رام تیرتھ الگ الگ مذاہب سے مگر ایک ہی ملک اور ملک کے ایک ہی خطے (پنجاب) سے تعلق رکھتے تھے۔ سوامی رام تیرتھ گجرانوالہ کے ایک گائوں کے بہت ہی غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا سنہ پیدائش بہ اختلافِ روایت 1873 بتایا جاتا ہے جبکہ اقبال 1877 میں پیدا ہوئے۔ سوامی رام تیرتھ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ریاضی میں ایم اے کیا تھا۔ اقبال 1904 میں اسی کالج میں لیکچرر ہوئے تھے اس لیے ممکن ہے دونوں میں ملاقات بھی رہی ہو مگر یہاں ان کے آپسی رشتے پر روشنی ڈالنا یا رشتے کی نفی کرنا مقصود نہیں۔ مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ سوامی جی پر ویدانت کا رنگ ابتداء ہی سے غالب تھا۔ ’ویدانت ‘ سنسکرت کے دو الفاظ Ved اور Ant کا مجموعہ ہے اور چونکہ ہر وید کا آخری حصہ ’اپنشد ‘ ہے اس لیے ’ویدانت‘ اور ’اپنشد‘ ہم معنی ہیں۔ لغوی اعتبار سے اپنشد، کونو مع الصادقین کے مترادف ہے اور اس میں عارفانِ حق کو اپنے شاگردوں اور ارادت مندوں کو سمجھائی ہوئی وہ تشریحات شامل ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ کائنات میں بھی وہی حقیقت جاری وساری ہے جو انسانی شخصیت کی بنیاد ہے اور اس حقیقت کا قرب حاصل کرنے کے لیے اپنی فرض کی ہوئی شخصیت اور حیثیت کو بھول کر اس قدر وسیع النظر ہونا ضروری ہے کہ تنگی و کوتاہ نظری پاس بھی نہ پھٹکنے نہ پائے۔ منشی سورج نرائن مہر دہلوی کے لفظوں میں :

’’ لفظ ’اُپ نشد‘ کے کئی معنی ہوسکتے ہیں۔ اس کا مادہ یا دھاتو ’سد‘ ہے۔ اُپ بہ معنی قریب اور نی بہ معنی بالکل۔ دو اُپسرگ ہیں جنھیں انگریزی میں پریپوزیشن اور عربی فارسی، اردو میں حروفِ جار کا نام دیا جاتا ہے سدچار معنی میں مستعمل ہے۔ ہلاک کرنا، ٹکڑے ٹکڑے کرڈالنا، چلنا، اور بیٹھنا۔ پہلے دو معنوں کے لحاظ سے اُپ نشد وہ بدیا (ودیا) یا علم ہے جس سے دنیا کا واہمہ باطل یعنی اگیان ناش ہوجاتا ہے یااس کے ٹکڑے ٹکڑے اُڑ جاتے ہیں۔ دوسرے دو معنوں کے لحاظ سے اُپ نشد وہ گیان ہے جو گورو (گرو) کے پاس جاکر یا بیٹھ کر لیا جاتا ہے۔ اہل یورپ، سد کے معنی زیادہ تر بیٹھنے کے لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں آچاریہ لوگ چیلوں کی جماعتوں کو بنوں میں بیٹھ کر تعلیم دیتے تھے۔ اس واسطے اس بدیا (ودیا) کو اُپ نشد کہنے لگے۔ مجازاً اُپ نشد کے معنی راز خفی کے لیے جاتے ہیں اور اس کا اطلاق برہم بدیا (ودیا) پر ہوتا ہے۔ چونکہ بعض کتابیں اسی برہم بدیا (ودیا) سے متعلق ہیں اس واسطے اول اول اس کا نام اُپ نشد پڑا اور بعد میں اُپ نشد کا اطلاق صرف انہی کتابوں پر ہونے لگا۔ وہ بدیا (ودیا) کا پہلا اطلاق جاتا رہا، اب اُپ نشد یہی کتابیں کہلاتی ہیں۔ ان میں سے دس بہت قدیم ہیں جن پر بھگوت پوجیہ پاد شری شنکر آچاریہ نے شرحیں لکھی ہیں۔ ان میں ایشا داسیہ سب سے پہلا اُپ نشد ہے۔ ‘‘

(منشی سورج نرائن دہلوی، شری اپنشد، دہلی 1914، ص 1-2)

یہ حقیقت ویدوں کے تیسرے حصے میں ہی بیان کردی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز میں حقیقت مطلقہ کی ہی کارفرمائی ہے اور قربانی کے منتروں میں اسی کے ہونے کا اقرار و اظہار کیا جاتا ہے لیکن اپنشد میں ایک طرف حقیقت مطلقہ (برہمن بہ معنی برہمہ) کو اعلیٰ ترین حقیقت کے طور پر پیش کرکے اور دوسری طرف آرنیکا سے شروع ہونے والے باطنیت کے رجحان میں مزید غور و فکر سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ انسان کے اندر باہر ایک ہی لافانی ذات کی کارفرمائی ہے لیکن بقول سوامی وویکانند اس کا دیدار وہی کرسکتا ہے جو اپنی محدود شخصیت کو بھول کر ’’سنسار کو بھرم مئے یعنی بھرم (فریب حواس) سے بھرا ہوا‘‘ دیکھیے۔

(سوامی وویکانند، بھکتی اور ویدانت، لاہور، ص 74)

ابوریحان البیرونی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’الہند‘ کی پہلی جلد کے دوسرے باب میں خدا کی ذات و صفات سے متعلق ہندوؤ ں کے اعتقاد کو ان لفظو ںمیں بیان کیا ہے :

’’اللہ پاک کی شان میں ہندوؤ ں کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ واحد ہے، ازلی ہے، جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا۔ اپنے فعل میں مختار ہے، قادر ہے، حکیم ہے، زندہ ہے، زندہ کرنے والا ہے، صاحب تدبیر ہے، باقی رکھنے والا ہے، اپنی بادشاہت میں یگانہ ہے جس کا کوئی مقابل اور مماثل نہیں۔ نہ وہ کسی چیز سے مشابہ ہے اورنہ کوئی چیز اس سے مشابہت رکھتی ہے۔ ……‘‘ (البیرونی مترجم سید اصغر علی، کتاب الہند جلد اوّل  دہلی 1941، ص 24-29)

لیکن چونکہ البیرونی کے تجربے میں یہ حقیقت بھی تھی کہ مذہبی شاستروں میں خدا کے بارے میں جو عقیدہ بیان کیاگیا ہے، عوام میں رائج عقیدہ اس سے مختلف ہے اس لیے اس نے  ’پاتنجلی‘،’گیتا‘ اور دوسری مذہبی کتابوں کے اقتباسات نقل کرنے کے بعد یہ رائے بھی دی ہے کہ:

’’ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی نسبت ہندوؤ ں کے خواص کا قول۔ یہ لوگ اس کا نام ایشفر (ایشور) رکھتے ہیں، یعنی مستغنی اور جواد، جو دیتا ہے اورلیتا نہیں۔ اسی کی وحدت کوخالص وحدت سمجھتے ہیں، اس لیے کہ دوسرے موجودات کے وجود کا سبب اور سہاراوہ ہے۔ یہ توہّم کہ سب موجودات معدوم ہیں اور وہ موجود ہے، محال نہیں ہے اور یہ توہّم کہ وہ موجود نہیں اور سب موجودات موجود ہیں محال ہے۔ جب ہم ہندوؤ ں کے خواص کے طبقے سے نکل کر عوام کی طرف آتے ہیں تو ان کے اقوال میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔‘‘(البیرونی، مترجم سید اصغر علی،کتاب الہند،جلد اوّل، دہلی 1941، ص24-29)

سوامی جی عالم محویت یا جذب و مستی میں دریائے راوی کے کنارے ’بارہ دری کامران‘ میں بیٹھے رہتے تھے۔ کبھی شری رام کی تلاش میں جن کے وہ بھکت تھے کنارے کنارے بہت دور نکل جاتے تھے۔ جیسے جیسے ان کی بھکتی یا عالم محویت کی شہرت بڑھتی گئی ان کے گرد عقیدت مندوں کا ہجوم بڑھتا گیا۔ ایک مرتبہ وہ عقیدت مندوں اور شاگردوں کے ساتھ گنگا اشنان کے لیے ہری دوار گئے اور گنگا میں ہی سمادھی لگا دی یعنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔

چھے شعروں کی اس نظم میں اقبال نے سوامی رام تیرتھ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کئی ایسے نکات بیان کیے ہیں یا الفاظ استعمال کیے ہیں جن کو تصوف کی رہنمائی یا اس کی بعض اصطلاحات کو سمجھے بغیر سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔ مثلاً رنگ وبو، نفی، اثبات، بت، عشق وغیرہ۔

ذات و صفات و افعال و آثار کے ظہور کو ’ رنگ ‘ کہتے ہیں جو ہر آن اور ہرلحظہ نئی صورت میں جلوہ گر ہوتا یعنی نیا جلوہ دکھاتا رہتا ہے۔ ’رازِ رنگ وبو کھولا ‘ سے مراد یہ ہے کہ موجودات یعنی حیات و کائنات کے راز سے پردہ اٹھایا۔ نفی اور ا ثبات تصوف کا بہت اہم مسئلہ ہے۔ اثبات سے ’احکام عبادت کا قائم رکھنا‘ اور نفی سے ’’صفات مذمومہ کو نیست و نابود کرنا یا رذائل کو دور کرکے فضائل سے آراستہ ہونا‘‘ مراد ہے۔ راقم نے نفی و اثبات اور ان کے فرق پر مختلف حوالوں سے اپنی کتاب ’’ تصوف اور بھکتی کی اہم اصطلاحات (ص 362-4)‘‘ میں ان لفظوں میں روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان نے ہی شائع کی ہے۔

’’ حضرت مصنف ’ کشف المحجوب ‘ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ نفی کے معنی نفسانی یعنی بری اور ناپسندیدہ عادات کو اپنے اندر سے دور کرنا بلکہ بالکل مٹا دینا ہے اور اثبات کے معنی حقیقت کو اپنے اوپر غالب و قاہر کرکے پسندیدہ عادات و خصائل کو پیدا کرنا بلکہ ثابت کردینا ہے۔ صفتِ بشریت کی فنا،نفی اور غلبۂ حقیقت کا وجود اثبات ہے ۔۔۔۔۔

صوفیا کا قول ہے کہ اسی نفی سے مراد، حق تعالیٰ کے اختیار کے اثبات میں، بندے کے اختیار کی نفی ہے۔چنانچہ ایک بزرگ کا ارشاد ہے کہ ’’… بندے کے لیے حضرت حق کا اختیار اس کے اپنے علم سے بہتر ہے، جو بندے کو اپنے نفس کے لیے خدا سے غافل رہ کر اختیار ہو۔ اس لیے یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ محبت میں محب کے اختیار کی نفی، محبوب کے اختیار کے اثبات سے وابستہ ہے۔ ‘‘

راضی برضا اور تفویض کے سلسلے میں ایک واقعہ ہے کہ ایک درویش دریا میں غرق ہورہا تھا۔ کسی نے اس سے کہا بھائی! کیا تجھے نکال لیا جائے؟ اس نے کہا نہیں۔تو اس نے پوچھا پھرکیا چاہتا ہے کہ ڈوب جائے؟ درویش نے کہا نہیں۔ اس نے کہا عجیب بات ہے کہ نہ ہلاکت چاہتا ہے نہ نجات؟ درویش نے کہا مجھے ایسی نجات کی کوئی حاجت نہیں جس میں میرا اختیار شامل ہو۔ میرا اختیار تو وہ ہے جو میرے پروردگار کا اختیار ہے ۔۔۔۔۔ ‘‘

بت ‘ سے مطلوب حقیقی بھی مراد ہے اور انسان کامل بھی۔ ’عشق ‘ اقبال کا بھی محبوب لفظ ہے اور صوفیا کا بھی۔ لفظ عشق کی تفہیم اقبال کے کلام سے بھی ہوجاتی ہے مثلاً           ؎

عشق دمِ جبرئیل عشق دلِ مصطفیٰ

عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام

عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک

عشق ہے صہبائے خام عشق جو کاس الکرام

——

جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی

کھلتے ہیں غلاموں پر اَسرارِ شہنشاہی

صوفیا کے اقوال اور تشریحات کے حوالے سے راقم الحروف نے عشق کی وضاحت ان لفظوں میں کی ہے :

’’ ۔۔۔۔۔ عشق مشتق ہے عشقہ سے اور عشقہ اس گھانس کو کہتے ہیں جو درخت پر لپٹتی ہے اور درخت کو بے ثمر اور زرد و خشک کردیتی ہے اسی طرح عشق بھی عاشق کی ذات کو تجلی جمال معشوق میں محو کردیتا ہے تاکہ تفرقۂ عاشق و معشوق باقی نہ رہے۔ عشق انتہا ہے درجۂ محبت کا یہ خود بخود ہوتا ہے اختیار سے نہیں ہوتا۔ اس کے پانچ درجے ہیں۔ درجۂ اول فقدانِ دل یعنی دل کا گم کرنا۔ درجۂ دوم تاسف ہے وہ یہ ہے کہ معشوق کے بغیر عاشق بیدل ہر وقت اپنی زندگی سے متاسف ہوتا رہے۔ درجۂ سوم وجود ہے اور یہ عجب قسم کا حال ہے جو تحریر و تقریر میں نہیں آسکتا اور اس کی وجہ سے عاشق کو کسی جگہ اور کسی وقت آرام اور قرار نصیب نہیں ہوتا۔ درجۂ چہارم بے صبری ہے اس درجے میں آتش شوق اس درجہ جوش میں آجاتی ہے کہ عاشق رات دن شور مچاتا رہتا ہے۔ درجۂ پنجم صیانت ہے۔ عاشق اس درجے میں پہنچ کر دیوانہ ہوجاتا ہے۔ بجز معشوق کے اس کو کسی کی یاد نہیں رہتی۔ عشق کی دو قسمیں ہیں مجازی و حقیقی۔ حقیقی خدا کا عشق ہے مجازی کی بھی دو قسمیں ہیں نفسانی و حیوانی۔ نفسانی باعث لطافت و صفائی نفس ہوتی ہے جس کی وجہ سے عاشق صاحب وجد اور صاحب فکر و گویا اور تعلقات دنیا سے منقطع ہوجاتا ہے۔ یہی مجاز ہے جو عمدہ ترین نعمت اور موہبت خداوندی ہے اور اس کی خاصیت ہے کہ یہ عاشق کو سوائے معشوق کے دوسری طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا اس میں درحقیقت عاشق کی توجہ معشوق حقیقی پر ہوتی ہے جو صورت میں آکر جلوہ نمائی کرتا ہے سلوک میں سوائے اس عشق کے دوسری چیز مطلوب پر فائز کرنے والی نہیں ہے۔ ‘‘ (تصوف اور بھکتی کی اہم اصطلاحات، صفحہ 245-6)

مندرجہ بالا تشریحات کی روشنی میں اقبال کی نظم کے شعروں کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے         ؎

ہم بغل دریا سے ہے اے قطرئہ بیتاب تو

پہلے گوہر تھا بنا اب گوہر نایاب تو

اے قطرئہ بیتاب یعنی سوامی رام تیرتھ یعنی وہ جزو جو کل میں مل جانے کے لیے بیتاب تھا پہلے ہی گوہر تھا کہ قدرت نے تجھے ذاتی کمالات عطا کیے تھے اور تو اپنی اصل میں مل جانے کے لیے تپش عشق سے بیتاب ہوکر رذائل کو فضائل میں تبدیل کررہا تھا اور بالآخر دریا یعنی دریائے وحدت میں خود کو غرق کرکے ’گوہر نایاب‘ بن گیا یعنی تیری قدر و قیمت میں اضافہ ہوگیا۔ یہ تصوف کا بہت اہم مسئلہ ہے۔ صوفیا نے اشارہ کیا ہے کہ جب سالک کو عرفان حاصل ہوجاتا ہے تو اس کا ذاتی وجود باقی نہیں رہتا۔ مگر عشق میں اپنی ہستی کو فنا کرنے یا ذاتی وجود کو باقی نہ رکھنے کا کوئی مادی تصور نہیں ہے۔ اپنی ہستی کو فنا کرنے کی کسی ایسی صورت کو نفی ہستی نہیں کہا جاسکتا جس پر خود کشی کا گمان ہوتا ہو        ؎

آہ کھولا کس ادا سے تونے راز رنگ و بو

میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز رنگ و بو

دوسرے شعر میں کہتے ہیں کہ تو نے کس شان سے راز رنگ و بو یعنی کائنات کے اسرار سے پردہ اٹھایا اور بتایا کہ جب ساری کائنات اس ایک ذات کے گوناگوں تعینات کا پرتو ہے تو یہاں کی مختلف اشیا میں فرق کیوں کیا جائے۔ تو نے واضح کردیا کہ عالم کثرت میں وحدت کا راز پوشیدہ ہے۔ مگر افسوس میں اپنی کوتاہ بینی اور ناقص عقل کے سبب عالم کثرت کی مختلف اشیا کے درمیان فرق کرتا رہا ہوں          ؎

مٹ کے غوغا زندگی کا شورش محشر بنا

یہ شرارہ بجھ کے آتش خانۂ آزر بنا

غوغا زندگی کا‘ سے مراد زندگی کی سرگرمیاں ہیں اور ’آتش خانۂ آزر ‘ سے مراد نمرود کا آتش کدہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان جب اپنی اس ہستی کو فنا کردیتا ہے جس کو دیکھا جاسکتا ہے، چھوا جاسکتا ہے تو اس میں اور زیادہ طاقت پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ وہ واصل بحق ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال اس قطرے کی ہے جو سمندر یعنی بحر ناپیدا کنار میں مل کر خود بھی بحر ناپیدا کنار بن جاتا ہے        ؎

نفی ہستی اک کرشمہ ہے دلِ آگاہ کا

لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا

اپنی ہستی یا ظاہری وجود کی نفی وہی کرسکتا ہے جو ’دلِ آگاہ‘ کا مالک یعنی اس حقیقت کو جاننے اور تسلیم کرنے والا ہوکہ مالک و خالق اسی کو ملتا ہے جو اس کے علاوہ ہر حقیقت کی نفی کرچکا ہو۔ نفی و اثبات کی طرح فنا و بقا بھی تصوف کا بہت اہم مسئلہ ہے۔ راقم نے ’’ تصوف اور بھکتی کی اہم اصطلاحات (صفحہ 267-8)‘‘ میں اس کی بھی وضاحت کی ہے۔ بقا سے مراد وہ مقام ہے جہاں دیدار الٰہی میں کوئی چیز حجاب نہیں بنتی اور سالک حق کو موجود، باقی سارے عالم کو معدوم دیکھتا ہے۔ اسی طرح

’’ فنا سے وہ حالت مراد ہے جس میں سالک سے قولاً یا فعلاً یا عملاً جو کچھ صادر ہوتا ہے وہ حق سے ہوتا ہے اور اسی مرتبے پر پہنچ کر یزید بسطامی نے سبحانی اور منصور نے انا الحق کہا تھا۔

امام قشیریؒ کے مطابق ’’ صوفیا کے یہاں ’فنا‘ سے مذموم اوصاف کا ساقط ہوجانا مراد ہے اور ’بقا‘ سے اوصافِ محمودہ کا بندہ کے ساتھ قائم ہونا۔ ‘‘ (رسالہ قشیریہ)

امام ربانی مجدد الف ثانی نے لکھا ہے ’’ جو علوم کہ فنافی اﷲ اور بقا بااﷲ سے تعلق رکھتے ہیں، حق تعالیٰ نے اپنی عنایت سے وہ ظاہر فرما دیے ہیں اور اسی طرح خادم نے معلوم کرلیا ہے کہ ہر چیز کی وجہ خالص کیا ہے اور سیر فی اﷲ کے کیا معنیٰ ہیں اور تجلی ذاتی برقی کیا ہوتی ہے اور محمدی مشرب کون ہے اور اسی قسم کی دوسری چیزیں۔ ‘‘

(مکتوباتِ مجدد الف ثانی، دفتر اول، مکتوب 12)

امام ربانی نے اپنے ایک روحانی تجربے کے بارے میں بھی اپنے مرشد برحق کو لکھا ہے کہ ’’ جب سے اس خاکسار کو صحو میں لائے ہیں اور بقا عطا فرمائی ہے، عجیب و غریب علوم و معارف جو پہلے متعارف نہیں تھے، پے در پے و مسلسل  وارد ہورہے ہیں، ان میں سے اکثر قوم یعنی صوفیا کرام کے قول اور ان کی مروجہ و مستعمل اصطلاح کے ساتھ موافقت نہیں رکھتے۔ مسئلہ وحدت الوجود اور اس کے متعلقات کی نسبت جو کچھ ان حضرات نے بیان کیا ہے اس خاکسار کو اس حال سے ابتدا میں ہی مشرف کردیا گیا اور کثرت میں وحدت کا مشاہدہ حاصل ہوا۔ پھر اس مقام سے کئی درجے اوپر لے گئے اور اس ضمن میں کئی قسم کے علوم کا افادہ نصیب ہوا۔ ‘‘

(مکتوباتِ مجدد الف ثانی، دفتر اول، مکتوب 8) ‘‘

چشم نابینا سے مخفی معنی انجام ہے

تھم گئی جس دم تڑپ سیماب سیم خام ہے

            چشم نابینا ‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو حقیقت کو نہیں جانتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان ہر وقت عشق الٰہی کی آگ میں جلتا رہے۔ اگر انسان عشق الٰہی کی آگ یا تپش یا تڑپ سے محروم رہے گا تو پھر انسان کیسا۔ سیماب تڑپ سے محروم ہوکر سیم خام رہ جاتا ہے۔ یہی حال روح کا ہے جو عشق سے محروم ہوکر عشق کہلانے کی مستحق نہیں رہ جاتی۔

توڑ دیتا ہے بت ہستی کو ابراہیم عشق

ہوش کا دارو ہے گویا مستی تسنیم عشق

عشق کی حیثیت حضرت ابراہیم جیسی ہے جو بت شکن واقع ہوئے تھے۔ اس لیے وہ ’ بت ہستی ‘ یعنی ظاہری وجود کو مرضی الٰہی کے تابع کردیتا ہے۔ راقم الحروف نے لکھا ہے :

’’ فنا فی اللہ : سالک کا اپنی خودی کو حق میں نیست و نابود اور فنا کردینا مراد ہے چاہے یہ کیفیت ذکر و شغل کے سبب پیدا ہو یا من جانب اللہ۔ فنا فی الرسول : کہتے ہیں کہ سالک اپنے آپ کو وجود رسول میں فانی کردے اور اپنے وجود کو رسول کی صورت پر جانے۔ صوفیا نے بھی لکھا ہے کہ اس حال میں سنت کا اتباع عادتاً ہونے لگتا ہے۔ ‘‘

(تصوف اور بھکتی کی اہم اصطلاحات، ص 268)

اقبال جس تصوف کو مانتے تھے اور سوامی جی جس بھکتی کے قائل تھے اس میں اتحاد فکر کے ساتھ یہ اختلاف پوشیدہ ہے کہ اقبال کے نزدیک نفی ہستی کا مفہوم دنیا میں رہتے ہوئے خود کو ہر قسم کے رذائل سے پاک کرنا تھا اور سوامی جی کے نزدیک ’’ پران تیاگ دینا ‘‘


Shamim Tariq

---



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں