29/5/24

وحید العصر گونوجھا کا سوانحی خاکہ: سینہ بہ سینہ روایتیں، مضمون نگار: امتیاز وحید

اردو دنیا، مارچ 2024


نامورانِ متھلا میں گونو جھا کا نامِ نامی سرفہرست ہے۔ اسے ریاست ترہت، موجودہ متھلا میں ذہانت، علمیت اور دانشوری کا استعارہ خیال کیا جاتا ہے۔ گونو جھا کی زندگی اور اس کی شخصیت کا حال کسی تذکرے میں تفصیلی طور پر نہیں ملتا، نہ اس کے اقوال کا کوئی تحریری ثبوت ہی دستیاب ہے۔یہ متھلا کے ملک الشعراوِدیاپتی سے پہلے کا آدمی ہے،اس وقت تحریری طور پر چیزوں کو محفوظ رکھنے کا چلن بھی عام نہیں تھالہٰذا وہ تحریری طور پر کہیں محفوظ نہیں رہ سکا۔ البتہ تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ 13 ویں صدی عیسوی میں متھلا کے بادشاہ ہری سنگھ کا ہم عصر تھا اور ایک ذہین ترین انسان تھا۔ اس کی زندگی کی بیشتر کڑیاں اب ناپیدہوچکی ہیں۔ اس سے منسوب کہاوتوں، کہانیوں اور رسائل کے بعض تراشوں میں جو چیزیں ملتی ہیں، ان سے کماحقہ گونو جھا کی کوئی مستند شبیہ یا سوانح ابھر کر سامنے نہیں آتی۔ بکھرے شخصی مواد کے استناد کا مسئلہ اس پر مستزاد ہے کیونکہ یہ وہ معلومات ہیں، جو متھلا لوک ادب اور کلچر میں سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔مرورِ ایام کے ساتھ ان سے منسوب واقعات میں لوگوں نے اپنی پسند و ناپسند کا اضافہ بھی کردیا ہے، جس سے گونو جھاسے منسوب متعلقات کی نشاندہی اب ممکن نہیں رہی۔ البتہ اپنی کہانیوں کی طرح گونوجھا کی شخصیت بھی بڑی دلچسپ، پر اسرار اور پرکشش معلوم ہوتی ہے۔ تاریخی عدم استناد و توثیق کے باوجود معروف ناٹک کار بیکنڈ جھا نے اپنی کتاب میں مختلف انداز میں گونوجھا کا تذکرہ کیا ہے اور انھیں رجسٹر اندراج کے حوالے سے ’سون کریاکرمہے خاندان کا برہمن‘  بتایا ہے، جن پربھگوتی کا خاص فیضان تھا۔بنگالی مصنف چندرگپت موریہ اورشوتورکچھت نے اپنی کتاب’میتھلار گوپال بھند گونوجھا‘ میں گونوجھا سے متعلق کئی پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔ان کے بموجب بیربل نے گونوجھا سے گہرے اثرات قبول کیے تھے ۔وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ 1326میں گونوجھا کو’ مہامہوپادھیا‘ کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔نارائن جھا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ودیاپتی اور گونوجھا متھلا دربار کے رتن مانے جاتے تھے۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ راجاشیو سنگھ گونوجھا سے متاثرتھے۔

 گونوجھا دراصل بہارکی زندگی کا سرنامہ ہیں۔ بہار کی زندگی کی وہ اہم خصوصیت، جو اس کو دوسرے خطے سے ممیز کرتی ہے، اہالیانِ بہار کی زندگی کی سادگی بلکہ معصومیت کے اظہار تک پہنچی ہوئی، انتہا درجے کی سادگی ہے۔ دوسری خصوصیت اخلاص ہے، ایسا اخلاص جس میں دوسری کسی بھی چیزکی آمیزش نہ ہو اور معاشرتی طرزِ اظہار کا برجستہ بیان،جوبظاہر تو معمولی لگے لیکن اس کے باطن میں علم و شعور داخل ہو۔ گونوجھا ان خصوصیات کی تجسیم ہے،جو اپنی ذہانت، حاضر جوابی اوردیگر خصوصیات کے سبب طلسماتی کردارکا حامل ایک اہم اور دلچسپ شخصیت خیال کیا جاتا ہے اور متھلا لوک کہانیوں، کتھائوں اور ثقافتی تناظر میں ہر جگہ لطیف پیرایے میں یاد کیا جاتا ہے۔

گونو جھا دربھنگہ ضلع کے ’بھروارا‘گائوں میں پیدا ہوئے۔ والد مذہبی طبیعت کے مالک تھے، لہٰذا اس کی پہلی اولاد گونوجھا نے بھی والد کی طرح مذہبی طبیعت پائی۔ گونوجھا کالی دیوی کے بھکت تھے۔ مانا جاتا ہے کہ انھیں کالی ماں کا خصوصی فیضان حاصل تھا، جس کے سبب انھیں فہم و فراست کی دولت ہاتھ آئی ۔خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ شرکے نہیں بلکہ خیرکی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ان کا کردار برائی اورشر کو اس کے انجام تک پہنچائے بغیر دم نہیں لیتا۔ روایت ہے کہ بھگوتی نے انھیں وَردان دیا تھا کہ وہ کبھی مفتوح نہیں ہوگا۔ اس کی شکست اس کی موت کا سبب ہوگی۔ لہٰذا گونوجھا سے منسوب کہانیوں میں وہ ہمیشہ ایک فاتح کردار کے روپ میں ہی سامنے آتے ہیں۔ گویا اس کا کردار فتح مندی کا اعلامیہ ہے۔شکست چونکہ اس کی موت کی نوید تھی لہٰذاس سے بچنے کی تدابیرمیں گونوجھانے عقل اورمنطق کی انتہا سے کام لیا۔لوک روایت کے مطابق اس نے بھگوان کو بھی جُل دینے میں کامیابی پائی۔ ان سے میتھلی زبان میں ظریفانہ اور کئی مزے دار لوک کہانیاں منسوب ہیں، جن میں انھیں ایک چالاک، ہوشیار اورعقلمند آدمی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔اپنی انھی گوناگوں خوبیوں کے سبب انھیں بہار کا بیربل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے زمین دار، اہلِ ثروت اور مہاراجاوئوں کے دربار سے بھی وابستہ رہے۔ درباریوں کی تملق پرستی کے سبب عام رعایا پر زمین داروں کی عدم توجہی اور ظلم و جبر کے خلاف بھی وہ برسر پیکار دیکھے گئے اور عوام کو درباریوں کے چنگل سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے سادھوؤں کے بھیس میں موجود مفاد پرستوں اور منافقین کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اوران کی اصلیت کو بھی بے نقاب کیا۔ یہ سارا کام انھوں نے اپنی غیرمعمولی ذہانت کے سہارے انجام دیا۔بہار میں گونو جھا کی دلچسپ کہانیاں اسی طرح زبان زد عام و خاص ہیں، جس طرح متھلا-گوکل ودیا پتی کے شیریں نغمے متھلا کی فضائوں میں گونجتے ہیں۔ گونو جھا کی کہانیاں لوگوں میں اس قدرمقبول ہیں کہ اب یہ کتھائیں نہ صرف ہمارے لوک ادب کا حصہ خیال کی جاتی ہیں بلکہ کلاسیک کا درجہ رکھتی ہیں۔

تاریخی طور پر گونو جھا سے مماثل پندرہویں صدی کے خطہ آندھرا پردیش میں گرلاپتی رام کرشنا،معروف بہ تینالی رام جیسا ذہین و فطین کردار بھی پایاجاتا ہے، جو اپنی عقلیت پسندی کے سبب مشہور ہے۔ یہ ایک تیلگو شاعر، اسکالر، مفکر اور سری کرشنادیواریا(1509 تا 1529) کے دربار میں خصوصی مشیر تھا۔اس کا تعلق موجودہ آندھراپردیش کے ٹینالی گاؤں سے تھا۔ اس کا نام اس کی دانشمندانہ لوک کہانیوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ وہ اشٹادیگاجا یا وجے نگر شہنشاہ کرشنادیواریا کے آٹھ درباری شاعروں میں سے ایک تھا اور وزیربھی تھا۔اسی زمرے میں بنگال کے گوپال بھر یاگوپال بھنڈ کا نام بھی لیا جاتا ہے، جوقرونِ وسطی کے بنگال میں ایک عدالتی جیٹر تھا اور  اٹھارہویں صدی میں ندیا کے بادشاہ راجہ کرشن چندر (1710-1783)  کے دربار سے وابستہ تھا۔ گوپال خلقِ خدا میں مسرت کی افزودگی کا سرچشمہ تھا۔ دوسروں کو ہنسی مذاق اورظرافت سے خوشی فراہم کرنا اس کی فطرت ثانیہ تھی۔ بادشاہ گوپال کو اپنے دربار کا نورتن سمجھتا تھا۔ اس کا مجسمہ آج بھی کرشن چندر کے محل اور کرشن نگر قصبے کے گھورن میں دیکھا جا سکتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ گوپال کے پاس بڑی گہری ذہانت تھی۔اس کے کارناموں پر مبنی کہانیاں مغربی بنگال اور بنگلہ دیش میں آج تک بیان کی جاتی ہیں۔ گونو جھا کی طرح مزاح اور غایت ذہانت اس کی بھی بنیادی شناخت ہے۔ حاضر جوابی میں اس کے ذہنی اختراع اورہوشیاری کا عالم دیدنی تھا۔بنگلہ ادب میں اس کا موازنہ بیربل، ٹینالی رمن، گونو جھا اور نصرالدین کی کہانیوں سے کیا جاتا ہے۔

گونوجھا کے والد اس کے بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے۔ اس کی پرورش و پرداخت اس کی  ماں کے ہاتھوں ہوئی۔ اس کی تعلیم کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ اس سے منسوب کوئی تحریری سرمایہ بھی موجود نہیں۔البتہ یہ بات تحریری صورت میں موجود ہے کہ گونوجھا متھلا کے ملٹری اسکالر تھے اور اسی حیثیت سے دربارسے وابستہ بھی تھے۔ بعض روایتوں میں انھیں ایک ظریف درباری شاعر کی حیثیت سے یادکیاجاتا ہے۔اس کی بذلہ سنج طبیعت کو دیکھ کرالبتہ اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ دربار سے وابستہ وہ ایک حیوانِ ظریف تھا لیکن چونکہ اس سے منسوب کتھا کہانیوں اور کہاوتوں میں اس کے شعری ذوق یا اس کے کَوی ہونے کا کہیں کوئی اشارہ نہیں ملتالہٰذا اسے شاعرکی حیثیت سے دیکھنا قرینِ مصلحت معلوم نہیں ہوتا۔ دربار سے اس کی وابستگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ کم از کم اس کی واجب تعلیم ضرور رہی ہوگی۔محض ذہانت کی بنیاد پر دربارِ وقت تک اس کی رسائی اور وابستگی خلافِ عقل بات معلوم ہوتی ہے۔ تاہم یہ محض قیاس آرائیاں ہیں۔ گونوجھا کے ایک چھوٹے بھائی بھونو کا بھی ذکر ملتا ہے۔والد کے انتقال کے بعد یہ دونوں اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہتے تھے۔ ماں گوکہ گونو جھاکی ہوشیاری سے خوش اور مطمئن تھی کہ زندگی کسی طرح گزار لے گا لیکن اسے اپنے چھوٹے بیٹے کی فکر دامن گیر رہتی تھی کہ یہ سیدھا سادامیرے بعد کیسے رہ پائے گا۔ گونو ماں کو تسلی دیتے کہ میرے جیتے جی اسے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔گو نو سے منسوب واقعات سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی ذہانت نے اس کے اردگرد حاسدین کی ایک بھیڑ کھڑی کردی تھی۔ گرد و نواح کے قصبات سے عوام اپنے مختلف مسائل اور سماجی معاملات میں گو نوجھا سے صلاح و مشورے کے لیے بھی آتے تھے، جنھیں وہ بڑی آسانی سے حل کردیتا تھا۔ اس کی ذہانت نے رفتہ رفتہ اس کی شہرت کا سامان کیا اور پھر حاسدین بھی پیدا کیے۔ اس کی ماں کے انتقال پر اس کے بدخواہوں نے اسے گھیرنا شروع کیا کہ قرب و جوار کے گائوں میں دور دور تک تمھارا آنا جانا ہے، لوگ تمھیں جانتے ہیں۔ ماں کے انتقال پر تمھیں کم از کم پچیس گائوں کو شیرینی کی دعوت ضرور دینی چاہیے۔ اصرار کچھ اتنا شدید تھا کہ گونو جھاکو ان کی بات مانتے ہی بنی۔ دعوت کی خبر گائوں اور آس پڑوس کے مضافات میں مشتہر کردی گئی۔ گونو جھانے بھی دن تاریخ طے کردی۔ تاہم اس دعوتِ عام کی اس نے کوئی تیاری نہ کی اور مطمئن بیٹھا رہا۔لوگ حیران تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ مقرر وقت پر مہمانوں کاہجوم اکٹھا ہوا۔ گونوجھا نے متھلا کی روایت کے مطابق کھانے کے لیے مہمانوں کے سامنے پتے رکھ دیے اور ان میں گنے کے چار چار ٹکڑے پیش کردیے۔ بڑے بزرگوں کی سرزنش پر گونو جھا نے نرم لہجے میں کہا کہ میں نے کیا غلط کیا ہے۔ گنا تمام مٹھائیوں کی جڑ ہوتا ہے ۔ کیا گنے کے بغیر شیرینی کا تصور کیا جا سکتا ہے؟ آپ سب کا منہ میٹھا ہوجائے گا اور میری ماں کی روح کو شانتی بھی مل جائے گی۔ کیا یہ میٹھا نہیں ہے؟ بزرگ نرم پڑگئے۔ گونو جھا کی بات درست تھی۔گونوجھا نے اپنی بساط بھر ضیافت کا اہتمام یقینا کیا تھا۔اس نے اس طرح نہ صرف بعد از مرگ اپنی ماں کی روح کی تسکین کا سامان کیا بلکہ اپنے بدخواہوں کو بھی سبق سکھایا۔ یہ واقعہ گونوجھا کے اس سماجی شعور کا غماز ہے، جس سے ہندوستانی معاشرہ جوجھ رہا ہے کہ شرادھ کے نام پر لوگ برباد ہوجاتے ہیں اور ان پر قرض لے کر ضیافت کرنے کا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ 

گونوجھا کی کہانیاں اخلاقی اور اصلاحی نقطۂ نگاہ کے فروغ کا ذریعہ ہیں۔ صدر عالم گوہر نے’ گونو جھا کے قصے اور دوسری کہانیاں‘ کے پیش لفظ میں گونوجھا حتی کہ بیربل جیسی ذہین و فطین شخصیت کو سماج کا مسخرہ بتایا ہے، جو حد درجہ تکلیف دہ ہے۔ کیا مسخروں کو اکبر کے نورتنوں میں جگہ دی جاسکتی ہے؟ ملا دو پیازہ سے بیربل کی نوک جھونک مذاقِ لطیف، ذہانت اور غایت حسِّ مزاح کی علامت نہیں؟ اکبر جیسے عالی دماغ شہنشاہ کے دربار میں رکیک اور اوچھی بذلہ سنجیوں کی گنجائش ہے؟ گزرتے وقت کے ساتھ بیربل جیسے ذہین اور ان سے منسوب خردمندانہ واقعات میں عوامی دلچسپیوں کی چیزیں بھی شامل ہوتی گئیں اوروقت کے ساتھ یہ کچھ سے کچھ ہوگئیں۔ان واقعات سے پھوٹنے والی ظرافت اور ان میں درآنے والی عوامی رکاکت کے سبب بیربل جیسے ذہین و فطین شخص کے لیے بھی ہمارا ذہن کوئی باوقار سیاق تلاش کرنے سے قاصرنظرآتا ہے۔ بعینہٖ یہی صورتِ حال گونوجھا کے سلسلے میں بھی پیش آئی۔ کچی پکی روایات کی گرد میں اس کی شخصیت کاوقارمجروح ہوا ،جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

گونوجھا سے منسوب درجنوں واقعات، کہانیوں اور کہاوتوں میں اسے ایک خدادا دصلاحیت کے مالک فردکی حیثیت سے دیکھا جاسکتا ہے۔وہ اپنی ذہانت کے سبب مرجعِ خلائق تھا اوراس میں عوام کے مسائل کو بہ آسانی حل کرنے کی صلاحیت بھی موجود تھی۔وہ سماجی مسائل کے تئیں بالعموم جس طرح کا رویہ اپناتا ہے،اس سے اس کی ذہانت کا پتا چلتا ہے۔ اس میں حالات اور مسائل سے جوجھنے کی قوت دکھائی دیتی ہے۔اس کی خدادادصلاحیت کا سرچشمہ میتھلی روایت کے بموجب بھگوتی کا وردان ہے، جو گونوجھا کو ملا تھا۔اسی قوتِ باطن نے اسے فہم وشعور کی دولت ودیعت کی تھی اور اسے غیرمعمولی طور پر حاضر جواب بھی بنادیا تھا۔اس کی حاضر جوابی کے قصے بھی متھلا میں خوب مشہور ہیں، جن میں اس کی ذہانت کی چمک پائی جاتی ہے۔

گونوجھا سے منسوب بہت ساری کہانیوں میں وہ شریکِ حیات کے ساتھ باتیں کرتا نظر آتا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ گونوجھا کی شادی ہوئی تھی۔خانگی زندگی میں بھی ہم اسے ایک کامیاب، ہوش منداور وفاشعار شوہرکی حیثیت سے پاتے ہیں۔ اس کی ایک بیٹی کا ذکر بھی ملتا ہے، جو جلد ہی فوت ہوگئی تھی۔ البتہ اس کے بھائی بھونوکی شادی نہیں ہوئی تھی۔اس طرح اس کا نسلی سلسلہ تقریباً ختم ہوگیا۔اس کے خاندان کے کسی بھی فردیا وارثین کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔اس کے باوصف گائوں ’بھروارا ‘ کے لوگ گونوجھا سے اپنی نسبت پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اور اپنے اجداد میں شمارکرتے ہیں۔ گونوجھا کا انتقال چمر چھونچھ میں ہوا۔گونو جھا کو گزرے صدیاں بیت گئیں تاہم وہ آج بھی اپنی ذہانت اور شرکے خلاف اپنی حکمت علمی بنانے اورحق کی پاسبانی کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ اپنی خوبیوں کے سبب وہ آج بھی متھلا باسیوں کے دل میں بستا ہے۔ گونوجھا اور متھلا اب ایک ہی سکے کے دونام ہیں۔ گونوجھا کے ذکرکے بغیرمتھلا کا تمدنی تصور روشن نہیں ہوپاتا۔گونو جھا متھلا کی سماجی زندگی میں کچھ یوں شیروشکرہوگیا ہے کہ وہ بلا تفریق وہاں آباد سبھی طبقوں، ذات اور برادری میں یکساں اہمیت طور پر مقبول اور قابل قدرخیال کیا جاتا ہے۔ کیا ہندو کیا مسلم، سبھی اس کے قدردان ہیں اور گونوجھا ان میں قدرمشترک کا درجہ رکھتا ہے۔ گونوجھا کی ہردلعزیزشخصیت کا یہ وہ روشن پہلو ہے، جو اسے قومی یکجہتی اورمشترکہ ثقافت کے سفیرکی حیثیت سے دیکھنے کی تحریک دیتا ہے۔ متھلا کی طویل تمدنی تاریخ میں گوناجھاکا نام ہمیشہ روشن رہے گا۔ 

 

 

Dr. Imteyaz Waheed

A-8, Calcutta University Teachers' Quarters

P1/7, CIT Scheme

VII-M, KANKURGACHI, MANIKTALA

KOLKATA- 700054 (W.B)

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...