13/3/24

مظہر امام کی خاکہ نگاری: مضمون نگار ابرار حسین

 
مظہر امام بہار کے شہر دربھنگہ میں 12مارچ  1928 کو پیدا ہوئے۔ آپ ایک ذی علم خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ والد کا نام سید امیر علی تھا اور والدہ کنیز فاطمہ تھیں۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن ہی میں حاصل کی۔  1951 میں  بی۔ اے اور 1969 میں بہار یونیورسٹی سے فارسی میں اور 1971 میں مگدھ یونیورسٹی سے اردو سے ایم اے کیا۔ گریجویشن کے بعد کلکتہ میں صحافت اور درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ 1975 میں سری نگر دوردرشن سے منسلک ہوئے اور وہیں سے سلیکشن گریڈ ڈائرکٹر کے منصب سے 19 میں ریٹائر ہوکر دہلی آگئے۔

اردو ادب کی دنیا میں مظہر امام شاعر کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ ابتدا میں انھوں نے افسانے بھی لکھے لیکن ان کا خاص میدان شاعری تھا۔شاعری میں غزل، نظم، نظم معریٰ، آزاد نظم،ترائلے، سانیٹ ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ان کو شاعری کے ہئیتی تجربوں سے خصوصی دلچسپی رہی ہے۔ کلام کی باقاعدہ اشاعت کا سلسلہ ’نقوش‘ لاہور (دسمبر1950) اور شاہراہ، دہلی (اکتوبر 1951) سے ہوا۔ ان کے کلام کے ترجمے انگریزی، روسی، عربی کے علاوہ ہندوستان کی تقریباً تمام اہم زبانوں مثلاً ہندی، بنگالی، آسامی، اڑیا، میتھلی، سندھی، گجراتی، مراٹھی، پنجابی، کشمیری اور ڈوگری وغیرہ میں ہوچکے ہیں۔

مظہر امام کا پہلا شعری مجموعہ ’ زخم تمنا‘1962 میں شائع ہوا۔ دوسرا مجموعہ ’رشتہ گونگے سفر کا‘ 1974 اور تیسرا شعری مجموعہ ’پچھلے موسم کا پھول‘ 1988 میں منظر عام پر آیا۔ اس کے علاوہ ان کی تقریباً پچاس منتخب نظموں کا مجموعہ ’بند ہوتا ہوا بازار‘ 1992 میں شائع ہوا۔ شاعری کے علاوہ ان کی نثری تخلیق قابل قدر ہیں۔ تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’آتی جاتی لہریں‘ 1981، 1988 میں تحقیقی اشاریہ ’آزاد غزل کا منظر نامہ‘۔ ساہتیہ اکادمی نئی دلی کی جانب سے 1992  میں ’ہندوستانی ادب کے معمار‘ جمیل مظہری پر ان کا مونوگراف منظر عام پر آیا۔ اس کے علاوہ ادبی شخصیتوں کے خاکوں کا مجموعہ ’اکثر یاد آتے ہیں‘ کے نام سے 1993 میں اشاعت پذیر ہوا۔

مظہرامام  نے 30 جنوری 2012 کو اس دار فانی سے داربقا کی طرف کوچ کیا۔

مظہر امام کے خاکوں کا مجموعہ ’اکثریاد آتے ہیں‘ 1993 میں منظر عام پرآیا۔ اس میں آٹھ خاکے شامل ہیں۔ جگر مرادآبادی، عبد الرزاق ملیح آبادی، اشک امرتسری، جمیل مظہری، پرویزشاہدی، کرشن چندر، اختر قادری اور خلیل الرحمن اعظمی ہیں۔ اس مجموعے میں اپنے اساتذہ کا تذکرہ، بعض بزرگوں کے نظریات، ان کی خوبیوں، کمزوریوں اور دوستوں کی کارستانیاں وغیرہ کے ذکر کے ساتھ مصنف نے طالب علمی کے دور کی کمزوریوں کی روداد بھی پیش کی ہے۔

مظہر امام نے جن آٹھ شخصیات پر اپنی یاد داشتوں کو قلمبند کیا ہے۔ ان میں بعض تاثراتی مضامین کا درجہ رکھتے ہیں اور بعض خاکے فنی معیار پر اترتے ہیں۔ 

افتخار اجمل شاہین کے نزدیک مظہر امام کے خاکے، خاکے کے فن پر کھرے نہیں اترتے بلکہ ان کے خاکے کو شخصی مضامین یا یادداشتوں کا نام دیا ہے لیکن حیدرقریشی نے مظہر امام کے ان مضامین کو ’آزاد خاکے‘ کانام دیا ہے جو بہت حدتک درست بھی ہے۔ مظہر امام ادب میں تجربے کے قائل ہیں۔ چنانچہ انھوں نے غزل سے آزاد غزل کا تجربہ کرکے اسے ایک باضابطہ شکل دی۔ اس وجہ سے انھیں آزاد غزل کا بانی کہا جاتا ہے۔ اس طرح انھوں نے خاکوں کی معروف اور مروجہ تعریفوں سے ہٹ کر آزاد خاکوں کا تجربہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حیدر قریشی ان مضامین پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’اکثر یاد آتے ہیں‘ کے مضامین کو شاید خاکہ کی کسی لگی بندھی تعریف کے دائرے میں لانا مشکل ہو۔ اس کے باوجود ان مضامین میں خاکہ نگاری کے بیشتر اوصاف موجود ہیں۔ مظہر امام نے اپنے آٹھ ممدوحین کی صورت میں باری باری آٹھ آئینوں میں اپنے آپ کو دیکھا ہے۔ ہر آئینے میں ان کی شخصیت اپنے گزرے ہوئے کسی زمانے کو ساتھ لیے جلوہ گر ہے۔ پھر اسی زمانے کی خاک سے ان کے ممدوح ابھرتے ہیں اور مظہر امام کے ساتھ بتائی ہوئی اپنی زندگی پھر سے جیتے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

بہرحال مظہر امام کے یہ مضامین خاکہ نگاری کے معیار پرکھرے اترتے ہوں یا نہ اترتے ہوں لیکن ان تحریروں میں مذکورہ شخصیتوں کے ضمن میں بعض ایسے پہلوئوں کی نشاندہی کی ہے جن کا ذکر دوسری جگہ نہیں ملتا۔ اس لحاظ سے مظہر امام کے یہ خاکے منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔

خاکہ نگار کو کسی شخصیت کا خاکہ لکھنے سے پہلے اس کے بارے میں پوری جانکاری رکھتا ہویا اس کے ساتھ کچھ وقت گزارا ہو، تبھی وہ ایک اچھا خاکہ لکھ سکتا ہے۔ خاکہ نگار شخصیت کی تصویر اس وقت بنا سکتا ہے جب شخصیت کے تمام پہلوؤں کو غیر جانبدارہوکر پیش کرے۔ مظہر امام نے اپنے خاکوں میں جانبداری سے کام لیا ہے۔ وہ شخصیات کی ادبی قابلیت ان کے اخلاق و کردار اور سیرت کے صرف مثبت پہلوؤں پر ہی نظر رکھتے ہیںاور منفی پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

خاکے کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے کہ خاکوں میں چھوٹے چھوٹے واقعات کے ذریعے شخصیت کے کردار،اخلاق اور سیرت وغیرہ بیان کیے جاتے ہیں جس سے شخصیت اور نکھر کر سامنے آتی ہے۔ لیکن مظہر امام کے خاکوں میں چھوٹے چھوٹے واقعات نظر نہیں آتے بلکہ وہ ایک تواتر سے شخصیت کی ادبی اور سماجی حیثیت کو بیان کرتے ہیں۔

تمام اصناف ادب کا اپنا ایک اسلوب ہوتا ہے جس سے وہ صنف پہچانی جاتی ہے۔ خاکے کا بھی اپنا ایک اسلوب ہے۔ وہ یہ کہ خاکے کی تحریروں میں شگفتگی اور سنجیدگی کے ساتھ کہیں کہیں طنزو مزاح کے پہلو بھی نظر آئیں۔ مظہر امام کے یہاں وہ اسلوب کی خوبصورتی نظر نہیں آتی۔ انھوں نے اپنے خاکوں میں تنقیدی اسلوب اختیار کیا ہے جس سے ان کی تحریر خشک نظر آتی ہے۔ وہ الفاظ کے ذریعے مزاح پیدا کرنے سے بھی قاصر  ہیں۔ ہمیں ان کے خاکوں میں انھی ساری کمیوں کاشدت سے احساس ہوتا ہے۔  

’اکثر یاد آتے ہیں‘ کا پہلا خاکہ جگر مرادآبادی کی شخصیت پر ہے۔ اس خاکے کا آغاز ان الفاظ میں ہوتا ہے۔

’’جگر صاحب کا نام بچپن سے ہی سنتا آیا تھا۔ میٹرک کا طالب علم تھا جب اپنے بڑے بھائی جناب حسن امام درد کے اصرار پر پہلی دفعہ کسی مشاعرے میں شرکت کا اتفاق ہوا۔''


(خاکہ جگر مرادآبادی، مشمولہ، اکثر یاد آتے ہیں، ص 5)

مظہر امام کو بچپن سے ہی جگر مرادآبادی سے ذہنی وابستگی رہی ہے۔ ان میں ادبی ذوق پیدا کرنے اور ان کو شاعری کی طرف راغب کرنے میں جگر مرادآبادی کی پرکشش شخصیت کا شعوری و غیر شعوری طور پر ایک اہم رول رہاہے۔ جگر صاحب سے کئی ملاقاتیں بھی رہی ہیں، اس کا ذکر مظہر امام نے خاکے میں کیاہے۔ چنانچہ انھوں نے جگر کی شخصیت کو پیش کرنے میں اپنی خاکساری، معتقدانہ اور سعادت مندانہ انداز اختیار کیا ہے۔

اشک امرتسری ایک شاعر کی حیثیت سے معروف ہیں۔ مظہر امام ان کے خاکے میں شاعری کے ذریعے ان کی شخصیت کا تعارف کراتے ہیں۔ یہ مجموعے کا مختصر ترین خاکہ دس صفحات پر مشتمل ہے۔ لیکن ایک ایسے شخص سے متعلق معلومات سے پر ہے جسے غیر متغزلانہ زبان اور کھردرے موضوعات کی بنا پر شرفا کی بزم سخن میں شرکت کی دعوت نہ دی جاتی تھی لیکن صاحب کتاب ان کی خداداد صلاحیتوں اور ذاتی خوبیوں کی بنا پر ان سے رشتہ یگانگت استوار کیے بغیر نہ رہ سکے۔ مظہر امام جب کلکتہ گئے تو وہاں کے ادبی ماحول سے نا آشنا تھے۔ کلکتے میں اپنے دوستوں (انوار عظیم،ش مظفر پوری اور نشاط الایمان)کے علاوہ کسی سے شناسائی نہ تھی۔ اچانک ایک مشاعرے کا دعوت نامہ ان کے پاس آیا۔ جب مشاعرے میں پہنچے تو پہلی بار اشک امرتسری پر نظر پڑی جو مشاعرے کی صدارت کر رہے تھے اس وقت مظہر امام کے ذہن میں اشک امرتسری کا جو نقشہ ابھرا اس کو خاکے میں اس انداز سے بیان کیا ہے:

’’انور عظیم شعراکے نام پکار رہے تھے۔ سردار جعفری اور پرویز شاہدی کے قریب مسند صدارت پر ایک دبلا پتلا شخص موٹے شیشے کی عینک لگائے معمولی قمیص پائجامے میں ملبوس بیٹھا تھا۔ اندر کو دھنسے ہوئے رخسار،حد سے بڑھی ہوئی لمبی ناک،چہرے پر چیچک کے گہرے داغ، مہندی سے رنگے ہوئے بال، عمر پچاس کے لگ بھگ۔ بھلا ایسے صدر سے کون متاثر ہوتا! معلوم ہوا،آپ اشکــــــ امرتسری ہیں۔‘‘

(خاکہ اشک امرتسری،مشمولہ اکثر یاد آتے ہیں،ص28)  

مظہر امام نے خوش اسلوبی سے جمیل مظہری کا تفصیلی تعارف کرایا ہے اور ان کے متعلق بہت ساری معلومات بہم پہونچائی ہیں کہ وہ کلکتہ اور پٹنہ میں ان سے برابر ملتے اور قریب سے دیکھتے رہے۔ ان میں وہ باتیں بھی ہیں جو ان کی شخصیت سے وابستہ ہوکر مشہور ہوچکی ہیں اور ایسی باتیں بھی جن سے ان کے کردار کی عظمت نمایاں ہوتی ہے۔ جیسے شراب نوشی سے مکمل پرہیز اور اپنے ناداراقربا کی مالی امداد کرنا۔  

مظہر امام نے جمیل مظہری کے خاکے میں ان کے شاعرانہ اوصاف کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جمیل صاحب نے ایک عرصے تک شادی نہیں کی، اپنی پہلی محبت کو سینے سے لگائے رہے۔ دوستوں اور عزیزوں کے اصرارپر 40 سال کی عمر میں مٹیا برج کی ایک بیوہ سے شادی بھی کی تو ازدواجی زندگی کا سکھ انھیں نصیب نہ ہوسکا۔ حد تو یہ کہ ان کی بیوی کے یہاںآنا جانا بھی نہ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ جمیل صاحب صاف صفائی کے معاملے میں قدرے بے پرواہ تھے، لیکن ایک درد مند طبیعت کے مالک تھے۔ ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ بھائی اور بہن کے بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ آمدنی کا زیادہ تر حصہ عزیز و اقارب پر خرچ کردیتے تھے۔ مظہر امام ان کی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’جمیل مظہری دوسروں کی خوشی اور غم دونوں میں شریک ہوتے تھے۔ یہ وضع داری آج کی تیز رفتار زندگی میں معدوم ہوتی جارہی ہے۔ لوگ کہتے تھے! ’’اے گم شدگی! اے بے نیازی! تیرا نام جمیل مظہری ہے۔‘‘ایسے پراگندہ طبع لوگ کہاں ہیں۔ کاش ایسی گم گشتگی اور بے نیازی ہر ایک کو میسر ہو جو دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھے، جو دوسروں کی خوشیوں پر اپنی محرومیوں کا سایہ نہ پڑنے دے۔‘‘ 

(خاکہ جمیل مظہری، مشمولہ اکثر یاد آتے ہیں، ص 65)

اختر قادری پر تحریر کردہ خاکہ ایک لائق اور سعادت مند شاگرد کی جانب سے ایک خوبصورت خراج عقیدت ہے۔ مظہر امام اپنے استاد سے پہلی ملاقات، پھرملاقاتوں کا ایک سلسلہ ہونے کی وجہ سے استاد سے بہت زیادہ قریب ہوگئے اوراس قربت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مظہر امام جو بھی تخلیق کرتے استاد کوبطور اصلاح ضرور دکھاتے۔ قادری صاحب اس تخلیق کی تعریف کرتے اور اصلاح بھی فرماتے۔ استاد سے اپنی شعری اصلاح کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’مجھے صحیح یاد نہیں،شاید 1946 میں اپنی  20-18 بالکل ابتدائی غزلیں میں نے ان کے پاس اصلاح ومشورہ کی غرض سے بھیجیں۔قادری صاحب نے حسب معمول انکساری سے کام لیتے ہوئے لکھاکہ آپ میں شعر گوئی کی خداداد صلاحیت ہے، وغیرہ وغیرہ اس لیے کلام پر اصلاح کیا معنی!البتہ آپ نے اتنی محبت سے یاد کیا ہے تو کہیں کہیں اپنے خیالات پیش کردوں گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قادری صاحب نے بہت توجہ سے ان غزلوں کو دیکھا، کہیں کہیں ترمیم کے اسباب بھی بتائے،کچھ اشعار کو قلم زد بھی کیا،ایک حذف کردہ شعر یہ تھا ؎

ان دنوں ناراض ہے مجھ سے خدا

رازگار سر خوشی ہے آج کل

اس پر اختر قادری نے اتنا لکھا تھا:نعوذباللہ آپ نہیں جانتے،خدا کی ناراضی کیا ہے!‘‘

(خاکہ اختر قادری مشمولہ اکثر یاد آتے ہیں،ص139)

کرشن چند رکے خاکے کی ابتدا عقیدت مندانہ لب و لہجے سے کی گئی ہے۔ ان کے کئی افسانوں کے نام گنواکر ان کے مطالعے ہی کی نہیں بلکہ انھیں حرز جاں بنانے کی بات کی گئی ہے۔ پھر ان سے خط وکتابت اور کلکتہ میں ملاقاتوں کا تذکرہ کیا ہے۔

خلیل الرحمن اعظمی سے مظہر امام کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ یہ دونوں ایک عرصے تک ترقی پسند تحریک کے شہسواروں میں تھے، چنانچہ اس حوالے سے ان دونوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور ملاقات و تعلقات کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ مصنف نے اس تاثراتی خاکے میں خلیل الرحمن اعظمی کی یارباشی، ان کے اخلاق و محبت، ان کا حافظہ، معروف اور غیر معروف ادیبوں کی چیزوں کو پڑھنا، یاد رکھنا نیز ان کی شعری وادبی خدمات وغیرہ پر تفصیلی گفتگو کی ہے ملاحظہ ہو:

’’خلیل الرحمن اعظمی شاعر اور نقاد کی حیثیت سے دو چار سال کے اندر ہی معتبر تسلیم کر لیے گئے اور ان کی نثری اور شعری تخلیقات ارباب نقدو نظر کی توجہ کا مرکز بننے لگیں۔ انھیں جائز طور پر نئی غزل کا بانی کہا جاتا ہے۔ ان کے مضامین میں جو بصیرت اور نظر ملتی ہے،خیالات کی جو صفائی،وضاحت اور انداز نظر کی جو معروضیت ہے وہ ہماری نئی تنقید کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔‘‘

 (خاکہ خلیل الرحمٰن اعظمی،مشمولہ اکثر یاد آتے ہیں،ص148)

مظہر امام کے خاکے شاہد ہیں کہ انھوں نے بحیثیت خاکہ نگاراپنے قلم کے جوہر دکھانے کی سعی کی ہے۔ انھوں نے اپنے خاکوں میں شخصیت کے حوالے سے ادبی اور تہذیبی دنیا کے ایک عہد کو اجاگر کرنے کی کوشش کی اور اپنے انداز سے خاکہ نگاری کی روایت میں توسیع بھی کی ہے۔ ان کے خاکے الگ الگ زمانے میں لکھے گئے مگر مجموعے کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان آٹھ منفرد اور باکمال شخصیتوں کے درمیان تقریباًاسی معیار کی نویں شخصیت بھی اپنے پورے جمال وکمال کے ساتھ ابھری ہے اور وہ شخصیت خاکہ نگار کی ہے۔  ’اکثر یاد آتے ہیں‘ کے خاکوں کے مطالعے سے بلاتامل کہا جا سکتا ہے کہ ان خاکوں کو مصنف نے پوری دل سوزی اور خلوص کے ساتھ لکھا ہے۔ یہ خاصے معلوماتی بھی ہیں اور دلچسپ بھی اور اردو کے شخصی خاکوں میں یاد رکھے جانے کے لائق بھی ہیں۔


Abrar Husain Azmi

Research Scholar, Delhi University

Delhi- 110007

Mob.: 9598910538


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں