3/4/24

’وجود کے ٹکڑے‘ اور نسیم اقتدار علی، مضمون نگار: عشرت ناہید

 

اردو ادب میں ڈاکٹر نسیم اقتدار علی ایک محقق، خاکہ نویس، افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرتی ہیں ان کااہم تحقیقی کارنامہ ’تذکرہ شیخ غلام محی الدین عشق و مبتلا میرٹھی ‘ ہے جس پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی جو کتابی صورت میں 1991 میں ’ تذکرہ طبقات سخن‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ۔ ان کے مضامین کا مجموعہ ’دیدہ و شنیدہ اور خاکوں کا مجموعہ دھوپ چھائوں چہرے 2014 میں شائع ہو کرمقبول ہوئے۔ اس سے قبل ان کا افسانوی مجموعہ وجود کے ٹکڑے کے نام سے  2007میں منظر عام پر آیا۔ جس کے متعلق وہ حرف چند میں لکھتی ہیں :

’’حقائق کی عکاسی جزئیات کا تفصیلی بیان کرداروں کو دھڑکتی زندگی دینا بلکہ بعض کو زندہ و جاوید کر دینا، ماحول کو ہمنوا بنا نا، پس منظر میں رنگ آمیزی کرنا، زبان و بیان کے ذریعہ جادو جگانے اور قاری کو پوری طرح گرفت میں لے لینا یہ بڑے فنکاروں اور ادیبوں کا کام ہے۔ میں نے تو ایک چھوٹے سے کینوس پر کچھ خاکے بنائے ہیں۔ان میں مناسب و موزوں رنگ آمیزی مجھ سے نہ ہو سکی جس کا مجھے اعتراف ہے۔‘‘ 

نسیم اقتدار علی کے نزدیک کہانیاں لکھنا ایک ایسا فن ہے جو ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں کیونکہ زبانی کہانی سنانا آسان ہے اسے تحریری شکل دینے میں بہت سارے لوازمات کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ وہ یہ تمام باتیں وہ اپنے مجموعے میں حرف چند میں لکھ تو دیتی ہیں لیکن جب ہم ان کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو درج بالا باتیں ہمیں ان کی طبیعت کی انکساری پر ہی محمول لگتی ہیں کیونکہ ان کے افسانے سماج کی بطور خاص متوسط طبقے کی زندگیوں کو جس خوبی کے ساتھ پیش کرتے ہیں وہ انھیں ایک اچھا افسانہ نگار ثابت کرتے ہیں۔

ان کے افسانوں میں زندگی کی سچائیاں اپنی تمامتر تلخیوں کے ساتھ نظر آتی ہیں، یہ کہانیاں دراصل وہ سچائیاں ہیں جنھیں انھوں نے آنکھوںسے دیکھا ہے جو ان کے شعور میں لا شعور میں محفوظ رہیں انہی کو صفحہ قرطاس پر جمع کر دیا ہے۔یہ معاشرتی کہانیاں قاری کو نہ صرف مختلف کرداروں کی حیات کار زار کی طرف متوجہ کرتی ہیں بلکہ قاری کے ذہن کو سوچنے پر بھی مجبور کر لیتی ہیں یہی ان افسانوں کی کامیابی ہے۔

ان کے اس مجموعے میں کل 16افسانے ہیں۔ ستاروں کے کھیل،آواگون، رشیدہ آپا، وجود کے ٹکڑے، روگ، پیار کی شبنم، شادی، سراب، سفر، چیخ، نظر بند، دیوار، بدلتے رنگ،جڑیں،پٹی گلی۔

اس مجموعے کا پہلا افسانہ ستاروں سے کھیل اور ’وجود کے ٹکڑے‘ تقریباً ایک جیسے موضوع پر ہیں  دونوں میں ہی محبت کے مثلث کی کہانی کو پیش کیا گیا ہے، ستاروں کے کھیل افسانے میں تین کردار ہیں نفیسہ،تکریم اور ارشد جن کا بچپن ایک ہی گھر میں گزرتا ہے لیکن ان تینوں میں فرق یہ ہے کہ ارشد ایک یتیم بچہ ہے جسے اپنے یتیم ہونے کا اور کسی دوسرے گھر میں رہنے کا احساس بھی ہے۔جسے افسانہ نگار کچھ یوں بیان کرتی ہیں :

’’ارشد بہت سمجھدار تھا وہ اس گھر میں اپنی حیثیت سمجھتا تھا،کھیل کود میں خوشی سے اپنی ہار مان لیتا بعض دفعہ  اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی بھی خندہ پیشانی سے برداشت کر لیتا وہ جانتا تھا کہ اس کا اور تکریم کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ ‘‘ (ص  12)

تینوں ساتھ ساتھ بڑے ہوتے ہیں تینوں کی دوستی کا مثلث ہے، دونوں ہی نفیسہ سے محبت کرتے ہیں لیکن  وہ تکریم کی قسمت میں ہے کیونکہ وہ تکریم کے ٹھیکرے کی مانگ تھی، نفیسہ کو نہ پا سکنے کا ذمے دار وہ اپنی غریبی اور یتیمی کو ٹھہراتا ہے،وہ ان کے گھر سے بنا کسی کو کچھ بتائے چلا جاتا ہے۔ لیکن وہ نفیسہ کی اڈوں سے کبھی نہیں نکل پاتا ہے یہاں تک کہ نفیسہ کی شادی تکریم کے ساتھ ہو جاتی ہے لیکن وہ تکریم کی قربت کے لمحوں میں ہمیشہ اپنے محبوب کو متصور کر لیتی یوں وہ اپنے شوہر کو اور اپنی زندگی کو بظاہر اطمینان بخش ظاہر کردینے میں کامیاب رہتی  ہے۔ نفیسہ اپنے محبوب کی محبت کو کبھی بھلا نہیں پاتی ہے،اور ایک دن جب وہ ملتا ہے تو اس کے روپ کو دیکھ کر وہ چونک اٹھتی ہے،ارشد نے اپنا حلیہ پوری طرح بدلا ہواتھا  ’’اس نے اپنے چہرے سے نقلی چہرہ اتارا تو نفیسہ کا سر اتنی زور سے چکرایا کہ اگر وہ کرسی کو مضبوطی سے تھام نہ لیتی تو لڑھک کر نیچے گر جاتی،ایک عرصے بعد ارشد کو اس طرح اپنے سامنے دیکھ کر وہ کانپ گئی۔ ‘‘ (ص   14)

نفیسہ نے جب اس کے حالات جاننا چاہے تو اس کے وجود کی پرتیں بھی کھلتی گئیں کہ وہ  نفیسہ سے شادی نہ ہونے پر اتنا بد دل ہوا کہ گھر چھوڑ کر جب نکلا تو غلط راہ پر پڑ گیا، اسے عورت ذات سے ہی نفرت ہو گئی  اور اس نے عورت کو ایک کھلونے کی طرح استعمال کرنے لگا، اس کے ذہن میں یہ بات بھی رہی کہ غربت کی وجہ سے بھی وہ اپنی محبت کو پا نہ سکا اس لیے دولت کو وہ ہر طرح سے کمانے میں لگ گیا، اور آخری روپ دیکھ کر نفیسہ کو ارشد سے محبت کرنے کے جرم میں خود سے ہی نفرت سی محسوس ہونے لگی ’’ اچانک وہ گھڑی دیکھتے ہوئے بولا ’’ارے بہت دیر ہو گئی۔مجھے ابھی پلین پکڑنا ہے ‘‘ اور اس نے جیب سے رنگین شیشوں والی عینک نکال کر لگائی یہ تیز روشنیاں اس کی چندھی آنکھوں کو اور بھی چندھیائے دے رہی تھیں اور پھر اس چہرے پر خوفناک مونچھوں کا اضافہ کر کے مسکرایا ’’اب مجھے اچھی طرح پہچان لو یہ ہے میرا اصلی روپ سریندر سنگھ مشہور زمانہ اسمگلر ‘‘ نفیسہ اتنے سال جس محبت کو گلے سے لگائے ہوئے تھی اس کے اس انجام پر دل برداشتہ ہو اٹھتی ہے،اس گھنائونے روپ کو وہ برداشت نہیں کر پاتی ہے اور اپنے عزیز شوہر تک سے دور ہو جاتی ہے لیکن پھر تکریم کی محبت اسے اپنی دنیا میں کھینچ لاتی ہے۔

افسانہ رشیدہ آپا  سماج کی اس دکھتی رگ کی طرف متوجہ کرتا ہے جہاں والدین جوان بیٹیوں کی طرف سے  لا پرواہ ہو جاتے ہیں، ان کی شادی کو اپنی ذمے داری یا فرض نہیں گردانتے ایسے میں  لڑکیاں گھٹ گھٹ کر یرقان میں مبتلا ہو جاتی ہیں یا پھر باغی ہو کراپنا راستہ خود چن لیتی ہیں۔ رشیدہ آپا خوبصورت نہیں ہیں  لیکن ہنر مند ہیں، انھیں زندگی کو بھر پور طریقے سے جینے کی اور زندگی  سے وابستہ ہر خوشی کو پانے کی چاہ ہے  لیکن ان کے والد جو کہ پروفیسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں  نہ صرف بیٹی کی طرف سے بے نیازی برتتے ہیں بلکہ ہر طرح کی پابندی میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔رشیدہ آپا چونکہ جوان ہیں ان کے اندر خواب تمنائیں اور آرزوئیں بھی جوان ہیں  وہ ایک وقت تک تو اپنے ارمانوں کو دبائے رکھتی ہیں لیکن  پھر راستے نکال ہی لیتی ہیں اور ماں باپ کے حکموں کی پرواہ کیے بنا جینا شروع کر دیتی ہیں۔یہاں تک کہ وہ کسی بھی قسم کی روک ٹوک کو برداشت نہیں کرتی ہیں اور جہاں انھیں جانا ہوتا چلی جاتیں وہ چاہے سنیما دیکھنے جانا ہو کہ مارکیٹ یا پھر محلے میں کسی کے گھر۔ان کی ودستی گھر کے پیچھے کی طرف رہنے والی ساجدہ سے ہوتی ہے اس کے گھر بہت زیادہ میل جول بڑھتا ہے، ساجدہ کے حاملہ ہونے پر وہ اس کے گھر اور بچوں کی ساری ذمے داری اپنے سر لے لیتی ہیں اسی دوران دھیرے دھیرے اس کے شوہر شاکر علی خاں کے ساتھ بھی بے تکلف ہو جاتی ہیں اور جب ساجدہ زچگی کے لیے اپنے میکے جاتی ہے تب ان کے تعلقات شاکر علی کے ساتھ اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ محلے میں رسوائی ہی نہیں ہوتی بلکہ خود رشیدہ آپا حاملہ بھی ہو جاتی ہیں۔تب ان کے والدین کو ہوش آتا ہے اور شاکر علی خاں سے منت سماجت کر تے ہیں اور رات کے اندھیرے میں ہی ان کا نکاح کرکے رشیدہ آپا کو رخصت کر دیتے ہیں۔ ادھر جب ساجدہ کو اس بات کا علم ہوتا ہے تو وہ غصے سے بھری واپس آتی ہے اور رشیدہ آپا کو گھر سے نکالنے پر مصر ہوتی ہے تب شاکر علی ساجدہ کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ رشیدہ پہلے کی طرح تمھارے ساتھ سارے کام بھی کرے گی اور تمھارے بچے بھی سنبھالتی رہے گی لیکن جب ساجدہ کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا ہے تو ایک ہی بات ایسی کہہ دیتے ہیں کہ ساجدہ چپ ہو کر بیٹھ جاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’اب چپتی ہے کہ نہیں سوکھی جھانکر بچہ کیا پیدا کرتی ہے چھ مہینہ پلنگ توڑتی ہے نہ کسی کام کی نہ مصرف کی۔دوسرا نکاح نہ کرتا تو کیا  دنیا زمانہ میں منہ کالا کرتاپھرتا۔ ‘‘

دراصل یہ افسانہ ایک مسئلے پر سے ہی پردہ نہیں اٹھاتا ہے بلکہ شاکر علی خاں کی زندگی کی اہم ضرورت جو کہ ان کی مدقوق بیوی پوری کرنے سے قاصر تھی اسے بھی بیان کرتا ہے۔یہ افسانہ والدین کی آنکھیں کھول دینے والا افسانہ ہے کہ اگر وہ صرف اپنی زندگی کو دیکھیں گے جیسا کہ رشیدہ آپا کے ابا نے کیا تھا  پہلے تو  وہ  اپنی دنیا میں مگن رہے جب ریٹائر ہوئے تو عبادت میں لگ گئے جسے طنزیہ انداز میں مصنفہ نے لکھا ہے :

’’رشیدہ آپا کے ابا نے شادی تو کر لی تھی لیکن اپنے مشاغل میں سے کسی ایک کو طلاق نہ دی۔ یونیورسٹی سے آکر وہ زیادہ تر باہر مردانہ میں اپنی لائبریری میں رہتے اور حمیدہ خالہ اندر دالان میں تخت پر دسیوں گٹھریوں، بغچیوں میں گھری خدا معلوم کیا ادھیڑا سیا کرتیں۔

خالو اب ملازمت سے ریٹائر ہو گئے تھے اور ملازمت سے کیا ریٹائر ہوئے جیسے دنیا ہی سے ریٹائر ہو گئے اور بس اللہ میاں سے ناطہ جوڑ لیا۔ہر وقت اوراوراد وظائف  میں مشغول رہتے جیسے اتنے دنوں تک اللہ میاں کو بھلائے رکھنے کا ازالہ کر رہے ہوں۔‘‘(وجود کے ٹکڑے )

رشیدہ آپا اس طرح کے ماحول میں جوان ہوتی ہیں  ان کے رشتے آنے پر بھی  شادی کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ تب جوان لڑکی بغاوت کا راستہ اختیار کر لیتی ہے کیونکہ فطری خواہشوں  پر قابو پانا کسی جہاد سے کم نہیں ہوتا۔ اسی طرح شاکر علی خاں کی بھی اپنی ضرورتیں ہیں جنھیں ان کی بیوی پورا نہیں کر پاتی ہے۔ اس افسانے میں مصنفہ نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ایک مرد اور ایک عورت کی نفسیات کو اجاگر کر دیا ہے۔بلا شبہ ان کا یہ افسانہ ایک بہترین افسانہ ہے۔   

 افسانوی مجموعے کا جو عنوان ہے اسی نام سے یعنی ’وجود کے ٹکڑے ‘عنوان سے بھی ایک افسانہ شامل ہے۔ جو کہ  ایک نفسیاتی افسانہ ہے جس میں ایک عورت کی باطنی کیفیات کو بڑی خوبی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مرکزی کردار خالدہ اپنی بارہ سال پرانی محبت کے حصار میں زندگی گزارتی نظر آتی ہے ایک ایسی محبت جو اسے نہ مل سکی لیکن وہ اس پر اتنی زیادہ طاری رہی کہ اس کی وجہ سے خالدہ اپنی اصل زندگی سے خوشیاں کشید نہیں کر پاتی ہے وہ اپنے آپ کو ایک مشین بنائے رکھتی ہے جو فیڈ کیے ہوئے کاموں کو کرتی رہتی ہے لیکن جذباتی طور پراس کے اندر اپنے سے وابستہ رشتوں کے لیے گرمجوشی نہیں ہوتی، ان رشتوں سے وہ بیزاری محسو س کرتی ہے جبکہ وہ رشتے اس کے ساتھ خلوص رکھتے ہیں۔ارشدجو کہ اس کا شوہر ہے وہ مشرقی روایتی  شوہر ہے جو نہ صرف اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے بلکہ بہت اعتماد بھی کرتا ہے جس کا اظہار افسانے میں خالدہ کی باتوں سے ہوتا ہے،خالدہ کے تین بچے ہیں،جن کے لیے وہ سب کچھ کرتی ہے ماں ہونے کے ناطے ان کی  ضروریات کا خیال رکھتی ہے شوہر کے فرائض بھی ادا کرتی ہے لیکن اس سب کو کرتے ہوئے اسے اپنی ذات کا اھورا پن ہمیشہ بے چین رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ان سب سے خوشیاں کشید نہیں کر پاتی ، ایسے میں ایک دن اچانک اس کے سابقہ محبوب اسلم کا فون آجاتا ہے وہ اسے ملنے کے لیے اپنے گھر بنا کسی خوف و تردد کے بلا لیتی ہے اور اسے شام تک اپنے گھر رکنے پر اصرار بھی کرتی ہے۔جبکہ اس کا دوست جو اس کے شوہر سے بھی واقف ہے اس کی جذباتیت سے گھبرا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ارشد کی غیر موجودگی میں اس کا دیر تک رکنا مناسب نہیں لیکن خالدہ بضد رہتی ہے یہاں تک کہ اسے ڈرپوک تک کہہ د یتی ہے تب وہ کہتا ہے کہ : 

نہیں خالدہ یہ بات نہیں ہے تم خود سوچو اب تم ایک ماں ہو ایک بیوی ہو تمھاری پرسکون گھریلو زندگی ہے میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے تمھاری خوشیوں پر آنچ آئے۔ ‘‘(ص41)’’

تب خالدہ اپنے باطن کا حال بیان کر بیٹھتی ہے وہ یہ بھی بتا دیتی ہے کہ اب تک اس کے دل میں ارشد کے لیے کیسی امیدیں پل رہی ہیں۔

’’ خالدہ ایک دم سنجیدہ ہو کر بولی ’’ اسلم تم کیا جانو سکون کے لیے تو میں ترستی ہوں۔یہ تو شاید اب مجھے مر کر ہی نصیب ہوگا اور کبھی کبھی تو ڈر لگتا ہے کہیں قبر میں بھی ایسی ہی نہ تڑپتی رہوں۔رہی بات بچوں کی تو وہ ارشد کے بچے ہیں میں تو صرف انھیں پیٹ میں رکھنے کی گنہگار ہوں مجھے تو لگتا ہے کہ میں اب بھی وہی پہلی والی تمھاری خالدہ ہوں تم کسی دن آئوگے اور میں ارشد کا گھر اور بچے انھیں سونپ کر تمھارے ساتھ چل دوں گی ‘‘(ص41) 

اسلم بھی اس کی محبت کو بھولا نہیں ہے لیکن وہ ہوشمند ہے اس لیے اس کی جذباتی باتوں کے جواب میں خود پر قابو رکھتا ہوا  دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے چلا جاتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد خالدہ کے جذبات میں مزید شدت پیدا  ہوتی ہے اوروہ بے تحاشا بلک بلک کر رو پڑتی ہے یوں اس کے اندر کا سالوں سے بھرا غبار بہہ نکلتا ہے۔اس کا وجود ٹوٹنے بکھرنے لگتا ہے اسے محبوب ملتا ہے لیکن اب بھی وہ اسے پا نہیں سکتی۔لیکن جب اس کے بچے اسکول سے گھر آتے ہیں ان کی محبت اسے دوبارہ حالیہ زندگی کی طرف لوٹا لاتی ہے اور اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ اب تک سراب کے پیچھے دوڑ رہی تھی اس کی اصل زندگی تووجود کے ان ٹکڑوں میں نہاں ہے یہ خیال ہی اسے سکون عطا کر دیتا ہے۔

مصنفہ نے بڑی خوبی کے ساتھ ایک ناکام محبت کے دائرے میں محصور خالدہ کو زندگی کا ادراک کروایا ہے۔  اس کے ظاہر و باطن کی کشمکش کو کمال خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔اس افسانے کو ہم اصلاحی افسانہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو لڑکیاں اپنی حساسیت کی بنا پر زندگی کی سچائیوں کو قبول نہیں کر پاتی ہیں وہ درحقیقت اپنی خوشیوں کا اور اپنے سکون کا قتل کر رہی ہوتی ہیں۔ماضی کو بھول کر حال کو قبول کر لینا ہی زندگی کو آسان اور خوشنما بناتا ہے۔

   نسیم اقتدار علی کے ہر افسانے میں ایک ایسا موضوع ہے جو معاشرے کی ایک بڑی سچائی کوسمیٹے ہوئے  ہے۔ 

جڑیں ایک ایسا افسانہ ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ زندگی کی ساری خوشیاں اور ساری خوبصورتی اس کی جڑوں یعنی اس کے وطن میں ہی ملتی ہیں۔  جس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ ایک جگہ سے اٹھ کر دوسری جگہ پر آباد ہو جانا آسان تو ہوتا ہے لیکن جب بڑھاپا آتا ہے تب احسا س ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ کہانی ایک بوڑھے کی جسمانی کیفیت کے بیان سے شروع ہوتی ہے کہ اب اس کی آنکھوں کی روشنی کم ہو چکی ہے وہ تو اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ زیادہ دور تک چل بھی نہیں پاتا۔ایک ایک قدم وہ بہت سنبھل سنبھل کر اٹھاتا ہے کیونکہ اسے احساس ہے کہ اگر وہ گر گیا  اور اگر کہیں کوئی ہڈی ٹوٹ گئی تو اس کی تیمارداری کرنے والا کوئی نہیں ہے تو اس کا کیا ہوگا۔یہ خوف اسے چلنے پھرنے سے روکے ہوئے ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ بالکل اکیلا ہے اس کی بیوی ہے لیکن وہ اپنی دنیا میں مگن ہے یہ کہانی تہذیبوں کی بدلتی صورت کا بھی آئینہ ہے۔ دکھاوا،نمائش کس طرح انسانی رشتوں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ درج ذیل اقتباس اس کی بہترین منظر کشی کر دیتا ہے۔ 

’’ ایک ہاتھ میں خالی مگ تھامے،دوسرے ہاتھ سے زینے کی ریلنگ کا سہارا لیے وہ اپنے کمرے میں گیا، لباس تبدیل کیا اور تیار ہو کر دوسری منزل پر واقع کھانے کے کمرے میں لنگڑاتا ہوا داخل ہوا۔بائیں پیر کا گھٹنا اب بہت تکلیف دینے لگا تھا،بیگم شاہینہ سلطان قرمزی رنگ کی ساری اور بغیر آستین کا بلائوز پہنے اسی رنگ کی لپ اسٹک لگائے کافی اسمارٹ نظر آرہی تھیں، وہ ناشتہ ختم کر چکی تھیں،پلیٹ میں کانٹا چھری سیدھا سیدھا رکھ کر نیپکن سے ہاتھ پونچھتے ہوئے،ہیرے کی انگوٹھیوں کو برابر کرتی ہوئی مخاطب ہونے سے پہلے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورتے ہوئے بولیں :’’ ایک ڈگڈگی کی کمی ہے وہ بھی لے لیجیے بے پیسے کے تماشہ ہوا کرے گا۔‘‘ 

 شاہینہ کا برتائو مرکزی کردار کی بے چارگی کو قاری کے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے ۔یہ معاشرتی کہانی قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔مرکزی کردار اپنی جڑیں چھوڑ کر دوسری جگہ آبسا ہے جہاں تہذیب نے نئے رنگ اختیار کر لیے ہیں۔وہ عمر کے آخری پڑائو میںتنہائی کا شکار ہے، وہ باغبانی کر کے کسی نہ کسی طرح اپنا وقت گزارنا چاہتا ہے لیکن اس کی مغرب زدہ فیشن ایبل بیوی شاہینہ کو یہ سب اپنے اسٹیٹس کے خلاف لگتا ہے۔

’’یہاں گھر میں اللہ کا دیا کیا نہیں ہے، خانساماں، بیرہ، ڈرائیور اور چوکیدار سب ہیں لیکن ایک مالی نہ رکھنے کی آپ کی ضد ہے اور وہ بھی شاید مجھے جلانے کے لیے۔‘‘

جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی ہے اس کی آنکھوں کی بینائی اور سماعت دونوں کمزور ہوتی جاتی ہیں۔ اس کی اکلوتی بیٹی دور دیس میں ہے،بیوی کی جڑیں چونکہ اسی شہر میں ہیں اس لیے اسے تو کسی کمی کا احساس نہیں ہوتا، یہاں اس کے رشتے دار ہیں دوست ہیں  جن میں وہ مگن ہے، جبکہ وہ ملازموں کے رحم و کرم پر ہے ایسے میں اسے اپنا گائوں اپنا گھر یاد آتا ہے اور اسے احساس ہوتا کہ اس نے اپنی جڑوںکو چھوڑ کر بڑی بھول کی۔اسے یاد آتا ہے کہ بڑے بھیا نے اپنا گائوں اپنی جڑوں کو نہیں چھوڑا  وہ آج بھی آباد ہیں۔ نسیم اقتدار علی کا افسانہ قاری کو ماضی کی یادوں اور پچھتاوے کی دنیا میں لے جا کر چھوڑ دیتا ہے۔ 

  افسانہ شادی ایک نفسیاتی مریض کی زندگی بیان کرتا افسانہ ہے یہ افسانہ نہ صرف اس مریض کی حالت بیان کرتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کے ساتھ سماج کتنا بے رحمانہ سلوک کرتا ہے اسے مصنفہ نے نہایت سچائی کے ساتھ پیش کر دیا ہے، سماج کی بے حسی پر یہ ایک گہرا طنز ہے۔ اس کا مرکزی کردار چھدو ہے جو کم ذہن ہے لیکن چونکہ جوان ہے اس لیے اس کے اندر تمام جذبات بھی ہیں، اس کے اندر جنسی جذبہ بھی موجود ہے اور زندگی کے دوسرے عوامل بھی کار فرما ہیں اس کی اس کیفیت کا اسی کے گائوں کے چند لوگ مذاق کا موضوع بناتے ہیں اور اس کی زندگی سے کھیل جاتے ہیں۔جب مْحلے میں بہت دنوں تک کسی قسم کی کوئی ہلچل نہیں ہوتی ہے، نہ کسی کا شادی بیاہ، نہ کوئی لڑکی بھاگی،نہ کوئی ناجائز اولاد گھورے پر ملی تو گائوں کے چند اوباش  تفریح کے لیے چھدو کو نشانہ بنا لیتے ہیں  یہیں سے افسانے میں وہ درد کی لہر یںچلنے لگتی ہیں جو سماج کے غلیظ چہرے کو قاری کے سامنے آہستہ آہستہ بے نقاب کرتی ہیں۔

دراصل چھدو اپنے بھائی کو اپنی  بیوی کے ساتھ دیکھتا ہے تو اس کے اندرفطری خواہشیں انگڑائی لینے لگتی ہے جس کی وجہ سے اس میں ہیجان پیدا ہوجاتا ہے اور اسے دورہ پڑ جاتا ہے۔  

جب بھی اس پر تشنجی کیفیت طاری ہو جاتی تھی  تب اس کی ماں اس کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈال کر اسے نارمل کر دیتی تھی لیکن جب اس کے چھوٹے بھائی کی شادی ہوئی تو دلہن کو دیکھ کر اس پر پھر شدید تشنجی کیفیت  طاری ہوئی،اس کے منہ سے کف نکلنے لگا اور بے قابو ہو کر جب گرا تو چکی سے ٹکرانے کے باعث سخت چوٹ لگی  اس کی ماں بے حد پریشان ہوئی اور مدد کے لیے رحمت، جمعہ خاں وغیرہ کو بلا کر لائی۔ جب  چھدو ہوش میں آیا تو رحمت نے اس کی دکھتی رگ کو ہی مرہم بنا نے جیسی بات کہہ دی۔

’’ارے یار کیوں پریشان ہوتا ہے ذرا ٹھیک ہو جا ہم تیری شادی کرا دیں گے ‘‘رحمت کے یہ جملے چھدو کے لیے بہت کارگر ثابت ہوئے۔ رحمت  اپنی تفریح کی خاطر اپنی اسی بات کو پوراکرنے کے لیے قبرستان میں رہنے والی فقیرنی شبوسے کہتا ہے اور اسے شادی کے لیے تیار کر لیتا ہے۔

اپنی تفریح اور دل لگی کی غرض سے وہ یہ کھیل کھیل بیٹھتا ہے جس میں گائوں کے سارے اوباش شریک ہوجاتے ہیں اور مزہ لیتے ہیں۔

 مصنفہ اس کا تعارف ہی اس کی شادی کے لیے بنائے گئے حلیے سے کرواتی ہیں۔

’’وہ سفید چھالٹین کا کھڑکھڑاتا پائجامہ اور نیل سوسی کا کرتا پہنے تھا سر پر مخمل کی رام پوری ٹوپی تھی۔منہ پر سرخ رومال رکھے شرم سے دوہرا ہوا جارہا تھا۔اپنی مسکراہٹ دبائے ہوئے اب پھوپھی اماں بھی چبوترے پر نکل آئیں اور بظاہر ناراضگی سے بولیں۔اوئی توبہ یہ لونڈوں نے اس موئے کا کیا سوانگ بنایا ہے۔ارے شیطانو! اللہ کے غضب سے ڈرو کیوں دیوانوں کے منہ لگتے ہو۔خدا جانے اس دیوانگی کے پردے میں اس پر کس شے کاسایہ ہے۔‘‘(ص 60) 

لیکن لڑکے اس بات کا کوئی اثر نہیں لیتے ہیں۔

جمعہ خاں ’’گاجر کی پیندی گل خیرے کا پھول۔ کہو میاں دولہے تمھیں دولہن قبول ‘‘ کہہ کر اس کا نکاح پڑھا دیتے ہیں چھدو بہت خوش خوش اپنی ہی شادی کے بتاشے لوٹتا ہے،اسی ہنگامے کے دوران دولہن شبو کو بھی وہاں سے بھگا دیا جاتا ہے  اور تمام لڑکے بھی چلے جاتے ہیں چھدو کے دولہن کے بارے میں  پوچھنے پر کہہ دیتا ہے کہ اندر رخصت ہونے گئی ہے۔ اس کے بعدرحمت چھدو کے ساتھ وہ سفاکی کا کھیل کھیلتا ہے  جس کے انجام کا اسے خود بھی گمان نہیں تھا۔

’’شاگرد پیشہ کی ایک آسیب زدہ کوٹھری میں اندھی لالٹین  جل رہی تھی چھدو ازخود اندر چلا گیا ملگجی سی روشنی میں کھٹیا کا جھلنگا اسے چھپر کھٹ نظر آیااور مکڑی کے جالے جیسے پھولوں کی لڑیاں لٹکی ہوں۔وہ بہت خوش تھا اور سرخ لڑی نظروں میں بسی ہوئی تھی اتنے میں رحمت کو تنہا آتے دیکھ اس کی گدلی مچمچاتی آنکھوں  سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ اس نے لپک کر رحمت کا گریبان پکڑ لیا الفاظ کے بجائے منہ سے جھاگ نکلنے لگے۔‘‘

چھدوکی اس کیفیت سے رحمت ذرا ڈر سا جاتا ہے اور اسے کھانا کھانے کا کہہ کر دھوکے سے اسی کوٹھری میں بند کر زنجیر لگا دیتا ہے۔

اس کے بعد چھدو کی جو کیفیت مصنفہ نے بیان کی ہے وہ ہر حساس قاری کے دل کو لرزا دیتی ہے اور انسانیت پر سے یقین اٹھا دیتی ہے۔چھدو کھانا کھانے کے بعد دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ناکام ہوتا ہے کیونکہ وہ  باہرسے بند ہے،دروازے پرمکے مار مار کر اس کے ہاتھ لہو لہان ہوجاتے ہیں اور چیخ چئخ کر آواز بھی بند ہو جاتی ہے، جس وقت وہ ذہنی معذور دروازہ پیٹتا ہے اور چیختا ہے اس کی بے بسی اور بے چارگی پررحمت اور اس کے ساتھی مزے لے رہے ہوتے ہیں۔یہاں مصنفہ کا قلم چھدو کی بے بسی اور بے چارگی کو بہت پر اثر الفاظ میں بیان کرتی ہیں۔

’’ آدھی رات کو اس کی چیخیں  مدھم ہوتے ہوتے تھم گئیں اور جب صبح کو دروازے کی زنجیر کھولی گئی اور رحمت نے ذرا سا پٹ ہٹا کر اندر جھانکا تو خود اس کی چیخ نکل گئی۔ سامنے زمین پر چھدو کی اکڑی ہوئی لاش پڑی تھی ‘‘ (ص 65  )

یہ افسانہ ہر حساس قاری کے دل ودماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے کہ انسان اتنا بھی سفاک ہو سکتا ہے یہ سوال اسے سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے ،ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ اس رات اس کی ماں اور بھائی کہاں تھے اس کا جواب بھی قاری کے ذہن میں ابھر آتا ہے کہ کسی ناکارہ اور معزور انسان کو گھر والے بھی کب اہمیت دیتے ہیں،اس کی زندگی ان کے لیے بوجھ سی بن جاتی ہے کہاں ان کی پرواہ کی جاتی ہے۔جسے یہ جملہ واضح کر دیتا ہے ’’ یوں تو اسے کسی بات کی خبر نہ ہوتی وہ کون سا گھر میں رہتا تھا سارا دن گلیوں میں واہی تباہی پھرتا رہتا ‘‘یہ بات پورے سماج کی ذہنیت کی طرف اشارہ کردیتی ہے کہ اس قسم کے کرداروں کی زندگی کس طرح کی ہوتی ہے۔یہاں تک کہ ماں بھی ہر سال وبائی امراض پھیلنے پر جھولی پھیلا پھیلا کر اس  کے مرنے کی دعائیں کرتی ہے ’ اللہ پاک اب کی سے چھدو کی مٹی ٹھکانے لگا دے۔ارے کسی کی آئی اس کو سمیٹ لے جائے ‘‘ یعنی ایسے کرداروں کا وجود اس پیدا کرنے والی ذات کے لیے بھی ایسا بوجھ ہے جس سے وہ چھٹکارہ چاہتی ہے۔ 

  بلا شبہ یہ افسانہ اس مجموعے کا بہترین افسانہ ہے۔

اس مجموعے کے افسانے پڑھنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ نسیم اقتدار علی نے اپنے افسانوں کا موضوع ان مسائل کو بنایا ہے جنھیں ہم بہت اہمیت نہیں دیتے لیکن وہ کہیں نہ کہیں زندگیوں پر اور معاشرے کے نظام پر اثرانداز ہوتے ہیں۔افسا نوں کی زبان انتہائی سادہ ہے اور یہی ان کے افسانوں کی خوبی قرار پاتی ہے وہ سیدھے سادے انداز میں اپنی بات کہہ جاتی ہیں اور قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ان کے افسانوں میں اودھ کی مٹتی تہذیب کے نوحے بھی ملتے ہیں اور زوال آمادہ معاشرے کی بدلتی تصویریں بھی جس کی مثالیں ان کے افسانے جڑیں، پٹی گلی اور نظر بند ہیں۔المختصر ڈاکٹر نسیم اقتدار علی کے افسانوں کا جائزہ لینے پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے افسانوں کے موضوعات ہمارے معاشرے کے چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جنھیں انھوں نے فنی چابکدستی سے افسانوی رنگ عطا کر دیا ہے۔


Dr. Ishrat Naheed

Asst. Professor, Maulana Azad National Urdu University, Lucknow Campus

504/122 Tagor  Marg

Near Shabab Market, Daliganj  

Lucknow- 226 020 (UP)

Mob.: 09598987727


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں