اردو دنیا، مارچ 2024
سید محمود احمد کریمی 90 سال
کے کہنہ مشق مترجم اور ادیب ہیں۔ آج ہمارے یہاں ایسی شخصیات خال خال ہی نظر آتی ہیں
جنھیں بیک وقت فارسی، اردو، انگریزی اور عربی پر قدرت حاصل ہو۔ کریمی صاحب خاموشی سے
کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور ایک درجن سے زائد کتابوں کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ
کرچکے ہیں اور اب بھی فعال ہیں۔ اقبال سے انھیں بہت زیادہ عقیدت ہے اور انگریزی میں
اقبال پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ اقبال کے درجنوں فارسی اور اردو اشعار انھیں اب بھی
یاد ہیں۔ انھوں نے سورہ یٰسین اور قصیدہ بردہ کا انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ ایسے گمنام لوگوں کی جتنی پزیرائی ہونی
چاہیے تھی اتنی ہوئی نہیں۔ سید محمود احمد کریمی جیسی نابغہ روزگار شخصیت سے حال ہی
میں عبدالحی نے تفصیلی گفتگو کی ہے جس کے اقتباسات اردو دنیا کے قارئین کے لیے پیش
کیے جارہے ہیں۔(ادارہ)
عبدالحی: اپنی پیدائش اور
خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالیں؟
سید محمود احمد کریمی: میری
پیدائش ضلع دربھنگہ کی مشہور بستی پیغمبر پورمیں 26فروری 1934کو ایک زمیندار گھرانے
میں ہوئی۔ دادیہال کی طرف سے میر ا تعلق نواب سید سعادت علی خاں (سعادت پیغمبر پوری)
سے ہے۔ نانیہال کی طرف سے میرا تعلق نواب لطف علی خاں سکندرہ (ضلع جموئی) سے ہے۔ نواب
صدیق حسن خاں اور نواب قمر الحسن خاں میرے سگے ماموں تھے۔
ع ح: اپنی تعلیم و تربیت پر گفتگو کریں؟
س م ا ک: میری تعلیم و تربیت
اپنے گھر پر ہوئی۔ میرے والد الحاج مولوی عزیز احمد صاحب نے اردو اور فارسی کی تعلیم
دی۔ میرے بڑے بھائی جناب نیاز احمد کریمی (نیاز پیغمبر پوری) نے انگریزی زبان بڑے چائو
سے پڑھایا۔ موصوف نے انگریزی ادب کی طرف میرے ذہن کو راغب کیا۔ بعدہٗ میرا داخلہ دربھنگہ
میں مارواڑی ہائی اسکول میں کرادیا گیا۔ وہاں سے میں نے 1953میں میٹریکولیشن سکنڈ ڈویژن
میں پاس کیا اور سی ایم کالج دربھنگہ سے آئی۔
اے 1955میں پاس کرکے بی اے آنرز میں داخلہ لیا۔
1958میں بی اے آنرز (اردو) کا امتحان
پا س کیا۔ گھریلو الجھنوں کے باعث ایم اے میں
داخلہ نہ ہوسکا۔ گھر پر زمینداری کا کام سنبھالنا پڑا۔ سوئے اتفاق کہ میرے بڑے بھائی
نیاز صاحب کا اور میری والدہ کا حج کے بعد ستمبر 1955میںمکہ مکرمہ میں انتقال ہوگیا۔
والد صاحب تنہا واپس آئے۔ اب میں عملی زندگی میں داخل ہوچکا تھا۔ شادی ہوگئی اور میں
صاحب اولاد بھی ہوگیا۔ اس طرح میری زندگی مکمل طور پر بدل گئی۔ تاہم علم کے حصول کا
شوق علیٰ حالہ قائم رہا۔ موقع ملنے پر 1970میں B.L.کا امتحان پرائیوٹ سے دے کر وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ پھر 1983میں بہار
یونیورسٹی مظفرپور سے اردو زبان میں M.A.پاس کیا۔ اس طرح پرائیوٹ سے اجازت لے کر ایل این ایم یو دربھنگہ سے انگلش میں ایم اے کا امتحان
پاس کیا۔ یہی میرا تعلیمی کیریئر رہا ہے۔
ع ح:آپ کا تعلق زمیندار گھرانے
سے رہا ہے۔ نواب سعادت علی خاں آپ کے جدامجد تھے اور شاعری بھی کرتے تھے۔ ان کی زندگی
اور شاعری پر اظہار خیال کریں۔ یہ بھی بتائیں کہ کیا ان کادیوان دستیاب ہے؟
س م ا ک:جی ہاں! آپ نے صحیح
فرمایا۔ میرا تعلق زمیندار گھرانے سے رہا ہے۔
نواب سید سعادت علی خاں سعادت پیغمبرپوری میرے جد امجد تھے۔ وہ ایک قادرالکلام شاعر
تھے۔ ان کا دیوان سعادت شہرئہ آفاق ہے۔ وہ حضرت داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ داغ دہلوی
نے دیوان سعادت کی تاریخ اشاعت تحریر کی جو یوں ہے ؎
کہا مصرع تاریخ دیکھو داغ
نے کیسا
مبارک انجمن افروز دیوان سعادت
ہے
1323ھ
نواب سید سعادت علی خاں کا
دیوان سعادت اب تک تحقیق کے مطابق اولیت کا تاج اپنے سر رکھتا ہے ۔ نواب صاحب پہلے
صاحب دیوان شاعر تھے۔ ان کی زندگی ماشاء اللہ بہت بہتر گزری۔ وہ نہایت خوبصورت خوش
پوشاک اور پرکشش شخصیت کے حامل تھے۔ وہ نرم خو اور سادہ لوح انسان تھے۔ ان کے دربار
میں تین درباری شاعر تھے جن کے نام جناب حفیظ جونپوری، جناب نسیم ہلسوی، جناب خیر رحمانی
تھے۔
دیوان سعادت بحیثیت وارث میرے
پاس بحفاظت موجود ہے، نیز آپ کو یہ معلوم کرکے خوشی ہوگی کہ ایک سو سترہ سال بعد میں
نے دیوان سعادت کا دوسرا نیا ایڈیشن طبع کرانے کا انتظام کرلیا ہے۔
ع ح:آپ پیشہ وکالت سے وابستہ
رہے لیکن کچھ دنوں بعد اسے خیر باد کہہ دیا پھر تدریس کی جانب آئے لیکن یہاں بھی زیادہ
دنوں تک نہیں رہ سکے۔ آخر ایسا کیوں؟ آپ کا ذریعہ معاش کیا رہا؟
س م ا ک:وکالت کا پیشہ میں
نے پیشہ ورانہ خیال سے نہیں کیا، بلکہ مصروفیت کے خیال سے کیا تھا۔ تقریباً دو سال
تک اس پیشے سے وابستہ رہا۔ اس دوران مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ پیشہ میرے لیے موزوں نہیں،
علاوہ ازیں مذہبی نقطۂ نگاہ سے بھی وکالت کا پیشہ میرے لیے نامناسب تھا ، اس لیے میں
نے اسے چھوڑ دیا اور تدریسی میدان میں قدم رکھا۔
ایل این ایم یو، دربھنگہ کے
Schedule Caste Pre Examinaiton Centreمیں
بحیثیت لکچرر 1987سے 1997دس سال تک اپنے فرائض انجام دیتا رہا۔ بعدہٗ ایک پرائیوٹ اسکول
روز پبلک اسکول دربھنگہ میں جوائن کیا۔ یہاں اس اسکول میں PGTیعنی
Post Graduate Trainded Teacher کی حیثیت سے بحال ہوا ۔ کلاس IX,
X, XI, XIIمیں اردو اور انگریزی 1997سے 2015تک اپنے تدریسی
فرائض کو بحسن و خوبی انجام دیتا رہا۔ اس طرح میں نے انیس سالوں تک اسکول میں تدریسی
فرائض انجام دیا۔ اسکول چھوڑنے کا خیال نہیں تھالیکن میری اہلیہ بہت زیادہ بیمار ہوگئیں
اس لیے ان کی علالت کے باعث مجبوراً خود سے سبکدوشی کا فیصلہ کرنا پڑا۔ آخر کار اہلیہ
دہلی میں بعارضہ بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر 2017میں انتقال کر گئیں۔
زمینداری کے خاتمے کے بعد
کاشتکاری ہی میرا ذریعہ معاش آج تک ہے۔ علاوہ ازیں میرے تین لڑکے ہیں جو سب انجینئر
ہیں اور ملازمت میں ہیں۔ ماشاء اللہ وہ سب اپنی اپنی ذمے داری نبھا رہے ہیں۔
ع ح: ترجمے کی جانب کس طرح آئے؟ انگریزی زبان پر
اتنی اچھی گرفت کس طرح ہوئی جب کہ اردو والے انگریزی زبان سے دور رہتے ہیں؟
س م ا ک:حقیقت یہ ہے کہ بچپن
سے مجھے علم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔ اللہ کے فضل سے مجھے اپنے گھر میں دو بہت
ہی شفیق استاد مل گئے۔ ایک میرے والد الحاج مولوی عزیز احمد صاحب اور دوسرے سگے بڑے
بھائی جناب نیاز احمد کریمی ، بی اے، پٹنہ کالج پٹنہ، المتخلص نیا ز پیغمبرپوری ۔
والد صاحب سے اردو فارسی کی
تعلیم حاصل کی اور بڑے بھائی جان نے انگریزی بڑی محنت کے ساتھ پڑھائی۔ انھوں نے انگریزی
زبان سے رغبت دلائی۔ اس طرح دونوں زبانوں سے بلکہ تینوں زبانوں سے میرا گہرا تعلق پیداہوگیا۔
مجھے یاد ہے کہ 1958میں بی۔ اے آنرز اردو کا امتحان پاس کرکے میں نے انگریزی میں ایک
مضمون لکھا جس کانام Iqbal and his Mission ہے۔ وہ مضمون میرے پاس محفوظ رہا۔ اس کے
بعد میں نے علامہ اقبال کے شکوہ کا ترجمہ کیا۔ اس کے بعد میں نے محسن رضا رضوی کی بیاض
’فن ہمارا‘ کا مکمل ترجمہ انگریزی میں کیا۔ اس طرح ترجمے کا شوق پورا ہوتا رہا۔ بعدہٗ
مختلف شعرا کی غزلوں اور نظموں کا ترجمہ کرتا رہا جو میرے پاس موجود ہے۔
اردو داں حضرات انگریزی زبان
سے اس لیے محترز رہتے ہیں کہ انھوں نے انگریزی زبان باقاعدہ طور پر محنت اور شوق سے
نہیں پڑھا ، ان کی بنیادی تعلیم کمزور رہی۔ علمی استعداد خام رہی۔ اس وجہ سے ان لوگوں
کو انگریزی زبان سے احتراز ہے۔ وہ لوگ ہندی زبان سے آشنا ہوئے اور ہندی اخبار پڑھنا
باعث فخر سمجھتے ہیں۔
ع ح: آپ نے اقبال پر انگریزی میں ایک کتاب تحریر
کی ہے۔ برائے مہربانی کتاب کے حوالے سے گفتگوکریں؟
س م ا ک:اقبال کے متعلق جو
کتاب میں نے انگریزی میں تحریرکی اس کی وجہ یہ ہوئی کہ 1958میں میں نے سی ایم کالج
دربھنگہ سے بی اے آنرز اردو میں کیا۔ آنرز کلاس میں تین اردو کے پروفیسر تھے۔ جناب
منظر صاحب، جناب قاسم حسین صاحب اور لطف الرحمن صاحب ۔ یہ تینوں حضرات آنرز کلاس میں
ہم لوگوں کو اردو پڑھاتے تھے۔ پروفیسر منظر صاحب علامہ اقبال کے خاص مداحوں میں تھے۔
وہ ان کے متعلق بہت شوق سے ان کے کارنامے بتاتے تھے۔ یہ بھی ایک اتفاق تھا کہ مشہور
لیڈر جناب شفیع دائودی کی بہو محترمہ فاطمہ دائودی ہم لوگوں کی کلاس ساتھی تھیں۔ سن
رسیدہ ہونے کے باوجود بی اے آنرز کاکلاس کیا کرتی تھیں۔ بہرحال گریجویشن کے بعد تازہ
دم ہونے کی وجہ سے جذبۂ شوق سے مملوہوکر میں نے اقبال پر ایک طویل مضمون انگریزی میں
تحریر کیا۔
اس مضمون میں میں نے ہندوستان
کے مسلمانوں پر جو انگریزی کا غلبہ ہو ا اور انھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ
جوناروا سلوک کیا، اس کا اجمالی جائزہ لیا اور مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے مصلح یعنی
ریفارمر کا کام تین حضرات نے کیا۔ مولانا الطاف حسین حالی نے مسلمانوں کے عروج و زوال
کی کہانی بیان کرکے افسوس کا اظہار کیا۔ جناب اکبر الہ آبادی نے طنز کے تیر برسائے
لیکن علامہ اقبال نے ایک مناسب طرز عمل اختیارکیا۔ انگلستان میں رہ کر تمام اسلامی
ممالک کی حالت کاجائزہ لے کر ہندوستانی مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگاکر ایک بیدار قوم
کی حیثیت سے جینے کا درس دیا۔ یہ کام انہوں نے اپنی شاعری سے لیا۔ میں نے اقبال کے
کلام سے ان کی انتھک کوششوں کا جائزہ لیا تھا ۔
ع ح: اپنی ترجمہ نگاری پر روشنی ڈالیں۔ کس طرح کی
اور کتنی کتابوں کا آپ نے ترجمہ کیا ہے؟
س م ا ک:یہ حقیقت اظہر من
الشمس ہے کہ ترجمہ نگاری ایک اہم اور مشکل ترین کام ہے۔ لیکن اگر ترجمہ نگارکو دو زبانوں
پر کاملاً قدرت حاصل ہو تو وہ اس کو بخوبی انجام دے سکتا ہے۔ اپنے ماقبل کے اندراجات
میں میں نے عرض کیا ہے کہ شروع ہی سے وہبی طور پر یہ سعادت حاصل رہی ہے۔ گریجویشن کے
بعد ہی سے تراجم کی طرف مائل ہوا ۔ پہلے تو متفرق غزلوں اور نظموں کا ترجمہ کرتا رہا
پھر علامہ اقبال کے شکوہ کا ترجمہ کیا۔ محسن رضا رضوی کی بیاض ’فن ہمارا‘ کا ترجمہ
کیا۔ اس کے بعد 2015سے باقاعدہ ترجمے کا سلسلہ پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کے مجموعہ
کلام نعت شریف افسانوی مجموعے کے ترجمے کے ساتھ شروع ہوگیا۔ اور اب تک 14کتابوں کا
ترجمہ کر چکا ہوں۔ جن کی فہرست درج ذیل ہے:
1 عضویاتی
غزلیں ۔ مناظر عاشق ہرگانوی
Organwise Ghazlen - 2016
2 ہر سانس
محمد پڑھتی ہے ۔ مناظر عاشق ہرگانوی
Encomium to Holy Prophet- 2016
3 بکھری
اکائیاں ۔ مناظر عاشق ہرگانوی
Assortment of short stories - 2017
4 شبنمی
لمس کے بعد۔ مناظر عاشق ہرگانوی
After Dewy Palpability - 2020
5 نبیوںمیں
تاج والے۔ مناظر عاشق ہرگانوی
Crowned chief of Prophet - 2021
6 نظمیچہ
ثلاثہ ۔ مناظر عاشق ہرگانوی
Triliterality - 2021
مذہبی کتابیں Religious
Books
7 قصیدہ
بردہ شریف
Qasida Burdah Sharif - 2018
8 سورہ
یٰسین شریف
Surah Yaseen Sharif - 2018
9 قربتوں
کی دھوپ۔ ڈاکٹر امام اعظم
Proximal Warmth - 2018
10 کچھ
محفل خوباں کی ۔ ڈاکٹر منصور خوشتر
Closet of Beauties - 2018
11 لمسوں
کی خوشبو۔ انور آفاقی
Fragrance of Palpability - 2020
12 ایم
۔ اے۔ ہرگانوی سے آشنائی
An acquaintance with M.A.
Harganvi -2020
13 ناول
شبنمی لمس کے بعد: منظوم تجزیہ
Novel Shabnami Lams ky baad
Poetic vision, 2018
14 افسانچہ
(حملہ کے وقت)
Afsancha "Hamla ke Waqt - 2020
Books Authored by Mahmood Ahmad
Karimi
Iqbal and his Mission -
2020 (English)
Anwar Afaqi - A versatile Genius -
2023 (English)
3 زاویۂ
نظر کی آگہی ۔ اشاعت اول ،2021
4 زاویۂ
نظر کی آگہی۔ اشاعت دوم 2023
اردو سے انگریزی ترجمہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ آپ اپنی ترجمہ نگاری کے
تجربات سے مستفید کریں؟
س م ا ک:جی ہاں ! آپ کا کہنا
بالکل صحیح ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ عموماً ترجمہ نگار اپنے تبحر علمی کی بناپر ترجمہ کیا
کرتے ہیں اور چند ایسے لوگ بھی ہیں جو وہبی صلاحیت سے اس کام کو انجام دیتے ہیں۔ لہٰذا
ناچیز کے ساتھ یہی صورت حال ہے۔ مجھے اللہ کی طرف سے ودیعت کر دہ صلاحیت نے مدد کی
اور میں ترجمہ نگاری کاکام انجام دیتا رہا۔ ترجمہ نگاری کامسلسل اور باقاعدہ سلسلہ
پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی کتابوں سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ 2015کے دسمبر
سے آج تک ترجمے کا کام کر رہا ہوں۔ اسی دوران حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کرلی۔
اس عمل میں مجھے بڑا حظ ملتا
ہے اور ہر وقت دل و دماغ میں بہتر سے بہتر ترجمے کاخیال جاگزیں رہتا ہے ۔ ابھی تک چودہ
کتابوں کا ترجمہ میں نے کیا ہے اور تین کتابیں میری تصنیف کردہ ہیں۔
میری ترجمہ شدہ کتابوں میںمناظر
عاشق ہرگانوی کی دو کتابوں کی خوب پذیرائی ہوئی جن میں عضویاتی غزلیں اور نعت شریف
ہر سانس محمد پڑھتی ہے کانام سرفہرست ہے ۔ نعت شریف Encomium
to Holy Prophet پر کولکاتا میں
2016میںمیر امن دہلوی ایوارڈ بھی ملا تھا ۔ یہاں دربھنگہ میں بھی المنصور ایجوکیشنل
اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب سے اس نعت شریف کے ترجمے پر ایوارڈ ملا تھا۔ اہل قلم حضرات
کی طرف سے بھی پذیرائی ہوئی اور انھوں نے اس سلسلے میں اپنے احساسات کا اپنی تحریروں
میں اظہار کیا اس کو ڈاکٹر احسان صاحب نے کتابی شکل میں طبع کرایا جس کانام سید محمود
احمد کریمی : فکر و نظر کے آئینے میں ہے۔
ع ح: آج کے دور میں تراجم کی کتنی اہمیت ہے؟ کیا
ترجمے اردو زبان و ادب کی ترقی میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں؟
س م ا ک:محترم جناب حقانی
القاسمی صاحب اپنے تبصرہ میں لکھتے ہیں:
ترجمے کا عمل نہ ہوتا تو شاید
تہذیبیں ایک دوسرے سے مانوس نہیں ہوتیں، اور مختلف قوموں ، زبانوں کے مابین اجنبیت،
بیگانگی کی دیوار ہمیشہ کھڑی رہتی، لیکن ترجمے سے بہت سے دریچے کھلے ہیں اور ایک دوسرے
کے لسانی اور تخلیقی کلچر سے مانوس ہونے کا رجحان بڑھا ہے۔ اگر انگریزی سے اردو میں
ترجمے نہ ہوئے ہوتے تو شاید ہم اہم علمی وادبی اور ثقافتی سرمائے سے محروم ہوجاتے۔
ہماری زبان کی ثروت میں تراجم کے ذریعے بہت اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح اردو زبان سے انگریزی
اور دوسری زبانوں میں جو ترجمے ہوئے ہیں ، ان سے اردو زبان کی اہمیت، معنویت اور عظمت
بڑھی ہے اور دوسری زبانوں میں ہمارے افکار و تصورات کا عمدہ تاثر قائم ہوا ہے۔ اردو
زبان کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے بہت سے شاہکار انگریزی اور دوسری زبانوں میںمنتقل ہوگئے
جس کی وجہ سے دوسری زبانوں کے تخلیق کا روں اورناقدین کو بھی اس زبان سے دلچسپی پیدا
ہوئی ۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری
ہے کہ اردو سے انگریز ی میں ترجمے کا سب سے پہلا کام شاید ایک انگریز Duncan
Forbesنے میر امن کے ’باغ و بہار‘ کے ترجمے کے ذریعے
کیا۔
مشاہیر اردو شعرا کے انگریزی
میں ترجمے ہوچکے ہیں۔ خاص طور پر غالب، میر، فیض، فراق وغیرہ کے کلام کے ترجمے کیے
گئے ہیں۔ اس طرح فکشن کے ترجمے بھی انگریزی میں ہوتے رہے ہیں۔ خاص طور پر مراۃ العروس، ’آگ کا دریا‘ ، ’ایک چادر میلی سی‘ ، ’بازار حسن‘
، ’امرائو جان ادا‘ کے علاوہ عصمت چغتائی ، انتظار حسین ، نیر مسعود اور دیگر فکشن
نگاروں کے ناولوں اور افسانوں کے ترجمے ہوتے رہے ہیں اور ترجمہ نگار بھی ایسے لوگ ہیں
جنھیں ادبی دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل ہے۔ اردو سے انگریزی میں ترجمہ نگاروں نے
اپنی الگ شناخت قائم کی ہے۔ ان میں خشونت سنگھ ، قرۃ العین حیدر، شمس الرحمن فاروقی،
ایم نعیم، رخشندہ جلیل ، طاہر نقوی، مشرف عالم ذوقی، سریندر دیول، محمود احمد کریمی، معاذ بن بلال وغیرہ بہت اہم ہیں۔
محترم حقانی القاسمی صاحب
کا یہ تبصرہ ایک ترجمے کی کتاب کے سلسلے میں ہے جس کا نام ہے The
Nameplate۔ جس کو نصیب خان نے ترجمے سے نوازا ہے۔ مصنف
کانام طارق چھتاری ہے۔
محترم قاسمی صاحب تبصرتاً
لکھتے ہیں ’’آج یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ عالمگیر مقبولیت اور گلوبل ریڈر شپ
کے لیے انگریزی ترجمے کی اشد ضرورت ہے۔
ع ح: آپ نے انگریزی سے اردو
میں ترجمے کیے ہیں؟ کون سی کتابوں کے؟
س م ا ک:چونکہ انگریزی سے
اردو ترجمہ کے لیے کوئی آفر کہیںسے نہیں آیا، اس لیے اس طرح کا کام کرنے کاموقع نہیں
ملا ہے۔ اگر آئے گا تو ان شاء اللہ کروں گا۔
ع ح: آپ کے ترجموں پر آپ
کی کتنی پذیرائی ہوئی ؟ کیا آپ کو انعام و اکرام دیا گیا؟ تفصیل سے بتائیے؟
س م ا ک:درج ذیل کتابوں کی
پذیرائی ہوئی:
1 عضویاتی
غزلیںOrganwise Ghazlen
2 نعت شریف
: ہر سانس محمد پڑھتی ہے
(Encomium to Holy Prophet
3 قصیدہ
بردہ شریف (Qasida Burdah Sharif
4 سورہ
یٰسین شریف Surah
Yaseen Sharif
5 بیاض:
قربتوں کی دھوپProximal Warmth
نعت شریف (1) Encomium
to Holy Prophet
عضویاتی غزلیں (2) Organwise
Ghazlen
کے سلسلہ میں کولکاتا میں
2016مجھے محفل خوش رنگ کی طرف سے میر امن دہلوی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
پھر المنصور ایجوکیشنل اینڈ
ویلفیئر ٹرسٹ دربھنگہ کی طرف سے شکیل الرحمن ایوارڈ نعت شریف کی کتاب کے سلسلے میں
29مارچ 2018کو دیا گیا۔ اس کے علاوہ اخباروں اور رسالوں میں اور دوسری کتابوں کے سلسلہ
مضامین چھپتے رہے۔ بعدہٗ ان سب کو کتابی صورت میں ڈاکٹر احسان عالم نے طبع کرایا اور
وہ کتاب بہت مقبول ہوئی۔ اس کتاب کا نام سید محمود احمد کریمی :فکر ونظر کے آئینے
میں ہے۔
ع ح: ترجموں کے ساتھ ساتھ آپ نے تنقیدی مضامین بھی
لکھے ہیں ۔ اپنی تنقید پر اظہار خیال کریں؟
س م ا ک:ترجمہ نگاری کے ساتھ
ساتھ میں نے تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں۔ تنقیدی مضامین کتابی صورت میں طبع ہوچکے ہیں۔
کتاب کا نام ’زاویۂ نظر کی آگہی‘ ہے۔ اس کتاب میں درج ذیل مضامین شامل ہیں:
شیخ
مجدد کا نظریۂ توحید، ، اقبال کا تصور خودی، اقبال کی تخلیقی قوت، دو قومی نظریہ اور تقسیم ہند کا تخیل، ظفر کی شاعری
زنداں میں، تنقید کے ضمن میں، تعلیم کی افادیت،
’حملہ کے وقت‘ تجزیہ، پیغمبرپور اسٹیٹ کی ادبی و ثقافتی خدمات، درد مسلم۔۔۔۔۔۔۔۔، علامہ اقبال کا پیغام عمل، جنگ آزادی میں اردو
صحافت کا کردار
حقیقت یہ ہے کہ تنقید کے بغیر
تخلیق ادھوری ہے۔ اس لیے میں نے تنقید کا سہارا لیا۔ میرے تمام مضامین جن کی تعداد
بارہ ہے تنقیدی نوعیت کے ہیں۔ آپ انہیں پڑھ کر اندازہ لگاسکتے ہیں۔
ع ح: اردو زبان کے فروغ کے لیے آپ کے پاس کیا تجاویز
ہیں؟
س م ا ک:اردوکے فروغ کے لیے
یہ نہایت ضروری ہے کہ مسلم قوم اپنی مادری زبان اردو اور اپنے کلچر کو ہر طرح قائم
رکھنے کا عزم کرے۔ اس کے ساتھ ہی وہ لوگ اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں داخل
کرانے سے قبل اپنے گھروں پر دینی تعلیم کے ساتھ اردو سے روشناس کرائیں۔ انھیں اردو پڑھائیں اور اس طرح وہ بچے اس قابل ہوجائیں
کہ اردو پڑھ لکھ سکیں۔
دوسری صورت فروغ اردو کی یہ
ہے کہ اردو اخبارات رسائل خرید کر پڑھیں اور دوسروں کو پڑھائیں۔ اردو کی بقاکے لیے اردو اداروں کومالی تعاون فراہم
کریں تاکہ اردو کی ترویج ہوسکے۔
تیسری صورت یہ ہے اپنی بستی
میں اردو میڈیم اسکول قائم کریں۔ جہاں اردو کے ساتھ دینی تعلیم کا بھی انتظام ہو۔
سرکاری اسکولوں میں اردو کی
تعلیم کے لیے اردو ٹیچر کی بحالی ہو اور مسلم بچے وہاں اردو کی تعلیم بھی حاصل کریں۔
کالجوں میں اردو کی تعلیم کا انتظام کیا جائے جہاں اردو پروفیسر موجود نہ ہوں۔
ع ح: اردو زبان سے نئی نسل
کی بے رغبتی پر آپ کیا کہیں گے؟
س م ا ک:اردو زبان سے نئی
نسل کی بے رغبتی اور اجتناب سے اردو زبان کو دھچکہ لگنا فطری امر ہے۔ اس کی وجہ والدین
کی اردو بیزاری ہے۔ اردو داں والدین اپنے بچوں کو بنیادی مذہبی تعلیم اور اردو زبان
وادب سے محروم کر رہے ہیں۔ چونکہ والدین خود اردو زبان سے رغبت نہیں رکھتے ہیں اس لیے
ان کے بچے بھی اس نعمت کی لذت سے محروم ہیں، کیونکہ یہ بہت بڑا دینی اور اردو زبان
سے برگشتگی اور ایک کلچر کاالمیہ ہے۔ لہٰذا والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی نسل
کو بے دینی اور اردو زبان وکلچر سے علیحدگی کو خدا کے لیے دور کریں اور اپنی غلط روی
پر تاسف کرتے ہوئے راہ راست پر آجائیں۔ وماتوفیق الا باللہ
ع ح: کیا اردو زبان سے تعلیم
حاصل کر رہے طلبا اچھا کیرئیر حاصل کر سکتے ہیں؟
س م ا ک:بے شک ! اردو تعلیم
کے ذریعے مسلم طلبا دنیوی علم کے حصول میں بہتر کارکردگی کانمونہ یقینا پیش کرسکتے
ہیں۔ جس کی مثال عامر سبحانی آئی اے ایس ہیں جنہوں نے اردو کے ذریعے آئی اے ایس میں
کامیابی حاصل کی اور بہتیری مثالیں ہیں کہ مدرسے کے فارغین نے مثالی ریکارڈ بنایا ہے۔
ع ح: اردو دنیا کے قائین کو
آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
س م ا ک:اردو کے قارئین کو
میرایہ پیغام ہے کہ اردو ادب کے فروغ ، ترویج اور تبلیغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور
اس زبان کی ترقی کے لیے دامے، درمے ، قدمے اور سخنے ہر طرح کی مدد مہیا کریں اور کرائیں۔
ادیب اور شاعر حضرات سے گذارش
ہے کہ وہ اردو ادب میں صحت مند تخلیقات سے اس شیریں زبان کو نکھاریں۔ غیر صحت مند اور
فحش افسانوں اور افسانچوں سے اس زبان کو محفوظ رکھیں۔ معاشرے کو ایسے ادب سے روشناس
کرائیں جس سے معاشرے کی اصلاح بھی ہو اور وہ ادب کی ترقی کا ضامن بھی ہو۔ تخلیق منثور
یا منظوم دونوں میں بلند خیالی اور اخلاقی اقدار کی ضیاپاشی ہو۔
Dr. Abdul Hai
C M College
Darbhanga- 846004
(UP)
Mob.: 9899572095
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں