اردو دنیا، مارچ 2024
اس
بات سے ہم سب بہ خوبی واقف ہیں کہ جموں، کشمیر اور لداخ اپنے حسن و فطرت کی بنیادوں
پرہر کسی کو اپنی طرف کھینچنے کی مقنا طیسی قوت رکھتے ہیں۔ یہ تینوں خطے زبان، مذہب،
ثقافت اور معاشرت کے بہترین نمونے ہیں۔ ان خطوں میں وادی کشمیر کی خوب صورتی اور حسن
و جمال سے کون شناسا نہیں۔ یہاں کی صبحوں کا پر کیف اور خاموش منظر ہو یا شاموں کی
مدھم اور مشکبار ہواؤں کی سرسراہٹ، جھرنوں کے پانیوں کا جھوم جھوم کے گرنا ہو یا جھیل
ڈل کے کنارے پر واقع حضرت بل کی درگاہ سے اللہ اکبر کی اذانوں کی گونج، گلمرگ کے سلسلہ
وار پہاڑوں پر اِستادہ سر و،دیو دار اور کایرو کے بلند قامت پیڑوں کا خوش منظر ہو یا
پہلگام کے دریائے لدر میں بہنے والے پانی کی موجوں کا انسان کو راحت و آرام میسر پہنچانا۔
اسی طرح یہاں کے لوگوں کی اعلیٰ ظرفی اور ان کی مہمان نوازی کی انوکھی ادا ہر آنے
والے سیاح کو ان سادہ لوح کشمیریوں کے حسن سلوک کا گرویدہ بناتا ہے۔ یہ روایت یہاں
کے ماضی سے بھی گہرے طور سے منسلک ہے اور آج بھی اس میں وہی شدت اور وہی خلوص و محبت
کی چاشنی محسوس ہوتی ہے۔یہاں کے لوگ عام طور پر ایک دوسرے کے ساتھ کشمیری زبان میں
ہی بات چیت کرتے ہیں۔ تاہم اردو جموں و کشمیر کی سرکاری زبان۔ اس زبان سے قبل یہاں
فارسی اور سنسکرت جیسی بڑی زبانوں کا بھی نہ صرف چلن رہا ہے، بلکہ ان زبانوں میں یہاں
ادبی کام بھی ہوا ہے۔ اردو کے فروغ میں جہاں مسلمان قلم کاروں نے اس سر زمین میں اپنی
پیش رفت کا اظہار کیا وہیں دوسری جانب اردو کی بقا کے لیے غیر مسلم کشمیری ادیبوں اور
شاعروں نے بھی دل کے نہاں خانوں کو قرطاس پر رقم کرنے میں کافی دلچسپی دکھائی ہے۔
جموں
و کشمیر میں اردو کو 1889 میں مہاراجہ پرتاب سنگھ کے عہد میں سرکاری درجہ ملا۔ اس سے
قبل اس زبان کی جڑیں یہاں کی زمین میں پوری طرح سے مضبوط ہو چکی تھیں۔ اردو سے دلچسپی
لینے والوں کی اگر چہ تعداد کافی اچھی تھی مگر اب اس میں ادبی اظہار کے لیے نئے نئے
چہرے سامنے آنے لگے۔ جموں و کشمیر میں اردو کی شعری اور نثری اصناف میں ہندو فن کاروں
نے طبع آزمائی کر کے اپنے ہنر کا بھر پور ثبوت پیش کیا۔ باقی دوسری اصناف کے ساتھ
ساتھ یہاں فکشن خصوصاً افسانے کی طرف غیر مسلم قلم کاروں نے کافی اچھی پہل کی اور اس
بات میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ اردو فکشن کے آغاز کا سہرا بھی غیر مسلم افسانہ نگار
ہی کے سر جاتا ہے۔ عبد القادر سروری اپنی کتاب ’کشمیر میں اردو‘ میں پریم ناتھ پردیسی
کواردو کے پہلے افسانہ نگار قراردیتے ہیں۔ ڈاکٹر برج پریمی عبد القادر سروری کی رائے
سے اتفاق نہ کرتے ہوئے محمد الدین فوق کو اردو کا پہلا افسانہ نگار قرار دیتے ہیں۔
بہرحال جموں و کشمیر میں اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے یہ الگ بحث ہے، البتہ دونوں
کے مطابق اردو کا پہلا افسانہ نگار غیر مسلم ہی ہے۔ اس کے بعد اگر اردو افسانے کے میدان
پر نظر ڈالی جائے تو یہاں غیر مسلم افسانہ نگاروں کی طویل فہرست مرتب ہے۔ پریم ناتھ
در، ٹھاکر پونچھی، وجے سمن، سوم ناتھ زتشی، رام کمار ابرول، موہن یاور، تیج بہادر بھان،
وید راہی، پشکر ناتھ، مدن موہن شرما، کلدیپ رعنا، ویریندر، اور دیپک بدکی، دیپک کنول
اور اشوک پٹواری کے علاوہ کئی غیر مسلم نام افسانہ نگاری کی آبیاری کرنے میں منہمک
ہیں۔ ان افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں کے ذریعے سماجی حقیقتوں کا بے لاگ اظہار کیا۔
ان کے یہاں کشمیر کی مختلف جہتوں کا بر محل برتاؤ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان میں بیشتر
افسانہ نگاروں نے یہاں کے ان مسائل کو پیش کیا ہیں جن سے یہاں کی عوام جوجھتی ہوئے
نظر آتی ہے۔ جموں و کشمیر کے غیر مسلم نمائندہ افسانہ نگاروں میں سب سے پہلا نام پریم
ناتھ پردیسی کا آتا ہے۔
پریم
ناتھ پردیسی 1909 میں سرینگر میں پیدا ہوئے۔ ان کا حقیقی نام مدھو سودھن سادھو تھا۔
شاعری میں وہ رونقؔ تخلص استعمال کرتے تھے۔ اسی طرح کہانیوں کے لیے انھوں نے پہلے پریم
ناتھ سادھو کے نام سے لکھا اور بعد میں پریم ناتھ پردیسی کے نام سے ادبی حلقوں میں
معروف ہوئے۔ پریم ناتھ پردیسی شاعر اور افسانہ نگار کے علاوہ ایک اچھے صحافی بھی تھے۔ماہنامہ دیش، استاد، آگہی، صدف، سہیل وغیرہ پردیسی کے اخبارات تھے۔ ان کی ادبی نگارشات
اس وقت کے موقر رسائل و جرائد میں شائع ہوئیں۔ انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کشمیر میں
بحیثیت پروگرام اسسٹنٹ کے بھی کام کیا۔ یہاں انھوں نے ڈراما نگاری کی طرف اپنے مزاج
کو موڑا اور کئی ریڈیائی ڈرامے تحریر کر کے عوام سے دادِ تحسین حاصل کیا۔ سنگ تراش، سوامی اور سنگرش وغیرہ پریم ناتھ پردیسی
کے قابلِ تعریف ڈرامے کہے جا سکتے ہیں۔ جہاں تک پردیسی کی افسانہ نگاری کی بات ہے،
اس سلسلے میں ان کا پہلا افسانہ اپریل 1932 میں روز نامہ’رنبیر‘ جموں سے ’سچی پراتھنا‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ’دنیاہماری،
شام و سحر اور بہتے چراغ‘ پردیسی کے ایسے افسانوی
مجموعے ہیں، جن سے موصوف کی فنی اور فکری صلاحیتوں کا بھر پور علم ہوتا ہے۔ پردیسی
کے افسانوی مجموعہ ’شام و سحر‘ میں حقیقت پسندی کا عمدہ امتزاج ملتا ہے۔ یہ افسانے
رومان اور جذبات پسندی کی رو میں بہنے کی بجائے فن کار کی ذمے داریوں کے عکاس ہیں۔
ان میں پردیسی کی بلوغیت کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ اس افسانوی مجموعے سے پہلے کے افسانوں
میں بقول پریم ناتھ بزاز رومانیت، غیر کشمیری واقعات اور کردار ان کے افسانوں میں ملتے
ہیں۔
پریم
ناتھ پردیسی نے اپنے افسانوں میں کشمیر کے موضوع کو جس انداز سے برتا ہے وہ ان ہی کا
خاص وصف ہے۔ انھوں نے یہاں کی تہذیب و تمدن اور انسانی حقیقتوں کا بر محل اور صاف ستھرا
اظہار اس انداز سے کیا ہے کہ ان کے اس طرز کے افسانوں کو پڑھنے سے یہاں کا لینڈ اسکیپ
صاف اور واضح انداز میں سامنے آتا ہے۔
پردیسی
کے بعد جموں و کشمیر میں سب سے نمایاں افسانہ نگار پریم ناتھ در کہلاتے ہیں۔ وہ 25
جولائی 1914 میں حبہ کدل سرینگر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی تعلیم سرینگر ہی میں
حاصل کی۔ پریم ناتھ در اصل ایک باوقار افسانہ نگار ہیں، البتہ انھوں نے اپنی فطری صلاحیت
کو جلا بخشنے کے لیے صحافت کے میدان میں بھی قدم جمائے۔ اس ضمن میں وہ ’ہندوستان ٹائمز
‘ کے ساتھ وابستہ رہے۔ علاوہ اس کے وہ آل انڈیا ریڈیو میں ہفت روزہ ’انڈین لسنر‘ اور
’ آواز‘ کے مدیر بھی رہے ہیں۔پریم ناتھ در کا مطالعہ نہایت وسیع تھا۔ انھیں نہ صرف
اردو بلکہ انگریزی زبان پر بھی کامل دسترس حاصل تھی۔ ان کا پہلا افسانہ 1945 میں لاہور
سے اس لیے شائع ہوا کیونکہ اس عہد میں جموں و کشمیر میں اخبارات پر پابندی تھی اور
اگر کوئی اخبار نکلتا بھی تھا تو وہ سرکاری حکم نامے کے تحت چلتا تھا۔
پریم
ناتھ درچوں کہ اولاً افسانہ نگار رہے ہیں۔ اس تناظر میں ان کے جتنے بھی افسانے منصہ
شہود پر آئے ہیں وہ تمام فنی، فکری اور سماجی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے افسانوں
سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کا مطالعہ کس قدر وسیع رہا ہے، اس کے علاوہ ان کے یہاں
انسانی تجربات کا ایک خاص وصف پایا جاتا ہے۔ وہ انسانی نفسیات کا گہرا علم رکھتے تھے
اس بات کا ثبوت ان کے افسانوں میں جا بجا نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں طرح طرح کے موضوعات
پائے جاتے ہیں اور یہ موضوعات ایک دم سے قاری کو اپنی گرفت میں لینے کی قوت رکھتے ہیں۔
ان کے اسلوب کا نرالا انداز ہو یا جذبات نگاری کا اظہار، علامتوں سے پیدا ہونے والی
صورت حال ہو یا وحدت تاثر کا پر کیف سماں۔ ان کے فن کے حوالے سے پروفیسر جگن ناتھ آزاد
نے بجا طور پر کہا ہے :
’’ پریم ناتھ
در کے افسانے رومان اور حقیقت کا ایک خوب صورت امتزاج ہیں۔ انھوں نے جو کچھ بھی لکھاہے
خوبصورت نثر میں لکھا ہے۔ ان کی تحریر’ازدل خیز دبر دل ریزد ‘ کے مصداق اپنے ہر قاری
کو متاثر کرتی ہے۔ اس طرزتحریر کی بدولت انھوں نے اپنی فکر اور اسلوب بیان کو اس طرح
ایک دوسرے میں سمویا ہے کہ ایک کو دوسرے سے الگ کر کے دیکھنا دشوار ہے۔‘‘
( پریم ناتھ در،
چناروں کے سائے میں،فنکار کلچر آر گنائزیشن لال بازار سرینگر، 1991، ص 22-23)
کاغذ
کا واسدیو، نیلی آنکھیں، چناروں کے سائے میں
پریم ناتھ در کے افسانوی مجموعے ہیں۔ ان مجموعوں میں مختلف سماجی مسائل کو پیش
کیا گیا ہے۔ ان کے مذکورہ مجموعوں میں کشمیر کے تعلق سے جتنے بھی افسانے شامل ہیں ان
کی اہمیت اس لحاظ سے مسلم ہے کہ ان میں یہاں کے درد و کرب اور تہذیب و ثقافت کے علاوہ
سادہ لوح انسانوں کی ان تمام خصوصیات کو کسی نہ کسی صورت میں پیش کیا گیا ہے، جس کی
وجہ سے وہ آج بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ’کھڑکی، دودھ، چڑھاوا اور گیت کے چار بول‘ پریم
ناتھ در کے بہترین افسانے ہیں۔ ان افسانوں کے مطالعے سے پریم ناتھ در کے فکر و فن کا
خوب پتا چلتا ہے۔
جموں
و کشمیر کے نمائندہ اردو افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام ٹھاکر پنچھی کا ہے۔ ٹھاکر پنچھی
ایک ساتھ کئی ادبی اصناف میں اپنا تشخص قائم کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ وہ ایک
بہترین ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نگار اور ترجمہ نگار رہے ہیں۔ ان کی پیدائش جموں
کے پونچھ علاقے میں ہوئی۔ آپ نے آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو کشمیر جموں میں اپنے فرائض
منصبی انجام دیے ہیں۔ ڈراموں کے ساتھ جڑنے کی وجہ آغا حشر کاشمیری اور جموں تھیڑیکل
کمپنی بنی۔ ٹھاکر پنچھی زود نویس کہلاتے ہیں،لیکن انھوں نے صرف دو ہی افسانوی مجموعے
شائع کرائے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی ناول بھی تخلیق کیے اور یہی ناول ان کی مقبولیت
کا سبب بن گئے۔ بادل برسے، رات کے گھونگٹ،
وادیاں اور ویرانے، زلف کے سر ہونے تک اور چاندنی کے سائے وغیرہ پردیسی کے معیاری ناول
ہیں۔ بحیثیت افسانہ نگار ٹھاکر پنچھی کا قد جموں وکشمیر کے افسانہ نگاروں میں کافی اونچا نظر آتا ہے۔
’زندگی کی دوڑ‘ اور ’چناروں کے چاند‘ ٹھاکر پنچھی کے افسانوی مجموعے ہیں۔ ان مجموعوں
میں شامل افسانوں کی نوعیت بالکل کم و بیش وہی ہے جو یہاں کے دیگر افسانہ نگاروں کی
خصوصیات میں شامل ہیں۔ ٹھاکر پنچھی کا اولین افسانہ’راجا‘ کے عنوان سے کالج میگزین
’ توی‘ میں شائع ہوا۔ اسی طرح ابتدائی افسانوں
میں ان کا افسانہ ’کالکی‘ جموں کے ہفتہ وار اخبار ’چاند‘ میں چھپ کر آیا۔ ٹھاکر پنچھی
منشی پریم چند کی فکر و سوچ سے کافی متاثر تھے۔ ان کے افسانوں میں پریم چند کے اثرات
کافی حد تک پائے جاتے ہیں۔ پونچھ ہندوستانی سرحد کے قریب ایک خوب صورت اور دلکش علاقہ
ہے۔ یہاں کی مٹی تعلیم و فنون کے لحاظ سے کافی زرخیز نظر آتی ہے۔ اس علاقے سے کئی
شاعر اور ادیب پیدا ہوئے ہیں اور اس وقت بھی اس دور افتادہ علاقے سے اردو کی آبیاری
کرنے میں کئی شعرا و ادبا منہمک ہیں۔ ٹھاکر پنچھی کو اپنی منفرد افسانوی بنیادوں کی
وجہ سے پہاڑی رومانوں کا ترجمان افسانہ نگار کہا جاتا ہے۔ ان کے افسانہ ’موت کے سائے‘
کو آل انڈیا مقابلے میں پہلا انعام حاصل ہوا ہے۔
پنچھی
کے افسانوں میں جہاں بلند قامت پہاڑوں سر سبز وادیوں، اونچے اونچے درختوں اور پہاڑوں
اور اس کے دامن میں رہنے والے لوگوں کی خوش گوار زندگی کی عکاسی ملتی ہے وہیں دوسری
جانب ان میں یہاں کے عوام کی ان مشکلات کا بھی انکشاف ہوتا ہے جن کو وہ ایک طویل عرصے
سے برداشت کر رہے ہیں۔ ان معصوم اور بے قصور لوگوں کی آہیں اور سسکیاں ان کے افسانوں
میں جا بجا نظر آتی ہیں۔ اس طرح کا کرب ناک اظہار قاری کو ایک پر آشوب اور الم ناک
دنیا میں دھکیل دیتا ہے۔ جان محمد آزادٹھاکر پنچھی کے افسانوی مجموعہ ’زندگی کی دوڑ‘
کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس انداز سے کرتے ہیں :
اس
مجموعے کے افسانوں میں موت کے سائے تلے، ڈھولک بجتی رہے... یہ افسانے نہیں بلکہ شہروں
سے دور پہاڑوں میں رہنے والے معصوم اور سادہ لوگوں کی دھڑکنیں ہیں۔‘‘
(جان محمد آزاد،جموں
و کشمیر کے اردو مصنفین، جے ینڈ کے اکیڈمی آرٹ لکچر اینڈ لینگویجز سرینگر، 2008، ص
438)
ٹھاکر
پنچھی کے افسانوں میں اسلوب کی انفرادیت ملتی ہے اور یہ انفرادیت ان کے افسانوں سے
شروع ہو کر ناولوں میں جاکر بس جاتی ہے۔ان کے افسانوں میں انسانی نفسیات، سیاسی و سماجی
باریکیوں کا رچاؤ ملتا ہے۔ ان کے ناول اور افسانے کئی زبانوں میں ترجمہ ہوئے ہیں،
جن میں بنگالی، ملیالم، پنجابی اور ہندی زبانیں وغیرہ شامل ہیں۔
جموں
و کشمیر میں اردو افسانے کو اپنے احساسات اور تجربات سے مالا مال کرنے میں پشکر ناتھ
کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ پشکر ناتھ افسانہ
نگاری کے ساتھ ساتھ ناول اور ڈراما نگاری میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔ پشکر ناتھ
کا تعلق سرینگر کے عالی کدل سے تھا۔ وہ 1934 میں پیدا ہوئے۔ آپ کو علم و ادب کے ساتھ
کم سنی ہی میں دلچسپی تھی۔ ابتدا ہی سے آپ مختلف ادبی سرگرمیوں میں شریک ہوتے تھے۔
بدر الدین پشکر ناتھ کے قریبی دوست تھے اور ان کے ساتھ مل کر دونوں نے ’حلقۂ علم و
ادب‘ کی بنیاد ڈالی۔ اس کے علاوہ پشکر ناتھ
نے حکیم منظور، مخمور بدخشی اور محی الدین شال کے ساتھ مل کر ’حلقہ ارباب ذوق‘ نامی
تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ یہ تنظیم ادبی لحاظ سے کافی دور رس ثابت ہوئی اور بعد میں یہ
اپنے مقاصد اور اصولوں سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس تنظیم نے جموں و کشمیر میںشعرو ادب
کے فروغ کے سلسلے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔
پشکرناتھ
نے اپنا پہلا افسانہ برج پریمی کے قول کے ردِ عمل میں لکھا تھا۔ یہ افسانہ اس وقت لکھا
گیا جب پشکر ناتھ نے اپنا پہلا افسانہ ’ اور کہانی ادھوری رہ گئی‘ کے نام سے لکھا تھا۔
اس افسانے پر برج پریمی نے انھیں یہ کہا کہ وہ اس سے عمدہ کہانی لکھ کر دکھائے، چنانچہ
پشکر ناتھ نے اس چیلنج کو قبول کر کے کئی خوب صورت اور معنی خیز افسانے لکھے۔ ایسے
افسانوں میں ’ موت کے سودا گر، پردہ نشین، ڈل کے باسی، گلوان، گالی، ابابیل، شہرِ بے
چراغ اور درد کا مارا ‘ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ افسانے ملک کے مختلف جرائد و رسائل میں
شائع ہوئے اور اس طرح پشکر ناتھ کو افسانہ نگاری کے میدان میں ایک خاص جگہ مل گئی۔
پشکر ناتھ ایک حساس، اور تجربہ کار فن کار تھے۔ ان کی ذہنی صلاحیت کئی صفات کی حامل
ہے۔ ان کے افسانوں میں نفسیاتی الجھاؤ، سماجی مسائل، اقدار کی بیخ کنی جیسے موضوعات
کو جگہ ملی ہے۔ ان کے زیادہ تر افسانے کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اپنے عہد کے لوگوں
کی غربت، سادہ دلی، شرافت، کے علاوہ یہاں کے حسن و فطرت کو اپنے افسانوں میں سمونے
میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ عبد القادر سروری پشکر ناتھ کے افسانوں کے بارے میں لکھتے
ہیں :
’’پشکر ناتھ کے
افسانوں کا محرک کشمیر کی زندگی اور اس کی حسین فضائیں ہیں، لیکن فطرت کے ان حسین مناظرکے
درمیان، عوام کی غربت اور ان کا افلاس ایک تضاد ہے، جس کے نقوش وہ بڑی جانکاری کے ساتھ
ابھارتے ہیں۔‘‘
( عبد القادر
سروری، کشمیر میں اردو، جے ینڈ کے اکیڈمی آرٹ لکچر اینڈ لینگویجز سرینگر،1984،ص 188)
’’ اندھیرے اُجالے،
ڈل کے باسی، عشق کا چاند اندھیرا اور کانچ کی دنیا‘‘ پشکر ناتھ کے افسانوی مجموعے ہیں۔
انھوں نے ان چار افسانوی مجموعوں کی بدولت جموں و کشمیر میں اپنا نام قائم کرنے میں
جس محنت اور لگن سے کام کیا ہے،اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے۔
برج
پریمی جموں و کشمیر میں اردو افسانے کاایک اہم نام ہے۔ ان کا پورا نام برج کشن ائمہ
تھا،تاہم ادبی حلقوں میں وہ برج پریمی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ حبہ کدل سرینگر
میں 1935کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1976 میں کشمیر سے پی ایچ، ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
پی ایچ ڈی میں ان کا موضوع ’ سعادت حسن منٹو حیات اور کارنامے‘ تھا۔ 1977 میں انھوں
نے کشمیر یونیورسٹی میں ریڈر کے بہ طور کام کرنا شروع کیا اور ہمیشہ اسی پیشے سے وابستہ
رہے۔
برج
پریمی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری
سے کیا ہے۔ 1949 میں ان کا پہلا افسانہ ’امر جیوتی‘ شائع ہوا۔ برج پریمی نے
فنی، فکری، موضوعاتی اور اسلوبیاتی اعتبار سے کافی اچھے افسانے لکھے ہیں۔ ایک پھول
ایک کلی، اجڑی بہاروں کے اجڑے پھول، یہ گیت یا مزار، قبا کے ایک طرف اور سپنوں کی شام برج پریمی کے قابل ذکر افسانے ہیں۔ ان کے افسانے
ملک کے نمائندہ رسائل جن میں دیش، شعلہ اور شبنم، سب رنگ اور ہمارا ادب وغیرہ شامل ہیں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ برج پریمی
افسانہ نگاری کے علاوہ تنقید و تحقیق میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔ انھوں نے اس ضمن میں
کئی کتابیں اپنی یاد گار چھوڑی ہیں۔ ان کے افسانوں کے موضوعات متنوع ہیں۔ ان میں زیادہ
تر موضوعات کشمیر سے متعلق ہیں۔ ان کے ابتدائی افسانوں میں کرشن چندر کا رنگ نمایاں
ہے۔ جوں جوں ان کا فن پروان چڑھتا گیا اسی قدر ان کے افسانوں میں بھی باقی دوسرے افسانہ
نگاروں خصوصاً سعادت حسن منٹو کا رنگ دکھائی دینے لگا۔برج پریمی کے افسانوں کی سب سے
اہم اور منفرد شان ان کی خود کلامی میں مضمر ہے۔ ان کے افسانوں میں یہ خصوصیت ایک انوکھی
طرح کو پیدا کر کے قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ برج پریمی کے افسانوں میں خود کلامی کے
وصف کے اظہار کے تعلق سے کشمیری لال ذاکر لکھتے ہیں :
ایک
بات جو ان سبھی کہانیوں میں مشترک ہے، وہ یہ ہے کہ برج پریمی کا کہانی لکھنے کا انداز
خود کلامی کا انداز ہے، یعنی سولیلو کی کا انداز۔ اس کا ہر کردار خود کلامی کر رہا ہے اور جب وہ کسی دوسرے شخص کے بارے میں بولتا ہے یا اپنے سماج اور
ماحول کا ذکر کرتا ہے،تولگتا ہے کہ وہ اپنے آپ ہی سے گفتگو کر رہا ہے۔ خود کلامی کا
یہ عمل بڑا ہی پُر عذاب ہوتا ہے۔ کیونکہ بات کرنے والاجب بات کرتا ہے تو اپنی روح میں
لگے ہوئے پرانے اور نئے زخموں کو چھیڑتا ہے اور جس کسک کا احساس اسے خود ہوتاہے وہی
کسک دھیرے دھیرے پڑھنے والوں تک بھی پہنچ جاتی ہے۔‘‘
(برج پریمی، سپنوں
کی شام،دیپ پبلی کیشنز نصیب نگر پمپوش کالونی جانی پورہ جموں، 1995، ص 8)
ڈاکٹر
برج پریمی کی ادبی مصروفیات چوں کہ کافی تھیں اور اس وجہ سے انھوں نے صرف ایک افسانوی
مجموعہ پیش کیا ہے، جو’سپنوں کی شام ‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔ان کی دوسری تصانیف
میں جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشو ونما‘ حرف جستجو، منٹوکتھا، جلوۂ سب رنگ، چند
تحریریں، ریاست جموں و کشمیر میں اردو فکشن اور کشمیر کے مضامین وغیرہ اہمیت رکھتی
ہیں۔
اس
طرح اگر دیکھا جائے تو وادیِ کشمیر میں اردو افسانہ کی تاریخ اور اس کے ارتقا میں غیر
مسلم تخلیق کاروں کا نہ صرف اہم رول رہا ہے بلکہ عصر حاضر میں بھی یہاں کے افسانوی
ادب کے افق پر غیر مسلم افسانہ نگاروں کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے یہاں فکشن لکھنے
کا جو شوق اور جو ذوق پایا جاتا ہے، وہ دراصل ان کی اردو زبان و ادب کے ساتھ ایک والہانہ
محبت کا اظہار ہے۔
Zahid
Yaseen Shah
S/o
Pir, Mohd Yaseen Shah
R/O:
Rakh Pahoo
District:
Pulwama
Tehsil:
Kakapora - 192304
Mob.:
7006703805
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں