3/4/24

انجم عثمانی: حیات اور فن، مضمون نگار: سید وجاہت مظہر

معروف افسانہ نگار اور ٹیلی ویژن پروڈیوسرانجم عثمانی کی ولادت 8 اکتوبر 1952 میں دیو بند کے ایسے دینی خانوادے میں ہوئی جس کا شمار دار العلوم کے بانیوں میں کیا جاتاہے۔ انھوںنے وہیں عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں انھوںنے جامعہ اردو، علی گڑھ سے ادیب کامل کا کورس کیا۔  اس کے بعد وہ دہلی آگئے جہاں انھوں نے ذاکر حسین کالج سے بی  اے  (آنرس ) کیا او ر پھر دلی یونیورسٹی سے اردو میں ایم  اے کیا۔ جب جے این یو کے شعبۂ اردو میں ماس میڈیا میں ایک نیاڈپلوما کورس شروع کیا گیا تو انجم عثمانی نے اس کورس کے اولین بیچ کے طالب علم کے طور پر’ایڈوانس ڈپلوما اِن ماس میڈیا اِن اردو ‘کا سر ٹیفکیٹ حاصل کیا۔ اس زمانے میںذرائع ابلاغِ عامہ پر یہ ایک جدید ترین کورس تھا اور اسی کی بِنا پر انھیں یو پی ایس سی کے ذریعے پروگرام ایگزیکیو ٹیو کی پوسٹ پر تقرری ملی۔ 

دلی دور درشن کے اردو میگزین پروگرام ’بزم‘کے پروڈیوسر کے طور پر انجم عثمانی نے ملک گیرسطح  پر اپنی شناخت قائم کی۔ بطور اردو پروگرام آفیسر، ان کی تقرری آکاش وانی و دوردرشن کے لیے ہوئی تھی، جہاں وہ اپنی سبکدوشی تک دہلی دورشن ہی سے وابستہ رہے۔ دیگر اہم منصبی فرائض کی ادائیگی کے ساتھ اپنی بنیادی کارکردگی یعنی اردو کے پروگراموں کی تشکیل کی ذمے داری سے وہ کبھی غافل نہیں ہوئے۔  علاوہ ازیں  انھوںنے کئی افسانے تخلیق کیے۔ ان کے افسانوی مجموعے بعنوان ’شب آشنا ‘ (1978)، سفر در سفر(1984)، ٹھہرے ہوئے لوگ (1995) اور کہیں کچھ کھو گیا (2011) میں منظر عام پر آئے۔ انجم عثمانی بحیثیت افسانہ نگار نہ صرف اپنے  ہیئتی تجربوں اور موضوعاتی تنوع کے لحاظ سے کامیاب فنکار تسلیم کیے جاتے ہیں بلکہ حقیقت نگاری کے فن اور تکنیک سے بھی وہ کما  حقہٗ  واقف رہے ہیں۔ تقریباً  نصف صدی سے موصوف افسانہ نگاری کے میدان میںسرگرم عمل رہے اور اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں کے درمیان انھوں نے ایک مخصوص پہچان بنائی۔اس صنف میں وہ اختصار گوئی سے کام لیتے رہے۔ لہٰذا، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مختصر افسانہ نگاری کے معیارکوبلند ی عطاکرنے میں انجم عثمانی نے قابلِ ستائش کردار نبھایا ہے۔ 

شب آشنا  : اپنے پہلے افسانوی مجموعے ’شب آشنا‘  میں وہ اپنی شخصیت اور فن کا تعارف بذاتِ خود کراتے ہیں۔ دیباچے کے طور پر کتاب کے آغاز میں انھوں نے اپنا ایک مضمون بعنوان ’میں اور میرے افسانے‘ شامل کیا ہے، جس میں وہ فخر کے ساتھ دیو بند کے ایسے ذی علم خانوادے میں اپنی ولادت کا  ذکر کرتے ہیں  جس میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا حبیب الرحمٰن، مولانا مفتی عزیز الرحمٰن، مفتی عتیق الرحمٰن، مفتی فضیل الرحمٰن، مفتی ٔ اعظم ہلال عثمانی، مولانا عامر عثمانی،مسعود جاوید، کفیل الرحمٰن نشاط، شمیم عثمانی اور شمس الحق عثمانی جیسے یکتا  و یگانۂ روزگار اشخاص شامل تھے۔انجم عثمانی لکھتے ہیں:

’’علمی دنیا کے اس معروف اور با فیض شجرہ ٔ نسب کے سائے تلے میں انگلی پکڑ کر چلنے کے قابل ہوا تو خاندانی روایت کے مطابق دار العلوم دیو بند میں داخل کر دیا گیا۔ دار العلوم سے فارسی و عربی کی سند ِ فضیلت حاصل کرنے کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے کسبِ علم کیا  اور پھر دہلی کالج (ذاکر حسین کالج ) میں زیر ِ تعلیم رہا اور اب مرکزی وزارت ِتعلیم حکومتِ ہند کے ترقی اردو بیورو سے وابستہ ہوں۔‘‘   

(شب آشنا، انجم عثمانی، محبوب پریس دیو بند، یو پی،  1977)

انجم عثمانی کے اس افسانوی مجموعے میں شامل زیادہ تر افسانے مختلف رسائل میں شائع ہو ئے  یا آل انڈیا ریڈیو پر بروڈ کاسٹ ہوئے ہیں۔وہ ادبی نظریات سے وابستگی کی بنیاد پر ادب کی تقسیم کے قائل نہیں تھے۔ وہ اپنے افسانوں کا سچا نقاد ان قارئین کو مانتے  تھے، جنھوں نے انھیں افسانے لکھتے رہنے پر آمادہ  رکھا۔ وہ لکھتے ہیں:

’’میں نے اس میں اپنی زندگی کے تقریباً ہر دور کے افسانے شامل کیے ہیں۔ اس دور کے بھی جب ’آگ کا دریا‘  کے بیس صفحے پڑھ کر بے اعتنائی سے کتابوں کے پیچھے  اسے  رکھ دیا تھا  اور اس  دور کے بھی جب بہت سی بے پڑھی  چیزیں  پڑھی ہوئی  معلوم ہونے لگیں۔ 

ادبی نظریے کے اعتبار سے میں ادب کو وابستگی اور ناوابستگی وغیرہ کے خانوں میں تقسیم کرنے کا قائل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مجموعے میں وہ انسان بھی شامل ہیں  جن کو نقاد موضوعاتی کہتے رہے ہیں اور وہ بھی جن پر تخلیق کی کھائیاں عبور نہ کر سکنے والے نقاد ماتھے پر بل ڈال لیتے ہیں۔ ایسے نقاد کے ماتھے کی شکنوں سے میں نے کبھی اثر نہیں لیا۔ میرے لیے  میرے افسانوں کا سچا نقاد وہ قاری ہے جس نے مجھے لکھتے رہنے پر آمادہ رکھا۔ ‘‘  

( شب آشنا، انجم عثمانی، محبوب پریس دیو بند، یو پی، 1977 ،ص 8)

’شب آشنا‘ میں انجم عثمانی نے جو کہانیاں شامل کی ہیں ان کے عنوانات یہ ہیں:  سرابوں کے سفیر، شریر کے انگ، سب سے بڑا سچ، ایک لمحہ درمیاں ہے، آپی، اپنی ہی آگ میں، سانجھ کے پنکھ، جو بات تجھ میں ہے۔ ناسور، جیت، گناہ کی واپسی،حل، مکتی، آخری نوٹ، لمحوں کی سوغات، آدمی، پانچویں سمت، زرد سایہ  اورشب آشنا۔

سفر د ر سفر :  ’ سفردر سفر‘  میں انجم عثمانی کے انیس افسانے شامل ہیں۔ اس کتاب کے تعارف نامے میں ڈاکٹر شمس الحق عثمانی لکھتے ہیں:

 ’’ یہ افسانے ایک  ایسے ذہن کا خاکہ ہیں جو اپنے اطراف و جوانب کے حال- احوال - اور ماضی سے بیک وقت وابستہ ہے اور اطراف و جوانب کے حال و احوال اور ماضی سے ایک ایسی تشنگی اورایسی الجھن محسوس کرتاہے جو کسی مختلف یا گمشدہ نقطہ ٔ سفر کی جستجو یاشناخت پر آمادہ کرتی ہے۔ ‘‘

   (سفر در سفر، انجم عثمانی،کتب خانہ محمودیہ دیو بند،یوپی، 1984،ص9)

انجم عثمانی کے افسانوی مجموعے ’سفر در سفر‘  کے آغاز میں پروفیسر گوپی چند نارنگ رقمطراز ہیں:

’’ انجم عثمانی  اردو کے نئے کہانی کاروں میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ لفظ کی قدر و قیمت جانتے ہیں اور زبان کا بے جا اسراف نہیں کرتے۔ بہت مختصر لکھتے ہیں اور کہانی میں ارتکاز پر نظر رکھتے ہیں۔

ایک کہانی وہ ہوتی ہے جو نظروں کے سامنے چلتی ہے،ایک کہانی وہ ہوتی ہے جو باطن میںچلتی ہے انجم عثمانی کی کہانیاں سوچ کی تار سے بندھی ہوتی ہیں اور زندگی کی پیچیدگیوں سے نبرد آزما  ہونے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ سہل نگاری کے اس دور میں مسائل کو لے کر چلنا معمولی کام نہیں ہے۔ امید ہے پڑھنے والوں کو بھی یہ کہانیاں سوچنے پر مجبور کریں گی۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ، شعبۂ  اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۔9ستمبر 1984‘‘   

(سفر در سفر، انجم عثمانی،کُتب خانہ محمودیہ دیو بند،یوپی، 1984، ص 2)

انجم عثمانی کے افسانوی مجموعے  ’ سفر در سفر‘  میں ان کے یہ افسانے شامل ہیں:  منظر ابھی نہیں بدلا، ایک ہاتھ کا آدمی، نسل در نسل، گھنٹے والے بابا، مقتل، پانی، پانی ریت، ٹھہرے ہوئے لوگ،کھوکھلی راہوں کا مسافر، بارش وہ اور میں، انقلاب گزیدہ، طے شدہ سمت کے مسافر، محافظ، پہچان کے زخم، بند کتاب، تخلیق، پانچویں سمت، آدمی، پناہ گاہ  اور  ایک لمحہ درمیاں ہے۔  یہاں انجم عثمانی نے بڑی فنکارانہ مہارت کے ساتھ گاوؤںا ور قصبوں کی فضا،متوسط طبقے کی روزی روٹی اور تعلیم کے لیے دیہی علاقوں سے شہری بستیوں کی جانب ہجرت، مسلمانوں کے سماجی و نفسیاتی مسائل، دیہی اور شہری اقدار و تمدن کی تفریق، امیری و غریبی کے مابین  بڑھتی خلیج  اور انحطاط پذیر معاشرتی  صداقتوں کو  اپنے افسانوں کا موضوع بنایاہے۔ 

ٹھہرے ہوئے لوگ :  ’ٹھہرے ہوئے لوگ‘ ان کا تیسرا  افسانوی مجموعہ ہے جو 1998میں منظر عام پر آیا۔  اس میں انھوں نے اپنے اکیس افسانے شامل کیے ہیں، جن کے عنوانات یہ ہیں۔ شہرِ گریہ کا مکیں، پیر بھائی، برزخ، چھوٹی اینٹ کا مکان، ایک ہاتھ کا آدمی، ٹھہرے ہوئے لوگ، کھوکھلی راہوں کا مسافر،  منظر ابھی نہیں بدلا، جو بات تجھ میں ہے، بارش،وہ اور میں،  پہچان کے زخم، زنجیر بدل جاتی ہے، آپی، جیت، گھنٹے والے بابا، پناہ گاہ،  ایک لمحہ درمیاں ہے، فریب گزیدہ، گمشدہ تسبیح ، کبوتروں بھرا آسمان، ورثہ۔

انجم عثمانی کی کہانی ’شہر گریہ کا مکیں ‘فسادات کا ایسا منظرنامہ پیش کرتی ہے جس کا دائرہ شہروں سے نکل کر قصبوں اور دیہاتوں تک پھیل چکا ہے۔ یہ کہانی گنگا جمنی تہذیب کی پاش پاش ہوتی روایات کا المیہ پیش کرتی ہے۔ انھوں نے اپنے افسانے ’ ٹھہرے ہوئے لوگ ‘ میں بتایا ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے دیہاتوں اور قصبوں کے جن افراد کو شہر جانا پڑتا ہے  وہ عموماً واپس لوٹ کر اپنے گاؤں قصبے نہیں آ پاتے ہیں۔ اس طرح ان کا گاؤں یا قصبہ ان کی تعلیم و ترقی سے فیض نہیں اٹھا پاتا ہے۔  وہ نئی نسل سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی آبائی روایات سے قطع تعلق نہ کریں گے بلکہ اپنی قصباتی روایات سے وابستہ چیزوں کے تحفظ کے لیے بھی فکرمند رہیں گے۔  اس افسانے میں انھوں نے دیہی اور شہری زندگی کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ 

انجم عثمانی کے افسانے ’گھنٹے والے بابا ‘  میں بھی دیہی ماحول پیش کیا گیا ہے۔ اس افسانے میں گھنٹے کی آواز عید، موت اور حادثے کی خبر دینے کا وسیلہ ہوتی ہے۔ گھنٹہ بجا کر لوگوں کو اکٹھا کرکے اطلاع بہم پہنچانے کا یہ دلچسپ دیہی نظام تھا۔عید کے موقعے پر پورے گاؤں کی ہلچل اور زندگی کی گہما گہمی اسی گھنٹے کے ارد گرد نظر آنے لگتی تھی۔چاند رات کی خوشی گھنٹہ بجانے سے دوبالا ہوجاتی تھی۔ قصبے میںان تہواروں پر بچوں کا جوش و خروش اور خواتین کی سرگرمیاں اسی گھنٹے کی آواز کے ساتھ منسلک ہو گئی تھیں۔ ’گھنٹے والے بابا‘ سے مندرجہ ذیل اقتباس پیش خدمت ہے :

’’  بچپن میں ہماری طرح شاید آبادی کے ہر معصوم دل میں یہ خواہش ہچکولے لگا لیتی کہ وہ بھی گھنٹہ بجائے مگر بابا تو زینہ بند رکھتے، پھر کیسے اوپر جا کر اپنی خواہش کی تکمیل کی جا سکتی تھی۔ بابا ہمیشہ گھنٹے تک پہنچنے کا واحد زینے کا دروازہ بند رکھتے، سوائے اس رات کے جب عمارت کی چھتوں سے لوگ رات کو آسمان پر چاند ایسے تلاش کرتے  جیسے کھوئی ہوئی اولاد کو یا انجانے صحرا میں بھٹکا ہوا پیاسا پانی کو۔ اس رات با با  زینہ اندر سے بند نہ کرتے اور آبادی کے نہ جانے کتنے لوگ جن میں بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی، گھنٹے کے اردگرد جمع ہوجاتے اور باری باری سے موسلی ہاتھ میں لے کر گھنٹہ پیٹتے ، چنانچہ بہت دیر تک گھنٹہ رک رک کر بجتا رہتا اور ولولہ انگیز موسیقی کا لطف دیتا۔ اس رات گجر کی آواز سے بستی کا چپہ چپہ گونجنے لگتا۔ بازاروں اور گلیوں محلوں میں لوگوں کی چہل پہل بڑھ جاتی۔ بچے اپنے نئے کپڑوں اور شیرینی کے لیے مچلنے لگتے۔ عورتیں زور زور سے باتیں کرتی ہوئی گھروں کے کام جلدی جلدی نپٹانے لگتیں۔ دالانوں اور باورچی خانوں میں چوڑیوں کی کھنک گونجنے لگتی۔ چاند آسمان سے اُتر کر ہونٹوں پر مسکن بنا لیتا۔ کچی چھتوں کے نیچے رہنے والے معصوم اپنے آنسو پونچھ ڈالتے اور مسکراہٹوں کے اس جھرمٹ میں جگہ بنا نے لگتے جس سے وہ سارے سال محروم رہتے یا رکھے جاتے۔ ہم بھی اس مجمع میں شامل ہوتے اور گھنٹہ بجا کر محسوس کرتے کہ آج کا چاند ہماری ہی وجہ سے نکلا ہے۔ ‘‘

(  افسانہ ’گھنٹے والے بابا ‘ اقتباس ماخوذ از افسانوی مجموعہ ’ ٹھہرے ہوئے لوگ‘ ، انجم عثمانی، تخلیق کار پبلشرز،دریاگنج،نئی دہلی، 1998، صفحات 136-137)

اگرچہ انجم عثمانی نے کچھ علامتی افسانے بھی تحریر کیے ہیں لیکن ایسے افسانوں میں بھی ترسیل کا مسئلہ نہیں رہاہے۔ وہ  اپنے زیادہ تر افسانوں میں ایک مخصوص آمادہ بہ زوال تہذیب کی داستانیں بیان کرتے ہیں۔گوپی چند نارنگ نے  اپنے مضمون بعنوان ’ مدرسے اور مولسری کے پیڑ سے لگی کہانی‘  میںاس افسانوی مجموعے کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے، جو اس کتاب میں شامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

 ’’ ان کہانیوں کی بغور قرأت سے اندازہ ہوگا کہ ان کی کہانی بتدریج  فنی تکمیل کے مراحل طے کرتی رہی ہے۔ انجم عثمانی کے پاس زبان تو ہے ہی کہانی بُننے کے عمل میں انھوں نے جو دسترس حاصل کی ہے ،  اس کی بدولت ان کی کہانیاں  اپنی معنویت اور معاشرتی فضا کی وجہ سے  توجہ کا استحقاق رکھتی ہیں، ہنوز وہ توجہ ان پر کی نہیں گئی، سطور ذیل کا مقصد یہی ہے کہ مختصراََ ہی سہی، دیکھا جائے کہ انجم عثمانی کی فنی شناخت کیا ہے، ان کے مسائل اور محرکات کیا ہیں، انھوں نے کیا دنیا خلق کی ہے اور ان کے کرداروں کے درد کی داستان کیا ہے ؟  

اکثر فنکاروں کے فن میں ان کے کینوس کا  بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ وہ ہر چیز کو وسیع پیمانے پر لیتے ہیں۔ زمین، آسمان، انسان، زمانے، ہر شے صدیوں پر پھیلی اور وقت کے بہاؤ  میں شامل ہوتی ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو باریک بینی سے کام لیتے ہیں گویا چاول کے دانے پر قل ہو اللہ لکھتے ہیں  یا منی یٔچر بناتے ہیں۔ان کے یہاں ہر چیز چھوٹے پیمانے پر ہوتی ہے لیکن واقعاتی اس درجے کہ انگوٹھی کا نگینہ بھی دکھائی دے۔ انجم عثمانی اختصار نویس ہیں، وہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھتے ہیں، لیکن واقعیت اور معاشرتی صداقت سے گٹھی ہوئی۔ اپنے ہم عمروں میں اختصار اور  اجمال  اور کفایت ِ لفظی ان پر ختم ہے۔ وہ اس دنیا میں سرے سے داخل ہوتے ہی نہیں جسے انھوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس کھرے پن اور درد و داغ کی بنا پر کہتے ہیں، جس کے پُلِ صراط کو خود انھوں نے طے کیا ہے۔‘‘ 

(ٹھہرے ہوئے لوگ، انجم عثمانی، تخلیق کار پبلشرز،دریاگنج،نئی دہلی، 1998صفحات 11-12)

کہیں کچھ کھو گیا ہے :  انجم عثمانی کے افسانوں کا چوتھا مجموعہ بعنوان ’ کہیں کچھ کھو گیا ہے ‘  2011 میں منظر عام پر آیا۔ یہ 144 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے آغاز میں انجم عثمانی نے اپنی زندگی اور فن پر 22 صفحات پر مشتمل ایک طویل مضمون بعنوان ’ کہانی مجھے لکھتی ہے‘  شامل کیا ہے جو ایک طرح سے  ان کے خود نوشت سوانحی مضمون کا درجہ رکھتا ہے۔  اس کتاب پر انجم عثمانی کی افسانہ نگاری پرجوگیندر پال، سید محمد اشرف اور قاسم خورشید جیسی اردو فکشن کی مایہ  ناز ہستیوں کی مختصر آرأ شامل ہیں۔  معروف ناول و افسانہ نگار جوگیندر پال لکھتے ہیں:  

’’ انجم عثمانی نے اردو فکشن کو نئی فضا،  نیا ماحول دیا ہے۔ ان کی کہانیوں میں میجیکل ریلزم کا عنصر نمایاں ہے۔ کئی کہانیاں پُراسرار مدرسہ لائف کا خوبصورت اشاریہ ہیں۔  ‘‘ (کہیں کچھ کھو گیا ہے )

اس افسانوی مجموعے میں انجم عثمانی کے جو افسانے شامل ہیں ان کے عنوانات یہ ہیں۔اغوا، صدقہ، بُک شلف، جنگل، ڈھلواں چٹان پرلیٹا ہوا آدمی، مشاعرہ جاری ہے، سمینار جاری ہے، جشن جاری ہے، کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے، دو منہ والا سانپ،چھنگا، کہیں کچھ کھو گیا ہے  اور زنجیر کا نغمہ (ڈرامہ)۔ اس کتاب کے آخر میں عابد سہیل، شوکت حیات اور مختار شمیم جیسے اہم ادبی اشخاص نے انجم عثمانی کی افسانہ نگاری پر اپنے تاثرات رقم کیے ہیں۔

 عابد سہیل  لکھتے ہیں:

’’ صاف اور شستہ زبان ، واقعات کا فطری بہاؤ، ڈرامائیت کرنے سے گریز ، تکنیک ایسی جو اصل کہانی پر بالا دستی حاصل نہیں کرتی اور چھوٹے چھوٹے جملے انجم عثمانی کے افسانے کی اضافی خوبیوں میں شامل ہیں۔ ‘‘

 پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ دیہی زندگی کی مرقع سازی انجم عثمانی کی افسانہ نگاری کی بنیادی شناخت بنی۔قصباتی زندگی کی اقدار میں آنے والی تبدیلیاں، زوال پذیر انسانی معاشرہ، قصبوں میں خستہ حال حویلیوں اور ان کے مکینوں کی زبوں حالی، اقلیتوں  کے مسائل، گنگا جمنی تہذیب کے بکھرتے شیرازے  اور فسادات سے پیدا شدہ صورت حالات، ان کے افسانوں  میں حقیقت پسندانہ رنگ و آہنگ کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔   

انجم عثمانی کے افسانے اور تجزیے :  انجم عثمانی کی حیات و فن پر ڈاکٹر عقیل احمد نے ’انجم عثمانی کے افسانے اور تجزیے‘ عنوان سے ایک کتاب ترتیب دی جسے فیصل اینٹرنیشنل،نئی دہلی نے 2019 میں شائع کیا۔اپنی اس مرتبہ کتاب میں وہ رقمطرازہیں:

’’ اس مجموعے میں انجم عثمانی کی وہ کہانیاں ہیں جن سے ان کے فن کی شناخت قائم ہوئی ہے۔ اختصار نویسی اور ایک خاص تہذیبی فضا کے درد کو بیان کرنے والے افسانہ نگار کے طور پر انھیں پہچانا گیا، اس موضوع کو نہ ان سے پہلے کسی نے اپنایا،  نہ بعد میں۔ ‘ ‘  یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس کتاب میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے  انجم عثمانی کے افسانے ’ورثہ‘ کا خصوصی طور پر تجزیہ کیا تھا۔پروفیسر علی احمد فاطمی نے بھی انجم عثمانی کی افسانہ نگاری پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے افسانوں میںگمشدہ تہذیب کے اوراق بحسن و خوبی پیش کرتے رہے ہیں۔ دور حاضر کے معروف افسانہ نگار مشرف عالم ذوقی، انجم عثمانی کی اختصار نویسی کے قائل رہے ہیں۔ علاوہ ازیں افسانہ ’ شہر گریہ کا مکیں‘ کا تجزیاتی مطالعہ رتن سنگھ،  افسانہ ’ جنگل‘ کا تجزیہ ڈاکٹر نگار عظیم، افسانہ ’پیر بھائی‘  کا تجزیہ شوکت حیات، ’مشاعرہ جاری ہے‘ کا تجزیہ ثروت خان، ’ایک ہاتھ کا آدمی‘ کا تجزیہ سلیم شہزاد،  افسانہ ’ اغوا‘ کا تجزیہ پروفیسر علی احمد فاطمی نے کیا ہے ۔اس کتاب کے توسط سے بطور افسانہ نگارانجم عثمانی کی شخصیت اورفن پر بھرپور  روشنی  ڈالی گئی ہے اور ا ن کے خیالات اور افکارکی  اہمیت وافادیت واضح کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے  یہ کتا ب  ان کے ذہنی  رجحانات،  خیالات و  افکار اور تخلیقی جہات کی افہام و تفہیم میں ممد ومعاون ہے۔

شگفتگی کی تلاش میں‘  یہ انجم عثمانی کی  طنز ومزاح  پر مبنی تحاریر کا مجموعہ ہے، جو  2015  میں شائع ہوا۔اس مجموعے کے مقدمے کو انھوںنے پیش لفظ کے بجائے ’پس وپیش لفظ‘ عنوان دیا ہے۔ وہ ’ پس و پیش ‘ کی ابتدا  اس طرح کرتے ہیں:

’’ پس و پیش بلکہ زیر و زبر میں ہوں کہ کیا عرض کروں۔ عرض کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اکثر مجموعوں سے پہلے مصنف یا مصنف کے بارے میں عرض کرنے کی روایت بھی ہے اور ضرورت بھی۔ بلکہ بعض مجموعے تو تصنیف ہی اس لیے کیے جاتے ہیں کہ ان پر مقدمہ یا پیش لفظ لکھا جا سکے۔ مقدمہ اور پیش لفظ قسم کی چیز میں روایتی طور پر یہ آزادی ہے کہ مقدمہ نگار کا مصنف ہونا بھی ضروری نہیں ہے بلکہ اردو میں تو بہت سے ادیب مقدمہ بازیوں کے وجہ سے ہی مشہور ہیں۔ ہم ذاتی طور پر ایسے کئی ناقدوں کو جانتے ہیں جنہوںنے مختلف قسم کے مقدمے پہلے سے ہی لکھے ہوئے ہیں اور یہ اس انداز سے لکھے ہوتے ہیں کہ کتاب نثر کی ہو یا نظم کی، تخلیق ہو یا تحقیق ان کے مقدمے ہر تصنیف پر ایسے فِٹ آتے ہیں جیسے اسی تصنیف کے لیے ہی تحریر کیے گئے ہوں۔ ایسے’ کثیر الجہات ‘  مقدمے اس ریڈی میڈ فری سائز لباس کی طرح ہوتے ہیں جو سب کے فِٹ آجاتے ہیں اور اگر کسی کے فِٹ نہ آئے تو اس میں لباس کے سائز سے زیادہ پہننے کی کوشش کرنے والے کے سائز کا قصور ہوتا ہے۔ ‘‘

(  شگفتگی کی تلاش میں طنز و مزاح، انجم عثمانی،شیروانی آرٹ پرنٹرس، بلی ماران، نئی دہلی،  2015،ص 7)

حیدرآباد سے شائع ہونے والے ماہنامے’ شگوفہ ‘ میںپروفیسر خالد محمود نے انجم عثمانی کا بطور انشائیہ نگار بڑا دلچسپ خاکہ کھینچا ہے۔ خاکے کی سرخی میں وہ انھیں ’’مولوی انجم عثمانی دیوبندی ثم دہلوی عفی عنہ ‘‘  لکھتے ہیں۔ اس مضمون میں خالد محمودانجم عثمانی کی شخصیت اور فن کو مندرجہ ذیل الفاظ میں خاکے کی شکل عطاکرتے ہیں:

’’انجم عثمانی کی تحریریں انشائیہ سے زیادہ قریب ہیں۔ ان کے یہاں طنز کم اور مزاح جسے لطافت اور ظرافت کہنا چاہیے،  زیادہ ہے۔ ایک تو یہ کہ ان کے سارے موضوعات دیکھے بھالے بلکہ آزمودہ ہیں۔ دوسرے انھوں نے طنز و مزاح کے معروف حربوں میں رعایت لفظی، جملے بازی، تکرار، بذلہ سنجی، بریکٹ اور لطیفہ گوئی سے کام لیتے ہوئے فرضی اور بے نام کردار بھی تخلیق کیے ہیں اور اکثر تخلیق کیے ہیں۔ مرکبات  وضع کرنے میں بھی ذہانت اور ذکاوت کا مظاہرہ کیا ہے مگر چوں کہ بنیادی طور پر وہ انشائیہ نگار ہیں اور ساتھ ہی افسانہ نگار بھی جو ان کی ایک اضافی خوبی ہے اس لیے وہ ذہنی ترنگ کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ افسانہ نگار کا تخیل ان کی مدد کے لیے ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ ان دونوں کے اشتراک سے جو انشائیے وجود میں آئے ہیں ان میں ہلکے جاڑے کی دھوپ جیسی لطافت، چاندنی جیسی ٹھنڈک، شوخیوں جیسا طنز، پھلجھڑیوں جیسا مزاح، شائستہ جملے بازی، خوشبودار ظرافت، ساری لطافتیں بے کثافت، (غالب کی اس دھمکی کے باوجود کہ ’’لطافت بے کثافت جلوہ پیدا نہیں کر سکتی ‘‘ )موجود ہیں اور ہر لطافت خلوص و محبت کے عطر میں بسی ہوئی۔ ان کی تحریروں کو ان کی شخصیت کے آئینے میں دیکھیے دونوں میں سرِ مو  فرق نظر نہیں آئے گا۔وہ جس طرح گفتگو کرتے ہیں ویسا ہی بلکہ وہی کا وہی لکھ دیتے ہیں۔ ان کی شخصیت اور نفاق و تضاد میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں ہو سکتا ہے۔ اسی خصلت اور خاصیت نے انھیں اور ان کی تحریروں کو محبوب و مرغوب بنایاہے۔‘‘ 

(ماہ نامہ شگوفہ، پروفیسر خالد محمود نمبر،  دسمبر  2020، ص 52)

جن بیس مضامین کو انجم عثمانی نے اس کتاب میں شامل کیا ہے، ان کے عنوانات یہ ہیں۔مزاح نگاری؟  توبہ، شگفتگی کی تلاش میں،  لو آج ہم بھی صاحب ِ اسلوب ہو گئے،  مشاعرہ گاڑی،  اے اوارڈ والو...،  خالص عوامی مشاعرہ،  مشاعروں اور سمیناروں کا موسمِ بہار، ’  غزل کی مقبولیت کے اسباب ‘  چالیس منٹ اور ہم، طرحی مشاعرہ، تخلیقی محرکات، اظہار کی تیسری صنف، ایک سامع۔دو مشاعرے،  تماشا نہیں ہے، مجموعہ عرض ہے ،  موسم گرما تیرا شکریہ، دانشور نمبرون، مارچ سے پہلے مارچ کے بعد، صدر پھر صدر ہے ،تصنیف حاضر ہے ، مشاعرہ، سمینار اور کرکٹ۔

ٹیلی ویژن نشریات، تاریخ،تحریر، تکنیک  :   انجم عثمانی نے ٹیلی ویژن کے فن اور تکنیک پر ایک کتاب بعنوان ’ٹیلی ویژن نشریات، تاریخ،تحریر، تکنیک‘ لکھی جو الیکٹرونک میڈیا سے متعلق نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ کتاب دسمبر  1994 میں پہلی بارشائع ہوئی تھی۔ اب تک اس کے کافی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کتاب کا سب سے اہم مضمون ’ٹیلی ویژن اور اردو : ایک مطالعہ‘ہے۔ علاوہ ازیں عوامی ترسیل کا تاریخی پس منظر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے یہاں ہندوستان میں ٹیلی ویژن کے فروغ پر سیر حاصل گفتگو بھی کی ہے۔ کتاب کے اگلے حصے کا عنوان  انھوں نے ’تحریر‘ رکھا ہے۔  اس عنوان کے تحت ٹی وی اسکرپٹ کے لیے بنیادی باتیں، دستاویزی فلم، ٹی وی ڈرامہ، ٹیلی فلم، شارٹ فلم، ٹی وی اشتہارات، خبریں، اناؤنسمنٹ، خصوصی پروگرام اور کچھ پروگراموں کے بارے میں تعارفی مضامین رقم کیے ہیں۔ اگلے باب میں انھوں نے اس میڈیم کی تکنیک پر تفصیل سے معلومات فراہم کی ہیں۔ کتاب کے آخر میں ٹیلی ویژن اصطلاحات کی فہرست بھی شامل کی گئی ہے۔ 

پرنٹ میڈیا اور برقی میڈیا : تعارف، تاریخ اور اصول  :  انجم عثمانی کی نئی کتاب’ پرنٹ میڈیا اور برقی میڈیا : تعارف، تاریخ اور اصول‘   2022 میں منظر عام پر آ ئی ہے۔اس میں مصنف نے ذرائع ترسیل عامہ کے تقریباََ تمام اہم نکات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔  ذرائع ترسیل کے طور پر اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی تاریخ و ارتقا  کا جائزہ لیتے ہوئے انجم عثمانی نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے جملہ عناصر و عوامل کا تعارف و تجزیہ پیش کیا ہے۔ دور جدید میںتیزی سے ابھرتے اور ترقی کے مدارج طے کرتے، اس جدیدشعبۂ علم  کے جن پہلوؤںکو انھوںنے یہاں خصوصی اہمیت کا حامل سمجھا وہ ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔

 پرنٹ میڈیا : پریس (صحافت)، پریس کی اقسام، صحافت کیا ہے، پریس کونسل، خبر کی اقسام، ابتدائیہ کیا ہے، کچھ اصول، خبر نگاری۔

 تعارف، خبروں کی سرخیاں اور اقسام، نامہ نگاری کے بنیادی اصول، خبریں حاصل کرنے کے ذرائع، نیوز ایجنسیاں، زبان و ادب کی ترقی اور اردو صحافت، کالم نگاری،ادارت اور مدیر، الکٹرونک میڈیا، برقی ذرائع ابلاغ، ریڈیو، ٹیلی ویژن، ریڈیو ڈرامے، ریڈیو نیوز،سینما  فیچر فلم، فلموں کی اقسام،تکنیک، مواد، ڈاکیومینٹری اشتہار، فلم، ٹی وی اسکرپٹ کے لیے بنیادی باتیں، اسکرپٹ نگاری،فیچر نگاری اور ٹیلی فلم،ٹیلی ویژن، تعریف تکنیک، ابتدا  ٹی وی نیشنل پروگرام، دوردرشن، براہ ِ راست نشریات سٹلائٹ، مدار، مدار کی اقسام، سیارچہ، ٹیلی ویژن نشریات، براہ راست نشریات کی تاریخ رواں تبصرہ، اسکرپٹ، دستاویزی فلم، ڈاکیو ڈراما، ٹیلی فلم، ٹی وی اشتہار سازی، ٹیلی ویژن پروگرام، تلخیص، خلاصہ، نمونہ، اسکرین پلے، ہئیت، اسکرپٹ، ٹیلی ویژن ڈرامے کی اسکرپٹ، سوپ، اوپیرا، ٹی وی سیریل، تاریخی سیریل، ہندوستان میں ٹیلی ویژن سیریل کا ارتقا، غیر تحریری پروگرام، انٹرویو، مذاکرہ، مباحثہ،ٹی وی نیوز، ٹیلی ویژن کی زبان وغیرہ۔ اردو زبان  کے ماس کمیونی کیشن کے طالب علموں کے لیے یہ کتاب بنیادی اہمیت کی حامل اور نصابی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر تحریر کی گئی یہ کتاب اپنے موضوع کا مکمل طور پر احاطہ کرتی ہے۔ لہٰذا، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انجم عثمانی کی یہ کتاب پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے میدان میں ان کی زندگی بھر کے تجربات، مشاہدات اور مطالعات کا نچوڑ ہے۔ یہ اس شعبہ ٔ علم کی تازہ ترین نصابی ساخت اور موضوعاتی تناظر کو جامع انداز اور سلیس زبان میں پیش کرتی ہے اور اس لحاظ سے ماس میڈیا کے طلبا  ہی کے لیے نہیں بلکہ اساتذہ کے لیے بھی مشعلِ راہ کا درجہ رکھتی ہے۔   دہلی دوردرشن میں اسسٹنٹ  اسٹیشن  ڈائریکٹر کے عہدے سے سبکدوشی کے بعد بھی وہ ادبی و علمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ  مختلف سرکاری اداروں میں الیکٹرونک میڈیا سے متعلق کاموں میں منہمک رہے۔ انجم عثمانی  20 اپریل 2021  کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق دیو بند میں ہوئی۔انھیں اپنے دور کے معروف افسانہ نگار اور ذرائع ابلاغ عامہ کی فعال شخصیت کے طور پر اردو کے ادبی حلقوں میںہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

Dr. Syed Wajahat Mazhar

T116/1, 2nd Floor

Main Market, Okhla Village

New  Delhi- 110025



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں