28/5/24

میر کا طرز شاعری، مضمون نگار: احسان حسن

 اردو دنیا، مارچ 2024


انسانی زندگی میں دو قسم کے طریقۂ کار موجود ہوتے ہیں، مثبت اورمنفی یعنی قنوطی اور رجائی۔شاعری اور دیگر فنونِ لطیفہ کا اظہار بھی انھیں دو پہلوئوں میں ہوتا ہے۔  میر کی شاعری کا بنیادی موضوع عشق میں ناکامی و نامرادی ہے۔ میر کو یاسیت اور حرماں نصیبی کا ’شاعر‘ تسلیم کیا جاتا ہے۔ میرنے یوں تو ا س میدان میں بے مثل بلندی حاصل کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کا تھوڑا بہت حصہ رجائی تاثیر اور مثبت طریقۂ کار بھی لیے ہوئے ہے۔ یعنی میر کی شاعری میں درد و غم سے الگ ظریفانہ اور خوشگوار انداز بھی موجود ہے۔ ان کے یہاں ہجر تو اپنے عروج پر ہے ہی لیکن کبھی کبھی وہ وصال سے بھی ہم آہنگی اختیار کر لیتے ہیں۔

میر تقی میر کی شاعری اپنے مجموعی تاثر میں ’آہ!‘ کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ میر کے شعری آہنگ میں درد وغم، رنج والم کی ایسی فطری اور شعری اصطلاح میں کہیں تو ’آمدی‘ موجودگی ہوتی ہے کہ میر کا کلام ہمیں ایک افسوس ناک فضا میں لے کر چلا جاتا ہے۔ ہم پر یاسیت و حرماں نصیبی کا احساس غالب ہونے لگتا ہے۔یہ ایک واضح حقیقت ہے اور میر کی شاعری کا بنیادی وصف بھی۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:

’’میر صاحب کا کلام عاشقانہ ہے لیکن ان میں اکثر اشعار ایسے ملیں گے جن میں کوئی اخلاقی یا حکیمانہ نکتہ خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ انسان کی طبیعت کے دو رنگ ہیں، لطف و مسرت یا اندوہ والم۔ میر صاحب کے اشعار عاشقانہ ہوں یا حکیمانہ ان میں مایوسی کی جھلک پائی جاتی ہے، یہ ان کی طبیعت کی افتاد ہے۔ وہ کسی حال میں ہوں، کوئی کیفیت ان پر طاری ہو، ان کے دل سے جب کوئی بات نکلی وہ یاس و ناکامی میں ڈوبی ہوئی تھی۔‘‘(انتخابِ کلام میر، انجمن ترقی اردو( ہند)، نئی دلّی، ص 26-27)

اسی کے ساتھ ساتھ اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو میر کے کلام میں ہمیں ایسے بے شمار اشعار بھی ملتے ہیں جو حوصلہ و امید پیدا کرتے ہیں اور آرزو مندی کی فضا تعمیر کرتے ہیں۔ عشق کا موضوع شاعری میں ’بسم اللہ‘ کی حیثیت رکھتا ہے خواہ دنیا کی کسی بھی زبان کی شاعری ہو۔ اس ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ میر نے عشقیہ موضوعات پر بہت سے ایسے اشعار کہے ہیں جو ہمارے دلوں میں منفی نہیں بلکہ ایک مثبت احساس پیدا کرتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں           ؎

مِرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں

تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

بس اے میر مژگاں سے پونچھ آنسوئوں کو

تو کب تک یہ موتی پروتا رہے گا

لذّت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا

کب خِضر و مسیحا نے مرنے کا مزا جانا

کچھ عشق و ہوس میں فرق بھی کر

کیدھر ہے وہ اِمتیاز تیرا

کہتے تھے میر مت کُڑھا کر

دِل ہو گیا گُداز تیرا

مرنے پہ جان دیتے ہیں وارفتگانِ عشق

ہے میر راہ و رسم دیارِ وفا کچھ اور

شمع ساں جلتے رہے لیکن نہ توڑا یار سے

رشتۂ الفت تمامی عمر گردن میں رہا

صحرائے محبت ہے قدم دیکھ کے رکھ میر

یہ سَیرِ سَرِ کوچہ و بازار نہ ہووے

تھا وہ تو رشکِ حورِ بہشتی ہمیں میں میر

سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا

دور بیٹھا غبارِ میر اس سے

عشق بِن یہ ادب نہیں آتا

پاسِ ناموسِ عشق تھا ورنہ

کتنے آنسو پلک تک آئے تھے

عشق کے اپنے مخصوص ادب و آداب ہوتے ہیں۔ جہاں یہ ادب و آداب اور عشق کا لحاظ نہیں ہوتا وہاں گو کچھ بھی ہو کم از کم عشق تو نہیں ہوتا ہے۔ احترامِ آدمیت، احترامِ بشریت عشق و محبت میں اوّل شرط ہیں۔ میر کے یہاں ایسے بہت سے اشعار ملتے ہیں جو گلے شکوے اور درد و رنج سے بالاتر محبت کی قدردانی کرتے نظر آتے ہیں۔ اِن اشعار میں رجائیت ہوتی ہے اور یہ اشعار اپنے قاری کو احساسِ محرومی و ناکامی سے بچا لے جاتے ہیں۔

عشقیہ موضوعات سے الگ میر کی شاعری میں مختلف موضوعات کے دیگر اشعار بھی ملتے ہیں جو ہمارے سامنے ایک مثبت طریقۂ کار پیش کرتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

میر بندوں سے کام کب نکلا

مانگتا ہے جو کچھ خدا سے مانگ

غیرتِ یوسف ہے یہ وقت عزیز

میر اس کو رایگاں کھوتا ہے کیا

سرسری تم جہاں سے گذرے

ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا

خوش رہا جب تلک رہا جیتا

میر معلوم ہے قلندر تھا

بارے دنیا میں رہو، غمزدہ یا شاد رہو

ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

اِلٰہی کیسے ہوتے ہیں جنھیں ہے بندگی خواہش

ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے

سر کِسو سے فِرو نہیں ہوتا

حیف بندے ہوئے خدا نہ ہوئے

کلامِ میر کے متعلق بابائے اردو مولوی عبدالحق لکھتے ہیں :

’’میر کا کلام اور ان کی سیرت دونوں قابل مطالعہ ہیں اور دونوں نے مل کر میر کا رتبہ اردو شعراء میں نہایت بلند کر دیا ہے۔ ایسے باکمال اور صاحبِ سیرت لوگ کہیں مدّتوں میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کا نقش ایسا مستقل اور گہرا ہوتا ہے کہ زمانہ مٹا نہیں سکتا۔ خوب کہا ہے           ؎

مست سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں‘‘

(انتخابِ کلام میر، انجمن ترقی اردو ( ہند)،نئی دلّی، ص 37)

غرض یہ کہ میر کے کلام میں مثبت طرز کی جو نشاندہی کی گئی ہے دراصل وہ میر کی شخصیت کا ہی ایک پہلو ہے۔ انھوں نے طویل عمر پائی تھی اور رنج و آلام بھی بہت برداشت کیے تھے۔ مگر زندگی بسر کرنے کا، زندگی جینے کا ان کا ایک اپنا مخصوص سلیقہ تھا۔ یہی سلیقہ مندی میر کے اشعار میں رجائیت کے پہلو روشن کرتی ہے۔

اس تعلق سے ہم نے بہت کم اشعار مثال کے طور پر پیش کیے ہیں۔ میر تقی میر کے کل 6 دیوان ہیں اور اس تعداد سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ میر کی شاعری کے مثبت عناصر پر ابھی کتنے اشعار مزید پیش ہونا باقی ہیں اور ان پر کس قدر تفصیلی بحث درکار ہے!

میر کی شاعری میںمثبت طرز کا جائزہ لینے کے لیے میر کے اشعار کو دو حصوں میں تقسیم کر لینا چاہیے۔ (1)عشقیہ موضوعات کے اشعار اور (2) غیر عشقیہ موضوعات کے اشعار۔ رجائیت کے لحاظ سے میر کی شاعری قابل غور ہے۔ ان کے یہاں بہت سے اشعار ایسے ہیں جو ہمارے دلوں میں روشنی و توانائی پید اکرتے ہیں۔ کبھی کبھی ہی سہی مگر میر کی شاعری میں ظرافت کا رنگ بڑا دلفریب ہوتا ہے۔ چونکہ ان کی شاعری کا بہت بڑا حصہ المیے کی ترجمانی کرتا ہے اس لیے ان کے وہ اشعار جو المیہ کی تردید کرتے ہیں اور تصویر کا روشن پہلو ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں، مزید توجہ نہ حاصل کر سکے۔ میر نے اپنے کردار، اپنی سیرت اور شخصیت کے متعلق بھی شعر کہے ہیں۔ میر کو اپنی شاعرانہ صلاحیت کے کمال پر فخر تھا ان کے کئی اشعار اس افتخار کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اشعار ہم میں توانائی کا احساس پیدا کرتے ہیں اور ہمارے سامنے ایک آئیڈیل پیش کرتے ہیں۔

جلوہ ہے مجھی سے اب دریاے سخن پر

صد رنگ مری موج ہے، میں طبع ِرواں ہوں

میر کو کیوں نہ مُغتنم جانے؟

اگلے لوگوں میں اِک رہا ہے یہ

جانا نہیں کچھ، جز غزل، آکرکے جہاں میں

کُل میرے تصرف میں یہی قطعہ زمیں تھا

میر دریا ہے، سُنے شعر زبانی اس کی

اللہ، اللہ رے !طبیعت کی روانی اُس کی

بات کی طرز کو دیکھو،  تو کوئی جادو تھا

پر ملی خاک میں، کیا  سِحر بیانی اس کی

اہل فن سمجھ سکتے ہیں کہ مصرعِ ثانی کی خاکساری میں بھی ایک افتخار ہے حالانکہ شعر مکمل کرنے کو یہ بھرتی کا مصرع ہے جب کہ میر کا نصب العین تومصرع اولیٰ ہے۔ ایک دوسری غزل میں میر نے خود کے صاحبِ زبان اور صاحب ِ طرز ہونے کاتو جیسے اعلان ہی کردیا ہے اور اعلان کیا چیلینج کرتے نظر آتے ہیں۔اسی غزل کے دوسرے شعر میں زندگی سے میر کی محبت نمایاں ہے اور یہ دوسرا شعراپنے مصرع ثانی میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ خیر یہ دونوں اشعار ملاحظہ ہوں           ؎

گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر

یہ ہماری زبان ہے پیارے!

میر! عمداً بھی کوئی مرتاہے؟

جان ہے، تو جہان ہے پیارے!

اب ذرامثبت نقطۂ نظر اور زندہ دلی سے لبریزمیر کے یہ اشعار دیکھیں           ؎

عشق میں، نَے خوف و خطر چاہیے

جان کے دینے کو، جگر چاہیے

شرط سلیقہ ہے ہر اِک امر میں

عیب بھی کرنے کو ہُنر چاہیے

آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ

آئینہ تھا ولے قابل دیدار نہ تھا

اُگتی ہے میری خاک سے نرگس

یعنی اب تک ہے حسرت دیدار

میر کی شاعری کے متعلق وحیدالدین سلیم لکھتے ہیں: 

’’ایشیا کے شاعر بدنام ہیں کہ ان کا کلام اور ان کی زندگی دونوں مطابق نہیں ہیں مگر یہ مقولہ کہ شاعر کا کلام اس کی زندگی کا آئینہ ہوتا ہے، جتنا میر پر صادق آتاہے شاید ہی کسی اور شاعر پر صادق آئے۔ ناکامی اور حسرت و یاس جس کو ہم قنوطیت کہتے ہیں، میر کے کلام کا ایک خاص پہلو ہے مگر ان کی زندگی کے اور پہلو بھی ہیں۔ اس لیے ہم قنوطیت کو جو غالب پہلو ہے، علیحدہ رکھ کر میر کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں، جس کی جھلک ان کے کلام میں پائی جاتی ہے۔

وہ جب کسی شخص کو دولت اور حکومت کی بلندی پر دیکھتے ہیں تو ان کے پاک دل میںحسد کا جذبہ موجزن نہیں ہوتا اور اگر کسی کو افلاس اور پستی کے بھنور میں چکر کھاتے دیکھتے ہیں تو اس کو حقارت کی نظر سے دیکھنا گناہ خیال کرتے ہیں۔ دنیا کے واقعات اور انقلابات سے ان کے اخلاق میں یکسانیت اور ہمواری پیدا ہوگئی ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں        ؎

اب پست و بلند ایک ہے جوں نقش قدم یاں

پامال ہوا خوب تو ہموار ہوا میں‘‘

(میر کی شاعری، افادات سلیم از وحید الدین سلیم، بحوالہ رسالہ دستک ششماہی، شعبۂ اردو بی ایچ یو، بنارس، میر تقی میر نمبرجولائی تا دسمبر 2023، ص44)

یہ شعر غالب کے مشہور زمانہ شعر          ؎

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں

کی یاد دلا رہا ہے۔ غالب کی ولادت 1976 کی ہے، میر کی وفات 1810 میں ہے۔ تقریباً چودہ برس کی عمر میں غالب جنھوں نے اپنے شعری سفرکی ابتدا فارسی شاعری سے کی، ممکن نہیں ہے کہ میر کی زندگی میں ان کا ہم عصر رہتے ہوئے مذکورہ بالا شعر کہہ دیاہو۔یہ بات یقینی ہے کہ غالب کا شعر میر کے شعر           ؎

اب پست وبلند ایک ہے جوں نقش قدم یاں

پامال ہوا خوب تو ہموار ہوا میں

سے بہت بعد میں کہا گیا ہے۔اب مضمون باندھنے کی صورت میںتعجب نہیں کہ غالب کے سامنے میر کا یہ شعر چیلنج بن کر آیا ہو! گو کہ غالب میر کی عظمت کا اعتراف بھی کرتے تھے اور کمال فن میںاُنہیں اپنا حریف بھی گردانتے تھے        ؎

ریختے کے تمھیں استاد نہیں ہو غالب

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

سو مضمون کو مستعار لیتے ہوئے ایک واضح شعر کہہ ڈالا۔

میر تقی میر کے مثبت طرز فکر اورزندگی میںنیک نیتی و زندہ دلی کے حوالے سے وحید الدین سلیم اپنے مذکورہ مضمون میں ہی آگے لکھتے ہیں :

’’میرکا فلسفہ معاشرت کیاہے؟ یعنی ان کے نزدیک لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے اور سوسائٹی میں رہ کر کس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے؟ یہ بحث بھی دلچسپ ہے اور اس کا تعلق میر صاحب کی شاعری اور ان کی زندگی سے ہے۔اگر ہم کسی دل کو ڈھا کر کعبہ بنانا چاہیں تو ہمارایہ فعل میر کی نظر میں ناجائز ہوگا۔ اگر ہمیں کوئی برا کہے تو اس کے جواب میں اس کی بھلائی کی دعاکرنی چاہیے۔اگر ہم دنیامیں سرفراز ہونا چاہیں تواس کی تدبیر یہ ہے کہ رفاہ خلائق کی راہ میں خاک کی طرح اپنے تئیں پامال کریں۔ میر صاحب باآواز بلند فرماتے ہیں کہ خدا کی بارگاہ میں روزہ نماز کی حاجت نہیں ہے۔ اگر ہے تو اس بات کی ہے کہ تم نوع انسان کی دل جوئی کرو۔ ایک جگہ میر صاحب کہتے ہیں کہ اگر کوئی انسان کسی چیونٹی کو ستاتا ہے تو اس کے دل سے غبار اٹھتاہے اور وہ عرش تک پہنچتا ہے۔ دنیا میں غم زدہ رہے یا دل شاد رہے، اس سے میر صاحب کو کوئی بحث نہیں۔ وہ تو صرف یہ نصیحت کرتے ہیں کہ تم دنیا میں کوئی ایسا نیکی کا کام کر جاؤ کہ بہت دن تک تمھاری یاد لوگوں کے دلوں میں تازہ رہے۔ وہ دنیا کو ایک شیشہ گر کی دکان سے تشبیہ دیتے ہیں، جس میں زمین پر ہر طرف شیشے پھیلے ہوئے ہوں اور اہل دنیا کو ہدایت کرتے ہیں کہ ذرا احتیاط سے قدم رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ تمھارے چلنے سے کسی شیشے( یعنی کسی انسان کے دل) کو ٹھیس لگے، اگر ایسا ہوا تو اس بے احتیاطی کا خمیازہ شیشے کے ٹوٹنے کے ساتھ تمھیں بھی اٹھانا پڑے گا یعنی تمھارے تلوے زخمی ہوجائیں گے۔ یہ خیالات خود میر کی زبان سے سنو!

مت رنجہ کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد

دل ڈھائے کرجو کعبہ بنایا تو کیا ہوا

معیشت ہم فقیروں کی سی اخوان زماں سے

کوئی گالی بھی دے تو کہہ بھلا بھائی بھلا ہوگا

بسان خاک ہو پامال راہ خلق اے میر

رکھے ہے دل میں اگر قصد سرفرازی کا

بارے دنیامیں رہو غم زدہ یا شاد رہو

ایسا کچھ کرکے چلویاں کہ بہت یاد رہو

ہردم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں

یہ کارگاہ ساری دکان شیشہ گر ہے

(میر کی شاعری ، افادات سلیم از وحید الدین سلیم،بحوالہ رسالہ  دستک ششماہی، شعبۂ اردو بی ایچ یو، بنارس، میر تقی میر نمبرجولائی تا دسمبر 2023، ص49-50)

زندگی میں مثبت اور منفی نقطۂ نظر کا تعین ہماری کارگزاریوں سے ہوتا ہے یعنی مسلسل ہمارے اعمال کس سمت میں ہیں اوروہ کس قدر مستحکم ہیں۔انسان اپنی زندگی میں مکمل طور پر نہ تو ہمیشہ مثبت رہ سکتاہے اور نہ ہی منفی۔ مثبت اور منفی کا محاسبہ زندگی میں اختیار کیے گئے مجموعی طریقۂ کارپر منحصر ہوتاہے۔

میرتقی میرنے اپنی زندگی میں حالات کی تنگی کے باوجود کبھی تنگ نظری اختیار نہیں کی۔ان کے فکروفن میں بلا کی وسعت موجود ہے۔ میر نے منجمد طریقۂ کار کے خلاف اپنی جنگ ہمیشہ جاری رکھی ورنہ دہلی سے لکھنؤ کا سفرکیوں کرتے۔اگر میر کے اندر قنوطیت غالب ہوتی تودہلی سے کوچ کرنا کبھی گوارا نہ کرتے اور دہلی میںہی مرکھپ گئے ہوتے۔میر کے یہاں تنوع ہے، زندگی میں بھی اور فن میں بھی۔عمر کے آخری پڑاؤ میںلکھنؤ میں ایک شادی اور کی(ناصر لکھنوی کا بیان ہے کہ میر نے لکھنؤ پہنچ کر پیرانہ سالی میں دوسری شادی کی قاضی عبد الودود کے نزدیک یہ اس لیے بھی قرین قیاس ہے کہ میر کے دونوں بیٹوں فیض علی اور حسن عسکری (میر کلو عرش) کی عمروں میں بڑا تفاوت تھا اور دونوں کا ایک ماںکے بطن سے ہونا قرین قیاس نہیں۔ رسالہ دستک ششماہی، میر تقی میر نمبر، جولائی تا دسمبر 2023)۔ صرف شاعری ہی نہیں بلکہ نثر میں بھی طبع آزمائی کی اور زبردست کارنامے انجام دیے،نکات الشعرا، فیض میر اور ذکر میر بالخصوص قابل ذکر ہیں جن کا شمار اردو نثر کے کلاسکس میں ہوتاہے۔ میر نے زندگی میںسفر بھی خوب کیے ہیں۔ ایک منفی نقطۂ نظر کا آدمی روانی سے گریز کرتاہے، جمود کو پسند کرتاہے اور میر کی زندگی میں جمود کا شائبہ تک نہیں۔ میر دراصل محبت کے آدمی تھے۔ ان کی سراپا شخصیت محبت میں شرابور تھی یہی وجہ ہے کہ جہاں پر اور جس میں محبت کا عنصر نمایاں نہ رہا، وہاں پر اور اس کے میرـ نہ رہے۔عموماً جس کو لوگ میرـ کے افتاد طبع ہونے سے تعبیرکرتے ہیں۔اسلم فرخی لکھتے ہیں :

’’میر نے محبت کی بے زبانی کو زبان عطاکی ہے۔ محبت کا نغمہ ہر شاعر نے چھیڑا ہے لیکن میر کی محبت رسمی اور محدود نہیں۔ یہ ان کے وجود کا بنیادی عنصر ہے۔ان کے رگ و پے میں رواں دواں ہے۔محبت ان کی فکر، ان کا ذہن، ان کا دل، ان کی روح ہے۔ ’محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور-نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور۔‘ اس محبت میں بے راہ روی نہیں، باغیانہ جوش نہیں، نرمی اور دھیما پن ہے۔جذبہ تعمیر اور بہتر انسانیت کی تشکیل کا حوصلہ ہے۔ اسی محبت کے وفور نے میر صاحب کو خدائے سخن بنادیا ہے۔ میر نے طویل عمر پائی تھی، اسی مناسبت سے ان کا کلیات بھی ضخیم ہے۔ انھوں نے چھہ دیوان مرتب کیے ہیں۔‘‘

(میر تقی میر:سات آسمان از اسلم فرخی بحوالہ رسالہ دستک ششماہی، شعبۂ اردو، بی ایچ یو، بنارس،میر تقی میر نمبر جولائی تا دسمبر 2023،ص21)

تخلیقیت مثبت رویوں کی حامل ہوتی ہے اور قنوطیت کی ضد ہوتی ہے۔ایک قنوطیت کا مارا شخص اتنی کثیر تعدادمیں تخلیقی کارنامے انجام دے ہی نہیں سکتا جتنا کہ میر نے دیے ہیں۔ میر کی وسعت خواہ فن کی ہو، ان کی زبان دانی کی ہو یا شخصیت کی یا پھر ان کی عمر درازکا معاملہ ہو (میر نے تقریباً نوے برس کی طویل عمر پائی)، مجموعی طور پر زندگی میں مثبت طریقۂ کار کی غمازی کرتے ہیں۔میر  کے انھیں اوصاف پر گفتگو کرتے ہوئے ٹھاکر پرشاد سنگھ نے کیا عمدہ باتیں کہی ہیں:

’’شکست و ریخت کے اس درد کے علاوہ بھی میر کے پاس بہت کچھ ہے، وہ کچھ ان حوصلہ مندوں میں سے تھے جو سخت ترین مصائب میں بھی خواب دیکھنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مصائب لوگوں پر آئے، گزر گئے۔ ان کی یاد بھی بعد میں باقی نہیں رہتی، لیکن مصائب کے ہجوم میں دیکھے ہوئے خواب زیادہ دوام حاصل کرتے ہیںاور آسانی سے ٹوٹتے نہیں، اور وہ صدیوں تک صرف اس لیے زندہ رہتے ہیں کہ وہ خواب جنھوں نے دیکھے تھے وہ خود ہجوم مصائب میں مبتلا تھے، اور اسی عالم میں انھوں نے پرورش پائی تھی، ایسے ہی خوابوں کو دوامی ادب کہاجاتاہے اور انھیں کے بل پر ہم تہذیب و ثقافت کو مائل بہ ارتقا، آراستہ و پیراستہ ہوتے اور جدید اطوار و انداز اختیار کرتے دیکھتے ہیں۔ معلوم نہیں نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی اور ایسے ہی کتنے خوں خوار لشکروں کے بہیمانہ حملوں میں خاکستر ہوئی دلی کی گلیوں میں دھوئیں اور جلن کی کیسی بو رہی ہو،وہ جھونکا تو آیا اور گزر گیا لیکن میر کے ادب میں ایک اور لطیف تر جھونکا آج بھی موجود ہے         ؎

کہیں کیا بال تیرے کھل گئے تھے

کہ جھونکا باد کا کچھ مشک بو تھا

یہ لطیف و معطر جھونکا میر نے آنے والوں کو سونپا ہے جس سے وہ بہ وقت ضرورت دنیا کی ہر گلی میں بھری ہوئی سراندھ اور اباسی سے خود کو بچا لے جا سکیں اور خوابوں کی دنیا میں زندگی بسرکر سکیں۔ معلوم نہیں یہ جھونکا موجود نہ ہونے کی شکل میں ہماری آپ کی کیا حالت ہوگی۔ یہ حیات آور شعور اور معطر خواب سب سے عظیم ورثہ ہے جو ہمیں میر اور اس قبیل کے شعرا سے ملا ہے، جب ہم میر کو یاد کرتے ہیں تو ان کے تصور کے ساتھ ساتھ یہ جھونکا آکر ہمیں خود میں غرق کرلیتا ہے اور ہم ایک تازگی کے احساس سے لبریز ہوجاتے ہیں۔‘‘

(میر کی شاعری از ٹھاکر پرشاد سنگھ، حدیث میراز مقبول احمد لاری، بحوالہ رسالہ دستک ششماہی، شعبۂ اردو، بی ایچ یو، بنارس، میر تقی میر نمبر،جولائی تا دسمبر 2023،ص55-56)

کتابیات

۔ میر کی شعری لسانیات از قاضی افضال حسین           

   -       نقدِ میر اور شعر شور انگیز از ڈاکٹر یاسمین

۔ تلاشِ میر از نثار احمد فاروقی         

-         میرکی آپ بیتی از نثار احمد فاروقی

۔ میر تقی میر از نثار احمد فاروقی

     -      انتخابِ کلام میر،مرتبہ بابائے اردو مولوی عبدالحق

۔ منتخب غزلیں، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ

۔دیوان میر( نسخۂ محمودآباد، مخطوطہ 1203ھ بحیات میر)، ترتیب و تدوین، ڈاکٹر اکبر حیدری، مطبوعہ جموں اینڈ کشمیر اکیڈیمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لنگویجز، سری نگر، 1973

۔رسالہ دستک ششماہی، شعبۂ اردو بی ایچ یو، بنارس، میر تقی میر نمبرجولائی تا دسمبر 2023

 

Dr. Ehsan Hasan

Asst. Prof. Dept of Urdu

Banaras Hindu University

Varanasi- 221005

Mob.: 9935352141


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...