28/3/24

کتابوں کی اشاعت اور فروخت کے امکانات کی تلاش کے ساتھ اقدامات پر بھی توجہ ضروری: پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین

 

اردو کتابوں کی اشاعت و فروخت کے ممکنہ طریقوں پر غور و خوض کے لیے جامعات کے شعبہ ہاے اردو کے صدور کی اہم میٹنگ

نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان میں اردو کتابوں کی اشاعت و فروخت کی صورتحال کو بہتر کرنے اور اس حوالے سے نئے امکانات پر غورو خوض کے لیے ایک اہم میٹنگ کا انعقاد کیا گیا،جس میں ہندوستان بھر سے مرکزی و ریاستی جامعات کے شعبہ ہاے اردو کے صدور نے شرکت کی اور انھوں نے اپنی قیمتی رائیں اور تجاویز پیش کیں۔اس میٹنگ کی صدارت جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، شعبۂ اردو کے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کی۔کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے تمام مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے اس میٹنگ کی غرض و غایت بیان کی اور کہا کہ قومی اردوکونسل سے ادب کے علاوہ تاریخ،سماجیات،سائنس،طب وغیرہ پر اب تک1433کتابیں شائع ہوئی ہیں،ان میں عام دلچسپی کے علاوہ  بہت سی کتابیں ایسی ہیں جن کی حیثیت حوالہ جاتی اور نصابی کتب کی ہے،جن کی ریسرچ اسکالرز اور اساتذہ کو ضرورت پڑتی رہتی ہے۔آج کی میٹنگ کا مقصد یہ ہے کہ ان کتابوں کو اردو اساتذہ،اسکالرز اور باذوق قارئین تک پہنچانے کے ممکنہ طریقوں پر غور کیا جائے اور ان  کی فروخت کے نئے امکانات تلاش کیے جائیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے کہ جامعات کے اساتذہ اس حوالے سے  ہمارا خصوصی تعاون کریں گے۔ انھوں نے بتایا کہ قومی اردو کونسل کی جانب سے مختلف سطح کے تعلیمی اداروں، تنظیموں اور قارئین کے ساتھ اس طرح کی میٹنگ آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔

اس میٹنگ کے شرکا  و مقررین کا متفقہ خیال  تھا کہ جدید ٹکنالوجی کے دور میں بھلے  ہی ایک بڑا طبقہ آن لائن فارمیٹ میں کتابوں کے مطالعے کی طرف منتقل ہوا ہے ،مگر مطبوعہ کتابوں کی اہمیت اب بھی برقرار ہے اور قومی اردو کونسل سے مختلف موضوعات پر ایسی کتابیں شائع ہوتی ہیں،جو اساتذہ اور اسکالرز دونوں کے لیے نہایت مفید  ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ نئی کتابوں کی اشاعت تبھی ممکن ہے، جب پہلے سے چھپی ہوئی کتابوں کی نکاسی ہو اور اس میں اردو اساتذہ و طلبہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔شرکا نے کہا کہ اردو کتابوں کی اشاعت اور خریداری کو بڑھانے کے لیے یونیورسٹی کے ریسرچ سکالرز کو ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے تعلیمی وظائف کا ایک حصہ کتابوں کے لیے ضرور مختص کریں۔چوں کہ نئی نسل کا ایک بڑا طبقہ ٹکنالوجی سے مربوط ہے ،اس لیے یہ رائے بھی سامنے آئی کہ  کتابوں کے ڈیجیٹائزیشن  پر توجہ دی جائے اور مطبوعہ کتابوں کے ساتھ ان کی سافٹ کاپی کی فروخت کے لیے بھی ایک میکانزم تیار کیا جائے،اسی طرح قارئین تک پہنچنے کے لیے جدید تکنیکی ذرائع مثلاً سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیا جائے۔ مقررین نے اس پر بھی زور دیا کہ کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ کلاس روم لیکچرز میں طلبہ کومطالعے کی طرف راغب  کیا جائے اورنصابی کتابوں کو عصری انداز میں شائع کیا جائے۔شرکا نے اس بات پر بھی زور دیا کہ طلبہ کے ساتھ اساتذہ کے درمیان بھی  کتابیں خریدنے کا عام رجحان فروغ پانا چاہیے،تاکہ طلبہ ان سے تحریک لیں۔ میٹنگ میں یہ طے کیا گیا کہ قومی اردو کونسل کی جانب سے تمام جامعات کے شعبہ ہائے اردو کو اس تعلق سے ایک خط بھیجا جائے جس پر شعبوں کے صدر اپنے رفقا اور اسکالرس کے ساتھ تبادلۂ خیال کرکے لائحہ عمل بنائیں گے۔

میٹنگ کے صدر پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین نے  اپنی صدارتی گفتگو میں کہا کہ تمام شرکا و مقررین کی تجاویز اور مشورے اہمیت کے حامل تھے، اب ان پر عملی اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ آج کی یہ میٹنگ لوگوں میں کتابوں سے قربت و دلچسپی پیدا کرنے کی تحریک  کاآغاز ہے، امید ہے کہ آپ حضرات کے تعاون سے یہ  تحریک کامیابی سے بھی ہم کنار ہوگی۔ انھوں نے اس کامیاب میٹنگ کے انعقاد کے لیے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال ، کونسل کے شعبہ خرید و فروخت کے انچارج جناب اجمل سعید اور متعلقہ اسٹاف کو مباکباد بیش کی۔ میٹنگ کے شرکا و اظہار خیال کرنے والوں میں پروفیسر احمد محفوظ(جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)، پروفیسر نجمہ رحمانی(دہلی یونیورسٹی، دہلی)، پروفیسر قمرالہدی فریدی(علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ)،پروفیسر عارفہ بشری (کشمیر یونیورسٹی)، پروفیسرشمس الہدی دریابادی(مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد)،پروفیسر شبنم حمید(الہ آباد یونیورسٹی)، پروفیسر شائستہ انجم نوری (پاٹلی پترا یونیورسٹی)،پروفیسر رضوان علی(رانچی یونیورسٹی)،پروفیسر سورج دیوسنگھ(پٹنہ یونیورسٹی)،پروفیسر اسلم جمشید پوری (چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی،میرٹھ)،پروفیسر سید فضل اللہ مکرم (سینٹرل یونیورسٹی حیدرآباد)، ڈاکٹر عبداللہ امتیاز (ممبئی یونیورسٹی)، ڈاکٹر جاوید رحمانی(آسام یونیورسٹی، سِلچَر)، ڈاکٹر زرنگار یاسمین(مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونیورسٹی، پٹنہ)، ڈاکٹر شاہد رزمی (مونگیر یونیورسٹی، بہار) اور ڈاکٹر خان محمد آصف (گوتم بدھ یونیورسٹی،نوئیڈا) شامل تھے۔  

محترمہ شمع کوثر یزدانی(اسسٹنٹ ڈائرکٹر اکیڈمک)کے اظہار تشکر کے ساتھ میٹنگ کا اختتام عمل میں آیا۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں