اردو دنیا، مارچ 2024
2 جنوری 2024 کو میرے واٹس ایپ پر موصولہ پیغام،
افسوس کے ساتھ خبر دی جاتی ہے کہ بدرالدین الحافظ کاآج انتقال ہو گیاہے۔ یہ خبر میرے
لیے انتہائی افسوسناک اور سوہان روح تھی۔ مرحوم سے میرا تعلق انتہائی والہانہ رہاہے۔
پروفیسر بدرالدین الحافظ سے پہلی مرتبہ میری ملاقات جامعۃ الفیصل راجہ کا تاجپور، ضلع
بجنور (یوپی) میں دوروزہ تعلیمی کانفرنس بعنوان ’مدارس اسلامیہ کا نصاب تعلیم اور عصری
آگہی‘ منعقدہ 4,5مئی 2010 میں ہوئی تھی۔اس میں راقم کے علاوہ بطور مقالہ نگار موصوف
نے بھی اپنا مقالہ پڑھا تھا۔ پروفیسر بدرالدین الحافظ کی ولادت 1935میں مرادآباد میں
ہوئی۔ ابتدائی تعلیم و تکمیل حفظ قرآن مدرسہ شاہی مرادآباد میں ہوئی۔ بعد میں دارالعلوم
دیوبند سے سند فضیلت وعا لمیت حاصل کی۔اس کے
بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے انٹر میڈیٹ اور گریجویشن کیا۔ بعد میں علی گڑھ مسلم
یونیورسٹی سے عربی اَدب میں ایم اے اور دہلی یونیو رسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرکے
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ملازمت سے وابستہ رہتے ہوئے اسلامک اسٹڈیز وعربک ٹیچر سے پر
وفیسر تک کے تدریسی مرا حل طے کیے۔ موصوف کو 1985 میں اُس وقت کے صدر جمہوریہ ہند آنجہانی
ڈاکٹر شنکر دیال شرما کے بدست بہترین عربی اُستاد کے میڈل سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ
بھی آپ کو ان کی علمی وادبی خدمات کے عوض متعدد اعزازات وانعامات دیے گئے۔ بنارس ہندو
یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے پروفیسر و سربراہ ہوکر سبکدوش ہوئے۔ سبکدوش ہونے کے بعد
بھی آپ تا حیات علمی وادبی کاموں میں مصر ف رہے۔ یہاں تک کہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم
طلبا کی جدید عربی میں گھر پر مفت تدریس کرتے ہوے لاتعداد طلبا کی علمی تربیت کی اور
مستفید کیا۔ موصوف کا یہ جذبہ اور خدمات لائق صد تحسین وستائش ہے۔
بحیثیت ترجمہ نگار آپ نے
متعدد عربی ناولوں کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ دینیات میں کئی کتابیں تصنیف
کیں۔ پروفیسر بدرالدین الحافظ نے عربی کے مشہور ادیب عباس محمودالعقاد کی پانچ عربی
کتابوں کے اردو میں تر جمے کیے ہیں۔ان میں خلفائے راشدین اور حضرت عائشہؓ کے تراجم
لائق ذکر ہیں۔ بچوں کے لیے مدرسہ ابتدائی کی نظمیں کے عنوان سے ایک مجموعہ بھی شائع
ہوا۔انشائیوں میں آپ کے گزشتہ سالوں میں تین مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ان میں انصاری
صاحب کا چائے خانہ 2013میں شائع ہوا۔ شیخ کا طرحدار کرتا اشاعت 2014 اوربڑھاپے میں
جوانی اشاعت 2017 نے منظر عام پر آکر قبولیت عام حاصل کی۔ تینوں کتابوں کے اصلاحی
مضامین نے انشا کے حسن وآہنگ اور افسانوی رنگ نے موصوف کے اسلوب نگارش کو دلچسپ وجاذب
نظر اور دوآتشہ بنادیاہے۔ موصوف نے ان مضامین میں نفس مضمون سے مطابقت رکھنے والے
معروف شعرا کے اشعارکواس خوبی کے ساتھ چسپاں کیا ہے کہ مستعمل اشعار مضامین کی تحریروں
کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔جیسے کتاب ’بڑھاپے میں جوانی‘ کے مضمون، بڑھاپا کیا گیا میں
شجاع خاور کا یہ شعر ؎
شجاع موت سے پہلے ضرور جی
لینا
یہ
کام بھول نہ جانا بہت ضروری ہے
سنتے
ہیں ان کو چھیڑ چھیڑ کے ہم
کس مزے سے عتاب کی باتیں
ایک
اور مضمون سلام پھیرتے ہی ہم ثواب مانگنے لگے میں ؎
تجارتوں
کا رنگ اب عبادتوں میں آگیا
سلام
پھیرتے ہی ہم ثواب مانگنے لگے
وغیرہ قابل ذکرہیں۔ بڑھاپے
میں جوانی کتاب میں شامل مضامین میں سے چند جن میں بوڑھی محبوبہ، بڑھاپے میں جوانی،
شیخ کا طرحدار کرتا، میرا موبائل مجھ سے مانوس نہیں ہوتا، اصلی نقلی کمبل، کے دلچسپ
مناظر وغیرہ کے علاوہ دیگر مضامین بھی یاتو مصنف کو پیش آمدہ روزمرہ کے واقعات، مسائل
اورمشاہدات کے ترجمان ہیں یا پھر ان کے تجربے کے غماز، جن کو مصنف نے اپنے منفرد اسلوب
نگارش کے ساتھ نفس مضمون کو اس طرح پیش کیاہے کہ پڑھ کر کلمات دادوتحسین نکلتے ہیں۔ایک
یونانی دواخانے میں کیادیکھا میں ادویات کے غلط املا سے متعلق بڑی اچھی نشاندہی کے
ساتھ موجودہ دور کے اردو خواندہ حضرات کے غلط املے پر بجا طور پر اظہار تاسف کیا ہے۔
مضامین میں مستعمل طنزومزاح برائے اصلاح جہاں نشتریت پیدا کرتاہے وہیںدوسری طرف شائستہ
مزاح بھی قاری کی طبیعت کو مکدر نہیں ہونے دیتا۔ مختصر تینوں کتابوں کے مشمولات نہ
صرف لائق مطالعہ ہیں، بلکہ اپنے اندر فکر اصلاح بھی رکھتے ہیں۔درمیان میں گاہے گاہے
احادیث، اقوال زرّیں اور ناصحانہ اشعار کی شمولیت نے کتاب کے مواد میں چار چاند لگادیے
ہیں۔ بلا شبہ مذکورہ مضامین نہ صرف قارئین کو اصلاح کی تحریک دلاتے ہیں، بلکہ انھیں
دعوت فکر دے کر عملی جدوجہد پر بھی اُبھارتے ہیں۔
مدرسہ ابتدائی کی نظمیں پروفیسر
بدرالدین الحافظ صاحب کی بچوں کے لیے لکھی گئی منظومات کا مجموعہ ہے، جو جامعہ ملیہ
اسلامیہ دہلی کے مڈل درجات کے مڈل سطح کے طلباو طالبات کے لیے تحریر کی گئی ہیں۔مذکورہ
بالا مجموعے میں پروفیسر بدرالدین الحافظ صاحب کی نظموں کے علاوہ جناب عنایت اللہ منظر
اعظمی، سیدمقصودحسین نقوی، سید ضمیرالحسن میر مرحوم وغیرہ سابق اساتذہ کی شعری کا وشوں
کو بھی ترتیب میں جگہ دی گئی ہے۔ بالخصوص اس مجموعے کو تصنیف کے علاوہ ترتیب وتالیف
کے ذیل میں بھی رکھا جائے گا۔ سبھی نظموں میں بچوں کی تربیت واصلاح کی خاص رعایت کو
ملحوظ رکھا گیاہے۔نظموں میں حمدو نعت کے علاوہ دیگر موضوعات پر شامل نظموں میں طلباکے
علمی وثقافتی تمدنی وکلچرل سرگرمیوں کی نمائندگی بخوبی ہوئی ہے۔ اس مناسبت سے ان نظموں
کو نیاتعلیمی سال، نیا شمسی سال، کھلی ہواکامدرسہ، فائنل کلاس کی الوداعی دعوت اور
سالانہ اسپورٹس وغیرہ ذیلی عنوانات کے تحت موضوعات کی نشاندہی کے لیے زمرہ بند کیا
گیا ہے۔ نظموں میں ہندی لفظیات کے استعمال نے نہ صرف زبان وبیان میں مٹھاس پیداکی ہے،
بلکہ اس سے ہماری گنگا جمنی تہذیب کی عکاسی بھی ہوئی ہے ؎
پڑھولکھو وگیانک بن کر تم کو چاند پہ جاناہے
نئی
نرالی راہ پہ چل کر سب کو مارگ دکھانا ہے
کہہ
دو اَب تو چاند کی دنیا میں جانے کی ٹھانی ہے
دنیا
نئی بسانی ہے،
نظمیں بچوں کو نہ صرف علم
وعمل کے لیے اُبھارتی ہیں بلکہ ان میں حب وطن اور ملی خدمت کا جذبہ پیداکرنے کے علاوہ
ان میں جمہوری مزاج پیدا کرکے شعورو بیداری کا پیغام بھی دیتی ہیں۔ جیسے بچوں کی حکومت
والیکشن، مسند نشینی کا جلسہ، مبارک ہو یہ رسم، مسند نشینی و جمہوریت کانغمہ وغیرہ
نظموں میں دیکھا جا سکتاہے۔طلبا کو بانیان جامعہ گاندھی جی، ڈاکٹر ذاکر حسین اور حکیم
اجمل خاں وغیرہ اسلاف کے کردار وسیرت کو بطور آئیڈیل وآدرش اپنی شخصیت وعمل میں ڈھال
کر ملک وملت کی خدمت اور تعمیر کے لیے اُبھارا گیا ہے ؎
پڑھنے لکھنے سے کر لو پیار/تم
ہو دیش کے کھیون ہار
پڑھنے
والے لوگ تھے کیسے/ گاندھی، اجمل، ذاکر جیسے
تم
بھی کام کرو ان جیسے/بن جاؤگے اک دن ایسے
اس
کے علاوہ متفرقات کے تحت عمومی موضوعات کوموصوف نے جلسے میں قوالی، سالگرہ مبارک ہو،
مبارکباد اور ہری سبزی پسند ہے وغیرہ نظموں میں جگہ دی ہے۔ چند طلبا و اساتذہ کا تعارف
منظومات کے بندواشعار میں اس ان کہے انداز میں کردیاگیاہے، جس سے نہ صرف ان شعروں میں
ان کی سیرت سمائی ہوئی ہے، بلکہ ان کی وطن پرستی کی تاریخی جھلک بھی ان شعروں میں دیکھی
جاسکتی ہے۔ طلبا کا منظوم تعارف دیکھیں
؎
کون کہتاہے جہاں سے اولیاء
رخصت ہوئے
مجھ
کو دیکھو میں ابھی سید
ولی موجود ہوں
ہے
کھتولی میرا گھر میرے بزرگوں کا وطن
ناز ہے جس پر مجھے وہ میری
خوشیوں کاچمن
نعیم
احمد کے لیے ؎
شہربستی
سے میں آیا اٹھاکر ہاتھ میں بستہ
بسا پھر جامعہ
آکر لگایا میز پر بستہ
نعیم احمد میں کھاتا ہوں باقر
خانیاں خستہ
پسند
ہے مجھ کو اصلی گھی وہ مہنگا ہو کہ ہو سستا
اساتذہ کے تعارف میں آزاد
رسول، آفتاب صدیقی، شاہدہ پروین وغیرہ پر اشعار ؎
کردار
میں درویشی انداز فقیرانہ
آزاد
نے پائے ہیں اطوار کریمانہ
کیوں نہ چمکیں یہ جہاں میں
آج مثل آفتاب
ہے محبت ان کی فطرت تو ریاضت
ان کا دین
شاہدہ مشہود ہیں اردو
کی سہیلی
بچوں
کو سناتی ہیں یہ خسرو کی پہیلی
پروفیسر بدرالدین الحافظ نے
سنجیدہ علمی موضوعات پر لکھنے کے ساتھ ساتھ نثر میں طنز وظرافت اور یادداشت قلم بند
کرکے اپنے قلم کے جوہر دکھلائے ہیں۔’ میری زندگی کی یادگار عیدیں‘ ایسی ہی یادداشتوں
پر مبنی ان کی تحریر ہے، جس میں مختصر طور پر ان کی خودنوشت سوانح کی جھلک دیکھنے کو
ملتی ہے۔ اس میں موصوف نے عید کے زیر عنوان خود کو پیش آمدہ مدو جزر زمانہ اور نشیب
وفراز کو بڑی خوبصورتی اور فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کیاہے۔ عید کے اہتمام میں بچوں
کے لیے ضروری لوازمات سے محرومی کا حالات کے تناظر میں بخوبی ذکر کرتے ہوئے یہ بھی
تحریر کیا ہے انقلاب زمانہ نے غیر متوقع طور پر مجھ سے مفلوک الحال شخص کو بالآخر
وہ عروج بخشا کہ آج جامعہ میں دوگانۂ عید کی امامت کا مجھے شرف حاصل ہوا،جس کی اقتدا
میں سابق صدر جمہوریہ ہند مرحوم ڈاکٹر ذاکر حسین اورپروفیسر محمد مجیب شیخ الجامعہ
وزرا وسفرا جیسی گرانقدر شخصیات نے نماز عید ادا کی۔ اپنے اسی مضمون میں موصوف نے بجا
طور پر عیدین کے مواقع پر اتحاد باہمی، یگانگت ومیل ملاپ وغیرہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ
اہتمام عید کے طریقوں کے مابین ماضی وحال کے فرق کو تاریخ کے تناظر میں بڑے خوبصورت
انداز میں پیش کیا ہے۔زندگی کی یادگار عیدیں کے زیر عنوان دہلی کی عید گاہ میں’ اپنی
پہلی عید کی نماز‘میں تحریر کرتے ہیں کہ1944میں جب والد صاحب نے کرنال چھوڑنے کا ارادہ
کر لیا اور مجھے لے کر دہلی آگئے تو صدر بازار کی سرائے میں اترے۔ یہاں چارآنے روز
کی چار پائی کرائے پر لی۔ اس سرائے میں ایک روپیہ یومیہ چھوٹا کمرہ بھی ملتا تھا، جسے
عام طور پر پنجاب اور یوپی وغیرہ کے تاجر کرائے پر لے کر تجارتی سامان رکھا کرتے تھے۔
اس کی چابی ہر کرائے دار کے پاس رہتی تھی۔
اس کے بعد والد صاحب نے ہمارے
ایک رشتے کے ماموں مولانا مقبول احمد کو تلاش کیا۔ وہ قصاب پورہ میں رہتے تھے، وہاں
ان کیGeneral merchant
کی د کان تھی۔ وہ مل کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ تم جہاں
ٹھہرے ہووہاں گھرکا کھانا لاؤںگا۔ اس طرح مقبول ماموں دو تین روز تک کھلاتے رہے۔ پھر
انھیں کی کوشش سے ہمارے لیے ایک قیام گاہ تلاش کی گئی، جو گھر نہیں بلکہ ایک دوکان
تھی۔ یہ بارہ ٹوٹی سے باڑہ ہندو راؤ کو جانے والی سڑک کے بائیں جانب کسی اگلی گلی
میں تھی۔ اس کے برابر حجام کی ایک دوکان تھی۔ وہ بھی ملنسارشخص تھا۔اگرچہ دوکان میں
رہائش کی ساری سہو لتیں نہیں تھیں اور دشواری بھی تھی، مگر بہر حال ایک ٹھکانہ ہوگیا
تھا۔ پھر حجام ہی کے مشورے پر قطب روڈ سے ایک چارپائی منگائی گئی، جو چار روپے کی تھی۔
لانے والے مزدور نے چار آنے لیے تھے۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ کسی طرح گزر رہاتھا۔
اسی دوران مجھے بخار آنے لگا۔ والد صاحب جنھیں ہم بھائی کہا کرتے تھے، مجھے لے کر
بارہ ٹوٹی پر ایک سرکاری ڈسپنسری میں گئے۔ وہاں کچھ گولیاں دی گئیں،جو دوتین روز تک
کھاتا رہا اور بخار اتر گیا۔
عید کا دن قریب تھا۔ اس دن
بچوں کی خواہش کے مطابق نئے کپڑے، جوتے، عیدی اورسوئیاں سب ذہن میں گھوم رہی تھیں،
مگر بھائی سے کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوتی تھی،کیونکہ ساراحال معلوم تھا۔فی الحال آمدنی
کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ کر نال سے جو بھی لائے ہوں گے، اسی سے کام چل رہاتھا۔یہ یاد
آیا کہ بھائی نے کرنال سے بازار میں سڑک کے کنارے کپڑے بیچنے والے سے میرے لیے دس
آنے کا ایک پاجامہ خریدا تھا۔ عید کے دن پہن لوں گا۔ قمیص نئی تھی یا پرانی،یاد نہیں،
پر جوتے پرانے تھے۔ عید کے دن بھائی نے کہا،’ میں تو عیدگاہ نہیں جا سکتا۔ تم سامنے
والی مسجد کے پاس رہنے والے بچوں کے ساتھ عید گاہ چلے جانا۔‘ چلتے وقت مجھے دوآنے
دے کر کہا،’کچھ کھا لینا‘۔
میں محلہ والوں کے ساتھ عید
گاہ چلا گیا، مگر قدرے تنہائی کا احساس تھا۔ راستے میں حلوائیوں کی دوکان پر کچھ کچوریاں
تلی جا رہی تھیں، کچھ لکڑی کے کھلونے بھی فروخت ہو رہے تھے۔ ہم قصاب پورہ کے راستے
عید گاہ پہنچے۔ عید کی نماز ادا کی۔ واپسی میں بھیڑ کی وجہ سے میں ساتھیوں سے بچھڑ
گیا، مگر راستہ یاد تھا، اس لیے اکیلا گھر آگیا۔ بھائی نے کہا کوئی چیز کیوں نہیں
لایا۔ بہرحال گھرمیں خاموشی تھی۔ کوئی عید کا ماحول نہیںتھا۔یہ بھی یاد نہیں کہ ہم
نے سوئیاں کھائیں یا نہیں۔گھر میں تو پکنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ
دن گزر گیا۔میری زندگی کی یادگار عیدیں، میں موصوف کی عید پر سر گزشت پڑھ کر ہمیں بیساختہ
منشی پریم چند کا افسانہ عیدگاہ یاد آجاتا ہے اور اسی افسانے کا کردار حامد کے ساتھ
موصوف بدرالدین الحافظ صاحب کی اتفاقی مماثلت کس درجہ ہے کہ حامد بھی عید گاہ سے واپسی
پر دادی کے لیے چمٹا لانا نہیں بھولتا ہے اور جیب میں کم پیسے ہونے کے سبب اپنے لیے
نہ کچھ کھانے کے لیے خریدتاہے اور نہ کوئی کھلونا لیتا ہے۔ جب کہ اس کے ساتھیوں نے
میلے میں خوب مزے اڑائے تھے۔ آگے لکھتے ہیں، کسے خبر تھی کہ مایوسی کے عالم میں عید
منانے والا یہ بچہ آنے والے وقت میں صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم مسلم سفرا
ووزرا اور سربرہان جامعہ ملیہ کو عید کی نماز پڑھائے گا اور لوگ اس سے مل کر خوش ہوں
گے ؎
یہ قدرت کی کاریگری ہے جناب
کہ ذرہ کو چمکائے
جوں آفتاب
موصوف
اپنے حادثاتی واقعات کو ظرافت کے پیرائے میں کس لطف کے ساتھ تحریر کرتے ہیں جس کو ان
کے انشائیہ ’مجروح ہاتھ کا پیغام‘،میں بجا طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور کچھ ایسا ہی
تاثر اور دوسرے انشائیہ’ صحت مند ہاتھ کا پیغام ‘میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ درون نفس مضمون موصوف نے مذکورہ تحریرات میں جہاں
اپنے علم وفضل کا اظہار کیا ہے، وہیں ظرافت سے پر اسلوب اور شوخی سے گد گداتے ہوئے
انشائیوں میں زبان کا حسن اور جو لطف پیدا کر دیا ہے، وہ دیکھتے ہی بنتا ہے۔ ایک بانگی
دیکھیے۔
’ذرا میرے مجروح ہاتھ کی بیتابی تو دیکھیے۔ ابھی
اچھی طرح صحت یاب ہوا نہیں ہے،مگر بے چین ہے کہ کچھ کرے۔ جب سمجھاتا ہوں کہ جلدی کیا
ہے؟ ذرا دم لے لے، کچھ طاقت کا انتظار تو کر، تو لب کشائی پر اتر آتا ہے کہ نہیں کار
جہاں دراز ہے۔عمل سے زندگی بنتی ہے۔جو کل کرنا ہے وہ آج کر، جو آج کرے، سو اَب۔
تحریریں
کسی بھی شخصیت کے نہ صرف جذبات اور احساسات کی تر جمان ہوتی ہیں، بلکہ تحریروں کے بطن
میں صاحب شخصیت کے سیرت وکردار کو بھی بجا طور پر دیکھا اور پر کھا جا سکتا ہے۔ پروفیسر
بدرالدین الحافظ کی شخصیت کو ایک شفیق استاد، کامل رہنما، برابر والوں کے لیے ایک مخلص
دوست، ملک وقوم وملت کے لیے درد مند دل رکھنے والے فرد اورعلم وادب کے شیدائی وخدمت
گزار کے طورپر رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ آج موصوف ہمارے درمیان نہیںہیں،مگر
ان کی تحریریں اور مشورے ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ؎
آسماں
تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ
نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
Mohammad Ahmad
Danish
Kashana-e-Gulzar,
Near: Taj Palace,
Post: Raja ka
Tajpur,
District: Bijnor,
U.P. 246735
Mob.: 9759418047
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں