29/4/21

عصری حسیت اور ساتویں دہائی کی اہم ہندی کہانیاں - مضمون نگار: فیضان حسن ضیائی

 


ساتویں دہائی کا عرصہ ہندی افسانوی ادب کا سنہرا دور تسلیم کیا جاتا ہے۔جہاں ایک طرف سماجی مسائل کی حکایت تھی تو دوسری جانب انسان کی ذات کا کرب بھی سمویا جا رہا تھا۔جس کی وجہ سے افسانے کا موضوع ترقی پسندی کی خارجیت سے باہر نکل کر داخلیت کا متقاضی ہو رہا تھا۔اروو میں جہاں جدیدیت کے رجحان نے افسانے کے ٹرینڈ میں تبدیلی پیدا کی تو وہیں ہندی میں نئی کہانی آندولن کے زیر اثر نئی تہذیب کے نئے تقاضوں کو جدید زاویہ نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی ۔اس عہد میں تبدیلی کا رجحان بھی بڑھا اور تجربات بھی کیے گئے۔رسم و رواج میں تبدیلی،انسان کے فطری تقاضوں مثلاً جنسی آسودگی،محبت کا نیا مفہوم جس میں سڑکوں ہوٹلوں اور پارکوں کوبھی جگہ ملی۔اعلی سوسائٹی کی چمک دمک اور روشن خیالی کے نام پر مرد و عورت کے رشتوں کی نئی معنویت بھی ابھر کر سامنے آئی۔  لہٰذا نئی کہانی آندولن کے زیر اثر لکھنے والے مصنّفین نے زمانے کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے موضوعات،نقطئہ نظر،فلسفہ حیات،ہیئت اور اسلوب میں تبدیلی کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔اس حوالے سے معروف فکشن نگارکملیشور کے احساسات بھی ملاحظہ کیجیے:

ــــ’’ صدیوں جھوٹی بنی رہنے کے بعد اب کہانی سچی ہو گئی ہے۔صدیوں کے اس پاپ سے نجات پانے کے لیے کہانی کو خود اپنے آپ سے اوراپنے چاروں طرف کے ماحول سے زبردست جہاد کرنا پڑا ہے۔وقت اور بنی نوع انسان کے تفکرات کو اپنے دائرہ میں سمیٹ کرکہانی نے ایک انتہائی زور دار اور موثر ادبی صنف کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔رفتہ رفتہ کہانی نے سبھی انسانی فکروں کو اپنے دائرہ میں سمیٹ لیا جو دور حاضر کے اہم مسائل ہیں اور جو ہر ذی ہوش انسان کو ذہنی اور روحانی طور پرپریشان کرتے ہیں۔‘‘ (ہندی کہانی کا سفر : رسالہ معلم اردو،لکھنئو،ہندی کہانی نمبر،نومبر1984، ص 6)

یہ مشینی دور تھا جس میں یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ انسا ن کی وقعت کم ہو رہی ہے بلکہ انسان اپنی شناخت کھوتا جارہا ہے اور اس احساس نے انسان کو تنہائی کے کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔اس عہد کی ایک بڑی تبدیلی یہ بھی ہے کہ عورتیں گھر کی چہار دیواری سے باہر نکل کر خود کفیل ہورہی تھیں۔تعلیم نے خواتین کو اپنے بارے میں سوچنے اور اپنے وجود کا احساس کرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ ماحولیاتی، نظریاتی اور موضوعاتی صورت حال کی تبدیل ہوتی ہوئی فضا میں کئی کہنہ مشق اور جدید افسانہ نگار ابھر کر سامنے آئے جنھوں نے پرانے اصولوں، پرانی اخلاقیات، پرانے موضوعات اور نظریات سے انحراف کو اپنا امتیاز جانا۔ بھیروپرساد گپت کے زیر ادارت شائع ہونے والا ماہنا مہ ’کہانی ‘ نے اس نئی فکر کے لیے ایک مثبت فضا قائم کی۔ اس دہائی کے افسانہ نگاروں کے حوالے سے ڈاکٹر نامور سنگھ کی یہ رائے بھی اہم ہے:

 ’’ ساتویں دہائی کے افسانہ نگاروں نے کہانی کی روایات سے حاصل شدہ سچائیوں کو متروک قرار دیا اور اوسط آدمی کی عام زندگی پر مطلق احساس،اجنبیت و جلا وطنی،انسانیت سے بعید سلوک اور خوف و ہراس کی عمیق ترین گہرائیوں میں جھانکے کا جتن کیا جن سے اب تک آنکھ چرائی جاتی تھی۔‘‘  (ہندی افسانے :ڈاکٹر نامور سنگھ،نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا،دہلی، 1971، ص 316)

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس عہد میں کئی رجحانات پیدا ہوئے۔ان کے نام تو مختلف تھے لیکن یہ رجحانا ت فکری اور نظریاتی اعتبار سے بے حد قریب تھے۔اس لیے کہانی ہو یا سمانتر کہانی،یا نئی کہانی اپنی مقصدیت اور منہاج کے اعتبار سے ان میں زیادہ فرق نہیں تھا۔بقول طارق چھتاری :

’’ نئی کہانی کے علاوہ ’ اکہانی، سچیتن کہانی ‘ اور سمانتر کہانیاں بھی لکھی گئی ہیں مگر موضوعات،اسلو ب اور زبان و بیان کے لحاظ سے یہ سارے رجحانات ’ نئی کہانی ‘ سے مختلف نہیں ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ وقتا ً فوقتاً تحریک کے نام بدلتے رہے تھے۔سچیتن کہانی کے زیر اثر جو لوگ کہانیاں لکھ رہے تھے ان کا اسٹائل،موضوع، زبان، پس منظر غرضیکہ کچھ بھی نئی کہانی سے مختلف نہیں تھا۔‘‘ 

(جدید افسانہ : اردو ہندی، طارق چھتاری، ص،166،برائون بک پبلی کیشن،نئی دہلی2015)

  اس دہائی میں اپنی شناخت مسحکم کرنے والوں میں راجندر یادو، کملیشور،موہن راکیش، نرمل ورما، بھیشم ساہنی، گیان رنجن، منو بھنڈاری، دودھ ناتھ سنگھ،بلونت سنگھ، وکاشی ناتھ سنگھ غیرہ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔یہا ں میں چند ایسے افسانہ نگار او ر ان کے افسانوں کا ذکر رہاہوں جو اس دہائی میں خصوصیت سے یاد کیے جاتے ہیں۔

راجندر یادو: ممتاز فکشن نگار،صحافی، دانشور، ترقی پسند تحریک سے وابستہ اور نئی ہندی کہانی کے بنیاد گزار راجندر یادو  کا شمار ہندی ادب کے ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہندی ساہتیہ کو ایک منفردمقام عطا کیا ہے۔ انھوں نے نہ صرف افسانے لکھے بلکہ افسانہ نگار کی نئی نسل کی تربیت بھی کی۔ان کا ادبی سفر کئی دہائیو ں پر محیط ہے۔ ان کے کارنامے کسی ایک صنف ادب تک محدود نہیں بلکہ علم و فن کے دیگر شعبوں میں بھی موصوف کی گراں قدر خدمات موجود ہیں۔ہندی افسانوں میں ان کے مجموعے  کھیل کھلونے(1953)، جہاں لکشمی قید ہے (1957)،  ابھیمنیو کی آتم ہتیا (1959)، چھوٹے چھوٹے تاج محل (1961)، کنارے سے کنارے تک (1962)، ٹوٹنا (1966) وغیرہ اہم یادگار ہیں۔ان کے علاوہ دیگر کہانیوں کے مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں جو مختلف نمائندہ کہانیوں پر مشتمل ہیں۔ راجندر یادو کی کہانیاں زندگی کے لمحات، واقعات اور تاثرات کو اپنی گرفت میں رکھتی ہیں۔کہانی کے فن پر انھیں بے پناہ قدرت ہے اور قاری کو ہم خیال بنانے کا گر بھی انھیں خوب آتا ہے۔عام طور پر ان کے کردار سماج کے ٹوٹے اور تھکے ہارے لوگ ہیں جو زندگی کے مختلف شیڈس میں نظر آتے ہیں۔

کملیشور: ساتویں دہائی میں اپنی شناخت مستحکم کرنے والوں میں کملیشور ایک معتبر نام ہے۔ مختلف الجہات خوبیوں کے مالک،ٹیلی ویژن آرٹسٹ،ساریکا جیسے معیاری رسالے کے مدیر اور معر کۃ الآرا ناول کے خالق ہونے کے ساتھ نئی ہندی کہانی کے ایک اہم ستون ہیں۔جنہوں نے فکری سطح پر اہم موضوعات کی طرف توجہ کی ہے۔ ماحول اور زمانے کی بدلتی ذہنیت،اخلاقی اور جذباتی قدروں کی پامالی اور شہری زندگی کے بنیادی مسائل کو شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے۔ ان کی پہلی کہانی ’کامریڈ‘ ایٹہ سے شائع ہونے والا رسالہ ’ اپسرا‘ میں (1950)  شائع ہوئی تھی۔کہانیاں لکھنے کا ابتدائی احساس کملیشور یوں بیان کرتے ہیں:

’’جب سے اپنے چاروں طرف کی دنیا کو دیکھنا شروع کیا تو پایا کہ کہیں کچھ بدل نہیں رہا تھا اس لیے مجھے بدلنا پڑا۔مجھے میرے چاروں طرف کی سچائیوں نے بدل دیا۔دسواں پاس کرتے کرتے انقلابی سماجی پارٹی کے رابطے میں آیا۔مارکسزم کی فعال پاٹھ شالا میں شامل ہوا اور ’ جن کرانتی‘ میں شہیدوں کی سوانح حیات پر چھوٹے چھوٹے مضمون لکھنے شروع کیے۔‘‘

(فرقہ ورایت اور اردو ہندی افسانے،محمد غیاث الدین، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائو س،دہلی 1999، ص 255)

کملیشور کے تخلیقی کارناموں کی بڑائی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی قدر شناسی مختلف مکتبہ خیال کے اہل ذوق نے کی ہے۔بلا شبہ انھوں نے ہندی کہانی کو ایک نئی سمت دے کر اپنی انفرادیت کا اعتراف کروایا ہے۔کرشن چندر کی یہ رائے بھی ملاحظہ کیجیے:

’’ جدید ہندی افسانے میں کملیشور نے بہت نمایاں رول ادا کیا ہے۔وہ اسے گھر کی چہار دیواری سے نکال کر کھیت، چوپال، سڑک اور فٹ پاتھ پر لے آیا ہے... مشکل لہجے میں بات کرنا آسان ہے لیکن آسان لہجے میں پیچیدہ اور مشکل بات کرنا بہت مشکل ہے۔کملیشور نے اپنی حسی قوت سے اس مسئلے کو بخوبی حل کر لیا ہے۔‘‘ (ایضاً)

کرشن چندر کے اس تاثراتی اقتباس کی روشنی میں کملیشور کی کہانی ’ کھوئی ہوئی دشائیں‘ پر نظر ڈالتے ہیں۔ کملیشور نے اس کہانی میں شہر کی مصروف ترین زندگی میں ایک فرد کی ذہنی کشمکش کو قارئین کے حوالے کیا ہے۔کہانی کا مرکزی کردار چندر ایک ایسا نوجوان ہے جو الہ آباد جیسے چھوٹے شہر سے ملک کی راجدھانی دہلی آتا ہے۔شہری زندگی کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ انسان خود اپنی دنیامیں مگن ہے ایسے میں شناسا چہرے بھی اجنبی معلوم ہوتے ہیں جہاں وہ خود اپنی ذات کی تلاش میں بے سمتی کا سفر کرتا نظر آتا ہے۔جہاں دماغ اور پیٹ کا ساتھ بھی ایسا ہو گیا ہے کہ سوچنے پربھی بھوک لگتی ہے۔

’’ اور تبھی چندر کولگا کہ ایک عرصہ ہو گیا،ایک زمانہ گزر گیا، وہ خود سے بھی نہیں مل پایا...یہ بھی نہیں پوچھا کہ آخر تیرا حال کیا ہے اور تجھے کیا چاہیے،نہ جانے کیوں من خود سے ملنے میں گھبراتا ہے۔رہ رہ کر کتراتا ہے۔ 

(کھوئی ہوئی دشائیں : کملیشور۔ایک دنیا سمانانتر، مرتب راجندر یادو، 1993، ص 142)

کہانی میں چندر کی محبوبہ اندرا اس کے لاشعور میں بسی رہتی ہے وہ اندرا جس سے چندر کو قلبی لگائو تھا۔جس سے آنکھیں ملائے اسے سکون میسر نہیں ہوتا لیکن اسے اپنی معاشی تنگی کا بخوبی اندازہ تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اندرا اس کی شریک حیات بننے کے بعد پتھروں پر چلے اور کانٹوں بھری زندگی کا سامنا کرے اس لیے نرملا اس کی زندگی میں شریک حیات بن کر آتی ہے گزرے ہوئے لمحوں کی یادیں چندر کو ذہنی تنائو میں مبتلا کر دیتی ہیں وہ نرملا میں اندرا کا عکس دیکھنا چاہتا ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ملتی اور وہ ذہنی کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے۔

موہن راکیش: (1925 تا 1972) موہن راکیش بھی نئی ہندی کہانی کے اہم ستون ہیں۔ ان کا ادبی سفر نہ صرف افسانوی ادب تک محدود رہا بلکہ ناول، تنقید،اور ڈرامہ نگار کی حیثیت سے بھی ان کی شناخت ادبی حلقوں میں محفوظ رہی ہے۔موہن راکیش کے یہاں موضوعات کی مختلف جہتیں نظر آتی ہیں۔فرد معاشرہ اور وقت کے نشیب و فراز کے پیچیدہ مسائل نے راکیش کو فکری سطح پر اپنی گرفت میں رکھا ہے۔ان کی کہانیوں میں فرسودہ اور غیر حقیقی رسم و رواج کا اختلاف نمایاں نظر آتا ہے۔موہن راکیش لکھتے ہیں۔

’’ میرے لیے تجربے کا سیدھا راستہ میری سچائیوں سے ہے اور سچائی ہی میرا زمانہ ہے اور ماحول۔ آدمی سے خاندان خاندان سے قوم اور قوم سے انسانی معاشرے کا پورا دائرہ۔میں ان میں سے کسی ایک سے کٹ کر باقی سے منسلک نہیں رہ سکتا۔اپنے پاس کے ماحول سے آنکھ ہٹا کر دور کی فضا ؤں میں جی نہیں سکتا۔‘‘

(بحوالہ فرقہ واریت اور اردو ہندی افسانے، محمد غیاث الدین، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی 1999، ص 248)

راکیش کے خیال میں عصری مسائل و معاملات پر توجہ مرکوز رکھنا اہم فریضہ ہے  گزرے ہوئے زمانے پر آنسو بہانا بے سود ہے۔درج بالا اقتباس کی روشنی میں ان کی کہانی ’ ایک اور زندگی ‘ پر نظر ڈالتے ہیں۔کہانی ایک اور ز ندگی  دو بیویوں کے درمیان ایک شخص کی بے مزہ زندگی کی ذہنی اور نفسیاتی کشمکش کو اجاگر کیا گیا ہے۔معاشرے میں پنپنے والے جدید ذہن نے میاں بیوی کے درمیان روایتی زندگی گزارنے کے عمل کو جس طر ح مسمار کیا ہے اور جو خوفناک نتائج دن بہ دن ہمارے سامنے آرہے ہیں اس کی تصویر یہاں دکھائی دیتی ہے۔اس کہانی میں وینا پرکاش کی پہلی بیوی کی شکل میں سامنے آتی ہے جس سے ایک بیٹا بھی ہے۔وینا ایک تعلیم یافتہ،خود دار،ماڈرن اور اپنی شخصیت سے پر اعتماد لڑکی ہے۔معاشی اعتبار سے بھی وینا پرکاش سے مضبوط ہے۔وہیں پرکاش بھی اپنی شخصیت کے سلسلے میں بیدار ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے مسائل بھی پہاڑ بن جاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور بالآخر الگ الگ زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ اس درمیان ایک بچے کی ولادت ہوتی ہے جسے خود وینا ایک آکسمک گھٹنا تسلیم کرتی ہے۔

نرمل ورما: ساتویں دہائی کا ایک اہم ترین نا م نرمل ورما بھی ہے۔نرمل ورما نے اپنے عہد کو جس طرح سمجھا اور سمجھ کر جس طرح اپنی کہانیوں میں برتا ہے وہ ان کی انفرادیت کا ایک اہم باب ہے۔شہری زندگی،پہاڑ، جنگل،سفر اور پردیس کے پس منظر میں ان کی کہانیوں نے تنہائی، رشتے، ناطے اور ذات کی تہہ داریوں کا بہت قریب سے مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے۔ ان کی کہانیاں عصری زندگی کی پیچیدگیوں کی آگہی اور بصیرت میں قاری کو شریک کر لیتی ہیں ڈاکٹر نامور سنگھ، کتے کی موت، مایا درپن اور لندن کی ایک رات کے پس منظر میں انھیں پرگتی شیل کہانی کار تسلیم کرتے ہیں۔وہیں ان کی مشہور زمانہ کہانی ’ پرندے ‘کو نئی کہانی کا نقطہ آغاز بھی بتاتے ہیں۔ آئیے اس کہانی پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ کہانی ’ پرندے‘‘ آزادی کے بعد ایک مخصوص طبقے میں پنپنے والی نفسیاتی اور ذہنی کشمکش کا کامیاب اظہار ہے۔ اس کا مرکزی کردار لتیکا ہے جو اسکول کی ٹیچر بھی ہے اور وارڈن بھی۔یہاں آنے کے بعد اس کی زندگی ایک محدود دائرے میں سمٹ گئی ہے۔جس کی وجہ میجر گریش نیگی سے اس کی ملاقات ہے۔ڈاکٹر مکر جی نے ایک تقریب میں لتیکا کو گریش نیگی سے متعارف کرایا تھا۔اس ملاقات کا اثر لتیکا پر یوں ہوتا ہے کہ گریش نیگی کو وہ اپنے مستقبل کا حصہ تصور کرنے لگتی ہے۔لیکن میجر نیگی اس اسکول کے علاقے سے کشمیر گئے تو پھر لوٹ کر نہیں آئے۔یہی وہ کرب ہے جو لتیکا کے لیے تنہائی کا سبب بن جاتا ہے اور وہ سردیوں کی طویل چھٹیاں بھی ہاسٹل میں گزار دیتی ہے کہ شاید میجر نیگی لوٹ آئیں۔ گویا محبت میں اس ناکامی کے باوجود وہ اپنی خوبصورت یادوں کو سینے سے لگائے رکھنا چاہتی ہے اور اسی کے سہارے اپنی زندگی کا سفر بھی طے کرنا چاہتی ہے۔بقول کہانی کار:

’’ لتیکا کو لگا جو وہ یاد کرنا چاہتی ہے وہی بھولنا بھی چاہتی ہے۔لیکن جب وہ سچ مچ بھولنے لگتی ہے تب اسے خوف آتا ہے جیسے کوئی چیز اس ہاتھوں سے چھین لے جارہا ہے۔ایسا کچھ جو سدا کے لیے کھو جائے گا۔من میں جب کبھی وہ اپنے کسی کھلونے کو کھو دیا کرتی تھی تو وہ گم سم  سی ہو کر سوچا کرتی تھی کہ کہاں رکھ دیا میں نے ؟ جب بہت دوڑ دھوپ کرنے پر کھلونا مل جاتا تو وہ بہانا کرتی کہ ابھی اسے کھوج رہی ہے۔

جس جگہ پر کھلونا رکھا ہوتا جان بوجھ کر اسے چھوڑ کر گھر کے دوسرے کونوں میں اسے تلاش کرتی ہے۔تب کھوئی ہوئی چیز یاد رہتی، اس لیے بھولنے کا خوف نہیں رہتا تھا۔ آج وہ بچپن کے اس کھیل کا بہانہ کیوں نہیں کر پاتی۔بہانہ شاید کرتی ہے۔ اسے یاد کرنے کا بہانہ جو اسے بھولتا جا رہا ہے ...دن مہینے بیت جاتے ہیں اور وہ الجھی رہتی ہے، انجانے میں گریش کا چہرہ دھندلا پڑ جاتا ہے۔ یاد وہ کرتی ہے لیکن جیسے کسی پرانی تصویرکے دھول بھرے شیشے کو صاف کر رہی ہے اب ویسا درد نہیں ہوتا صرف اس درد کو یاد کرتی ہے جو پہلے کبھی ہوتا تھا تب اسے اپنے اوپر شرمندگی ہوتی ہے۔وہ پھر جان بوجھ کر اس زخم کو کریدتی ہے جو بھرتا جا رہا ہے، خود بخود اس کی کوششوں کے باوجود بھرتا جا رہا ہے۔‘‘

(پرندے: نرمل ورما، بحوالہ ایک دنیا سمانانتر: راجندر یادو، ص 186)

 لتیکا کی دلچسپی کسی دوسری جانب نہیں ہوتی لیکن ہیوبرٹ دل ہی دل میں اس کے لیے جذبہ ہمدردی اور الفت کا اظہار بھی ایک خط میں کر چکے ہیں۔ڈاکٹر مکھرجی بھی لتیکا میں لاشعور ی طور پر دلچسپی کا اظہار اس طرح کرتے ہیں۔

’’   مس لتیکا میں کبھی کبھی سوچتا ہوں، کسی چیز کو نہ جاننا اگر غلط ہے تو جان بوجھ کر نہ بھول پانا ہمیشہ جونک کی طرح چپٹے رہنا یہ بھی غلط ہے۔برماسے آتے وقت جب میری بیوی کا انتقال ہوگیا تھا، اس وقت مجھے اپنی زندگی بے کا ر سی لگنے لگی تھی۔آج اس حادثے کو عرصہ گزر گیا اور جیسا آپ دیکھتی ہیں،میں جی رہا ہوں۔ امید ہے کہ عرصہ دراز تک یوں ہی جیتا رہوں گا۔ زندگی کافی دلچسپ لگتی ہے۔اور اگر عمر کی مجبوری نہ ہوتی تو شاید میں دوسری شادی کرنے میں بالکل نہ ہچکچا تا۔‘‘ 

(پرندے: نرمل ورما، ایک دنیا سمانانتر، راجندر یادو، نئی دہلی، 1993، ص 191)

میجر، ہیوبر ٹ،ڈاکٹر مکھرجی اور تمام لوگ اپنے دل کے نہا خانے میں لتیکا کے لیے جذبہ محبت تو رکھتے ہیں لیکن محبت کی حقیقی تعریف پر کھرا نہیں اترتے۔یہ سبھی موسمی پرندے ثابت ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ اپنے اپنے سفر پر رواں دواں نظر آتے ہیں ہیں۔ بقول طارق چھتاری:

’’ اس کہانی کا عنوان بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ آج کا انسان ان پرندوں کی مانند ہے جو ہر موسم سرما میں انجان میدانوں کی جانب سفر کرتے ہیں،راہ کی کسی پہاڑی پر لمحے بھر کے لیے رکتے ہیں اور پھر آگے بڑھ جاتے ہیں۔جن کی زندگی کا سفر ایک محدود دائرے میں (ذات کے دائرے میں ) چکر کاٹتا رہتا ہے۔،بے مقصد اور اپنے اپنے درد کو دل میں چھپائے...!

(جدید افسانہ: اردو ہندی، طارق چھتاری، ص 166)

یہ ایک ایسے کردار کی کہانی ہے جو محبت میں ملے زخم کو اپنے دل میں ہمیشہ تازہ رکھنا چاہتی ہے۔وہ مختلف پروگراموں میں شامل ہوتی ہے۔زندگی کے معمولات طے ہوتے رہتے ہیںلیکن اس کے اندر کا کرب ہمیشہ تازہ رہتا ہے اور جب کبھی یہ زخم مندمل ہوتا ہے وہ اسے کرید کر تازہ کر دیتی ہے۔کہانی کار نے اسے ایک لڑکی نہیں بلکہ ادھیڑ عمر کی عورت کی شکل میں پیش کیا ہے۔محبت کی راہ میں ایک زخم خوردہ دل کی حسیت کو کہانی کار نے ایک نئے زاویہ نگاہ سے دیکھنے کی ایک کامیا ب کوشش کی ہے۔ٍ

منو بھنڈاری : ہندی افسانوی ادب میں خواتین افسانہ نگاروں کے درمیا ن منو بھنڈاری ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ اکیلی ، ایک پلیٹ سیلاب ،یہی سچ ہے ، عیسی کے گھر انسان ، مکتی اور سیانی بوا ان کے قابل ذکر افسانے ہیں۔ انھوں نے عورتوں کے طرز معاشرے،توہم پرستی، کھوکھلے رسم و رواج اور ان پر غیر ضروری پابندیوں کے خلاف آوازیں بلند کی ہیں۔معاشرے کے بنیادی مسائل (خاص کر عورتو ں کے حوالے سے ) کا مشاہدہ کرنے کے بعد عورتوں کی اپنی ضرورتیں،ان کے مساویانہ حقوق، نوجوان لڑکیوں کے جنسی اور نفسیاتی مسائل وغیر ہ کو نہایت فنکارانہ ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔آ ئیے کہانی ’یہی سچ ہے‘ پر نظر ڈالتے ہیں۔مغربی تہذیب کے زیر اثر جدید عہد میں عورتوں کی طرز زندگی نے جسمانی اور روحانی طور پر جو آزادانہ روی اختیار کی ہے اس کی تصویر کہانی ’’ یہی سچ ہے ‘‘ میں نمایاں ہے۔اس کہانی میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکی کا ایک آزادانہ کردار ہمارے سامنے آتا ہے۔وہ بیک وقت دو لڑکوں سے عشق کرتی ہے۔ اور دونوں کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات اسے سکون بخشتے ہیں جب وہ کانپور میں رہتی ہے تو تو سنجے میں ہی اسے زندگی کے ہر رنگ نظر آتے ہیں اور جب کلکتہ کا سفر کرتی ہے تو قدیم ہم جماعت نشیتھ میں کشش محسوس کرنے لگتی ہے۔

کہانی میں دیپا کا کردار عصری مسائل کی بھر پور ترجمانی کرتا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ آج کے عہد میں ہمارے ارد گرد کئی ایسے معاملات پیش آتے ہیں جب ایک لڑکی دو لڑکوں سے وابستہ پائی جاتی ہے۔ یہ مسائل خون خرابے کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔یہ ایک انوکھا کردار ہے جو لڑکی کی نفسیات پر غور کرنے کو مجبور کرتا ہے۔ اس میں ایک جانب آج کے دور میں ایک لڑکی کی آزاد خیالی اور خود مختاری کی بات پوشیدہ ہے تو دوسری جانب وہ جس کے قریب ہوتی ہے اسی میں کشش محسوس کرنے لگتی ہے۔اس کہانی میں دیپاکا کردار عشق کی ایک ایسی حقیقت لے کر ابھرتا ہے جو حالات کے تابع ہے۔طارق چھتاری کے مطابق:

’’ منو بھنڈاری نے یہ کہانی لکھ کر ثابت کردیا کہ عشق کی Reality وہ نہیں ہے جو اب تک ہندی کہانی میں پیش کی جاتی تھی بلکہ یہ ہے جو اس کہانی کی دیپا کے ساتھ گزر ی ہے۔

کچھ اس طرح کا خیال میرا سیکری کا بھی ہے۔

’’ کہانی کی سب سے بڑ ی خوبی یہ ہے کہ یہاں عورت ایک مختلف روپ لیے،ایک آزاد شخصیت لیے سامنے آتی ہے،عورت کا یہ روپ ہندی کے لیے ایک دم نیا ہے۔‘‘  (جدید افسانہ: اردو ہندی، طارق چھتاری، ص 166)

 گیان رنجن : گیان رنجن بھی اس عہد سے تعلق رکھنے والے ایک معتبر افسانہ نگار ہیں۔ان کی کہانیوں میں واقعات اور کردار عام زندگی سے اخذ کیے گئے ہیں۔ انھوں نے زندگی کی مختلف جہات کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔ان کے افسانے اپنے دور میں عصری حسیت اور خود آگہی کے حامل رہے ہیں۔میرے پیش نظر ان کی کہانی ’ فینس کے ادھر اور ادھر ‘ ہے فینس ایک ٹوٹی ہوئی دیوار ہے جو دو تہذیبوں کی علامت ہے۔یعنی ایک وہ تہذیب جو پرانی قدروں کی حامل ہے اور دوسری وہ جو نئی قدروں پر مشتمل ہے۔یہ کہانی در اصل بدلتے سماجی سروکا رکی کہانی ہے۔جس میں پرانے پڑوسی مکھرجی کے تبادلے کے بعد نئے پڑوسی قیام پذیر ہیں جن کا ایک مختصر کنبہ ہے۔جب سے نئے پڑوسی آئے ہیں وہ لوگ اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں اپنے ہمسایہ اور آس پاس کے لوگوں سے ان کا کوئی میل جول نہیں رہتاہے۔ دوسری جانب دیوار کے اس پار کی دنیا اس کی خیر و خبر رکھنا چاہتی ہے۔ان کے بارے میں مسلسل گفتگو کرتی ہے اور دلچسپی لیتی ہے۔اس کے ذہن میں بار بار یہ خیال آتا ہے کہ ان سے رابطہ کیسے قائم ہو۔لیکن دوسری جانب کے لوگ اپنے ہمسایہ کی فکروں سے بے خبر اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں اور اپنے ہمسایہ میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔موجودہ معاشرے میں ایک دوسرے سے لا تعلقی اور نئی پرانی قدروں کے بکھرائو کو کہانی کار یو ں بیان کرتا ہے۔

’’...بڑے شہروں میں ایک دوسرے سے بے تعلق اور اپنی ذات میں محصور رہنے کی جو خاصیت پائی جاتی ہے غالباًہمارے یہ پڑوسی اسی خاصیت اور فطرت کے حامل ہیں۔یہ شہر اور یہ محلہ دونوں پر سکون ہیں۔یہا ں لوگ آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور نسبتاً لاابالی سے چہل قدمی کرتے ہیں کیونکہ یہاں کی زندگی میں کوئی ہلچل نہیں ہے۔اسی لیے ہمیں اپنے پڑوسی عجیب لگتے ہیں۔میں باہر نکلتا ہوں وہ لوگ صبح کی چائے پی رہے ہوتے ہیں۔میاں بیوی کے علاوہ ایک لڑکی بھی ہے جو غالباً ان کی بیٹی ہے۔ یہی تین فرد ہمیشہ نظر آتے ہیں۔ان کے یہاں شاید چوتھا کوئی نہیںہے۔ لڑکی اگر چہ خوبصورت تونہیں لیکن سلیقہ شعار معلوم ہوتی ہے۔ڈھنگ سے میک اپ کرے تو شاید خوبصورت بھی نظر آئے،میں دیکھتا ہوں کہ وہ اکثر ہنستی رہتی ہے۔اس کے ماں باپ بھی ہنستے رہتے ہیں۔وہ سب ہمیشہ خوش و خرم نظر آتے ہیں۔وہ کس قسم کی باتیں کرتے ہیں اور وہ کیوں ہمیشہ ہنستے رہتے ہیں ؟ کیا ہر وقت ہنستے رہنے کے لیے ان کی زندگی میں ان گنت خوشگوار واقعات ہیں ؟ کیا وہ زندگی کے پر پیچ اور حقیقی مسائل سے غافل ہیں ؟ مجھے حیرت ہوتی ہے اورمیںاپنے گھر کے افرا د کا ان لوگوںسے موازنہ کرنے لگتا ہوں۔

(فینس کے ادھر اور ادھر، گیان رنجن، بحوالہ ہندی افسانے، ص 213-14)

کہانی کا میں ‘ دل ہی دل میں اس لڑکی سے عشق کر بیٹھتا ہے۔لیکن اس کی شادی کہیںاور ہو جاتی ہے۔دودھ والے سے شادی ہونے کی خبر تو مل گئی لیکن والدین سے جدائی کی اس گھڑی میں اس کی آنکھوں میں ایک بوند آنسو نہ تھے۔یہ حیرت ناک منظر دیکھ کر ما ں کی کربناک آواز دیکھیے  ؎

’’ پیٹ کاٹ کر جنھیں پالو پوسو ان کی آنکھوں میں ایک بوند آنسو بھی نہیں۔

جدید عہد کے اس المیے کو کیا کہیے ؟ بہت پہلے اقبال نے مشینوں کی حکومت کو دل کے لیے موت قرار دیا تھا آج جنریشن گیپ اس طرح حاوی ہے کہ پڑوسی کی شادی محبتیں اور رسمیں بھی جنریشن گیپ کی نذر ہوگئیں۔پتا جی کہنے لگے۔

’’ قدیم زمانے میں لڑکیاں رخصتی کے وقت بے تحاشا رویا کرتی تھیں...پتا جی کو بڑا درد ہوتا ہے کہ آج ویسا نہیں ہے۔۔پرانا زمانہ رخصت ہو رہا ہے

 اور آدمی کا دل مشین ہو گیا ہے۔

اس صورت حال سے تشویشناک حد تک دادی متاثر ہوئیں وہ زیر لب بڑا بڑا رہی ہیں۔ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ شادی بیاہ ایسے بھی ہوتا ہے۔ان کا لہجہ تلخ ہو اٹھا۔

’’...پھر ایسے موقع پر پڑوسی کو نہ پوچھنا،واہ رے انسانیت ! رام رام۔ (ایضاً، ص 217)

پروفیسر لطف الرحمن نے بجا لکھا ہے     ؎

اتنا  چپ چاپ تعلق پہ  زوال آیا  تھا

دل ہی رویا ہے نہ چہرے پہ ملال آیا تھا

ساتویں دہائی میں خصوصیت سے یاد رکھے جانے والے ان مذکورہ کہانی کاروں کے علاوہ بھی کئی اہم کہانیاں اور نام ہیں جنھوں نے ساٹھ کے بعد اپنا مقام بنایا اور ہندی کہانی کو ہیئت، اسلوب، موضوعات اور فن کی سطح پر اعتبار بخشا ہے۔جن میں رویندر کالیہ، کاشی ناتھ سنگھ، شری کا نت ورما، مہرالنسا پرویزدودھ ناتھ سنگھ،ناصرہ شرما، عبد ل بسم اللہ،بلونت سنگھ وغیرہ کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے۔ جن کے یہاں انسان کی داخلی کیفیات بھی ہیں، سماجی حقیقت نگاری بھی اور اپنے عہد کا گہرا سیاسی و سماجی شعور بھی۔


Dr.Faizan Hasan Zeyai

S/O Late Dr Mozaffar Hasan Aali

MOH - Baradari, PO+PS Sasaram

Distt.: Rohtas - 821115 (Bihar)

E-mai . faizanzeyai.ssm@gmail.com

Mob   7631887356/ 7903399020



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں