اردو دنیا، مارچ 2024
اردو
میں ترجمہ نگاری کے مباحث پر تحقیقی رجحانوں کا فقدان اس کے ارتقائی ادوار کی ہر دہائی
میں دیکھا گیا ہے۔ اس کی وجوہات پر بے جا عرق ریزی کرنے سے بہتر ہے کہ عملی طور پر
اس جانب توجہ دی جائے اور تکنیکی دنیا کے روز افزوں مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے
ترجمے کے تحقیقی ابعاد کی تفہیم و تعبیر پر توجہ مرکوز کی جائے۔ جس طرح ادب کی قرات
کا تعلق رفتہ رفتہ قرات سے سماعت کی طرف گامزن ہورہاہے اور تیز رفتار دنیا ’کوکو ایف
ایم‘ ’آڈیبل‘ اور ’پوڈکاسٹ‘ کی مرید ہوتی جارہی ہے اسی طرح ویڈیو کا تعلق بھی فقط
نظارگی سے نہیں رہ گیا بلکہ تکنیکی سہولیات نے
'Audio-Visual' (دید و شنید) کو خوب فروغ بخشا ہے اور اسی کے
بطن سے Subtitle (تحتیہ ترجمہ) کی ضرورت نے جنم لیا ہے۔اردو میں
سبٹائٹل نگاری کی شعریات کے تعین سے قبل اس کا اصطلاحی اور تاریخی پس منظر، ضرورت و
اہمیت اور رجحانات کے بارے میں جان لینا خالی از دلچسپی نہیں ہوگا۔
سبٹائٹل
کو ’کیپشن‘ یا ’اوپن کیپشن‘ بھی کہا جاتاہے۔ سبٹائٹل دراصل کسی ویڈیو میں نظر آنے
والے مناظر یا بولی جانے والی آواز کا اسی زبان یا کسی دوسری زبان میں ترجمہ ہے جو
اکثر ساتھ ساتھ نیچے کی جانب رواں دواں ہوتاہے۔ انگریزی میں کسی مضمون کے ذیلی عنوان
کو بھی ’سبٹائٹل‘ کہا جاتاہے لیکن یہاں اس کا سیاق نہیں ہے۔ علم صرف کے مطابق Sub بمعنی ما تحت، ذیلی، تحتی اور Title بمعنی عنوان، نقش و نگار وغیرہ۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں سبٹائٹل کی تعریف یوں
درج ہے۔ جس کا اردو مفہوم یہ ہے:
’’سبٹائٹل سے
مراد وہ الفاظ ہیں جو کسی فلم کے مکالمے کو دوسری زبان میں منتقل کرے اور ساتھ ساتھ
اسکرین کے زیریں حاشیے پر نظر آئے۔ سبٹائٹل کا استعمال ٹی وی پر بھی ہوتا ہے خصوصا
اونچا سننے والوں کے لیے یا جو پوری طرح بہرے ہو چکے ہوں۔‘‘
سبٹائٹل
کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ ویڈیو کے آغاز سے ہی اس کی ضرورت اور استعمال دونوں دیکھا
گیا ہے۔ فلم کے ابتدائی دنوں میں جب فلمیں بے آواز ہواکرتی تھیں تب تحتیہ ترجمے کا
استعمال کیا جاتا تھا تاکہ ناظرین کو مکالمے سمجھ میں آجائیں۔ پھر جب فلمیں باآواز
ہونے لگیں تب تحتیہ ترجمے کی ضرورت کم ہوگئی اور بوقت ضرورت کسی اشتہار یا انتباہ کے
لیے صرف کیپشن کا استعمال ہونے لگا مثلا سیگریٹ نوشی کے مناظر کے وقت ’سگریٹ نوشی صحت
کے لیے مضر ہے‘ کا انتباہ یا خود کشی کے مناظر کے وقت ’خود کشی کسی مسئلے کا حل نہیں
ہے‘ کا انتباہ وغیرہ۔
اکیسویں
صدی میں عالم کاری اور سرمایہ داری کے عروج نے سبٹائٹل کی ضرورت کو خوب مشتہر کیا یہاں
تک کہ عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی بندش نے او ٹی ٹی (Over- the- Top) سے وابستہ تجارت کو مواقع بخشے جس سے سبٹائٹل کی ضرورت اور استعمال
میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ فلمیں تھیئٹر کے بجائے او ٹی ٹی پر رلیز ہونے لگیں، بچے اسکولوں
کی جگہ موبائلوں اور دیگر تکنیکی آلات کی مدد سے پڑھنے لگے لہٰذا صارفیت نے اپنا مواد
آسان تر بنانے کے لیے سبٹائٹل کے استعمال کو مزید بڑھا دیا۔
ویڈیو
کے مناظر کو کسی کی مادری زبان میں ترجمہ کردینا سرحدوں کی دیواروں کو گرا دیتاہے اور
ایک اردو جاننے والا ترکی زبان کے مکالموں سے اتنا ہی لطف اندوز ہوتاہے جتنا کہ ایک
ترک شہری۔ یہاں ایک اعتبار سے کہا جا سکتاہے کہ سبٹائٹل کے رواج نے مشہور مقولہ ’زبانِ
یار من ترکی و من ترکی نمی دانم‘ کی معنویت کوبھی ختم کر دیا ہے۔ اب اگر آپ کے یار
کی زبان ترکی ہے اور آپ ترکی نہیں بھی جانتے تو سبٹائٹل کی مدد سے آپ کی یہ شکایت
دور ہو سکتی ہے۔
جیسا
کہ اوپر مذکور آکسفورڈ ڈکشنری کی تعریف سے واضح ہے کہ سبٹائٹل کا استعمال محض لطف
بڑھانے کے لیے ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی کیا جاتاہے جو سننے سے قاصر ہیں یا
اونچا سنتے ہیں۔ میں نے تو نیٹ فلکس پر بعض فلموں میں کہیں کہیں دیکھا ہے کہ جہاں منظر
بالکل غیر مکالماتی ہے وہاں بھی سبٹائٹل کے استعمال سے لطف کو دو بالا کر دیا جاتاہے
مثلا منظر میں گہرا سناٹا ہے اور تیز ہوائیں چل رہی ہیں، دور کہیں سے کتوں کے بھونکنے
کی آواز آرہی ہے۔ اب ایسے منظر سے صرف وہی محظوظ ہو سکتاہے جس کی قوت سماعت اچھی
ہو لیکن سبٹائٹل کی مدد سے بہرے اور نصف بہرے لوگوں کو بھی اس منظر سے لطف اندوز ہونے
کا موقع فراہم ہوجاتاہے۔
مصنوعی
ذہانت کے دور میں کچھ پلیٹ فارمز ایسے ہیں جن میں موجود ویڈیومیں از خود ترجمہ نگاری
(کیپشن Auto- Translate) کی سہولت بھی ہوتی ہے لیکن اس میں ابھی مزید
پختگی کی ضرورت ہے۔ بعض دفعہ تو مارے گھٹنا پھوٹے سر اور ’یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ
سمجھیں گے میری بات ‘ کے مصداق کسی ویڈیو پر از خود کردہ ترجمہ انتہائی مضحکہ خیز اور
بے سر وپیر کا ہوتاہے۔
اتنا
ہی نہیں اگر آپ بھیڑ میں ہیں یا کسی ایسی جگہ جہاں موبائل سے نکلنے والی آواز دوسروں
کو پریشان کر سکتی ہے ایسے ماحول میں بھی وقت کو ضائع کیے بغیر سبٹائٹل کی مدد سے فلموں،
دستاویزی فلموں، عالمی شہرت یافتہ شخصیتوں کی تقاریر اور ترغیبی خطبات سے محظوظ ہوا
جا سکتاہے۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سبٹائٹل کے رواج نے ہماری تیز رفتار دنیا کو
بہتر کرنے میں بے حد مثبت تعاون کیاہے۔
ترجمے
کی شعریات تحتیہ ترجمے کی شعریات سے الگ ہے۔ ترجمے کا تعلق زیادہ تر کاغذ پر اترے ہوئے
حروف سے ہے جب کہ تحتیہ ترجمے کا تعلق اکثر ویڈیو کے مناظر سے ہوتاہے۔ ادبی یا صحافتی
ترجمے کے لیے مترجم کا لسانی طور پر مسلح ہونا ضروری ہے جبکہ تحتیہ ترجمے کے لیے لسانی
لیاقت کے ساتھ ساتھ تکنیکی طور پر بھی موزوں ہونا ناگزیر ہے۔مرکزی ترجمہ نگاری کا ترجمے
کے بعد اصل متن سے کوئی وقتی تعلق نہیں رہتا جبکہ تحتیہ ترجمہ اسکرین پر ہی فراہم کیا
جاتاہے اور اس کا ایک ایک منظر ٹائمنگ کے موافق
ہونا ضروری ہے۔مرکزی ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ متن کو دوسری زبان میں اچھے سے منتقل کر
دے جبکہ تحتیہ ترجمے کے سروکار لسانیاتی اصولوں کے بجائے منظر کی بہتر عکاسی سے ہے۔
مرکزی ترجمہ اصل متن کے بغیر بھی پڑھا اور سمجھا جا سکتاہے جبکہ تحتیہ ترجمہ اصل منظر
اور ویڈیو کے بغیر بے معنی ہے۔
یو
ٹیوب اور دیگر جگہوں پر خال خال ہی اردو تحتیہ ترجمے کا استعمال نظر آتاہے۔ اگر ہمارے
اندر اردو کے فروغ کا جذبۂ صادق ہے تو ہمیں
اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر
میں اردو کی ایک بڑی آبادی بستی ہے اگر ہم نے صارفی دنیا کو اپنے وجود اور تعداد کا
احساس دلانے میں کامیابی حاصل کر لی تو وہ دن دور نہیں جب دنیا بھر کی فلمیں ،ویب سیریز
اردو کے قالب میں بھی منتقل ہوں گی اور اس طرح تحتیہ ترجمے کے ذریعے بھی اردوشہرت و
مقبولیت کے منازل طے کرے گی۔
ترجمہ
وقت کی ضرورت ہے اور اس کی بدلتی ہوئی شکلوں کا اعتراف بھی۔ اس سے آنکھ چرانے سے کسی
اہل زبان کا بھلا نہیں ہو سکتا۔ ترجمہ کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے
ہوئے دیویندر اسّر اپنے مضمون ’ترجمہ : فن اور نظریہ ‘ میں رقمطراز ہیں :
’’مترجمین نے
ترجمے کے فن کی جانب ہی ہماری توجہ مبذول نہیں کی بلکہ ان تھیوریوں کی جانب بھی ہماری
توجہ دلائی ہے جن کے باعث موجودہ دور میں اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔کچھ ایسے لوگ
بھی ہیں جو ترجمے کو محض فن ہی نہیں بلکہ سائنس کا درجہ دیتے ہیں... اس بدلتے ہوئے
منظر نامے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اب علوم اور ادب بین العلومی اور بین التہذیبی
ہوچکے ہیں۔
(ترجمے کے فنی
اور عملی مباحث ، ص 16-18، شائع کردہ : جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی ، 2012)
دیوندر
اسر کی بات انتہائی قابل توجہ ہے کہ مترجمین نے ہی ان تھیوریوں کی جانب بھی ہماری توجہ
مبذول کرائی ہے جن کی وجہ سے اہم تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہیں۔ تحتیہ ترجمے کے سیاق
میں ان کے اس قول کی اہمیت اور بھی دو بالا ہوجاتی ہے کیونکہ جب تک ہم شاذ و نادر ہی
سہی اردو میں ہو رہے تحتیہ ترجموں کا تنقیدی مطالعہ نہیں کریں گے ہم اس کی شعریات متعین
نہیں کر سکتے۔ دوسری جگہ انھوں نے ادب اور علوم کے بین التہذیبی ہونے کی بات کی ہے۔
اس ضمن میں او ٹی ٹی پر موجود مواد کی آوازوں کو ان کی اصل حالت میں باقی رکھتے ہوئے
دنیا کی ایک تہذیب کو دوسری تہذیب کے سامنے پیش کرنے کا ہنر بھی ہمیں تحتیہ ترجمے کی ضرورت اور اہمیت کی
طرف متوجہ کرتاہے۔
فن
ترجمہ نگاری کے ضمن میں تحتیہ ترجمہ نگاری کی اہمیت اور اس کے عناصر ترکیبی پر روشنی
ڈالتے ہوئے Stavroula Sokoli اپنے تحقیقی مقالے بعنوان
’ریسرچ ایشوز ان آڈیو ویژول ٹرانسلیشن‘ میں لکھتی ہیں، جس کا مفہوم یہ ہے:
ترجمہ:
یقینابین تہذیبی مکالمے کے طور پر تحتیہ ترجمے کا مطالعہ ایک وسیع اور اہم خاکے کی
نشاندہی کرتاہے۔ مزید یہ کہ تحتیہ ترجمے کو متاثر کن مباحث کے طور منتخب کرنا ہی اپنے
آپ میں کسی بھی قسم کے ترجمے کے مسائل سے وابستہ ایک بصیرت آمیز بحث ہے۔
مذکورہ
اقتباس میں بھی تحتیہ ترجمے کو مرکزی ترجمے کی شعریات کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے اور
اس سے قبل مذکور دیویندر اسر کے مضمون سے مندرج اقتباس میں ترجمے کی تھیوریوں کے حوالے
سے جو بات کہی گئی تھی اس کی تائید یہاں بھی ہو رہی ہے کہ ترجمے کے جتنے بھی جدید مباحث
ہیں ان کی طرف تحقیق کاروں کی توجہ کا مبذول ہونا مرکزی ترجمے کے مباحث کے لیے نئے
دروازے کھولنے کے مساوی ہے۔
یہاں
سبٹائٹل نگاری کے مزید چند اہم اصولوں سے بحث کرنا ناگزیر ہے۔ اس ضمن میں یوروپی یونین
کی کاؤنسل نے اپنے مترجمین کو سبٹائٹل ترجمہ کرتے وقت جن نکات کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت
کی تھی ان میں سے چند اہم نکات کا ذکر مناسب معلوم ہوتاہے۔ اس تناظر میں سب سے کلیدی
نکتے کی نشاندہی ان الفاظ میں کی گئی ہے۔
’’متن لازمی طور
پر مختصر ہواور مکالموں کے مطلوبہ معانی کی بہتر ترسیل کرے اور اس کے اندر ایک قسم
کا فطری بہاؤ بھی ہو۔‘‘
ان
نکات میں سے اخذ شدہ درج ذیل اشاریات بھی قابل توجہ ہو سکتے ہیں :
- کسی بھی حال میں اصل مفہوم ضائع نہ ہو۔
- طویل جملوں کو مختصر
مکالموں کی شکل میں توڑ دیا جائے۔
- ہر سبٹائٹل میں زیادہ
سے زیادہ دو سطور ہی ہوں۔
- اور کسی سطر میں
45 سے زیادہ الفاظ نہ ہوں۔
- اگر مکالمے کا دورانیہ
تین سیکنڈ سے زیادہ کا ہو تو دو سطور رکھیں جائیں و گرنہ ایک ہی سطر کافی ہے۔
- ترجمے کی تکمیل کے
بعد ویڈیو چلاکر سبٹائٹل پر نظر ثانی کر لینا اشد ضروری ہے۔
تحتیہ
ترجمے کے مقاصد سے پرے زبان سیکھنے کے خواہشمند لوگ سبٹائٹل کا استعمال زبان سیکھنے
کے مقصد سے بھی کرتے ہیں۔ مثلا ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے کے خواہشمند طلبا اگر
کورین، جاپانی ،جرمن، ترکی یا عربی زبان کے مترجم بننا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ان زبانوں
میں بنی فلمیں اور ڈرامے بے حد سود مند ثابت ہوتی ہیں اور وہ زبان آموزی کی نیت سے
ان فلموں اور ڈراموں کا سبٹائٹل کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں تاکہ دلچسپی کا سامان بھی
مہیا رہے اور زبان آموزی کا مقصد بھی پورا ہو جائے۔
عالم
کاری اور سرمایہ داری ترقی پذیر دنیا کے دو ایسے پہلو ہیں جن کا اثر ہر میدان میں محسوس
کیا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ نے دنیا کو ایک گاؤں بننے میں دیر نہیں لگنے دیا اور اب عالمگیریت
کے مثبت نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ ایک زبان میں بنی فلمیں جو فقط اسی زبان کے بولنے
اور سمجھنے والوں تک محدود تھیں، سرحدیں لانگھ کر دنیا کی ہر ترقی یافتہ زبان میں شائقین
کو سامانِ لطف فراہم کر رہی ہیں اور اس کے درپردہ فلموں کی تجارت بھی اپنی معراج کمال
کو پہنچ رہی ہے۔لیکن یہ سب ممکن کیسے ہوا؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہ سب Dubbingکے
فیوض و برکات ہیں۔Dubbing یعنی کسی زبان کی فلم میں بولے
جانے والے مکالموں کو دوسری زبان میں بدل دینا۔ ’ڈبنگ‘ کے اردو متبادل و مترادف کی
بات کریں تو مجھے اب تک اردو کی لغات میں اس کے پہلو بہ پہلو کوئی لفظ نہیں ملا۔ کچھ
برقی لغات میں اس کا مفہوم بیان کر دینے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ لہٰذا میں جدید ترین
اصطلاح ’Dubbing‘ کے لیے اردو اصطلاح ’صوتیہ ترجمہ ‘کا استعمال
کر رہا ہوں۔
تحتیہ
ترجمے کی طرح صوتیہ ترجمہ بھی تحریرشدہ متن کے بجائے کسی ویڈیو میں بولی گئی آواز
کو دوسری زبان میں منتقل کرنے سے تعلق رکھتاہے۔اور یہ صرف فلموں تک محدود نہیں بلکہ
صوتیہ ترجمے کی وابستگی کسی بھی قسم کے ویڈیو سے ہو سکتی ہے خواہ وہ ویڈیو صحافتی،
سائنسی، دستاویزی، طبی یا ادبی مواد پر مشتمل ہو۔ ابھی کچھ دہائی قبل تک ہندوستان جیسے
کثیر اللسان ملک میں بننے والی فلمیں مخصوص اہل زبان تک محدود ہوا کرتی تھیں لیکن صوتیہ
ترجمے کی آمد نے شائقین فلم پر مخصوص لوگوں
کی اجارہ داری کو ختم کر دیا۔مثال کے طور پر2022 میں منظر عام پر آنے والی ایس ایس
راجا مولی کی مشہور ایکشن ڈراما فلم بنیادی طور پر تیلگو میں بنی تھی لیکن ریلیز سے
قبل ہی اس کا ہندی زبان میں بھی صوتیہ ترجمہ کیا گیا اور شمالی ہند کے سنیما گھروں
میں بھی اس فلم کی نمائش کی گئی۔فلم نے بلا
کسی لسانی امتیاز کے شمالی ہند میں اپنے سکے جما لیے۔ اسی طرح جنوبی کوریا میں بنی
مشہور ٹیلی ویژن ویب سیریز 'Squid Game' (اسکوئیڈ گیم)دنیا کی بیشتر زبانوں میں صوتیہ ترجمے
کی مدد سے منتقل کی گئی اور دنیا بھر کے فلمی شائقین نے اس ڈرامے کو خوب سراہا۔ جس
طرح دنیا کے کسی ایک خطے اور ایک زبان میں لکھا گیا ادب متنی ترجمے کی بدولت دنیا بھر
کے قارئین سے داد و تحسین وصول کر سکتاہے اسی طرح صوتیہ ترجمے کی مدد سے فلمیں بھی
زبانوں کے دائروں کو پھلانگ کر عالمی میزان پر اپنا حق خوب وصول کر رہی ہیں۔ اس ضمن
میں اردو کا دائرہ بے حد ناگفتہ بہ ہے۔ فلموں کے صوتیہ ترجمے کے حوالے سے بڑے پروجیکٹوں
میں اردو کی جگہ انتہائی تنگ ہے اور اس کی بنیادی وجہ ہے صوتیہ ترجمے میں استعمال ہونے
والی زبان۔ چونکہ صوتیہ ترجمے میں کسی خاص رسم الخط کا ذرہ برابر بھی عمل دخل نہیں
ہوتا لہذا ہالی وْڈ کی بڑی فلمیں بڑی چالاکی
سے ایسی زبان میں منتقل کی جاتی ہیں جو بر صغیر کے عام فہم ناظرین کے لیے کافی ہو۔میں
نے ذاتی طور پر سنیما گھر میں ہالی وڈ کی کچھ ایسی فلمیں دیکھی ہیں جن کو صوتیہ ترجمے
کی مدد سے ہندی میں منتقل کیا گیا تھا لیکن اس میں استعمال ہونے والی زبان ہندی اور
اردو کے درمیان کی معلوم ہوتی تھی۔ اس کی مثال 2018 میں بنی جیمس وان کی فلم ’ایکوامین‘
بھی ہے جس میں فکشن کی مدد سے پانی کے اندر بسے بر اعظموں کا خیالی نقشہ بے حد دلچسپ
انداز میں کھینچا گیا ہے۔ اس فلم کے صوتیہ ترجمے کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو لسانی
طور پر اس میں استعمال ہونے والی زبان نہ پوری طرح ہندی ہے اور نہ مکمل طور پر اردو۔
بلکہ صوتیہ ترجمے کی ٹیم نے بغرض تجارت اس میں درمیانی زبان کا استعمال کیا ہے اس طرح
کہ ہندی اور اردو دونوں کے اہل زبان کی سماعت کو اس فلم کے مکالمے اپنی زبان کے معلوم
ہوتے ہیں۔مثلا اس فلم کے صوتیہ ترجمے سے ایک مکالمہ ملاحظہ کریں اور خود فیصلہ کریں
کہ اس میں استعمال ہونے والی زبان کس لسانی زمرے میں رکھی جا سکتی ہے؟
’’تم نے سہی کہا
ہاں میں ناجائز ہوں، یہاں اس لیے نہیں آیا کہ خود کو لائق سمجھتا ہوں، پتہ ہے میں
نہیں ہوں۔‘‘
یہ
مکالمہ فلم کے اس منظر میں ہے جہاں ایکوامین کو بادشاہ اٹلانٹین کی معجزاتی ترسولی
دستیاب ہوتی ہے۔ اسی منظر میں ایک اور مکالمہ ہے جس کا لسانیاتی مطالعہ بے حد دلچسپ
ہوگا:
’’ہو کون تم؟
میں کچھ بھی نہیں ہوں، کوئی چارہ
نہیں تھا اس لیے آیا ہوں بس میری دنیا کو اور اپنوں کو بچانے کے لیے میں آیا ہوں
کیونکہ ترسولی ہی میری آخری امید ہے۔‘‘
اب
آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ ان مکالموں میں کون سی زبان استعمال ہوئی ہے، لیکن ایک بات
اظہر من الشمس ہے کہ صوتیہ ترجمے لسانی اظہار کی توسیعی گنجائشوں کو مزید مستحکم کرنے
میں ایک زبردست آلۂ کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو میں باضابطہ صوتیہ ترجمے کچھ ترکی
تاریخی ڈراموں کے ہوئے ہیں۔ اردو زبان کے دامن کو مزید وسیع کرنے کے لیے اہل زبان کو
صوتیہ ترجمے کی طرف بھی متوجہ ہونے کی ضرورت ہے ساتھ ہی اس کے قواعد، شعریات، لسانیاتی
ابعاد،تہذیبی پس منظر اور تجارتی مفاد کے پہلوؤں کا بھی مطالعہ ضروری ہے۔
حاصل
کلام یہ ہے کہ مرکزی ترجمہ نگاری کے ضمن میں سبٹائٹل کی شعریات کو نظر انداز کرنا ترجمے
کی تحقیقی ذمہ داریوں کو فراموش کرنے کے مترادف ہے۔ اردو زبان و ادب کی ترقی اور چہار
دانگ عالم میں اس کی دھوم کے لیے ضروری ہے کہ تکنیکی دنیا میں ہو رہے نت نئے تجربوں
سے اردو کو باکرہ رکھنے کی کوشش بے جا نہ کی جائے بلکہ ہر میدان میں بقدر گنجائش اردو
کی ترجمانی اور بالخصوص ٹکنالوجی سے وابستہ تجربوں اور ایجادات کے شعبے میں اردو کی
نمائندگی کے لیے نئی نسل کی تربیت بے حد ضروری ہے۔ ترجمہ نگاری زبان و ادب کا ایک اہم
شعبہ ہے اور تحتیہ ترجمے کی تحقیق پر توجہ
دینا اس کی لسانیاتی توسیع کے تقاضوں میں سے ایک ہے۔
Wasim
Ahmad Alimi
(Urdu
Translator), Electione & Urdu Language
Cell,
Block Office, Jalalgarh
Purnia-
854327 (Bihar)
Mob.:
7835961227
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں